1۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ط اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo‘‘
2۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 155)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo‘‘
3۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(آل عمران، 3 : 200)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد و مجاہدہ کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکوo‘‘
4۔ وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِo
(الرعد، 13 : 22)
’’اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا (حسین) گھر ہےo‘‘
5۔ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَهُمْ وَالْمُقِيْمِی الصَّلَاةِ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo
(الحج، 22 : 35)
’’(یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو مصیبتیں انہیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیںo‘‘
6۔ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَo الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo
(العنکبوت، 29 : 58، 59)
’’(یہ) عملِ (صالح) کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہےo (یہ وہ لوگ ہیں) جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر ہی توکّل کرتے رہےo‘‘
7۔ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍo
(الزمر، 39 : 10)
’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گاo‘‘
8۔ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِo
(الشوری، 42 : 43)
‘‘اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہےo‘‘
9۔ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo
(العصر، 103 : 3)
’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہےo‘‘
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ یَحْکِي نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، فَهُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَیَقُوْلُ : رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : کتاب استتابۃ المرتدّین، باب : إذا عرّض الذّمّي وغیره بسبّ النّبيِ ﷺ، 6 / 2539، الرقم : 6530، ومسلم في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : غزوۃ أحد، 3 / 1417، الرقم : 1792، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : الصبر علی البلاء، 2 / 1335، الرقم : 4025، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 380، الرقم : 3611۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویا اب بھی میں(چشمِ تصور سے) حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک نبی کا ذکر فرما رہے ہیں جن کی قوم نے ان کو مارا اور لہو لہان کر دیا تو وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں : اے رب! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ جانتے نہیں ہیں(کہ میں کون ہوں)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه إِنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوْهُ، فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّی نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ : مَا یَکُوْنُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْکُمْ، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِهِ اللهُ، وَمَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ، وَمَالِکٌ، وَأَحْمَدُ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : الاستعفاف عن المسألۃ، 2 / 534، الرقم : 1400، ومالک في الموطأ، 2 / 997، الرقم : 1812، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 92، الرقم، 20014، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 93، الرقم : 11908، وأبو یعلی في المسند، 2 / 505، الرقم : 1352۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انصار کے کچھ افراد نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں مال عطا فرمایا۔ پھر سوال کیا تو آپ ﷺ نے پھر عطا فرما دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس مال ختم ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے میں تم سے بچا کر اسے جمع نہیں کرتا اور جو سوال کرنے سے بچے تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو مستغنی رہے اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی کر دے گا۔ جو صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا اور تم میں سے جس کو مال دیا جاتا ہے وہ صبر سے بہتر اور وسعت والا نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، مالک اور احمد نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَا فِيْهِ کَتَبَهُ اللهُ شَاکِرًا صَابِرًا وَمَنْ لَمْ تَکُونَا فِيْهِ لَمْ یَکْتُبْهُ اللهُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا مَنْ نَظَرَ فِي دِيْنِهِ إِلَی مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَی بِهِ وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْیَاهُ إِلَی مَنْ هُوَ دُوْنَهُ فَحَمِدَ اللهَ عَلَی مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ کَتَبَهُ اللهُ شَاکِرًا صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِي دِيْنِهِ إِلَی مَنْ هُوَ دُوْنَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْیَاهُ إِلَی مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَی مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ یَکْتُبْهُ اللهُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 58، 4 / 665، الرقم : 2512، والنسائي في عمل الیوم واللیل : 269، الرقم : 309، والطبراني في مسند الشامیین، 1 / 290، الرقم : 505، وابن المبارک في الزهد، 1 / 50، الرقم : 180، وابن أبي الدنیا في الشکر : 69، الرقم : 204۔
’’حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں لکھے گا۔ (وہ دو خصلتیں یہ ہیں : ) جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے۔ اور جو آدمی دینی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دنیاوی امور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَـلَاءً؟ قَالَ : اَلأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسْبِ دِيْنِهِ، فَإِنْ کَانَ دِيْنُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَـلَاؤُهُ، وَإِنْ کَانَ فِي دِيْنِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَی حَسْبِ دِيْنِهِ، فَمَا یَبْرَحُ الْبَـلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّی یَتْرُکَهُ یَمْشِي عَلَی الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ مُخْتَصَرًا، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
وفي روایۃ أحمد : قَالَ : إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ بَـلَاءً الْأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الَّذِيْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ یَلُوْنَھُمْ۔
وفي روایۃ للحاکم : قَالَ : اَ لْأَنْبِیَاءُ۔ قَالَ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : اَلْعُلَمَاءُ۔ قَالَ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المرضی، باب : أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل، 5 / 2139، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الصبر علی البلاء، 4 / 601، الرقم : 2398، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : الصبر علی البلاء، 2 / 1334، الرقم : 4023، 4024، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 369، الرقم : 27124، والحاکم في المستدرک، 1 / 99، الرقم : 119۔
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے) وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں مختصرًا روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں۔‘‘
امام حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے(درج بالا سوال کے جواب میں) فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام، پوچھا گیا ان کے بعد، تو آپ ﷺ نے فرمایا : علمائ، عرض کیا گیا کہ پھر کون تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صالحین۔‘‘
5۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ، قَالَ اللهُ لِمَلَائِکَتِهِ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي، فَیَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَیَقُوْلُ : قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ، فَیَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ۔ فَیَقُوْل : مَاذَا قَالَ عَبْدِي؟ فَیَقُوْلُوْنَ : حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُوْلُ اللهُ : ابْنُوْا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوْهُ بَيْتَ الْحَمْدِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، قَالَ أَبُو عِيْسَی : هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : فضل المصیبۃ إذا احتسب، 3 / 341، الرقم : 1021، وابن حبان في الصحیح، 7 / 210، الرقم : 2948، وابن المبارک في الزهد، 1 / 27، الرقم : 108، والمنذري في الترغیب والترهیب، 3 / 58، الرقم : 3068، وأیضاً، 4 / 174، الرقم : 5304، والهیثمي في موارد الضمآن، 1 / 185، الرقم : 862۔
’’حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی آدمی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کی؟ وہ کہتے ہیں : ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے اس کے دل کا ثمر قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہاں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندہ نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں : اس نے تیری تعریف کی اور إِنَّا ِللهِ وِإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس کے لئے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بَيْتُ الْحَمْد (تعریف والا گھر) رکھو۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : اَلزَّهَادَةُ فِي الدُّنْیَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيْمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَکِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْیَا أَلَّا تَکُوْنَ بِمَا فِي یَدَيْکَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي یَدِ اللهِ، وَأَنْ تَکُوْنَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيْبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيْهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِیَتْ لَکَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه، وَالطَّبَرَانِيُّ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الزھادۃ في الدنیا، 4 / 571، الرقم : 2340، وابن ماجه في السنن، کتاب، الزھد، باب : الزھد في الدنیا، 2 / 1373، الرقم : 4100، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 57، الرقم : 4100، والدیلمي في الفردوس، 3 / 403، الرقم : 5228۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زہد اور دنیا سے بے رغبتی حلال کو حرام کر دینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ زہد یہ ہے کہ جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے وہ اس سے زیادہ قابل اعتماد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جب تجھے مصیبت پہنچے تو اس کے ثواب (کے حصول) میں زیادہ رغبت رکھے اور یہ تمنا ہو کہ کاش یہ میرے لیے باقی رہتی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِیَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حِيْنَ یُعْطَی أَهْلُ الْبَـلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُوْدَهُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْیَا بِالْمَقَارِيْضِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالطَّبَرَانِيُّ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : 58، 4 / 603، الرقم : 2402، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 186، الرقم : 12829، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 375، الرقم : 6345، وفي شعب الإیمان، 7 / 180، الرقم : 9921، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 442، الرقم : 5356۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے کاش دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹے جاتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ، عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوْبَةَ فِي الدُّنْیَا، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَکَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّی یُوَافِيَ بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَـلَاءِ، وَإِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَـلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الصبر علی البلاء، 4 / 601، الرقم : 2396، وأبو یعلی في المسند، 7 / 247، الرقم : 4254، والحاکم في المستدرک، 4 / 651، الرقم : 8799، والدیلمي فيمسند الفردوس، 1 / 243، الرقم : 941۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے(اس کے گناہوں کی) جلد ہی دنیا میں سزا دے دیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔ اسی سند سے حضور نبی اکرم ﷺ سے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزماتا ہے۔ پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضگی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا یَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّی یَلْقَی اللهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الصبر علی البلاء، 4 / 602، الرقم : 2399، وابن حبان في الصحیح، 7 / 187، الرقم : 2924، والحاکم في المستدرک، 4 / 350، الرقم : 7879، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 158، الرقم : 9836۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن مرد اور عورت کو جان، مال اور اولاد میں مسلسل آزمایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
10۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ یُوْعَکُ، فَوَضَعْتُ یَدِي عَلَيْهِ فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ یَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَشَدَّهَا عَلَيْکَ۔ قَالَ : إِنَّا کَذَلِکَ یُضَعَّفُ لَنَا الْبَـلَاءُ وَیُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ۔ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ : اَ لْأَنْبِیَاءُ۔ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ، إِنْ کَانَ أَحَدُهُمْ لَیُبْتَلَی بِالْفَقْرِ حَتَّی مَا یَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَائَةَ یُحَوِّيْهَا، وَإِنْ کَانَ أَحَدُهُمْ لَیَفْرَحُ بِالْبَـلَاءِ کَمَا یَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالرَّخَاءِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔
10 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : الصبر علی البلاء، 4 / 411، الرقم : 4024، وابن حبان في الصحیح، 7 / 161، الرقم : 2901، والطبراني في المعجم الأ وسط، 9 / 31، الرقم : 9047، والحاکم في المستدرک، 4 / 342، الرقم : 7848، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 180، الرقم : 998۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ کو بخار ہو رہا تھا۔ میں نے چادر پر سے آپ ﷺ کے جسم مبارک پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو آپ ﷺ کے بخار کی گرمی مجھے محسوس ہوئی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اتنا تیز بخار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ہم پر مصیبت بھی سخت آتی ہے اور ثواب بھی دوگنا ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ، کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء پر۔ میں نے عرض کیا : پھر کن پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نیک لوگوں پر اور بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک کمبل کے سوا، جسے وہ اوڑھے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں سے بعض مصیبت سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم لوگ مال و دولت ملنے سے ہوتے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلصَّبْرُ نِصْفُ الْإِيْمَانِ۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ۔
11 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 7 / 123، الرقم : 9716، وفي الزهد الکبیر، 2 / 361، الرقم : 984، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 126، الرقم : 158، وهبۃ الله اللالکائي في اعتقاد أهل السنۃ، 5 / 931، الرقم : 1682۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبر نصف ایمان ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال عمر رضی اللہ عنہ : وجدنا خیر عیشنا بالصبر۔
1 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزہد : 174، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 50۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی بہترین زندگی صبر کے ساتھ پائی ہے۔‘‘
2۔ قال علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ : الصبرُ منَ الإیمانِ بمنزلةِ الرأسِ مِنَ الْجَسَدِ۔
2 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 183۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو سر کا بدن میں ہے۔‘‘
3۔ قال عليُّ بن أبي طالب رضی الله عنه : الصبر مطیّۃ لا تکبو۔
3 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 185۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : صبر ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔‘‘
4۔ حبس الشبلي رَحِمَهُ الله وقتاً في المارستان، فدخل علیه جماعۃ، فقال : من أنتم؟ فقالوا : أحباؤک جاء وک زائرین۔ فأخذ یرمیهم بالأحجار، وھم یهربون۔ وکان یقول لھم : یا کذابون، لو کنتم أحبائي لصبرتم علی بلائي۔
4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 186۔
’’حضرت شبلی رَحِمَهُ اللہ کو پاگل خانے میںقید کر دیا گیا، کچھ لوگ ان کی ملاقات کے لئے گئے۔ شبلی نے پوچھا : تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہم تمہارے دوست ہیں اور تمہاری زیارت کے لئے آئے ہیں۔ اس پر شبلی نے انہیں پتھر مارنے شروع کر دیئے اور وہ لوگ بھاگنے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر شبلی نے کہا : ارے جھوٹو! اگر تم میرے دوست ہوتے تو میرے آزمانے پر صبر کرتے۔‘‘
5۔ قال الحارث المحاسبي رَحِمَهُ الله : لکلِّ شيئٍ جَوْهَرٌ، وجَوْهَرُ الإنسانِ العقلُ، وجَوْهَر العقل الصَّبْرُ۔
5 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 59۔
’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہر شے کا جوہر ہوتا ہے۔ انسان کا جوہر عقل ہے اور عقل کا جوہر صبر ہے۔‘‘
6۔ قال الخوَّاص رَحِمَهُ الله : الصبر هو الثبات علی أحکام الکتاب والسنۃ۔
6 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 184، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 118۔
’’حضرت خواص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : کتاب و سنت کے احکام پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔‘‘
7۔ سئل السري رَحِمَهُ الله عن الصبر، فأخذ یتکلّم فیه، فدبّت علی رجله عقرب، وهي تضربه بإبرتها ضربات کثیرۃ، وهو ساکن لا یحرّک، فقیل له : لماذا لم تُبعد العقربَ عن رجلک؟ قال : استحییتُ من اللهِ تعالی أن أتکلّم في الصبر، ولم أصبر۔
7 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 187۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صبر پر گفتگو فرمانے لگے۔ اسی دوران ایک بچھو ان کی ٹانگ پر چڑھ گیا اور کئی ایک ڈنگ مارے مگر آپ نے قطعاً حرکت نہ کی۔ آپ سے کسی نے کہا کہ آپ نے اسے ہٹا کیوں نہیں دیا؟ فرمایا : مجھے اللہ سے شرم آ گئی کہ میں صبر کے متعلق گفتگو تو کروں مگر خود صبر نہ کروں۔‘‘
8۔ قال شقیق البلخي رَحِمَهُ الله : الصَّبرُ والرّضا شکلانِ، إذا تعمَّدتَ في العملِ فإِنَّ أولهَ صَبْرٌ، وآخرَهُ رِضا۔
8 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 66۔
’’حضرت شقیق بلخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : صبر اور رضا دو صورتیں ہیں۔ جب تو عمل کرنا شروع کرے تو اس کا آغاز صبر ہے اور اس کا انجام رضا ہے۔‘‘
9۔ قال ذو النون رَحِمَهُ الله : الصبر : التباعد عن المخالفات، والسکونُ عند تجرع غصص البلیۃ، وإظهار الغنی مع حلول الفقر بساحات المعیشۃ۔
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 184، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 117۔
’’حضرت ذو النون رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ کے احکام کی مخالفت سے دور رہنے، مصائب کے گھونٹ پینے پر سکون و اطمینان، اور زندگی کے میدان میں محتاجی کے باوجود اپنے آپ کو مالدار ظاہر کرنے کا نام صبر ہے۔‘‘
10۔ قال أبو علي الدقاق رَحِمَهُ الله (في باب الصبر) : فاز الصابرون بعز الدارین۔ لأنھم نالوا من الله معیته۔ فإن الله مع الصابرین۔
10 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 118۔
’’حضرت ابو علی الدقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : صابرین دونوں جہانوں کی عزت کے ساتھ کامیاب ہوئے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کی۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
11۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : الصبر ھو المقامُ مع البلائِ بِحُسْن الصحبۃ، کالمقامِ مع العافیةِ۔
11 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 184۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ جس طرح انسان عافیت کے ہوتے ہوئے اپنی حالت پر ثابت قدم رہتا ہے، اسی طرح اچھے آداب کے ساتھ مصیبت پر ثابت قدم رہنا صبر کہلاتا ہے۔‘‘
12۔ قال عمرو بن عثمان رَحِمَهُ الله : الصبر هو الثبات مع الله سبحانه و تعالیٰ، وتلقي بلائه بالرحب والدعۃ۔
12 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 184، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 118۔
’’حضرت عمرو بن عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے احکام پر ثابت قدم رہنا اور اس کی آزمائش کو خندہ پیشانی اور سکون کے ساتھ قبول کرنا صبر ہے۔‘‘
13۔ قال یحیی رَحِمَهُ الله : عند نُزول البلاء، تظهر حقائقُ الصَّبر، وعند مُکاشَفَۃ المَقْدُور، تظهرُ حقائقُ الرّضا۔
13 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 113۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بلاؤں کے نزول سے صبر کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں اور تقدیر کے ظاہر ہونے سے رضا کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔‘‘
14۔ قال خیر النساج رَحِمَهُ الله : الصبر من أخلاق الرجال، والرضا من أخلاق الکرام۔
14 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 322۔
’’حضرت خیر النساج رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : صبر مردوں کے اخلاق میں سے ہے اور رضا کریم لوگوں کے اخلاق میں سے ہے۔‘‘
15۔ قال أبو حامد البلخي رحمه الله : من صبر علی صبر فهو الصابر لا من صبر وشکا۔
15 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 123۔
’’حضرت ابو حامد بلخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے صبر پر صبر کیا وہی صابر ہے نہ کہ وہ جس نے صبر کیا اور شکوہ کیا۔‘‘
16۔ قال الإمام القسطلاني رَحِمَهُ الله : ومن علامات محبته ﷺ التسلي عن المصائب، فإن المحب یجد في ھذه المحبۃ ما ینسیه المصائب، ولا یجد في مسھا ما یجد غیره۔
16 : أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 495۔
’’امام قسطلانی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ مصائب پر صبر کرے کیونکہ اس محبت سے محب کو ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ وہ مصائب کو بھلا دیتی ہے اور ان مصائب سے دوسروں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اسے نہیں پہنچتی۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved