1۔ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo
(التوبۃ، 9 : 24)
’’(اے نبیِ مکرم!) آپ فرما دیں : اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo‘‘
2۔ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ۔
(البقرۃ، 2 : 144)
’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو۔‘‘
3۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
(آل عمران، 3 : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo‘‘
4۔ لَقَدْ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo
(التوبۃ، 9 : 128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
5۔ قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo
(یونس، 10 : 58)
’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
6۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْـلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo
(بني إسرائیل، 17 : 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
7۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ ط وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِيْ کِتٰبِ اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓـئِکُمْ مَّعْرُوْفًا ط کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًاo
(الأحزاب، 33 : 6)
’’یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہےo‘‘
8۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللهَ کَثِيْرًاo
(الأحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
9۔ اِنَّ اللهَ وَمَلٰـئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط یٰـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًاo
(الأحزاب، 33 : 56)
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo۔‘‘
10۔ لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo
(البلد، 90 : 1۔3)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘
11۔ وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo
(الضحی، 93 : 1۔2)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیاo
(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo‘‘
1۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
وفي روایۃ للبخاري : عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، وَذَکَرَ نَحْوَهُ۔(2)
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِِ، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : وجوب محبّۃ رسول الله ﷺ أکثر من الأھل والولد والوالد والناس أجمعین، 1 / 67، الرقم : 44۔
(2) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الإِيْمَان، باب : حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِ، 1 / 14، الرقم : 14۔
’’حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘
2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَھَا؟ قَالَ : لَا شَيئَ (وفي روایۃ أحمد : قَالَ : مَا أَعْدَدْتُ لَھَا مِنْ کَثِيْرِ عَمَلٍ لَا صَلَاةٍ وَلَا صِیَامٍ) إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ ﷺ ۔ فَقَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ قَالَ أَنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : ’’أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ‘‘۔ قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَھُمْ بِحُبِّي إِيَّاھُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِھِمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرجل ویلک، 5 / 2285، الرقم : 5815، ومسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد عن رسول الله ﷺ ، باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم : 12032۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا : قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے پاس تو کوئی عمل نہیں (مسند احمد میں ہے کہ اس نے عرض کیا : میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیںکیے، نہ بہت سی نمازیں پڑھی ہیں اور نہ بہت سے روزے رکھے ہیں) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (تمام صحابہ کرام کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس فرمان اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں۔ لهٰذا اُمید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی اِن حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میں ان جیسے اَعمال نہ کر سکوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ ﷺ خَارِجَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَلَقِیَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَا أَعْدَدْتَ لَھَا؟ فَکَأَنَّ الرَّجُلَ اسْتَکَانَ ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَعْدَدْتُ لَھَا کَبِيْرَ صِیَامٍ وَلاَ صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَکِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔ قَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأحکام، باب : القضاء والفتیا في الطریق، 6 / 2615، الرقم : 6743، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرجل ویلک، 5 / 2282، الرقم : 5815، وفي کتاب : الأدب، باب : علامۃ حب الله عزوجل لقوله : وإن کنتم تحبون الله فاتبعوني یحببکم الله ]آل عمران3، : 31[، 5 / 2285، الرقم : 5816۔5819، وفي کتاب : فضائل أصحاب النبي ﷺ ، باب : مناقب عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : المرء مع من أحب 4 / 2032۔ 2033، الرقم : 2639، والترمذي نحوه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385 وصحّحه۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اور میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لئے (فرائض میں سے) روزہ، نماز اور صدقہ وغیرہ ( جیسے اَعمال) تو زیادہ نہیں کئے لیکن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ھِشَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ۔ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : الآنَ یَا عُمَرُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأيْمَان وَالنُّذُوْر، باب : کیف کانت یمین النبي ﷺ ، 6 / 2445، الرقم : 6257، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 293، الرقم : 22556، والبزار في المسند، 8 / 384 الرقم : 3459، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 103، الرقم : 317، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 132، الرقم : 1381۔
’’حضرت عبد اللہ بن هِشَام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے(تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے) جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا عَلَی عَھْدِ النَّبِيِّ ﷺ کَانَ اسْمُهُ عَبْدَ اللهِ، وَکَانَ یُلَقَّبُ حِمَارًا، وَکَانَ یُضْحِکُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، وَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ قَدْ جَلَدَهُ فِي الشَّرَابِ، فَأُتِيَ بِهِ یَوْمًا، فَأَمَرَ بِهِ، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللَّهُمَّ، الْعَنْهُ مَا أَکْثَرَ مَا یُؤْتَی بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاللهِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔ وفي روایۃ : لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّهُ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ یَعْلَی۔
5 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الحدود، باب : ما یکره من لعن شارب الخمر وإنه لیس بخارج من الملۃ، 6 / 2489، الرقم : 6398، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم : 13552، والبزار في المسند، 1 / 393، الرقم : 269، وأبو یعلی في المسند، 1 / 161، الرقم : 176، والبیهقي في السنن الکبری، 8 / 312، الرقم : 17273، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 3 / 228، والقاضي عیاض في مشارق الأنوار، 1 / 371۔
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں ایک شخص تھا، جس کا نام عبد اللہ اور لقب حِمار تھا۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز اسے آپ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ ﷺ کے حکم سے اسے کوڑے مارے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا : اے اللہ! اس پر لعنت فرما یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِي یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمُ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجنۃ وصفۃ نعیمها وأهلها، باب : فیمن یود رؤیۃ البني ﷺ بأهله وماله، 4 / 2178، الرقم : 2832، وأحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 417، الرقم : 9388، وابن عبد البر في التمهید، 20 / 248، وفي الاستذکار، 1 / 188، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 212، الرقم : 809، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 12 / 526، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 5 / 358، والمناوي في فیض القدیر، 6 / 8۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ایک شخص کی یہ آرزو ہو گی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل و عیال اور مال و دولت کو قربان کر کے میری زیارت کر لے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِهِ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ، وَھُمْ جُلُوْسٌ، فِيْھِمْ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَـلَا یَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْھُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَإِنَّھُمَا کَانَا یَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَیَنْظُرُ إِلَيْھِمَا وَیَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ وَیَتَبَسَّمُ إِلَيْھِمَا۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب أبي بکر وعمر کلیھما، 5 / 612، الرقم : 3668، والحاکم في المستدرک، 1 / 209، الرقم : 417، والطیالسي في المسند، 1 / 275، الرقم : 2064، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 1 / 212، الرقم : 339، والطبري في ریاض النضرۃ، 1 / 338، الرقم : 209۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا، البتہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرہ انور کو مسلسل تکتے رہتے اور سرکار علیہ الصلاۃ والسلام انہیں دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور ﷺ ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘
اسے امام ترمذی، حاکم اور احمد نے ’’فضائل الصحابۃ‘‘ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
8۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَاللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّکَ۔ فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ؟ قَالَ : وَاللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّکَ۔ فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ؟ قَالَ : وَاللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّکَ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔ فَقَالَ : إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ یُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَی مُنْتَهَاهُ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في فضل الفقر، 4 / 576، الرقم : 2350، وابن حبان في الصحیح، 7 / 185، الرقم : 2922، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 173، الرقم : 1471، والرویاني في المسند، 2 / 88، الرقم : 872۔
’’حضرت عبد اللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سوچو! کیا کہہ رہے ہو۔ وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سوچو! کیا کہہ رہے ہو؟ وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تو مجھ سے(حقیقتاً) محبت کرتا ہے تو فقر کے لیے تیار ہو جا، کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، اَلرَّجُلُ یُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا یَسْتَطِيْعُ أَنْ یَعْمَلَ کَعَمَلِھِمْ۔ قَالَ : أَنْتَ یَا أَبَا ذَرٍّ، مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ قَالَ : فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔ قَالَ : فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ قَالَ : فَأَعَادَھَا أَبُوْ ذَرٍّ، فَأَعَادَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ۔
9 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : إخبار الرجل الرجل بمحبته إلیه، 4 / 333، الرقم : 5126، وابن حبان في الصحیح، 2 / 315، الرقم : 556، والدارمي في المسند، 2 / 414، الرقم : 2787، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم : 61416، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم : 395۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسا عمل نہیں کر سکتا (کیا اسے اس محبت کا اجر ملے گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابو ذر! تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے عرض کیا : میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا : اے ابو ذر! تو یقینا ان کے ساتھ ہوگا جن سے تجھے محبت ہے۔ راوی کا بیان ہے : ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اپنا جملہ دہرایا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اسے دہرا کر بیان کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے عمدہ اِسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
10۔ عَنِ الْأَدْرَعِ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : جِئْتُ لَيْلَةً أَحْرُسُ النَّبِيَّ ﷺ فَإِذَا رَجُلٌ قِرَاءَ تُهُ عَالِیَةٌ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَذَا مُرَاءٍ (وفي روایۃ قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَمُرَائٍ ھَذَا؟ قَالَ : مَعَاذَ اللهِ ھَذَا عَبْدُ اللهِ ذُو الْبِجَادَيْنِ) قَالَ : فَمَاتَ بِالْمَدِيْنَةِ، فَفَرَغُوْا مِنْ جِهَازِهِ، فَحَمَلُوْا نَعْشَهُ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : ارْفُقُوْا بِهِ رَفَقَ اللهُ بِهِ، إِنَّهُ کَانَ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ : وَحَفَرَ حُفْرَتَهُ فَقَالَ : أَوْسِعُوْا لَهُ أَوْسَعَ اللهُ عَلَيْهِ۔ فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَقَدْ حَزِنْتَ عَلَيْهِ۔ فَقَالَ : أَجَلْ، إِنَّهُ کَانَ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالْبَيْھَقِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ۔ وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : وَلَهُ شَوَاهِدُ مِنْ حَدِيْثِ ھِشَامِ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه رَوَاهُ أَصْحَابُ السُّنَنِ الْأَرْبَعَةِ۔ وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
10 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في حفر القبر، 1 / 497، الرقم : 1559، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 337، الرقم : 18992، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 122، والشیباني في الآحاد والمثاني، 4 / 348، الرقم : 2382، وابن حبان في الثقات، 2 / 99، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 417، الرقم : 583۔
’’حضرت اَدرع سُلَمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہرہ داری کرنے آیا تو ایک شخص بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لے آئے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ ریاکار معلوم ہوتا ہے (اور ایک روایت میں ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا یہ ریاکار ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : معاذ اللہ! یہ تو عبد اللہ ذو البجادین ہے۔) اس کے چند روز بعد اس آدمی کا انتقال ہو گیا۔ جب اس کا جنازہ تیار ہوا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : اپنے بھائی کے ساتھ نرمی کرنا اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کرے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس کی قبر کھودی آپ ﷺ نے فرمایا : قبر کشادہ کرو، اللہ عزوجل بھی اس پر کشادگی کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو اس کا بہت غم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں یہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے محبت (جو) رکھتا تھا۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، احمد، بیہقی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا کہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جو کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اور جنہیں چاروں اصحابِ سنن (ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ) نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
11۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : أَصَابَ نَبِيَّ اللهِ ﷺ خَصَاصَةٌ فَبَلَغَ ذَلِکَ عَلِیًّا، فَخَرَجَ یَلْتَمِسُ عَمَـلًا یُصِيْبُ فِيْهِ شَيْئًا لِیُقِيْتَ بِهِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، فَأَتَی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْیَھُوْدِ، فَاسْتَسْقَی لَهُ سَبْعَةَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، فَخَيَّرَهُ الْیَھُوْدِيُّ مِنْ تَمْرِهِ سَبْعَ عَشَرَةَ عَجْوَةً، فَجَاء بِھَا إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔
ورواه البیهقي أیضًا إِلاَّ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ أَيْنَ هَذَا یَا أَبَا الْحَسَنِ؟ قَالَ : بَلَغَنِي مَا بِکَ مِنَ الْخَصَاصَةِ یَا نَبِيَّ اللهِ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ عَمَـلًا لِأُصِيْبَ لَکَ طَعَامًا۔ قَالَ : فَحَمَلَکَ عَلَی هَذَا حُبُّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ؟ قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه : نَعَمْ، یَا نَبِيَّ اللهِ، فَقَالَ نَبِيٌّ ﷺ : وَاللهِ، مَا مِنْ عَبْدٍ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ إِلَّا الْفَقْرُ أَسْرَعُ إِلَيْهِ مِنْ جَرْیَةِ السَّيْلِ عَلَی وَجْھِهِ، مَنْ أَحَبَّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ فَلْیُعِدَّ تِجْفَافًا وَإِنَّمَا یَعْنِي الصَّبْرَ۔
11 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الأحکام، باب : الرجل یستسقي کل دلو بتمرۃ ویشترط جلدۃ، 2 / 818، الرقم : 2446، والبیھقي في السنن الکبری، 6 / 119، الرقم : 11429، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 6 / 385، والزیلعي في نصب الرایۃ، 4 / 132۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فاقہ سے تھے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو وہ مزدوری کرنے کے لئے نکلے تاکہ اس سے کچھ (معاوضہ) حاصل کر کے حضور نبی اکرم ﷺ کی تکلیف کا مداوا کر سکیں، چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لئے سترہ ڈول پانی کھینچا اور ہر ڈول کے بدلے اس نے ایک عمدہ کھجور دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ سترہ عجوہ کھجوریں لے کر بارگاهِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا۔
امام بیہقی نے مزید بیان کیا کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا : اے ابو الحسن! یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے معلوم ہوا کہ آپ کئی دن کے فاقہ سے ہیں تو میں مزدوری کی تلاش میں نکل پڑا تاکہ آپ کی خدمت میں کچھ کھانے کو پیش کیا جا سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نے اس کام پر ابھارا تھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : جی ہاں، یا نبی اللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : خدا کی قسم! کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو اور فقر و فاقہ اس کے چہرے کی طرف سیلاب کی سی تیزی سے نہ بڑھیں لهٰذا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہو تو اسے (ان آزمائشوں پر) صبر کے لئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘
12۔ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عُتْبَةَ رضي الله عنھا قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا کَانَتْ قُبَّةٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ قُبَّتِکَ وَلَا أَحَبَّ أَنْ یُبِيْحَھَا اللهُ وَمَا فِيْھَا، وَوَاللهِ، مَا مِنْ قُبَّةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ یُّعَمِّرَھَا اللهُ وَیُبَارِکَ فِيْھَا مِنْ قُبَّتِکَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَأَيْضًا وَاللهِ، لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّھَبِيُّ۔
12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 528، الرقم : 3805، والعسقلاني مختصرا في فتح الباري، 9 / 511، وفي تلخیص الحبیر، 4 / 53، والصنعاني في سبل السلام، 3 / 220۔
’’حضرت فاطمہ بنت عتبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے (قبول اسلام کے بعد) عرض کیا : یا رسول اللہ! (قبولِ اسلام سے پہلے) آپ کے خیمہ سے زیادہ ناپسندیدہ خیمہ میرے لئے کوئی نہ تھا، اور میں پسند نہ کرتی تھی کہ خدا اس خیمہ کو اور اس خیمہ میں رہنے والے کو باقی رکھے، اور اب خدا کی قسم! مجھے آپ کے خیمہ سے زیادہ کوئی خیمہ محبوب نہیں، اللہ تعالیٰ اسے (ہمیشہ) باقی رکھے، اور اس میں برکت نازل فرمائے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی قسم کھا کر فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد اور اس کے (ماں) باپ سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے نیز فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
13۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ الله ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَإِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي۔ وَإِنِّي لَأَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ فَأَذْکُرُکَ فَمَا أَصْبِرُ حَتَّی آتِیَکَ فَأَنْظُرُ إِلَيْکَ۔ وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ أَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيِّيْنَ، وَأَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ أَنْ لَا أَرَاکَ۔ فَلَمْ یَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَيْئًا حَتَّی نَزَلَ جِبْرِيْلُ علیه السلام بِهَذِهِ الْآیَةِ : {وَمَنْ یُطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم۔۔۔ الخ} [النساء، 4 : 69] فَدَعَا بِهِ فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ۔
13 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وفي المعجم الصغیر، 1 / 53، الرقم : 52، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 4 / 240، 8 / 125، والهیثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 524، والسیوطي في الدر المنثور، 2 / 182۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہوکر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہوجاؤں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا یہاں تک کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت مبارکہ کو لے کر اترے : {اور جو کوئی اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے…} پس آپ ﷺ نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
14۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما کَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ حَلَفَهَا بِاللهِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجٍ وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ رَغْبَةً بِأَرْضٍ عَنْ أَرْضٍ، وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ الْتِمَاسَ الدُّنْیَا وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ إِلَّا حُبًّا ِللهِ وَرَسُوْلِهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ، وَاللَّفْظُ لَهُ۔
14 : أخرجه الترمذي مختصرا في السنن، کتاب : التفسیر، باب : ومن سورۃ الممتحنۃ، 5 / 412، الرقم : 3308، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 127، الرقم : 12668، وابن عبد البر في جامع العلوم والحکم، 1 / 14، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآں، 28 : 67، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 351۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (جب اسلام قبول کرنے کے لیے) کوئی عورت حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آتی تو آپ ﷺ اس سے اللہ عزوجل کی قسم لیتے کہ (کہئے کہ) میں نہ تو خاوند کی دشمنی کی وجہ سے، نہ کسی زمین کی طمع میں اور نہ ہی کسی دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے حاضر ہوئی ہوں بلکہ میں صرف اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں (اسلام قبول کرنے کے لیے) آئی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابن عبد البر کے ہیں۔
1۔ خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما۔ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ۔ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدَاهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔
وفي روایۃ للنسائي : عن الهیثم بن الحنش قال : کنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فخدرت رجله فقال له رجل : اذکر أحب الناس إلیک ۔ فقال : یا محمد! قال : فقام فکأنما نشط من عقال۔
1 : أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الرقم : 964، والنسائي في عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 141 وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات، 4 / 154، وابن السني في عمل الیوم واللیلۃ، الرقم : 168، 170، 172، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 498، الرقم : 1218، ویحیی بن معین في التاریخ، 4 / 24، الرقم : 2953۔
’’حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوگیا تو ایک آدمی نے ان سے کہا : لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے یاد کریں۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : یا محمد ( ﷺ )۔‘‘ اسے امام بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔
امام نسائی سے مروی ہے کہ ہیثم بن حنش روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس (بیٹھے ہوئے) تھے کہ آپ کا پاؤں شل ہوگیا۔ کسی نے ان سے کہا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب ہستی کو یاد کیجئے (تو یہ جاتا رہے گا۔) چنانچہ انہوں نے (زور سے) کہا : یا محمد ( ﷺ )! (یہ کہنے کے بعد) اسی وقت ان کا پاؤں کھل گیا۔‘‘
2۔ عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُـلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَعَادُوْهُ۔ فَقَالَ : کُنْتُ أُرِيْدُهُمَا لِأَنْظُرَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ۔ فَأَمَّا إِذْ قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَوَاللهِ، مَا یَسُرُّنِي أَنْ مَا بِهِمَا بِظَبْيٍ مِنْ ظِبَاءِ تُبَالَةَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَابْنُ سَعْدٍ۔
2 : أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 188، الرقم : 533، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 313۔
’’حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی کی بینائی جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لئے گئے۔ (جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا) تو انہوں نے فرمایا : میں ان آنکھوں کو فقط اس لئے پسند کرتا تھا کہ ان کے ذریعہ مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ اب چونکہ آپ ﷺ کا (ظاہراً) وصال ہو گیا ہے اس لئے اگر مجھے چشم غزال (ہرن کی آنکھیں) بھی مل جائیں تو کوئی خوشی نہ ہو گی ۔‘‘
اسے امام بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
3۔ کان عمر بن الخطاب رضی الله عنه یقول : اللّٰھم ارزقني شهادۃ في سبیلک، واجعل موتي في بلد رسولک ﷺ ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : فضائل المدینۃ، باب : کراهیۃ النبي ﷺ أن تعری المدینۃ، 2 / 668، الرقم : 1791۔
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دعا کیا کرتے تھے : اے میرے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت عطا فرمائے۔‘‘
4۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما یَذْکُرُ النَّبِيَّ قَطُّ إِلاَّ بَکَی۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
4 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 54، الرقم : 86۔
’’حضرت عمر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حضور نبی اکرم ﷺ کو یاد کرتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ وہ ہربار (آپ ﷺ کے ذکر پر) آبدیدہ ہو جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عن عبدۃ بنت خالد بن معدان، قالت : ما کان خالد یأوي إلی فراش إلا وهو یذکر من شوقه إلی رسول الله ﷺ وإلی أصحابه من المهاجرین والأنصار یسمیهم ویقول : هم أصلي وفصلي، وإلیهم یحن قلبي، طال شوقي إلیهم، فعَجِّل رب قبضي إلیک حتی یغلبه النوم۔
5 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5 / 210، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 4 / 539، والمزي في تهذیب الکمال، 8 / 171، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 16 / 199۔
’’عبدہ بنت خالد بن معدان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : خالد ( یعنی ان کے والد) جب بھی اپنے بستر پر آتے تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنا شوق اور آپ ﷺ کے صحابہ مہاجرین و انصار سے اپنی محبت کا ذکر نام لے لے کر کیا کرتے اور کہتے کہ یہ لوگ میرا سب کچھ ہیں، ان کی طرف میرا دل میلان کرتا ہے۔ میرا شوق ان کی طرف بہت بڑھ گیا ہے۔ اے میرے رب عزوجل میری روح ان کی طرف جلدی قبض کر (یہی کہتے کہتے) ان پر نیند غالب آ جاتی۔‘‘
6۔ قال أبو سفیان ابن حرب : أنشدک بالله یا زید، أتحبّ أنّ محمداً الآن عندنا مکانک تضرب عنقه وإنّک في أهلک؟ فقال زید : والله، ما أحبّ أنّ محمداً الآن في مکانه الّذي هو فیه تصیبه شوکۃ وأنّي جالس في أهلي۔ فقال أبو سفیان : ما رأیتُ من النّاس أحداً یحبّ أحداً کحبّ أصحاب محمد محمداً ﷺ ۔
6 : أخرجه البیهقي في دلائل النبوۃ، 3 / 362، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 56، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 649۔
’’ابو سفیان بن حرب نے (صحابیٔ رسول حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ سے) کہا : اے زید! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت محمد ﷺ تیری جگہ ہوں اور ان کی (معاذ اللہ) گردن ماری جائے اور تو واپس اپنے اہل و عیال میں چلا جائے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا : خدا کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس وقت جہاں بھی رونق افروز ہیں وہاں آپ ﷺ کے پائے اقدس میں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے اہل و عیال کے پاس ہوں۔ اس وقت ابو سفیان نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی کو اس قدر محبوب رکھتا ہو جس قدر کہ محمد ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ان کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘
7۔ قال القاضي عیاض رَحِمَهُ الله : من علامۃ حبِّ الرجلِ للنبي ﷺ شفقته علی أمته، ونصحه لهم، وسعیه في مصالحهم، ورفع المضار عنهم۔
7 : القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 504۔
’’قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آئے، ان کو اچھی بات بتائے اور ان کی خیر خواہی کی کوشش کرے۔ ‘‘
8۔ قال بلال رضی الله عنه حین حضرته الوفاۃ : غداً نلقی الأحبۃ محمداً وحزبه قال : تقول امرأته : واویلاه! قال : یقول : وافرحاه۔
8 : أخرجه ابن أبي الدنیا في المحتضرین، 1 / 207، الرقم : 294، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 359۔
’’جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے (موت کے آثار نظر آنے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے) فرمایا : کل ہم اپنے محبوب حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب سے ملاقات کریں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کی بیوی نے کہا : ہائے افسوس! راوی کہتے کہ انہوں نے بیوی کو اظہار افسوس کی بجائے اظہار فرحت کی تلقین فرمائی۔‘‘
9۔ قال الإمام القسطلاني : من علامات محبته ﷺ کثرۃ ذکره، فمن أحب شیئاً أکثر من ذکره۔وقیل : للمحب ثلاث علامات : أن یکون کلامه ذکر المحبوب، وصمته فکراً فیه، وعمله طاعۃ له۔
9 : القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 495۔
’’امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی ایک علامت آپ ﷺ کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔ کیوں کہ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر بھی زیادہ کرتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے : محب کی تین علامات ہیں : ایک یہ کہ اس کا کلام محبوب کا ذکر ہو، اس کی خاموشی محبوب کی فکر ہو اور اس کا عمل اُس کی فرمانبرداری ہو۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved