گذشتہ صفحات میں ہم نے مرزا صاحب کے کفر و ارتداد کے چند نمونے پیش کیے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مرزا صاحب نے کس جسارت سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کے صریح احکام کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی اعلانیہ خلاف ورزی کی۔ حضور نبی اکر م ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہوئے خود نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآن و حدیث کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی توہین کے بھی مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ختم نبوت کے باب میں امت محمدیہ کے متفق علیہ عقیدہ کو مختلف تاویلات و تعبیرات کے ذریعے بگاڑنے کی کوشش کی۔ خود ساختہ نبوت کو سچا قرار دینے کے لفظ خاتم النبیین کو نئے معانی پہنائے۔ علاوہ ازیںشانِ الوہیت، شانِ رسالت مآب، شانِ انبیاء، شانِ صحابہ و اہلِ بیت، شانِ اولیاء و علماء میں طرح طرح کی گستاخیاں کیں۔ قرآن وحدیث اور مقاماتِ مقدسہ کی توہین کی، تمام اہلِ اسلام کو کافر کہا اور عمر بھر انہیں گالی گلوچ کرتے رہے۔ اسی طرح ہم نے مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کے چند حیرت انگیز گوشوں کو بھی بیان کیا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرزا صاحب کو ان کی اس دیدہ دلیری کے باوجود چھوڑ دیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں بلکہ اللہ عزوجل نے جزا و سزا کا ایک نظام مقرر فرما رکھا ہے۔ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اسے جزا دی جاتی ہے اور جو کوئی براعمل کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔ گو جزا و سز کا ایک دن مقرر ہے مگر کچھ انسانوں کو دنیا میں ہی ان کے اچھے یا برے عمل کا نتیجہ دکھا دیا جاتا ہے تاکہ نیکی کو فروغ ملے اور برائی کا خاتمہ ہو سکے۔ مرزا صاحب کا جرم اتنا گھناؤنا اور ناقابل معافی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کا عمل دنیا میں ہی شروع فرما دیا اور ان کے آخری لمحات کو دنیا کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔
قادیانیت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس گروہ پر سب سے بڑا عذاب اللہ تعالیٰ نے یہ نازل کیا ہے کہ اس کا ہر قابلِ ذکر فرد ایسی رسوا کن بیماری میں مبتلا ہو کر مرتا ہے جس میں ہر صاحب بصیرت کے لیے سامان عبرت موجود ہے۔
فَاعْتَبِرُوْا یٰـاُولِی الْاَبْصَارِ۔
اس کی ایک مثال فالج کی بیماری ہے جسے خود مرزا غلام احمد نے سخت بلا اور دکھ کی مار سے تعبیر کیا ہے۔ اس ابتلاء کو قادیانیوں سے مخصوص کر دیا گیا ہے اور اب تو یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس مذہب کا جو شخص فالج میں مبتلا ہو کر نہ مرے اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ قادیانی ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال قادیانی مذہب کے دوسرے خلیفہ مرزا محمود ہے جو دس سال تک فالج میں مبتلا رہ کر لقمۂ اجل بنا۔ خود مرزا غلام احمد قادیانی فالج میں تو نہیں لیکن اس سے بھی بدتر ہیضہ کی بیماری کا شکار ہو کر بہت بری موت سے مرے۔ مرزا صاحب کی جان کنی کا عالم دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر مرزا صاحب کے اندر اور کوئی اعتقادی اور اخلاقی برائی نہ بھی ہوتی تو بھی ان کی عبرتناک موت کا منظر انہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔
مرزا صاحب نے کہا:
’’اور جو شخص کہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ وہ نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام و کلام سے مشرف ہے، وہ بہت بری موت مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے۔‘‘
(1) اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، جلد: 28، نمبر: 50، ص: 1، مورخہ 2 مارچ 1940ء
اسی طرح مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو ایک خط میں لکھا:
’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں، جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت زیادہ عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دُشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام و ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب مفتری نہیں اور خدا کے مکالمے و مخاطبے سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو خدا کے فضل سے اُمید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کے ہاتھوں سے ہے، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔‘‘
مرزا صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب سے پہلے مر جانے اور اپنی دعا اور پیشین گوئی کے مطابق ہیضہ سے ہلاک ہونے کو واضح کرتے ہوئے مرزا کا سسر میر ناصر لکھتا ہے:
’’حضرت (مرزا) صاحب جس رات کو بیمار ہوئے، اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سویا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ جب میں حضرت (مرزا) صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مرزا صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے، اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی، یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔‘‘
شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی، حیات ناصر: 14
’’اگر آپ احمد (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) کی ڈائری کو (اخبار بدر) کے پرچوں سے ملاحظہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گہ کہ آپ کی موت ناگہانی ہوئی۔ آپ آخر دن تک اپنی معمولی صحت کی حالت میں رہے۔ اس شام سے پہلے جب آپ بیمار ہوئے، آپ سارا دن ایک رسالہ لکھنے میں مشغول رہے جس کا نام ’’پیغامِ صلح‘‘ ہے اور تاریخ مقرر کی گئی کہ اس پیغام کو ٹاؤن ہال میں ایک بڑے مجمع کے سامنے پڑھا جاوے اور اس دن کی شام کو حسبِ معمول سیر کے لیے باہر تشریف لے گئے اور کسی آدمی کو خبر نہ تھی کہ یہ آپ کا آخری سیر تھا۔ رات کو وہ ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوگئے اور صبح دس بجے کے قریب آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ کی وفات کی خبر احمدی جماعت کے لیے بالکل ناگہانی تھی چنانچہ جس جگہ خبر پہنچی لوگوں کو اس کی صداقت پر اعتبار نہ آیا۔‘‘
رسالہ ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ قادیان، ص: 231، نمبر: 6، ج: 13
’’وصال سے دو گھنٹہ قبل حضور بات نہ کر سکے تھے۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب معالج تھے۔ کاغذ قلم دوات منگا کر حضور نے لکھا خشکی بہت ہے بات نہیں کی جاتی۔ ایسے ہی کچھ اور بھی الفاظ تھے جو پڑھے نہ گئے۔‘‘
مضمون از محمد صادق قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ج: 25، نمبر: 274، مورخہ 24 نومبر 1937ء
’’برادران! جیسا کہ آپ سب صاحبان کو معلوم ہے کہ حضرت امامنا و مولانا مسیح موعود و مہدی موعود (مرزا قادیانی) علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسہال کی بیماری بہت دیر سے تھی اور جب آپ کوئی دماغی کام زور سے کرتے تھے تو بڑھ جاتی تھی۔ حضور کو یہ بیماری بسبب کھانا نہ ہضم ہونے کے تھی اور چونکہ دل سخت کمزور تھا اور نبض ساقط ہو جایا کرتی تھی۔ اس دفعہ لاہور کے قیام میں بھی حضور کو دو تین پہلے یہ حالت ہوئی لیکن 25 تاریخ مئی کی شام کو جب کہ آپ سارا دن ’’پیغامِ صلح‘‘ کا مضمون لکھنے کے بعد سیر کو تشریف لے گئے تو واپسی پر حضور کو پھر اس بیماری کا دورہ شروع ہوگیا اور وہی دوائی جو کہ پہلے مقوی معدہ استعمال فرماتے تھے، مجھے حکم بھیجا تو بنوا کر بھیج دی گئی مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور قریباً گیارہ بجے ایک اور دست آنے پر طبیعت از حد کمزور ہوگئی اور مجھے اور حضرت خلیفہ نور الدین صاحب کو طلب فرمایا۔ مقوی ادویہ دی گئیں اور اس خیال سے کہ دماغی کام کی وجہ سے یہ مرض شروع ہوئی، نیند آنے سے آرام آجائے گا۔ ہم واپس اپنی جگہ پر چلے گئے مگر تقریباً دو اور تین بجے کے درمیان ایک اور بڑا دست آگیا جس سے نبض بالکل بند ہوگئی اور مجھے اور حضرت مولانا خلیفۃ المسیح مولوی نور الدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو بلوایا اور برادرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی گھر سے طلب کیا اور جب وہ تشریف لائے تو مرزا یعقوب بیگ صاحب کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ مجھے سخت اسہال کا دورہ ہوگیا ہے۔ آپ کوئی دوا تجویز کریں۔ علاج شروع کیا گیا۔ چونکہ حالت نازک ہوگئی تھی اس لیے ہم پاس ہی ٹھہرے رہے اور علاج باقاعدہ ہوتا رہا مگر پھر نبض واپس نہ آئی۔ یہاں تک کہ سوا دس بجے 26 مئی 1908ء کو حضرت اقدس کی روح اپنے محبوب حقیقی سے جاملی۔‘‘
اعلان منجانب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ قادیانی، مندرجہ ضمیمہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان غیر معمولی، مورخہ 28 مئی 1928ء
’’خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالبًا ایک دو دفعہ رفعِ حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے فرمایا تم اب سو جاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانے نہ جاسکتے تھے۔ اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے‘‘ تو آپ نے کہا کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئیں تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشا ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہاں۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، حصہ اول: 11، روایت: 12
مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد کے مطابق 25 مئی رات گئے تک مرزا صاحب کی حالت بالکل ٹھیک تھی۔ رات کے پچھلے پہر خراب ہوگئی۔ جسم اس قدر کمزور ہو گیا تھا کہ جب آخری دست کیا تو پھر اُٹھا نہ گیا۔ زندگی کا آخری چکر آیا اور چکرا کے اپنی ہی غلاظت میں گر کر 26 مئی 1908ء بروز منگل بوقت ساڑھے دس بجے رات اپنے انجام کو پہنچے۔ ان کی لاش کو مال گاڑی میں رکھ کر قادیان روانہ کیا گیا۔ لاش والے تابوت اور اس میں پڑے ہوئے بھوسے کو بعد میں حکومت نے آگ لگا کر خاکستر کر دیا، تاکہ علاقے میں ہیضے کی وبانہ پھیل جائے۔
مرزا صاحب کا معمول تھا کہ وہ اپنے دشمنوں کے لیے ہیضہ کی بددعا کرتے تھے کیونکہ وہ اس مرض کو قہر الٰہی کا نشان جانتے تھے۔ بالآخر مرزا صاحب خود اپنی کذب بیانی اور دجل و فریب کے باعث اسی قہرِ الٰہی کا شکار ہوئے اور مہلک قسم کے وبائی ہیضہ سے دو چار ہو کر موت کے آہنی پنجوں میں چلے گئے۔ مرزا صاحب کی موت یقیناً ایک نشانِ عبرت ہے۔ قادیانی حضرات کو اس پر غور کرنا چاہیے اور آج سے ہی قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام کے دائرۂ رحمت و عافیت میں آ جانا چاہیے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved