بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
اَللہ ربّ العزت خالقِ کائنات ہے، قادرِ مطلق اور حقیقی مُستعان ہے۔ کائناتِ اَرض و سماء میں جاری و ساری جملہ اَعمال و اِختیارات کا حقیقی مالک وُ ہی ذاتِ حق ہے، جس کے اِذن سے شب و روز کا سلسلہ وُقوع پذیر ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات میں واحد ہے، یکتا ہے، کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔ ارب ہا مخلوقات کو زِندگی عطا کرنے، آنِ واحد میں دی ہوئی حیات کو سلب کرنے اور وسیع و عریض کائناتوں کا نظام چلانے میں، کوئی اُس کا مددگار اور شریک نہیں۔ تمام جہانوں میں تصرّف کرنے والی اور نظامِ حیات کو روز اَفزُوں رکھنے والی ذات فقط اَللہ ربّ العزت کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر ملکیتِ حقیقی اَللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو حاصل نہیں۔ اَﷲ کے سوا کوئی کسی شے کا از خود مالک نہیں بن سکتا، اِلاّ یہ کہ وہ خود اُسے مالک بنا دے یا تصرّف سے نواز دے، حتی کہ اپنی ذات اور چھ فُٹ کے بدن کے اُوپر بھی کسی فردِ بشر کو حقِ ملکیت حاصل نہیں۔ نفع و ضرر، حیات و ممات اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا اَز خود کوئی مالک نہیں۔ اَللہ ہی مارتا اور وُہی جِلا بخشتا ہے۔ ہماری ہر سانس اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
اَحکامِ اِسلام اور قرآنِ حکیم کی اَبدی اور لازوال تعلیمات کی روشنی میں بندے کی طرف نفع و ضرر اور مِلکیت و تصرّف کی نسبت کرنا محض سبب اور کسب کے اِعتبار سے درست ہے۔ خلق، اِیجاد، تاثیر، علّت اور قوّتِ مطلقہ کے اِعتبار سے مخلوق کی طرف نفع و ضرر کی نسبت قطعی طور پر درست نہیں۔ اگر ہم بنظرِ غائر جائزہ لیں تو مخلوق کی طرف موت و حیات، نفع و ضرر، مِلکیت و تصرّف اور اُس کے جملہ کسب کی نسبت حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہوتی ہے اور اِن اُمور میں نسبتِ حقیقی کا حقدار فقط اﷲ ربّ العزت کی ذات ہے۔ اِن حقائق کو بیان کرنے اور قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والی آیاتِ بیّنات سے اِستنباط کرنے میں بعض لوگ لفظی مُوشگافیوں اور خلطِ مبحث میں اُلجھ کر گوہرِ مقصود سے تہی دامن رہ جاتے ہیں۔ فی زمانہ اُن لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ کے مفاہیم اَخذ کرنے میں حقیقت و مجاز کے درمیان فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر فقط حقیقی معنوں سے اِستدلال لینا درست قرار دے رکھا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک محلِ نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اَئمۂ اَسلاف کی طرف سے کی گئی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں ہیں اور عقائد کے باب میں تفسیر بالرّائے کے ذریعے بدعاتِ سیئات پیدا کرنے اور قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات سے ہٹ کر عقائد کو جنم دینے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں جب ہم غیرجانبداری سے دیکھیں تو دُوسری طرف ہمیں لفظی اِشتباہ میں پڑے ہوئے جاہل عوام بھی بکثرت ملتے ہیں جو مجاز کے اِستعمال میں حد درجہ زیادتی اور غُلو کے قائل ہیں اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اگرچہ وہ دل سے اللہ ربّ العزّت کی توحید و تنزیہہ اور دیگر اِسلامی عقائد پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں مگر بادیء النظر میں مجاز کے اِستعمال کی کثرت کے باعث مجازی معنی کے عدم جواز کے قائل گروہ کے ہاں قابلِ دُشنام قرار پاگئے ہیں۔ حرفِ حق کی تلاش میں نکلنے والے توازن اور اِعتدال کا راستہ اپناتے ہیں۔ حقیقت و مجاز کے اِستعما ل میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی تعبیر و تفہیم کیلئے ضروری و کارآمد ہے۔
عقائدِ اِسلامیہ کی تعبیر وتوجیہہ کے باب میں اَسلاف اَئمۂ کرام میں سے اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو متنازع گردانا جاتا ہے، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اُن کا عقیدہ نہایت اِعتدال پر مبنی ہے اور اگر موجودہ دَور میں اُس کی کما حقّہ غیرجانبدارانہ تعبیر و تشہیر کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں اِنتہاؤں پر جا پہنچنے والے مسالِک کو باہم قریب کیا جا سکے۔ سرِدست صورتحال کچھ یوں ہے کہ عقائدِ اِسلامیہ میں اپنی کج فہمی کی بناء پر بِدعات داخل کرنے والا گروہ اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا مَن گھڑت تصوّر پیش کر کے اُن سے اپنے خود ساختہ عقائد کی بے جا تائید حاصل کر رہا ہے جبکہ صحیح اِسلامی عقیدے پر کاربند کم پڑھے لکھے اَفرادِ اُمت حقائق سے عدم آگہی کے باعث اِمام اِبن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو غیراِسلامی عقیدے کا حامل سمجھنے لگ گئے ہیں۔
اِمام اِبن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے، اور وہ یہ کہ ’’اللہ ربّ العزّت ایک ہے، اُس کا کوئی ثانی نہیں۔ فقط اُسی کی عبادت رَوا ہے، اُسی سے دُعا کرنی چاہئیے اور اُسی کو حقیقی مُستعان سمجھنا چاہئیے۔ اُسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئیے اور مشکل وقت میں اُسی سے مدد مانگنی چاہئیے۔ غیراللہ کو مددگارِ حقیقی سمجھنا اِسلام کے دائرے سے خروج کے مُترادِف ہے۔ فقط اللہ نیکی کی توفیق سے نوازتا اور گناہوں کو معاف کرنے پر قُدرت رکھتا ہے۔ اُس کے علاوہ کوئی اَز خود کسی کو گناہ سے روک سکتا ہے اور نہ نیکی کی توفیق دے سکتا ہے۔ اَنبیاءے کرام اور اَولیاء اﷲ سے مدد صرف اُنہیں مستعانِ مجازی مانتے ہوئے ہی جائز ہے‘‘۔ یہی عین اِسلامی عقیدہ ہے اور اِس سے سرِمُو اِنحراف عقائدِ باطلہ کی طرف رُجحان کا باعث ہو گا۔
لفظِ استغاثہ کا مادۂ اِشتقاق ’’غ، و، ث‘‘ (غوث) ہے، جس کا معنی ’’مدد‘‘ کے ہیں۔ اِسی سے اِستغاثہ بنا ہے، جس کا مطلب ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اِستغاثہ کا لُغوی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
الغَوثُ : يقال فی النُّصرةِ، و الغَيثُ : فی المطرِ، واستغثته : طلبت الغوث أو الغيث.
غَوث کے معنی ’’مدد‘‘ اور غَیث کے معنی ’’بارش‘‘ کے ہیں اور استغاثہ کے معنی کسی کو مدد کے لئے پکارنے یا اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے ہیں۔
(المفردات : 617)
لفظِ استغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں بھی متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابۂ کرام کی اﷲ ربّ العزت کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے :
اذْ تَسْتَغِيْثُونَ رَبَّکُمْ.
جب تم اپنے ربّ سے (مدد کے لئے) فریاد کررہے تھے۔
(الانفال، 8 : 9)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعے کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ استغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے۔ سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه.
تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی۔
(القصص، 28 : 15)
اَہلِ لُغت کے نزدیک استغاثہ اور استعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
وَ الْاسْتِعَانَةُ : طَلَبُ الْعَوْنِ.
اِستعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔
(المفردات : 598)
لفظِ استعانت بھی قرآنِ مجید میں طلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ دُعا سکھاتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے :
ايَّاکَ نَسْتَعِيْنُo
اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیںo
(فاتحه، 1 : 4)
عرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :
1۔ استغاثہ بالقول
2۔ استغاثہ بالعمل
مُشکل حالات میں گِھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب کرے تو اِسے اِستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے تو اِسے اِستغاثہ بالعمل کہیں گے۔
قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے :
وَ أَوْحَيْنَآ الٰی موسیٰ اذِ اسْتَسْقٰهُ قَوْمُه أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ.
اور ہم نے موسیٰ کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو۔
(الاعراف، 7 : 160)
اِسلام دینِ فطرت ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء کا دِین ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ شریعتِ مصطفوی سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا مددگارِ حقیقی کوئی نہیں، جبکہ اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ عمل شِرک ہوتا تو اِس مطالبۂ شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے شِرک کی تمام تر راہیں مسدُود کرنے کے لئے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورۃُ الصّدر آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ قومِ موسیٰ کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب میں ہی ہوں مگر اے موسیٰ علیک السلام! میں اِظہارِ معجزہ کے لئے اپنے اِختیارات تمہیں تفویض کرتا ہوں۔
مصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا استغاثہ بالعمل کہلاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب و مکرم انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنی قمیض بھائیوں کے ہاتھ والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف بغرضِ اِستغاثہ بھیجی اور فرمایا کہ اِس قمیض کو والد گرامی کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اِس واقعہ کا ذکر اَﷲ ربّ العزّت نے کلامِ مجید میں کچھ اِن الفاظ میں کیا ہے :
اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً.
میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے۔
(يوسف، 12 : 93)
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب وہ قمیض لے جا کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے مَس کی تو وہ فی الحقیقت مشیّتِ اَیزدی سے بینا ہو گئے۔ قرآنِ مجید میں ہے :
فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً.
پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔
(يوسف، 12 : 96)
اَﷲ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عملِ مبارک جس سے اُن کی بینائی لوٹ آئی، عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے اِستغاثہ ہے۔ یہ اِستغاثہ بالعمل کی بہترین قرآنی مثال ہے، جس میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حصولِ بینائی کا وسیلہ و ذرِیعہ بنی۔
اِستغاثہ اور توسل دونوں میں فی الحقیقت ایک ہی شئے مطلوب ہوتی ہے اور اِن کے مابین فرق محض فعل کی نسبت میں ہے۔ جب فعل کی نسبت مدد طلب کرنے والے کی طرف کی جائے تو اُس شخص کا یہ عمل اِستغاثہ کہلائے گا، اور مُستغاثِ مجازی (جس سے مدد طلب کی جا رہی ہے) بحیثیت ’’وسیلہ‘‘ و ’’ذریعہ‘‘ ہوگا، کیونکہ مستغاثِ حقیقی باری تعالیٰ ہے۔ پس حضرت یعقوب علیہ السلام کا عمل اِستغاثہ اور قمیض وسیلہ ہے۔ اِس کے برعکس جب براہِ راست اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے اُس سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے تواﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ سے بڑی چونکہ کوئی بارگاہ نہیں اِس لئے وہ وسیلہ کی بجائے حقیقی مستغاث قرار پاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مذکورہ قرآنی بیان میں اِستغاثہ بالعمل سنتِ اَنبیاء سے ثابت ہے۔ (عقیدۂ توسل پر سیر حاصل بحث کے مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔
دُکھ، درد اور تکلیف میں کسی سے مدد طلب کرنا اِستغاثہ کہلاتا ہے، جبکہ مطلقاً پُکارنا دُعا کہلاتا ہے، اِس میں دُکھ، درد، مصیبت اور تکلیف کی شرط نہیں۔ دُعا اور اِستغاثہ میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے، کیونکہ دُعا مطلق پکارنے کو کہتے ہیں جبکہ اِستغاثہ کے لئے شرط ہے کہ مصیبت یا تکلیف میں پکاراجائے، اِس لئے ہر اِستغاثہ تو دُعا ہے لیکن ہر دُعا اِستغاثہ نہیں ہے۔ اِستغاثہ اور دُعا میں یہی بنیادی فرق ہے۔
دعا، یدعو، دعوۃً کا معنی بلانا اور پکارنا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ’’دعا‘‘ کا مادہ متعدّد معانی میں اِستعمال ہوا ہے۔ ذیل میں دُعا کا قرآنی تصوّر واضح کرنے کے لئے اُن میں سے چند اہم معانی کا ذِکر کیا جا رہا ہے :
1. النِّدَآءُ
قرآنِ مجید میں لفظِ دُعا، نداء کے معنی میں عام اِستعمال ہوا ہے اور کبھی نداء اور دُعا باہم ایک دوسرے کی جگہ بھی اِستعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے :
وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ الَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً.
اور ان کافروں (کو ہدایت کی طرف بلانے) کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کسی ایسے (جانور) کو پکارے جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا۔
(البقره، 2 : 171)
2. التَّسْمِيَةُ
لُغتِ عرب میں بعض اَوقات لفظِ دُعا تسمیہ یعنی نام رکھنے یا پکارنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ مثال پیش فرماتے ہیں :
دَعوتُ ابْنی زَيداً.
میں نے اپنے بیٹے کا نام زید رکھا۔
(المفردات : 315)
اِسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم پر رَغبت دلاتے ہوئے فرمایا :
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً.
(النور، 24 : 63)
(اَے مسلمانو!) تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو (نام لے کر) بلانے کی مثل قرار نہ دو۔
اِس آیتِ کریمہ میں خود اﷲ تعالیٰ نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب بیان فرمایا ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی اُن کا اسمِ مبارک ’’محمد‘‘ کہہ کر نہ پکاریں بلکہ جب بھی بلانا مقصود ہو یا رسولَ اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اور یا حبیبَ اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم جیسے اَلقابات سے پکارا کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ربِّ کائنات ہونے کے باوجود پورے قرآنِ مجید میں کسی ایک مقام پر بھی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔
3. الِاسْتِغَاثَةُ
لفظِ ’’دُعا‘‘ قرآنِ مجید میں بعض مقامات پر سوال اور مدد طلب کرنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوا ہے، جیسا کہ اِرشادِ ربانی ہے :
وَ قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ.
اور اُنھوں نے کہا آپ ہمارے لئے اپنے ربّ سے دُعا کریں۔
(البقرة، 2 : 68)
4. الحَثُّ عَلَی الْقَصْدِ
لفظِ ’’دُعا ‘‘ کا اِستعمال بعض اَوقات کسی چیز کے قصد پر رغبت دِلانے اور اکسانے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس کی مثال یوں ہے :
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ الَيَ مِمَّا يَدْعُوْنَنِی الَيْهِ.
یوسف علیہ السلام نے(سب کی باتیں سن کر) عرض کیا اے میرے ربّ مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جسکی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔
(يوسف، 12 : 33)
مرغوب اشیاء کی طرف رغبت دِلانے کے معنی میںقرآنِ مجید میں لفظِ دُعا کا اِستعمال سورۂ یونس میں اِس طرح ہوا ہے :
وَ اﷲُ يَدْعُوْا الٰی دَارِالسَّلَامِ.
اور اللہ (لوگوں کو) سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے۔
(يونس، 10 : 25)
5. الطَّلَبُ
طلب کے معنی میںلفظِ دُعا کا اِستعمال لغتِ عرب میں بکثرت ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِس کی مثال یوں ہے :
وَ لَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَo
اور تمہارے لئے وہ سب کچھ بھی موجود ہے جو تم مانگو گےo
(حم السجدة، 41 : 31)
6. الدُّعَآءُ
لفظِ دُعا کبھی اﷲ ربّ العزت سے کی جانے والی دُعا کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اَفراد کی دُعا یوں مذکور ہے :
وَ آخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
اور اُن کی دُعا (اِن کلمات پر) ختم ہوگی کہ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے‘‘o
(يونس، 10 : 10)
7. العِبَادَة
اﷲ تعالیٰ کی عبادت کو بھی دُعا کہا جاتا ہے، جیسا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے :
الدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ.
دُعا عین عبادت ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173)
8. الخِطَابُ
لفظِ دُعا کی مذکورۃ الصدر اَقسام کے علاوہ کبھی اِسے مطلقاً خطاب کے لئے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے۔ غزوۂ اُحد کے موقع پر جب دورانِ جنگ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ منتشر ہوکر جنگ کرنے لگے اور صرف ایک مختصر جماعت تاجدارِ ختمِ نبوّت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گِرد رَہ گئی، تو اُس موقع پر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُور ہٹ کر بکھر گئے تھے، مالکِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اپنی طرف بلایا۔ محبوبِ کبریا کے اِس رحمت بھرے خطاب کو قرآنِ مجید نے یوں بیان کیاہے :
اذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْونَ عَلٰی أَحَدٍ وَ الرَّسُوْلُ يَدْعُوْکُمْ فِيْ أُخْٰرکُمْ.
جب تم (اَفراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے۔
(آل عمران، 3 : 153)
اِس آیۂ کریمہ میں مذکور لفظ ’’يَدْعُوْکُمْ‘‘ یعنی رسول تمہیں خطاب کر رہے تھے کا مطلب دُعائے عبادت ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قصرِ نبوت کے (معاذ اللہ) شرک کی آمیزشوں میں ملوّث ہونے کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔
قرآنِ مجید میں مستعمل اَقسامِ دُعا کے تفصیلی ذِکر کے بعد اَب ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کچھ لوگ اِستغاثہ و توسّل کو غیرشرعی ثابت کرنے کے لئے دُعا کی ایک خودساختہ تقسیم کرتے ہیں حالانکہ اُن کے پاس نفیءِ اِستغاثہ پر قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت بھی بطور دلیل موجود نہیں۔ اُن کے تمام مفروضات کی بنیاد عقلی مُوشگافیاں ہیں، جو بذاتِ خود عقلِ ناقص کی پیداوار ہیں۔ اِستغاثہ کو شِرک قرار دینے کے لئے پہلے اسے دُعا کا مفہوم پہنایا جاتا ہے اور پھر دُعا کی دو خود ساختہ قسمیں کر دی جاتی ہیں :
1۔ دُعائے عبادت
2۔ دُعائے سوال
دُعا کی پہلی قسم عبادت ہے اور اﷲ ربّ العزت کی تمام عبادات مختلف انداز رکھنے والی دعائیں ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَة.
دُعا عبادت کا نچوڑ (مغز ) ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 173)
جبکہ جامع ترمذی ہی میں مروی ایک اور حدیثِ مبارکہ میں دُعا کو عینِ عبادت قرار دیا گیا ہے :
أَلدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ.
دُعا عینِ عبادت ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173)
عبادت صرف اﷲ ربّ العزّت ہی کی رَوا ہے، لہٰذا اُن کا خیال ہے کہ اِس معنی کی رُو سے غیراﷲ سے کی جانے والی دُعا اُس کی عبادت قرار پانے کی وجہ سے شِرک کا موجب قرار پائی۔
کسی سے سوال کرنا، کسی کو مشکل کشا ماننا اور اُس کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا دُعائے سوال کہلاتا ہے۔
اِس مقام پر یہ اِعتراض کیا جاتا ہے کہ مشکل کشا چونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا سوال بھی فقط اُسی سے کیا جا سکتا ہے۔ سائل کا سوال چونکہ اپنی عبدیت کا اِعتراف ہوتا ہے، اِس لئے غیراللہ سے سوال کرنا اُس کا بندہ بننے کے مترادف ہے اور وہ شِرک ہے۔ اِس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سائل من دون اﷲ مشرک ہے۔
دُعا کی مذکورہ بالا تقسیم جواز و عدم جوازِ اِستغاثہ کے نقطۂ نظر سے اِستغاثہ کے عدم جواز کے قائل گروہ کے لئے بھی غیرضروری ہے، کیونکہ دُعائے عبادت اور دُعائے سوال کو ایک ہی مفہوم دے کر تقسیم کی اِفادیت ضائع کر دی گئی ہے، یوں دُعائے سوال کو بھی گویا دُعائے عبادت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ جب دُعائے عبادت غیراللہ کے لئے رَوا نہیں اور دُعائے سوال بھی غیراللہ سے کرنا شِرک ٹھہرا تو دُعا کی اِن دونوں قسموں میں فرق کیا رہا؟ دَرحقیقت اِس تقسیم کی قطعاًکوئی ضرورت نہ تھی۔ تقسیم کی اِفادیت تو تب ثابت ہوتی جب دونوں اَقسام پر مختلف نوعیت کے اَحکام مرتّب ہوتے۔ کسی بھی تقسیم کے تحت آنے والی اقسام اگر اپنا جدا جدا حکم نہ رکھیں تو ایسی تقسیم بے فائدہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اِس بات کو ہم ایک سادہ مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں :
مثال : سجدے کی دو اَقسام ہیں :
1۔ سجدۂ عبادت
2۔ سجدۂ تعظیم
سجدے کی اِن دو اقسام میں سجدۂ تعظیم، سجدۂ عبادت میں شامل نہیں ہوتا، اگر داخل کریں گے تو بُطلان لازِم آتا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں میں حکمی اِعتبار سے بھی بڑا فرق ہے۔ اگر کسی بندے کے سامنے عبادت کی نیّت سے سجدہ کیا جائے تو یہ اِرتِکابِ شِرک ہوگا اور اگر محض تعظیم کی خاطر سجدہ کیا جائے تو یہ شِرک قرار نہیں پائے گا بلکہ اِس فعل پر حرام کا حکم لگایا جائے گا۔
دُوسری مثال : اِسی طرح ایک اور مثال دیکھئے : کلمہ کی تین قسمیں ہیں۔ اِسم، فعل اور حرف۔ یہ تینوں آپس میں مغایر ہیں اور اِن کا آپس میں ضم کرنا کسی صور ت بھی درست نہیں ہوسکتا۔
اَب رہی یہ بات کہ لفظِ دُعا صرف دو معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے، تو یہ بھی ہرگز درست نہیں کیونکہ دُعا کے آٹھ معانی آپ سطورِ بالا میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔ اگر دُعا کا مقصد صرف عبادت لیا جائے اور دُعائے سوال کو بھی دُعائے عبادت میں داخل کر دیا جائے تو سارا معاشرہ شِرک کی دلدل میں دھنس جائے گا اور انبیائے کرام بھی معاذاﷲ اُس دلدل سے نہیں بچ سکیں گے۔ واضح رہے کہ دُعا (پکارنا) ہر جگہ عبادت کے معنی میں مستعمل نہیں، بصورت دیگر کسی کی عصمت شِرک کی آلائشوں سے محفوظ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ خود نصِ قرآنی اِس پر شاہد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی غیراللہ کو پکارا اور خود قرآن آپس میں ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکارنے کی اِجازت دے رہا ہے۔ اور اگر بفرضِ محال ہر جگہ دعا، یدعو، تدعو، ندعوا کا معنی صرف دُعائے عبادت یا دُعائے سوال (جو بعض حضرات کے ہاں عبادت ہی کی ایک ذیلی صورت ہے) ہی قرار دینے پر اِصرار کیا جائے تو مندرجہ ذیل چند آیات کی کیا توجیہہ پیش کی جائے گی :
1. يَا قَوْمِ مَا لِيْ أَدْعُوْکُمْ الَی النَّجَاةِ وَ تَدْعُوْنَنِيْ الَی النَّارِo
اے میری قوم یہ کیا ہے کہ میں تم کو (راہ) نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف دعوت دیتے ہوo
(مومن، 40 : 41)
2. قَالَ رَبِّ انِّيْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّ نَهَاراًo فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَآئِيْ الَّا فِرَاراًo
عرض کیا اے میرے رب! میں اپنی قوم کو رات دن ( دینِ حق کی طرف) بلاتا رہاo لیکن میرے بلانے سے وہ (دین سے) اور زیادہ بھاگنے لگےo
(نوح، 71 : 5، 6)
3. وَ اﷲُ يَدْعُوْ الٰی دَارِ السَّلٰمِ.
اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتاہے۔
(يونس، 10 : 25)
4. أُدْعُوْهُمْ لِأَبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ.
ان (متبنّی بیٹوں ) کو ان کے باپوں کی طرف (نسبت) کر کے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک درست بات ہے۔
(الاحزاب 33 : 5)
5. فَلْيَدْعُ نَادِيُهo سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَo
پس وہ اپنے ہم نشینوں کو (مدد کیلئے) بلالےo ہم بھی عنقریب (اپنے) سپاہیوں کو بلالیں گےo
(العلق، 96 : 17، 18)
6. فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ.
سو وہ انہیں بلائیں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے۔
(الکهف، 18 : 52)
7. يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسِمْ بِامَامِهِمْ.
جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔
(بنی اسرائيل، 17 : 71)
8. وَ انْ تَدْعُهُمْ الَی الْهُدٰی.
اور اگر آپ انھیں ہدایت کی طرف بلائیں۔
(الکهف، 18 : 57)
سورۂ فاتحہ میں جہاں اِسلام کے اور بہت سے عقائد و تعلیمات کے تصوّر کو واضح کیا گیا ہے وہاں تصوّرِ اِستغاثہ کو بھی بڑے دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اِرشادِ ربانی ہے :
ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِيْنُo
(الفاتحه، 1 : 4)
اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo
یہی آیت مبارکہ مسئلہ اِستعانت و اِستغاثہ کی بنیاد ہے جس میں عبادت اور اِستعانت کو یکے بعد دیگرے ذِکر کیا گیا ہے۔ آیتِ کریمہ کا پہلا حصہ ’’ايَاکَ نَعْبُدُ‘‘ اِسلام کے تصوّرِ عبادت پر مشتمل ہے اور دُوسرا حصہ ’’ايَاکَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ تصوّرِ اِستعانت کو واضح کرتا ہے۔ یہی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس کے سطحی مطالعہ سے حاصل ہونے والے باطل اِستنباط کے ذریعے کچھ لوگ جمیع امتِ مسلمہ پر شِرک کا فتویٰ لگانے کا آغاز کرتے ہیں۔
دراصل اِس آیت کے سطحی مطالعہ سے اُن کے ذِہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ آیت کے دونوں حصے ایک جیسے اَلفاظ پر مشتمل ہیں۔ پہلے حصے میں عبادت کا ذِکر ہے جو محض اﷲ ربّ العزّت کے لئے خاص ہے، تو دُوسرے حصے میں اِستعانت مذکور ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ کے استعمال کی وجہ سے ایک سے اَحکام کا حاصل ہونا ایک بدیہی سی بات ہے۔ یوں وہ لوگ اِس سطحی اِستدلال کے ذریعے یہاں دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اِستعانت و اِستغاثہ کو بھی عبادت کی طرح فقط اﷲ ربّ العزّت کے ساتھ مختص قرار دینے لگتے ہیں۔
اگر ہم بنظرِ غائر اِس آیتِ کریمہ کا مطالعہ کریں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ کا وُرود بجا مگر آیت کے دونوں حصوں کے درمیان حرفِ عطف واؤ کا پایا جانا بھی کسی حقیقت کا غماز ہے! اگر عبادت و اِستعانت کا حکم ایک ہی ہوتا تو اِن دونوں جملوں کے درمیان اﷲ تعالیٰ کبھی بھی ’’واؤ‘‘ کا اِضافہ نہ کرتا۔ اِس واؤ کے لانے سے ہی ما قبل اور ما بعد میں مغایرت ظاہر ہو رہی ہے۔ دو جملوں کے درمیان پائے جانے والے حرفِ مغایرت کی وجہ سے دونوں جملوں کے اَحکام جدا جدا ہوتے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ میں طلبِِ عون سے مراد عبادتِ خداوندی ہوتی تو قرآنِ مجید اُسے واؤ عاطفہ کے ذریعے ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ سے جدا نہ کرتا۔ حرفِ مغایرت واؤ کا اِستعمال یہ بتا رہا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ اگر عبادت و اِستعانت کے اَحکام ایک سے ہوتے تو اِن دونوں کے درمیان حرفِ مغایرت ’’واؤ عاطفہ‘‘ لانے کی ضرورت نہ ہوتی، بلکہ کلام یوں ہوتا : ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO‘‘۔
قرآنِ مجید جو خدائے ذوالجلال کا کلام ہونے کے ناطے اپنی جامعیت میں کسی بھی اِنسانی کاوِش سے بڑھ کر ہے اور اُس کا یہ اُسلوب ہے کہ اُس کا ہر حرف اپنا مخصوص معنی و مفہوم رکھتا ہے اور اُس کے کسی ایک حرف کو بھی غیرضروری قرار نہیں دِیا جا سکتا۔ اگر اِس مقام پر عبادت اور اِستعانت کے مابین مغایرت کا ذِکر مقصود نہ ہوتا تو حرفِ مغایرت ہرگز نہ لایا جاتا۔ قرآنِ مجید میں اِس کی تائید میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ اِسی طرح جہاں مغایرت مقصود نہ ہو وہاں مغایرت کے لئے واؤ نہیں لائی جاتی۔ عدمِ مغایرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ مغایرت کا عدم اِستعمال سورۂ فاتحہ ہی کی اِبتدائی تین آیات میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ ربّ العزّت کا اِرشادِ گرامی ہے :
أَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِo ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِينُo
(الفاتحه، 1 : -41)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روز جزا کا مالک ہےo (اے اﷲ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسلسل تین اِبتدائی آیات میں اِسمِ جلالت کے بعد پے در پے چار صفاتِ باری تعالیٰ کا ذِکر ہے اور اُن کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں بھی واؤ عاطفہ نہیں لائی گئی۔ جبکہ اگلی آیات میں جہاں مختلف اور متغایر اَعمال و اَفعال کا ذِکر مقصود تھا، وہاں مغایرت کے لئے واؤ عاطفہ لائی گئی۔ پس اِس سے پتہ چلا کہ دُعا اور اِستعانت و اِستغاثہ (مدد چاہنا) دو مختلف چیزیں ہیں اور اِن میں اِنضمام و اِختلاط کی کوشش مدّعائے نزولِ قرآن کی خلاف ورزی ہے جو ہرگز درست نہیں۔ عقلِ ناقص پر کلی اِنحصار گمراہیوں کو جنم دیتا ہے اور فلسفیانہ مُوشگافیوں میں اُلجھ کر رہ جانے والے حقیقت کی منزل سے بہت دُور رہ جاتے ہیں، دُوسروں کو بھی ذِہنی خلفشار کی دلدل کا رِزق بناتے ہیں اور اپنے ذِہن کو بھی غلط سوچوں کی آماجگاہ بنا کر شکوک و شبہات کے بے معنٰی جہان تخلیق کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved