1۔ لِلْفُقَرَآءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ لَا یَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ج لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِيْمٌo
(البقرۃ، 2 : 273)
’’(خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اللہ اسے خوب جانتا ہےo‘‘
2۔ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَلِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهٖ ط اِنَّ اللهَ کَانَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًاo
(النساء، 4 : 32)
’’اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہےo‘‘
3۔ وَلَا تَمُدَّنَ عيْنَيْکَ اِلَی مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ ط وَرِزْقُ رَبِّکَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰیo
(طہ، 20 : 131)
’’اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے (کافر دنیا داروں کے) بعض طبقات کو (عارضی) لطف اندوزی کے لئے دے رکھی ہیں تاکہ ہم ان (ہی چیزوں) میں ان کے لئے فتنہ پیدا کر دیں، اور آپ کے رب کی (اخروی) عطا بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہےo‘‘
4۔ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰـھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
(الحج، 22 : 36)
’’تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِ ﷺ قَالَ : لَيْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَکِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : الغنی غنی النَّفسِ، 5 / 2368، الرقم : 6081، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : لیس الغنی عن کثرۃ العرض، 2 / 726، الرقم : 1051، والترمذي في السنن، کتاب : الزہد، باب : ما جاء أن الغنی غِنَی النَّفْسِ، 4 / 586، الرقم : 2373، وابن ماجہ في السنن، کتاب : الزھد، باب : القناعۃ، 2 / 386، الرقم : 4137۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : امارت کثرتِ مال سے نہیں ہوتی بلکہ اصل امارت دل کا غنی ہونا ہے۔‘‘ اسے امام بخاری اور مسلم نے ذکر کیا ہے۔
2۔ عَنْ حَکِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : اَلْیَدُ الْعُلْیاَ خَيْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَھْرِ غِنًی، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِهِ اللهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَھَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : لا صَدَقَةَ إِلاَّ عَنْ ظَھْرِ غِنیً، 2 / 518، الرقم : 1361، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : بیان أن الید العلیا خیر من الید السفلی وأن الید العلیا ھي المنفقۃ وأن السفلی ھي الآخذۃ، 2 / 717، الرقم : 1034، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 426، الرقم : 10687۔
’’حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے) سے بہتر ہے اور (صدقہ کی) ابتداء اپنے اہل و عیال سے کرو اور بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد استغناء قائم رہے اور جو سوال کرنے سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سوال کرنے سے بچا لیتا ہے اور جو استغناء اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ غنی کر دیتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔
3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لَيْسَ الْمِسْکِيْنُ الَّذِي یَطُوْفُ عَلَی النَّاسِ، تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَکِنِ الْمِسْکِيْنُ : الَّذِي لَا یَجِدُ غِنًی یُغْنِيْهِ، وَلَا یُفْطَنُ بِهِ فَیُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ، وَلَا یَقُوْمُ فَیَسْأَلُ النَّاسَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : قول الله تعالی : لا یسألون الناس إلحافا، 2 / 538، الرقم : 1409، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : المسکین الذي لا یجد غنی، ولا یفطن له فیصدق علیه، 2 / 719، الرقم : 1039، والنسائي في السنن، کتاب : الزکاۃ، باب : تفسیر المسکین، 5 / 85، الرقم : 2572، ومالک في الموطأ، کتاب : صفۃ النبي ﷺ، باب : ما جاء في المسکین، 2 / 923، الرقم : 1645۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے گرد چکر لگاتا رہے، ایک یا دو لقموں یا ایک دو کھجوروں کا لالچ اسے پھراتا، گھماتا رہے، بلکہ مسکین تو وہ ہے کہ جس کے پاس نہ تو اتنا مال ہو کہ اس کی ضرورت کو پورا کر سکے، نہ وہ مسکین نظر آتا ہو کہ لوگ اسے صدقہ دیں اور نہ وہ کھڑے ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ کَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : في الکفاف والقناعۃ، 2 / 730، الرقم : 1054، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الکفاف والصبر علیه، 4 / 575، الرقم : 2348، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 168، الرقم : 6572، 6609، والحاکم في المستدرک، 4 / 137، الرقم : 7149۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ وہ کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے حسبِ ضرورت رزق عطا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قناعت عطا فرمائی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
5۔ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : طُوْبَی لِمَنْ هُدِيَ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَکَانَ عَيْشُهُ کَفَافًا وَقَنَعَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : ما جاء في الکفاف والصبر علیه، 4 / 576، الرقم : 2349، أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 19، رقم : 23944، وابن حبان في الصحیح، 2 / 481، رقم : 706، والطبراني في المعجم الکبیر، 18 / 305، الرقم : 786، والحاکم في المستدرک، 1 / 90، الرقم : 98، وابن المبارک في کتاب الزهد : 187۔
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اس کے لیے بشارت ہے جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی اور جسے بقدرِ ضرورت روزی نصیب ہو، اور اس نے اس پر قناعت کی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
6۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَھَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَھَا بِاللهِ، فَیُوْشِکُ اللهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الھم في الدنیا وحبھا، 4 / 563، الرقم : 2326، وأبو داود في السنن، کتاب : الزکاۃ، باب : في الاستعفاف، 2 / 622، الرقم : 1645، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 407، الرقم : 3869، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 13، الرقم : 9785، والبیھقی في السنن الکبری، 4 / 196، الرقم : 7658۔
’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص پر مفلسی آ گئی اور اس نے اپنی مفلسی (کو دور کرنے کے لئے اس) کو لوگوں کے سامنے پیش کیا تو اس کی مفلسی دور نہیں ہو گی اور جس شخص نے اپنی مفلسی کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا تو اللہ تعالیٰ اسے جلد یا بدیر رزق عطا فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
7۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَکَفَّلَ لِي أَنْ لَا یَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا، وَأَتَکَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ۔ فَقَالَ ثَوْبَانُ : أَنَا، فَکَانَ لَا یَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔
7 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الزکاۃ، باب : کراھیۃ المسألۃ، 2 / 121، الرقم : 1643، والنسائي في السنن نحوه، کتاب : الزکاۃ، باب : فضل من لا یسئل الناس شیئا، 5 / 96، الرقم : 2590، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 98، الرقم : 1433، والحاکم في المستدرک، 1 / 571، الرقم : 1500۔
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگے گا تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کسی سے کچھ نہیں مانگا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود نے اسنادِ جید کے ساتھ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَبَا ھُرَيْرَةَ، کُنْ وَرِعًا تَکُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَکُنْ قَنِعًا تَکُنْ أَشْکَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِمًا، وَأَقِلَّ الضَّحِکَ فَإِنَّ کَثْرَةَ الضَّحِکِ تُمِيْتُ الْقَلْبَ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَالْبَيْهَقِيُّ۔
8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : الورع والتقوی، 2 / 1410، الرقم : 4217، والطبراني في مسند الشامیین، 1 / 215، الرقم : 385، والبیهقي في شعب الإیمان، 5 / 53، الرقم : 5750، وفي کتاب الزهد الکبیر، 2 / 309، الرقم : 822۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے ابوہریرہ! تقویٰ و ورع اختیار کرو تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے، قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے، جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لئے پسند کرو تو مومن بن جاؤ گے، اپنے ہمسایہ سے نیکی کرو تو مسلم بن جاؤ گے اور کم ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، … وَاعْلَمْ أَنَّ شَرَفَ الْمُؤْمِنِ قِیَامُ اللَّيْلِ وَعِزُّهُ اسْتِغْنَاؤُهُ عَنِ النَّاسِ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ۔
9 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 306، الرقم : 4278، والحاکم في المستدرک، 4 / 360، الرقم : 7921، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 348، الرقم : 10540، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 435۔
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اے محمد (ﷺ)!… جان لیجئے کہ مومن کی عظمت تہجد میں ہے اور اس کی عزت لوگوں سے مستغنی رہنے میں ہے۔‘‘ اسے امام طبرانی نے سند حسن کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
10۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَبَا ذَرٍّ، أَتَرَی کَثْرَةَ الْمَالِ ھُوَ الْغِنَی؟ قُلْتُ : نَعَمْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : أَفَتَرَی قِلَّةَ الْمَالِ ھُوَ الْفَقْرُ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : إِنَّمَا الْغِنَی غِنَی الْقَلْبِ وَالْفَقْرُ فَقْرُ الْقَلْبِ۔
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ۔
10 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 2 / 461، الرقم : 685، والحاکم في المستدرک، 4 / 363، الرقم : 7929، والطبراني في مسند الشامیین، 3 / 174، الرقم : 2020، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 290، الرقم : 10344۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا : اے ابو ذر! کیا تم سمجھتے ہو کہ مال و دولت کی فراونی دولت مندی ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ مال و دولت کا کم ہونا فقیری ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایسے ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اصل دولت مندی تو دل کا غنی ہونا ہے اور اصل فقیری دل کی فقیری ہے۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْقَنَاعَةُ کَنْزٌ لَا یَفْنَی۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ، وَالْمُنْذَرِيُّ۔
11 : أخرجه البیهقي في کتاب الزھد الکبیر، 2 / 88، الرقم : 104، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 72، الرقم : 63، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 335، الرقم : 1233۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قناعت ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال الإمام الشافعي رحمه الله : القناعۃ تورث الراحۃ۔
1 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 79۔
’’امام شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : قناعت سے راحت ملتی ہے۔‘‘
2۔ کان یعجب علي بن أبي طالب رضی الله عنه من اللباس ما قصر، ومن الطعام ما خشن۔
2 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 34۔
’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو وہی لباس پسند ہوتا جو کہ بقدر کفایت چھوٹا ہوتا اور وہی کھانا پسند ہوتا جو سادہ ہوتا۔‘‘
3۔ قال بشر الحافي رَحِمَهُ الله : القناعۃ : مَلَکٌ لا یَسْکُنُ إلا في قلبِ مؤمنٍ۔
3 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160۔
’’حضرت بشر حافی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : قناعت ایک ایسا فرشتہ ہے جو مومن کے دل کے سوا کہیں سکونت اختیار نہیں کرتا۔‘‘
4۔ قیل لأبي یزید البسطامي رَحِمَهُ الله : بماذا وصلتَ إلی ما وصلتَ؟ فقال : جمعتُ أسبابَ الدُّنیا، فربطتُها بحبل القناعۃ، ووضعتها في منجنیقِ الصدقِ، ورمیتُ بها في بحرِ الیأسِ فاسترحتُ۔
4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 161۔
’’کسی نے ابو یزید رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا کہ آپ اس مقام پر کیونکر پہنچے؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے دنیا کے اسباب کو جمع کر کے قناعت کی رسی سے باندھ دیا۔ پھر صدق کی منجنیق میں رکھ کر نا اُمیدی کے سمندر میں پھینک دیا، لهٰذا میں آرام میں رہا۔‘‘
5۔ قال الحارث المحاسبي رَحِمَهُ الله : والقانعُ غَنِيٌّ وإن جاعَ، والحریصُ فقیرٌ وإن مَلَک۔
5 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 60۔
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : قناعت کرنے والا غنی ہوتا ہے اگرچہ بھوکا ہو اور حریص فقیر ہوتا ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔‘‘
6۔ قال شقیق البلخي رَحِمَهُ الله : إذَا أرَدْتَ أَنْ تکونَ في راحةٍ، فَکُلْ ما أَصَبْتَ، والبَسْ ما وَجَدْتَ، وارْضَ بما قَضَی اللهُ عَلَيْک۔
6 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 66۔
’’حضرت شقیق بلخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب تو ارادہ کرے کہ تو راحت میں ہو تو جو ملے اسے کھا لے، جو پائے اسے پہن لے اور اس بات سے خوش رہ جس کا اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے فیصلہ فرما دیا ہے۔‘‘
7۔ قالَ أبو تُرَابٍ رَحِمَهُ الله : القناعةُ أَخْذُ القوتِ من الله عزوجل۔
7 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 151۔
’’حضرت ابو تراب رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : قناعت کرنا اللہ عزوجل سے قوت و طاقت حاصل کرنا ہے۔‘‘
8۔ قال مظفر رَحِمَهُ الله : الجوع - إذا ساعدته القناعۃ - مزرعۃ الفکرۃ، وینبوع الحکمۃ، وحیاۃ الفطنۃ، ومصباح القلب۔
8 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 397۔
’’شیخ مظفر رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بھوک پر جب قناعت مدد کرے تو ایسی بھوک افکار کی پیدائش کی جگہ، حکمت کا چشمہ، فطانت کی زندگی اور دل کا چراغ ہے۔‘‘
9۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : قیل : اَلْفُقَرَاءُ أَمْوَاتٌ إلا من أحیاه الله تعالی بعزِّ القناعۃ۔
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ محتاج لوگ مردے ہیں ماسوائے ان کے جن کو اللہ تعالیٰ قناعت کی عزت سے زندہ رکھے۔‘‘
10۔ قال القشیري رَحِمَهُ الله : قیل : القناعۃ السکون عند عدم المألوفات۔
10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ جن چیزوں سے انسان کو الفت ہے، ان کے نہ ہونے پر بھی سکون ہونے کا نام قناعت ہے۔‘‘
11۔ قال أبو بکر المراغي رَحِمَهُ الله : العاقلُ من دبّر أمر الدنیا بالقناعۃ والتسویف وأمر الآخرۃ بالحرص والتعجیل، وأمر الدین بالعلم والاجتهاد۔
11 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160۔
’’حضرت ابو بکر مراغی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : عقلمند وہ شخص ہے جو دنیاوی امور کی تدبیر قناعت اور بے رغبتی سے کرے اور آخرت کے امور کی تدبیر حرص اور جلد بازی سے کرے اور دین کے معاملات کی تدبیر، علم اور کوشش سے کرے۔‘‘
12۔ قال أبو عبد الله بن خفیف رَحِمَهُ الله : القناعۃ : ترکُ التَشَوّفِ إلی المفقودِ، والاستغناءُ بالموجودِ۔
12 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160
’’حضرت ابو عبد اللہ بن خفیف رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مفقود چیز کی امید کو ترک کرنے اور موجود چیز کے ساتھ استغناء کرنے کا نام قناعت ہے۔‘‘
13۔ قال القشیري رَحِمَهُ الله : یقال : القناعةُ : الاکتفاءُ بالمَوْجُوْدِ، وزوالُ الطمعِ فیما لیس بحاصل۔
13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 160۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ قناعت یہ ہے کہ تجھے جو چیز مل گئی ہے اس پر اکتفاء کرے اور جو چیز حاصل نہیں ہوئی، اس کا لالچ نہ کرے۔‘‘
14۔ قال القشیري رَحِمَهُ الله : قیل : وضعَ الله تعالی خمسةَ أشیاءَ في خمسةِ مواضعَ : العزّ في الطاعّۃ، والذلّ في المعصیةِ، والهیبۃ في قیامِ اللّیلِ، والحِکْمَۃ في البطن الخالي، والغِنی في القناعۃ۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 161۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو پانچ جگہوں پر رکھا ہے : عزت کو اطاعت میں، ذلت کو معصیت میں، ہیبت کو قیام اللیل میں، حکمت کو خالی پیٹ میں اور مالداری کو قناعت میں۔‘‘
15۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : رأی رَجُلٌ حکیماً یأکل ما تساقط من البقل علی رأس ماء، فقال : لو خَدَمْتَ السلطانَ لم تحتج إلی أکلِ هذا۔ فقال الحکیم : وأنت لو قَنَعْتَ بهذا لم تحتج إلی خدمۃ السلطان۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 161۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کہا گیا ہے کہ ایک شخص نے ایک دانا کو دیکھا کہ جو پانی پر گری ہوئی سبزی کھا رہا تھا۔ اس شخص نے دانا سے کہا : اگر تو (میری طرح) بادشاہ کی نوکری کر لیتا تو تجھے یہ کھانے کی نوبت نہ آتی۔ دانا نے جواب دیا : تو بھی اگر قناعت کر لیتا تو تجھے بادشاہ کی نوکری کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved