1۔ اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللهِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ ِللهِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۔
(النساء، 4 : 146)
’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے۔‘‘
2۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَo
(التوبۃ، 9 : 119)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہوo‘‘
3۔ لَنْ يَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔
(الحج، 22 : 37)
’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
4۔ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللهَ عَلَيْهِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَهٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ زصلے وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًاo لِّیَجْزِیَ اللهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِھِمْ۔
(الأحزاب، 33 : 23، 24)
’’مومنوں میں سے (بہت سے) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا، پس ان میں سے کوئی (تو شہادت پا کر) اپنی نذر پوری کر چکا ہے اور ان میں سے کوئی (اپنی باری کا) انتظار کر رہا ہے، مگر انہوں نے (اپنے عہد میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کیo (یہ) اس لئے کہ اللہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے۔‘‘
5۔ اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَo اَ لَا ِللهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۔
(الزمر، 39 : 2، 3)
’’بیشک ہم نے آپ کی طرف (یہ) کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اللہ کی عبادت اس کے لئے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریںo (لوگوں سے کہہ دیں) سُن لو! طاعت و بندگی خالصةً اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘
6۔ وَالَّذِيْ جَآء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo
(الزمر، 39 : 33)
’’اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیںo‘‘
7۔ فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَo
(غافر، 40 : 14)
’’پس تم اللہ کی عبادت اس کے لئے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو، اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی ہوo‘‘
8۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَآء وَیُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوةَ وَ ذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِo
(البینۃ، 98 : 5)
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہےo‘‘
1۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اَ لْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَلِکُلِّ امْرِیئٍ مَا نَوَی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهُ إِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهِ فَھِجْرَتُهُ إِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهُ لِدُنْیَا یُصِيْبُھَا، أَوِ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُھَا، فَھِجْرَتُهُ إِلَی مَا ھَاجَرَ إِلَيْهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : ما جاء أن الأعمال بالنیّۃ والحسبۃ ولکل امریء ما نوی، 1 / 30، الرقم : 54، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإمارۃ، باب : قوله إنما الأعمال بالنیۃ وأنه یدخل فیه الغزو وغیره من الأعمال، 3 / 1515، الرقم : 1907، والترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجهاد، باب : ما جاء فیمن یقاتل ریاء وللدنیا، 4 / 179، الرقم : 1647۔
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، پس جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے لئے ہی شمار ہو گی، اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوئی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔
2۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضي الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّھَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّھَدَاء، وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِهِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُد وَابْنُ مَاجَه۔
2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإمارۃ، باب : استحباب طلب الشھادۃ في سبیل الله تعالی، 3 / 1517، الرقم : 1908۔ 1909، وأبوداود في السنن، کتاب : الوتر، باب : في الاستغفار، 2 / 85، الرقم : 2، والنسائي في السنن، کتاب : الجھاد، باب : مسألۃ الشھادۃ، 6 / 36، الرقم : 3162، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجھاد، باب : القتال في سبیل الله سبحانه و تعالیٰ، 2 / 935، الرقم : 2797۔
’’حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل کے ساتھ شہادت (کی موت) طلب کی تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کا مقام عطا فرمائے گا خواہ اسے بستر پر ہی موت (کیوں نہ) آئی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، نسائی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم قاَلَ : حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : دَعْ مَا یَرِيْبُکَ، إِلَی مَا لَا یَرِيْبُکَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِيْنَةٌ، وَإِنَّ الْکَذِبَ رِيْبَةٌ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ، وقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنادِ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 60، 4 / 668، الرقم : 2518، والنسائي في السنن، کتاب : الأشربۃ، باب : الحث علی ترک الشبھات، 8 / 327، الرقم : 5711، والدارمي في السنن، 2 / 319، الرقم : 2532، وابن حبان في الصحیح، 2 / 498، الرقم : 722، والحاکم في المستدرک، 2 / 15، الرقم : 2169۔
’’حضرت ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضورنبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد (آج بھی) یاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : شک و شبہ والی چیز چھوڑ کر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو، بیشک سچ سکون اور جھوٹ شک و شبہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔
4۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ فَارَقَ الدُّنْیَا عَلَی الْإِخْلَاصِ ِللهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، مَاتَ وَاللهُ عَنْهُ رَاضٍ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
4 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : في الإیمان، 1 / 27، الرقم : 70، والحاکم في المستدرک، 2 / 362، الرقم : 3277، والبیھقي في شعب الإیمان، 5 / 341، الرقم : 6856، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 6 / 126، الرقم : 2122، وھبۃ الله اللالکائي في اعتقاد أھل السنۃ، 4 / 835، الرقم : 1549۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ وحدہ لا شریک کے لئے کامل اخلاص پر اور بلا شرک اس کی عبادت پر، نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ دینے پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گا اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي الله عنه قَالَ : جَاء رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ : أَرَأَيْتَ رَجُـلًا غَزَا یَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَا لَهُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا شَيْئَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ یَقُوْلُ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا شَيْئَ لَهُ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللهَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
5 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : من غزا یلتمس الأجر والذکر، 6 / 25، الرقم : 3140، وفي السنن الکبری، 3 / 18، الرقم : 4348، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 140، الرقم : 7628، وابن رجب الحنبلي في المسند، 1 / 16۔
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ اگر کوئی شخص لالچ اور طمع کی خاطر یا نام آوری کے لیے جہاد کرے تو اسے کیا ملے گا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا بعد ازاں اس شخص نے یہی سوال تین دفعہ کیا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے یہی جواب عنایت فرمایا کہ اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا، بعد ازاں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور اسے کرنے سے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حِيْنَ بَعَثَهُ إِلَی الْیَمَنِ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : أَخْلِصْ دِيْنَکَ، یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْھَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
6 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 341، الرقم : 7844، والبیھقي في شعب الإیمان، 5 / 342، الرقم : 6859، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 22، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 435، الرقم : 1772۔
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : دین میں اخلاص پیدا کر، تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے جبکہ یہ الفاظ حاکم کے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
7۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : طُوْبَی لِلْمُخْلِصِيْنَ أُوْلَئِکَ مَصَابِيْحُ الْهُدَی تَتَجَلَّی عَنْهُمْ کُلُّ فِتْنَةٍ ظَلْمَاءَ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
7 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 100، الرقم : 34497، والبیهقي في شعب الإیمان، 5 / 343، الرقم : 6861، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 16، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 23۔
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اخلاص سے کام کرنے والوں کے لئے خوش خبری ہے۔ یہ لوگ چراغِ ہدایت ہیں، ان کے ذریعے ہر سیاہ فتنہ چھٹ جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔
8۔ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : تَحَرَّوُا الصِّدْقَ وَإِنْ رَأَيْتُمْ فِيْهِ الْهَلَکَةَ فَإِنَّ فِيْهِ النَّجَاةَ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
8 : أخرجه ابن أبي الدنیا في الصمت، 1 / 227، الرقم : 446، والمنذري في الترغیب والترھیب، 3 / 365، الرقم : 4442، وأبو بکر القرشي في مکارم الأخلاق، 1 / 51، الرقم : 137، والمناوي في فیض القدیر، 3 / 232۔
’’حضرت منصور بن معتمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سچ بولو اگرچہ اس میں تمہیں ہلاکت نظر آئے (کیونکہ) نجات اسی میں ہے۔‘‘
اس حدیث کو ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال الفُضیل بن عِیاض رَحِمَهُ الله : ترکُ العمل لأجل الناس ریاءٌ، والعملُ لأجل الناس شِرک، والإخلاصُ أن یعافیَک الله منهما۔
1 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 69۔
’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : لوگوں کی خاطر عمل ترک کر دینا ریا ہے، اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان دونوں باتوں سے محفوظ رکھے۔‘‘
2۔ قال ذو النون المصري رَحِمَهُ الله : ثلاثٌ من علامات الإخلاص : استواءُ المدح والذم من العامۃ، ونسیانُ رؤیۃ الأعمال في الأعمال، واقتضائُ ثواب العمل في الآخرۃ۔
2 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
’’حضرت ذوالنون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تین چیزیں اِخلاص کی علامات میں سے ہیں : مدح و ذم (تعریف و مذمت) کا برابر ہو جانا (یعنی بندہ تعریف سے نہ پھولے اور نہ مذمت سے پریشان ہو) اور اپنے اعمال میں (کثرتِ) اعمال کی طرف دھیان نہ کرے (ورنہ نفس میں رعونت کا خطرہ ہے) اور اپنے اعمال کے اجر و ثواب کو( دنیا کی بجائے) آخرت میں چاہے۔‘‘
3۔ قال ذو النون المصري : الإخلاص : ما حفظ من العدو أن یفسده۔
3 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209۔
’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اخلاص وہ عمل ہے جو انسان کو دشمن (یعنی نفس یا شیطان) سے بچائے، کہ وہ اسے خراب نہ کر دے۔‘‘
4۔ قال الجنید البغدادي رَحِمَهُ الله : الصادق یتقلب في الیوم أربعین مرّۃ، والمُرائي یثبت علی حالۃ واحدۃ أربعین سنۃ۔
4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 211۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : صادق ایک دن میں لا تعداد حالتیں بدلتا ہے۔ (اور افضل سے افضل تر حالت کو جاتا ہے) اور ریاکار ایک ہی حالت پر چالیس سال تک قائم رہتا ہے۔‘‘
5۔ قال السري السقطي رَحِمَهُ الله : من تزیّن للناسِ بما لیس فیه سقط من عینِ اللهِ تعالی۔
5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے آراستہ کر کے دکھائے جو درحقیقت اس میں نہیں پائی جاتی ہیں، وہ شخص اللہ کی نگاہ سے گر جاتا ہے۔‘‘
6۔ قال سفیان بن عیینۃ رحمه الله : خصلتان یعسر علاجهما ترک الطمع فیما بأیدي الناس، وإخلاص العمل ﷲ۔
6 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 86۔
’’حضرت سفیان بن عیینہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دو خصلتوں کا علاج مشکل ہے : لوگوں کے پاس دولت کی طمع ترک کرنا، اللہ تعالیٰ کے لئے عمل میں اخلاص پیدا کرنا۔‘‘
7۔ قال الحارث المحاسبي رحمه الله : من صحح باطنه بالمراقبۃ والإخلاص زیّن الله تعالی ظاهره بالمجاهدۃ واتّباع السنۃ۔
7 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 113۔
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اپنے باطن کو خوفِ خدا اور اخلاص کے ساتھ درست کیا اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو مجاہدہ اور سنت کی پیروی کے ساتھ زینت بخشتا ہے۔‘‘
8۔ قال الحارث المحاسبيُّ رحمه الله : الصادق هو الذي لا یُبالي لو خرج کلُّ قَدْرِ له في قلوب الخلق من أجل صَلاح قلبه، ولا یحبُّ اطلاع الناس علی مثاقیل الذرِّ من حسن عمله، ولا یکرهُ أن یطلعَ الناسُ علی السئ من عمله۔
8 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
ِِ’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صادق وہ ہے جو اپنے دل کی صلاح کے لئے اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ مخلوق کے دلوں سے اس کی تمام قدر نکل جائے، اور نہ ہی یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے ذرا برابر اچھے عمل پر مطلع ہوں، اور نہ ہی یہ مکروہ جانتا ہے کہ لوگ اس کے برے عمل پر مطلع ہوں۔‘‘
9۔ قال سهل التستري : لا یشمّ رائحةَ الصدق عبدٌ داهَن نفسَه أو غیره۔
9 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
’’حضرت سہل تستری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ وہ شخص کبھی بھی صدق کی خوشبو نہیں سونگھے گا جس نے اپنی یا دوسروں کی خوشامد کی۔‘‘
10۔ قیل لسھل التستري رَحِمَهُ الله : أي شيء أشد علی النفس؟ فقال : الإخلاص۔ لأنه لیس لھا فیه نصیب۔
10 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 69۔
’’حضرت سہل تستری رَحِمَهُ اللہ سے کہا گیا کہ کون سی چیز نفس پر گراں ہے؟ تو آپ نے فرمایا : اخلاص، کیونکہ نفس کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘
11۔ قال الأستاذ أبو القاسم القُشیري رَحِمَهُ الله : أقلُّ الصدق استواءُ السرّ والعلانیۃ۔
11 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ سے مروی ہے کہ صدق کا ادنیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن یکساں ہو جائے۔‘‘
12۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : یصحّ أن یقال : الإخلاصُ : تَصْفِیَةُ الفعلِ عن مُلَاحَظَةِ الْمَخْلُوْقِيْنَ۔
12 : القشیري في الرسالۃ : 207۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یوں کہنا بھی درست ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنے کا نام اخلاص ہے۔‘‘
13۔ قال الأستاذ أبو علي الدقاق رَحِمَهُ الله : الإخلاصُ : التوقي عن ملاحظۃ الخلق، والصدق : التنقي عن مطاوعۃ النفس، فالمخلصُ لا ریاءَ له، والصادقُ لا إعجابَ له۔
13 : أخرجه النّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
’’اُستاد ابو علی الدقاق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اخلاص سے مراد مخلوق کے دکھاوے سے بچنا، اور صدق سے مراد نفس کی پیروی سے پاک ہونا ہے، پس مخلص وہ شخص ہے جس کے ہاں ریاکاری نہ ہو اور صادق وہ شخص ہے جس کے ہاں خود پسندی نہ ہو۔‘‘
14۔ قال سهل بن عبد الله : أوّل خیانۃ الصدّیقین حدیثهم مع أنفسهم۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 213۔
’’حضرت سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : صدیقوں کی خیانت کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے نفس سے باتیں کرنے لگتے ہیں (اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں کوتاہی کرنے لگتے ہیں)۔‘‘
15۔ قال یوسف بن أسباط رَحِمَهُ الله : لأن أَبِيْتَ لَيْلَةً أُعَامِلُ الله تعالی بِالصِّدْقِ أحبُّ إليّ من أن أضرب بسیفي في سبیل الله تعالی۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 213۔
’’حضرت یوسف بن اسباط رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اگر میں ایک رات بھی صدق کے ساتھ اللہ سے معاملہ کر لوں تو یہ مجھے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔‘‘
16۔ قال أبوبکر الدقاق رَحِمَهُ الله : نقصانُ کلّ مخلصٍ في إخلاصه رؤیةُ إخلاصِه، فإذا أرَادَ الله تعالی أن یُخلصَ إخلاصَه أسقط عن إخلاصه رؤیته لإخلاصه، فیکون مُخْلَصًا لا مُخْلِصًا۔
16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 208۔
’’حضرت ابو بکر دقاق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اپنے اخلاص پر نظر رکھنا، مخلص کے لئے نقصان دہ ہے۔ لهٰذا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے اخلاص کو خالص بنانا چاہتا ہے تو اس کے اخلاص سے اپنے اخلاص کے دیکھنے کو نکال دیتا ہے۔ لهٰذا وہ مخلَص (بفتح اللام) ہوتا ہے، نہ کہ مخلِص (بکسر اللام)۔‘‘
17۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : نِسْیَانُ رؤیةِ الخلق بدوامِ النّظرِ إلی الخالِق۔
17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209۔
’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : خالق کی طرف ہمیشہ نگاہ رکھنے کی وجہ سے مخلوق کی رؤیت کو بھلانے کا نام اخلاص ہے۔‘‘
18۔ قال حذیفۃ المرعشي رَحِمَهُ الله : الإخلاصُ أن تَسْتَوِيَ أفعالُ العبدِ في الظّاهرِ والباطنِ۔
18 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209، والنّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 13۔
’’حضرت حذیفہ المرعشی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اخلاص یہ ہے کہ بندے کے ظاہری و باطنی اعمال میں یکسانیت ہو جائے۔‘‘
19۔ قال الجنید البغدادي رَحِمَهُ الله : الإخلاص سرٌّ بین اللهِ تعالی والعبدِ، لا یَعْلَمُه مَلَکٌ فیکتبه، ولا شیطان فیُفْسِدُه، ولا هوی فیمیله۔
19 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209، وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 69۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اخلاص بندے اور رب کے درمیان ایک راز ہے، جسے نہ تو فرشتہ جان سکتا ہے کہ لکھ لے اور نہ شیطان کہ اسے خراب کرسکے اور نہ خواہش نفس کہ اسے اپنی طرف مائل کرسکے۔‘‘
20۔ قال رویم رَحِمَهُ الله : الإخلاصُ مِنَ العملِ : هو الذي لا یرید صاحبه علیهِ عوضًا من الدَّارین، ولا حظًّا من الملکین۔
20 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 209۔
’’حضرت رویم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اعمال میں اخلاص یہ ہے کہ عمل کرنے والا اپنے عمل کے عوض دنیا اور آخرت میں کوئی چیز نہ چاہے اور نہ ہی دونوں فرشتوں (دائیں اور بائیں والے فرشتے) سے کوئی حصہ مانگے۔‘‘
21۔ قال مکحول رَحِمَهُ الله : ما أخلص عبد قط أربعین یومًا إلا ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبه علی لسانه۔
21 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 69۔
’’حضرت مکحول رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب کوئی شخص چالیس دن اخلاص کے ساتھ گزارتا ہے تو اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔‘‘
22۔ قال محمَّد بن علي التِّرْمِذِيُّ رَحِمَهُ الله : لیس الفَوْز هناک بکثرۃ الأعْمال، إنما الفوز هناک بإخلاص الأعْمال وتحْسینها۔
22 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 218۔
’’محمد بن علی ترمذی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : آخرت میں کامیابی کثرت اعمال سے نہیں ہو گی بلکہ اعمال کے اخلاص اور ان کے حسن کی وجہ سے ہو گی۔‘‘
23۔ قال محمد بن علي الکتّاني رَحِمَهُ الله إذا سأله بعض المریدین، فقال له : ’’أوصني۔ فقال : کن کما تُرِي الناسَ، وإلا فأرِ الناس ما تکون۔
23 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 374۔
’’محمد بن علی کتانی رَحِمَهُ اللہ سے جب کسی مرید نے عرض کیا کہ : مجھے نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا : تو اس طرح ہو جا جس طرح لوگوں کو دکھاتا ہے یا پھر لوگوں کو وہ دکھا جو کچھ تو ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved