اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاقادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ اس کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کے اندر سے روحِ محمد ﷺ نکالنا اور ان میں شعلہ جوالہ کی طرح گرم جذبہ جہاد کو سرد کرنا تھا۔ کیونکہ برصغیر پر انگریزوں کے مکمل تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قومِ رسول ہاشمی ﷺ کے اس جذبہ جہادنے کھڑی کی تھی۔ اس وجہ سے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز کی نظر میں سب سے بڑے باغی، غدار اور خطرناک لوگ علمائے کرام اور مشائخ عظام ہی تھے جو تحریک آزادی کے سرپرست اور طاغوتی عسکریت پسندوں کے خلاف مصروف عمل عوام کے لیے ایک زبردست محرک تھے، اس لیے انگریز کا سب سے زیادہ عتاب بھی اسی طبقے پر نازل ہوا، چنانچہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سکیم کے تحت مسلمانوں کے اندر ایک ایسے شخص کو کھڑا کرنے کا پروگرام بنایا گیا جو دین کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرے اور تاویلات کا سہارا لیتے ہوئے بالآخر دین کے بنیادی رکن جہاد کو حرام قرار دے دے۔ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں، سیاستدانوں، دانشوروں اور ارکان پارلیمان پرمشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد ہندوستان بھیجا گیا، اس وفد نے ہندوستان کے معاشی و معاشرتی اور سماجی حالات کا معروضی جائزہ لینے اور یہاں کے مسلم عوام کی نفسیات پر گہرے غور و خوض کے بعد ایک رپورٹ تیار کر کے حکومت برطانیہ کو پیش کی۔ یہ رپورٹ بعد میں ’’ہندوستان میں برطانوی ایمپائر کی آمد‘‘ (The Arrival of British Empire in India) کے نام سے شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کا متعلقہ اقتباس مع اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
"Majority of the population of the country blindly follow their "Peers", their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a "Zill-e-Nabi" (Apostolic Prophet) then the large number of people shall rally round him. But for their purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved, the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the government. We have already overpowered the native government mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors that.That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measure which might create internal unrest among the country."(1)
(1) Extract from the printed report, India Office Library, London.
’’ملک ہندوستان کی آبادی کی اکثریت اندھا دھند اپنے پیروں یعنی روحانی رہنماؤں کی پیروی کرتی ہے اگر اس مرحلہ میں ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے ظلی نبی (نبی کے حواری) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو جائے گی لیکن اس مقصد کے لیے مسلمان عوام سے کسی شخص کو ترغیب دینا بہت مشکل ہے اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو ایسے شخص کی نبوت کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی غداروں کی مدد حاصل کر کے ہندوستانی حکومتوں کو محکوم بنایا لیکن وہ مختلف مرحلہ تھا اس وقت فوجی نقطہ نظر سے غداروں کی ضرورت تھی لیکن اب جبکہ ہم نے ملک کے کونے کونے پر اقتدار جما لیا ہے اور ہر طرف امن و امان اور نظم و ضبط کا دور دورہ ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ملک میں داخلی بے چینی پیدا ہو سکے۔‘‘
رپورٹ میں پیش کردہ یہی وہ تجویز تھی جس کے تحت مسلمانوں میں کسی ایسے فرد کی تلاش شروع ہوئی جو سازشی سرغنہ بننے پر آمادہ ہو اور ظلی نبوت کا دعویٰ کرے پھر اپنی خودساختہ نبوت کی آڑ میں جہاد کو حرام قرار دے، یہ تلاش بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی اور نگاہ انتخاب مرزا غلام احمد قادیانی پر آ ٹھہری جس کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہا ان کا خاندان نسلی طورپرانگریزوں کا وفادار اور ہندوستان کا غدار رہا تھا جس کی شہادت پنجاب کے فنانشل کمشنر نے مرزا قادیانی کے باپ کے مرنے پر مرزاصاحب کے بڑے بھائی غلام قادر کے نام ایک تعزیتی خط میں اس طرح دی:
’’مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیرخواہ اور وفادار رئیس تھا آپ کے خاندان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آپ کی بھی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے وفادار باپ کی کی جاتی تھی، ہم کو اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔‘‘
المرقوم، 29 جنوری 1876، کتاب البریہ: 7
اس بات کو بعد میں مرزا قادیانی نے خود بھی تسلیم کر لیا کہ وہ واقعی انگریز ہی کے ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا تھا۔
مرزا صاحب کے والد غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں کے ساتھ سکھوں سے مل کر مجاہدین کے خلاف برسر پیکار رہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اس خاندان نے انگریز کا حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس کا اعتراف خود مرزا صاحب نے اس اشتہار میں کیا ہے:
’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے، میرا والد غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار خیرخواہ آدمی تھا جن کو دربارِ گورنری میں کرسی ملی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن کے تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکارِ انگریزی کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکارِ انگریزی کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیںحاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکا ر انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘
اشتہار واجب الاظہار منسلک کتاب البریہ:4، مندرجہ روحانی خزائن، 13: 4۔ 6
یہ خاندانی اطاعت مرزا غلام احمد کی گھٹی میں شامل تھی اور اس نے اپنی جان نثاریوں اور وفا شعاریوں کا تذکرہ جا بجا اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے یہ مرزا صاحب کی اطاعت شعاری کا منطقی نتیجہ انگریزی کی سماجی اور معاشرتی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دعویٰ نبوت اور تنسیخ جہاد کی صورت میں برآمد ہوا۔
1۔ ’’سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں، اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق و توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری و اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت و مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا۔‘‘
مجموعہ اشتہارات، 3: 21، مرزا قادیانی
2۔ ’’میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں اول درجے کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں خیر خواہی میں اول درجے میں بنا دیا ہے:
اول: والد مرحوم کے اثر نے
دوم: گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے
سوم: خدا تعالیٰ کے الہام نے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 309۔ 310
3۔ ’’مجھے حق ہے کہ میں دعویٰ کروں کہ انگریزوں کی خدمت میں منفرد ہوں۔ مجھے حق ہے کہ میں کہوں کہ انگریزوں کی تائیدات میں یکتا ہوں۔ مجھے حق ہے کہ میں کہوں کہ اس حکومت کے لیے تعویذ اور ایسا قلعہ ہوں جو اس کو آفات اور مصائب سے محفوظ رکھنے والا ہے۔ پس حقیقتاً اس حکومت کے پاس میرا کوئی ہمسر اور نصرت اور تائید میں میرا کوئی مثیل نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، رسالہ نور الحق: 34
انگریزی سرکار کی اطاعت و ہمدردی اور ممانعتِ جہاد کے باب میں مرزا صاحب نے جو کتابیں سپرد قلم کیں ان کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں:
’’پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا، تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد و تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا رہا ہوں۔ اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں ان سب میں سرکار انگریزی کی اطاعت و ہمدردی کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور جہاد کی ممانعت کے بارے میں نہایت موثر تقریریں لکھیں اور پھر میں نے قرین مصلحت سمجھ کر اسی امر ممانعت جہاد کو عام ملکوں میں پھیلانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے اور وہ تمام کتابیں عرب اور بلاد شام اور روم و مصر اور بغداد و افغانستان میں شائع کی گئیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی نہ کسی وقت ان کا اثر ہو گا۔ کیا اس قدر بڑی کارروائی اور اس قدر دور دراز مدت تک ایسے انسان سے ممکن ہے جو دل میں بغاوت کا ارادہ رکھتا ہو؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد و حفظِ امن اور جہادی خیالات کے روکنے کے لیے برابر سترہ سال تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے؟ اگر میں نے یہ اشاعت گورنمنٹ انگریزی کی سچی خیر خواہی سے نہیں کی تو مجھے ایسی کتابیں عرب اور بلاد شام اور روم وغیرہ بلاد اسلامیہ میں شائع کرنے سے کس انعام کی توقع تھی؟ یہ سلسلہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ برابر سترہ برس کا ہے اور اپنی کتابوں اور رسالوں کے جن مقامات میں، میں نے یہ تحریریں لکھی ہیں ان کتابوں کے نام مع ان کے نمبر صفحوں کے یہ ہیں جن میں سرکار انگریزی کی خیر خواہی اور اطاعت کا ذکر ہے:
نمبر | کتاب | تاریخ طبع | نمبر صفحہ |
1 | براہین احمدیہ، حصہ سوم | 1882ء | الف سے ب تک (شروع کتاب) |
2 | براہین احمدیہ، حصہ چہارم | 1884ء | الف تا د تک ایضاً |
3 | آریہ دھرم (نوٹس) دوبارہ توسیع دفعہ 298 | 22 ستمبر 1895ء | 57 سے 64 تک آخر کتاب |
4 | التماس شامل آریہ دھرم ایضاً | 22 ستمبر 1895ء | 1 سے 4 تک آخر کتاب |
5 | درخواست شامل آریہ دھرم ایضاً | 22 ستمبر 1895ء | 69 سے 72 تک آخر کتاب |
6 | خط دوبارہ توسیع دفعہ 298 | 21 اکتوبر1895ء | 1 سے 8 تک |
7 | آئینہ کمالات اسلام | فروری 1893ء | 17 سے 20تک اور 511 سے 528 تک |
8 | نورالحق حصہ اول (اعلان) | 1311ھ | 23 سے 54 تک |
9 | شہادۃ القرآن (گورنمنٹ کی توجہ کے لائق) | 22 ستمبر 1893ء | الف سے ع تک آخر کتاب |
10 | نورالحق حصہ دوم | 1311ھ | 49 سے 50 تک |
11 | سرالخلافہ | 1312ھ | 71 سے 73 تک |
12 | اتمام الحجہ | 1311ھ | 25 سے 27 تک |
13 | حمامۃ البشریٰ | 1311ھ | 39 سے 42 تک |
14 | تحفہ قیصریہ | 25 مئی 1897ء | تمام کتاب |
15 | ست بچپن | نومبر 1895ء | 153سے 154 تک اور ٹائٹل پیج |
16 | انجام آتھم | جنوری 1897ء | 283 سے 284 تک آخر کتاب |
17 | سراج منیر | مئی 1897ء | 74 |
18 | تکمیل تبلیغ معہ شرائط بیعت | 12 جنوری 1889ء | صفحہ 4 حاشیہ اور صفحہ 6 شرط چہارم |
19 | اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ اور عام اطلاع کے لیے | 27 فروری 1895ء | تمام اشتہار یکطرفہ |
20 | اشتہار دربارہ سفیر سلطان روم | 24 مئی1897ء | 1 سے 3 تک |
21 | اشتہار جلسہ احباب برجشن جوبلی بمقام قادیان | 23۔ 6۔ 1897 | 1 تا 4 |
22 | اشتہار جلسہ شکریہ جشن جوبلی حضرت قیصرہ دام ظلہا | 7 جون 1897ء | تمام اشتہار یک ورق |
23 | اشتہار متعلق بزرگ | 25 جون 1897ء | صفحہ 10 |
24 | اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ معہ ترجمہ انگریزی | 10 دسمبر 1894ء | تمام اشتہار 1 سے 7 تک |
(1) غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ: 7۔ 9، مندرجہ روحانی خزائن، 13: 7۔ 9
مرزا صاحب اپنے عقیدے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
1۔ ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل و کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل و روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں اور مہدی خوانی اور مسیح خوانی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 27، 28، مندرجہ روحانی خزائن، 15: 155، 156
2۔ ’’اور چونکہ میری زندگی فقیرانہ اور درویشانہ طور پر ہے اس لیے میں ایسے درویشانہ طرز سے گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور امداد میں مشغول رہا ہوں قریبا انیس برس سے ایسی کتابوں کے شائع کرنے میں میں نے اپنا وقت بسر کیا ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو سچے دل سے اس گورنمنٹ کی خدمت کرنی چاہئے اور اپنی فرمانبرداری اور وفاداری کو دوسری قوموں سے بڑھ کرد کھلانا چاہئے اور میں نے اس غرض بعض کتابیں عربی زبان میں لکھیں اور بعض فارسی زبان میں اور ان کو دور دور ملکوں تک شائع کیا اور ان سب میں مسلمانوں کو بار بار تاکید کی اور معقول وجوہ سے ان کو اس طرف جھکایا کہ وہ گورنمنٹ کی اطاعت بہ دل وجان اختیار کریں اور یہ کتابیں عرب اور بلاد شام اور کابل اور بخارا میں پہنچائی گئیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کشف الغطائ: 3، 4، مندرجہ روحانی خزائن، 14: 185
مرزا صاحب نے انگریز بہادر کی قصیدہ گوئی میں کس طرح زمین و آسمان کے قلابے ایک کر دیئے اس کی مثال درج ذیل تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے:
’’میں اس (اللہ تعالیٰ) کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی، جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت و وعظ کا ادا کر رہا ہوں اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے اختتام پذیر ہو سکتے اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔ اب میں حضورِ ملکہ معظمہ میں زیادہ مصدع اوقات ہونا نہیں چاہتا اور اس دعا پر عریضہ ختم کرتا ہوں کہ
اے قادر و کریم اپنے فضل و کریم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں و احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ہر ایک قدرت و طاقت تجھی کو ہے۔
آمین ثم آمین
الملتمس
خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان‘‘(1)
(1) غلام احمد قادیانی، تحفہ قیصریہ: 31، 32، مندرجہ روحانی خزائن، 12: 283، 284
خوشامد اور چاپلوسی کا ایک نادر نمونہ ہے جو انہوں نے ستارہ قیصریہ کے نام سے ملکہ وکٹوریہ کو تحریر کیا تھا، اسے پڑھئے اور موصوف کی موقع شناسی بلکہ موقع پرستی کی داد دیجئے۔ مرزا صاحب کو امتناع جہاد کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کا جواب ہمیں وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ کے نام قادیانی جماعت کے ترجمان اخبار ’’الفضل، قادیان ‘‘کے درج ذیل بیان سے مل جاتا ہے:
’’جس وقت آپ (مرزا غلام احمد) نے دعویٰ کیا اس وقت تمام عالمِ اسلام جہاد کے خیالات سے گونج رہا تھا اور عالم اسلامی کی ایسی حالت تھی وہ پٹرول کے پیپے کی طرح بھڑکنے کے لیے صرف ایک دیا سلائی کا محتاج تھا مگر بانی سلسلہ نے اس خیال کی تقویت اور خلاف اسلام اور خلاف امن ہونے کے خلاف اس قدر زور سے تحریک شروع کی کہ ابھی چند سال نہیں گزرے تھے کہ گورنمنٹ کو اپنے دل میں اقرار کرنا پڑا کہ وہ سلسلہ جسے وہ امن کے لیے خطرہ کا موجب خیال کر رہی تھی اس کے لیے غیر معمولی اعانت کا موجب تھا۔‘‘
اخبار الفضل، قادیان، مورخہ 4 جولائی 1921ء
1۔ ’’سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، شہادۃ القرآن: 84، مندرجہ روحانی خزائن، 6: 380
’’اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سایہ سے ہی پیدا ہوئی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 28
1۔ ’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام چلا رہا ہوں جو کسی اسلامی گورنمنٹ میں نہیں چلایا جا سکتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تحفہ قیصریہ: 27
2۔ ’’سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو، ذرا کسی اور سلطنت کے زیرسایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو۔‘‘
مجموعہ اشتہارات، 3: 584
مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے گن گاتے ہوئے اپنے قلبی جذبات کا یوں اظہار کیا:
’’میں بیس برس تک یہی تعلیمِ اطاعت گورنمنٹ انگریزی کی دیتا رہا اور اپنے مریدوں کو بھی یہی ہدایتیں جاری کرتا رہا تو کیونکر ممکن تھا کہ ان تمام ہدایتوں کے برخلاف کسی بغاوت کے منصوبے میں تعلیم کروں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے، یہ امن جو اس سلطنت کے زیر سایہ ہمیں حاصل رہا ہے نہ یہ امن مکہ مکرمہ میں مل سکتا ہے، نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت میں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 28، مندرجہ روحانی خزائن، 15: 156
1۔ ’’میں روح کے جوش سے اس بات میں مصروف ہوں کہ اس گورنمنٹ کے فوائد اور احسانات کو تمام لوگوں پر ظاہر کر دوں اور اس حکومت کی فرضیت کو دلوں میں جما دوں۔‘‘
تبلیغ رسالت، مولفہ میر قاسم علی قادیانی، 7: 10۔ 11
2۔ ’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں نہ مدینہ میں نہ روم و شام میں نہ ایران و کابل میں چلا سکتا ہوں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کی میں دعا کرتا ہوں۔‘‘
تبلیغ رسالت، مولفہ میر قاسم علی قادیانی، 6: 65
3۔ ’’برٹش گورنمنٹ فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اس کی ہستی احمدیت کی ہستی ہے۔‘‘
الفضل، 13 ستمبر 1914ء
1۔ ’’اب غور کا مقام ہے کہ پھر ہم احمدیوں کو اس (برطانوی تلوار) کی فتح سے کیوں خوشی نہ ہو؟ عراق و عرب ہو کہ شام و فلسطین (یعنی اسلامی مملکتیں) ہر جگہ اپنی (یعنی برطانیہ کی) تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
الفضل، 19 نومبر 1918ء
2۔ ’’برٹش گورنمنٹ کی خاطر جنگ نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ اسلامی ممالک پر برطانیہ کا قبضہ تحریک احمدیت کے پھیلانے کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘
الفضل، 27 مئی 1918ء
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی تحریروں میں کھلم کھلا جہاد جو اسلام کا مقدس دینی فریضہ ہے کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دیا حالانکہ اسلام کی حفاظت اور اعلائے کلمۃ اللہ کا موثر ترین ذریعہ جہاد ہے جوقرآن و حدیث سے قطعی طور پرثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّيْنُ للهِ۔
البقرہ، 2: 193
’’اور ان سے جنگ کرتے رہو حتیٰ کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملًا) اللہ ہی کے تابع ہو جائے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر فرمایا:
لن یبرح ھذا الدّین قائما یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ۔
مسلم، الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب قولہ لا تزال طائفۃ من أمتي ظاھرین علی الحق، 3: 1524، رقم: 1922
’’دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔‘‘
مرزا صاحب نے اس قولِ سدید کی تغلیط کی کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ اس تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’جنت سے مراد تلوار، بندوق کی جنگ نہیں کیونکہ یہ تو سراسر نادانی ہے۔ خلاف ہدایت قرآن ہے جو دین کے پھیلانے کے لیے جنگ کی جائے، اس جگہ جنگ سے ہماری مراد زبانی مباحثات ہیں جو نرمی اور انصاف اور معقولیت کی پابندی کے ساتھ کیے جائیں ورنہ ہم ان تمام مذہبی جنگوں کے سخت مخالفت ہیں جو جہاد کے طور پر تلوار سے کیے جاتے ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 2، مندرجہ روحانی خزائن، 15: 130
مرزا صاحب نے جہاد کو حرام قرار دیتے ہوئے بزبان شعر یوں کہا:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 42، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 77، 78
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزاقادیانی کے ذمے جو فرائض تفویض کیے گئے تھے وہ اس نے پوری جانفشانی، وفاداری اور کمال محنت سے ادا کیے جس کی تصدیق کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں خود ان کی اپنی تحریریں اس پر شاہد ہیں۔ اب ان ناقابل تردید تحریروں کی روشنی میں جب مسلمان مرزا قادیانی کو انگریز کا نمک خوار، وفادار اور ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور جہاد جیسے اسلامی فریضے کو حرام کہنے پر اسے زندیق و مرتد قرار دیتے ہیں تو قادیانی حضرات کو چیںبہ جبیں نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں حقیقت پسندی سے کام لے کر اپنے پیشوا کے اقبالی بیان کا سامنا کرنا چاہئے۔
مرزا صاحب کی حکومت برطانیہ کے لیے محبت و اطاعت سے ان کی جعلی نبوت کا فلسفہ بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں کسی مزید تفصیل اور وضاحت کی ضرورت نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved