1۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ ط وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا ِلّلّٰهِ۔
(البقرۃ، 2 : 165)
’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے غیروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’’اللہ سے محبتــــ‘‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
2۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
(آل عمران، 3 : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo‘‘
3۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ۔
(المائدۃ، 5 : 54)
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘
4۔ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ ط وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo
(التوبۃ، 9 : 24)
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں : اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo‘‘
5۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّ یَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآء وَّلَا شُکُوْرًاo
(الدھر، 76 : 8، 9)
’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیںo‘‘
1۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : ثَـلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ : أَنْ یَکُوْنَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاھُمَا، وَأَنْ یُحِبَّ الْمَرْء لَا یُحِبُّهُ إِلَّا ِللهِ، وَأَنْ یَکْرَهَ أَنْ یَعُوْدَ فِي الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَهُ أَنْ یُقْذَفَ فِي النَّارِ۔ وَفِي رِوَایَةٍ : حَلَاوَةَ الْإِسْلَامِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : حلاوۃ الإِیمانِ، 1 / 14، الرقم : 16، وفي کتاب : الإیمان، باب : من کرہ أن یعود في الکفر کما یکرہ أن یلقی في النّار من الإیمان، 1 / 16، الرقم : 21، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوۃ الإیمان، 1 / 66، الرقم : 43، والترمذي في السنن، کتاب : الإیمان، باب : 10، والنسائي في السنن، کتاب : الإیمان وشرائعہ، باب : طعم الإیمان، 8 / 94، الرقم : 4987۔
’’حضرت اَنس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کو ضرور پالے گا (وہ تین خصلتیں یہ ہیں) : 1۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ اسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔ 2۔ جس شخص سے بھی اسے محبت ہو وہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہو۔ 3۔ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالتِ) کفر میں لوٹنے کو وہ اس طرح ناپسند کرتا ہو جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسندکرتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ أَعْرَابِیًّا قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا أَعْدَدْتَ لَھَا؟ قَالَ : حُبَّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ۔ قَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
2 : أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذی في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385۔
’’حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اُس نے عرض کیا : میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
3۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنھا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ رَجُلًا عَلَی سَرِيَّةٍ وَکَانَ یَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَـلَا تِهِ فَیَخْتِمُ بِقُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوْا ذَکَرُوْا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ : سَلُوْهُ لِأَيِّ شَيْئٍ یَصْنَعُ ذَلِکَ؟ فَسَأَلُوْهُ، فَقَالَ : لِأَنَّھَا صِفَةُ الرَّحْمٰنِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِھَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَخْبِرُوْهُ أَنَّ اللهَ یُحِبُّهُ۔مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : ما جاء في دعاء البني ﷺ أمتہ إلی توحید اللہ تبارک وتعالی، 6 / 2686، الرقم : 6940، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین، باب : فضل قرأۃ قل ھو اللہ أحد، 1 / 557، الرقم : 813، والنسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : الفضل في قرأۃ قل ھو اللہ أحد، 2 / 170، الرقم : 993، وفي السنن الکبری، 1 / 341، الرقم : 1065۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو فوجی دستے کا امیر بنا کر بھیجا ۔ جب وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو اسے سورۂ اخلاص پر ختم کرتا۔ جب وہ واپس لوٹے تو لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا تھا؟ اُنہوں نے اُس سے پوچھا، تو اس نے جواب دیا کہ اس میں خدائے رحمن کی صفت ہے اس لئے میں اس کو پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ علیہ السلام یَقُوْلُ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ حُبَّکَ، وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ، وَالْعَمَلَ الَّذِي یُبَلِّغُنِي حُبَّکَ، اَللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَھْلِي، وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔ قَالَ : وَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ذَکَرَ دَاوُدَ علیہ السلام یُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ : کَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 73، 5 / 522، الرقم : 3490، والحاکم في المستدرک، وقال : صحیح الإسناد، 2 / 470، الرقم : 3621، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 271، الرقم : 4810۔
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی ہے : ’’اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ حُبَّکَ، وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ، وَالْعَمَلَ الَّذِي یُبَلِّغُنِي حُبَّکَ، اَللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَھْلِي، وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔‘‘ (یا اللہ! میں تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور تیری محبت پیدا کرنے والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔ یا اللہ! اپنی محبت میرے لئے میرے نفس، میری اولاد اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بھی حضرت داود علیہ السلام کا تذکرہ کرتے اور آپ سے کوئی بات نقل کرتے تو فرماتے : وہ (اپنے دور میں) سب سے زیادہ عبادت گزار انسان تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ یَزِيْدَ الْخَطْمِيِّ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ کَانَ یَقُوْلُ فِي دُعَائِهِ : اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَکَ، اَللَّهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيْمَا تُحِبُّ، اَللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ لِي قُرَّةً فِيْمَا تُحِبُّ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 74، 5 / 523، الرقم : 3491، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 76، الرقم : 29592، وابن المبارک في کتاب الزھد، 1 / 144، الرقم : 430، والذھبي في میزان الاعتدال وحسّنہ، 3 / 250۔
’’حضرت عبد اللہ بن یزید خطمی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی دعا میں یہ کلمات فرمایا کرتے تھے : ’’اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَکَ، اَللَّهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيْمَا تُحِبُّ، اَللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ لِي قُرَّةً فِيْمَا تُحِبُّ‘‘ (یا اللہ! تو مجھے اپنی محبت عطا فرما اور ہر اس شخص کی محبت عطا فرما جس کی محبت تیرے نزدیک مجھے نفع دے۔ یا اللہ! مجھے جو پسندیدہ چیز عطا فرمائے اسے اپنی محبت میں میری قوت و طاقت بنا، اور جس پسندیدہ چیز کو تو مجھ سے روک رکھے تو مجھے اپنی محبوب چیزوں میں مصروف رکھ کر اس سے فارغ البال بنا دے)۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ ِللهِ، وَأَبْغَضَ ِللهِ، وَأَعْطَی ِللهِ، وَمَنَعَ ِللهِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْإِيْمَانَ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ 4 / 220، الرقم : 4681، والحاکم في المستدرک، 2 / 178 الرقم : 2694 والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 41، الرقم : 9083۔
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی (نا پسندیدہ اُمور میں) خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیا، پس اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، اَلرَّجُلُ یُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا یَسْتَطِيْعُ أَنْ یَعْمَلَ کَعَمَلِھِمْ۔ قَالَ : أَنْتَ یَا أَبَا ذَرٍّ، مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ قَالَ : فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔ قَالَ : فَإنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ۔
7 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : إخبار الرجل الرجل بمحبتہ إلیہ، 4 / 333، الرقم : 5126، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم : 395، وابن حبان في الصحیح، 2 / 315، الرقم : 556، والدارمي في المسند، 2 / 414، الرقم : 2787، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم : 61416، 21501، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 128، الرقم : 351۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن اُن جیسے عمل نہیں کر سکتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابو ذر! تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تجھے محبت ہے۔ انہوں (حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ)نے کہا : میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا : (اے ابو ذر!) تو یقینا ان کے ساتھ ہو گا جن سے تجھے محبت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ : اَلْحُبُّ فِي اللهِ وَالْبُغْضُ فِي اللهِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ، وَأَحْمَدُ۔
8 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : مجانبۃ أھل الأھواء وبغضھم، 4 / 198، الرقم : 4599، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 146، الرقم : 21341، والبزار في المسند، 9 / 461، الرقم : 4076، والمنذري في الترغیب والترہیب، 4 / 14، الرقم : 4593، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 355، الرقم : 1429۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اللہ عزوجل کے نزدیک) اعمال میں سب سے افضل عمل اللہ عزوجل کے لئے محبت رکھنا اور اللہ عزوجل ہی کے لئے دشمنی رکھنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ اللهَ عزوجل یَقُوْلُ : قَدْ حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِيْنَ یَتَحَابُّوْنَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِيْنَ یَتَصَافُّوْنَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِيْنَ یَتَزَاوَرُوْنَ مِنْ أَجْلِي، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِيْنَ یَتَبَاذَلُوْنَ مِنْ أَجْلِي، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِی ِللَّذِيْنَ یَتَنَاصَرُوْنَ مِنْ أَجْلِي۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ فِي مَوْضِعَيْنِ وَصَحَّحَھُمَا۔
9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 386، الرقم : 19457، والحاکم في المستدرک، 4 / 187، الرقم : 7315، 7316، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 40، الرقم : 9080، وفي المعجم الصغیر، 2 / 239، الرقم : 1095، وفي مسند الشامیین، 1 / 377، الرقم : 654، والبیہقي في شعب الإیمان، 6 / 485، الرقم : 8996۔
’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : میری محبت ان لوگوں کے لئے برحق ہے جو میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے برحق ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے بر حق ہے جو میری خاطر ایک دوسرے سے ملتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے بر حق ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں کے لئے بھی بر حق ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْحِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یَحِقُّ الْعَبْدُ حَقِيْقَةَ الْإِيْمَانِ حَتَّی یَغْضَبَ ِللهِ وَیَرْضَی ِللهِ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ اسْتَحَقَّ حَقِيْقَةَ الْإِيْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِیَائِي الَّذِيْنَ یُذْکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 430، الرقم : 15634، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 203، الرقم : 651، وابن أبي الدنیا في کتاب الأولیائ، 1 / 15، الرقم : 19، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 152، الرقم : 7789، والمنذري في الترغیب والترہیب، 4 / 14، الرقم : 4589۔
’’حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کی رضا کا مرکز و محور فقط ذاتِ الٰہی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پا لیا،اور (حقیقتِ ایمان پانے والے ایسے ہی خوش نصیبوں کے لیے فرمان ہے کہ)بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آجاتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آ جاتا ہوں۔ (میرے ذکر سے ان کی یاد آ جاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ امام طبرانی کے ہیں۔
11۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ : أَيُّ عُرَی الْإِسْلَامِ أَوْسَطُ؟ قَالُوْا : اَلصَّـلَاةُ۔ قَالَ : حَسَنَةٌ، وَمَا ھِيَ بِھَا۔ قَالُوْا : الزَّکَاةُ۔ قَالَ : حَسَنَةٌ، وَمَا ھِيَ بِھَا۔ قَالُوْا : صِیَامُ رَمضَانَ۔ قَالَ : حَسَنٌ، وَمَا ھُوَ بِهِ۔ قَالُوْا : اَلْحَجُّ، قَالَ : حَسَنٌ، وَمَا ھُوَ بِهِ۔ قَالُوْا : اَلْجِھَادُ۔ قَالَ : حَسَنٌ، وَمَا ھُوَ بِهِ۔ قَالَ : إِنَّ أَوْسَطَ عُرَی الْإِيْمَانِ أَنْ تُحِبَّ فِي اللهِ وَتُبْغِضَ فِي اللهِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
11 : أخرجه أحمد في المسند، 4 / 286، الرقم : 18547، والرویاني في المسند، 1 / 270، الرقم : 399۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی کون سی کڑی سب سے زیادہ افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : نماز۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ وہ نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : زکوٰۃ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ وہ نہیں (جو میں پوچھ رہا ہوں)۔ انہوں نے عرض کیا : رمضان کے روزے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا کام ہے لیکن یہ وہ نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : حج، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ وہ نہیں۔ انہوں نے عرض کیا : جہاد۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا کام ہے، لیکن یہ بھی وہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی سب سے افضل کڑی یہ ہے کہ تم اللہ کی خاطر محبت کرو اور اللہ کی خاطر نفرت کرو۔‘‘ اسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : وَذُکِرَ سَالِمٌ مَوْلَی أَبِي حُذَيْفَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : إِنَّ سَالِمًا شَدِيْدُ الْحُبِّ ِللهِ تَعَالی۔
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ وَالشَّيْبَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
12 : أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 234، الرقم : 896، والشیباني في الأحاد والمثاني، 1 / 239، الرقم : 311، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 177۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : آپ ﷺ نے حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم کا ذکر کیا اور فرمایا : بے شک سالم اللہ تعالیٰ سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام دیلمی، ابو نعیم اور شیبانی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام شیبانی کے ہیں۔
13۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ : نَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ مُقْبِلًا وَعَلَيْهِ إِهَابُ کَبَشٍ قَدْ تَنَطَّقَ بِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي نَوَّرَ اللهُ قَلْبَهُ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَيْنَ أَبَوَيْنِ، یَغْذُوَانِهِ بِأَطْیَبِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَلَيْهِ حُلَّةً شَرَاھَا أَوْ شُرِیَتْ بِمِائَتَيْ دِرْھَمٍ، فَدَعَاهُ حُبُّ اللهِ وَحُبُّ رَسُوْلِهِ إِلَی مَا تَرَوْنَ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ فِي حِلْیَةِ الْأَوْلِیَاء بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔
13 : أخرجه البیہقي في شعب الإیمان، 5 / 160، الرقم : 6189، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 108، ونقلہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3 / 81، الرقم : 3163، والغزالي في إحیاء علوم الدین، 4 / 253۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا کہ ایک مینڈھے کی کھال کمر کے گرد لپیٹے چلے آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے) فرمایا : اس شخص کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا دل نور سے بھر دیا ہے۔ میں نے اسے اس کے ماں باپ کے ساتھ دیکھا تھا کہ اسے عمدہ کھانا پینا دیا کرتے تھے اور میں نے اس پر ایک ایسی پوشاک دیکھی جسے دو سو درہم میں اُس نے (خود) خریدا تھا یا وہ اس کے لئے خریدی گئی تھی اور اب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نے اس کا یہ حال کیا ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم نے عمدہ اِسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
14۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ لَهُ : کَيْفَ أَصْبَحْتَ یَا حَارِثُ، قَالَ : أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا۔ فَقَالَ : انْظُرْ مَا تَقُوْلُ، فَإِنَّ لِکُلِّ شَيئٍ حَقِيْقَةً، فَمَا حَقِيْقَةُ إِيْمَانِکَ؟ فَقَالَ : عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْیَا وَأَسْهَرْتُ لِذَالِکَ لَيْلِي وَأَظْمَأْتُ نَهَارِي، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا (وَفِي رِوَایَةٍ : قَالَ عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْیَا فَأَسْھَرْتُ لَيْلِي وَاظْمَأْتُ نَهَارِي وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی عَرْشَ رَبِّي بَارِزًا) وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی أَهْلِ الْجَنَّةِ یَتَزَاوَرُوْنَ فِيْهَا، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی أَهْلِ النَّارِ یَتَضَاغُوْنَ فِيْهَا۔ قَالَ : یَا حَاِرثُ، عَرَفْتَ فَالْزَمْ، ثَـلَاثًا۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
14 : أخرجه ابن أبی شیبۃ في المصنف، 6 / 170، الرقم : ، 30423، والطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 266، الرقم : 3367، والبیھقي في شعب الإیمان، 7 / 362، الرقم : 10590، 10591، وأوردہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 57 وقال رواہ البزار، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 165، الرقم : 445۔
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : اے حارث! تو نے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے سچے مومن کی طرح (یعنی حقیقتِ ایمان کے ساتھ) صبح کی، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو؟ یقینا ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے،کیا جانتے ہو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا : میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہلِ جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے حارث! تو نے (حقیقتِ ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا۔ یہ کلمہ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْإِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ ِللهِ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَاکَ۔ رَوَاهُ ابْنُ الرَّبِيْعِ۔
15 : أخرجه ابن الربیع في المسند، 1 / 42، الرقم : 56، وابن رجب الحنبلی في جامع العلوم والحکم، 1 / 36۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ کے لئے اس طرح عمل کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو یقینا وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ربیع نے روایت کیا ہے۔
16۔ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ آثَرَ مَحَبَّةَ اللهِ عَلَی مَحَبَّةِ نَفْسِهِ کَفَاهُ اللهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ۔ رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ۔
16 : أخرجه القضاعي في مسند الشہاب، 1 / 275، الرقم : 447، والہندي في کنز العمال، 15 / 790، الرقم : 43127۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنے نفس کی محبت پر ترجیح دی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی اذیت سے محفوظ فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال موسی بن عمران علیہ السلام : أي ربّ، أینَ أَبْغِيْکَ؟ قال : إِبْغَنِي عِنْدَ الْمُنْکَسِرَةِ قُلُوْبُهُمْ۔ إني أدْنُو منهم کلَّ یَوْمٍ بَاعًا ولولا ذلک لَانْهَدَمُوْا۔
1 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 120۔
’’حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب! میں تجھے کہاں تلاش کروں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے ٹوٹے ہوئے دل والوں کے پاس تلاش کر، کیونکہ میں ہر روز ایک ہاتھ ان کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ دل(ہجر و فراق کی وجہ سے) منہدم ہو جاتے۔‘‘
2۔ قال سیّدنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أعلم الناس بالله أشدّهم حُبًّا، وتعظیماً لأهل لا إله إلا الله۔
2 : أخرجه الشعرانيفي الطبقات الکبری : 33۔
’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور لا إلہ إلا اللہ کہنے والوں (اہلِ توحید) کی تعظیم کرتا ہے۔‘‘
3۔ قال أبو یزید البسطامي رحمه الله : إن ﷲ عبادًا لو حجبهم في الجنّۃ عن رؤیته لاستغاثوا من الجنّۃ کما یستغیثُ أهلُ النّارِ من النارِ۔
3 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 331۔
’’حضرت ابو یزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا : اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر جنت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے محجوب رکھے تو وہ جنت سے بچنے کی اسی طرح فریاد کریں گے جس طرح دوزخی دوزخ سے بچنے کی کریں گے۔‘‘
4۔ قال الشبلي رَحِمَهُ الله : سمّیت المحبۃ محبۃ، لأنها تمحو من القلب ما سوی المحبوب۔
4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 321۔
’’حضرت شبلی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : محبت کو محبت اس لئے کہا گیا کہ یہ دل سے محبوب کے سوا تمام چیزوں کو محو کر دیتی ہے۔‘‘
5۔ قال السَّرِيُّ السَّقَطِيُّ رَحِمَهُ الله : اَللّٰھُمَّ ما عذَّبْتَنِي بشيئٍ، فلا تُعَذّبْنِي بِذُلِّ الحِجَابِ۔
5 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 51۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اے اللہ! تو نے مجھے کسی چیز کا عذاب نہیں دیا پس مجھے حجاب(دوری) کا ذلت آمیز عذاب نہ دینا۔‘‘
6۔ قال السَّرِيُّ السَّقَطِيُّ رَحِمَهُ الله : للمرید عشر مقامات، التحبّب إلی الله بالنافلۃ، والتزیّن عنده بنصیحۃ الأمۃ، والأنس بکلام الله، والصبر علی أحکامه، والأثرۃ لأمره، والحیاء من نظره، وبذل المجهود في محبوبه، والرضاء بالقلۃ، والقناعۃ بالخمول۔
6 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 117۔
’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دس چیزوں پر عمل کے ذریعے محبت الٰہی کا حصول ممکن ہے 1۔ نوافل پڑھنا، 2۔ خیر خواہی، 3۔ قرآن سے محبت کرنا، 4۔ اَحکام الٰہی پر صبر کرنا، 5۔ امر الٰہی کو ترجیح دینا، 6۔ حیاء پیدا کرنا، 7۔ محبت الٰہی میں مشقت برداشت کرنا، 8۔ قلیل پر راضی ہونا، 10۔ قناعت سے کام لینا۔‘‘
7۔ قال الجنید رَحِمَهُ الله : المسیر من الدنیا إلی الآخرۃ سھل ھیّن علی المؤمن۔ وھجران الخلق في جنب الله شدید۔ والمسیر من النفس إلی الله صعب شدید۔ والصبر مع الله أشد۔
7 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 117۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مومن کے لئے دنیا سے آخرت تک کا سفر آسان اور ہلکا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی خاطر مخلوق سے کنارہ کش ہونا تکلیف دہ ہے، اور نفس سے اللہ تعالیٰ کی طرف سفر اذیت ناک ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ صبر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘‘
8۔ قال محمد بن علیان رَحِمَهُ الله : من سکن إلی غیر الله تعالی، أهمله تعالی وترکه، ومن سکن إلی الله تعالی، قطع علیه طریق السکون إلی شيء سواه۔
8 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 419۔
’’محمد بن علیان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ (کسی) اور ذات میں سکون و راحت محسوس کی۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنا تعلق توڑ دیتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ سے راحت و سکون ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ (اس کے لئے) اپنی ذات کے علاوہ سکون کے اور راستوں کو منقطع کر دیتا ہے۔‘‘
9۔ قال أبو عبد الله القرشي رَحِمَهُ الله : حقیقةُ المَحَبَّةِ أن تَهَبَ کلّک لِمَنْ أَحْبَبْتَ، فلا یبقی لک منک شيئٌ۔
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 321۔
’’حضرت ابو عبد اللہ قرشی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حقیقی محبت یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو کلیتاً محبوب کے حوالے کر دے یہاں تک کہ تیرے پاس اپنی ذات میں سے کچھ بھی نہ رہے۔‘‘
10۔ قال یوسف بن علي رَحِمَهُ الله : لا یکون العارفُ عارفاً حقًّا حتی لو أعطي مثل ملک سلیمان علیه السلام لم یشغله عن الله طرفۃ عین۔
10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔
’’یوسف بن علی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : کوئی شخص اس وقت تک صحیح معنوں میں عارف نہیں کہلا سکتا۔ جب تک کہ اس کی یہ کیفیت نہ ہو جائے کہ اگر اسے سلیمان علیہ السلام جتنی حکومت عطا کر دی جائے تب بھی یہ سلطنت اسے ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ سے غافل نہ کر سکے۔‘‘
11۔ قال أبو سلیمان الداراني رَحِمَهُ الله : إن الله تعالی یفتح للعارف وهو علی فراشه ما لا یفتح لغیره وهو قائم یصلي۔
11 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔
’’حضرت ابو سلیمان دارانی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ عارف کے لئے اس کے بستر پر وہ باتیں کھول دیتے ہیں جو اوروں کے لئے کھڑے نماز پڑھتے بھی نہیں کھولتے۔‘‘
12۔ قَالَ محمدُ بن إسحاق رَحِمَهُ الله : أخبرني أبي، قال : قلت لإبراهیم بن أدهم رَحِمَهُ الله : أَوْصِني۔ فقال : اتَّخِذِ اللهَ صاحباً، وذَرِ الناسَ جانباً۔
12 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 27۔
’’محمد بن اسحق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا کہ مجھے میرے والد محترم نے بتایا کہ میں نے حضرت ابراہیم بن ادہم رَحِمَهُ اللہ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت کریں، تو آپ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو اپنا دوست بنا لے اور لوگوں سے کنارہ کش ہو جا۔‘‘
13۔ قالَ أبوحفصٍ رَحِمَهُ الله : من تجرَّع کأسَ الشوقِ یَهیمُ هُیاماً، لا یُفیقُ إلاَّ عِنْد المشاهدۃ والّلقاء۔
13 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 119۔
’’حضرت ابو حفص رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی جام شوق نوش کر لیتا ہے پھر وہ اسی مستی و عشق و محبت میں مارا مارا پھرتا رہتا ہے اس کو مشاہدہ اور ملاقات سے ہی افاقہ ہو گا۔‘‘
14۔ قالَ أبو حفصٍ رَحِمَهُ الله : إذا رأیتَ المُحِبَّ ساکناً هادئاً، فاعلم أنه وردتْ علیه غفلةٌ، فإن الحبَّ لا یترکُ صاحبَه یَهدأ بل یُزْعِجهُ في الدُّنُوِّ والبُعد، والِّلقاءِ والحجابِ۔
14 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 119۔
’’حضرت ابو حفص رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تو کسی عاشق کو حالت سکون و اطمینان میں دیکھے تو جان لے کہ اس وقت اس پر حالت غفلت وارد ہو چکی ہے کیونکہ عشق عاشق کو آرام نہیں کرنے دیتا بلکہ وہ اس کو کبھی پاس بلا کر، کبھی دور کر کے، کبھی ملاقات دے کر اور کبھی حجابات اوڑھ کر تنگ کرتا ہے۔‘‘
15۔ قال محمد بن الفضل رَحِمَهُ الله : المعرفۃ حیاۃ القلب مع الله تعالی۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 317۔
’’محمد بن الفضل رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ دل کے زندہ رہنے کا نام معرفت ہے۔‘‘
16۔ قالَ أبوحفص رَحِمَهُ الله : ما ظهرتْ حالةٌ عالیةٌ، إلا من مُلازَمَةِ أصلٍ صحیح۔
16 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 121۔
’’حضرت ابو حفص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اس وقت تک صحیح اور بلند مرتبہ حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ صحیح اور اصل تعلق پیدا نہ ہو جائے۔‘‘
17۔ قال أحمدُ بن عاصم الأنطاکيُّ رَحِمَهُ الله : من کان بالله أعرف کان له أخوف۔
17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 313۔
’’احمد بن عاصم الانطاکی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس قدر کسی کو عرفان باللہ حاصل ہو گا اسے اسی قدر زیادہ اللہ تعالیٰ سے خوف نصیب ہو گا۔‘‘
18۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : حقیقةُ المحبّۃ ما لا ینقص بالجفاء۔
18 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 322۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حقیقی محبت وہ ہے جو جفا پر بھی کم نہ ہو۔‘‘
19۔ نظر یحیی بن معاذ یوما إلی إنسان وهو یقبّل ولدًا له صغیرًا فقال : أتحبه؟ قال : نعم۔ قال : هذا حبک له إذ ولدته فکیف بحبّ الله له إذ خلقه؟!
19 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 52۔
’’یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے ایک روز ایک شخص کو اپنے چھوٹے بچے سے پیار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کیا تو اس سے محبت کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا، ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ اولاد ہونے کے ناطے تجھے اس سے اتنا پیار ہے، اندازہ کرو اللہ کو اس سے کتنا پیار ہو گا جس نے اسے پیدا کیا ہے۔‘‘
20۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : مثقالُ خردلةٍ منَ الحُبّ أحبّ إليَّ من عبادۃ سبعین سنۃ بلا حُبٍّ۔
20 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 326۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : محبت اگر رائی کے دانے جتنی بھی ہو تو مجھے وہ ایسی ستر سالہ عبادت سے زیادہ محبوب ہے جو بغیر محبت کے کی جائے۔‘‘
21۔ قال یحیی بن معاذ رَحِمَهُ الله : من نشر المحبّةَ عند غیر أهلها فهو في دعواه دعّي۔
21 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 327۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو شخص نااہل لوگوں میں محبت کا ذکر کرے، وہ اپنے دعوئ محبت میں جھوٹا ہے۔‘‘
22۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : المحبۃ نار في القلب تحرق ما سوی مراد المحبوب۔
22 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 324۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ محبت دل میں ایک آگ ہوتی ہے جو محبوب کی مراد کے سوا سب کچھ جلا دیتی ہے۔‘‘
23۔ عن الإمام القشیري قال : قیل : إنَّ عُتْبَةَ الغلامَ بات لیلةً یقول إلی الصباح : إن تعذبني فأنا لک مُحِبُّ، وإن ترحمني فأنا لک مُحِبٌّ۔
23 : القشیري فی الرسالۃ : 196
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ عتبۃ الغلام ساری رات صبح تک یہ الفاظ کہتا رہا کہ اگر تو مجھے سزا دے تو تب بھی میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں اور اگر تو مجھ پر رحم فرمائے تو تب بھی میں تجھ سے ہی محبت رکھتا ہوں۔‘‘
24۔ قال أبو یعقوب السّوسي رَحِمَهُ الله : لا تصحّ المحبّۃ إلا بالخروج عن رؤیۃ المحبّۃ إلی رؤیۃ المحبوب بفناء علم المحبۃ۔
24 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 324۔
’’حضرت ابو یعقوب السوسی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : محبت صرف اسی وقت درست ہو سکتی ہے جب محب اپنی محبت کی طرف نہ دیکھے بلکہ اپنی محبت کا علم مٹا کر اپنے محبوب کے دیدار کی طرف لگا رہے۔‘‘
25۔ قال بندار رَحِمَهُ الله : من لم یجعل قبلته - علی الحقیقۃ - ربه، فسدت علیه صلاته۔
25 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 468۔
’’حضرت بندار بن حسین رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اپنا قبلہ اپنے رب کو نہ بنایا اس کی نماز (اور دیگر عبادات) بے کار ہو جاتی ہیں۔‘‘
26۔ قال أبو الحسین رَحِمَهُ الله : مخافۃ خوف القطیعۃ أذبلت نفوس المحبین، وأحرقت أکباد العارفین، وأسهرت لیل العابدین، وأظمأت نهار الزاهدین، وأکثرت بکاء التائبین، ونغصت حیاۃ الخائفین۔
26 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 300۔
’’حضرت ابو الحسین وراق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : محبوبِ حقیقی سے تعلق ٹوٹ جانے کے خوف نے محبین کے نفوس کو پگھلا کر رکھ دیا، عارفین کے جگروں کو جلا کر رکھ دیا، عابدین کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں، زاہدین کی نہروں کو پیاسا کر دیا توبہ کرنے والوں کی آہ و بکا کو اور زیادہ بڑھا دیا اور ڈرنے والے کی زندگی کو بے کیف کر دیا۔‘‘
27۔ قال رویم رَحِمَهُ الله : الرّضا : أن لو جعلَ اللهُ جهنمَ علی یمینِه ما سأَل أن یحوّلها إلی یسارِه۔
27 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 195
’’حضرت رویم رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں : رضا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جہنم کو کسی شخص کے دائیں ہاتھ پر رکھ دیں تو وہ یہ دعا نہ کرے کہ اے اللہ! اسے بائیں ہاتھ پر رکھ دے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved