1۔ وَ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
(آل عمران، 3 : 22)
’’اور اللہ کی اور رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘
2۔ فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo
(النساء، 4 : 65)
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںo‘‘
3۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًاo
(النسآئ، 4 : 80)
’’جس نے رسول( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘
4۔ یَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِيْنَo
(التوبۃ، 9 : 62)
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول ﷺ کو راضی کرتے، رسول ﷺ کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے)o‘‘
5۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللهَ کَثِيْرًاo
(الأحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
6۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًاo
(الأحزاب، 33 : 71)
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہواo‘‘
7۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 10)
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
8۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ یَدَیِ اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo
(الحجرات، 49 : 1)
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول ﷺ کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اللہ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
9۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
(الم نشرح، 94 : 4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ یَقُولُ : إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُوْنَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الصلاۃ، باب : استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم یصلي علی النبي ﷺ ثم یسأل الله له الوسیلۃ، 1 / 288، الرقم : 384، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي ﷺ ، 5 / 586، الرقم : 3614، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : مایقول إذا سمع المؤذن، 1 / 144، الرقم : 523، والنسائي في السنن، کتاب : الأذان، باب : الصلاۃ علی النبي ﷺ بعد الأذان، 2 / 25، الرقم : 678، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 168، الرقم : 6568۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه یَقُوْلُ : سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُـلًا یَدْعُوْ فِي صَـلَاتِهِ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : عَجِلَ هَذَا، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ : إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِيْدِ اللهِ وَالثَّنَاء عَلَيْهِ ثُمَّ لِیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لِیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَا نَعْرِفُ لَهُ عِلَّةً۔
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : ما جاء في جامع الدعوات، 5 / 517، الرقم : 3477، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : الدعائ، 2 / 76، الرقم : 1481، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 18، الرقم : 23982، وابن حبان في الصحیح، 5 / 290، الرقم : 1960، والحاکم في المستدرک، 1 / 401، الرقم : 989، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1 / 351، الرقم : 709۔710۔
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا، اس پر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرهِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر نبی اکرم ﷺ (یعنی مجھ)پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہو گی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ہم نے اس حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں دیکھی۔
3۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَتَانِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ : إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ یَقُوْلُ لَکَ : کَيْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ : اَللهُ أَعْلَمُ۔ قَالَ : إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔
3 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 8 / 175، الرقم : 3382، وأبو یعلی في المسند، 2 / 522، الرقم : 1380، والخلال في السنۃ، 1 / 262، الرقم : 318، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 405، الرقم : 7176، والطبري في جامع البیان، 30 / 235، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 525، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 439، وفي مجمع الزوائد، 8 / 254۔
’’حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبریلں میرے پاس آئے اور عرض کیا : میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، جبریلں نے عرض کیا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
4۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَمَّا اقْتَرَفَ ٰآدَمُ الْخَطِيْئَةَ قَالَ : یَا رَبِّ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِي فَقَالَ اللهُ : یَا آدَمُ، وَکَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ : یَا رَبِّ، لِأَنَّکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِیَدِکَ، وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوْحِکَ، رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْکَ، فَقَالَ اللهُ : صَدَقْتَ یَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، اُدْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ۔
وذکر العـلامۃ ابن تیمیۃ : عَنْ مَيْسَرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی کُنْتَ نَبِیًّا؟ قَالَ : لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ، وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَخَلَقَ الْعَرْشَ، کَتَبَ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ۔ وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ الَّتِي أَسْکَنَھَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، فَکَتَبَ اسْمِي عَلَی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِیَامِ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، فَلَمَّا أَحْیَاهُ اللهُ تَعَالَی، نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ، فَرَأَی اسْمِي، فَأَخْبَرَهُ اللهُ أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِکَ، فَلَمَّا غَرَّھُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ۔
4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 672، الرقم : 4228، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 5 / 489، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 227، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 7 / 437، وابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 2 / 150، وفي قاعدۃ جلیلۃ في التوسل والوسیلۃ : 84، وابن کثیر في البدایۃ والنهایۃ، 1 / 131، 2 / 291، 1 / 6، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 6، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 130، الرقم : 206۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا : اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( ﷺ ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم تو نے سچ کہا ہے کہ مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نے حضورنبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَائِ، ’’محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت تک حضرت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) محمد ( ﷺ ) تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کیا۔‘‘
5۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ علیه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ : أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اللهُ عزوجل إِلَيْهِ : یَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ، یَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
وذکر العـلامۃ ابن تیمیۃ : عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَلَمَّا أَصَابَ آدَمَ الْخَطِيْئَةُ، رَفَعَ رَأْسَهَ فَقَالَ : یَا رَبِّ، بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلاَّ غَفَرْتَ لِي، فَأُوْحِيَ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : یَارَبِّ، إِنَّکَ لَمَّا أَتْمَمْتَ خَلْقِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَإِذَا عَلَيْهِ مَکْتُوْبٌ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ أَکْرَمُ خَلْقِکَ عَلَيْکَ، إِذْ قَرَنْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَقَالَ : نَعَمْ، قَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَھُوَ آخِرُ الأَنْبِیَاء مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُکَ۔
5 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، ابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 2 / 151، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسیوطي في جامع الأحادیث، 11 / 94۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اللہ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لهٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (نادانستگی میں) خطا سرزد ہو گئی، تو انہوں نے (توبہ کے لئے) اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا : اے میرے رب! میں محمد ﷺ کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی کی : محمد ﷺ کیا ہیں؟ محمد ﷺ کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی : مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا : ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اور میں نے (ان کے توسّل سے بخشش مانگنے پر) تمہاری مغفرت فرما دی ہے اور وہ تمہاری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
6۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَللهُ أَکْبَرُ اَللهُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ۔
6 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5 / 107، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 7 / 437۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت آدمں ہند میں نازل ہوئے اور (زمین پر نزول کے بعد) انہوں نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَللهُ أَکْبَرُ، اَللهُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدمں نے دریافت کیا : محمد ( ﷺ ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ :
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِیُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَھَذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
1 : أخرجه البخاري في التاریخ الصغیر، 1 / 13، الرقم : 31، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1 / 41، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 1 / 160، وابن عبد البر في الاستیعاب، 9 / 154، والعسقلاني في الإصابۃ، 7 / 235، وفي فتح الباري، 6 / 555۔
’’حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم ﷺ کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے : ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد مصطفی ہیں۔‘‘
اس روایت کو امام بخاری نے ’’التاریخ الصغیر‘‘ میں، امام ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2۔ قال القاضي عیاض : من علامات محبۃ النبي ﷺ کثرۃ ذکره له، فمن أحب شیئاً أکثر ذکره۔ وقال أیضاً : من علامات حبه ﷺ مع کثرۃ ذکره تعظیمه له وتوقیره عند ذکره وإظهار الخشوع والانکسار مع سماع اسمه۔ قال إسحاق التجیبي : کان أصحاب النبي ﷺ بعده لا یذکرونه إلا خشعوا واقشعرت جلودهم وبکوا۔ وکذلک کثیر من التابعین منهم من یفعل ذلک محبۃ له وشوقاً إلیه، ومنهم من یفعله تهیباً وتوقیراً۔
2 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 500۔501۔
’’قاضی عیاض فرماتے ہیں علامت محبت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محبت کا دعوی کرنے والا حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر جمیل باکثرت کرے۔ اس لئے کہ جو شخص جس چیز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے اس کا ذکر باکثرت کیا کرتا ہے۔ قاضی عیاض مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے محبت کرنے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر جمیل کرے گا اور آپ ﷺ کے ذکر کے وقت غایت تعظیم و توقیر بجا لائے گا اور آپ ﷺ کے نام نامی اسم گرامی کے وقت انتہائی عجز و انکسار کا اظہار کرے گا۔ ابن اسحاق تجیبی رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کا ذکر جمیل کرتے تو انتہائی عاجزی و فروتنی سے کرتے اور ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ رونے لگتے۔ یہی حال اکثر تابعین رحمہم اللہ کا تھا۔ ان میں سے کچھ تو آپ ﷺ سے محبت و شوق کی بنا پر روتے اور کچھ آپ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے۔‘‘
3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قوْلِهِ تَعَالَی : {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ}، [ألم نشرح، 94 : 4]، قَالَ : یَقُوْلُ لَهُ : لَا ذُکِرْتُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي فِي الْأَذَانِ، وَالإِقَامَةِ، وَالتَّشَهُدِ، وَیَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی الْمَنَابِرِ، وَیَوْمَ الْفِطْرِ، وَیَوْمَ الْأَضْحَی، وَأَيَّامَ التَّشْرِيْقِ، وَیَوْمَ عَرَفَةَ، وَعِنْدَ الْجِمَارِ، وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَفِي خُطْبَةِ النِّکَاحِ، وَفِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا، وَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا عَبَدَ اللهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، وَصَدَّقَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَکُلِّ شَيئٍ، وَلَمْ یَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، لَمْ یَنْتَفِعْ بِشَيئٍ، وَکَانَ کَافِرًا۔ أَخْرَجَهُ الْقُرْطُبِيُّ وَنَحْوَهُ الْبَغَوِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَغَيْرُهُمْ۔
3 : أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20 / 106، والبغوي في معالم التنزیل، 4 / 502، والطبري في جامع البیان، 30 / 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1 / 58، والسیوطي في الدر المنثور، 8 / 547۔549، والصنعاني في تفسیر القرآن، 3 / 380، والثعلبي في الجواھر الحسان، 4 / 424، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 525، وابن الجوزي في زاد المسیر، 9 / 163، والشوکاني في فتح القدیر، 5 / 463، والواحدي في الوجیز في تفسیر الکتاب العزیز، 2 / 1212۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا : (اے حبیب!) اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، جمعہ کے دن منبروں پر، عید الفطر کے دن (خطبوں میں) ایام تشریق میں، عرفہ کے دن، مقام جمرہ پر، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور اللہ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلقاً کافر (کا کافر) ہی رہے گا۔‘‘ اسے امام قرطبی اور اسی کی مثل امام بغوی، طبری وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
4۔ قال ابن الجوزي : قد قرَن الله تعالی اسم نبینا ﷺ باسمه عزوجل عند ذکر الطاعۃ والمعصیۃ، فقال تعالی : {اَطِيْعُوا اللهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ} [النساء، 4 : 59] وقال : {وَیُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [التوبۃ، 9 : 71] وقال : {فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ} [النساء، 4 : 59] وقال : {فَإِنَّ ِللهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ} [الأنفال، 8 : 41] وقال : {وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ} [التوبۃ، 9 : 74] وقال : {اِنَّ الَّذِيْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [الأحزاب، 33 : 57] وقال : {اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [التوبۃ، 9 : 63] وقال : {وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ} [التوبۃ، 9 : 29]۔
4 : ابن الجوزی في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 368
’’علامہ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا نام نامی اور اسم گرامی ذکر فرمایا ساتھ ہی اپنے حبیب کے نام اقدس کا ذکر فرمایا خواہ اطاعت و اتباع کا مقام ہو یا گناہ اور نافرمانی کا۔ ارشاد باری ہے : {اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو} اور فرمایا : {اور اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں} اور فرمایا : {تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو} اور فرمایا : {اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول ( ﷺ ) کے لیے ہے} اور فرمایا : {اور وہ (اسلام اور رسول ﷺ کے عمل میں سے) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے غنی کر دیا تھا} اور فرمایا : {بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کو اذیت دیتے ہیں} اور فرمایا : {کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی مخالفت کرتا ہے} اور فرمایا : {اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے حرام قرار دیا ہے}۔‘‘
5۔ قَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ : مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا یُسْتَتَابُ، وَیُقْتَلُ لِأَنَّ اللهَ عزوجل قَدْ فَضَّلَهُ ﷺ عَلَی الْأَنْبِیَاء علیهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اللهِ عزوجل قَالَ : لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَیَرْوِي فِي قَوْلِهِ : {لَعَمْرُکَ}، [الحجر، 15 : 72]، قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ۔
رَوَاهُ ابْنُ یَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234۔311ھ) وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الخلال في السنۃ، 1 / 273، الرقم : 273۔
’’حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی نے فرمایا کہ جس شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے، اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی، اور اسے قتل کیا جائے گا، کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام انبیائِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی : (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں حضرت آدم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اسے امام ابن یزید خلال (234۔ 311ھ) نے ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved