1۔ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَo
(البقرۃ،2 : 43)
’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔‘‘
2۔ وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوةَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط اُولٰٓئِکَ سَنُؤْتِيْهِمْ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(النساء، 4 : 162)
’’اور وہ (کتنے اچھے ہیں کہ) نماز قائم کرنے والے (ہیں) اور زکوٰۃ دینے والے (ہیں) اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے (ہیں)۔ ایسے ہی لوگوں کو ہم عنقریب بڑا اجر عطا فرمائیں گےo‘‘
3۔ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّکٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَيِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ۔
(المائدۃ،5 : 12)
’’اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اللہ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرض حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقینا ایسی جنتوں میں داخل کر دوںگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔‘‘
4۔ اَلَّذِيْنَ یُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ کَرِيْمٌo
(الأنفال، 8 : 3،4)
’’(یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیںo
(حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہےo‘‘
5۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِيْنَo
(ھود، 11 : 114)
’’اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہےo‘‘
6۔ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
(النور، 24 : 56)
’’اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (ﷺ) کی (مکمل) اطاعت بجا لائو تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)o‘‘
7۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ط اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔
(العنکبوت، 29 : 45)
’’اور نماز قائم کیجئے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الوضوئ، باب : وقاتلوهم حتی لا تکون فتنۃ، 4 / 1641، الرقم : 4243، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : بیان أرکان الإسلام، 1 / 45، الرقم : 16۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور محمد (ﷺ) کے اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2۔ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : … مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ وُضُوْئَهُ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ۔
2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الطهارۃ، باب : الذکر المستحب عقب الوضوئ، 1 / 209، الرقم : 234، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153، والطبراني في المعجم الکبیر، 17 / 332، الرقم : 917، والبیهقي في السنن الکبری، 1 / 78، الرقم : 373، وفي 2 / 280، الرقم : 3334، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1 / 110، الرقم : 222۔
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : … جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے اور پھر کھڑا ہو کر حضور قلب کے ساتھ دو رکعات نماز پڑھے اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي : سَلْ۔ فَقُلْتُ : أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ۔ قَالَ : أَوْ غَيْرَ ذَلِکَ؟ قُلْتُ : هُوَ ذَاکَ۔ قَالَ : فَأَعِنِّي عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالنَّسَائِيُّ، وَالطَّبَرَانِيُّ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الصلاۃ، باب : فضل السجود والحث علیه، 1 / 353، الرقم : 489، والنسائي في السننن الکبری، 1 / 242، الرقم : 724، والطبراني في المعجم الکبیر، 5 / 56، الرقم : 4570، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 486، الرقم : 4344، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 499، ال رقم : 1861۔
’’حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور آپ ﷺ کے استنجاء اور وضو کے لیے پانی لاتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا : مانگ (کیا مانگتا ہے؟) میں نے عرض کیا : میں آپ سے جنت کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نے عرض کیا : مجھے یہی کافی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر زیادہ سجدے کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ نَھَارِي فَإِذَا کَانَ اللَّيْلُ أَوَيْتُ إِلَی بَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَبِتُّ عِنْدَهُ۔ فَلاَ أَزَالُ أَسْمَعُهُ یَقُوْلُ : سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ رَبِّي حَتَّی أَمَلَّ أَوْ تَغْلِبَنِي عَيْنِي فَأَنَامَ، فَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ : یَا رَبِيْعَةُ، سَلْنِي، فَأُعْطِيْکَ۔ قُلْتُ : أَنْظِرْنِي حَتَّی أَنْظُرَ وَتَذَکَّرْتُ أَنَّ الدُّنْیَا فَانِیَةٌ مُنْقَطِعَةٌ، فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللهِ، أَسْأَلُکَ أَنْ تَدْعُوَ اللهَ أَنْ یُجْنِبَنِي مِنَ النَّارِ وَیُدْخِلَنِيَ الْجَنَّةَ، فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَمَرَکَ بِھَذَا؟ قُلْتُ : مَا أَمَرَنِي بِهِ أَحَدٌ، وَلَکِنِّي عَلِمْتُ أَنَّ الدُّنْیَا مُنْقَطِعَةٌ فَانِیَةٌ وَأَنْتَ مِنَ اللهِ بِالْمَکَانِ الَّذِي أَنْتَ بِهِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ تَدْعُوَ اللهَ۔ قَالَ : إِنِّي فَاعِلٌ فَأَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 500، الرقم : 16120، والطبراني في المعجم الکبیر، 5 / 57، الرقم : 4576، والعسقلاني في المطالب العالیۃ، 4 / 353، الرقم : 573، والھیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 249۔
’’حضرت ربیعہ بن کعب بیان کرتے ہیں کہ میں دن کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا اور جب رات آجاتی تو میں آپ ﷺ کے دروازے کی پناہ لیتا اور وہیں رات گزارتا میں رات کو سنتا کہ آپ ﷺ سبحان اللہ اور سبحان ربی کا اس قدر ورد کرتے کہ میں تھک جاتا، یا مجھ پر نیند غالب آجاتی اور میں سو جاتا۔ ایک دن آپ ﷺ مجھے فرمانے لگے : اے ربیعہ! مانگو جو مانگنا ہے میںتمہیں دوں گا : میں نے عرض کیا : مجھے مہلت دیں، میں ذرا سوچ لوں مجھے خیال آیا کہ دنیا تو فانی ہے اور ختم ہو جانے والی ہے، لهٰذا میں نے عرض کیا : میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے جہنم سے آزاد کردے اور جنت میں داخل کر دے۔ رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ پھر فرمانے لگے : یہ تجھے کس نے مشورہ دیا، میں نے عرض کیا : مجھے مشورہ تو کسی نے نہیں دیا، لیکن میں جانتا ہوں کہ دنیا فانی ہے، ختم ہونے والی ہے اور آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اعلیٰ مقام ہے، لهٰذا مجھے اچھا لگا کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ فرمانے لگے : میں دعا ضرور کروں گا۔ (لیکن) کثرت سجود کے ذریعے اس معاملے میں میری مدد کر۔‘‘اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔
5۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُوْلُ : یَا ابْنَ آدَمَ، تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْـلَأْ صَدْرَکَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَکَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَـلَأْتُ یَدَيْکَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَکَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 30، 4 / 642، الرقم : 2466، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الھم بالدنیا، 2 / 1376، الرقم : 4107، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 358، الرقم : 8681، وابن حبان عن أبي هریرۃ رضی الله عنه في الصحیح، 2 / 119، الرقم : 393۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم! تو میری عبادت کے لئے فارغ تو ہو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھر دوں گا اور تیرا فقر و فاقہ ختم کر دوں گا؛ اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تیرے ہاتھ کام کاج سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ صحیح الاسناد ہے۔
6۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اسْتَقِيْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِکُمْ الصَّلَاةُ وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَأَحْمَدُ، وَالدَّارِمِيُّ۔
6 : أخرجه ابن ماجہ في السنن، کتاب : الطہارۃ وسننہا، باب : المحافظۃ علی الوضوئ، 1 / 101، الرقم : 277، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 282، الرقم : 22486، والدارمي في السنن، 1 / 174، الرقم : 655، والبزار في المسند، 6 / 358، الرقم : 2367، وابن حبان في الصحیح، 3 / 311، الرقم : 1037، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 116، الرقم : 7019۔
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دین پر قائم رہو اگرچہ تم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے اوریہ بات جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے اور مومن کے سوا کوئی وضو کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْجُدُ لِلّٰهِ سَجْدَةً إِلَّا کَتَبَ اللهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً وَمَحَا عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً فَاسْتَکْثِرُوْا مِنَ السُّجُوْدِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْبَزَّارُ۔
7 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في کثرۃ السجود، 1 / 457، الرقم : 1424، والبزار في المسند، 7 / 150، الرقم : 2705، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 152، الرقم : 562۔
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک برائی مٹاتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے تو تم کثرت سے سجدہ کیا کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بزار نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ یَتَھَافَتُ فَأَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ : فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ یَتَھَافَتُ قَالَ : فَقَالَ : یَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّيَ الصَّـلَاةَ یُرِيْدُ بِھَا وَجْهَ اللهِ، فَتھَافَتُ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ کَمَا یَتَھَافَتُ ھَذَا الْوَرَقُ عَنْ ھَذِهِ الشَّجَرَةِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔
8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 179، الرقم : 21596، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 151، الرقم : 560، والھیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 248۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) حضورنبی اکرم ﷺ سردی کے موسم میں باہر تشریف لائے۔ درختوں کے پتے گر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی کو پکڑا تو اس کے پتے گرنا شروع ہوگئے اور فرمایا : اے ابو ذر! میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے جب نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑ گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مِنْ حَالٍ یَکُوْنُ عَلَيْهَا الْعَبْدُ أَحَبَّ إِلَی اللهِ مِنْ أَنْ یَرَاهُ سَاجِدًا مُعَفِّرًا وَجْھَهُ فِي التُّرَابِ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔
9 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 158، الرقم : 6075، والھیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 301، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 153، الرقم : 566
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے بندے کی سب سے پسندیدہ حالت یہ ہے کہ وہ سجدہ ریز ہو کر اپنے چہرے کو خاک آلود کر رہا ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
1۔ قال عمر رضی الله عنه : لولا ثلاث لأحببت أن أکون قد لقیت الله : لولا أن أضع جبھتي ﷲ، أو أجلس في مجالس ینتقی فیھا طیب الکلام کما ینقی جید التمر، أو أن أسیر في سبیل الله عزوجل۔
1 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 51، وأحمد بن حنبل في الزهد : 117۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تین باتوں کا مزہ نہ ہوتا تو میں خدا سے ملاقات (یعنی موت) کو زیادہ پسند کرتا۔ اللہ کے سامنے سر ٹیکنے کا مزہ، ایسی مجالس میں شرکت کا مزہ جن میں اس طرح اچھا کلام منتخب کیا جاتا ہے جس طرح عمدہ کھجوروں کو چن لیا جاتا ہے اور اللہ کے راستے میں چلنے کا مزہ۔‘‘
2۔ کان علي بن أبي طالب رضی الله عنه یصلي لیله ولا یهجع إلا یسیراً، ویقبض علی لحیته، ویتململ تململ السلیم، ویبکي بکاء الحزین حتی یصبح۔
2 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 34۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رات بھر نماز ادا فرماتے۔ بہت تھوڑا سا سستاتے، اپنی ریش مبارک کو پکڑ لیتے اور مریض کی طرح لوٹتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے حتی کہ صبح ہو جاتی۔‘‘
3۔ کان عبد الله بن الزبیر رضی الله عنه إذا قام في الصلاۃ کأنه عمود من الخشوع، وکان یسجد ویطیل السجود حتی تنزل العصافیر علی ظهره لا تحسبه إلا جدار حائط، وکان یحیي الدهر کله لیلۃ قائماً حتی یصبح، ولیلۃ یحییها راکعاً، حتی یصبح ولیلۃ یحییها ساجداً، حتی یصبح وکان یسمی حمامۃ المسجد۔
3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 41۔
’’حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو خشوع کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ گویا ایک ستون کھڑا ہے۔ سجدہ کرتے اور طویل سجدہ کرتے حتیٰ کہ چڑیاں دیوار سمجھ کر آپ کی پشت پر بیٹھ جاتیں۔ آپ ہمیشہ شب بیداری فرماتے کسی رات کو صبح تک قیام میں کسی کو رکوع میں اور کسی کو سجدہ میں بسر کرتے اور آپ کو مسجد کا کبوتر کہا جاتا تھا۔‘‘
4۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : قُلْتُ لَهُ : مَا کَانَ یُفَرِّقُ بَيْنَ الْکُفْرِ وَالإِیمَانِ عِنْدَکُمْ مِنَ الأَعْمَالِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ ؟ قَالَ : الصَّلَاةُ۔
4 : أخرجه المروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 877، الرقم : 893، وهبۃ الله اللالکائي في اعتقاد أهل السنۃ، 4 / 829، الرقم : 1538۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما صحابی رسول ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں کون سا عمل کفر و ایمان میں فرق کرنے والے تھے۔ آپ نے فرمایا : نماز۔‘‘
5۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : نُبِّئْتُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنهما کَانَا یُعَلِّمَانِ النَّاسَ : تَعْبُدُ اللهَ، وَلَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ الَّتِي افْتَرَضَ اللهُ لِمَوَاقِيْتِهَا، فَإِنَّ فِي تَفْرِيْطِهَا الْهَلَکَةَ۔
5 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 1 / 280، الرقم : 3212، وابن عبد البر في التمهید، 23 / 294، ومعمر بن راشد في الجامع، 11 / 330، الرقم : 20683۔
’’محمد بن سیرین رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابو بکر اور عمر رضي الله عنهما لوگوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اور نماز جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کی ہے، اس کے اوقات میں ادا کرو، اور بے شک اسے چھوڑنے میں ہلاکت ہے۔‘‘
6۔ عَنِ الضَّحَّاکِ رَحِمَهُ الله فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : {لَا تُلْهِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ} [المنافقون، 63 : 9] قَالَ : الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ۔
6 : أخرجه الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 28 / 117، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 1 / 127، الرقم : 46۔
’’حضرت ضحاک رَحِمَهُ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان {اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں} میں بیان کرتے ہیں کہ ذکر اللہ سے مراد پانچ نمازیں ہیں۔‘‘
7۔ قال أبو یزید رَحِمَهُ الله : اطَّلَعَ اللهُ علی قلوبِ أولیائِه، فمِنْهُم من لم یکنْ یصلُحُ لِحَمْلِ المعرفۃ صِرْفاً، فَشَغَلَهم بالعبادۃ۔
7 : أخرجه السُّلمی في طبقات الصّوفیۃ : 71۔
’’حضرت ابو یزیدبسطامی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اولیاء کے دلوں پر مطلع ہوتا ہے پس ان میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جو معرفت الٰہی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، ایسے دلوں کو عبادت میں مشغول کر دیتا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved