اِستغاثہ کے جواز پر قرآن و سنت کے جمیع اَحکام اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنھم سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیوی زِندگی میں تو ایک دُوسرے کے کام آنا ممکن ہے لہٰذا مدد مانگنا اور مدد کرنا بھی جائز ٹھہرا، لیکن موت کے بعد تو بندہ اپنے بدن پر بھی قادِر نہیں ہوتا، تب اُس سے کیونکر مدد طلب کی جا سکتی ہے؟ اور چونکہ وہ مدد پر قدرت نہیں رکھتا لہٰذا یہ شِرک ہے۔
اِس کج فہمی کے بارے میں ہم دو چیزوں کی وضاحت بطورِ خاص کرنا چاہیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ بندہ زِندہ ہو یا قبر میں آرام کر رہا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے وُجود پر قطعاً قادرِ مطلق نہیں ہوتا۔ یہ محض اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ وہ اِختیارات ہوتے ہیں جنہیں ہم حیاتِ دُنیوی کے دوران اِستعمال کرتے اور دُنیا بھر کے معاملات سراِنجام دیتے پھرتے ہیں۔ یہ اِختیار اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے قائم ہے، اور اگر اِس ظاہری حیات میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنا دِیا ہوا یہ اِختیار چھین لے تو بندہ ایک تنکا توڑنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ سوجس طرح اِس عالمِ اَسباب میں بندے کے جملہ اِختیارات کا حقیقی مالک اﷲتعالی ہے اور اِس کے باوجود بھی اُس سے مدد طلب کرنا شِرک نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے، بالکل اِسی طرح موت کے بعد بھی اگر کسی بندۂ بشر سے اِمداد طلب کی جائے تو اُسے اللہ تعالی ہی کی طرف سے مختار مانا جائے گا۔ جس طرح زِندگی میں کسی بھی صورت میں بندے کو مُستغاث و مختارِ حقیقی ماننا شِرک ہے لیکن مجازاً اُسے مدد کے لئے پُکارا جا سکتا ہے اِسی طرح بعداَز موت اولیاء و صلحاء کو مُستغاثِ مجازی مان کر اُن سے اِستغاثہ کرنا بھی جائز ہے۔ شِرک زِندہ سے ہو یا فوت شدہ سے شِرک ہی ہے اور مجازی مالک مان کر مدد مانگنا زِندہ سے ہویا اہلِ مزار سے دونوں صورتوں میں شِرک نہیں ہوگا۔ اِسلام کے معیار دُہرے نہیں کہ مسجد میں تو شِرک نہ ہو اور مندر میں جاکر وہی عمل کریں تو شِرک ہو جائے۔ اِسلامی اَحکام اور اُن سے ثابت ہونے والے نتائج ہر جگہ یکساں نتائج ظاہر کرتے ہیں۔ سو اگر کسی ڈاکٹر کو مستغاثِ حقیقی سمجھ کر اُس سے علاج کروایا جائے تو یہ شِرک قرار پائے گا جبکہ دُوسری طرف اللہ ربّ العزّت ہی کو مستغاثِ حقیقی جان کرکسی بزرگ کی دُعا یا کسی صاحبِ مزار کے وسیلے کو علاج کا ذریعہ بنایا جائے تو وہ بھی عین رَوا ہے اور ہرگز خلافِ شریعتِ اِسلامی نہیں ہے۔
اَب رہا یہ اِعتراض کہ اہلِ قبور کو مدد کی اِستعداد نہیں ہوتی تویہ بھی ایک لغو اِستنباط ہے کیونکہ اللہ تعالی نے خود قرآنِ مجید میں متعدّد مقامات پر اَہل اللہ کی برزخی حیات کا ذِکر فرمایا ہے۔ حیاتِ شہداء کے بارے میں تو کسی مسلک و مذہب کے پیروکاروں میں بھی اِختلاف نہیں ہے۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَدنیٰ اُمتی مرتبۂ شہادت پا کر قیامت تک کے لئے زِندہ ہیں اور اُنہیں اللہ تعالی کی طرف سے رِزق بھی بہم پہنچایا جاتا ہے، اُس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی حیاتِ برزخی کی لطافتوں کا عالم کیا ہوگا! پس سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیات بعداَز ممات کے عقیدے کے تحت مستغاثِ مجازی قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستعانت و اِستمداد کرنا بالکل اُسی طرح سے درُست ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں جائز تھا۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ برزخی کا تو یہ عالم ہے کہ اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درُود و سلام کے جو نذرانے پیش کئے جاتے ہیں، وہ بھی فرشتے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچانے پر مامور ہیں۔
اگر طلبِ شفاعت، اِستغاثہ اور توسل کفر و شِرک کے قبیل سے ہوتا تو پھر دنیا میں، حیاتِ برزخی میں اور آخرت میں ہر جگہ اِسے کفر و شِرک ہی ہونا چاہیئے تھا۔۔۔ کیونکہ شِرک تو اللہ تعالی کو ہر حال میں ناپسند ہے۔۔۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیماتِ اِسلامی میں واضح صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ زِندگی میں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے بے شمار مواقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و توسل کیا اور حیاتِ اُخروی میں بھی قیامت کے روز اُنہی کے دَر پر اِستغاثہ کریں گے۔ یہ اِستغاثہ ہی کا صلہ ہوگا کہ شفیعِ مُذنبیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں گناہگار مخلوق کی شفاعت کریں گے۔ سو جب حیاتِ دُنیوی اور حیاتِ اُخروی میں اِستغاثہ جائز ٹھہرا تو حیات ہی کی ایک قسم ’’حیاتِ برزخی‘‘ میں اُسے شِرک قرار دینا کس طرح سے درُست ہوسکتا ہے؟
حیات بعداَز موت یا قبر کی زِندگی کی حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اُسی طرح ثابت ہے جیسے قیامت کے روز جی اُٹھنا۔ قرآنِ حکیم میں اﷲ ربّ العزت کا ارشادِ گرامی ہے :
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَO
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
(البقره، 2 : 28)
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَموات، دو زندگیوں اور بالآخر یومِ آخرت کو تمام اِنسانیت کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹائے جانے کا صراحتاً ذِکر ہے۔ آیتِ کریمہ کی روشنی میں پہلی موت تو ہمارا عدم تھا، جب ہم ابھی عالمِ وُجود میں نہ آئے تھے۔ اُس کے بعد کی زندگی ہماری یہ دُینوی حیات ہے۔ پھر اُس کے بعد موت آئے گی اور لوگ حسبِ حال ہمارا کفن دفن کریں گے۔ اس موت کے بعد کی زِندگی حیاتِ برزخی کہلاتی ہے جو ہر اِنسان کو قبر (یا حالتِ قبر) میں میسر آتی ہے اور فرشتے سوالات پوچھنے آتے ہیں اور جنت یا جہنم کی طرف سے ایک کھڑکی قبر میں کھول جاتے ہیں۔ اُس دُوسری زِندگی کے بعد ہمیں روزِ محشر اللہ ربّ العزّت کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یوں حیاتِ برزخی کا دَورانیہ قبر میں سوالات کیلئے فرشتوں کی آمد سے لے کر روزِ محشر پھونکے جانے والے صورِ اِسرافیل تک طویل ہے۔
یہ تو ایک عام اِنسان (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر) کی حیاتِ برزخی کا معاملہ تھا، آئیے اَب حیاتِ شہداء کے سلسلے میں سورۂ بقرہ ہی کی ایک اور آیتِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیںo
(البقره، 2 : 154)
اِسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف اَلفاظ کے ساتھ یوں اِرشاد فرمایا گیا :
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُنہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں، اُنہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق دیا جاتا ہےo
(آل عمران، 3 : 169)
شہداء کی حیات پر تو ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں تاہم مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کے علاوہ متعدّد اَحادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے بعد حیات اور زِندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد سننے پر قدرت کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ بدر کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر پکارا اور اُن سے پوچھا :
فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟
تحقیق ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کوبالکل درست پایا، سو (اے کفار و مشرکین) کیا تم نے بھی اپنے ربّ کا وعدہ سچا پایا؟
اِس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھم بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار ہوئے : ’’حضور! آپ ایسے جسموں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں‘‘۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا :
وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَع لِمَا أَقُوْلُ مِنْهُمْ.
اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، میں اُن (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کر رہا ہوں وہ اُنہیں تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں۔
(صحيح البخاری، کتاب المغازی، 2 : 566)
صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ سے تو کفار و مشرکین تک کی بعد از موت برزخی زِندگی میں میسر قوتِ سماعت نہ صرف عام زِندہ اِنسانوں بلکہ زِندہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی سماعت سے بھی بڑھ کر قرار پا رہی ہے۔
اِسی طرح محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ تعلیم دی کہ وہ اہلِ قبور کو نہ صرف حرفِ نداء ’’یَا‘‘ کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ اُن پر سلام بھی بھیجے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبر ستان کے پاس گزرتے وقت ’’السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ‘‘ ضرور کہا کریں۔
جب کفار و مشرکین کی حیات، عامۃ المؤمنین کی حیات اور شہداء و صالحین کی حیات اپنے اپنے حسبِ حال قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور بالخصوص تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کا اِنکار کیا جائے؟ باوجود یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واشگاف اَلفاظ میں بار ہا یہ اِعلان فرما چکے ہیں کہ :
إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الْأنْبِيَآءِ، فَنَبِیُّ اﷲِ حَیٌّ يُّرْزَقُ.
اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔ پس اَنبیاء علیھم السلام زندہ ہیں اور اُنہیں رِزق بہم پہنچایا جاتا ہے۔
(سنن النسائی، کتاب الجمعه، 1 : 204)
(سنن اَبوداؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 157)
(سنن اِبن ماجه، کتاب الجنائز : 119)
اِس حدیث مبارکہ سے بالصراحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ سے انبیاء علیھم السلام اپنی قبور میں زِندہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں تو یہاں تک وارِد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اُمت کے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیک اَعمال پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جبکہ بداَعمالیوں پر اللہ کے حضور اُمت کی مغفرت کے لئے دُعا فرماتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یہ ہیں :
تُعرضُ علیّ أعمالُکم فما رأيتُ مِن خيرٍ حمدتُ اﷲَ عليهِ وَ ما رأيتُ مِن شرِّ نِاسْتغفرتُ اﷲَ لکُم.
مجھ پر تمہارے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں اگر اَعمال اچھے نہ ہوں تو اللہ کے حضور تمہاری مغفرت کے لئے دُعا کرتا ہوں۔
(مجمع الزوائد، 9 : 24)
وہ خدائے ذوالجلال جو اِس دنیا میں اور آخرت میں جمیع اِنسانیت کو زِندگی عطا کرنے اور رِزق مہیا کرنے پر قادِر ہے وُہی انبیائے کرام علیھم السلام کو قبروں میں بھی زِندہ رکھنے اور رِزق بہم پہنچانے پر قادِر ہے۔ اِسلامی لٹریچر میں دَر آنے والی یونانی فلاسفہ کی رُوح کی برزخی حیات پراُلجھا کر رکھ دینے والی غیر فطری و غیرسائنسی بحثیں اِسلام کے غیر متغیر اور اٹل فطری اُصولوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اَحکامِ اِسلام صاف اور کھرے اَنداز میں اقسامِ حیات اور حیاتِ برزخی کے حامل افراد کو پکارنے کے بارے میں اﷲ ربّ العزّت کی تعلیمات کو واضح کر رہے ہیں اور اِس بات کا واشگاف اَلفاظ میں اِعلان کر رہے ہیں کہ اَنبیاء علیھم السلام، شُہداء، صلحاء، عام مسلمان حتی کہ کفّار و مشرکین بھی اپنی قبروں میں زِندہ ہوتے ہیں۔ شہداء کو تو اَسبابِ برزخی کے تحت رِزق بہم پہنچائے جانے پر قرآنِ مجید خود شاہدِ عادل ہے۔ سو جو لوگ ظاہری حیات میں اِستغاثہ کو جائز مان کر موت کے بعد اِستغاثہ کو حرام بلکہ شِرک کا موجب قرار دے رہے ہیں اُن کے لئے اِتنی بات واضح ہوگئی کہ موت ایک لمحے کے ذائقے کا نام ہے جو آکر چلی جاتی ہے۔ بقول حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ :
موت تجدیدِ مذاقِ زِندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
حیاتِ دُنیوی اور قیامت کے روز عطا ہونے والی اُخروی حیات کے مابین حیاتِ برزخی کا زمانہ موجود ہوتا ہے۔ پس جیسے دُنیوی اور اُخروی حیات کے حامل فردِبشر سے اِستمداد و اِستعانت اور اِستغاثہ کرنا جائز ہے بعینہ حیاتِ برزخی کے دَوران بھی اِستغاثہ رَوا ہے، اِس میں شِرک تو درکنار اُس کاذرا سا شائبہ بھی موجود نہیں۔ کیونکہ دُنیوی، برزخی اور اُخروی، تینوں زندگیوں میں اللہ تعالی کو مستعانِ حقیقی اور بندے کو مستغاثِ مجازی مان کر اِستغاثہ کیا جاتا ہے جو کہ جائز ہے۔ مذکورہ تینوں اقسامِ حیات میں سے کسی بھی زِندگی میں بندے کو مستغاثِ حقیقی سمجھ لینا یقیناً شِرک ہے۔ واضح رہے کہ شِرک کا سبب اَقسامِ حیات نہیں بلکہ حقیقت و مجاز کی تفریق ہے۔
اَرواحِ اِنسانی کی حیاتِ برزخی کے دلیلِ قطعی کے ساتھ حق ثابت ہو جانے کے بعد اِستغاثہ بعد الموت کو ناجائز سمجھنا کم فہمی یا ہٹ دھرمی کے سِوا کچھ نہیں۔ اَرواحِ اَنبیاء و صلحاء سے اِستمداد و اِستغاثہ بالکل اُسی طرح روَا ہے جس طرح کسی زِندہ اِنسان یا فرشتوں سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جب ہم زِندگی میں کسی اِنسان سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم اُس کی رُوح سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ جسمِ اِنسانی تو اصل اِنسان۔۔۔ رُوح۔۔۔ کا لباس ہوتا ہے۔ موت کے بعد جب رُوح جسم کی مادّی بندشوں سے آزاد ہو جاتی ہے تو جسدِ خاکی کی آلائشوں سے آزاد ہو جانے کی وجہ سے فرشتوں کی طرح بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر غیر مادّی اَفعال سراِنجام دینے پر قادِر ہو جاتی ہے۔ ہمارے مادّی عالم میں جو قوانینِ تصرّف معروف ہیں رُوح اُن قوانین کی پابندی سے مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے کیونکہ اُس کا عالم۔۔۔ عالمِ امر۔۔۔ جسم کے اِس عالمِ اَسباب سے مختلف ہوتا ہے۔ اِسی حقیقت کے بارے میں اِرشاد باری تعالی ہے :
وَ يسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ، قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أمْرِ رَبِّی.
اور یہ (کفار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے رُوح میرے ربّ کے اَمر سے ہے۔
(الاسراء، 17 : 85)
اَرواح کو حیاتِ برزخی میں عالمِ امر کی جو زندگی میسر ہوتی ہے اُس میں وہ دُنیا کی جسمانی زِندگی سے بڑھ کر اَعمال و اَفعال پر قادِر ہو جاتی ہیں اور اپنے پکارنے والوں اور مدد طلب کرنے والوں کی مدد کو پہنچ سکتی ہیں۔ اگر اِستغاثہ کو صرف محسوسات و مبصرات ہی کے تحت جائز سمجھا جائے تو یہ اِیمان کا شیوہ نہیں بلکہ فلسفے کا طریق ہے جبکہ قدیم فلسفے کی اَبحاث ایمانی اَسرار کی آگہی نہیں دے سکتیں۔ اِیمانی اَسرار کو جاننے کے لئے حلاوتِ قلبی اور کیفیاتِ عشقی درکار ہیں۔ واضح رہے کہ اَنبیاء و صلحاء کا اپنے مستغیثین کی اِمداد کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ مدد کے طالِب کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دُعا فرمائیں اور اللہ ربّ العزّت اُن کی دُعا کو شرفِ قبولیت عطا کرتے ہوئے متعلقہ شخص کی حاجت پوری کر دے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے بڑا کسی بچے کے لئے یا بھائی اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے۔ مسئلہ فقط یہ ہے کہ معترضین اہلِ قبور کی حیات کا اِنکار کرکے اُنہیں دُعا کر سکنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے جبکہ صحیح اِسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ زِندہ ہیں، اپنے شعور و اِدراک کے تحت زائرین کو پہچانتے ہیں۔ جسم سے جدا ہو جانے کے بعد رُوح کا شعور مزید کامل ہو جاتا ہے اور شہواتِ بشریہ کے زائل ہو جانے کی وجہ سے خاکی حجابات اُٹھ جاتے ہیں۔
اِستغاثہ کا معاملہ یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس ذات سے مدد طلب کی جاتی ہے وہ اللہ ربّ العزّت ہی ہے مگر سائل یوں عرض کناں ہوتا ہے کہ گویا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے حاجت رَوائی کا خواہشمند ہے۔ وہ اللہ کے مقرّب بندوں کا وسیلہ پکڑ کر اللہ تعالی سے عرض کرتا ہے کہ میں اِن اَولیاء و صلحاء کے محبین یا محبوبین میں شامل ہوں لہٰذا اُن کی محبت اور قرابت داری کی وجہ سے خصوصی رحم و کرم کا مستحق ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا دُعا میں مذکورہ اولیائے کرام کے صدقے اُس شخص کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے اور اُس کی حاجات پوری کر دیتا ہے۔
نمازِ جنازہ پڑھنے والوں کا میت کی بخشش کے لئے دُعا کرنا بھی اِسی قبیل سے ہے، کیونکہ جنازہ میں موجود لوگ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں میّت کی مغفرت کا وسیلہ بناتے اور اُس کے مددگار بنتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved