مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٔ نبوت کے اسباب میں سے ایک اہم ترین سبب یہ بھی ہے کہ وہ مراق کے مریض تھے۔ اطباء کی تحقیق سے ثابت ہے کہ مراق کا مریض اس قسم کے دعوے کرتا رہتا ہے، حتی کہ وہ خدائی کا دعویٰ بھی کر دیتا ہے۔ ہم نے ذیل میں خود مرزا صاحب، اُن کی اہلیہ، صاحبزادے اور دیگر مریدین کی تحریروں اور بیانات سے ثابت کیا ہے کہ مرزا صاحب کو مراق کا مرض لاحق تھا اور پھر اِس مرض کے بارے میں چند ماہرینِ طب کی آراء بھی نقل کی ہیں:
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا، گھبراہٹ کا دورہ ہونا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیرہ ذلک۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 2: 55
2۔ ’’میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تاہم آج کل کی مصروفیت کا یہ حال ہے کہ رات کو مکان کے دروازے بند کرکے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کو کرتا رہتا ہوں حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور اس دوران سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے تاہم میں اس بات کی پروا نہیں کرتا اور اس کام کو کیے جاتا ہوں۔‘‘
1۔ بیان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘
قادیان، 5: 40
2۔ ملفوظات، 2: 376، مورخہ 30 اکتوبر 1901ء
’’سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا کہ حضور، غلام نبی کو مراق ہے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے اور مجھ کو بھی ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 304
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (یعنی والد صاحب) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ … بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہو گئی مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصے بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لیے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی… نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے؟ شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہو گئی ہے۔ میں پردہ گرا کر مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ میں جب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ خاکسار نے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے کہا: ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا اور اس حالت میں آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہو گئی۔ خاکسار نے پوچھا کہ اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہوا کرتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں مگر پھر دوروں کے بعد چھوڑ دی۔‘‘
مرزا بشیراحمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 13، روایت نمبر: 19
مرزا صاحب ان دوروں اور ان کے باعث فاسد خیالات کو نزولِ وحی اور نبوت سے تعبیر کرتے تھے۔
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کیے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا۔ اس لیے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداً دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برو اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 51، روایت نمبر: 81
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آ گئے پھر ان کے سامنے بھی حضرت مرزا صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چار پائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے مگر مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر۔ کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 22، روایت نمبر: 36
1۔ ’’دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر ہے۔ جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی یعنی مراق اور کثرتِ بول۔‘‘
قول مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ رسالہ تشحیذ الأذہان‘‘ قادیان
2۔ ’’مسیح موعود زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں ہوگی۔ سو میں نے کہا کہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔‘‘
مرزاغلام احمد قادیانی، تذکرۃ الشہادتین: 23۔ 24، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 46
3۔ ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی لکھتے ہیں:
’’حضرت اقدس کو چونکہ شب و روز دماغی محنت سے کام تھا اس لیے سالہا سال سے آپ اعصابی کمزوری کا نشانہ بن گئے تھے……حضرت اقدس کو یہ دورہ دو طریق پر ہوتا تھا۔ یا تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اس صورت میں دوران سر درد ہونے لگتا تھا یعنی چکر آتے تھے اور دل گھٹنے لگتا تھا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اور نبض بہت کمزور پڑ جاتی … اور یا نیچے کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور وہ اس طرح کہ دورہ کے وقت کبھی پیشاب کثرت سے آنے لگتا تھا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اسہال شروع ہو جاتے تھے۔ غرض یہ کہ حضرتِ اقدس کو دورہ کے وقت کبھی تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور کبھی نیچے کے دھڑ پر جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں اور یہ صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی کے مطابق تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے مسیح موعود کو کشفی طور پر دو زرد چادروں میں ملبوس دیکھنے کا ذکر ہے۔ علم تعبیر کی کتابوں میں زرد چادروں سے مراد بیماریاں ہوتی ہیں۔ پس یہی وہ مسیح موعود کی دو قسم کی بیماریاں تھیں جو آنحضرت ﷺ کو کشف میں دو زرد چادروں کی شکل میں دکھائی گئی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، حصہ دوئم رضی اللہ عنہ 8/1207، بار اول از
جون 1900 تا وفات (سوانح عمری مرزا قادیانی) ذی قعد ھ 1359ھ دسمبر 1940ء
1۔ علامہ برہان الدین نفیس مراق کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔ یہ مرض تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہوتا ہے پیدا ہوتا ہے اور جس عضو میں یہ مادہ جمع ہو جاتا ہے اس سے سیاہ بخارات اُٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔
’’اس کی علامات یہ ہیں: ترش دخانی ڈکاریں آنا، ضعف معدہ کی وجہ سے کھانے کی لذت کم معلوم ہونا، ہاضمہ خراب ہو جانا، پیٹ پھولنا، پاخانہ پتلا ہونا، دھویں جیسے بخارات چڑھتے ہوئے معلوم ہونا۔‘‘
برہان الدین نفیس، شرح اسباب و علامات
2۔ حکیم بو علی سینا مالیخولیا کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مالیخولیا اس مرض کو کہتے ہیں جس میں حالت طبعی کے خلاف خیالات و افکار متغیر بخوف و فساد ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب مزاج کا سودا دی ہو جانا ہوتا ہے۔ جس سے روح دماغی اندرونی طور پر متوحش ہوتی ہے اور مریض اس کی ظلمت سے پراگندہ خاطر ہو جاتا ہے یا پھر یہ مرض حرارتِ جگر کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہی چیز مراق ہوتی ہے۔ جب اس میں غذا کے فضلات اور آنتوں کے بخارات جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے اخلاط جل کر سودا کی صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ان اعضاء سے سیاہ بخارات اٹھ کر سر کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی کو نفخہ مراقیہ، مالیخولیائے نافخ اور مالیخولیائے مراقی کہتے ہیں۔‘‘
قانون شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا، فن اول از کتاب ثالث بحوالہ پروفیسر محمد الیاس برنی، قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ: 143، 144
ماہرین طب نے مراق کی جو علامات بیان کی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
’’یہ ایک قسم کا مالیخولیا ہے جس میں مریض کے افکار و خیالات حالت طبعی سے بدل جاتے ہیں اور بالعموم اس میں انانیت یعنی خودی اور تکبر اور تعلی یعنی اپنی بڑائی کے فاسد خیالات سما جاتے ہیں۔ پس وہ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، 2: 69، طبع نہم، 1368ء
’’اس مرض میں مریض کے دماغی حواس درست نہیں رہتے۔ ہر وقت سست متفکر اور خودی کے خیالات میں مست رہتا ہے۔‘‘
محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 139، طبع چہارم، 1959ء
1۔ مریض ہمیشہ سست و متفکر رہتا ہے۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک بات میں مبالغہ کرتا ہے … بھوک نہیں لگتی، کھانا ٹھیک طور پر ہضم نہیں ہوتا۔
حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، طبع دوم
2۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ذرا سی بات یا تکلیف بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر فضل کریمِ، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
’’اگر مریض دانشمند ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدائی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘
حکیم محمد اعظم خان، اکسیر اعظم: 190، مطبع لکھنو، طبع چہارم
’’اور کبھی بعض میں فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہو گئے اور کبھی بعض میں (فساد) اس سے بھی زیادہ حد تک پہنچ جاتا ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خدا ہیں۔‘‘
حکیم نفیس بن عوض، شرح الاسباب والعلامات، 1: 70، باب امراض الرأس، مطبع منشی نو لکشور لکھنو ربیع الثانی 1345ھ اکتوبر 1926ء
’’بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور اکثر ہونے والے اُمور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘
برھان الدین نفیس، شرح الاسباب و العلامات، 1: 69، مطبع لکھنو
1۔ مریض اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بادشاہ اور کبھی پیغمبر سمجھتا ہے۔
محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 134، طبع چہارم، 1959ء
2۔ کسی کو بادشاہ بننے اور ملک فتح کرنے کے خیالات ہو جاتے ہیں۔ بعض عالم اس مرض میں مبتلا ہوکر دعویٰ پیغمبری کرنے لگتے ہیں اور اپنے بعض اتفاقی صحیح واقعات کو معجزات قرار دینے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزنِ حکمت، 2: 1364، طبع نہم
اس بیماری میں مبتلا مریض کی عقل میں فتور آجاتا ہے وہ اپنے فضول اور بے بنیاد وہم کی وجہ سے خائف یا آمادۂ فساد رہتا ہے، بادشاہی یا ولایت یا پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔
حکیم حاجی مرزا محمد نذیر عرشی، کلید مطب: 139
خیالات خام ہوجاتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ، جرنیل قرار دیتا ہے۔ بعض پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور اپنے اتفاقیہ صحیح واقعات کو معجزات قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر فضل کریم، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لیے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘
مضمون ڈاکٹر شاہ نواز قادیانی، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ قادیان: 6، 7، بابت ماہ اگست 1926ء
ہم یہاں نامناسب خیال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مراق کے علاوہ دیگر بیماریوں کا ذکر نہ کیا جائے:
1۔ ’’حضرت اقدس نے اپنی بیماری دق کا بھی ذکر کیا ہے یہ بیماری آپ کو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی زندگی میں ہو گئی تھی اور آپ قریبًا چھ ماہ تک بیمار رہے۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کا علاج خود کرتے تھے اور آپ کو بکرے کے پائے کا شوربا کھلایا کرتے تھے۔ اس بیماری میں آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی۔‘‘
یعقوب علی صاحب قادیانی، حیات احمد، 2: 79
2۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحب نے ’’ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت (مرزا) صاحب کو سل ہوگئی … حتی کہ زندگی سے نا اُمید ہوگئی … والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے اپنے آپ کو بکرے کے پائے کا شوربہ کھلایا تھا۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 42، روایت: 66
1۔ ’’مخدومی مکرمی اخویم (مولوی نور الدین صاحب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ عاجز پیر کے دن 9 مارچ 1891ء کو مع اپنے عیال کے لدھیانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے۔ سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صور ت سے اس قدر تکلیف اٹھا نہیں سکتا کہ اس حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور میں آوے۔ طبیعت بیمار ہے لاچار ہوں۔ اس لیے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے۔ والسلام
خاکسار غلام احمد‘‘
مکتوبات أحمدیہ، جلد پنجم نمبر 2: 90
2۔ حضرت (مرزا) صاحب کی تمام تکالیف مثلًا دوران سر، درد سر، کمی خواب، تشنج دل، بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث تھا اور وہ عصبی کمزوری تھا۔
رسالہ، ’’ریویو‘‘ قادیان، بابت مئی 1937ء
1۔ ’’مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں کہ سردرد اور دوران سر اور دوران خون کم ہو کر ہاتھ پیر سرد ہو جانا۔ نبض کم ہو جانا اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریبًا تیس برس سے ہیں۔‘‘
’مرزا غلام احمد قادیانی، نسیمِ دعوت: 68، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 435
2۔ ’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں … ہمیشہ درد سر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے … وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی ضمیمہ أربعین نمبر 3۔ 4 ص: 4، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 470۔ 471
’’مکرمی اخویم سلمہ
میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔
خاکسار غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پھنی‘‘
مکتوبات احمدیہ، 5: 21، نمبر: 3
’’مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں مگر جس وقت پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہے تو مجھے نج ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی۔ ایسا ہی روٹی کے لیے جب کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کرکے جلد جلد چند لقمے کھا لیتا ہوں بظاہر تو میں روٹی کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے اور کیا کھاتا ہوں میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوا ہوتا ہے۔‘‘
1۔ بیان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان
جلد 5 نمبر 40، منقول از کتاب منظور الٰہی:349
2۔ ملفوظات، 2 :377، 376، طبع ربوہ
مرزا صاحب کی بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہم نے یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ایک ذکر کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved