127. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رواه الترمذي والنسائي وأحمد. وقال أبو عيسی: هذا حديث حسن صحيح.
”حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بغیر علم کے قرآن مجید کی تفسیر کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
128. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: اتَّقُوا الْحَدِيْثَ عَنِّي إِلاَّ مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ الْنَّارِ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رواه الترمذي والنسائي. وقال أبو عيسی: هذا حديث حسن.
وَفِي رِوَايَةٍ: عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ. رواه الترمذي والنسائي.
”حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے کوئی سے حديث بیان کرتے ہوئے ڈرو، ماسوائے اس کے جس کا تمہیں علم ہے، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔ اور جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے تفسیر کی تو وہ بھی اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
”ایک اور روایت میں حضرت جندب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن مجید میں اپنی طرف سے کچھ کہا تو اگرچہ وہ صحیح بھی ہو پھر بھی اس نے غلطی کی۔“
129. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنهقَالَ: قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی إِذَا أَصْبَحَ بِآيَةٍ؛ وَالْآيَةُ: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ. [المائدة،5 : 118]. رواه النسائي وأحمد.
”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لئے قیام فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی آیت (کی بار بار تلاوت) کرتے ہوئے صبح ہوگئی۔ وہ آیت یہ تھی: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ((اے اللہ!) اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے)۔“
130. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضى الله عنهما، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ: إِنِّي لَأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَکْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اﷲِ: هَذًّا کَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّ أَقْوَامًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَلَکِنْ إِذَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ، فَرَسَخَ فِيْهِ نَفَعَ. رواه مسلم وأحمد وابن خزيمة.
”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخض نے انہیں کہا: میں(سورہ) مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بیشک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔“
131. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ: صَلَّی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَيْلَةً فَقَرَأَ بِآيَةٍ حَتَّی أَصْبَحَ يَرْکَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ. [ المائدة، 5 : 118]. فَلَمَّا أَصْبَحَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ! مَا زِلْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّی أَصْبَحْتَ تَرْکَعُ بِهَا وَتَسْجُدُ بِهَا؟ قَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي عز وجل الشَّفَاعَةَ لِأُمَّتِي، فَأَعْطَانِيْهَا، وَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اﷲُ لِمَنْ لَا يُشْرِکُ بِاﷲِ عز وجل شَيْئًا. رواه أحمد وابن أبي شيبة والبيهقي.
”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات نماز ادا فرمائی اور ایک ہی آیت تلاوت فرماتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی آیت کے ساتھ رکوع و سجود فرماتے رہے۔ وہ آیت یہ ہے: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُم عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ((اے اللہ!) اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے)۔“
132. عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ رضي اﷲ عنها: أَخْبَرِيْنَا بِأَعْجَبِ شَيئٍ رَأَيْتِهِ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ: فَسَکَتَتْ، ثُمَّ قَالَتْ: لَمَّا کَانَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي. قَالَ: يَا عَائِشَةُ! ذَرِيْنِى أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّى. قُلْتُ: وَاﷲِ! إِنِّى أُحِبُّ قُرْبَکَ، وَأُحِبُّ مَا يَسُرُّکَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّى. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِى حَتَّی بَلَّ حِجْرَهُ، قَالَتْ: وَکَانَ جَالِسًا فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِي حَتَّی بَلَّ لِحْيَتَهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَکَی حَتَّی بَلَّ الْأَرْضَ، فَجَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَآهُ يَبْکِي. قَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ! تَبْکِي! وَقَدْ غَفَرَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: أَفَلاَ أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا؟ لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَى اللَّيْلَةَ آيةٌ، وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَکَّرْ فِيْهَا: إنَّ فِي
خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ [البقرة، 2 : 164] الآيةَ، کُلّهَا. رواه ابن حبان.
”حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جو سب سے حیران کن بات دیکھی اس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا کچھ دیر خاموش رہیں، پھر فرمایا: جن راتوں میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام) میرے پاس تھا ان میں سے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! مجھے الگ چھوڑ دو کہ میں آج رات اپنے رب کی عبادت کروں۔ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! میں آپ کے قرب کو پسند کرتی ہوں اور اس چیز کو بھی پسند کرتی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور وضو کیا اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک تر ہوگئی۔ پھر فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک (آنسوؤں سے) تر ہوگئی۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ (آپ کے توسّل سے تو) آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا: آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے۔ اس کے لئے بربادی ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہ کیا۔ (وہ آیت یہ ہے:) إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں) .... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر تک مکمل آیت بیان کی۔“
133. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! إِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَرَتِّلْهُ تَرْتِيْلاً بَيِّنْهُ تَبْيِيْنًا وَلاَتَنْثُرْهُ نَثْرَ الدَّقَلِ وَلاَتَهُذُّهُ هَذَّ الشِّعْرِ قِفُوْا عِنْدَ عَجَائِبِهِ وَحَرِّکُوْا بِهِ الْقُلُوْبَ وَلاَيَکُوْنَنَّ هَمُّ أَحَدِکُمْ آخِرَ السُّوْرَةِ. رواه ابن أبي شيبة والبيهقي والديلمي، واللفظ له.
”حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عباس! جب تم قرآن پڑھو تو اس کو ٹھہر ٹھہر کر اور الفاظ و حروف کو خوب واضح کر کے پڑھا کرو اور اس کو ردّی کھجور کے بکھیرنے کی طرح نہ بکھیر دیا کرو اور نہ ہی اسے جلدی سے شعر گوئی کی طرح پڑھا کرو۔ اس کے عجائبات پر توقف کیا کرو اور اس کے ذریعے اپنے دلوں کو حرکت دیا کرو۔ اور تم میں سے کسی کا بھی ارادہ صرف آخری سورت تک پہنچنے کا نہیں ہونا چاہیے (کہ جلد ختمِ قرآن ہو جائے بلکہ اس کو غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھا کرو)۔“
134. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَا تَهُذُّوْا الْقُرْآنَ هَذًّا کَهَذَا الشِّعْرِ وَلاَتَنْثُرُوْهُ نَثْرَ الدَّقَلِ وَقِفُوْا عِنْدَ عَجَائِبِهِ وَحَرِّکُوْا بِهِ الْقُلُوْبَ. رواه ابن أبي شيبة والبيهقي.
”حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس قرآن کو اس شعر کی طرح تیزی سے نہ پڑھو اور نہ ہی ردّی کھجور کے بکھیرنے کی طرح اس کو بکھیرو، اس کے عجائبات پر توقف کرو اور اس کے ذریعے اپنے دلوں کو حرکت دو۔“
135. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبِ الْقُرَظِيِّ يَقُوْلُ: لَأَنْ أَقْرَأَ: إِذَا زُلْزِلَتْ. [الزلزال، 99 : 1:]، وَالْقَارِعَةُ [101 : 1]؛ أرَدِّدُهُمَا وَأَتَفَکُّرَ فِيْهِمَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَبِيْتَ أَهُذُّ الْقُرْآنَ هَذًّا. رواه ابن أبي شيبة.
”محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں کہ بے شک میرا إِذَا زُلْزِلَتْ اور وَالْقَارِعَةُ پڑھنا اور ان کو بار بار دہرانا اور ان میں غور و فکر کرنا مجھے محبوب
تر ہے اس سے کہ میں قرآن مجید کو عجلت اور تیزی سے پڑھتے ہوئے رات گزار دوں۔“
136. عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی أَسْمَاءَ رضي اﷲ عنها وَهِيَ تَقْرَأُ: فَمَنَّ اﷲُ عَلَينَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ. [الطور، 52 : 27]. قَالَ: فَوَقَفْتُ فَجَعَلَتْ تُعِيْدُهَا وَتَدْعُو، فَطَالَ عَلَيَّ ذَلِکَ، فَذَهَبْتُ إِلَی السُّوقِ، فَقَضَيْتُ حَاجَتِي، ثُمَّ رَجَعْتُ، وَهِي تُعِيْدُهَا وَتَدْعُو. رواه ابن أبي شيبة والنووي، واللفظ له، ونحوه عبدالرزاق، والبيهقي عن عائشة رضي اﷲ عنها.
”حضرت عباد بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اَسماء رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ یہ آیت: فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ
(پس اﷲ نے ہم پر احسان فرما دیا اور ہمیں نارِ جہنّم کے عذاب سے بچا لیا) پڑھ رہی
تھیں۔آپ بیان کرتے ہیں کہ میں وہاں کھڑا ہوگیا تو آپ رضی اﷲ عنہا اس آیت کو
دوہراتی جاتیں اور (ساتھ) دعا کرتی جاتیں۔ پس ان کا یہ عمل مجھ پر طول پکڑ گیا، پس (وہاں سے) میں بازار چلا گیا اور میں نے اپنی ضرورت پوری کی، پھر وہاں سے میں لوٹا (تو کیا دیکھا) وہ (ابھی تک) اس آیت کو دہرا رہی اور دعا کر رہی تھیں۔“
137. عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ: هَذَا مَقَامُ أَخِيْکَ تَمِيْمٍ الدَّارِيِّ. لَقَدْ رَأَيْتُهُ قَامَ لَيْلَةً حَتَّی أَصْبَحَ أَوْ کَرُبَ أَنْ يُصْبِحَ يَقْرَأُ آيَةً مِنْ کِتَابِ اﷲِ عز وجل، فَيَرْکَعُ وَيَسْجُدُ وَيَبْکِي: أَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْکُمُونَ. [الجاثية، 45 : 21]. رواه الطبراني وابن المبارک وابن الجعد.
”حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ اہلِ مکہ میں سے ایک آدمی نے مجھے کہا: یہ تمہارے بھائی تمیم داری کا مقام و مرتبہ ہے کہ میں نے انہیں دیکھا ہے، وہ ایک رات (عبادت کے لئے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی یا قریب تھا کہ صبح ہوجاتی، وہ کتاب اللہ سے ایک آیت پڑھتے، رکوع و سجود کرتے اور روتے۔ (وہ آیت یہ تھی): أَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْکُمُونَ (کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے (کہ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے، جو دعویٰ (یہ کفّار) کر رہے ہیں نہایت برا ہے۔“
138. عَنْ مِسْعرِ بْنِ کِدَامٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ: أَوْصِنِي. قَالَ: إِذَا سَمِعْتَ اﷲَ عز وجل يَقُوْلُ: يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا. فَاصْغِ إِلَيْهَا سَمْعَکَ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ تُوْصَی بِهِ أَوْ شَرٌّ تَصْرِفُ عَنْهُ. رواه البيهقي.
”حضرت مسعر بن کدام بیان کرتے ہیں کہ آدمی نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیں، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تو اﷲ تبارک کا یہ فرمان سنے: ”اے ایمان والو!“؛ تو اپنی سماعت کو اس طرف متوجہ کر کیونکہ یہ ایک ایسی بھلائی ہے جس کی تجھے وصیت کی جارہی ہے یا (اس میں) کسی ایسے شر کو بیان کیا جا رہا ہے جس سے تجھے اجتناب کرنا ہے۔“
139. عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيْدٍ أَنَّهُ قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ حِبَّانَ جَالِسَيْنِ، فَدَعَا مُحَمَّدٌ رَجُلاً. قَالَ: أَخْبِرْنِي بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ أَبِيْکَ، قَالَ الرَّجُلُ: أَخْبَرَنِي أَنَّهُ أَتَی زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ: کَيْفَ تَرَی فِي قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي سَبْعٍ، قَالَ: ذَلِکَ حَسَنٌ، وَ لَأَنْ أَقْرَأَهُ فِي نِصْفِ شَهْرٍ أَوْ عِشْرِيْنَ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَسَأَلَنِي عِنْدَ ذَلِکَ. قَالَ: فَإِنِّي أَسْأَلُکَ. قَالَ زَيْدٌ: لَکِنِّي أَتَدَبَّرُ وَأَقِفُ عَلَيْهِ. رواه البيهقي.
”حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور محمد بن یحییٰ بن حبان بیٹھے ہوئے تھے، پس محمد نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا: مجھے اس چیز کے بارے میں خبر دو جو تو نے اپنے والد سے سنی ہے۔ آدمی نے کہا: مجھے انہوں نے یہ خبر دی ہے کہ وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا سات دن میں قرآن پاک پڑھنے (ختم کرنے) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا کرنا اچھا ہے مگر یقینا مجھے آدھے ماہ میں یا بیس دنوں میں قرآن پڑھنا زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اور مجھ سے بھی انہوں نے (یہی) سوال کیا اور فرمایا: پس میں تجھ سے (بھی ایسا) کرنے کو کہتا ہوں۔ پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں (قرآن پاک کی قرات کرتے ہوئے) اس میں تدبّر کرتا ہوں اور اس (کے اَسرار و رموز) پر آگاہ ہوتا ہوں۔“
140. عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَيْفٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ بْنِ أَبِي لَيلَی. قَالَ: دَخَلَتْ عَلَي امْرَأَةٌ وَأَنَا أَقْرَأُ سُوْرَةَ هُوْدٍ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ! هَکَذَا تَقْرَأُ سُوْرَةَ هُوْدٍ، وَاﷲِ! إِنِّي فِيْهَا مُنْذُ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، وَمَا فَرَغْتُ مِنْ قِرَاءَتِهَا.
رواه البيهقي.
”حضرت عبد الملک بن سیف، ابن ابی لیلیٰ کی اولاد میں سے کسی آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی جبکہ میں سورہ ہود پڑھ رہا تھا، تو اس نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! تم اس طرح سورہ ہود پڑھتے ہو! خدا کی قسم! یقین جانو میں چھ ماہ سے اس سورت میں ہوں اور (اس کے اَسرار و رموز کی وسعت کے باعث) میں ابھی تک اس کے پڑھنے سے فارغ نہیں ہوئی۔“
141. عَنْ سُفْيَانَ يَرْفَعَهُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ آخِرَ عِمْرَانَ، وَلَمْ يَتَفَکَّرْ فِيْهَا وَيْلَهُ، فَعَدَّ بِأَصَابِعِهِ عَشْرًا. رواه المنذري، وقال: رواه ابن أبي الدنيا.
”حضرت سفیان سے مرفوعاً روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس نے سورہ آل عمران کی آخری آیات تلاوت کیں اور ان میں غور و فکر نہ کیا تو اس کے لئے بربادی ہے۔ انہوں نے اپنی انگلیوں پر یہ بات دس بار شمار کر کے بتائی۔“
حواشی
الحديث رقم 127: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: ماجاء في الذي يفسر القرآن برأيه، 5 / 199، الرقم: 2950، والنسائي في السنن الکبرى، 5 / 30، الرقم: 8084، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 233، الرقم: 2069، 2429، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 136، الرقم: 30101، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 423، الرقم: 2275-2276.
الحديث رقم 128: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: ماجاء في الذي يفسر القرآن برأيه، 5 / 199-200، الرقم: 2951-2952، والنسائي في السنن الکبرى، 5 / 31، الرقم: 8085-8086، وأبو يعلى في المسند، 3 / 90، الرقم: 1520، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 208، الرقم: 5101، وفي المعجم الکبير، 2 / 163، الرقم: 1672، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 423، الرقم: 2277.
الحديث رقم 129: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الإفتتاح، باب: ترديد الآية، 2 / 177، الرقم: 1010، وفي السنن الکبرى، 1 / 346، الرقم: 1083، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم: 21425، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 347.
الحديث رقم 130: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: ترتيل القراءة واجتناب الهذّ وهو الإفراط في السرعة، 1 / 563، الرقم: 822، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 380، الرقم: 3607، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 269، الرقم: 538، وأبو يعلى في المسند، 9 / 142، الرقم: 22، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 30، الرقم: 9857، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 396، الرقم: 2177.
الحديث رقم 131: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 149، الرقم: 21366، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 323، الرقم: 31767، والبيهقي في السنن الکبرى، 3 / 13، الرقم: 4493، وفي شعب الإيمان، 2 / 359، الرقم: 2038.
الحديث رقم 132: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 386، الرقم: 620، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 243، الرقم: 2255، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 139، الرقم: 3.
الحديث رقم 133: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 141، الرقم: 30158، والبيهقي عن عبداﷲ في السنن الکبرى، 3 / 13، الرقم: 4492، وفي شعب الإيمان، 2 / 360، الرقم: 2042، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 361، الرقم: 8438، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 435.
الحديث رقم 134: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 256، الرقم: 8733، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 360، الرقم: 2041.
الحديث رقم 135: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 256، الرقم: 8732، 6 / 141، الرقم: 30160.
الحديث رقم 136: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 25، الرقم: 6037، وعبدالرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم: 4048، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 375، الرقم: 2092، وابن أبي عاصم في الزهد، 1 / 164، والنووي في التبيان، 1 / 89.
الحديث رقم 137: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 50، الرقم: 1250، وابن المبارک في الزهد، 1 / 31، الرقم: 94، وابن الجعد في المسند، 1 / 33، الرقم: 110، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 738.
الحديث رقم 138: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 361، الرقم: 2045.
الحديث رقم 139: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 360، الرقم: 2043.
الحديث رقم 140: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 361، الرقم: 2046، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 3 / 192، الرقم: 473، 4 / 440، الرقم: 1019.
الحديث رقم 141: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 243، الرقم: 2256.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved