1۔ وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَo
(آل عمران، 3 : 135)
’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتےo‘‘
2۔ اَلصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰدِقِيْنَ وَ الْقٰنِتِيْنَ وَ الْمُنْفِقِيْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِo
(آل عمران، 3 : 17)
’’(یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اللہ سے معافی مانگنے والے ہیںo‘‘
3۔ وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo
(النساء، 4 : 64)
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
4۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
(الأنفال، 8 : 33)
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo‘‘
5۔ وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ کُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ۔
(ھود، 11 : 3)
’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اجر و درجات عطا فرمائے گا)۔‘‘
6۔ وَ یٰــقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ یُرْسِلِ السَّمَآء عَلَيْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْکُمْ قُوَّةً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَo
(ھود، 11 : 52)
’’اور اے لوگو! تم اپنے رب سے (گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرناo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : کَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ إِنْسَانًا، ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ : ھَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ : لَا، فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : ائْتِ قَرْیَةَ کَذَا وَکَذَا، فَأَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَھَا فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِکَةُ الْعَذَابِ، فَأَوْحَی اللهُ إِلَی ھَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي وَأَوْحَی اللهُ إِلَی ھِذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي وَقَالَ : قِيْسُوْا مَا بَيْنَھُمَا فَوُجِدَ إِلَی ھَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَلَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأنبیاء، باب : أم حسبت أن أصحاب الکهف والرقیم، 3 / 1280، الرقم : 3283، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : قبول توبۃ القاتل وإن کثر قتله، 4 / 2119، الرقم : 2766، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدیات، باب : ھل لقاتل مؤمن توبۃ، 2 / 875، الرقم : 2622۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : کیا (اس گناہ سے) توبہ کی کوئی صورت ممکن ہے؟ راہب نے جواب دیا : نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس نے ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم فلاں بستی (میں جہاں نیک لوگ رہتے ہیں) جائو (ان کے ساتھ مل کر توبہ کرو۔) وہ اس بستی کی طرف روانہ ہوا لیکن ابھی نصف راستے میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ کون اس کی روح لے جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے کے لئے جا رہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش کے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا : اب دونوں کا فاصلہ دیکھو (جس طرف کا فاصلہ کم ہو اسے اس بستی کے رہنے والوں کے حساب میں ڈال دو) اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت نعش سے زیادہ قریب پایا اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَيْفَ تَقُوْلُوْنَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهُ تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَيْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ وَعَلَيْهَا لَهُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَهَا حَتَّی شَقَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَةً بِهِ۔ قُلْنَا : شَدِيْدًا، یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَمَا وَاللهِ، لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الدعوات، باب : التوبۃ، 5 / 2324، الرقم : 5949، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في الحض علی التوبۃ والفرح بھا، 4 / 2104، الرقم : 2746، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 283، الرقم : 18515، وأبو یعلی في المسند، 3 / 257، الرقم : 1704۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اس شخص کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسنان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے، پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی اس تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ بہت خوش ہو گا، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سنو! بخدا، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا، تَابَ اللهُ عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : استحباب الاستغفار والاستکثار منه، 4 / 2076، الرقم : 2703، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 344، الرقم : 11179، وابن حبان في الصحیح، 2 / 396، الرقم : 629، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 395، الرقم : 9119۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ـمسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
4۔ رَوَی أَبُوْحَنِيْفَةَ رضي الله عنه عَنْ عَبْدِ الْکَرِيْمِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍص أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : النَّدَمُ تَوْبَةٌ۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ۔
4 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 98، وأخرج المحدثون ھذا الحدیث بأسانیدھم منھم : ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4252، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 376، وابن حبان في الصحیح، 2 / 377، الرقم : 612۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (گناہ پر) نادم ہونا ہی توبہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِيْنَ التَّوَّابُوْنَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 49، 4 / 659، الرقم : 2499، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4251، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 62، الرقم : 34216، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 198، الرقم : 13072، وأبو یعلی في المسند، 5 / 301، الرقم : 2922، والحاکم في المستدرک، 4 / 272، الرقم : 7617۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر انسان خطاکار ہے اور بہترین خطا کار، توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ۔ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ۔ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ۔ فَذَلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اللهُ فِي کِتَابِهِ {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْن} [المطففین، 83 : 14]۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ ویل للمطففین، 5 / 434، الرقم : 3334، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر الذنوب، 2 / 1418، الرقم : 4244، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 110، الرقم : 10251، 11658، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 317، الرقم : 418، والحاکم في المستدرک، 2 / 562، الرقم : 3908۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ ) ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے : { کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ} ’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن جبکہ حاکم نے کہ صحیح کہا ہے۔
7۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في فضل التوبۃ والاستغفار وما ذکر من رحمۃ الله لعباده، 5 / 547، االرقم : 3537، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4253، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 173، الرقم : 35077، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 153، الرقم : 6408، والحاکم في المستدرک، 4 / 286، الرقم : 7659۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک روح اس کے حلق میں پہنچ کر غر غر نہیں کرتی (یعنی جب تک وہ حالتِ نزع میں مبتلا نہیں ہوتا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن جبکہ حاکم نے کہ صحیح کہا ہے۔
8۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1419، الرقم : 4250، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 150، الرقم : 10281، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 154، وفي شعب الإیمان عن ابن عباس، 5 / 436، الرقم : 7178، وابن الجعد في المسند، 1 / 266، الرقم : 1756۔
’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گناہ سے(سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
9۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ ضِيْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجاً، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
9 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 85، الرقم : 1518، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : الاستغفار، 2 / 1254، الرقم : 3819، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 248، الرقم : 2234، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 281، الرقم : 10665، والحاکم في المستدرک، 4 / 291، الرقم : 7677۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
10۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةَ مَرَّةٍ : رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ ، وَابْنُ مَاجَه۔
10 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 85، الرقم : 1516، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : الاستغفار، 2 / 1253، الرقم : 3814، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 57، الرقم : 29443، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 21، الرقم : 4726۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گنا کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔ اے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : صَلَّی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الضُّحَی ثُمَّ قَالَ : اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ حَتَّی قَالَھَا مِائَةَ مَرَّةٍ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ۔
11 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6 / 32، الرقم : 9935، والبخاري في الأدب المفرد : 217، الرقم : 619، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 553۔
’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز چاشت ادا فرمائی، پھر سو مرتبہ فرمایا : ’’اے اللہ میری مغفرت فرما، میری توبہ قبول فرما، بے شک تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے ‘‘۔ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اللهِ وَنَحْنُ جُلُوْسٌ فَقَالَ : مَا أَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ اللهَ فِيْھَا مِائَةَ مَرَّةٍ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالنَّسَائِيُّ۔
12 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 172، الرقم : 35075، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 115، الرقم : 10275، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 196، الرقم : 558، والطبراني في الدعائ : 510، الرقم : 1809۔
’’حضرت سعید بن ابی بردہ اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم ﷺ تشریف لائے درانحالیکہ ہم سبھی بیٹھے ہوئے تھے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ : وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَکَ مَادَامَتْ أَرْوَاحُھُمْ فِي أَجْسَادِھِمْ۔ قَالَ الرَّبُّ : وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي، لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَھُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِي۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
13 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 29، الرقم : 11255، 11747، وأبو یعلی في المسند، 2 / 530، الرقم : 1399، والحاکم في المستدرک، 4 / 290، الرقم : 7672، والدیلمی في مسند الفردوس، 3 / 199، الرقم : 4559۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شیطان نے (بارگاهِ الٰہی میں) کہا : (اے اللہ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی، گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
15۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأً کَصَدَإِ الْحَدِيْدِ وَجِلَاؤُھَا الْاِسْتِغْفَارُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ بِإِسْنَادِهِ۔
15 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 307، الرقم : 509، وفي المعجم الأوسط، 7 / 74، الرقم : 6894، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 441، الرقم : 649، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 310، الرقم : 2507، والھیثمی في مجمع الزوائد، 10 / 207۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے اپنی اپنی سند سے روایت کیا ہے۔
16۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لِلْجَنَّةِ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابٍ، سَبْعَةٌ مُغْلَقَةٌ وَبَابٌ مَفْتُوْحٌ لِلتَّوْبَةِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ۔
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔
16 : أخرجه أبو یعلی في المسند، 8 / 429، الرقم : 5012، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 254، الرقم : 10479، والحاکم في المستدرک، 4 / 290، الرقم : 7671۔
’’حضرت (عبد اللہ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے آٹھ دروازے ہیں، سات دروازے بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج اس طرف سے (یعنی مغرب کی طرف سے) طلوع نہیں ہوتا۔‘‘
اسے ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
17۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِيْنَ إِذَا أَحْسَنُوْا اسْتَبْشَرُوْا وَإِذَا أَسَاءُ وْا اسْتَغْفَرُوْا۔
17 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 68۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے : اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور خطا کر بیٹھیں تو استغفار کریں۔‘‘
1۔ قال عمر رضي الله عنه : جالسوا التوّابین فإنهم أرقّ شيء أفئدۃ۔
1 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : کثرت سے توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ ان کے دل نہایت ہی نرم ہوتے ہیں۔‘‘
2۔ قال عمر رضي الله عنه : حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا۔
2 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے نفسوں کو تولو(یعنی تزکیہ کرو) قبل اس کے کہ تمہیں تولا(یعنی جواب دہی کے لیے طلب کیا ) جائے۔‘‘
3۔ قال أبو هریرۃ : ما جلست إلی أحد أکثر استغفارا من رسول الله ﷺ ۔
3 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 67۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر استغفار کرنے والے کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا۔‘‘
4۔ قال أبو ذر رضي الله عنه : هل تری الناس ما أکثرهم ما فیهم خیر إلا تقي أو تائب۔
4 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 164۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گناہوں سے توبہ کرنے والا اور متقی انسان لوگوں میں سے بہترین افراد ہیں۔‘‘
5۔ قال الإمام جعفر الصادق رضي الله عنه : من استبطأ رزقه، فلیکثر من الاستغفار۔
5 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 51۔
’’حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس کا رزق تنگ ہو اسے کثرت سے استغفار کرنا چاہئے۔‘‘
6۔ قال ذو النون المصري رَحِمَهُ الله : حقیقۃ التوبۃ أن تضیق علیک الأرض بما رحُبتْ حتی لا یکون لک قرار، ثم تضیق علیک نفسک۔
6 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96۔
’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین باوجود اپنی فراخی کے تمہارے لئے اس قدر تنگ معلوم ہو کہ تمہیں قرار حاصل نہ ہو بلکہ تمہارا نفس بھی تمہارے لئے تنگ ہو جائے۔‘‘
7۔ قال ذو النون المصري رَحِمَهُ الله : الاستغفار من غیر إقلاع هو توبۃ الکاذبین۔
7 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95۔
’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا کذاب لوگوں کی توبہ ہے۔‘‘
8۔ سُئِلَ ذو النّون المصري عن التوبۃ، فقال : توبۃ العوام من الذنوب، وتوبۃ الخواص من الغفلۃ۔
8 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95۔
’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ سے توبہ کی نسبت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی غفلت سے۔‘‘
9۔ أوحی اللہ عزوجل إلی داود علیه السلام : لو یعلم المُدْبِرُوْنَ عنّي کیف انتظاري لهم ورفقي بهم وشوقي إلی ترکِ مَعَاصِيْهِمْ لماتوا شوقاً إليّ، وانقطعت أوصالهم من محبّتي، یا داود، هذه إرادتي في المُدْبِرِيْنَ عنّي، فکیف إرادتي في مُقْبِلِيْنَ إليّ؟
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 332۔
’’اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کے معصیت کاریوں کو ترک کرنے کو کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا؟‘‘
10۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : زلۃ واحد بعد التوبۃ أقبح من سبعین قبلها۔
10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : توبہ کے بعد کی لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے۔‘‘
11۔ قال محمد الزقاق رَحِمَهُ الله : سألت أبا علي الروذباري عن التوبۃ، فقال : الاعتراف، والندم، والإقلاع۔
11 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 357۔
’’محمد زقاق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا کہ میں نے ابو علی روذباری رَحِمَهُ اللہ سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : (گناہوں کا) اعتراف، ندامت اور (گناہوںکا) ترک کرنا (توبہ ہے)۔‘‘
12۔ قال مطرف بن عبد الله رضي الله عنه : اللّٰھم ارض عنا، فإن لم ترض فاعف فإن المولی قد یعفو عن عبده، وهو غیر راض عنه۔
12 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 53۔
’’حضرت مطرف بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ (اللہ کے حضور دعا کرتے ہوئے عرض کرتے) : اے اللہ! ہم سے راضی ہو جا اگر تو راضی نہ ہو تو معاف فرما کیونکہ کبھی مالک راضی نہ ہونے کے باوجود اپنے غلام کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘
13۔ قال أبو الحسن الشاذلي رَحِمَهُ الله : علیک بالاستغفار وإن لم یکن هناک ذنب، واعتبر باستغفار النبي ﷺ بعد البشارۃ والیقین بمغفرۃ ما تقدم من ذنبه، وما تأخر۔ هذا في معصوم لم یقترف ذنباً قط وتقدس عن ذلک فما ظنک بمن لا یخلو عن العیب، والذنب في وقت من الأوقات۔
13 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 301۔
’’شیخ ابو الحسن شاذلی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : استغفار لازم کرو اگرچہ کوئی گناہ نہ ہو اور حضور نبی اکرم ﷺ کے استغفار سے عبرت حاصل کرو جبکہ آپ کو آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہوں کی بخشش کی بشارت اور یقین حاصل تھا اور یہ اس عظیم معصوم کا معاملہ ہے جن میں کسی گناہ کا کبھی تصور تک نہیں اور اس سے ہمیشہ پاک ہیں تو اس کے متعلق تیرا کیا گمان ہے جو کسی وقت بھی عیب اور گناہ سے خالی نہیں۔‘‘
14۔ سُئل البوشنجي رَحِمَهُ الله عن التوبۃ، فقال : إذا ذکرت الذنب، ثم لم تجد حلاوته عند ذکره فهو التّوبۃ۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96۔
’’شیخ بوشنجی رَحِمَهُ اللہ سے کسی نے توبہ کی نسبت سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : جب تو گناہ کا ذکر کرے اور تجھے اس کے ذکر سے اس کی مٹھاس محسوس نہ ہو تو یہی توبہ ہے۔‘‘
15۔ قال إبراهیم الأطروش رَحِمَهُ الله : کنا قعوداً ببغداد، مع معروف الکرخي رَحِمَهُ الله، علی نهر الدجلۃ، إذ مر بنا قوم أحداث في زورق، یضربون بالدف ویشربون، ویلعبون، فقلنا لمعروف : ألا تراهم کیف یعصون الله تعالی مجاهرین؟ أدع الله علیهم۔ فرفع یده وقال : إلهي کما فرحتهم في الدنیا ففرحهم في الآخرۃ۔ فقلنا : إنما سألناک أن تدعو علیهم، فقال : إذا فرحهم في الآخرۃ تاب علیهم۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 137
’’حضرت ابراہیم الاطروش رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہم بغداد میں حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ کے ساتھ دریائے دجلہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کشتی میں نو عمروں کی ایک ٹولی دف بجاتے، شراب پیتے اور کھیلتے ہوئے گزری۔ ہم نے حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ سے کہا کہ آپ انہیں دیکھ رہے ہیں یہ لوگ علی الاعلان خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بددعا کیجئے۔ یہ سن کر حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا : خدایا! جس طرح تو نے انہیں دنیا میں خوش کر رکھا ہے آخرت میں بھی خوش رکھنا۔ لوگوں نے کہا : ہم نے آپ کو بددعا کرنے کو کہا تھا(اور آپ نے ان کے حق میں دعا فرمادی)؟ آپ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب اللہ ان کو آخرت میں خوش رکھے گا تو (دنیا میں)ان کی توبہ بھی قبول فرمائے گا۔‘‘
16۔ قال النوري رَحِمَهُ الله : التوبۃ أن تتوب من کل شيء سوی الله عزوجل۔
16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95۔
’’شیخ نوری نے فرمایا : توبہ یہ ہے کہ تو اللہ کے سوا ہر چیز سے توبہ کر ے (یعنی رجوع کرے)۔‘‘
17۔ قال عبد الله التمیمي رَحِمَهُ الله : شتان ما بین تائب یتوب من الزلات، وتائب یتوب من الغفلات، وتائب یتوب من رؤیۃ الحسنات۔
17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95۔
’’شیخ عبد اللہ بن علی تمیمی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ان تین شخصوں کی توبہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے : ایک وہ جو اپنی لغزشوں سے توبہ کرتا ہے، دوسرا وہ جو اپنی غفلتوں سے توبہ کرتا ہے اور تیسرا وہ جو اپنی نیکیوں کو دیکھنے سے توبہ کرتا ہے۔‘‘
18۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : قال بعضهم : توبۃ الکذابین علی أطراف ألسنتهم، یعني أنهم یقتصرون علی قولهم : أستغفر الله۔
18 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی کا قول ہے کہ کذابین کی توبہ، ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے، ان کی مراد استغفر اللہ کہنے سے ہے (یعنی وہ زبان سے توبہ یا اِستغفار کہتے رہتے ہیں مگر دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا)۔‘‘
19۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : قال رجل لرابعۃ العدویۃ : إني قد أکثرت من الذنوب والمعاصي، فلو تبت هل یتوب الله عليّ؟ فقالت : لا، بل لو تاب علیک لتبت۔
19 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت رابعہ بصری رَحِمَهُ اللہا سے کہا : میں نے بہت سے گناہ اور معاصی کئے ہیں۔ اب اگر میں توبہ کروں تو کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے گا؟ انہوں نے فرمایا : اصل معاملہ یوں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ (پہلے) خدا تجھے معاف کر دے گا تو تب ہی تو توبہ کرے گا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved