صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق اِستعانت و اِستمداد، اِستغاثہ و سوال اور طلب و نداء میں اللہ ربّ العزّت ہی کی ذات مُعین و مُغیث اور حقیقی مددگار ہے جیسا کہ اﷲ تعالی نے بارہا اِرشاد فرمایا کہ مجھ سے طلب کرو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی اِس بنیادی تعلیم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھے کہ اِستغاثہ و اِستعانت اور نداء و طلب میں کوئی مخلوق اللہ ربّ العزت کے اِذن کے بغیر مستقل بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقیناًشرک ہے۔ خواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اَسباب کے تحت ہو یا مافوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔ جبکہ اِس کے برعکس دُوسری صورت میں اگر مُستعان و مجیبِ حقیقی اللہ تعالی کو مان کر بندہ مجازاً کسی کام کے لئے دوسرے بندے سے رُجوع کرے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر سے علاج کروائے یا دَم، درُود اور دُعا کے لئے اﷲ تعالیٰ کے کسی نیک اور صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شِرک نہیں بلکہ اِس کا یہ فعل معاہدۂ عمرانی کے تحت اِختیارِ اَسباب کے ضمن میں آئے گا۔ اللہ تعالی نے اپنے کلامِ مجید میں بارہا مؤمنین کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے :
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ.
(المائده، 5 : 2)
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ جمیع مسلمانوں کو ایک دُوسرے کی مدد اور تعاونِ باہمی کا حکم فرما رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد تبھی ممکن ہے جب بعض پس ماندہ حال مؤمنین خوشحال مؤمنین سے مدد مانگیں۔ واضح رہے کہ یہ اِستمداد و اِستغاثہ مادّی معاملات میں بھی زیرحکمِ خداوندی ہے اور رُوحانی معاملات میں بھی، اِسی طرح ماتحت الاسباب معاملات بھی اِس میں شامل ہیں اور مافوق الاسباب بھی، کیونکہ اللہ ربّ العزت نے تعاون (باہمی اِمداد کے نظام) کا حکم علیٰ الاطلاق دیا ہے اور قاعدہ ہے کہ قرانِ مجید کے مطلق کو کسی خبرِ واحد یا قیاس کے ذریعے سے مقیّد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس موقع پر اگر کوئی شخص اِس ’’تعاون‘‘ (Mutual Cooperation) کو اَسباب کی شرط سے مقید کرنا چاہے تو وہ یقیناً خلافِ منشائے ربانی فعل میں مصروف متصوّر ہو گا۔ اِسلامی اَحکام و تعلیمات میں تعاونِ باہمی اور ایک دُوسرے کی مدد کو پہنچنے کا حکم آیاتِ طیبات اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت ملتا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص سے مدد طلب کی جائے اُسے چاہیئے کہ وہ مدد کرے اور جس سے اِستغاثہ کیا جائے وہ مدد کو پہنچے اور جسے نداء دی جائے وہ اُس نداء کو قبول کرے اور دُکھی اِنسانیت کے کام آئے۔
اِستغاثہ کے جواز میں بے شمار مواقع پر احکامِ قرآنی موجود ہیں۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ اُسی طرح جائز ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایک قبطی نے کسی ظالم کے خلاف اِستغاثہ کیا توآپ نے اُس کی مدد فرمائی۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون مؤحد ہو سکتا ہے جن کی زِندگی کا مقصد ہی پیغامِ توحید کو سارے عالم میں پھیلانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قبطی اور نبی علیہ السلام دونوں میں سے کسی ایک کو بھی فعلِ اِستغاثہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے مشرک قرار نہیں دیا۔ اِرشادِ باری تعالی ہے :
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِه عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه.
تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اُس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔
(القصص‘ 28 : 15)
قرآنِ مجید میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر گزشتہ اُمتوں کے مؤمنین کا اپنے انبیاء اور صالحینِ اُمت سے اِستغاثہ کرنے کا بیان آیا ہے۔ اُمتِ مصطفوی میں بھی یہ حکم اور صحابۂ کرام کا اِس پر عمل جاری و ساری رہا۔ بے شمار احادیثِ مبارکہ اِعانتِ محتاج اور آپس میں ایک دوسرے کی پریشانیاں اور غم دُور کرنے کے باب میں وارِد ہوئی ہیں۔
لمحاتِ شکستہ میں کسی کا سہارا بننا اور ساعتِ کرب میں کسی کا شریکِ غم ہونا مراسمِ محبت کی اُستواری سے عبارت ہے۔ اِسلام کا پیغام اَمن و سلامتی کا پیغام ہے اور تاجدارِ انبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ محبت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ طائف کے اَوباش لڑکوں کی سنگ باری میں بھی لبِ اَطہر پر دُعا کے پھول کھلتے ہیں۔ خون کے پیاسوں میں وفائیں تقسیم کرنے اور عفو و درگزر کے موتی لُٹانے والے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِین دراصل محبت ہی کی تفسیر کا نام ہے۔ دُکھ درد کے زائل کرانے اور حاجات کی تکمیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر زیادہ بڑا وسیلہ و ذریعہ اور کون ہو سکتا ہے! قیامت کے دن جب زمانے کی سب سے بڑی سختی لوگوں پر مسلط ہو گی، ہر کوئی نفسا نفسی پکار رہا ہو گا، لوگ اَنبیاء و صلحاء کے پاس اِستغاثہ اور طلبِ شفاعت کی غرض سے حاضر ہوں گے، مگر اُس دِن سب انبیاء علیہم السلام اِنکار کرتے چلے جائیں گے۔ تآنکہ لوگ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر اِستغاثہ کریں گے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اُس وقت کی سختی کو زائل فرمائے گا۔ حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے ’’اِستغاثہ‘‘ کریں گے پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اور پھر خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِموسیٰ، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم.
لوگ آدم علیہ السلام سے اِستغاثہ کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور آخر میں (تاجدارِ انبیاء) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔
(صحيح البخاری، کتاب الزکوة، 1 : 199)
صحیح بخاری میں لفظِ اِستغاثہ کے ساتھ اِس حدیث مبارکہ کی رِوایت سے لفظ اِستغاثہ کے اِس معنی میں اِستعمال اور عامۃ الناس کے صلحاء و انبیاء سے اِستغاثہ کرنے کا جواز مہیا ہو رہا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جس اِستغاثہ کی اُخروی زندگی میں اِجازت ہے اور جو اِستغاثہ و اِستعانت موجودہ دُنیوی زندگی میں زِندہ اَفراد سے جائز ہے، برزخی حیات میں اُسی اِستغاثہ کے جواز پر شِرک کا بُہتان چہ معنی دارد۔ ۔ ۔ ؟
اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے اور اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ مان کر اُن مسائلِ حیات کا اِزالہ چاہتے تھے۔ اِس عمل میں اُن کا پنہاں عقیدہ یہی تھا کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک واسطہ اور نفع وضرر میں سبب ہیں اور حقیقی فاعل تو صرف اللہ ربّ العزت ہی کی ذات ہے۔ اَب ہم مثال کے طور پر یہاں چند اَحادیثِ مبارکہ کا ذِکر کرتے ہیں جن میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ شروع میں بہت خراب تھا اور وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاداتِ گرامی کو یاد نہیں رکھ پاتے تھے۔ دریں اثناء اُنہوں نے حضور رحمۃٌللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ و اِلتجاء کی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نِسیان کی شکایت ہمیشہ کیلئے رفع فرما دی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کثیرالرواۃ صحابی ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! انِّيْ أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثاً کَثِيْراً أَنْسَاه، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أُبْسُطْ رِدَائَک، فَبَسَطْتُّه، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضَمِّ فَضَمَمْتُه، فَمَا نَسَيْتُ شَيْأً بَعْدُ.
میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کی بہت سی احادیث سنتا ہوں اور پھر بھول جاتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، پس میں نے پھیلائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں سے) اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز اُٹھا کر اس (چادر) میں ڈالی، پھر فرمایا : اِسے اپنے سے ملا لو، پس میں نے ملا لیا اور پھر اُس کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہ بھولا۔
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 22)
(صحيح البخاری، کتاب الصوم، 1 : 274)
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر مشکل کا حل حاصل کرنے کیلئے اِستغاثہ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بڑا موحّد اور کون ہو سکتا ہے! اور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر داعی اِلیٰ التوحید کون قرار پا سکتا ہے! مگر اِس کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنکار کی بجائے اُن کا مسئلہ زندگی بھر کیلئے حل فرما دیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر موحّد یہ جانتا ہے کہ مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے، انبیاء، اولیاء، صلحاء اور پاکانِ اُمت جن سے مدد طلب کی جاتی ہے، وہ تو حلِ مشکلات میں صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔ اُن کا تصرّف محض اللہ تعالی کی عطاء سے قائم ہوتا ہے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مطلوب کے حصول کا ذرِیعہ اور وسیلہ بنیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی حاجت کو پورا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ اللہ سے دُعا کرو اور توحید پر قائم رہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہوا سے اَن دیکھی شے کی مٹھی بھر کر اُن کی چادر میں ڈال دی اور حکم دیا کہ اِسے اپنے سینے سے مل لو۔ پس اللہ تعالی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حاجت براری کے لئے اِس عمل کو بطور وسیلہ قبول کر لیا۔
ہر ذِی شعور موحّد یہ جانتا ہے کہ قضائے حاجت اور مطلب براری کے لئے دُعا اور مدد صرف اُسی سے مانگی جاتی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کل اِختیاراتِ عالم ہیں۔ جبکہ طالبِ وسیلہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ بننے اور شفاعت کرنے والا اللہ ربّ العزّت سے مُجھ گناہگار کی نسبت زیادہ قربت رکھتا ہے اور اُس کا مرتبہ اِستغاثہ کرنے والے کی نسبت بارگاہِ ایزدی میں زیادہ ہے۔ سائل اُسے مستغاثِ مجازی سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کیونکہ وہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ مستغاثِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی معاملہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے واضح ہوتا ہے۔
سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی چشمِ مبارک غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور آنکھ کا ڈھیلا اپنے اصل مقام سے باہر نکل کر باہر چہرے پر لٹک گیا۔ تکلیف کی شدّت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے چند صحابہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ آنکھ کی رَگ کاٹ دی جائے تاکہ تکلیف کچھ کم ہو جائے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں کے مشورے پر عملدرآمد سے پہلے محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرضِ حال و اِلتجاء کا فیصلہ کیا۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر جب بپتا سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستعانت و اِستغاثہ کیا تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ کو کاٹنے کی اِجازت دینے کی بجائے اپنے دستِمبارک سے آنکھ کو دوبارہ اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا جس سے اُن کی بینائی پھر سے لوٹ آئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ضائع ہونے والی آنکھ کی بینائی کسی طرح بھی پہلی آنکھ سے کم نہیں بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہے۔ اِس حدیثِ اِستغاثہ کو اِمام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں یوں رقم کیا ہے :
عَنْ قَتَادَة بْنِ النُّعْمَانَ، أَنَّه أُصِيْبَتْ عَيْنَه يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُه عَلَی وَجَنَتِه، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَقَالَ : لَا، فَدَعَا بِه، فَغَمَزَ حَدَقَتَه بِرَاحَتِه، فَکَانَ لَا يَدْرِيْ أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ.
سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُن کی آنکھ غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر آ گیا۔ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اُسے کاٹ دینا چاہا۔
(مُسند اَبو يعلی، 3 : 120)
(دلائل النبوّه، 3 : 100)
(طبقات اِبنِ سعد، 1 : 187)
(تاريخ اِبنِ کثير، 3 : 291)
(الاصابه فی تمييز الصحابه، 3 : 225)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ پس حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اِس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہوئی تھی۔
کتبِ احادیث میں طبیبِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دُمبل زدہ صحابی کا اِستغاثہ بھی مروی ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دُمبل (Struma) تھا جس کی وجہ سے دورانِ جہاد اُن کے لئے گھوڑے کی لگام یا تلوار کا دَستہ پکڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ صحابی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضر ہوئے اور اِس بیماری کے علاج کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔ پس اللہ ربّ العزّت جو مستعانِ حقیقی ہے اُس نے دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اُس صحابی کو شفا عطا فرما دی۔ یہ حدیثِ مبارکہ مجمع الزوائد میں یوں مروی ہے :
أتيتُ رسولَ اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم و بکفی سلعةٌ، فقلتُ : ’’يانبی اﷲ! هذا السلعة قد أورمتنی لتحول بيني و بين قائم السيف أن أقبض عليه و عن عنان الدابة‘‘. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أُدْنُ مِنِّي‘‘. فَدَنَوْتُ، فَفَتَحَهَا، فَنَفَثَ فِيْ کَفَّي، ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلَي السَّلْعَة، فَمَا زَالَ يَطْحِنُهَا يَکُفُّه حَتَّي رَفَعَ عَنْهَا وَ مَا أَرَي أَثْرَهَا.
میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میرے ہاتھ میں ایک دُمبل تھا۔ میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (میرے ہاتھ پر) دُمبل ہے جس کی وجہ سے مجھے سواری کی لگام اور تلوار پکڑنے میں تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے قریب ہو جاؤ‘‘۔ پس میں آپ سے قریب ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس دُمبل کو کھولا اور میرے ہاتھ میں پھونک ماری اور اپنے دست مبارک کو دُمبل پر رکھ دیا اور دباتے رہے حتی کہ جب ہاتھ اُٹھایا تو اُس (دُمبل) کا اثر مکمل طور پر زائل ہو چکا تھا۔
(مجمع الزوائد، 8 : 298)
مادر زاد نابیناؤں کو نعمتِ بصارت سے فیضیاب کرنا سیدنا عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہونے کے ساتھ تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ بھی ہے۔ روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں بینائی کے حصول کے لئے اِستغاثہ کرنے آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں منع کرنے اور اِستغاثہ کی حُرمت یا خدشۂ شِرک کا اِظہار کرنے کی بجائے خود اُنہیں دُعا کی تلقین فرمائی۔ یہ دُعا اپنی ذات میں وسیلہ اور اِستغاثہ دونوں کی جامع ہے اور اُس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ جیسے خلوص سے کی جانے کی صورت میں آج بھی دُکھی اِنسانیت کے لئے مجرّب اکسیر ہے۔ مذکورہ دُعا یہ ہے :
أَللّٰهُمَّ انِّيْ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ الَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَة، يَامُحَمَّدُ! انِّيْ قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ الَی رَبِّيْ فِيْ حَاجَتِيْ هٰذِهِ فَتَقْضِيْ لِيْ، أَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَ.
(جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 197)
(مسند اَحمد بن حنبل، 4 : 138)
(المستدرک، 1 : 313، 519، 526)
اے میرے اللہ! میں نبیء رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنی اِس حاجت میں آپ کے واسطے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے میرے اللہ! میرے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارِش و شفاعت کو قبول کر لے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور دُعا کا اِبتدائی جملہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کر رہا ہے، جبکہ اِسی دُعا کا دوسرا جملہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا جا رہا ہے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کا نہ صرف جواز بلکہ حکم مہیا کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالی کے سِوا کسی مخلوق سے اِستغاثہ جائز اور درست نہ ہوتا تو نبیء کریم رؤفٌ رّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عمل کے کرنے کا حکم اِرشاد نہ فرماتے۔ کائنات کے سب سے بڑے موحّد نے جب خود اپنی ذات سے اِستغاثہ کا حکم اِرشاد فرمایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ توحید کو خالص کرنے کے زعم میں اِسلام کے حقیقی عقائد و نظریات اور تعلیمات کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے جمیع مسلمانانِ عالم کو کافر و مشرک قرار دینے لگیں۔
کتبِ احادیث اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِثبات اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے ثبوت میں بھری پڑی ہیں۔ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابۂ کرام کو جب بھی کوئی مصیبت و آفت درپیش ہوتی وہ دوڑے دوڑے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں اِستغاثہ کے لئے حاضر ہوتے۔ اللہ تعالی کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر دُعا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت براری کے لئے اِستغاثہ کرتے۔ جس کے نتیجے میں اللہ ربّ العزت اُن پر آئی ہوئی مشکل کو ٹال دیتا۔ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ اِستسقاء کو صحیح قرار دیتے ہوئے اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس طرح رِوایت کیا ہے کہ :
عن أنس، قال : ’’بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يومَ الجمعة اذا جاء رجلٌ، فقال : ’’يارسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم قحط المطر فادع اﷲ أن يسقينا‘‘. فدعا، فمطرنا، فما کدنا أن نصلّ الٰي منازلنا، فما زلنا نمطر الٰي الجمعة المُقبلة، قال : فقام ذٰلک الرجل أو غيره، فقال : ’’يا رسول اﷲصلي اﷲ عليک وسلم أدع اﷲ أن يصرفه عنا‘‘. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’اللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَ لَا عَلَيْنَا‘‘، قال : ’’فلقد رأيتُ السّحاب يتقطع يميناً و شمالًا يمطرون و لا يمطر أهل المدينة‘‘.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض گزار ہوا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش کا قحط ہے پس اللہ سے دُعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی پس ہمارے گھر وں کو پہنچنے سے پہلے پہلے بارش شروع ہو گئی جو اگلے جمعہ تک مسلسل جاری رہی۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ (اگلے جمعہ) پھر وہی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کی : ’’اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! اللہ سے دُعا کریں کہ اِس (بارش) کو ہم سے ہٹا دے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی : ’’اَے اللہ ہمارے اِردگِرد ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو‘‘ پس میں نے دیکھا کہ بادل دائیں اور بائیں ہٹ کر بارش برسانے لگا اور اہلِ مدینہ پر سے بارش ختم ہو گئی۔
(صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 138)
عملِ صحابہ سے اِستغاثہ کا ثبوت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابۂ کرام کو اِس عمل سے روکنے کی بجائے اُن کی حاجت براری کرنا اِس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل شِرک کے اَدنیٰ سے شائبے سے بھی دُور ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صحابی شِرک میں مبتلا ہو اور یہ تو اُس سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کو شِرک سے بچنے کی تعلیم نہ دیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی غزوۂ اُحد میں شہادت پر اِس قدر روئے کہ اُنہیں ساری زِندگی اِتنی شدّت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ فرماتے ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ کے جنازے کو قبلہ کی سمت رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکی بندھ گئی۔ پھر سیدنا اَمیرحمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے :
يا حمزةُ! يا عمَّ رسولِ اﷲ! و أسدَ اﷲ! و أسدَ رسوله! ياحمزةُ! يا فاعلَ الخيراتِ! ياحمزةُ! ياکاشفَ الکُرُباتِ! ياذابّ عن وجه رسولِ اﷲ!
(المواهب اللدنية، 1 : 212)
اے حمزہ رضی اللہ عنہ ! اے رسول اللہ کے چچا! اے اللہ کے شیر! اے اﷲ کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائی کے کام کرنے والے! اے تکالیف کو دور کرنے والے! اے رسول اللہ کے چہرۂ اَنور کی حفاظت و حمایت کرنے والے!
اِس حدیثِ مبارکہ میں ایک فوت شدہ شخص کے لئے حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ نداء کے جواز کے ساتھ ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ’’يَا کَاشِفَ الْکُرُبَاتِ‘‘ بھی خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ اِن الفاظ کی ادائیگی میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صالحین سے اِستغاثہ کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ جس سے اِستغاثہ کیا جائے اُس کا مدد کو پہنچنا بھی جائز گردانا ہے، تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو ’’غم کو دُور کرنے والے‘‘ کے پسندیدہ الفاظ سے پکارا۔ یہاں سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مُستغاث ہونا مجازی معنی میں ہے کیونکہ حقیقی مُستغاث و مُستعان تو محض اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو مُستغاث قرار دینا اور بعد از وفات اُنہیں حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ بلانا ظاہر کرتا ہے کہ اِستغاثہ کے سلسلے میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم عین شرعی ہے ورنہ فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے قطعاً مطابقت نہ رکھتا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved