1۔ فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
(البقرۃ، 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘
2۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْهُ کَمَا هَدٰکُمْ ج وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّيْنَo
(البقرۃ، 2 : 198)
’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بے شک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھےo‘‘
3۔ فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللهَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا۔
(البقرۃ، 2 : 200)
’’پھر جب تم اپنے حج کے ارکان پورے کر چکو تو (منیٰ میں) اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدّتِ شوق سے (اللہ کا ) ذکر کیا کرو۔‘‘
4۔ فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللهَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ۔
(النساء، 4 : 103)
’’پھر اے (مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔‘‘
5۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِيْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَo
(الأعراف، 7 : 205)
’’اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری سے اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کربھی، صبح و شام (ذکر حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہو جاؤo‘‘
6۔ وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(الأنفال، 8 : 45)
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo‘‘
7۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًاo وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo
(الأحزاب، 33 : 41، 42)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کروo اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کروo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَخْبَرَهُ أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّکْرِ حِيْنَ یَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَکْتُوْبَةِ کَانَ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : کُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوْا بِذَلِکَ إِذَا سَمِعْتُهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الصلاۃ، باب : الذکر بعد الصلوۃ، 1 / 288، الرقم : 805، ومسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : الذکر بعد الصلاۃ، 1 / 410، الرقم : 583، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 245، الرقم : 3225، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 367، الرقم : 3478۔
’’ابو معبد مولیٰ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بتایا کہ عہدِ نبوی میں فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلند آواز سے ذکر ( یعنی ذکر بالجہر) کرنا رائج تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو اسی سے جان لیتا جب میں اس (بلند آواز سے ذکر کرنے) کو سنتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : کُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ النَّبِيِّ ﷺ بِالتَّکْبِيْرِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الصلاۃ، باب : الذکر بعد الصلوۃ، 1 / 288، الرقم : 806، والشافعي في المسند، 1 / 44، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 222، الرقم : 1933، وابن حبان في الصحیح، 5 / 610، الرقم : 2232، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 184، الرقم : 2837۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نماز کے ختم ہو جانے کو تکبیر ( یعنی بلند آواز سے اللہ أکبر کا ذکر کرنے) سے جان لیا کرتا۔
قال النووي في شرحه : إن ذکر اللسان مع حضور القلب أفضل من القلب وحده۔(1)
(1) النووي في شرحه علی صحیح مسلم، 17 / 16۔
’’امام نووی فرماتے ہیں کہ حضور قلب کے ساتھ زبان سے ذکر کرنا ذکر بالقلب سے افضل ہے۔‘‘
3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَـلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَـلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : ویحذرکم الله نفسه، 6 / 2694، الرقم : 6970، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : في حسن الظن بالله عزوجل، 5 / 581، الرقم : 3603۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی (اپنے شایانِ شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : خَرَجَ مُعَاوِیَةُ عَلَی حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ؟ قَالُوْا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللهَ۔ قَالَ : آﷲِ مَا أَجْلَسَکُمْ إِلَّا ذَاکَ؟ قَالُوْا : وَاللهِ، مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاکَ۔ قَالَ : أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُهْمَةً لَکُمْ۔ وَمَا کَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيْثًا مِنِّي وَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَرَجَ عَلَی حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ؟ قَالُوْا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَی مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ بِهِ عَلَيْنَا۔ قَالَ : آللهِ مَا أَجْلَسَکُمْ إِلَّا ذَاکَ؟ قَالُوا : وَاللهِ، مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاکَ۔ قَالَ : أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُهْمَةً لَکُمْ وَلَکِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللهَ عزوجل یُبَاهِي بِکُمُ الْمَلَائِکَةَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعائ، باب : فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، 4 / 2075، الرقم : 2701، والنسائي في السنن، کتاب : آداب القضاۃ، باب : کیف یستحلف الحاکم، 8 / 249، الرقم : 5426، وأبو یعلی في المسند، 13 / 381، الرقم : 7387۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا گزر مسجد میں حلقہ ذکر میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر ہوا، انہوں نے دریافت فرمایا : تم (یہاں) کیوں بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا : ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے (مسجد میں) بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے دوبارہ دریافت فرمایا : بخدا کیا تم صرف اسی لیے بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا : بخدا ہم صرف اِسی لیے بیٹھے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : میں نے تم پر کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی۔میں حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو سب سے کم روایت کرنے والا ہوں اور بے شک ایک بار حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہوا، آپ ﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا : تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا : ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کی ہدایت دے کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بخدا تم صرف اِسی وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : بخدا ہم اِسی وجہ سے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم پر کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی، بلکہ ابھی میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور اُنہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : رَأَی نَاسٌ نَارًا فِي الْمَقْبَرَةِ فَأَتَوْهَا فَإِذَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْقَبْرِ وَإِذَا هُوَ یَقُوْلُ : نَاوِلُوْنِي صَاحِبَکُمْ۔ فَإِذَا هُوَ الرَّجُلُ الَّذِي کَانَ یَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالذِّکْرِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
5 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الجنائز، باب : في الدفن باللیل، 3 / 201، الرقم : 3164، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 182، الرقم : 1743، والحاکم في المستدرک، 1 / 523، الرقم : 1362، والبیهقي في السنن الکبری، 4 / 31، الرقم : 3701۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگوں نے قبرستان میں روشنی دیکھی تو وہاں گئے۔ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ ایک قبر میں کھڑے فرما رہے تھے : اپنا ساتھی (یعنی ساتھی کی میت) مجھے پکڑاؤ۔ وہ ایسا آدمی تھا جو بلند آواز سے ذکر الٰہی کیا کرتا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ لَيْلَةً فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَکْرٍ رضي الله عنه یُصَلِّي یَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ۔ قَالَ : وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ یُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ۔ قَالَ : فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ، مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَکَ۔ قَالَ : قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : وَقَالَ لِعُمَرَ : مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَکَ۔ قَالَ : فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أُوْقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ۔ زَادَ الْحَسَنُ فِي حَدِيْثِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَا أَبَا بَکْرٍ، ارْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ شَيْئًا، وَقَالَ لِعُمَرَ : اخْفِضْ مِنْ صَوْتِکَ شَيْئًا۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ۔
6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في رفع الصوت بالقرائۃ في صلاۃ اللیل، 2 / 37، الرقم : 1329، وابن حبان في الصحیح، 3 / 6، الرقم : 733، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 181، الرقم : 7219، والحاکم في المستدرک، 1 / 454، الرقم : 1168، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 189، الرقم : 1161، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 11، الرقم : 4476۔
’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک رات باہر نکلے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آہستہ آواز میں نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ بلند آواز میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں دونوں حضرات اکٹھے ہوئے تو حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر! میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم آہستہ آواز کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! میں اسے سنا رہا تھا جس سے سرگوشی کر رہا تھا۔ فرمایا : اے عمر! میں تمہارے پاس سے بھی گزرا تو تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! میں سونے والوں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حسن نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کر لو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم اپنی آواز تھوڑی پست کر لیا کرو۔‘‘ اس حدیث کوامام ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إِذَا سَلَّمَ قَالَ : سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ ثَـلَاثًا یَرْفَعُ صَوْتَهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَهَذَا لَفْظُ الْحَاکِمِ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : وَھَذَا الْإِسْنَادُ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ۔
7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 406، الرقم : 15395، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 184، الرقم : 10573، والحاکم في المستدرک، 1 / 406، الرقم : 1009۔
’’حضرت عبد الرحمن بن ابزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب (نماز سے فارغ ہونے کے لیے) سلام کہتے تو بلند آواز سے تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ کہتے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ حاکم کے ہیں نیز امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ شیخین (بخاری اور مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح الاسناد ہے۔
8۔ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ حَنْظَلَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا یَذْکُرُوْنَ اللهَ عزوجل فِيْهِ فَیَقُوْمُوْنَ حَتَّی یُقَالَ لَهُمْ : قُوْمُوْا قَدْ غَفَرَ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَبُدِّلَتْ سَيِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 212، الرقم : 6039، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 454، الرقم : 695، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 260، الرقم : 2321، والھیثمی في مجمع الزوائد، 10 / 76۔
’’حضرت سہیل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب لوگ مجلسِ ذکر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے اُٹھتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے : کھڑے ہو جاؤ! اللہ نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں، تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، قَالَ : یَقُوْلُ الرَّبُّ عزوجل یَوْمَ الْقِیَامَةِ : سَیَعْلَمُ أَھْلُ الْجَمْعِ مَنْ أَھْلُ الْکَرَمِ؟ فَقِيْلَ : وَمَنْ أَھْلُ الکَرَمِ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : أَھْلُ مَجَالِسِ الذِّکْرِ فِي الْمَسَاجِدِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَصَحَّحَهُ۔
9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، الرقم : 11670، 11740، وأبو یعلی في المسند، 2 / 531، الرقم : 1403، وابن حبان في الصحیح، 3 / 98، الرقم : 816، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 401، الرقم : 535، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 253، الرقم : 8104۔
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : قیامت کے دن اکٹھا ہونے والوں کو پتہ چلے گا کہ بزرگی اور سخاوت والے کون ہیں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! بزرگی والے کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مساجد میں مجالسِ ذِکر منعقد کرنے والے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved