1۔ اَلَّذِيْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِo
(آل عمران، 3 : 191)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کار فرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo‘‘
2۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَيْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo
(الأنفال، 8 : 2)
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) لرز جاتے ہیںاور جب ان پراس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)o‘‘
3۔ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ یُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰـکَ عَنْهُمْ ج تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰهُ وَ کَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًاo
(الکهف، 18 : 28)
’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہےo‘‘
4۔ اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ط فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللهِ ط اُولٰئِٓکَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍo
(الزمر، 39 : 22)
’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میںہیںo‘‘
5۔ وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌo
(الزخرف، 43 : 36)
’’اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرفِ نظر کر لے تو ہم اُس کے لیے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہےo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَثَلُ الَّذِي یَذْکُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا یَذْکُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الدعوات، باب : فضل ذکر الله عزوجل، 5 / 2353، الرقم : 6044، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین، باب : استحباب صلاۃ النافلۃ في بیته وجوازھا في المسجد، 1 / 539، الرقم : 779، ولفظه : مثل البیت الذي یذکر الله فیه والبیت الذي لا یذکر الله فیه، وابن حبان في الصحیح، 3 / 135، الرقم : 854۔
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے رب تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور رب تعالیٰ کا ذکر نہ کرنے والے شخص کی مثال زندہ اورمردہ کی سی ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ عزوجل یَقُوْلُ : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : ویحذرکم الله نفسه، 6 / 2694، الرقم : 6970، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : فضل الذکر والدعاء والتقرب إلی الله تعالی، 4 / 2067، الرقم : 2675، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في حسن الظن بالله، 4 / 596، الرقم : 2388۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ … رَجُلٌ ذَکَرَ اللهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأن، باب : من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ وفضل المساجد، 1 / 234، الرقم : 629، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : إخفاء الصدقۃ، 2 / 715، الرقم : 1031، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء في الحب في الله، 4 / 598، الرقم : 2391، ومالک في الموطأ، 2 / 952، الرقم : 1709۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سات آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا… (اُن سات آدمیوں میں سے ایک وہ ہے) جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل یَقُوْلُ : أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا ھُوَ ذَکَرَنِي وَتَحَرَّکَتْ بِي شَفَتَاهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَأَحْمَدُ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ، ]القیامۃ : 16[، 6 / 2736، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل الذکر، 2 / 1246، الرقم : 3792، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 540، الرقم : 10981، 10988، 10989، وابن حبان في الصحیح، 3 / 97، الرقم : 815، والحاکم في المستدرک، 1 / 673، الرقم : 1824۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرے ذکر کے لئے حرکت کرتے ہیں۔‘‘ اسے امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
5۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : خَرَجَ مُعَاوِیَةُ عَلَی حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ؟ قَالُوْا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللهَ۔ قَالَ : آللهِ مَا أَجْلَسَکُمْ إِلَّا ذَاکَ؟ قَالُوْا : وَاللهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاکَ۔ قَالَ : أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُهْمَةً لَکُمْ۔ وَمَا کَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيْثًا مِنِّي وَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَرَجَ عَلَی حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ؟ قَالُوْا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَی مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ بِهِ عَلَيْنَا۔ قَالَ : آلله مَا أَجْلَسَکُمْ إِلَّا ذَاکَ؟ قَالُوا : وَاللهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاکَ۔ قَالَ : أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُهْمَةً لَکُمْ وَلَکِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللهَ عزوجل یُبَاهِي بِکُمُ الْمَلَائِکَةَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔
5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء، باب : فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، 4 / 2075، الرقم : 2701، والنسائي في السنن، کتاب : آداب القضاۃ، باب : کیف یستحلف الحاکم، 8 / 249، الرقم : 5426، وأبو یعلی في المسند، 13 / 381، الرقم : 7387، وابن حبان في الصحیح، 3 / 95، الرقم : 813۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا گزر مسجد میں حلقہ ذکر میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر ہوا، انہوں نے دریافت فرمایا : تم (یہاں) کیوں بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا : ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے (مسجد میں) بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے دوبارہ دریافت فرمایا : بخدا کیا تم صرف اسی لیے بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا : بخدا ہم صرف اِسی لیے بیٹھے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی۔میں حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو سب سے کم روایت کرنے والا ہوں اور بے شک ایک بار حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہوا، آپ ﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا : تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا : ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی ہدایت دے کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بخدا تم صرف اِسی وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : بخدا ہم اِسی وجہ سے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم پر کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی، بلکہ ابھی میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور اُنہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَسِيْرُ فِي طَرِيْقِ مَکَّةَ فَمَرَّ عَلَی جَبَلٍ یُقَالُ لَهُ : جُمْدَانُ، فَقَالَ : سِيْرُوْا، هَذَا جُمْدَانُ، سَبَقَ الْمُفَرِّدُوْنَ۔ قَالُوْا : وَمَا الْمُفَرِّدُوْنَ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : اَلذَّاکِرُوْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتُ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ الاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله، 4 / 2062، الرقم : 2676، وابن حبان في الصحیح، 3 / 140، الرقم : 858، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 155، الرقم : 2773، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 389، الرقم : 504۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ مکہ کے ایک راستہ میں جا رہے تھے، آپ ﷺ کا ایک پہاڑ سے گزر ہوا جس کو جُمدان کہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : چلتے رہو یہ جُمدان ہے، مُفَردون سبقت لے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مفردون کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ تعالی کا بہ کثرت ذکر کرنے والی عورتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ سُئِلَ : أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ : اَلذَّاکِرُوْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتُ۔ قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللهِ! وَمِنَ الْغَازِي فِي سَبِيْلِ اللهِ؟ قَالَ : لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الْکُفَّارِ وَالْمُشْرِکِيْنَ حَتَّی یَنْکَسِرَ، وَیَخْتَضِبَ دَمًا لَکَانَ الذَّاکِرُوْنَ اللهَ کَثِيْرًا أَفْضَلَ مِنْهُ دَرَجَةً۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ مُخْتَصَرًا۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : منه (5)، 5 / 458، الرقم : 3376، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 75، الرقم : 11738، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 419، الرقم : 589، وأبو یعلی في المسند، 2 / 530، الرقم : 1401۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ میں افضل ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے ذکر کرنے والی عورتیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بھی (زیادہ)؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی شخص اپنی تلوار کافروں اور مشرکوں پر اس قدر چلائے کہ وہ ٹوٹ جائے اور خون آلود ہو جائے پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اُس سے درجے میں افضل ہیں۔‘‘
اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے جبکہ امام بیہقی نے مختصراً بیان کیا ہے۔
8۔ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ {وَالَّذِینَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَقَالَ : بَعْضُ أَصْحَابِهِ أُنْزِلَ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا أُنْزِلَ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَهُ فَقَالَ : أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاکِرٌ وَقَلْبٌ شَاکِرٌ وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِيْنُهُ عَلَی إِيْمَانِهِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ التوبۃ، 5 / 277، الرقم : 3094، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 278، الرقم : 22446، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 182، والرویاني في المسند، 1 / 407، الرقم : 623، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 255، الرقم : 2300۔
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ {اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں} نازل ہوئی، ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ بعض صحابہ نے فرمایا : یہ سونے اور چاندی کے بارے میں نازل ہوئی کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ کون سا مال بہتر ہے تو ہم اسے حاصل کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ذکر کرنے والی زبان، شکر گزار دل اور مومنہ بیوی جو ایمان پر شوہر کی مددگار ہو، افضل مال ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : یَقُوْلُ اللهُ عزوجل : أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِي یَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ جھنم، باب : ما جاء أن للنار نفسین، 4 / 712، الرقم : 2594، والحاکم في المستدرک، 1 / 141، الرقم : 234، 5 / 244، الرقم : 8084، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 400، الرقم : 833، والبیھقي في الاعتقاد، 1 / 201۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (روزِ قیامت) اللہ عزوجل فرمائے گا : دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا کسی مقام پر (بھی) مجھ سے ڈرا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے جب کہ حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے۔
10۔ عَنِ الْحَارِثِ الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ أَمَرَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِيَّا بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ یَعْمَلَ بِهَا وَیَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيْلَ أَنْ یَعْمَلُوْا بِهَا فَذَکَرَ الْحَدِيْثَ بِطُوْلِهِ إلَی أَنْ قَالَ : وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوْا اللهَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِي أَثَرِهِ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی حِصْنٍ حَصِيْنٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَهُ مِنْهُمْ، کَذَلِکَ الْعَبْدُ لَا یُحْرِزُ نَفْسَهُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِلَّا بِذِکْرِ اللهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الأمثال، باب : ما جاء في مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ، 5 / 148، الرقم : 2863، وابن حبان في الصحیح، 14 / 124، الرقم : 6233، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 202، وأبو یعلی في المسند، 3 / 140، الرقم : 1571۔
’’حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ خود بھی اُن پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی اُن پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیں۔ (لمبی حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے) فرمایا : میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ بے شک ذکرِ الٰہی کی مثال ایسے ہے جیسے کسی آدمی کے دشمن اس کے پیچھے بھاگیں اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں آ کر پناہ گزین ہو جائے اور اُن سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے۔ اِسی طرح بندہ اپنے آپ کو شیطان سے صرف ذکرِ الٰہی کے سبب ہی بچا سکتا ہے۔‘‘
اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
11۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ الَّذِيْنَ لَا تَزَالُ أَلْسِنَتُهُمْ رَطْبَةً مِنْ ذِکْرِ اللهِ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَهُمْ یَضْحَکُوْنَ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْنُعَيْمٍ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔
11 : أخرجه ابن أبی شیبۃ في المصنف، 7 / 111، الرقم : 35055، 35052، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 219، وابن المبارک في الزھد، 1 / 397، وابن أبی عاصم في الزھد، 1 / 136، وذکره ابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 639، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 366۔
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جن لوگوں کی زبانیں ذِکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہتی ہیں وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔‘‘
اسے امام ابن ابی شیبہ، ابونعیم، ابن المبارک اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ أَھْلَ السَّمَاءِ لَیَرَوْنَ بُیُوْتَ أَھْلِ الذِّکْرِ تُضِيئُ لَهُمْ کَمَا تُضِيئُ الْکَوَاکِبُ لِأَھْلِ الْأَرْضِ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حَيَّانَ۔
12 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 170، الرقم : 30555، وابن حیان في طبقات المحدثین بأصبھان، 4 / 282، الرقم : 668، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 367۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آسمان والے ذکر کرنے والوں کے گھروں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں جیسے زمین والے آسمان پر ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں۔‘‘
اسے امام ابن ابی شیبہ اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال الإمام أبو جعفر محمد الباقر رضي الله عنه : إن الصواعق تصیب المؤمن، وغیر المؤمن ولا تصیب الذاکر ﷲ عزوجل۔
1 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 50۔
’’امام ابو جعفر محمد الباقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (غفلت و معصیت کی)بجلیاں مومن اور غیر مومن دونوں پر گرتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے پر نہیں گرتیں۔‘‘
2۔ عَن أبي عمرو الشیباني قال : قَالَ مُوْسَی علیه السلام لِرَبِّهِ عزوجل : أَيْ رَبِّ، أَيُّ عِبَادِکَ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ لِي ذِکْرًا۔
2 : أخرجه ابن السري في الزهد، 1 / 277، الرقم : 489، ، أحمد بن محمد بن إسحاق الدینوري، 1 / 51، الرقم : 21۔
’’حضرت ابو عمرو شیبانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب تعالیٰ سے عرض کیا : اے میرے رب! تیرا کون سا بندہ تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو سب سے زیادہ میرا ذکر کرنے والا ہے۔‘‘
3۔ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا أَتَاهُ قَالَ لَهُ : أَوْصِنِي یَا أَبَا مُسْلِمٍ، قَالَ : اذْکُرِ اللهَ تَحْتَ کُلِّ شَجَرَةٍ وَحَجَرٍ، قَالَ : زِدْنِي، فَقَالَ : اذْکُرِ اللهَ حَتَّی یَحْسِبَکَ النَّاسُ مِنْ ذِکْرِ اللهِ مَجْنُوْنٌ، قَالَ : فَکَانَ أَبُوْمُسْلِمٍ یُکْثِرُ ذِکْرَ اللهِ فَرَآهُ رَجُلٌ یَذْکُرُ اللهَ فَقَالَ : أَمَجْنُوْنٌ صَاحِبُکُمْ هَذَا؟ فَسَمِعَهُ أَبُوْ مُسْلِمٍ فَقَالَ : لَيْسَ ھَذَا بِالْجُنُوْنِ یَا ابْنَ أَخِي، وَلَکِنْ هَذَا دَوَاءُ الْجُنُوْنِ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
3 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 1 / 455، الرقم : 696۔
’’حضرت ابومسلم خولانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے ابو مسلم! مجھے وصیت کریں تو انہوں نے فرمایا : ہر درخت اور پتھر (کے سائے) تلے (کثرت سے) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ اس نے کہا : اس کے علاوہ مزید کوئی نصیحت فرمائیں۔ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا اتنا ذکر کرو کہ کثرت ذکرِ الٰہی کی وجہ سے لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کا اس کثرت سے ذکر کیا کرتے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو اللہ تعالیٰـ کا ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر (آپ کے ساتھیوں سے) کہا : کیا تمہارا یہ ساتھی مجنون ہے؟ حضرت ابومسلم نے اس کا یہ قول سن لیا اور فرمایا : اے بھتیجے! یہ جنون نہیں بلکہ یہ (ذکرِ الٰہی ہی) تو جنون اور پاگل پن کا علاج ہے۔‘‘
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
4۔ قال عبد الله بن المبارک رَحِمَهُ الله : إن الرحمۃ تنزل عند ذکر الصالحین۔
4 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 91۔
’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : نیکوکاروں کے ذکر کے وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔‘‘
5۔ قال أحمد النوري رَحِمَهُ الله : لکل شيء عقوبۃ، وعقوبةُ العارفِ انقطاعُه عن ذکر۔
5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 325۔
’’حضرت احمد نوری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہر چیز کے لئے سزا ہے اور عارف کی سزا یہ ہے کہ وہ ذکر (الٰہی) سے منقطع ہو جائے۔‘‘
6۔ قال بشر الحافي رحمه الله : صحبۃ الأشرار تورث سوء الظن بالأخیار وصحبۃ الأخیار تورث حسن الظن بالأشرار۔
6 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 111۔
’’حضرت بشر حافی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بروں کی صحبت نیکوں کے ساتھ بدگمانی کا سبب بنتی ہے جبکہ نیکوں کی صحبت بروں کے متعلق اچھا گمان دیتی ہے۔‘‘
7۔ قال بِشْر بن الحارث رَحِمَهُ الله : بِحَسْبِکَ أَنَّ قَوْمًا مَوْتَی، تحیا القلوبُ بِذِکْرِهم۔ وأَنَّ قومًا أحیاء تقسو القلوبُ بِرُؤْیتِهمْ۔
7 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 46۔
’’حضرت بشر بن الحارث رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تیرے لئے یہی (نصیحت) کافی ہے کہ بعض مردہ لوگوں کے ذکر سے دل زندہ ہوتے ہیں اور بعض زندہ (لیکن بے عمل) لوگوں کی رؤیت سے دل سخت ہوتے ہیں۔‘‘
8۔ قال أبو زکریا الرازي رَحِمَهُ الله : جالسوا الذاکرین فإنهم ملازمون باب الملک۔
8 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 123۔
’’حضرت ابو زکریا رازی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھو کیونکہ انہوں نے بادشاہ کا دروازہ تھام رکھا ہے۔‘‘
9۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : جاء في الإنجیل : أذکرني حین تغضب أذکرک حین أغضب، وارض بنصرتي لک، فإن نصرتي لک خیر لک من نصرتک لنفسک۔
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 225۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انجیل میں مذکور ہے کہ تو مجھے اس وقت یاد رکھ جب تو غصہ میں ہو، میں بھی تجھے اس وقت یاد رکھوں گا جب میں غصے میں ہوں گا اور میں جو تمہاری مدد کروں، اس پر راضی رہ کیونکہ میری مدد کرنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنی مدد آپ کرے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved