اَنبیاء، اَولیاء اور صلحاء و شہداء سے اِستعانت، اِستمداد اور اِستغاثہ اگرچہ عین حق و صواب ہے اور تعلیماتِ قرآن و سنت سے ثابت ہے، تاہم معترضین چند مَن گھڑت وُجوہات کی بناء پر اِستغاثہ پر شِرک کا کتبہ آویزاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اِس باب میں ہم اِستغاثہ پر کئے جانے والے چند اہم اِعتراضات کا باری باری جائزہ لیتے ہوئے قرآن و حدیث سے اِستغاثہ کے ثبوت پر مبنی مدلّل جوابات پیش کریں گے۔
اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کے لئے سب سے پہلے اِسے داخلِ عبادت کر کے کہا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت شِرک ہے لہٰذا اللہ ربّ العزّت کے سوا کسی اور سے اِستعانت و اِستغاثہ بھی شِرک ہے۔ مذکورہ مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے کئی آیات بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً اِرشادِ ربانی ہے :
1. أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ.
بھلا مضطرب کی التجاء کو جب وہ اسے پکارتا ہے تو کون سنتا ہے اور (کون اس کے )دکھ درد کو دور کرتا ہے!
(النمل، 27 : 62)
2. وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَO أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَO
اور جنہیں یہ (مشرک) لوگ اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیںo (وہ) مردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں (اتنا بھی) شعور نہیں کہ (لوگ) کب اٹھائے جائیں گےo
(النحل، 16 : 20، 21)
3. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍO إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍO
اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گھٹلی کے ایک چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتےo اگر تم اُنہیں پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار نہ سن سکیں گے۔ اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہاری فریاد کو نہ پہنچ سکیں گے اور قیامت کے دن تمہارے شریک ٹھہرانے سے انکار کردیں گے اور باخبر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہ دے گاo
(فاطر : 35 : 13، 14)
4. وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَO
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے (معبودوں) کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو نہ پہنچ سکیں بلکہ ان کو انکے پکارنے کی خبر تک نہ ہوo
(احقاف، 46 : 5)
5. يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ.
وہ (شخص) اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی اسے نفع پہنچا سکے۔
(الحج، 22 : 12)
6. وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَO وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ.
اور نہ اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کریں جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، پھر اگر تم نے ایسا کیا تو بے شک تم اس وقت ظالموں میں سے ہوجاؤگےo اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں۔
(يونس، 10 : 106، 107)
7. يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ.
وہ اسے پوجتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔
(الحج، 22 : 13)
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں غیراﷲ کو پکارنے والوں کی مذمّت کی گئی ہے۔ اِسی چیز کو بنیاد بنا کر یہ اِستدلال کیا جاتا ہے کہ مدد چاہنا اور پکارنا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے لہٰذا کسی اور سے کیا گیا اِستغاثہ صفاتِ اُلوہیت میں شِرک تصور ہوگا۔ یہ اِستنباط بذاتِ خود غلط ہے۔ ذیل میں ہم اِس تصوّر کو واضح کریں گے۔
مذکورہ آیاتِ مبارکہ میں لفظِ ’’دُعا ‘‘ عبادت کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظِ ’’دُعا ‘‘ ہر جگہ عبادت کے معنی میں مستعمل نہیں ورنہ بھٹکے ہوئے اَذہان تو (معاذ اﷲ) انبیاء علیھم السلام اور خود ذاتِ باری تعالیٰ پر بھی بہتان تراشی سے باز نہیں آتے اور دُور کی کوڑی لا کر اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کی سعیء ناکام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے :
1. فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ.
تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیتے ہیں۔
(آل عمران، 3 : 61)
2. فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا.
چنانچہ ان (لڑکیوں) میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی (اور) کہا میرے باپ آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہماری خاطر (ہماری بکریوں کو) پانی پلایا تھا اس کا بدلہ دیں۔
(القصص، 28 : 25)
3. ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا.
پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔
(البقره، 2 : 260)
4. يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ.
جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔
(الاسراء، 17 : 71)
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم اِمامِ زماں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بِإِمَامِ زَمَانِهِمُ الَّذِیْ دَعَاهُمْ فِیْ الدُّنْيَا إِلَی ضَلَالَةٍ أوْ هُديً.
اِس سے وہ اِمامِ زماں مُراد ہے جس کی دَعوت پر دُنیا میں لوگ چلے ہوں، خواہ وہ (دَعوت) گمراہی کی طرف ہو یا ہدایت کی طرف۔
(تفسير معالم التنزيل، 3 : 126)
مُراد یہ ہے کہ ہرقوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دُنیا میں چلتی رہی اور انہیں اﷲ ربّ العزّت خود اُسی کے نام سے پکارے گا کہ ’’اَے فُلاں کے متّبعین! تمہارا اِنجام اس کے ساتھ ہے‘‘۔
اَلغرض مذکورۃُ الصّدر آیاتِ بینات میں لفظِ دُعا کا معنی عبادت کرنے سے بذاتِ خود شِرک کا راستہ کھلتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر دُعا کی نسبت کافر اور مشرک کی طرف کریں تو اس کا معنی عبادت ہوگا ورنہ سیاق و سباق سے معنی بدلتا رہے گا۔ اِستغاثہ کے عدم جواز میں جو آیات بطور اِستدلال پیش کی جاتی ہیں، اُن میں دُعا کی نسبت کفار و مشرکین کی طرف ہے لہٰذا وہاں معنی عبادت ہی کیا جائے گا لیکن اُن سے اِستغاثہ کا عدم جواز بالکل ثابت نہیں ہوتا، اِس لئے کہ جن مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے اُنہیں قطعاً قابلِ عبادت نہیں سمجھا جاتا۔
مذکورہ بالا اِعتراض کی بنیاد ایک تقسیم پر مبنی ہے۔ اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں :
1۔ اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب
2۔ اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب
اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.
اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔
(المائده، 5 : 2)
ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے۔
پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔
دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔
تیسرا نکتہ : تفہیمِمسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے۔
’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے۔
چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے۔
جب انبیاء، اولیاء، صلحاء یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے۔ (توحید اور شِرک سے متعلقہ اَبحاث کے مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔
نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا؟۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :
وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo
اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہوo
(الانبياء، 21 : 112)
دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا؟
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں،۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا۔
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام جب اﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا :
اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
(جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo
(مريم، 19 : 19)
مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے اﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے۔ بندے کا غیراﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ اﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور اﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے :
أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہوo
(آل عمران، 3 : 49)
اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے :
1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا
یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے۔
مذکورہ بالاآیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے۔
اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت اﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ اﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو اﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ اﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا۔
پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ اﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیراﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے۔
سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي
اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے۔
(المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا :
فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي
پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی۔
(المائده، 5 : 110)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیراﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی۔ اﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے۔
اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کے لئے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جائیگا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے۔
اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کی تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ دُور سے مدد مانگنا مافوق الاسباب ہے، اور جس غیراﷲ سے مدد مانگی جارہی ہے اِس عمل سے اُس کے لئے سلطۂ غیبیہ۔۔۔ یعنی غیبی قوّت و اِقتدار۔۔۔ کا اِقرار لازِم آتا ہے۔ جب آپ نے اُسے دُور سے پکارا تو گویا آپ کا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ اُس کے پاس غیبی اقتدارِ اعلیٰ اور تصرّفِ کاملہ حاصل ہے اور اس طرح کا اِعتقاد رکھنا شِرک ہے۔
خودساختہ علمی مغالطے اِس مسئلہ کو مزید اُلجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خیال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ جس چیز کو یہاں سلطۂ غیبیہ کا نام دیا جا رہا ہے دراصل وہ رُوحانی اِستعداد ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ اِس رُوحانی قوت و تصرّف کو سلطۂ غیبیہ (مطلق قوّتِ مقتدرہ) کا نام دے کر بہت بڑا اِعتقادی فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ سلطۂ غیبیہ کی حقیقت وہ ہرگز نہیں جو عام طور پر ردِّاِستغاثہ کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِس سطح کا سلطہ تو آج ہر عام اِنسان حتی کہ غیرمسلموں کو بھی بخوبی حاصل ہے۔ سلطۂ غیبیہ کے ضمن میں ہم دورِحاضر کی سائنسی ترقی سے اِنٹرنیٹ کی مِثال دینا مناسب خیال کریں گے۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل وِیلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ کمپیوٹرز کے نیٹ ورک پر مُشتمل اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی بند کمرے میں بیٹھ کر اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِنٹرنیٹ اور اُس سے منسلک بے شمار کمپیوٹرز کے بے حِس مشینی آلات سلطۂ غیبیہ کے حامل ہیں؟؟؟ مسئلہ فقط یہ ہے کہ خلطِ مبحث کے عادی اَذہان اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ آلات کے اِستعمال سے حاصل ہونے والے نتائج کو تو سلطۂ غیبیہ اور شِرک قرار نہیں دیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ رُوحانی قوت کا اِنکار کرنے کیلئے بے بنیاد طریقے سے اُسے سلطۂ غیبیہ قرار دے کر شِرک ثابت کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی بدولت حاصل ہونے والے نتائج کی صورت میں ناممکن اشیاء کا ممکن ہوجانا اور اِنٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کے کسی بھی کونے میں رُونما ہونے والے واقعے سے اُسی لمحے میں پوری دُنیا کا آگاہ ہو سکنا، اگر توحید کے منافی نہیں تو رُوحانی اَسباب کے اِمکان کا اِظہار بھی شِرک کو ہرگز ہرگز دعوت نہیں دیتا۔ کفار و مُشرکین کی اِیجادات کی بدولت حاصل ہونے والا سلطہ اگر مُوجبِ شِرک نہیں تو اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے حاصل ہونے والے رُوحانی تصرّفات کی اَنبیائے کرام اور صلحائے عِظام کی طرف نسبت کرنا کیونکر شِرک کہلا سکتا ہے؟ آج کی مادّی ترقی کے تصرّفات اپنی جگہ بجا مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات اُن کی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل سے بدرجہا آگے ہیں۔ اسی رُوحانی ترقی کی بدولت سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ
ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔
یہاں کچھ لوگ اِس وہم میں بھی پائے جاتے ہیں کہ جب دُور سے کسی کو کام کہا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پُکارے جانے والے کو دُور سے معلوم ہے کہ فلاں پکارنے والا ہے اور وہ پکارنے والے کو جانتا ہے۔ اِس بناء پر اس میں علمِ غیب بھی پایا گیا اور چونکہ علمِ غیب میں اِقتدار اعلیٰ بھی ہے تو اِن دو چیزوں کی وجہ سے یہ شِرک اور ناجائز ہے۔ اِس خلطِ مبحث کا جواب بالکل سادہ ہے کہ جہاں ہم آج کی سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد میں ایسا علم اِنسانیت کو عطا ہوتا دیکھ رہے ہیں وہاں کلامِ مجید فرقانِ حمید میں بھی یہ دونوں پہلو غیراﷲ کے لئے ثابت ہیں، مگر اِس کے باوجود وہ شِرک سے آلودہ ہونے کی بجائے ربّ کا کلام ہے، یعنی اس میں دُور سے جاننا اور کام کرنے پر قدرت دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورۂ نمل میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں اِرشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO
اے سردارو! تم میں سے کون ہے کہ اُس کا تخت میرے سامنے لے آئے قبل اِس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے سامنے حاضر ہوo
(النمل، 27 : 38)
ملکۂ بلقیس کا تخت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار سے 900میل کی مسافت پر پڑا تھا جسے درباریوں میں سے کسی نے دیکھا تک نہ تھا۔ اِس کے باوجود کسی نے آپ علیہ السلام سے یہ نہیں پوچھا کہ اے سلیمان علیک السلام! تخت تو سینکڑوں میل کی مسافت پر پردۂ غیب میں پڑا ہے اور آپ ہیں کہ اُس کی حاضریء دربار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہماری نسبت یہ اِعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے دُور کی شے کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ اور ہمیں علمِ غیب حاصل ہے؟
اگر سلیمان علیہ السلام یہ عقیدہ رکھتے کہ 900میل کی مسافت پر پڑے ہوئے تخت کے بارے میں اُن کے درباریوں میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے، اور اُسے کس طرح اِتنی دُور پہنچ کر لایا جا سکتا ہے؟ تو آپ اُن سے کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کون لائے گا؟ بلکہ باری تعالیٰ سے عرض کرتے کہ اے اﷲ! ملکۂ بلقیس کا تخت میرے پاس پہنچا دے کیونکہ تو ہی قادرِ مطلق ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں قرآنِ مجید سے یہ سبق ملتا ہے کہ دُور کی شے کے علم کا پایا جانا شِرک کے ضمن میں نہیں آتا۔ پس اگر سلیمان علیہ السلام یہ خیال کرلیں اور اِس بنیاد پر درباریوں کو تخت حاضر کرنے کا حکم فرما دیں اور اس کے باوجود مُشرک نہ ہوں اور اگر دورِ حاضر کے مسلمان یہ اِعتقاد رکھ لیں کہ داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنھم، غوثِ اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنھم، حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، اور دیگر اولیائے کاملین اور صلحائے عِظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہمیں جانتے ہیں اور ہمارے بگڑے حالات سنوارنے پر منجانب اللہ قدرت رکھتے ہیں، تو یہ کیسے شِرک ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ جن وُجوہ کی بناء پرسیدنا سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں شِرک ثابت نہ ہو سکا، اسی سبب سے یہاں بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اَولیائے کرام کو بھی کشف اُسی ذاتِ حق نے عطا فرمایا ہے جس نے سلیمان علیہ السلام کے درباریوں اور بالخصوص آصف برخیا کو عطا فرمایا تھا۔ قادرِ مطلق جب آج بھی وہی ہستی ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں تھی تو آج بھی اَحکام اُسی طرح مرتب ہوں گے۔ دِین میں نئے نئے تصوّرات و اِعتقادات پیدا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا ہونے والی رُوحانی قوت و اِستعداد کی بدولت اُن کے لئے نامعلوم اشیاء و مقامات پرپڑے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ اﷲ ربّ العزّت کی خصوصی عطا پر مشتمل رُوحانی فیوضات ہی کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو براہِ راست ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ عین اُس وقت خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم مدینہ منوّرہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھم کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :
يَا سَارِيَ الْجَبَل.
اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔
(مشکوٰة المصابيح : 546)
(دلائل النبوّه لأبی نعيم : 507)
(کنزالعمال، 12 : 35788)
یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس ریڈار سسٹم تھا، نہ موبائل فون۔۔۔ کہ جس کے ذرِیعے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ فقط اﷲ ربّ العزّت کی عطا کردہ رُوحانی قوّت و اِستعداد تھی جس کی بدولت اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنھم کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔
یہاں ہم ایک مغالطے کا اِزالہ بھی کرتے چلیں کہ کشف اور علمِ غیب دو جدا چیزیں ہیں۔ علمِ غیب کے برعکس کشف میں فقط کسی نامعلوم چیز سے پردہ اُٹھانے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ صرف مخلوق کے لئے ہی ممکن ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی ذات گرامی کے لئے کشف نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ عالم الغیب و الشھادۃ ہے۔ چونکہ اُس کے لئے کسی شے سے بھی پردہ ہے ہی نہیں لہٰذا کشف کی صورت میں پردہ اُٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشف کی نسبت اَولیاء اﷲ کی طرف ہونے سے اﷲ کے نیک اور پارسا اَفراد کے لئے وُہی شے ثابت ہو رہی ہے جو اللہ کے لئے ثابت کرنا بذاتِ خود شِرک ہے، لہٰذا ایسی شے جو اﷲ کے لئے ثابت ہونا ناممکن ہو اُس کی نسبت غیراﷲ کی طرف کر دینے میں اِحتمالِ شِرک کیسا؟؟؟ اولیاء کے لئے غیب کی اَشیاء سے پردہ ہوتا ہے اور اللہ اُن کے حجابات اُٹھا دیتا ہے۔ یہی تو عینِ توحید ہے۔ شِرک کا اِلزام تو صرف اِس صورت میں درست قرار پا سکتا ہے جب اللہ ربّ العزت کی صفات اور شانِ اُلوہیت غیراﷲ کے لئے ثابت کی جاتیں۔ زمین و آسمان اور سماوی کائنات کی تمام تر وُسعتوں میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو باری تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ ہر وہ شے جو اُس کے بندوں کے لئے غیب ہے، وہ اُسے بھی بخوبی جانتا ہے اور جو عیاں ہے، وہ بھی اُس کے علم میں ہے۔ اِرشادِ ربّانی ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِO
یقیناً اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز مخفی نہیںo
(آل عمران، 3 : 5)
اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ ربّ العزّت کے لئے کشف کا اِعتقاد رکھنا قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور علمِ غیب کو محدود و مقیّد کر کے رکھ دینے کے مُترادف ہے، جو یقیناً مدعائے توحید نہیں ہوسکتا، کیونکہ کشف میں ایک نہاں حقیقت کو عیاں کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ بھی نہاں نہیں۔ انبیاء و اولیاء کے لئے پردہ کا اِعتقاد تھا پس اللہ نے انہیں کشف عطا کر دیا اور حجابات کے مرتفع ہونے سے وہ دُور و نزدیک کی اَشیاء کو جاننے لگ گئے۔ (علمِ غیب کے باب میں تفصیلی مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ علمِ غیب‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔
قرآنِ مجید میں بیان کئے گئے واقعۂ مذکورہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ ملکۂ بلقیس کا تخت لاؤ اور ساتھ میں شرط لگائی تھی کہ قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِين (اِس سے قبل کہ وہ میرے مطیع ہوکر میرے حضور حاضر ہوں)۔ ملکہ سبا اور اُس کے ساتھ دِیگر بہت سے لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کے اِرادے سے چل پڑے ہیں اور مسلمان ہونے کے لئے آ رہے ہیں اور آپ تقاضا کر رہے ہیں کہ اُن کے پہنچنے سے پہلے تخت یہاں موجود ہونا چاہیئے۔
اگر حضرت سلیمان علیہ السلام غیراﷲ کے لئے دُور کی شے کو جاننے اور لا سکنے کی طاقت اور قدرت کا اِعتقاد نہ رکھتے تو وہ ہرگز ایسا سوال نہ کرتے، بلکہ درباری بھی بول پڑتے کہ اَے حضرت سلیمان علیک السلام ! مخلوق کے لئے ایسا کام سراِنجام دینا کیسے ممکن ہے؟ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں، صرف وُہی اِس ما فوق الفطرت اَمر پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر درباریوں میں سے کسی ایک کو بھی ایسے گستاخانہ کلام کی جرات نہ ہوئی بلکہ جواب میں ایک جن اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا :
أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO
میں اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) اَمانتدار ہوںo
(النمل، 27 : 39)
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جو چیز جنوں کے لئے جائز ہو، وہ اللہ کے پیارے اور اُس کی بارگاہ میں جھکنے والے برگزیدہ اِنسانوں کے لئے کیونکر شِرک ہوسکتی ہے؟ شِرک تواُن صفات و اَوصافِ الٰہیہ کی غیر اﷲ کی طرف نسبت سے جنم لیتا ہے جو اللہ ربّ العزّت ہی کے ساتھ خاص ہوں اور اُس کے سوا کسی دُوسرے کو میسر نہ آسکیں۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اُس جن کی پیشکش قبول نہ فرمائی۔ پھر اِنسانوں میں سے ایک ایسا بندہ اُٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ وہ صاحبانِ علم و رُوحانییّن میں سے تھا۔ اُس نے کھڑے ہوکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور یوں عرض کی :
أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي.
میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اُس (تخت) کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔
(النمل، 27 : 40)
مذکورہ بالا آیات میں ایک طرف ایسی مخلوق (جن) کا ذکر ہے جس کو اپنی طاقت اور قدرت پر ناز ہے، جس کے بل بوتے پر وہ کوسوں میل دُور پڑے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے پہلے لا کر حاضرِ خدمت کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے اور دُوسری طرف ایک اللہ والے (اِنسان) کی شان بیان کی جارہی ہے کہ وہ اس کام کو آنکھ جھپکنے سے پہلے اِنجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں سیدنا سلیمان علیہ السلام پکار اُٹھتے ہیں :
لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌO
تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر اَدا کرتا ہوں یا ناشکری اور جس نے (اللہ کا) شکر اَدا کیا سو وہ اپنی ہی ذات کے فائدہ کیلئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا ربّ بے نیاز کرم فرمانے والا ہےo
(النمل، 27 : 40)
سلطۂ غیبیہ کے وہم پر مبنی اِس اِعتراض کو بعض دفعہ یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بندے سے غیر مقدور العبد شے کا طلب کرنا درست نہیں بلکہ اِستغاثہ کا عدم جواز ثابت کرنے کے لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اَنبیاء، صلحاء اور اَولیاء سے غیر مقدورالعبد شے (ایسی چیز جو بندے کی قدرت میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالی ہی کے قبضۂ قدرت میں ہو) کا طلب کرنا شِرک ہے۔ اِس کا جواب کسی حد تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ دراصل یہ خیال اُسلوبِ اِستغاثہ کو سمجھ نہ سکنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کوئی بھی مسلمان اِستغاثہ کرتے وقت کبھی یہ عقیدہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ مُستعان و مُستغاثِ مجازی (یعنی انبیاء و اولیاء) ازخود ہماری مدد کریں گے، بلکہ ہمارے مقصودِ نظر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری حاجت رَوائی کا سبب اور وسیلہ بنیں، جیسا کہ نابینا صحابی رضی اللہ عنھم کے واقعہ میں اور طلبِ بارش کے اِستغاثہ کے ذکر میں واضح ہو چکا ہے۔ مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اللہ تعالی کو مختارِ کل اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات کو وسیلہ مان کر اپنی حاجت براری کے لئے اِلتجاء کی تھی اور اُس کے نتیجے میں موحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو توحید کے رُموز سے ہم سب سے بڑھ کر آگاہ ہیں، نے اُن صحابہ کو منع کرنے اور کلماتِ شِرک کی اَدائیگی سے روکنے کی بجائے اُن کے حق میں دُعا کی جس کے صلہ میں اللہ تعالی نے اُن کا مسئلہ حل فرما دیا۔ اگر غیر مقدور العبد معاملات کا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا شِرک ہوتا تو :
اولاً : صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی گزارش ہی نہ کرتے۔
ثانیاً : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنہیں شِرک سے آگاہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس قسم کی اِلتجاؤں سے منع فرما دیتے۔
ثالثاً : اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی مدد سے منع فرماتا اور شِرک میں آلودہ ہونے سے بچاتا۔
صحابہ کا اِستغاثہ، جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اللہ تعالی کا اِس عمل پر منع نہ فرمانا۔۔۔ یہ تینوں چیزیں مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ اِستغاثہ نہ صرف جائز بلکہ سنتِ صحابہ ہے اور عنداللہ مقبول ہے۔ طلبِ معجزات بھی اِسی ضمن میں آ جاتا ہے۔ جب کفار و مشرکین نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خرقِ عادت اَفعال بطور معجزہ طلب کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اَفعال کو شِرک قرار دینے کی بجائے اپنے دستِ اَقدس سے مطلوبہ معجزات (شقِ قمر وغیرہ) صادِر فرما دیئے۔ اگر یہ غیرمقدورالعبد اَفعال شِرک ہوتے تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِن کا صدور کیونکر ممکن تھا؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل شِرک نہیں (اور ایسا تصوّر بھی دائرۂ اِسلام سے خارج کر دیتا ہے) تو اُمت کا۔۔۔ سنتِ صحابہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے۔۔۔ اَیسے اَفعال کو طلب کرنا کیونکر شِرک ہو سکتا ہے؟
مسلمان ہمیشہ اَنبیاء و اَولیاء سے اِستغاثہ کے دَوران یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور سفارش اور دُعا کر کے ہماری حاجت پوری کر دیں، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی جمیع اُمتِ مسلمہ کا۔ اگر کوئی بالفرض یوں اِستغاثہ کرتا ہے کہ اَے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے شفا دیجئے اور میرا قرض اَدا فرما دیجئے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شفائے مرض اور اَدائیگیءِ قرض کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کر دیں۔ اور دُعا اور سفارش پر اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو قُدرت دے رکھی ہے۔ اِس قسم کے اَقوال کے بارے میں یہ نسبتِ فعل بطور مجازِ عقلی کے ہے اور اِس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزّت نے خود قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ.
پاک ہے وہ ذات جس نے ہر اُس شے کو جوڑا جوڑا تخلیق کیا جو زمین اگاتی ہے۔
(يٰسين، 36 : 36)
قرآنِ مجید میں خود باری تعالی نے سبزے کی رُوئیدگی کی نسبت زمین کی طرف کی ہے، حالانکہ سبزہ اگانا زمین کی قُدرت میں نہیں، وہ اِس عمل میں محض وسیلہ اور ذرِیعہ بنتی ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ اور ذرِیعہ بننے والی چیز کو فاعل کے طور پر ذِکر کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اِس مقام پر مجازِ عقلی کا قرینہ صحیح مفہوم کے اَخذ کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث اِس مفہوم میں جا بجا بھرے پڑے ہیں اور اِس میں کوئی ناجائز بات نہیں۔ مسلمانوں کے اِس مفہوم میں اَدا کئے گئے جملے بالکل اُسی طرح شِرک سے خالی ہیں جیسے اللہ ربّ العزت کا کلامِ مجید اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَحادیثِ مبارکہ۔
قرآنِ مجید کی وہ آیاتِ مبارکہ جن میں غیراللہ سے وِلایت و نصرت کی نفی مذکور ہے، اُنہیں بنیاد بنا کر اِستغاثہ بالغیر کی نفی کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وِلایت و نصرت کا حقدار صرف اور صرف اللہ ربّ العزّت ہے اور اللہ کا حق کسی اور کے لئے ثابت کرنا شِرک ہے۔ جس طرح کہ قرآن مجید میں اِرشادِ ربّ العالمین ہے :
1. وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍO
اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگارo
(البقره، 2 : 107)
2. وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاO
وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ پائیں گےo
(الاحزاب، 33 : 17)
3. وَ هُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِيْدُo
اور وہ بڑا کارساز، بڑی تعریفوں کے لائق ہےo
(الشوريٰ 42 : 28)
4. مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍo
آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگارo
(البقره، 2 : 120)
5. وَ کَفٰی بِاﷲِ وَلِيًّا وَّ کَفٰي بِاﷲِ نَصِيْراًo
اور اللہ (بطور) کارساز کافی ہے اور اللہ (بطور) مددگار کافی ہےo
(النساء، 4 : 45)
6. وَ مَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اﷲِ.
اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں۔
(الانفال، 8 : 10)
7. وَ اجْعَلْ لِّی مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰناً نَّصِيْراًo
اور مجھے اپنی جانب سے مددگار غلبہ و قوت عطا فرما دےo
(بنی اسرائيل، 17 : 80)
8. وَ کَفٰی بِرَبِّکَ هَادِياً وَّ نَصِيْراًo
اور آپ کا ربّ ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہےo
(الفرقان، 25 : 31)
مندرجہ بالا تمام آیات کے معنی مرادی کو حقیقی معنی پر قیاس کرتے ہوئے یہ اِستدلال کیا جاتا ہے کہ اِن آیات میں اﷲتعالیٰ کے لئے ولی، نصیر، سلطان اور ہادی کے اَلفاظ اِستعمال کئے گئے ہیں لہٰذا اِن صفاتِ باری میں کسی اور کو شامل کرنا شِرک ہے۔
قرآنِ حکیم میں چند اَلفاظ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کئے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن الفاظ کی نسبت غیراللہ کی طرف کرنا شِرک قرار پا جائے گا۔ اِس ضمن میں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں اللہ ربّ العزت کے لئے ولی اور نصیر کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس نے اپنے بندوں کے لئے بھی مجازی طور پر یہی الفاظ اِستعمال کئے ہیں۔ ہم یہاں بے جا طوالت سے بچتے ہوئے صرف ولی اور نصیر ہی کے الفاظ پر مشتمل آیات پیش کرتے ہیں، جبکہ اِن کے علاوہ دیگر بہت سی صفاتِ الٰہیہ (مثلاً سمیع و بصیر اور شھید وغیرہ) بھی قرآنِ مجید میں اﷲ اور بندے دونوں کے لئے برابر اِستعمال ہوئی ہیں۔ اِرشادِ باری ہے :
1. وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِبًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِبْراًo
اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دےo
(النساء، 4 : 75)
2. إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا.
بے شک تمہارا (مددگار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) ایمان والے ہیں۔
(المائده، 5 : 55)
3. وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO
اگر تم دونوں رسول کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں (باہم وہ طریقہ اختیار کیا جو حضور کو ناگوار ہو) تو (یاد رکھو کہ) اللہ ان کا رفیق (مددگارٌ) ہے اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے بھی ان کے معاون ہیںo
(التحريم، 66 : 4)
4. وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أوْلِيَآءُ بَعْضٍo
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہیںo
(التوبه، 9 : 71)
ان آیاتِ بینات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ولی، نصیر اور اِسی قبیل کے دُوسرے الفاظ جو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے طور پر مذکور ہیں، اللہ کے بندوں کے لئے اِن الفاظ و صفات کا اِستعما ل نہ صرف یہ کہ مجازاًجائز ہے بلکہ اللہ ربّ العزّت کی سنت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی سنتِ جلیلہ کو شِرک کا نام دے دینا تعلیماتِ اِسلامیہ سے رُوگردانی کے مُترادف ہے۔ اَحکامِ اِسلام ہرگز اِس چیز کا درس نہیں دیتے۔
نفی اِستغاثہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی حدیثِ مبارکہ سے ایک غلط اِستدلال بھی پیش کیا جاتا ہے، جس میں فقط اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے اور اُسی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یوں ہیں :
إذا سألتَ فاسْال اﷲ و إذا اسْتعنتَ فاستعِن باﷲ و اعلم أنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتمعتْ علٰی أنْ يَّنْفعکَ بِشئ لم ينفعک إلا بشئ قد کتبه اﷲ لک، و لوِ اجتمعوا علی أن يضرّوک بشئ لم يضروک إلّا بشئ قد کتبه اﷲ عليک رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ.
جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے کر اور آگاہ رہ کہ اگر ساری اُمت مل کر تجھے نفع دینا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف ایسا نہیں کر سکتی (اِسی طرح) ساری اُمت مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی (کیونکہ کاتبِ تقدیر کے) قلم اُٹھا لئے گئے ہیں اور تحریریں خشک ہو چکی ہیں۔
(جامع الترمذی، اَبواب الزهد، 2 : 74)
ذیل میں ہم اِس بات کی وضاحت کریں گے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے یہ اِستنباط کرنا کہ سوال اور اِستغاثہ فقط اللہ ربّ العزّت ہی سے جائز ہے اور غیراللہ سے کیا جانے والا سوال و اِستغاثہ شِرک میں مبتلا کر دینے کا باعِث ہے، سراسر غلط ہے۔
اِس اِستدلالِ باطل سے اَسباب کو اِختیار کرنے کی مکمل نفی ہو گئی اور سوال، اِستعانت و اِستغاثہ اور اِستمداد میں وارِد کتاب و سنت کی بہت سی نصوص یک قلم معطل ہو کر رہ گئیں۔ ایسا اِستدلال قرآن و حدیث سے عدم واقفیت، منشائے نزولِ قرآن سے عدم آگہی اور تعلیماتِ اِسلام کے سطحی مطالعہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے، جس سے جمیع اُمتِ مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان لگانا مقصود ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے مقصود سوال و اِستغاثہ اور اِستعانت و اِستمدادِ ماسویٰ اللہ سے روکنا نہیں ہے، جیسا کہ بادیء النظر میں معلوم ہو رہا ہے، بلکہ اِس حدیث کا منشاء بندے کی توجہ اَسباب سے ہٹا کر مسبّب کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ بندہ اَسبابِ اِستغاثہ (مستغاثِ مجازی) کے تصوّر میں اُلجھ کر مستعان و مستغاثِ حقیقی کو بھلا نہ بیٹھے۔ سو اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم دیگر تعلیماتِ اِسلام کی روشنی میں یوں ہو گا کہ ’’اے بندے! جب تو مخلوقاتِ خداوندی میں سے کسی سے سوال اور اِستعانت و اِستغاثہ کرے تو اللہ ربّ العزت کی ذات اور قُدرتِ کاملہ پر کامل بھروسہ اور اِعتماد رکھ اور اُسی کو مستغاثِ حقیقی جان کر سوال کر، کہیں یہ مجازی اَسباب تجھے مسبّب الاسباب سے غافل نہ کر دیں اور تیرے لئے حجاب نہ بن جائیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیثِ مبارکہ میں اِسلامی تصورِ اِستعانت و اِستغاثہ کی تحدید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ تقدیر اِلٰہی کے خلاف کوئی اِستغاثہ ممکن نہیں۔ اِس میں اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن کر کسی کی حاجت روائی کرنے کا اِنکار کہاں ہے؟ اللہ کی مشیت کے خلاف کرنے اور اُس کی موافقت کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، آخر اِنہیں ایک دوسرے پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے؟ حدیثِ مبارکہ کے آخری اَلفاظ رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ ’’قلم اُٹھا لئے گئے اور تحریریں خشک ہو گئیں‘‘ اِس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ اِستغاثہ بالغیر کی ممانعت فقط تقدیر اِلٰہی کے خلاف ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کا وُرود تقدیر اِلٰہی کی حجت کے اِتمام کے لئے ہوا ہے نہ کہ سوال و اِستغاثہ سے منع کرنے کے لئے، کیونکہ ما سویٰ اﷲ سے سوال کا حکم تو خود اللہ ربّ العزّت نے جا بجا فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو :
فَاسْئَلُوْا أهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo
سو تم اہلِ ذِکر سے سوال کر لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo
(النحل، 16 : 43)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں مومنین کو اہلِ ذِکر سے سوال کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اِس آیت کریمہ کے علاوہ اِسی مفہوم میں وارِد ہونے والی بے شمار اَحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ کا مطلب و مفہوم سوال مِن الغیر سے مطلق ممانعت نہیں بلکہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ بلاضرورت اُمراء سے طمع کر کے اُن سے طلبِ دولت اور صاحبانِ اِقتدار سے طلبِ جاہ و منصب نہ کی جائے اور اللہ تعالی سے ہی اُس کے فضل و کرم کا سوال کیا جائے۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے سوال مِن الغیر کی ممانعت اَخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ میں سوال مِن الغیر یا اِستغاثہ و توسل کے عدمِ جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ دیگر بے شمار اَحادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا صحابہ کو خود سوال پر اُبھارا اور پھر اُن کے سوال کا جواب اِرشاد فرمایا۔ (جس کی تفصیل مع اَمثلہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے) اگر سوال مِن الغیر کو شِرک قرار دے دیا جائے تو طالبِ علم کا اُستاد سے سوال کرنا، بیمار کا ڈاکٹر سے علاج طلب کرنا، حاجت مند کا صاحبِِ اِستطاعت سے سوال کرنا اور کسی قرض خواہ کا قرض دی گئی رقم واپس طلب کرنا سب شِرک اور ممانعت کے زُمرے میں آ جائیں گے۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خوش بخت صحابی سیدنا رَبیعہ بن کعب رضی اللہ عنھم ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو کیلئے پانی بھرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وُضو کروایا۔ اِس خدمت کے صلے میں مالکِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا : ’’سَلْ‘‘۔۔۔ یعنی مانگ، جو مانگنا چاہتا ہے۔ اِتنی بڑی پیشکش دیکھ کر صحابیءِ رسول نے صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کی دائمی قربت کی نعمت مانگ لی، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم خود بیان فرماتے ہیں :
کنت أبيت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأتيه بوضوئه و حاجته، فقال لي : ’’سل‘‘ فقلت : ’’أسألک مرافقتک في الجنة‘‘ قال : ’’أو غيرک‘‘ قلت : ’’هو ذاک‘‘ قال : ’’فأعنّي علي نفسک بکثرة السجود‘‘.
میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک شب گزاری (اور آخرِ شب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو اور رفع حاجت کیلئے پانی لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مانگ (جو چاہتا ہے)‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں جنت میں آپ کی (دائمی) قُربت چاہتا ہوں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اِس کے علاوہ‘‘؟ میں نے عرض کی : ’’یہی کافی ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر کثرتِ سجود کے ساتھ میری مدد کرو‘‘۔
(الصحيح لمسلم، کتاب الصلوٰة، 1 : 193)
(سنن اَبو داؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 194)
اِس حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی رضی اللہ عنھم کو سوال کرنے کا حکم فرمایا۔ اگر غیر اللہ سے سوال ممنوع ہوتا تو مؤحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز ایسا نہ فرماتے۔ حدیث کے آخری اَلفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی سے کثرتِ سجود کے ذریعے مدد مانگی جس سے ثابت ہوا کہ غیراللہ سے سوال اور طلبِ عون سنتِ مصطفیٰ ہونے کی بناء پر رَوا ہے اور اس کے خلاف فتویٰ زنی ہرگز کسی مؤحّد کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح کے مذہبی تصوّرات اِسلام کی عالمگیر تعلیمات سے عدم واقفیت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاجت رَوائی اور مدد طلبی کے لئے اللہ کی محبوب مخلوق اور اُس کے محبوب اَعمال و اَفعال کا اِستغاثہ کرنا حکمِ خداوندی میں شامل ہے۔ اَب ہم اِس کی چند مثالیں قرآن و حدیث سے پیش کرتے ہیں۔
1۔ کلامِ مجید میں ہے :
وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوة.
اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔
(البقره، 2 : 45)
یہاں صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ سے اِستعانت کا حکم باقاعدہ اَمرِ خداوندی ہے جس میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ کو وسیلہ اور مستعانِ مجازی بنا کر اللہ ربّ العزّت جو مُستعان و مُستغاثِ حقیقی ہے، کی بارگاہ سے مدد طلب کرو۔
2۔ اِسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو جس میں جہاد کے لئے سامانِ حرب کا اِستغاثہ کرنے اور جہاد کی تیاری کا حکم ہے۔ اِرشاد ربانی ہے :
وَ أعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ.
اور (اے مسلمانو!) اُن کے (مقابلے) کے لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلات جنگ کی) قوت مہیا رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی)۔
(الانفال، 8 : 60)
3۔ علاوہ ازیں قرانِ مجید میں اللہ ربّ العزّت کے محبوب ومکرم بندے حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن گواہ ہے کہ اُنہوں نے دُشمن کے مقابلے میں اپنی قوم سے مدد طلب کی۔ اِرشاد قرآنی ہے :
فَأعِيْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ.
تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو۔
(الکهف، 18 : 95)
4۔ صلوۃ الخوف۔۔۔ جو قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔۔۔ بھی اِستغاثہ مجازی کی بہترین مثال ہے، کیونکہ اُس کی مشروعیت میں بعض مخلوق کی غیراﷲ سے اِستعانت کی مشروعیت ہے۔
5۔ حدیثِ مبارکہ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا مؤمنین کو ایک دوسرے کی مدد و اِستعانت کا حکم اور ترغیب دی ہے۔ اِرشاد فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِیْ حَاجَتِهِ.
جو اپنے بھائی کی تکمیلِ حاجت میں مصروف ہو، اللہ اُس کی حاجت رَوائی خود فرماتا ہے۔
(صحيح البخاری، کتاب المظالم، 1 : 330)
(الصحيح لمسلم، کتاب البر و الصله، 2 : 320)
6۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہی مضمون کچھ اِس طرح سے آیا ہے :
وَ اﷲُ فِی عَونِ العَبدِ مَا کانَ العبدُ فِی عَونِ أخيهِ.
اللہ بندے کی مدد میں مصروف ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں مصروف ہو۔
(الصحيح لمسلم، کتاب الذکر، 2 : 345)
(جامع الترمذی، اَبواب القرأت، 2 : 118)
7۔ اِمام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُستدرک میں ایک حدیثِ مبارکہ ذِکر کی ہے جس میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کو ایک دُوسرے کی مدد اور قضائے حاجات کے لئے حکم دیتے ہوئے اِس مبارک عمل کی اہمیّت یوں واضح فرمائی :
لأنْ يمشي أحدُکم مع أخيهِ فی قضاءِ حاجةٍ أفضل مِن أن يعتکفَ فی مسجدِي هٰذا شَهرين.
تم میں سے کسی کا اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی مدد کے لئے جانا میری اِس مسجد میں دو ماہ اِعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔
(المستدرک، 4 : 270)
(الترغیب والترهيب، 3 : 391)
8۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے مصائب و مشکلات کے اِزالے اور حاجات کے پورا کرنے کے لئے بطورِ خاص ایک ایسی مخلوق پیدا کر رکھی ہے جو دُکھی اِنسانیت کی خدمت اور اُن کی مدد و نصرت کے لئے ہمہ دم تیار رہتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے :
إنّّ ﷲِ خلقاً خلقهم لِحوائجِ الناسِ تفزع الناسُ إليهم فی حوائجِهم أولئکَ الأمِنونَ من عذابِ اﷲِ.
اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجات و ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی ضروریات (کی تکمیل) کے لئے اُن سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذابِ اِلٰہی سے محفوظ و مامون ہیں۔
(مجمع الزوائد، 8 : 192)
(الترغيب و الترهيب، 3 : 390)
اِس حدیثِ مبارکہ میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اَلفاظ کہ ’’لوگ اُن سے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے رُجوع کریں‘‘۔۔۔ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ لوگوں کا اِستعانت و اِستغاثہ کی نیت سے اُس مخلوقِ خدا کی طرف جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحسن بیان فرمایا ہے، چہ جائیکہ دین کے کامل فہم سے ناآشنائی کے باعث اِسے حرام بلکہ شِرک قرار دیا جائے۔
9۔ اِسی مفہوم میں وارِد ایک اور حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ کچھ یوں ہیں :
إنّ ﷲِ عندَ أقوام نعمّا يقرّها عندهم ما کانوا فی حوائجِ الناس ما لم يملّوا، فإذا ملّوا نقلها إلی غيرهم.
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے پاس اپنی نعمتیں رکھی ہیں، وہ بندے اِنسانوں کی ضروریات پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ جب وہ اکتا جاتے ہیں تو (یہی ڈیوٹی) دُوسروں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔
(المعجم الاوسط، 9 : 161)
(الترغيب والترهيب، 3 : 390)
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ مخلوق سے مدد مانگنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد طلبی اور اِستغاثہ پر اُن کی مدد کو پہنچنا منشائے ربانی اور منشائے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس عمل کا حکم خود اﷲ ربّ العزّت اور اُس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دِیا ہو اور جمیع اُمتِ مسلمہ نے ہر دَور میں اُس حکم کی تعمیل میں لبیک کہا ہو وہ ہرگز شِرک و بِدعت نہیں ہو سکتا۔ قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ مذکورہ آیات و احادیث اِستغاثہ کے لئے صرف جواز اور حلت کا نہیں بلکہ اَمرِ ربانی کا درجہ رکھتی ہیں۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک منافق مسلمانوں کی اِیذا رسانی کرتا اور اُن کے لئے طرح طرح کی تکالیف کھڑی کرنے میں کوشاں رہتا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنھم نے صحابہ سے فرمایا کہ آؤ ہم مل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِس منافق کے خلاف اِستغاثہ کریں۔ جب یہ بات سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :
إنّه لا يُستغاثُ بی و إنّما يُستغاثُ باﷲِ.
مجھ سے اِستغاثہ نہیں کیا جاتا اور صرف اللہ سے ہی اِستغاثہ کیا جاتا ہے۔
(مجمع الزوائد، 10 : 159)
اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے اور اِس کی شانِ وُرود تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماسواء اللہ سے اِستغاثہ کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے، پس اَب اگر کوئی غیراللہ سے مدد مانگے گا تو مُشرک قرار پائے گا۔
اِس ایک حدیثِ مبارکہ کو اِس کے حقیقی مفہوم میں رکھ کر بے شمار آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ کے خلاف کیا گیا ہے۔ وہ آیات و اَحادیث جن میں صریح اَلفاظ میں اِستغاثہ مِن دُون اللہ کا حکم پایا جاتا ہے (جن میں سے چند ایک کا تفصیلی ذکر ہم اُوپر کر آئے ہیں) اِس حدیث کے حقیقی مفہوم پر عمل کرنے کی صورت میں اِن تمام آیات و اَحادیث کو سِرے سے بالائے طاق رکھنا پڑ رہا ہے۔ شریعتِ اِسلامیہ کا مسلّمہ اُصول ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن مجید یا دیگر اَحادیثِ متواترہ کے خلاف اَحکام ظاہر کرے تو اُن کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش جاتی ہے اور اگر حقیقی معنی کے ساتھ تطبیق ممکن نہ ہو تو تاویلاً اُس مختلف فیہ حدیث کو مجازی معنی پر محمول کر کے صریح آیات و اَحادیثِ مبارکہ کے ساتھ اُس کا تعارُض ختم کیا جاتا ہے۔ یہی صورت کچھ یہاں بھی ہو گی۔
یہاں اِس حدیث سے مُراد اصل اِعتقاد میں توحید کی حقیقت کو ثابت کرنا ہے اور وہ یہ کہ مُغیث و مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے اور بندۂ بشر اِستغاثہ کے معاملہ میں صرف ایک وسیلہ اور واسطہ ہے۔
یہ حدیثِ مبارکہ صرف زِندہ کے ساتھ اِستعانت و اِستغاثہ کے خاص ہونے پر بھی دلالت نہیں کرتی جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے، بلکہ اِس حدیث کا ظاہر تو زِندہ و مُردہ کی تفریق سے ماوراء غیراللہ سے ہمیشہ اِستغاثہ کو منع کرتا ہے، جس کی تاوِیل اور ضرورتِ تاوِیل ہم اُوپر ذکر کر آئے ہیں۔ اِمام اِبنِ تیمیہ نے بھی اپنے فتاویٰ میں یہی بات ذکر کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بعض اَوقات اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے کچھ لوگ غیرمُرادی معانی اَخذ کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ دُوسرے مقامات اُن کے اِس اخذِ مسئلہ کا رَدّ کر رہے ہوتے ہیں۔ منافق کی اِیذاء رَسانی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم کا اُس کے خلاف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِستغاثہ بھی اِسی قبِیل سے ہے۔ اگر اِس حدیثِ مبارکہ کی یہ تاوِیل و تشریح نہ کر دی جائے تو اِس حدیث کا دیگر آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ سے براہِ راست تعارض لازم آئے گا۔ کتبِ حدیث میں جا بجا درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُعا کراتے، آپ کے وسیلۂ جلیلہ سے اِستسقاء کرتے اور وہ اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام اُمت سے بڑھ کر تھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا قول مذکور ہے کہ بسا اَوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی زیارت کے دَوران حضرت ابوطالب کا یہ شعر یاد کرتا جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارِش طلب کر رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مِنبر سے نیچے اُترنے سے پہلے بارِش کا پانی پرنالوں سے بہہ نکلتا، وہ شعر یہ ہے :
وَ أبيض يُستسقی الغمامُ بوجهه
ثمال اليتامٰی عِصمة للأراملِ
ترجمہ : اور وہ حسیں جس کے رُخِ تاباں کے طفیل بارِش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کا والی اور بیواؤں کا سہارا ہے۔
(صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 137)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا اِس محبت بھرے شعر کو گنگنانا ظاہر کرتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کس قدر وارفتگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشق و محبت رکھتے تھے اور جب کبھی اُن پر کوئی مُشکل و مصیبت آن پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِستغاثہ و اِستعانت اور اِستمداد کے لئے کھنچے کھنچے چلے آتے تھے۔ جب عملِ صحابہ سے اِس حدیثِ مختلف فیہ کی وضاحت میسر آ رہی ہے اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین موافق بھی ہے تو پھر اِن نادان دوستوں کی تشریحات اور فتویٰ ہائے کفر و شِرک کو کس طرح غایتِ توحید سمجھا جا سکتا ہے! توحید کا قرآنی تصور ہرگز اِس بات کی اِجازت نہیں دیتا کہ فقط ایک مختلف فیہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور باقی تمام تعلیماتِ اِسلام سے اِغماض برتتے ہوئے جمیع اُمت مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان باندھا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved