1۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِيْنَo
(آل عمران، 3 : 159)
’’پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےo‘‘
2۔ فَاَعْرِضْ عَنْهُم وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ ط وَکَفٰی بِاللهِ وَکِيْلًاo
(النساء، 4 : 81)
’’پس (اے محبوب!) آپ ان سے رُخِ انور پھیر لیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ کافی کارساز ہےo‘‘
3۔ وَمَنْ يَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللهِ فَاِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
(الأنفال، 8 : 49)
’’جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو (اللہ اس کے جملہ امور کا کفیل ہو جاتا ہے) بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘
4۔ وَاعْتَصِمُوْا بِاللهِ ط هُوَ مَوْلٰـکُمْ ج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُo
(الحج، 22 : 78)
’’اور اللہ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مدد گار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مدد گار ہےo‘‘
5۔ وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْحَيِّ الَّذَيْ لَا یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهٖ۔
(الفرقان، 25 : 58)
’’اور آپ اس (ہمیشہ) زندہ رہنے والے (رب) پر بھروسہ کیجئے جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہئے۔‘‘
6۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ ط وَکَفٰی بِاللهِ وَکِيْـلًاo
(الأحزاب، 33 : 3)
’’اور اللہ پر بھروسہ (جاری) رکھئے اور اللہ ہی کارساز کافی ہےo‘‘
7۔ اَلَيْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَهٗ ط وَ یُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَالَهٗ مِنْ هَادٍo
(الزمر، 39 : 36)
’’کیا اللہ اپنے بندۂِ (مقرّب نبيِّ مکرّم ﷺ ) کو کافی نہیں ہے؟ اور یہ (کفّار) آپ کو اللہ کے سوا اُن بتوں سے (جن کی یہ پوجا کرتے ہیں) ڈراتے ہیں، اور جِسے اللہ (اس کے قبولِ حق سے اِنکار کے باعث) گمراہ ٹھہرا دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیںo‘‘
8۔ وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْئٍ فَحُکْمُهٗٓ اِلَی اللهِ ط ذٰلِکُمُ اللهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُo
(الشوری، 42 : 10)
’’اور تم جِس اَمر میں اختلاف کرتے ہو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف (سے) ہو گا، یہی اللہ میرا رب ہے اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اِسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوںo‘‘
9۔ اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ھُوَ ط وَ عَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo
(التغابن، 64 : 13)
’’اللہ (ہی معبود) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ رکھنا چاہئےo‘‘
10۔ وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ يَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَھُوَ حَسْبُهٗ۔
(الطلاق، 65 : 3)
’’اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے۔‘‘
1۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، هُمُ الَّذِيْنَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَيَّرُوْنَ، وَعَلَی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقائق، باب : ومن یتوکل علی الله فھو حسبه، 5 / 2375، الرقم : 6107، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، 1 / 198، الرقم : 218، وابن حبان في الصحیح، 13 / 447، الرقم : 6084، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 293، الرقم : 967، وفي المعجم الکبیر، 18 / 183، الرقم : 427، والحاکم في المستدرک، 4 / 621، الرقم : 8721۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کرتے ہیں، نہ بد شگونی لیتے ہیں اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ غَزْوَةَ نَجْدٍ، فَلَمَّا أَدْرَکَتْهُ الْقَائِلَةُ، وَهْوَ فِي وَادٍ کَثِيْرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ وَاسْتَظَلَّ بِهَا وَعَلَّقَ سَيْفَهُ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الشَّجَرِ یَسْتَظِلُّوْنَ وَبَيْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ دَعَانَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَجِئْنَا، فَإِذَا أَعْرَابِيٌّ قَاعِدٌ بَيْنَ یَدَيْهِ فَقَالَ : إِنَّ هَذَا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَاخْتَرَطَ سَيْفِي، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ قَائِمٌ عَلَی رَأْسِي، مُخْتَرِطٌ صَلْتًا، قَالَ : مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قُلْتُ : اَللهُ، فَشَامَهُ ثُمَّ قَعَدَ، فَهُوَ هَذَا۔ قَالَ : وَلَمْ یُعَاقِبْهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : غزوات ذات الرقاع، 4 / 1516، الرقم : 3908، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : توکله علی الله وعصمۃ الله له من الناس، 4 / 1786، الرقم : 843، وأبو یعلی في المسند، 3 / 313، الرقم : 1778، وابن حبان في الصحیح، 7 / 138، الرقم : 2883، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 53، الرقم : 9112، والحاکم فيالمستدرک، 3 / 31، الرقم : 3322۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ نجد میں شریک ہوئے۔ جب قیلولہ کا وقت ہو گیا تو اس وادی میں کانٹے دار درخت بہت تھے۔ پس آپ ﷺ ایک درخت کے سائے میں قیام پذیر ہو گئے اور اپنی تلوار اس کے ساتھ لٹکا دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی سائے کی تلاش میں ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بلایا تو ہم حاضر خدمت ہو گئے۔ دیکھا تو ایک اعرابی آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جب میں سویا ہوا تھا تو یہ میرے نزدیک آیا۔ اس نے میری تلوار اتار لی۔ جب میں بیدار ہوا تو یہ میرے سر کے پاس کھڑا تھا۔ اس نے تلوار سونت کر کہا : بتاؤ اب مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا : اللہ۔ پھر تلوار کو نیام میں کر کے بیٹھ گیا، جو یہ سامنے موجود ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یَقُوْلُ : اَللّٰھُمَّ، لَکَ أَسْلَمْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ، وَإِلَيْکَ أَنَبْتُ، وَبِکَ خَاصَمْتُ۔ اَللّٰھُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا یَمُوْتُ۔ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ یَمُوْتُوْنَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب، قوله تعالی (وجوه یومئذ ناضرۃ إِلی ربھا ناظرۃ) [القیامۃ، 75 : 22،23]، 6 / 2709، الرقم : 7004، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، 4 / 2086، الرقم : 2717، وابن حبان في الصحیح، 3 / 180، الرقم : 898، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 76، الرقم : 3654، وفي المعجم الکبیر، 11 / 43، الرقم : 10987، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 184، الرقم : 1151۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ یہ دعا کرتے تھے : ’’اَللّٰھُمَّ، لَکَ أَسْلَمْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ، وَإِلَيْکَ أَنَبْتُ، وَبِکَ خَاصَمْتُ۔ اَللّٰھُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا یَمُوْتُ۔ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ یَمُوْتُوْنَ۔‘‘ (اے اللہ! میں نے تیری اطاعت کی اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر توکل کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے جنگ کی، اے اللہ! میں تیرے گمراہ کرنے سے تیری عزت کی پناہ میں آتا ہوں، تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، تو ہی زندہ ہے جس کو موت نہیں آئے گی اور سب جن اور انس مر جائیں گے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الطِّیَرَةُ مِنَ الشِّرْکِ وَمَا مِنَّا، وَلَکِنَّ اللهَ یُذْهِبُهُ بِالتَّوَکُّلِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : السیر، باب : ما جاء في الطیرۃ، 4 / 160، الرقم : 1614، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 438، الرقم : 4171، والبزار في المسند، 5 / 230، الرقم : 1840، والحاکم في المستدرک، 1 / 65، الرقم : 44، والشاشي في المسند، 2 / 120، الرقم : 651، وابن جعد في المسند، 1 / 86، الرقم : 488۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بدفالی شرک ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد بن حنبل نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتَی یُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ، فَکَأَنَّ ذَلِکَ ثَقُلَ عَلَی أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ لَهُمْ : قُوْلُوْا : حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِيْلُ، عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : ما جاء في شأن الصور، 4 / 620، الرقم : 2431، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 326، الرقم : 3010، وابن حبان في الصحیح، 3 / 105، الرقم : 823، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 286، الرقم : 2000، وفي المعجم الکبیر، 12 / 128، الرقم : 12671، والحاکم في المستدرک، 4 / 603، الرقم : 8678۔
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے کیسے خوشی ہو حالانکہ صور والے فرشتے نے صور لیا اور وہ کان لگائے اس انتظار میں ہے کہ کب اسے پھونکنے کا حکم ہوتا ہے تاکہ وہ پھونکے۔ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزری تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہو اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہے اور بہتر کارساز ہے اور ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
6۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه یَقُوْلُ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْقِلُهَا وَأَتَوَکَّلُ، أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَکَّلُ؟ قَالَ : اعْقِلْهَا وَتَوَکَّلْ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ، باب : 60، 4 / 668، الرقم 2517،وابن حبان في الصحیح، 2 / 510، الرقم : 731، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 633، الرقم : 2549، والشیباني في الآحاد والمثاني، 2 / 215، الرقم : 970۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اونٹ باندھوں اور توکل کروں یا کھول کر توکل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : باندھ کر توکل کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمًا، فَقَالَ : یَا غُلَامُ، إِنِّي أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ : احْفَظِ اللهَ یَحْفَظْکَ، احْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَکَ۔ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ۔ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ۔ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَيئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيئٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلَی أَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَيئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيئٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ عَلَيْکَ، رُفِعَتِ الْأَقْـلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن کتاب : صفۃ القیامۃ، باب : 59، 4 / 667، الرقم : 2516، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، الرقم : 2669، وأبو یعلی في المسند، 4 / 430، الرقم : 2556، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 316، الرقم : 5417، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 10 / 23، الرقم : 13۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن میں (سواری پر) حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے لڑکے! میں تجھے چند باتیں بتاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ وہ تجھے محفوظ رکھے گا، اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا جب مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ، مدد چاہے تو اسی سے طلب کر اور جان لے کہ اگر تمام امت تجھے کچھ نفع دینے کے لئے جمع ہو جائے تو وہ تجھے صرف اتنا ہی نفع پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا اور اگر سب لوگ تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں تو ہرگز نقصان نہیں دے سکتے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا۔ قلم اٹھا دیئے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
8۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللهِ حَقَّ تَوَکُّلِهِ، لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ، تَغْدُو خِمَاصًا، وَتَرُوْحُ بِطَانًا۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : في التوکل علی الله، 4 / 573، الرقم : 2344، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : التوکل والیقین، 2 / 1394، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 30، الرقم : 205، والبزار في المسند، 1 / 476، الرقم : 340، وأبو یعلی في المسند، 1 / 212، الرقم : 247، والحاکم في المستدرک، 4 / 354، الرقم : 7894۔
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح بھروسہ کرتے جیسا بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔
9۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ : بِسْمِ اللهِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ۔ قَالَ : یُقَالُ حِيْنَئِذٍ : هُدِيْتَ وَکُفِيْتَ وَوُقِيْتَ فَتَتَنَحَّی لَهُ الشَّیَاطِيْنُ، فَیَقُوْلُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ : کَيْفَ لَکَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَکُفِيَ وَوُقِيَ؟ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
9 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ما جاء فمن دخل بیته ما یقول، 4 / 325، الرقم : 5095، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 26، الرقم : 29204، وابن حبان في الصحیح، 3 / 104، الرقم : 822، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 4 / 372، الرقم : 1539، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 590، الرقم : 2375۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے گھر سے نکلا اور اس نے کہا : ’’بِسْمِ اللهِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ (اللہ کے نام کے ساتھ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، نہ طاقت ہے اور نہ قوت مگر اللہ کے ساتھ) فرمایا کہ اس وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ تو ہدایت دیا گیا، تیری طرف سے کفایت کی گئی اور تجھے بچایا لیا گیا۔ پس شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور دوسرا شیطان کہتا ہے کہ تو اس آدمی کا کیا بگاڑ سکے گا جس کو ہدایت دی گئی، جس کی طرف سے کفایت کی گئی اور جس کو بچا لیا گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال ابن عباس رضي الله عنهما : من سره أن یکون أقوی الناس فلیتوکل علی الله عزوجل، ومن سره أن یکون أکرم الناس فلیتق الله ومن سره أن یکون أغنی الناس فلیکتف برزق الله۔
1 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 415۔
’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضي الله عنهما نے فرمایا : جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ معزز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بے نیاز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر کفایت کرے۔‘‘
2۔ قال عبد الله بن المبارک : من أخذ فلساً من حرام فلیس بمتوکّل۔
2 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 171۔
’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس شخص نے ایک پیسہ حرام کا لے لیا، وہ متوکل نہیں ہے۔‘‘
3۔ قال بشر الحافي رَحِمَهُ الله : یقول أحدھم : توکلت علی الله۔ یکذب علی الله، لو توکل علی الله، رضي بما یفعل الله۔
3 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 86۔
’’حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : لوگوں میں سے کوئی(اگر رسمی طور پر یہ) کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا، وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہر فعل پر راضی ہوتا۔‘‘
4۔ قال سعید بن المسیب : أن سلمان وعبد الله بن سلام التقیا، فقال أحدهما لصاحبه : إن لقیت ربک قبل فالقني وأعلمني ما لقیت، وإن لقیته قبلک لقیتک فأخبرتک، فتوفي أحدهما، ولقي صاحبه في المنام، فقال له : توکل وأبشر، فإني لم أر مثل التوکل، قال ذلک ثلاث مرار۔
رواه ابن أبي شیبۃ وابن المبارک واللفظ له۔
4 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 120، الرقم : 34657، وابن المبارک في کتاب الزهد : 151، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 121، الرقم : 1355، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 556۔
’’حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان اور عبد اللہ بن سلام آپس میں ملے، تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ اگر تو مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ملا تو مجھ سے ملنا اور جو کچھ تو اللہ تعالیٰ سے انعام و اکرام پائے اس کے بارے میں مجھے بھی بتانا، اور اگر میں تم سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ملا تومیں تم سے مل کر تمہیں بتاؤں گا، پس ان میں سے ایک فوت ہوگیا، اور اپنے دوست سے خواب میں ملا اور اسے کہا کہ توکل اختیار کرو اور خوش خبری ہو تمہیں، پس میں نے توکل جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، ایسا تین مرتبہ کہا۔‘‘
5۔ قال إبراهیم بن أحمد الخواص رَحِمَهُ الله : التوکّل علی ثلاث درجات : علی الصبر والرضی والمحبۃ، لأنه إذا توکّل وجب علیه أن یصبر علی توکله بتوکله لمن توکل علیه، وإذا صبر وجب علیه أن یرضی بجمیع ما حکم علیه، وإذا رضي وجب علیه أن یکون محبا لکل ما فعل به موافقۃ له۔
5 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 329۔
’’حضرت ابراہیم خواص رَحِمَهُ اللہ کا قول ہے : توکل کے تین درجے ہیں (1) صبر، (2) رضاء (3) محبت۔ کیونکہ توکل کے بعد لازم ہے کہ بندہ اپنے توکل کے ذریعے جس پر توکل کیا ہے صبر کرے اور صبر کے بعد اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلہ پر رضا لازمی ہے اور رضا کے بعد موافقت الٰہی میں اس کے ہر فعل سے محبت لازمی ہے۔‘‘
6۔ جاء رجل إلی الشبلي یَشْکُوْ إلیه کثرةَ العیال، فقال : ارجع إلی بَيْتِک، فمن لیس رزقُه علی الله تعالی، فَاطْرُدْهُ عنک۔
6 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 166۔
’’ایک شخص ابو بکر شبلی رَحِمَهُ اللہ کے پاس آیا اور کثیر العیال ہونے کی شکایت کی۔ آپ نے تو فرمایا : گھر جا کر ان تمام لوگوں کو گھر سے نکال دو، جن کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہیں۔‘‘
7۔ قال أبو تُرابٍ رَحِمَهُ الله : التَّوکُّل، طُمَانِيْنةُ القلبِ إلی الله عزوجل۔
7 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 149۔
’’حضرت ابو تراب فرماتے ہیں : دل کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مطمئن ہو جانا توکل کہلاتا ہے۔‘‘
8۔ قالَ رجلٌ لأبي تُراب : ألک حاجةٌ؟ فقال له : یومَ یکونُ لي إلیک وإلی أمثالِک حاجةٌ لا یکون لي إلی الله حاجةٌ۔
8 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 150۔
’’ایک آدمی نے حضرت ابو تراب سے کہا کہ تجھے کوئی (مجھ سے) حاجت ہے؟ تو آپ کہنے لگے کہ جس دن مجھے تم سے اور تمہارے جیسے دوسرے لوگوں سے حاجت ہو گی اس دن مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت نہیں ہو گی۔ (مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواء مجھے کسی سے کوئی حاجت نہیں ہے)۔‘‘
9۔ قال أبو تُرابٍ رَحِمَهُ الله : سببُ الوصول إلی الله، سبعَ عشرۃ درجۃ، أدناها الإجابةُ، وأعلاها التوکّلُ علی الله بحقیقته۔
9 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 149۔
’’حضرت ابو تراب رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تک پہنچانے والے سترہ درجات ہیں ان میں سے سب سے چھوٹا درجہ اجابت (مان لینے کا) ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ پر توکل اختیار کرنا ہے۔‘‘
10۔ سئل یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : متی یکون الرجل متوکلاً؟ فقال : إذا رضي بالله تعالی وکیلاً۔
10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 164۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا گیا کہ آدمی متوکل کب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا : (انسان اس وقت متوکل ہوتا ہے) جب وہ اللہ کو اپنا وکیل بنانے پر راضی ہو جاتا ہے۔‘‘
11۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : طلبوا الزهد في بطن الکتب وإنما هو في بطن التوکل، لو کانوا یعلمون۔
11 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 52، وابن جوزي في صفۃ الصفوۃ، 4 / 93۔
’’یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ کا قول ہے : لوگوں نے زہد کو کتابوں میں تلاش کیا حالانکہ زہد کی حقیقت تو توکل میں مضمر ہے کاش انہیں اس بات کا علم ہوتا۔‘‘
12۔ قال أبو علي الدقاق رَحِمَهُ الله : التوکل صفۃ المؤمنین، والتسلیم : صفۃ الأولیاء، والتفویض : صفۃ الموحّدین، فالتوکّل : صفۃ العوام، والتسلیم : صفۃ الخواص، والتفویض : صفۃ خواص الخواص۔
12 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 167۔
’’ابو علی دقاق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : توکل مومنین کا خاصہ ہے اور تسلیم اولیاء کا، تفویض موحدین کا، لهٰذا توکل عوام کی صفت ٹھہری، تسلیم خواص کی اور تفویض خواص الخواص کی۔‘‘
13۔ قال سهل بن عبد الله رَحِمَهُ الله : التوکّل حالُ النبي ﷺ ، والکسب سنته، فمن بقي علی حاله، فلا یترکنّ سنَّته۔
13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 166۔
’’حضرت سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : توکل حضورنبی اکرم ﷺ کا حال تھا اور کسب آپ ﷺ کی سنت ہے، جو حضورنبی اکرم ﷺ کے حال پر رہے، اسے آپ ﷺ کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
14۔ قال أبو السفر رَحِمَهُ الله : مرض أبو بکر رَحِمَهُ الله فعادوه فقالوا : ألا ندعو لک الطبیب؟ فقال : قد رأني الطبیب۔ قالوا : فأي شيء قال لک؟ قال : قال : إني فعّال لما أرید۔
14 : أخرجه الإمام احمد بن حنبل في کتاب الزهد : 168۔
’’حضرت ابو سفر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے تو لوگوں نے آپ کی عیادت کی اور کہا کہ ہم آپ کے لئے حکیم کو نہ بلائیں؟ آپ نے فرمایا : مجھے حکیم نے دیکھا ہے۔ لوگوں نے کہا : حکیم نے آپ کو کیا کہا؟ آپ نے فرمایا : وہ کہتا ہے کہ میں وہ کرتا ہوں جو میں چاہتا ہوں۔‘‘
15۔ قال سهل بن عبد الله رَحِمَهُ الله : أوّل مقام في التوکّل : أن یکون العبدُ بین یدي الله عزوجل کالمیّت بین یدي الغاسل، یقلبه کیف شاء، لا یکون له حرکۃ ولا تدبیر۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 163۔
’’حضرت سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : توکل کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے ایسے ہو، جس طرح غسل دینے والے کے سامنے مردہ ہوتا ہے کہ جس طرح چاہتا ہے اسے پلٹتا ہے، نہ وہ حرکت کر سکتا ہے نہ کوئی تدبیر۔‘‘
16۔ قال سهل بن عبد الله رَحِمَهُ الله : علامۃ المتوکل ثلاث : لا یسأل، ولا یرد، ولا یحبس۔
16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 163۔
’’سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا کہ متوکل کی تین علامتیں ہیں : وہ نہ تو کسی سے مانگتا ہے، نہ کسی چیز کو رد کرتا ہے اور نہ اپنے پاس کچھ روکے رکھتا ہے۔‘‘
17۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : التوکّل، الثّقۃ بما في یدِ الله تعالی، والیأس عَمَّا في أیدي الناس۔
17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 169۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ توکل یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے دستِ قدرت میں ہے، تو اس پر بھروسہ کرے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، تو اس سے ناامید ہو جائے۔‘‘
18۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : ثلاثُ خصالٍ من صفَةِ الأولیاء : الثِّقَةُ باللهِ في کلِّ شيئ، والغِنَی به عن کلِّ شيئ، والرجوعُ إليه في کلِّ شيئٍ۔
18 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 110۔
’’حضرت یحی بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تین خوبیاں اولیاء کی صفات میں شامل ہیں : ہر کام میں اللہ کی ذات پر یقین رکھنا، اس کے لئے باقی ہر چیز سے بے نیازی اور ہر کام کرنے سے پہلے اس کی طرف رجوع کرنا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved