1۔ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ط وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآء ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ط وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo
(البقرۃ، 2 : 74)
’’پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہو گئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہو گئے) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت (ہو چکے ہیں، اس لیے کہ) بے شک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقینا ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیںo‘‘
2۔ وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَo
(المائدۃ، 5 : 83)
’’اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول ( ﷺ) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوئوں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہو گئی ہے۔ (ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo‘‘
3۔ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِيْـلًا وَّ لْیَبْکُوْا کَثِيْرًا ج جَزَآئًم بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
(التوبۃ، 9 : 82)
’’پس انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں (کیوں کہ آخرت میں انہیں زیادہ رونا ہے) یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے تھےo‘‘
4۔ قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ط اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَيْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاo وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًاo وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًاo
(بنی إسرائیل، 17 : 107۔ 109)
’’فرما دیجئے : تم اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، بے شک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیںo اور کہتے ہیں : ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہنا تھاo اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہےo‘‘
5۔ اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَ لَاتَبْکُوْنَo
(النجم، 53 : 59۔60)
’’پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہوo اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہوo‘‘
6۔ اِذَا تُتْلٰی عَلَيْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّاo
(مریم، 19 : 58)
’’جب ان پر (خدائے) رحمن کی آیتوںکی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (زار و قطار) روتے ہوئے گر پڑتے ہیںo‘‘
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَـلَا قَوْلَ اللهِ عزوجل فِي إِبْرَاهِيْمَ : {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّيْ} [إبراہیم، 14 : 36] الْآیَةَ وَقَالَ عِيْسَی علیہ السلام : {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo} [المائدۃ، 5 : 118] فَرَفَعَ یَدَيْهِ وَقَالَ : اَللَّهُمَّ، أُمَّتِي أُمَّتِي وَبَکَی فَقَالَ اللهُ عزوجل : یَا جِبْرِيْلُ، اذْهَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ، وَرَبُّکَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا یُبْکِيْکَ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِيْلُ علیہ السلام فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللهُ : یَا جِبْرِيْلُ، اذْهَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ، فَقُلْ : إِنَّا سَنُرْضِيْکَ فِي أُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْئُکَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : دعاء النبي ﷺ لأمته وبکائه شفقۃ علیهم، 1 / 191، الرقم : 202، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 373، الرقم : 11269، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 367، الرقم : 8894، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 137، الرقم : 415، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 283، الرقم : 303۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی : ’’اے میرے رب! ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے جو شخص میرا پیروکار ہو گا وہ میرے راستہ پر ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تُو اس کو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول ہے : ’’اے اللہ! اگر تو اُن کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تُو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک بلند کیے اور فرمایا : اے ﷲ! میری امت، میری امت، پھر آپ ﷺ پر گریہ طاری ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبرائیل! محمد ( ﷺ) کے پاس جائو اور ان سے معلوم کرو حالانکہ اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے، کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کو خبر دی، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا : اے جبرائیل! محمد( ﷺ) کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملہ میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ : عَيْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيْلِ اللهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ۔
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجہاد، باب : ما جاء في فضل الحرس في سبیل اللہ، 4 / 92، الرقم : 1639، والحاکم عن أبي ھریرۃ رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 92، الرقم : 2430، والطیالسی في المسند، 1 / 321، الرقم : 2443، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 422، الرقم : 1447۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی : (ایک) وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔‘‘
اس حدیث کو امام ـ ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔
3۔ عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ حَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ثَـلَاثَةٌ لَا تَرَی أَعْیُنُهُمُ النَّارَ : عَيْنٌ حَرَسَتْ فِی سَبِيْلِ اللهِ، وَعَيْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، وَعَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَلَا بَأْسَ بِإِسْنَادِهِ۔
3 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 19 / 416، الرقم : 1003، وأبو یعلی في المعجم، 1 / 186، الرقم : 215، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 159، الرقم : 1923، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 593۔
’’حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی۔ ایک آنکھ وہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے باز رہی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے قابل اعتماد سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ عزوجل : أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِي یَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ۔
4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ جھنم، باب : ما جاء أن للنار نفسین، 4 / 712، الرقم : 2594، والحاکم في المستدرک، 1 / 141، الرقم : 234، وقال الحاکم : صحیح الإسناد، 5 / 244، الرقم : 8084، وابن أبی عاصم في السنۃ، 2 / 400، الرقم : 833، والبیھقي في کتاب الاعتقاد، 1 / 201۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرمائے گا : دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کہیں بھی مجھ سے ڈرا۔‘‘ اس حدیث کو امامـ ترمذی نے ذکر کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَةِ اللهِ حَتَّی یَعُوْدَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجهاد، باب الغبار في سبیل الله، 4 / 171، الرقم : 1633، والنسائي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل من عمل في سبیل الله علی قدمه، 6 / 12،الرقم : 3108، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 505، الرقم : 10567۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ کی راہ میں پہنچنے والی گرد و غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ـ ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔
6۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ یَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوْعٌ وَإِنْ کَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ثُمَّ تُصِيْبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ۔
6 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الحزن والبکائ، 2 / 1404، الرقم : 4197، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 17، الرقم : 9799، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 4 / 266۔
’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر ا س کے چہرے پر آ گریں گے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ : {اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَ لَا تَبْکُوْنَo} [النجم، 53 : 59، 60] بَکَی أَصْحَابُ الصُّفَّةِ حَتَّی جَرَتْ دُمُوْعُھُمْ عَلَی خُدُوْدِھِمْ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَنِيْنَھُمْ بَکَی مَعَھُمْ، فَبَکَيْنَا بِبُکَائِهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یَلِجُ النَّارَ مَنْ بَکَی مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مُصِرٌّ عَلَی مَعْصِیَةٍ وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَجَاء اللهُ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرُ لَھُمْ۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالْمُنْذَرِيُّ۔
7 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 1 / 489، الرقم : 798، والدیلمی في مسند الفردوس، 3 / 447، الرقم : 5373، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 114، الرقم : 5028، وابن أبی عاصم في الزھد، 1 / 178۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : {پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو۔ اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔} تو اہل صفہ اس قدر روئے کہ اُن کے آنسو اُن کے رخساروں پر بہہ پڑے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اُن کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ ﷺ کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رونے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا اور نہ گناہ پر اصرار کرنے والا جنت میں داخل ہو گا۔ اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں بخشے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی، دیلمی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنِ الْھَيْثَمِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : خَطَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ فَبَکَی رَجُلٌ یَدَيْهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَوْ شَھِدَکُمُ الْیَوْمَ کُلُّ مُؤْمِنٍ عَلَيْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَأَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي لَغُفِرَ لَھُمْ بِبُکَاءِ هَذَا الرَّجُلِ وَذَلِکَ أَنَّ الْمَلَائِکَةَ تَبْکِي وَتَدْعُوْ لَهُ وَتَقُوْلُ : اَللَّھُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِيْنَ فِيْمَنْ لَمْ یَبْکِ۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْمُنْذَرِيُّ۔
8 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 1 / 494، الرقم : 810، وذکره المنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 116، الرقم : 5043، وابن حجر العسقلاني في الأصابۃ، 6 / 589۔
’’حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا تو خطاب کے دوران آپ ﷺ کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص رو پڑا۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مومن موجود ہوتے جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے : اے اللہ! نہ رونے والوں کے حق میں رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيْزٌ کَأَزِيْزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُکَاءِ۔ رَوَاهُ ابْنُ حَبَّانَ۔
9 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 3 / 30، الرقم : 753، والحاکم في المستدرک، 1 / 396، الرقم : 971، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 548۔
’’حضرت مطرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں بارگاهِ نبوی میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کے سینہ اقدس اور اندروں جسد میں رونے کی وجہ سے ایسا جوش اور ابال محسوس ہوتا تھا جیسے کہ دیگِ جوشاں چولہے پر چڑھی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ ثَابِتِ بْنِ سَرْحٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ ارْزُقْنِي عَيْنَيْنِ ھَطَّالَتَيْنِ تَبْکِیَانِ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ وَتُشْفِقَانِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ أَنْ يَّکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَالْأَضْرَاسُ جَمْرًا۔ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَأَحْمَدُ۔
10 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 165، الرقم : 480، وأحمد بن حنبل في الزهد : 10، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 2 / 197، وابن رجب الحنبلي في التخویف من النار، 1 / 148، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 551۔
’’حضرت ثابت بن سرح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوات مبارکہ میں سے ایک دعا مبارک یہ بھی تھی : ’’اے اللہ! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو زور سے برسنے والی ہوں اور برستے آنسوؤں کے ساتھ روئیں اور تیرے عذاب و عتاب سے خوفزدہ ہوں، اس سے قبل کہ آنسو خون بن جائیں اور ڈاڑھیں انگارے (یعنی عذاب نار میں مبتلا ہونے سے قبل اس عذاب کا ڈر اور خوف دل میں پیدا ہو جائے تاکہ آنکھیں آنسوؤں کے ذریعے اس آگ کو بجھا لیں اور اس کا ملاحظہ کرنے سے پہلے ہی اس کے بچاؤ کی تدبیر کر لیں)۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن المبارک اور احمد نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، بِمَ أَتَّقِي النَّارَ؟ قَالَ : بِدُمُوْعِ عَيْنَيْکَ فَإِنَّ عَيْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ لَا تَمَسُّهَا النَّارُ أَبَدًا۔
رَوَاهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ۔
11 : أخرجه ابن رجب الحنبلي في التخویف من النار، 1 / 42، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 114، الرقم : 5030۔
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں دوزخ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے، جو آنکھ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رو پڑی اسے کبھی (دوزخ کی) آگ نہیں چھوئے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کُلُّ عَيْنٍ بَاکِیَةٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللهِ وَعَيْنٌ سَهِرَتْ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَعَيْنٌ خَرَجَ مِنْهَا مِثْلُ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْمُنْذَرِيُّ۔
12 : أخرجه المنذري في الترغیب والترھیب، 3 / 23، 2925، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 256، الرقم : 4759، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 3 / 63، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 418، الرقم : 148۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس آنکھ کے علاوہ ہر آنکھ قیامت کے دن رو رہی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں (کو دیکھنے) سے جھکی رہی اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں بیدار رہی اور (تیسری) وہ آنکھ جس سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو بہہ نکلے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم اور منذری نے روایت کیا ہے۔
1۔ إن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان یمر بالآیۃ في ورده فتخنقه فیبقی في البیت أیاما یعاد یحسبونه مریضا۔
1 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 176۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بندھ جاتی اور کئی دن آپ گھر میں پڑے رہتے آپ کی عیادت کی جاتی لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔‘‘
2۔ رأی عمر بن الخطاب رضي الله عنه رجلًا طأطأ رقبته في الصلاۃ۔ فقال : یا صاحب الرقبۃ، ارفع رقبتک لیس الخشوع في الرقاب۔ إنما الخشوع في القلوب۔
2 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 1 / 389۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو نماز میں گردن کو ضرورت سے زیادہ جھکائے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اے گردن والے! اپنی گردن اٹھاؤ، خشوع گردنوں میں نہیں بلکہ دلوں میں ہوتا ہے۔‘‘
3۔ کان علي بن أبي طالب رضي الله عنه یصلي لیله ولا یهجع إلا یسیراً، ویقبض علی لحیته، ویتململ تململ السلیم، ویبکي بکاء۔
3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 34۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رات بھر نماز ادا فرماتے۔ بہت تھوڑا سا سستاتے، اپنی ریش مبارک کو پکڑ لیتے اور بیمار شخص کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی۔‘‘
4۔ قال أبو الدرداء رضي الله عنه : لو تعلمون ما ترون بعد الموت ما أکلتم طعاما بشهوۃ ولا شربتم شرابا علی شهوۃ ولا دخلتم بیتا تستظلون فیه ولحرصتم علی الصعید تضربون صدورکم وتبکون علی أنفسکم ولوددت أني شجرۃ تعضد ثم تؤکل۔
4 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 201۔
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم دیکھ لو جو کچھ تم موت کے بعد دیکھو گے تو تم کبھی بھی شہوت کے ساتھ نہ کھاؤ اور نہ ہی شہوت کے ساتھ پیو اور نہ ہی کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں تم دھوپ سے بچ سکو۔ اور تم یقینا مٹی کے لئے حریص ہو جاتے، اپنے سینوں کو مارتے اور اپنے آپ پر روتے۔ کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا اور پھر کھا لیا جاتا۔‘‘
5۔ قال أبي بن کعب رضي الله عنه : علیکم بالسبیل والسنۃ، فإنه ما علی الأرض من عبد علی السبیل والسنۃ ذکر الله ففاضت عیناه من خشیۃ ربه فیعذبه الله أبدا۔
5 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 224، الرقم : 35526، وأحمد بن حنبل في المسند : 197، وابن المبارک في الزهد : 454، وأبو یوسف في المعرفۃ والتاریخ، 3 / 372۔
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم پر شریعت اور سنت لازم ہے پس اس دنیا میں جو بھی شخص شریعت اور سنت پر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے کبھی بھی عذاب نہیں دے گا۔‘‘
6۔ قال أبو موسی الأشعري رضي الله عنه : یا أیها الناس، ابکوا فإن لم تبکوا فتباکوا فإن أهل النار یبکون الدموع حتی تنقطع ثم یبکون الدماء حتی لو أرسلت فیها السفن لجرت۔
6 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 292۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! رویا کرو، پس اگر تمہیں رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت ہی بنا لو، کیونکہ اہل دوزخ خون کے آنسو روئیں گے یہاں تک کہ وہ آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر خون کے آنسو روئیں گے۔ یہاں تک اگر ان کے آنسو میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تووہ چل پڑیں۔‘‘
7۔ قال حذیفۃ رضي الله عنه : بحسب المرء من العلم أن یخشی الله عزوجل، وبحسبه من الکذب أن یقول : أستغفر الله، ثم یعود۔
7 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 139، الرقم : 34799، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 281، وأبو خیثمۃ في کتاب العلم : 9، الرقم : 14۔
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آدمی کو علم کی اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہو اور آدمی کو جھوٹ کی اتنی بات کافی ہے کہ وہ ’’استغفر اللہ‘‘ کہہ کر پھرلوٹ آئے (یعنی جس گناہ سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کی اسے دوبارہ کرنا شروع کر دے)۔‘‘
8۔ قال الفُضَيْل رَحِمَهُ الله : طُوبی لمن استوحش من الناس، وأنس بربه، وبکی علی خطیئته۔
8 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 14۔
’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مبارکباد ہو اس شخص کو جسے لوگوں سے وحشت اور اپنے مولیٰ سے انس ہو اور جو اپنے گناہوں پر آنسو بہانے والا ہو۔‘‘
9۔ قَالَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَحِمَهُ الله : خَمْسٌ مِنْ عَلَامَاتِ الشِّقَائِ : الْقَسْوَةُ فِي الْقَلْبِ، وَجُمُوْدُ الْعَيْنِ، وَقِلَّةُ الْحَیَاءِ، وَالرَّغْبَةُ فِي الدُّنْیَا، وَطُوْلُ الأَمَلِ۔
9 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 6 / 148، الرقم : 7747، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 48 / 416۔
’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : پانچ چیزیں بدبختی کی علامتوں میں سے ہیں : دل کی سختی، آنکھ کا آنسو نہ بہانا، قلّتِ حیائ، دنیا کی چاہت، لمبی امید۔‘‘
10۔ قال الفضیل بن عیاض رَحِمَهُ الله : کان یکره أن یُري الرجل من الخشوع أکثر مما في قلبه۔
10 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 1 / 389۔
’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : یہ چیز مکروہ سمجھی جاتی تھی کہ انسان اس سے زیادہ خشوع ظاہر کرے جتنا اس کے دل میں ہے۔‘‘
11۔ قال الجنید رَحِمَهُ الله : الخشوع تذلل القلوب لعلام الغیوب۔
11 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 1 / 388۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دلوں کا علام الغیوب (یعنی چھپے ہوئے رازوں کو جاننے والے) کے لئے جھک جانا خشوع ہے۔‘‘
12۔ قال السّري رَحِمَهُ الله : أحسنُ الأشیائِ خمسةٌ : البُکاءُ عَلَی الذُّنوب، وإصْلاحُ العُیُوبِ، وطاعةُ عَلاّم الغُیوبِ، وجَلاءُ الرَّيْن منَ القلوب، وأَلا تکونَ لِکلِّ ما تَهْوَی رَکوبُ۔
12 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 54۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حسین ترین چیزیں پانچ ہیں : گناہوں پر رونا، گناہوں کی اصلاح کرنا، غیب جاننے والے (یعنی اللہ تعالیٰ) کی اطاعت کرنا، دلوں کے زنگ کو دور کرنا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا نہ ہونا۔‘‘
13۔ قال السري السقطي رَحِمَهُ الله : وَدِدْتُ أنّ حزنَ کلِّ الناسِ أُلْقِيَ عَلَيَّ۔
13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 139۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ تمام لوگوں کا غم مجھ پر ڈال دیا جائے۔‘‘
14۔ قال سفیان بن عیینۃ رَحِمَهُ الله : لو أن محزوناً بَکَی في أمَّۃ لرَحِمَ اللهُ تعالی تلک الأمَّةَ بِبُکَائِهِ۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 139۔
’’حضرت سفیان بن عیینہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اگر کسی امت میں کوئی بھی غمزدہ روئے تو اللہ تعالیٰ اس کے رونے کی وجہ سے اس امت پر رحم فرماتا ہے۔‘‘
15۔ قال عَمْرو : إذا کان أنین العبد إلی رَبِّه عزوجل فلیس بشکوی ولا جَزَع۔
15 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 203۔
’’حضرت عمرو بن عثمان مکی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب بندے کی گریہ زاری اپنے رب کی طرف ہو تو یہ نہ تو شکوہ ہے اور نہ ہی گھبراہٹ اور مایوسی ہے۔‘‘
16۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : سئل بعضهم : بِماذَا یُسْتَدَلُّ عَلَی حزنِ الرجلِ؟ فَأَجَابَ : بِکَثْرَةِ أَنِيْنِهِ۔
16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 139۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صوفی سے پوچھا گیا کہ کسی کے غم کا کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا : اس کے کثرت سے آہ و زاری کرنے سے۔‘‘
17۔ قال عبد الله بن عیسی رَحِمَهُ الله : کان في وجه عمر بن الخطاب رضي الله عنه خطان أسودان من البکاء۔
17 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء،1 / 51، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 1 / 253، الرقم : 318، في الزهد : 178، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 286۔
’’حضرت عبد اللہ بن عیسیٰ رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر کثرتِ گریہ و بکا کی وجہ سے دو سیاہ خط پڑ گئے تھے۔‘‘
18۔ قال أبو عبد الله الجسري رَحِمَهُ الله : أن رجلا انطلق إلی أبي الدرداء رضي الله عنه فسلم علیه فقال : أوصني فإنی غاز فقال له : اتق الله کأنک تراه حتی تلقاه وعد نفسک في الأموات ولا تعدها في الأحیاء وإیاک ودعوۃ المظلوم۔
18 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 207۔
’’حضرت عبد اللہ جسری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انہیں سلام کیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیں کیونکہ میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوں تو آپ نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے یوں ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو یہاں تک کہ تم اس سے جا ملو، اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو اور خود کو زندوں میں شمار نہ کرو، اور مظلوم کی بدعا سے بچتے رہو۔‘‘
19۔ قال عمران بن حصین رَحِمَهُ الله : لوددت أني کنت رمادا تسفیني الریح في یوم عاصف خبیث۔
19 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 106، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 25 / 482۔
’’حضرت عمران بن حصین رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : کاش میں راکھ ہوتا کہ ہوا مجھے شدید آندھی والے دن اڑاتی پھرتی۔‘‘
20۔ قال ابن قیم الجوزیۃ : قیل الخشوع خمود نیران الشھوۃ، وسکون دخان الصدور، وإشراق نور التعظیم في القلب۔
20 : ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 1 / 388۔
’’علامہ ابن قیم جوزیہ بیان کرتے ہیں کہ کہا گیا ہے کہ خشوع شہوت کی آگ کو بجھا دیتا ہے اور سینوں سے اٹھنے والے دھوؤں کو مٹاتا ہے اور دل میں نورِ تعظیم کو روشن کرتا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved