1۔ فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
(البقرۃ، 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘
2۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ وَ اشْکُرُوْا ِللهِ اِنْ کُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَo
(البقرۃ، 2 : 172)
’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہوo‘‘
3۔ مَا یَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ط وَکَانَ اللهُ شَاکِرًا عَلِيْمًاo
(النساء، 4 : 147)
’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدرشناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہےo‘‘
4۔ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo
(إبراهیم، 14 : 7)
’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہےo‘‘
5۔ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ قف لِیَبْلُوَنِيْٓ ءَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِیٌّ کَرِيْمٌo
(النمل، 27 : 40)
’’یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکرگزاری کرتا ہوں یا ناشکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہےo‘‘
6۔ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰـنَ الْحِکْمَةَ اَنِ اشْکُرْ ِللهِ ط وَمَنْ يَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفسِهٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ حَمِيْدٌo
(لقمان، 31 : 12)
’’اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت و دانائی عطا کی، (اور اس سے فرمایا) کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو بیشک اللہ بے نیاز ہے (خود ہی) سزاوارِ حمد ہےo‘‘
7۔ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ قف وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِهِ الْکُفْرَ ج وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَهُ لَکُمْ۔
(الزمر، 39 : 7)
’’اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے۔‘‘
8۔ بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِيْنَo
(الزمر، 39 : 66)
’’بلکہ تُو اللہ کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جاo‘‘
1۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّی تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : لِمَ تَصْنَعُ هَذَا یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ : أَفَـلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب : قوله لیغفرلک الله ما تقدم من ذنبک وما تأخر، 4 / 1830، الرقم : 4557، ومسلم في الصحیح، کتاب : صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب : إکثار الأعمال والاجتهاد في العبادۃ، 4 / 2172، والترمذي عن المغیرۃ بن شعبۃ في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في الاجتهاد في الصلاۃ، 2 / 268، الرقم : 412۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت اس قدر قیام فرمایا کرتے کہ دونوں قدم مبارک پھٹ جاتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں شکرگزار بندہ بنوں؟۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ لَیَرْضَی عَنِ الْعَبْدِ أَنْ یَأْکُلَ الْأَکْلَةَ فَیَحْمَدَهُ عَلَيْهَا أَوْ یَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَیَحْمَدَهُ عَلَيْهَا۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالتِّرْمِذِيُّ۔
2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : استحباب حمد الله تعالی بعد الأکل والشرب، 4 / 2095، الرقم : 2734، والترمذي في السنن، کتاب : الأطعمۃ، باب : ما جاء في الحمد علی الطعام إذا فرغ منه، 4 / 265، الرقم : 1816۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات سے(بھی) راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کا شکر ادا کرے یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ کُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزهد والرقائق، باب : المؤمن أمره کله خیر، 4 / 2295، الرقم : 2999، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 15، الرقم : 23969، والمنذري في الترغیب والترهیب، 4 / 140، الرقم : 5149۔
’’حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کی(اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اس کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه، قَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 43، 4 / 653، الرقم : 2486، وابن ماجه في السنن، کتاب : الصیام، باب : فیمن قال الطاعم الشاکر کالصائم الصابر، 1 / 561، الرقم : 1764، وأبو یعلی في المسند، 11 / 459، الرقم : 6582۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھانے پر شکر کرنے والا درجہ میں صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَا فِيْهِ کَتَبَهُ اللهُ شَاکِرًا صَابِرًا، وَمَنْ لَمْ تَکُوْنَا فِيْهِ لَمْ یَکْتُبْهُ اللهُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا، مَنْ نَظَرَ فِي دِيْنِهِ إِلَی مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَی بِهِ، وَنَظَرَ فِي دُنْیَاهُ إِلَی مَنْ هُوَ دُوْنَهُ فَحَمِدَ اللهَ عَلَی مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ کَتَبَهُ اللهُ شَاکِرًا صَابِرًا، وَمَنْ نَظَرَ فِي دِيْنِهِ إِلَی مَنْ هُوَ دُوْنَهُ، وَنَظَرَ فِي دُنْیَاهُ إِلَی مَنْ هُوَ فَوْقَهُ، فَأَسِفَ عَلَی مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ یَکْتُبْهُ اللهُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 58، 4 / 665، الرقم : 2512، والنسائي في عمل الیوم واللیل : 269، الرقم : 309، والطبراني في مسند الشامیین، 1 / 290، الرقم : 505، وابن المبارک في الزهد، 1 / 50، الرقم : 180، وابن أبي الدنیا في الشکر : 69، الرقم : 204، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 323، الرقم : 6125۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں لکھے گا (وہ دو خصلتیں یہ ہیں : ) جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی، اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے۔ اور جو آدمی دینی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دنیاوی امور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا، اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللهَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَبُوْ دَاوُدَ، وَأَحْمَدُ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : البر والصلۃ، باب : ما جاء في الشکر لمن أحسن إلیک، 4 / 339، الرقم : 1954، وأبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : في شکر المعروف، 4 / 255، الرقم : 4811، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 295، 302، 388، 461، الرقم : 7926، 8006، 9022، 9945، والبزار في المسند، 8 / 226، الرقم : 3682۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا گویا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْیَجْزِ بِهِ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیُثْنِ بِهِ، فَمَنْ أَثْنَی بِهِ فَقَدْ شَکَرَهُ، وَمَنْ کَتَمَهُ فَقَدْ کَفَرَهُ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ۔
7 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : في شکر المعروف، 4 / 255، الرقم : 4813، وابن حبان في صحیح، 8 / 203، الرقم : 3415، والبیهقي في السنن الکبری، 6 / 182، الرقم : 11810، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 347، الرقم : 1147۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو کوئی چیز دی جائے تو اگر اس میں طاقت ہو تو اس کا بدلہ دے اور اگر استطاعت نہ ہو تو اس (چیز دینے والے) کی تعریف کرے۔ پس جس نے اس کی تعریف کی اس نے شکریہ ادا کیا اور جس نے اسے (اس کی عطا کو) چھپایا اس نے ناشکری کی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النّبيِّ ﷺ أَنَّهُ کَانَ إِذَا جَاءَ هُ أَمْرُ سُرُوْرٍ أَوْ بُشِّرَ بِهِ خَرَّ سَاجِدًا شَاکِرًا ِللهِ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه۔
8 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في سجود الشکر، 3 / 89، الرقم : 2774، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في الصلاۃ والسجدۃ عند الشکر، 1 / 446، الرقم : 1394، والحاکم في المستدرک، 1 / 441، الرقم : 1025۔
’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی مسرت افزا خبر یا خوشخبری آتی تو آپ ﷺ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنے کی غرض سے سجدہ ریز ہو جاتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَبَا ھُرَيْرَةَ، کُنْ وَرِعًا تَکُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَکُنْ قَنِعًا تَکُنْ أَشْکَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِمًا، وَأَقِلَّ الضَّحِکَ فَإِنَّ کَثْرَةَ الضَّحِکِ تُمِيْتُ الْقَلْبَ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَالْبَيْهَقِيُّ۔
9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : الورع والتقوی، 2 / 1410، الرقم : 4217، والطبراني في مسند الشامیین، 1 / 215، الرقم : 385، والبیهقي في شعب الإیمان، 5 / 53، الرقم : 5750، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 342، الرقم : 8379۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے ابوہریرہ! تقویٰ و ورع اختیار کرو تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے، قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے، جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لئے پسند کرو تو مومن بن جاؤ گے، اپنے ہمسایہ سے نیکی کرو تو مسلم بن جاؤ گے اور کم ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنِ ابْنِ أَعْبَدَ قَالَ : قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه : ھَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الطَّعَامِ؟ قُلْتُ : وَمَا حَقُّهُ؟ قَالَ : تَقُوْلُ بِسْمِ اللهِ، اَللَّھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا، ثُمَّ قَالَ : وَتَدْرِي مَا شُکْرُهُ؟ قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شُکْرُهُ؟ قَالَ : تَقُوْلُ : اَلْحَمْدُ ِللهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ، وَالْبَيْهَقِيُّ۔
10 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 139، الرقم : 24509، و 6 / 72، الرقم : 29564، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 153، الرقم : 1312، وفي فضائل الصحابۃ، 2 / 705، الرقم : 1207، وأبونعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 70، والبیهقي في شعب الإیمان، 5 / 123، الرقم : 6040۔
’’حضرت ابن اعبد بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا : کیا جانتے ہو کہ کھانے کا حق کیا ہے؟ میں نے عرض کیا : کھانے کا حق کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پہلے بسم اللہ پڑھو، پھر ’’اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا‘‘ (اے اللہ! جو رزق تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس میں برکت ڈال) کہو۔ پھر فرمایا : اور کیا تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر سے کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (حضور آپ ہی بتا دیں کہ) اللہ تعالیٰ کے شکر سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو یہ کہہ : ’’اَلْحَمْدُ ِللهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا‘‘ (تمام تعریفیں اس رب کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا)۔‘‘ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال داود علیه السلام : إلهي، کیف أشکرک، وشکري لک نعمۃ من عندک؟ فأوحی الله إلیه : الآن قد شکرتني۔
1 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 175۔
’’حضرت داؤد ں نے عرض کیا : اے باری تعالیٰ! میں تمہارا کیسے شکر ادا کروں؟ جبکہ میرا شکر ادا کرنا بھی تمہاری ایک عنایت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اب تو نے میرا شکر ادا کیا ہے۔‘‘
2۔ التزم الحسن بن عليّ رضی الله عنه الرکن وقال : إلهي، أنعمت عليّ فلم تجدني شاکراً، وابتلیتني فلم تجدني صابراً، فلا أنت سلبت النعمۃ بترک الشکر ولا أدمت الشدۃ بترک الصبر، إلهي، ما یکون من الکریم إلا الکرم۔
2 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 176۔
’’امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کے رکن سے چمٹ کر کہا : اے اللہ! تو نے مجھ پر انعام کیا مگر تو نے مجھے شاکر نہ پایا، تو نے مجھے (آزمائش میں) مبتلا کیا مگر مجھے صابر نہ پایا۔ میرے شکر ادا نہ کرنے کے باوجود تو نے مجھ سے اپنی عنایات کو روک نہیں لیا اور نہ ہی میری بے صبری کی وجہ سے تو نے مصیبت کو دائم رکھا۔ یا الٰہی! ایک کریم سے کرم کے سوا کیا ظاہر ہو گا۔‘‘
3۔ قال مجاهد رَحِمَهُ الله في قول الله تعالی : {اِنَّهٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًاo} [الإسراء، 17 : 3] : لم یأکل شیئا قط إلا حمد الله تعالی، ولم یشرب شیئا قط إلا حمد الله تعالی، ولم یمش ممشی قط إلا حمد الله تعالی، ولم یبطش بشيء قط إلا حمد الله تعالی، فأثنی الله تعالی علیه : {اِنَّهٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًاo}۔
3 : أخرجه ابن المبارک في کتاب الزهد : 280، وابن أبي الدنیا في الشکر : 70، الرقم : 206، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 62 / 274، والبیهقي في شعب الإیمان، 4 / 113، الرقم : 4472۔
’’حضرت مجاہد رَحِمَهُ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان {بے شک نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار بندے تھےo} کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ (حضرت نوح علیہ السلام) جب کوئی چیز کھاتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے، جب کوئی چیز پیتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے، جب چلتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے، جب کوئی چیز پکڑتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں فرمایا : {بے شک نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار بندے تھےo}۔‘‘
4۔ قال الجنید رَحِمَهُ الله : الشکر أن لا تری نفسک أھلًا للنعمۃ۔
4 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 181۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حقیقت میں شکر یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو نعمت کا اہل نہ پائے۔‘‘
5۔ قال الشبلي رَحِمَهُ الله : الشکر رؤیۃ المنعم لا رؤیۃ النعمۃ۔
5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 175، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 181۔
’’حضرت شبلی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : احسان کرنے والے کو نگاہ میں رکھنا شکر ہے، نہ کہ احسان کو نگاہوں میں رکھنا۔‘‘
6۔ قال الفضیل بن عیاض رَحِمَهُ الله : إن من شکْرِ النعمۃ أن نُحَدِّثَ بها۔
6 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 13۔
’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : نعمت کا چرچا کرنا بھی ایک طرح سے نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔‘‘
7۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : الشکر معرفۃ العجز عن الشکر۔
7 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 181۔
’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حقیقتِ شکر، اس امر کا جان جانا ہے کہ میں کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتا۔‘‘
8۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : شکرُ العامۃ علی المطعم والملبس، وشکر الخواص علی ما یرد علی قلوبهم من المعاني۔
8 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 175۔
’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : عوام کا شکر تو کھانے اور لباس پر ہوتا ہے، مگر خواص تو(اس کے علاوہ) ان واردات پر شکر ادا کرتے ہیں جو ان کے دلوں پر وارد ہوتی ہیں۔‘‘
9۔ قال الحارثُ رَحِمَهُ الله : من لم یشکُرِ اللهَ علی النِّعمةِ، فقد استدْعَی زوالَها۔
9 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 60۔
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو شخص کسی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا تو وہ اس نعمت کے زوال کو دعوت دے رہا ہوتا ہے۔‘‘
10۔ قال أبو علي الروذباري رَحِمَهُ الله : لا رضی لمن لا یصبر، ولا کمال لمن لا یشکر۔
10 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 357۔
’’ابو علی روذباری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اس کو رضا نصیب نہیں ہوتی جو صبر نہیں کرتا اور اس کو کمال حاصل نہیں ہوتا جو شکر نہیں کرتا۔‘‘
11۔ تذاکروا عِنْدَ یحیی بن مُعَاذٍ في الفقرِ والغِنَی، فقال : لا یُوْزَنُ غداً لا الفقرُ ولا الغِنَی، وإنما یُوْزَنُ الصَّبْرُ وَالشُّکْرُ، فیقال : یشکر ویصبر۔
11 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 277۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ کی موجودگی میں فقر اور غنی کا ذکر چھڑا تو فرمایا : قیامت کے دن نہ تو فقر کا وزن ہو گا اور نہ ہی غناء کا، وہاں صرف صبر و شکر کا وزن ہو گا اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے شکر اور صبر کیا۔‘‘
12۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : مر أحد الأنبیاء ں بحجر صغیر یخرج منه الماء الکثیر، فتعجب منه، فانطقه الله تعالی، فقال الحجر : منذ سمعت الله تعالی یقول : {فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} [البقره، 2 : 24] وأنا أبکي من خوف الله سبحانه و تعالیٰ۔ قال : فدعا ذلک النبي أن یجیر الله ذلک الحجر۔ فأوحی الله تعالی إلیه : إني أجرته من النار، فمرّ ذلک النبي، فلما عاد وجد الماء یتفجر منه مثل ذلک، فعجب، فانطق الله ذلک الحجر فسأله : لِمَ تبکي، وقد غفر الله لک؟ فقال : ذلک کان بکاء الحزن والخوف، وهذا بکاءُ الشکر والسرور۔
12 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 177۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ ایک نبی، ایک چھوٹے سے پتھر کے پاس سے گزرے، جس سے پانی کثرت سے نکل رہا تھا۔ نبی کو اس پر تعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے پتھر کی ان سے گفتگو کرا دی۔ پتھرنے کہا : جب سے میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے : {فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} ’’اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘ میں ڈر کے مارے رو رہا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ اس نبی نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اس پتھر کو دوزخ سے پناہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی کو خبر دی کہ ہم نے اسے پناہ دے دی۔ یہ سن کر نبی وہاں سے روانہ ہو گئے۔ (کچھ عرصہ کے بعد)واپس آئے تو دیکھا کہ اس پتھر سے پانی بدستور پھوٹ رہا ہے۔ انہیں پھر تعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر پتھر کو گویائی دے دی۔ نبی نے پوچھا : اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کر دیا ہے، تو کیوں رو رہا ہے؟ پتھر نے جواب دیا : وہ رونا غم اور خوف کا تھا اور یہ رونا شکر اور سرور کا ہے۔‘‘
13۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : شکر العینین : أن تستر عیباً تراه بصاحبک، وشکر الأذنین : أن تستر عیباً تسمعه عنه۔
13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 175۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ تو لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالے اور کان کا شکر یہ ہے کہ جو عیب کی بات سنے اس پر پردہ ڈالے۔‘‘
14۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : إذا قصرت یدک عن المکأفۃ فلیطل لسانک بالشکر۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 176۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ جب تو جزا دینے سے قاصر ہو تو اپنی زبان کے ساتھ شکر گزاری میں کثرت کر۔‘‘
15۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : یقال الشاکر : الذي یشکر علی النفع، والشکور : الذي یشکر علی المنع۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 175۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ شاکر وہ ہے جو کسی عطیہ پر شکر کرے اور شکور (بہت زیادہ شکر گزار)، وہ ہے جو نہ ملنے پر بھی شکر کرے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved