1۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ط وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ط فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ط وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِo
(آل عمران، 3 : 185)
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتا کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیںo‘‘
2۔ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌo
(لقمان، 31 : 34)
’’اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے (یعنی علیم بالذات ہے اور خبیر للغیر ہے، از خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے اسے باخبر بھی کردیتا ہے)o‘‘
3۔ فَاِذَا جَآء اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَo
(النحل، 16 : 61)
’’پھر جب ان کا مقرر وقت آ پہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیںo‘‘
4۔ وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَآاَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِيْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا ط وَاللهُ خَبِيْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَo
(المنافقون، 64 : 10، 11)
’’اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے : اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کرلیتا اور نیکوکاروں میں سے ہوجاتاo اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہوo‘‘
5۔ حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِo لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط اِنَّهَا کَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا ط وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo
(المؤمنون، 23 : 99، 100)
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دےo تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ہر گز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطورِ حسرت) کہہ رہا ہو گا، اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گےo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ کَرِهَ لِقَاءَ اللهِ کَرِهَ اللهُ لِقَاءَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : من أحب لقاء الله أحب الله لقاء ه، 5 / 2387، الرقم : 6143، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : من أحب لقاء الله أحب الله لقاء ه ومن کره لقاء الله کره الله لقاء ه، 4 / 2066، 2067، الرقم : 2684، 2686، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 207، الرقم : 25769، 6 / 236، الرقم : 26031۔
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا نا پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند فرماتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ : قَالَ : قَالَ اللهُ إِذَا أَحَبَّ عَبْدِي لِقَائِي أَحْبَبْتُ لِقَائَهُ، وَإِذَا کَرِهَ لِقَائِي کَرِھْتُ لِقَائَهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : یریدون أن یبدلوا کلام الله، 6 / 2725، الرقم : 7065، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : فیمن أحب لقاء الله، 4 / 10، الرقم : 1835، ومالک في الموطأ، 1 / 240، الرقم : 569، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 418، الرقم : 9400، وابن حبان في الصحیح، 2 / 84، الرقم : 363۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) : جب بندہ میری ملاقات کو پسند کرتا ہے تو میں بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہوں اور جب وہ میری ملاقات کو ناپسند کرتاہے تو میں بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : ارْتَحَلَتِ الدُّنْیَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً، وَلِکُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُوْنَ، فَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ، وَلَا تَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْیَا، فَإِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : فِي الأمل وطُوله، 5 / 2358، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 100، الرقم : 34495، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 369، الرقم : 10614۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دنیا پیٹھ پھیر کر چلی جانے والی اور آخرت پیش آنے والی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں، مگر تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے نہ بن جانا کیونکہ آج عمل ہے حساب نہیں، لیکن کل حساب ہو گا اور عمل نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّھَا قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ (کُلَّمَا کَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ) یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَی الْبَقِيْعِ، فَیَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ، وَأَتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، غَداً مُؤَجَّلُوْنَ، وإنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ۔ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيْعِ الْغَرْقَدِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجنائز، باب : ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا، 2 / 669،الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : الأمر بالاستغفار للمؤمنین، 4 / 93، الرقم : 2039، وأبو یعلی في المسند، 8 / 199، الرقم : 4758، وابن حبان في الصحیح، 7 / 444، الرقم : 3172۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (کی جب میرے ہاں باری ہوتی تو آپ ﷺ) رات کے آخری پہر بقیع (قبرستان) میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے) فرماتے : اے مومنوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو،جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد (اہلِ مدینہ کا قبرستان) والوں کی مغفرت فرما۔‘‘ اسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَکْثِرُوْا ذِکْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ یَعْنِي الْمَوْتَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزهد باب : ما جاء في ذکر الموت، 4 / 553، الرقم : 2307، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : کثرۃ ذکر الموت، 4 / 4، الرقم : 19824، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الاستعداد له، 2 / 1422، الرقم : 4258، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 78، الرقم : 34327۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو زیادہ یاد کیا کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
6۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ : یَا أَیُّهَا النَّاسُ، اذْکُرُوا اللهَ، اذْکُرُوا اللهَ، جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ، جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ الْقیامۃ والرّقائق والورعِ، باب : 23، الرقم : 2457، والحاکم في المستدرک، 2 / 457، الرقم : 3578، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 89، الرقم : 170، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 272، الرقم : 8160۔
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رات کا تہائی حصہ گزر جاتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اٹھ کھڑے ہوتے اور فرماتے : اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو (قیامت کا) پہلا نفخہ آ چکا، دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت اپنی ہولناکیوں سمیت آ پہنچی، موت اپنی سختیوں سمیت آچکی۔‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
7۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِقُبُوْرِ الْمَدِيْنَةِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ یَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ، یَغْفِرُ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالأَثَرِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما یقول الرجل إذا دخل المقابر، 2 / 357، الرقم : 1053، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 107، الرقم : 12613۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کے قبرستان سے گزرے تو قبروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے اہلِ قبور! تم پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے پہنچے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘
اسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
8۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : کُنْتُ نَھَيْتُکُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُوْرُوْھَا، فَإِنَّھَا تُزَھِّدُ فِي الدُّنْیَا، وَتُذَکِّرُ الْآخِرَةَ۔
رَوَاهُ ابنُ مَاجَه وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ۔
8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في زیارۃ القبور، 1 / 501، الرقم : 1571، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 572، الرقم : 6714، والحاکم في المستدرک، 1 / 531، الرقم : 1387، وابن حبان في الصحیح، 3 / 261، الرقم : 981۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارت کیا کرو کیونکہ یہ دنیا میں زاہد بناتی ہے (دنیا کی دولت سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے) اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّهُ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَجَاءهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ أَفْضَلُ؟ قَالَ : أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، قَالَ : فَأَيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ أَکْیَسُ؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا أُوْلَئِکَ الْأَکْیَاسُ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔
9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الموت والاستعداد له، 2 / 1423، الرقم : 4259، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 61، الرقم : 4671، والحاکم في المستدرک، 4 / 583، الرقم : 8623، وابن المبارک في کتاب الزهد : 114۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ انصار میں سے ایک آدمی حاضرِ بارگاہ ہوا اور اس نے بارگاهِ نبوی میں سلام پیش کیا۔ پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کون سا مومن افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو تم میں سے اخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے۔ پھر عرض کیا گیا کہ کون سا مومن عقلمند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو ان میں سے سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا ہے اور اس کے بعد کے لئے اچھی تیاری کرنے والا ہے وہی عقلمند ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِيْدٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : اثْنَتَانِ یَکْرَهُهُمَا ابْنُ آدَمَ : الْمَوْتَ، وَالْمَوْتُ خَيْرٌ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَیَکْرَهُ قِلَّةَ الْمَالِ، وَقِلَّةُ الْمَالِ أَقَلُّ لِلْحِسَابِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
10 : أخرجه أحمد في المسند، 5 / 427 الرقم : 23674، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 73، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 321۔
’’حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو چیزوں کو آدم کا بیٹا برا سمجھتا ہے (ایک) موت کو جب کہ موت اس کے لئے آزمائش سے بہتر ہے اور کم مال و دولت کو جب کہ کم مال و دولت کا حساب بھی کم ہو گا۔‘‘
اسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے، اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
11۔ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ : صَحَبْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما مِنْ مَکَّةَ إِلَی الْمَدِيْنَةِ وَمِنَ الْمَدِيْنَةِ إِلَی مَکَّةَ وَکَانَ یُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ فَإِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا قَامَ شَطْرَ اللَّيْلِ وَیُرَتِّلُ الْقُرْآنَ یَقْرَأُ حَرْفًا حَرْفًا وَیُکْثِرُ فِي ذَالِکَ مِنَ النَّشِيْجِ وَالنَّحِيْبِ وَیَقْرَأُ : {وَجَاءَتْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ} [قٓ، 50 : 19]۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْھَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
11 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 244، الرقم : 35720، والبیھقي في شعب الإیمان، 2 / 365، الرقم : 2061، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 2 / 950، الرقم : 1840، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 3 / 342، 352، وابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 755۔
’’حضرت ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ اور پھر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی صحبت اختیار کی اور آپ دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے اور جب کسی جگہ رک کر قیام کرتے تو آدھی رات کو بیدار ہوتے اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پاک کی تلاوت فرماتے، ایک ایک حرف کو پڑھتے اور اس میں آہ و بکاء کرتے اور خوب روتے (یہاں تک کہ آپ کی ہچکی بندھ جاتی) اور یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے : {وَجَائَ تْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدٌ} ’’اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آ پہنچی۔ (اے انسان!) یہی وہ چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد بن حنبل اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَکْیَسُ الْمُؤْمِنِيْنَ أَکْثَرُهُمْ ذِکْرًا وَأَحْسَنُهُمْ لِلْمَوْتِ اسْتِعْدَادًا أُوْلَئِکَ الْأَکْیَاسُ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
12 : أخرجه ابن ماجہ في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر الموت والاستعداد لہ، 2 / 1423، الرقم : 4259، والبیہقي في شعب الإیمان، 7 / 351، الرقم : 10549، وفي کتاب الزھد الکبیر، 2 / 190، الرقم : 456، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 313۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جملہ مومنین سے عقلمند وہ ہے جو ان میں سے سب زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا اور اچھے طریقے سے موت کی تیاری کرنے والا ہے اور اسی طرح کے لوگ (جن میں یہ دو صفات پائی جائیں) ہی عقلمند ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔
13۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ مَا طَرَفَتْ عَيْنَايَ إِلَّا ظَنَنْتُ أَنَّ شَفْرَيَّ لَا یَلْتَقِیَانِ حَتَّی أُقْبَضَ وَلَا رَفَعْتُ طَرْفَيَّ فَظَنَنْتُ أَنِّي وَاضِعُهُ حَتَّی أُقْبَضَ وَلَا لَقَمْتُ لُقْمَةً فَظَنَنْتُ أَنِّي لَا أَسِيْغُھَا حَتَّی أَغَصَّ بِھَا مِنَ الْمَوْتِ۔ ثُمَّ قَالَ : یَا بَنِي آدَمَ، إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ فَعُدُّوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ الْمَوْتَی وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ إِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
13 : أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 2 / 365، الرقم : 1505، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 355، الرقم : 10564، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 6 / 91، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 8 / 75، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 552۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب بھی میں آنکھ جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں پلکیں اکٹھی ہونے سے پہلے ہی میری جان قبض نہ کر لی جائے اور میں جب بھی کسی چیز کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو مجھے گمان گزرتا ہے کہ نگاہ نیچی کرنے سے پہلے میری جان قبض کر لی جاے گی اور میں جب بھی کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ اسے پیٹ تک نہیں پہنچا سکوں گا اور اس سے نفع اندوز نہیں ہو سکوں گا بلکہ عین ممکن ہے کہ یہی لقمہ گلے میں اٹک جائے اور موجب موت بن جائے (یعنی ہر وقت اور ہر لحظہ موت سر پر کھڑی محسوس ہوتی تھی اور کسی لمحہ اس سے غافل نہیں ہوتے تھے) پھر فرمایا : اے بنی آدم! اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے کو اموات میں شمار کرو۔ اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جس (موت، قیامت اور عذاب و ثواب) کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے وہ لامحالہ آنے والا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو اور اس کے ملائکہ کو عاجز کر دینے والے نہیں ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
14۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یُوشِکُ أَنْ تَدَاعَی عَلَيْکُمُ الْأُمَمُ مِنْ کُلِّ أُفُقٍ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَةُ عَلَی قَصْعَتِهَا قَالَ : قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللهِ، أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا یَوْمَئِذٍ قَالَ : أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِيْرٌ وَلَکِنْ تَکُوْنُوْنَ غُثَاء کَغُثَاءِ السَّيْلِ یَنْتَزِعُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوْبِ عَدُوِّکُمْ وَیَجْعَلُ فِي قُلُوْبِکُمُ الْوَهْنَ قَالَ : قُلْنَا : وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ : حُبُّ الْحَیَاةِ وَکَرَاهِیَةُ الْمَوْتِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
14 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 278، الرقم : 22450، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 182۔
’’حضرت ثوبان خادم رسول اللہ ﷺ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! عنقریب چاروں طرف سے لوگ تم پر اقوامِ عالم کو دعوت دیں گے۔ جس طرح کھانے پر لوگ ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں۔ صحابہ ثنے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت کی وجہ سے ایسا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس وقت تمہاری تعداد زیادہ ہو گی لیکن سیلاب کے خس و خاشاک کی طرح تم بے اہمیت ہو جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے قلب سے تمہارا رعب ختم کر دے گا۔ اور تمہارے قلوب میں دنیا کی محبت اور موت سے نفرت پیدا کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْکَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّی عَلَی اللهِ عزوجل۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ابْنُ مَاجَه۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
15 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 25، 4 / 638، الرقم : 2459، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الموت والاستعداد له، 2 / 1423، الرقم : 4260، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 124، الرقم : 17164، والبزار في المسند، 8 / 417، الرقم : 3489۔
’’حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو حقیر جانے اور آخرت کے لئے عمل کرے، اور عاجز وہ شخص ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اللہ عزوجل پر تمنا لگائے رکھے۔‘‘
1۔ قال أَبو بَکر الصدیق رضي الله عنه فِي خطبته : أَيْنَ الوضآء، الحسنۃ وجوھھم، المعجبون بشبابھم؟ أین الملوک الذین بنوا المدائن وحصنوھا بالحیطان؟ أین الذین کَانوا یعطون الغلبۃ في مواطن الحرب؟ قد تضعضع بھم الدھر، فأصبحوا في ظلمات القبور، الوحا الوحا، النجاء النجاء۔
1 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 34، وأیضاً، 10 / 325، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 364، الرقم : 10595، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 261۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : کہاں ہیں خوبصورت چہروں والے جو اپنی جوانیوں پر ناز کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ، جنہوں نے شہر بنائے اور ان کے گرد فصیلوں کے ساتھ قلعے تعمیر کئے؟ کہاں ہیں وہ فاتحین، جنگوں میں کامیابی جن کے قدم چومتی تھی؟ زمانے نے ان کا نام و نشان مٹا ڈالا۔ اب وہ قبروں کے گھور اندھیروں میں پڑے ہیں۔ افسوس! افسوس! نجات! نجات!۔‘‘
2۔ قال أبو بکر رضي الله عنه : فإن أقوامًا جعلوا آجالھم لغیرھم، ونسوا أنفسھم، فأنھاکم أن تکونوا أمثالھم، الوحا الوحا، النجا النجا، إن وراءکم طالبًا حثیثًا أمره سریع۔
2 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 91، الرقم : 34431، والطبراني في المعجم الکبیر، 1 / 60، الرقم : 39، والحاکم في المستدرک، 2 / 415، الرقم : 3447، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 364، الرقم : 10593، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 35، وابن السري في الزهد، 1 / 283، الرقم : 495۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بہت سے لوگوں نے اپنی عمریں دوسروں کے لیے داؤ پر لگا دیں جبکہ اپنی ذات کو بھول گئے۔ میں تم کو روکتا ہوں کہ تم انکے مثل نہ بن جانا۔ خبر دار! خبردار ! نجات! نجات! موت تمہارے تعاقب میں ہے، جو تیزی سے آن دبوچے گی۔‘‘
3۔ کان عثمان بن عفان رضي الله عنه إذا مر علی المقبرۃ بکی حتی بل لحیته رضي الله عنه۔
3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 32۔
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جب قبرستان سے گزر ہوتا تو اس قدر گریہ طاری ہوتا کہ آنسوؤوں سے داڑھی تر ہو جاتی۔‘‘
4۔ قال علي رضي الله عنه : ألا وإن الدنیا قد ترحلت مدبرۃ، ألا وإن الآخرۃ قد ترحلت مقبلۃ، ولکل واحدۃ منھما بنون۔ فکونوا من أبناء الآخرۃ ولا تکونوا من أبناء الدنیا، فإن الیوم عمل ولا حساب، وغدًا حساب ولا عمل۔
4 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 76، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 369، الرقم : 10614۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور آخرت آنے کے لئے متوجہ ہو چکی ہے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے بیٹے ہیں۔ لوگو! اہل دنیا کے بجائے اہل آخرت بنو، کیوں کہ آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہوگا عمل نہیں ہو گا۔‘‘
5۔ قال علي رضي الله عنه : طوبی للزاھدین في الدنیا، الراغبین في الآخرۃ، أولئک قوم اتخذوا الأرض بساطًا، وترابھا فراشًا، وماء ھا طیبًا، والقرآن والدعاء دثارًا وشعارًا۔
5 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 79، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 372، الرقم : 10625، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 62 / 304۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دنیا سے زہد اختیار کرنے والے اور آخرت میں رغبت رکھنے والے کے لئے خوشخبری ہے۔ انہی لوگوں نے زمین اور اس کی خاک کو بستر بنایا۔ اس کا پانی مشروب بنایا۔ قرآن اور دعا کو ذریعہ ہدایت سمجھا۔‘‘
6۔ قال علي رضي الله عنه : طوبی لمن ذکر المعاد، وعمل للحساب، وقنع بالکفاف، ورضي عن الله عزوجل۔
6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 56، الرقم : 3618، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 147، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 3 / 108۔
’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آخرت کو یاد کرنے والے، حساب کے لئے عمل کرنے والے، قلیل پر گزارہ کرنے والے اور اللہ سے راضی ہونے والے کے لئے خوشخبری ہے۔‘‘
7۔ قال عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه : إني لأمقت الرجل أن أراه فارغاً لیس في شئ من عمل الدنیا، ولا عمل الآخرۃ۔
7 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 108، الرقم : 34562، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 130، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 159 وهناد في الزهد، 2 / 357۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایسے شخص سے ناراض ہوں جس کو میں بالکل فارغ دیکھوں کہ وہ دنیا کے کام میں مشغول ہے اور نہ آخرت کے کام میں۔‘‘
8۔ قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه : لو وقفت بین الجنۃ والنار فقیل لي : اختر نخیرک من أیهما تکون أحب إلیک؟ أو تکون رماداً، لأحببت أن أکون رماداً۔
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 102، الرقم : 8535، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 133، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 406۔
’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جنت و دوزخ کے درمیان کھڑا کر کے اگر مجھے اختیار دیا جائے کہ ان دونوں میں سے کسی شے کو پسند کر لو یا مٹی ہو جانے کو تو میں مٹی ہو جانے کو پسند کروں گا۔‘‘
9۔ قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه : من أراد الدنیا أضر بالآخرۃ، ومن أراد الآخرۃ أضر بالدنیا۔ یا قوم، فأضروا بالفاني للباقي۔
9 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 103، الرقم : 34519، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 108، الرقم : 8566، والحاکم في المستدرک، 4 / 529، الرقم : 8487، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 136، والهناد في الزهد، 2 / 353، الرقم : 664، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 496۔
’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے : دنیا کا ارادہ کرنے والے کو آخرت کے اعتبار سے اور آخرت کا ارادہ کرنے والے کو دنیا کے اعتبار سے نقصان ہوتا ہے۔ اے لوگو! دائمی چیز کے بجائے فانی چیز کا نقصان برداشت کر لو۔‘‘
10۔ عن حزام بن حکیم رضي الله عنه قال : قال أبو الدرداء رضي الله عنه : لو تعلمون ما ترون بعد الموت ما أکلتم طعاما بشهوۃ ولا شربتم شرابا علی شهوۃ ولا دخلتم بیتا تستظلون فیه ولحرصتم علی الصعید تضربون صدورکم وتبکون علی أنفسکم ولوددت أني شجرۃ تعضد ثم تؤکل۔
10 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 201۔
’’حضرت حزام بن حکیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم دیکھ لو جو کچھ تم موت کے بعد دیکھو گے تو تم کبھی بھی شہوت کے ساتھ نہ کھاؤ اور نہ ہی شہوت کے ساتھ پیؤ اور نہ ہی کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں تم دھوپ سے بچ سکو۔ اور تم یقینا مٹی کے لئے حریص ہوجاتے، اپنے سینوں کو مارتے اور اپنے آپ پر روتے۔ کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا اور پھر کھا لیا جاتا۔‘‘
11۔ عن سعید بن المسیب رَحِمَهُ الله یذکر : أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کوم کومۃ من بطحاء، ثم ألقی علیھا طرف ثوبه، ثم استلقی علیھا فرفع یدیه إلی السماء ثم قال : اللھم کبرت سني، وضعفت قوتي، وانتشرت رعیتي، فاقبضني إلیک غیر مضیع ولا مفرط۔
11 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 54، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 44 / 396۔
’’حضرت سعید بن المسیب رَحِمَهُ اللہ ذکر کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وادی بطحاء میں ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے مٹی ہموار کی پھر اسی پر اپنی چادر کا حصہ بچھا کہ چت لیٹ گئے پھر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے دعا کرنے لگے : اے اللہ! میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میرے اعصاب کمزور پڑ گئے ہیں، میری رعایا بکھر چکی ہے۔ پس مجھے اس حال میں اپنے پاس بلا لے کہ میں ضائع نہ ہو جاؤں اور زیادتی کرنے والا نہ ہوں۔‘‘
12۔ قال الحسن رَحِمَهُ الله : المؤمن لا یأکل في کل بطنه، ولا یزال وصیّته تحت جنبه۔
12 : أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 495، الرقم : 3176، وابن المبارک في کتاب الزهد : 114۔
’’حضرت حسن بصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مومن خوب پیٹ بھرکے کھانا نہیں کھاتا، اور اس کی وصیت ہمیشہ اس کے پہلو تلے ہوتی ہے (یعنی ہر وقت موت کے لئے تیار ہوتا ہے)۔‘‘
13۔ قال سعید بن جبیر رضي الله عنه : لو فارق ذکر الموت قلبي خشیت أن یفسد علي قلبي۔
13 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 514۔
’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر موت کا ذکر میرے دل سے جدا ہو جائے تو مجھے خوف ہے کہ میرا دل فساد کا شکار ہو گا۔‘‘
14۔ قیل : کان سفیان الثوري رَحِمَهُ الله إذا سافر بعضُ أصحابِه قال لھم : إذا وجدتم الموتَ فاشتروه لي۔ فلما قَرُبَت وفاتُه کان یقول : کنا نتمنّاه، فإذا هو شدید۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 304۔
’’بیان کیا جاتا ہے کہ جب کبھی سفیان ثوری رَحِمَهُ اللہ کا کوئی شاگرد سفر پر جاتے وقت آپ سے عرض کرتا کہ حضرت کوئی کام ہے تو فرمائیے؟ تو آپ فرماتے : اگر تمہیں کہیں موت مل جائے تو میرے لئے خرید لانا۔ جب ان کی وفات کا وقت آگیا تو فرمایا : ہم اس کی تمنا کیا کرتے تھے، دیکھا تو یہ بہت سخت چیز ہے۔‘‘
15۔ قال أبو سعید الخزّاز رَحِمَهُ الله : کُنْتُ بمکّۃ المکرمۃ حرسھا الله تعالی فجزت یوماً بباب بني شیبۃ فرأیت شاباً حسن الوجه میتاً، فنظرت في وجهه فتبسّم في وجهي وقال لي : یا أبا سعید، أما علمت أن الأحباء أحیاء وإن ماتوا، وإنما ینقلون من دار إلی دار۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 311۔
’’حضرت ابو سعید الخزاز رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : میں مکہ میں تھا۔ ایک دن باب بنی شیبہ سے گزرا تو ایک خوبصورت نوجوان کو مردہ دیکھا، میں نے اس کے چہرہ کی طرف دیکھا تو وہ مسکرایا اور مجھ سے کہنے لگا : اے ابو سعید! کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کے دوست زندہ رہتے ہیں خواہ وہ مر چکے ہوں؟ وہ تو صرف ایک گھر سے دوسرے گھر کو منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘
16۔ قال السّري رَحِمَهُ الله : إن اغْتَمَمْتَ لِمَا یَنْقُصُ مِنْ مالِک، فابکِ عَلَی ما ینقُصُ مِنْ عُمْرِک۔
16 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 53۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اگر تیرے مال میں سے کچھ کم ہوجاتا ہے تو تو پریشان ہو جاتا ہے جو کچھ تیری عمر سے کم ہو رہا ہے تو اس بات پر گریہ زاری کر۔‘‘
17۔ قال الحارث المحاسبي رَحِمَهُ الله : خیارُ هذه الأُمَّةِ الذین لا تَشْغَلُهم آخِرَتُهم عن دُنْیاهُم، ولا دُنْیاهُم عن آخِرَتِهم۔
17 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 58۔
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اس اُمت کے بہترین لوگ وہ ہیں جن کو ان کی آخرت دنیا سے غافل نہیں کرتی اور ان کی دنیا ان کو ان کی آخرت سے غافل نہیں کرتی۔‘‘
18۔ قال شقیق بن إبراهیم البلخي رَحِمَهُ الله : اسْتَعِدَّ إذا جاءَ کَ الموت لا تَسْأَل الرَّجْعَةَ۔
18 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 63۔
’’حضرت شقیق بن ابراہیم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تو (موت کی) تیاری کر جب تیری موت آ جائے گی تو تو لوٹنے کا سوال نہیں کرے گا۔‘‘
19۔ قال حاتم الأصمّ رَحِمَهُ الله : ما مِن صباحٍ إلا والشیطانُ یقول لي : ما تأکلُ؟ وما تلبسُ؟ وأین تسکنُ؟ فأقول : آکلُ الموتَ، وألبسُ الکفنَ، وأسکُنُ القبرَ۔
19 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 96۔
’’حضرت حاتم الاصم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : کوئی صبح ایسی نہیں جس صبح شیطان مجھ سے نہیں پوچھتا کہ تو کیا کھائے گا؟ تو کیا پہنے گا؟ اور تو کہاں رہے گا؟ میں اس سے کہتا ہوں کہ میں موت کھاؤں گا، کفن پہنوں گا اور قبر میں رہوں گا۔‘‘
20۔ قال یحي بن معاذ الرازي رَحِمَهُ الله : الدنیا دارُ أَشْغالٍ، والآخرةُ دار أَهْوَال۔ ولا یزالُ العبْدُ بین الأهْوَال والأشْغال، حتی یستَقِرَّ به القرارُ، إما إلی الجَنَّةِ وإما إلی النَّار۔
20 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 110۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا مصروفیت کی جگہ ہے اور آخرت گھبراہٹ اور خوف کی جگہ ہے۔ بندہ ہمیشہ خوف اور مصروفیت کی کیفیت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے حکم جاری ہو جائے کہ اس نے جنت میں جانا ہے یا جہنم میں۔‘‘
21۔ قال یحي بن معاذ الرازي رحمه الله : ابن آدم! ما لَکَ تأسفُ علی مَفْقُودٍ، لا یردُّه علیک الفَوْت؟ وما لک تفرح بِمَوْجُود، لا یترکه في یدک الموتُ؟
21 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 112۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اے ابن آدم! تجھے کیا ہے کہ تو کھوئی ہوئی چیز پر افسوسناک ہے جبکہ موت کبھی واپس نہیں لوٹاتی اور یہ کہ تجھے کیا ہے کہ تو موجودہ چیز پر بڑا خوش ہو رہا ہے حالانکہ موت وہ چیز تمہارے پاس نہیں رہنے دے گی۔‘‘
22۔ قال محمد بن علیّان رَحِمَهُ الله : الزهادۃ في الدنیا مفتاح الرغبۃ في الآخرۃ۔
22 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 417۔
’’حضرت محمد بن علیان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا میں زہد اختیار کرنا آخرت میں رغبت کی کنجی ہے۔‘‘
23۔ قال مظفر رَحِمَهُ الله : لیس لک من عمرک إلا نفس واحدۃ، فإن لم تفنها فیما لک، فلا تفنها فیما علیک۔
23 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 398۔
’’شیخ مظفر رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تجھے تیری عمر صرف ایک ہی بار ملی ہے پس تو اگر اسے اس کام میں صرف نہیں کرتا جس میں تجھے نفع حاصل ہو تو پھر اس کام میں تو خرچ نہ کر جس سے تجھے نقصان ہو۔‘‘
24۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : لمّا حَضَرَتْ الحسنَ بن علي بن أبي طالب الوفاةُ بکی، فقیل له : ما یُبکیک؟ فقال : أقدم علی سید لم أره۔
24 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 304۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ جب حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آگیا تو آپ رو پڑے۔ آپ سے کسی نے پوچھا : آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا : میں ایسے آقا کے حضور میں جا رہا ہوں جسے میں نے کبھی دیکھا نہیں ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved