1۔ قَالَ أَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِيُّ رضی الله عنه : دَعَا النَّبِيُّ ﷺ ثُمَّ رَفَعَ یَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَیَاضَ إِبْطَيْهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الدعوات، باب : رفع الأیدي في الدُّعاءِ، 5 / 2335، وفي کتاب : المغازي، باب : غَزَوْۃ أَوْطاسٍ، 4 / 1571، الرقم : 4068، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ الاستسقاء، باب : رفع الیدین بالدعاء في الاستسقاء، 2 / 612، الرقم : 895۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے مبارک بغلوں کی سفیدی دیکھی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مِنْ عَبْدٍ یَرْفَعُ یَدَيْهِ حَتَّی یَبْدُوَ إِبْطُهُ یَسْأَلُ اللهَ مَسْأَلَةً إِلَّا آتَاهَا إِيَّاهُ مَا لَمْ یَعْجَلْ۔ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَيْفَ عَجَلَتُهُ؟ قَالَ : یَقُوْلُ : قَدْ سَأَلْتُ وَسَأَلْتُ وَلَمْ أُعْطَ شَيْئًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 138، الرقم : 3969۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی کوئی شخص دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے (اور اتنے بلند کرتا ہے) یہاں تک کہ اس کی بغل (کی سفیدی) ظاہر ہو جاتی ہے پھر وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! جلدی سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح کہے : میں نے مانگا، میں نے مانگا لیکن مجھے کچھ نہ دیا گیا۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلصَّلَاةُ مَثْنَی، مَثْنَی تَشَهَّدُ فِي کُلِّ رَکْعَتَيْنِ، وَتخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ، وَتَمَسْکَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ یَدَيْکَ تَقُوْلُ تَرْفَعُهُمَا إِلَی رَبِّکَ مُسْتَقْبِلاً بِبُطُوْنِهِمَا وَجْهَکَ وَتَقُوْلُ : یَا رَبِّ یَا رَبِّ، وَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَهُوَ کَذَا وَکَذَا۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في التخشع في الصلاۃ، 2 / 225، الرقم : 385، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 212، 450، الرقم : 615، 1440، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 167، والطبراني في المعجم الکبیر، 18 / 295، الرقم : 757۔
’’حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز (نفل) دو دو رکعتیں ہیں، ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، خشوع و خضوع ہے اوراس کے بعد سنجیدگی اور وقار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا و التجاء ہے۔ سکون اور اپنے رب کی طرف ہاتھوں کو (دعا میں) اس طرح اٹھانا کہ ان کا اندرونی حصہ منہ کی جانب رہے اور پھر کہنا : اے رب! اے رب! جس نے ایسا نہ کیا وہ ایسا ہے وہ ایسا ہے(یعنی جس نے اللہ کے حضور اپنا دامنِ طلب دراز نہ کیا وہ محروم ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنِ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : اَلصَّلَاةُ مَثْنَی مَثْنَی أَنْ تَشَهَّدَ فِي کُلِّ رَکْعَتَيْنِ وَأَنْ تَبَاءَ سَ وَتَمَسْکَنَ وَتُقْنِعَ بِیَدَيْکَ وَتَقُوْلُ : اللَّهُمَّ، اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَهِيَ خِدَاجٌ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ۔
4 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في صلاۃ النهار، 2 / 29، الرقم : 1296، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ اللیل والنهار مثنی مثنی ،1 / 419، الرقم : 1325، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 212، 451، الرقم : 616، 1441، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 220۔221، الرقم : 1212۔1213۔
’’حضرت مطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (نفل)نماز کی دو دو رکعتیں ہیں ہر دو رکعت پر تشہد ہے اور (نماز سے فراغت کے بعد بندہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنی) مصیبت و غربت کا حال عرض کرتا ہے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے، یا اللہ! یا اللہ!(یہ عطا فرما وہ عطا فرما) جو ایسا نہ کرے اس کی نماز نامکمل ہے۔‘‘ اسے ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ إِذَا دَعَا جَعَلَ بَاطِنَ کَفَّيْهِ إِلَی وَجْهِهِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
5 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 56، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1 / 146، الرقم : 217، 247، والمزي في تهذیب الکمال، 7 / 77، الرقم : 1418، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2 / 100، الرقم : 723، والشوکاني في نیل الأوطار، 4 / 35۔
’’حضرت خلاد بن سائب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب دعا فرماتے تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرہ انور کے سامنے کر لیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل لَیَسْتَحْیِي إِذَا رَفَعَ الْعَبْدُ یَدَيْهِ أَنْ یَرُدَّهُمَا صِفْرًا لَا شَيئَ فِيْهِمَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
6 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 2 / 251، الرقم : 3250، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 256، الرقم : 6148، وفي کتاب الدعائ، 1 / 84، الرقم : 203، 205۔
’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ اس کا بندہ دعا کے لئے (اس کے سامنے) ہاتھ اٹھائے اور وہ انہیںخالی بغیر ان میں کچھ ڈالے لوٹا دے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيِّ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، الْفَجْرَ سَلَّمَ، انْحَرَفَ وَرَفَعَ یَدَيْهِ وَدَعَا۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
7 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 1 / 269، الرقم : 3093، والمبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 2 / 171، وابن القدامۃ في المغني، 1 / 328۔
’’اسود عامری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں نمازِ فجر ادا کی پس جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو ایک طرف رخِ انور موڑ کر اپنے دونوں مبارک ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنَ الْبَيْتِ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَقَوْمٌ فِي الْمَسْجِدِ رَافِعِي أَيْدِيْهُمْ یَدْعُوْنَ اللهَ عزوجل، فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : هَلْ تَرَی مَا أَرَی بِأَيْدِيِ الْقَوْمِ؟ فَقُلْتُ : مَا تَرَی فِي أَيْدِيْهِمْ؟ فَقَالَ : نُوْرٌ۔ قُلْتُ : أُدْعُ اللهَ أَنْ یُرِیَنِيْهِ، قَالَ : فَدَعَا، فَرَأَيْتُهُ، فَقَالَ : یَا أَنَسُ، اسْتَعْجَلْ بِنَا حَتَّی نُشْرِکَ الْقَوْمَ، فَأَسْرَعْتُ مَعَ نَبِيِّ اللهِ ﷺ فَرَفَعْنَا أَيْدِیَنَا۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الدُّعَاءِ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
8 : أخرجه البخاري في التاریخ الکبیر، 3 / 202، الرقم : 692، والطبراني في کتاب الدعائ، 1 / 85، الرقم : 206۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں گھر سے مسجد کی طرف نکلا اور کچھ لوگ مسجد میں اپنے ہاتھوں کو اٹھائے اللہ عزوجل سے دعا مانگ رہے تھے تو مجھے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم وہ چیز دیکھ رہے ہو جو ان کے ہاتھوں میں ہے؟ تو میں نے عرض کیا : آپ ان کے ہاتھوں میں کیا دیکھ رہے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (میں ان کے ہاتھوں میں) نور (دیکھ رہا ہوں) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی یہ نور دکھائے، حضرت انس بیان کرتے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے انس! جلدی کرو یہاں تک کہ ہم بھی ان لوگوں کے ساتھ (دعا میں) شریک ہو سکیں۔ پس میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جلدی جلدی ان لوگوں کی طرف گیا پھر ہم نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لئے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں اور طبرانی نے ’’کتاب الدعائ‘‘ میں روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔
9۔ عَنْ الْحُسَيْنِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْفَعُ یَدَيْهِ إِذَا ابْتَھَلَ وَدَعَا کَمَا یَسْتَطْعِمُ الْمِسْکِيْنُ۔ رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ۔
9 : أخرجه الخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 8 / 62، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 557۔
’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارگاهِ خداوندی میں دعا اور زاری فرماتے تو اپنے ہاتھ بلند فرماتے (اور آگے پھیلاتے) جیسے کہ مساکین کھانا طلب کرتے وقت ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ اور دستِ سوال و طلب دراز کرتے ہیں۔‘‘
1۔ وقال الإمام أبو زکریا یحیی بن شرف النووي (631-676ھ) : قَالَ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا وَغَيْرِھِمْ : اَلسُّنَّةُ فِي کُلِّ دُعَاءٍ لِرَفْعِ بَلاَءٍ کَالْقَحْطِ وَنَحْوِهِ أَنْ يَّرْفَعَ یَدَيْهِ وَیَجْعَلَ ظَھْرَ کَفَّيْهِ إِلَی السَّمَاءِ احْتَجُّوْا بِھَذَا الْحَدِيْثِ قوله : عَنْ أَنَسٍص أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ لَا یَرْفَعُ یَدَيْهِ فِي شَيئٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلاَّ فِي الاسْتِسْقَاءِ حَتَّی یُرَی بَیَاضُ إِبْطَيْهِ، ھَذَا الْحَدِيْثُ یُوْھِمُ ظَاھِرُهُ أَنَّهُ لَمْ یَرْفَعْ ﷺ إِلاَّ فِي الاسْتِسْقَاءِ وَلَيْسَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ بَلْ قَدْ ثَبَتَ رَفْعُ یَدَيْهِ ﷺ فِي الدُّعَاءِ فِي مَوَاطِنَ غَيْرَ الاسْتِسْقَاءِ وَھِيَ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ تُحْصَرَ وَقَدْ جَمَعْتُ مِنْھَا نَحْوًا مِنْ ثَـلَاثِيْنَ حَدِيْثًا مِنَ الصَّحِيْحَيْنِ أَوْ أَحَدِھِمَا۔
1 : أخرجه النووي في شرحه علی صحیح مسلم، 6 / 190۔
’’امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی نے فرمایا : ہمارے علمائے کرام اور بعض دیگر مشائخ نے کہا ہے کہ ہر دعا میں جو کسی مصیبت جیسے قحط وغیرہ کے ٹالنے کے لئے ہو ہاتھ اٹھانا سنت ہے اور وہ اس طرح کہ اپنی ہتھیلیوں کی پشت آسمان کی طرف کرے۔ اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے بعض لوگوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا قول بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز استسقاء کے علاوہ دعا میں ہاتھ بلند نہیں فرماتے تھے حتی کہ (جب آپ ہاتھ بلند فرماتے تو) آپ ﷺ کی بغلوں کی مبارک سفیدی نظر آتی تھی۔ اس حدیث کا ظاہر یہ وہم ڈالتا ہے کہ آپ نماز استسقاء کے علاوہ ہاتھ بلند نہیں فرماتے تھے جبکہ درحقیقت معاملہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے نماز استسقاء کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے اور یہ مواقع بے شمار ہیں اور میں نے صحیحین یا ان دونوں میں کسی ایک میں سے اس طرح کی تیس احادیث جمع کی ہیں۔‘‘
2۔ قال الإمام ابن تیمیۃ (661-728ھ) في الفتاوی : وَإِنْ أَرَادَ أَنَّ مَنْ دَعَا اللهَ لاَ یَرْفَعُ إِلَيْهِ یَدَيْهِ فَھَذَا خِلَافُ مَا تَوَاتَرَتْ بِهِ السُّنَنُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَمَا فَطَرَ اللهُ عَلَيْهِ عِبَادَهُ مِنْ رَفْعِ الْأَيْدِي إِلَی اللهِ فِي الدُّعَاءِ۔
2 : أخرجه ابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 5 / 265۔
’’علامہ ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اس کثرت سے ثابت ہے کہ اس کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس کی احادیث متواتر ہیں اور اگر اس سے کسی نے یہ مراد لیا ہے کہ دعا کرنے والا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے تو یہ حضور نبی اکرم ﷺ سے منقول سنن متواترہ کے خلاف ہے اور اس (انسانی) فطرت کے بھی خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں (یعنی مانگنے والا ہمیشہ ہاتھ بڑھاتا ہے) اور وہ یہ ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ بلند کئے جائیں۔‘‘
3۔ وأخرج الإمام ابن رجب الحنبلي (736-795ھ) : مَدَّ یَدَيْهِ إِلَی السَّمَاءِ وَهُوَ مِنْ آدَابِ الدُّعَاءِ الَّتِي یُرْجَی بِسَبَبِهَا إِجَابَتُهُ۔
3 : أخرجه ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 105۔
’’امام ابن رجب حنبلی نے ایک طویل حدیث میں (حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کی کیفیتِ دعا بیان کرتے ہوئے) بیان کیا : انہوں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور یہ آدابِ دعا میں سے ہے جس کے سبب امیدِ قبولیت رکھی جاتی ہے۔‘‘
4۔ وقال الإمام جلال الدین السّیوطي (849-911ھ) : أَحَادِيْثُ رَفَعِ الْیَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ فَقَدْ وَرَدَ عَنْهُ ﷺ نَحْوُ مِائَةِ حَدِيْثٍ فِيْهِ رَفَعَ یَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ وَقَدْ جَمَعْتُھَا فِي جُزْءٍ {فض الوعا في أحادیث رفع الیدین في الدعاء} لَکِنَّھَا فِي قَضَایَا مُخْتَلِفَةٍ فَکُلُّ قَضْیَةٍ مِنْھَا لَمْ تَتَوَاتَرْ وَالْقَدْرُ الْمُشْتَرَکُ فِيْھَا وَھُوَ الرَّفْعُ عِنْدَ الدُّعَاءِ تَوَاتَرَ بِاعْتَبَارِ الْمُجْمُوْعِ۔
4 : أخرجه السیوطي في تدریب الراوي، 2 / 180۔
’’امام جلال الدین سیوطی نے فرمایا : دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ سے تقریبًا سو کے قریب احادیث منقول ہیں۔ جن میں یہ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے دعا میں ہاتھ بلند فرمائے ہیں۔ ان تمام احادیث کو میں نے ایک مستقل کتاب - فض الوعا في أحادیث رفع الیدین في الدعاء - میں جمع کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ دعائیں مختلف قضایا سے متعلق ہیں مگر ان میں ہاتھ اٹھانا چونکہ قدرِ مشترک ہے اس لئے یہ (ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا) مجموعی اعتبار سے احادیثِ متواترہ (سے ثابت) ہوگیا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved