مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی کثرت سے الہامات کے دعاوی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کتاب کا نفسِ مضمون اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ الہام ہی کسی مذہبی دعویٰ اور عقیدہ کی صحت اور صداقت کی سب سے زیادہ موثر دلیل ہوتی ہے۔ اس کتاب کے قاری کو کثرت سے الہامات و دعاوی ملیں گے۔
الہاماتِ مرزا کے باب میں دلچسپ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ انہیں یہ دعویٰ تو تھا کہ مجھے من جانب اللہ الہام ہوتے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو اپنے بعض الہام بتائے بھی مگر عجیب بات یہ ہے کہ انہیں اپنے الہاموں کے معنی بھی نہیں آتے تھے۔ قادیانیوں کے خودساختہ (self-styled) نبی کا یہ عجیب فلسفہ ہے کہ اس پر خدا کی طرف سے الہام آئیں اور ان کے معانی کا پتا بھی نہ چلے حالانکہ ایک نبی کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ جو وحی بھی من جانب اللہ نازل ہو اس کا معنی و مفہوم لوگوں کو بتائے جیسا کہ قرآن حکیم میں واضح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَيِّنَ لَھُمْ فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ يَّشَآء وَیَھْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo
ابراھیم، 14: 4
’’اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لیے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، اور وہ غالب حکمت والا ہےo‘‘
عجیب طرفہ تماشا ہے کہ قادیانیوں کے نبی کو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس پر اترے ہوئے الہام کا معنی و مفہوم کیا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ میں انگلش، عربی اور عبرانی زبانوں کے الہامات درج کر کے اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان کے معانی سے آشنا نہیں۔ یہ ہے مرزا صاحب کے اپنے الہاموں کے مفہوم سے ناآشنائی کا علم کہ کبھی ان کے معانی انگریزوں سے پوچھتے ہیں اور کبھی لغت کی کتابوں سے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ایک اور جگہ مرزا صاحب کہتے ہیں:
’’مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 57، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 435
ایک مقام پر وہ اپنے خدا (شیطان) سے جو اس پر الہام بھیجتا تھا شکوہ کناں ہو کر کہتا ہے:
’’اور یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمۂ معرفت: 209، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 218
ایک جگہ خود ہی تعجب کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 57، مندرجہ روحانی خزائن23: 218
شیطان کا بھی اپنے دوستوں کو اِلہام کرنا قرآن سے ثابت ہے
ایک الہام اور وحی تو وہ ہوتی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے برگزیدہ اور مقدس ہستیوں کے دل پر القا فرماتا ہے اور ایک الہام وہ ہوتا ہے جو شیطان اپنے متعلقین کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِنَّ الشَّیٰطِيْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَo
الأنعام، 6: 122
’’اور شیاطین (تو) اپنے ساتھیوں کے دلوں میں وحی کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کا کہنا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گےo‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰـطِيْنُo َتنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِيْمٍo یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُهُمْ کٰذِبُوْنَo
الشعراء، 26: 221-223
’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیںo وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پر اترا کرتے ہیںo جو سنی سنائی باتیں (ان کے کانوں میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیںo‘‘
مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
’’جس دل پر درحقیقت آفتاب وحی تجلی فرماتا ہے اس کے ساتھ ظن اور شک کی تاریکی ہرگز نہیں رہتی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 89، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 467
’’لیکن اگر کوئی کلام یقین کے مرتبے سے کمتر ہو تو وہ شیطانی کلام ہے نہ ربانی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 108، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 486
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم مرزاصاحب کے چند الہامات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں اور اس کا فیصلہ بھی قادیانیوں پرچھوڑتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ ان الہاموں میں کیا مقصدیت کارفرما ہے؟ اور ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور کون سے اخلاقی، روحانی، معاشرتی اور سماجی اُصول دیئے گئے ہیں؟ کیا ایسے بے مقصد لا یعنی، مبہم اور مہمل الہام من جانب اللہ ہوتے ہیں یا من جانب الشیطان؟
’’ایک فرشتہ کو میں نے بیس برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں اس نے کہا کہ ہاں میں درشنی ہوں۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات و مکاشفات مرزا:31
’’10 جنوری 1906ء ایک رؤیا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو آئے ہیں اور ایک کاغذ پیش کیا کہ اس پر دستخط کر دو میں نے کہا میں نہیں کرتا انہوں نے کہا کہ پبلک نے کر دیے ہیں میں نے کہا میں پبلک میں نہیں یا کہا کہ پبلک سے باہر ہوں۔ ایک اور بات بھی کہنے کو تھا کہ کیا خدا نے اس پر دستخط کر دیے ہیں مگر یہ بات نہیں کی تھی کہ بیداری ہو گئی۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، مکاشفات: 48
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 590
’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ یلاش خدا ہی کا نام ہے۔ یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک میں نے اس کو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا اس کے معنی میرے پر یہ کھولے گئے کہ یا لا شریک۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ، 110، روحانی خزائن، 17: 203
’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں یہ الہام ہوا ’’آئی لو یو‘‘ یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں پھر یہ الہام ہوا ’’آئی ایم ود یو‘‘ یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھر الہام ہوا ’’آئی شل ہیلپ یو‘‘ یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر الہام ہوا ’’آئی کین وہاٹ آئی ول ڈو‘‘ یعنی میں کر سکتا ہوں جو چاہوں گا۔ پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا ’’وی کین وہاٹ وی ول ڈو‘‘ یعنی ہم کر سکتے ہیں جو چاہیں گے اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے۔‘‘
براہین احمدیہ: 480، مندرجہ روحانی خزائن، حاشیہ در حاشیہ، 1: 571۔ 572
’’5 مئی 1906ء رؤیا۔ ایک شخص نے ایک دوائی کولا وائن کی ایک بوتل دی جو سرخ رنگ کی دوائی ہے اور بوتل بند کی ہوئی ہے اور اس پر رسیاں لپٹی ہوئی ہیں۔ ظاہر دیکھنے میں تو بوتل ہی نظر آتی ہے مگر جس نے دی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ یہ کتاب دیتا ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، مکاشفات: 52، تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا (طبع سوم): 612
’’پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ قیامت ہو گا بہت جلد آنے والا ہے اور اس کے لیے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لدھیانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہو گا اور وہ لڑکا اس زلزلہ کے لیے ایک نشان ہو گا۔ اس لیے اس کا نام بشیر الدولہ ہو گا، کیونکہ وہ ہماری ترقی سلسلہ کے لیے بشارت دے گا۔ اسی طرح اس کا نام عالم کباب ہو گا کیونکہ اگر لوگ توبہ نہیں کریں گے تو بڑی بڑی آفتیں دنیا میں آئیں گی۔ ایسا ہی اس کا نام کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز ہو گا۔ کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہو گا جو وقت پر ظاہر ہو گا اور اس کے لیے اور نام بھی ہوں گے مگر بعد اس کے میں نے دعا کی کہ اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے۔ اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا… یعنی خدا نے دعا قبول کر کے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے، اور یہ وحی الٰہی قریباً چار ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور چونکہ زلزلہ نمونہ قیامت آنے میں تاخیر ہو گئی۔ اس لیے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی لهٰذا پیر منظور محمد کے گھر میں 17 جولائی 1906ء میں بروز سہ شنبہ لڑکی پیدا ہوئی… مگر یہ ضرور ہو گا کہ (کم) درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونہ قیامت زلزلہ سے رکی رہے۔ جب تک کہ وہ موعود لڑکا پیدا ہو۔ یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پیدا کر کے آئندہ بلا یعنی زلزلہ نمونہ قیامت کی نسبت تسلی دے دی… اور اگر ابھی لڑکا پیدا ہو جاتا تو ہر ایک زلزلہ اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ دامن گیر ہوتا کہ شاید وہ وقت آ گیا اور تاخیر کچھ اعتبار نہ ہوتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 100، مندرجہ روحانی خزائن، حاشیہ، 22: 103
’’اشتہار دہم جولائی 1887ء کی پیش گوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے… ’’اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔ 28، 27، 14، 2، 27، 2، 26، 2، 28، 1، 23، 15، 11، 1، 2، 27، 14، 10، 1، 28، 27، 47، 16، 11، 34، 14، 11، 17، 1، 5، 34، 23، 34، 11، 14، 7، 23، 14، 1، 1، 14، 5، 28، 7، 34، 1، 7، 34، 11، 16، 1، 14، 7، 2، 1، 7، 5، 1، 14، 1، 14، 2، 28، 1، 7، والسلام علی من فہم اسرارنا وتبع الہدی الناصح المشفق خاکسار غلام احمد قادیانی 27 دسمبر 1891ء۔‘‘
1۔ مجموعہ اشتہارات، 1: 301
2۔ اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت، 2: 5، مولفہ میر قاسم علی
’’رؤیا۔ مرزا صاحب نے فرمایا: ہم ایک جگہ جا رہے ہیں ایک ہاتھی دیکھا اس سے بھاگے اور ایک اور کوچہ میں چلے گئے۔ لوگ بھی بھاگے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ہاتھی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کسی اور کوچہ میں چلا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک نہیں آیا۔
’’پھر نظارہ بدل گیا، گویا گھر میں بیٹھے ہیں۔ قلم پر میں نے دو نوک لگائے ہیں جو ولایت سے آئے ہیں، پھر میں کہتا ہوں یہ بھی نامرد ہی نکلا۔ اس کے بعد الہام ہوا ان اللہ عزیز ذو انتقام۔‘‘
تذکرہ یعنی وحی مقدس، مجموعہ الہامات مرزا (طبع اول): 470، (طبع سوم): 504
’’مجھے 21 رمضان المبارک 1316ھ جمعہ کی رات کو جس میں انتشار روحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا اور میرا خیال تھا کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہ برس رہا تھا۔ ایک رؤیا ہوا یہ رؤیا ان کے لیے ہے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کسی نے مجھ سے درخواست کی ہے۔ اگر تیرا خدا قادر خدا ہے تو اس سے درخواست کر کہ یہ پتھر جو تیرے سر پر ہے بھینس بن جائے۔ تب میں نے دیکھا کہ ایک وزنی پتھر میرے سر پر ہے جس کو کبھی میں پتھر اور کبھی لکڑی خیال کرتا ہوں۔ تب میں نے یہ معلوم کرتے ہی اس پتھر کو زمین پر پھینک دیا، پھر بعد اس کے میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ اس پتھر کو بھینس بنا دیا جائے اور میں اس دعا میں محو ہو گیا۔ جب بعد اس کے میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر بھینس بن گیا ہے۔ سب سے پہلے میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی اس کی بڑی روشن اور لمبی آنکھیں تھیں تب میں یہ دیکھ کر کہ خدا نے پتھر کو جس کی آنکھیں نہیں تھیں ایسی خوبصورت بھینس بنا دیا۔ جس کی ایسی لمبی اور روشن آنکھیں ہیں اور خوبصورت اور مفید جاندار ہے۔ خدا کی قدرت کو یاد کر کے وجد میں آ گیا اور بلاتوقف سجدہ میں گرا۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ المہدی: 10، مندرجہ روحانی خزائن،
14: 443، 444
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 328
’’دیکھا کہ میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں۔ نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے و گاڑیوں و رتھوں وغیرہ کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیا ہے۔ میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے تو میں نے بلند آواز سے کہا: کلا ان معی ربی سیہدین اتنے میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے۔‘‘
تذکرہ یعنی وحی مقدس، مجموعہ الہامات مرزا(طبع اول): 429، (طبع سوم): 454
’’میں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے اور گویا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے، وہ اس پر حملہ کرتی ہے بار بار ہٹانے سے باز نہیں آتی تو آخر میں نے اس کا ناک کاٹ دیا ہے اور خون بہہ رہا ہے، پھر بھی باز نہ آئی تو میں نے اسے گردن سے پکڑ کر اس کا منہ زمین سے رگڑنا شروع کیا۔ بار بار رگڑتا تھا لیکن پھر بھی سر اٹھاتی جاتی تھی تو آخر میں نے کہا کہ آؤ اسے پھانسی دے دیں۔‘‘
1۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا (طبع سوم): 483
2۔ مکاشفات: 33، مولفہ بابو منظور الٰہی قادیانی
’’رؤیا دیکھا کہ گویا حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند سلمہا اللہ تعالیٰ ہمارے گھر میں رونق افروز ہوئی میں اسی اثنا میں، میں نے مولوی عبد الکریم صاحب کو جو میرے پاس بیٹھے ہیں کہا کہ حضرت ملکہ معظمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ ہوئی ہیں اور دو روز قیام فرمایا ہے ان کا کوئی شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے۔‘‘
1۔ مکاشفات: 17، مولفہ بابو منظور الٰہی قادیانی
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا قادیانی: 337
’’ہندوؤں کے بارے میں فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمگیر طوفان وبا (طاعون) میں یہ ہندوؤں کی قوم بھی اسلام کی طرف توجہ کرے گی، چنانچہ جب ہم نے باہر مکان بنوانے کی تجویز کی تھی تو ایک ہندو نے ہم کو آ کر کہا تھا کہ ہم تو اپنی قوم سے علیحدہ ہو کر آپ ہی کے پاس باہر رہا کریں گے، اسی طرح دو دفعہ ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے سامنے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور پھر ہمارے سامنے نذریں رکھتے ہیں پھر ایک دفعہ الہام ہوا ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما و تیری استتی گیتا میں موجود ہے لفظ رودر کے معنی نذیر اور گوپال کے معنی بشیر کے ہیں۔‘‘
ملفوظات، 3: 270۔ 271، 4: 143، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی
’’(غالباً) نومبر 1906ء میں رؤیا دیکھا کہ میں گھوڑے پر سوار ہوں اور کسی طرف جا رہا ہوں اور جاتے ہوئے آگے بالکل تاریکی ہو گئی تو میں واپس آ گیا اور میرے ساتھ کچھ عورتیں بھی ہیں، واپس آتے ہوئے بھی گرد و غبار کے سبب بہت تاریکی ہو گئی اور گھوڑے کی باگ کو میں نے ٹٹول کر ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے۔ چند قدم چل کر روشنی ہو گئی۔ آگے دیکھا کہ ایک بڑا چبوترہ ہے اس پر اتر پڑا وہاں چند ایک لڑکے ہیں، انہوں نے شور مچایا کہ مولوی عبد الکریم آ گئے پھر میں نے دیکھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب آرہے ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے مصافحہ اور السلام علیکم کہا۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ایک چیز نکال کر مجھے بطور تحفہ دی اور کہا بشپ جو پادریوں کا افسر ہے وہ بھی اسی سے کام چلاتا ہے، وہ چیز اس طرح سے ہے جیسے کہ خوگوش ہوتا ہے۔ بادامی رنگ، اس کے آگے ایک بڑی نالی لگی ہوئی ہے اور نالی کے آگے ایک قلم لگا ہوا ہے۔ اس نالی کے اندر ہوا بھری جاتی ہے۔ جس سے قلم بغیر محنت باآسانی چلنے لگتا ہے۔ میں نے کہا میں نے تو یہ قلم نہیں منگوایا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب نے منگوایا ہو گا۔ میں نے کہا کہ اچھا میں مولوی صاحب کو دے دوں گا۔ اس کے بعد بیداری ہو گئی۔‘‘
1۔ تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا (طبع چہارم): 680۔ 681
2۔ اخبار، الفضل، قادیان، 16: 10، نمبر21، مورخہ 11 ستمبر 1928ء
’’فرمایا: میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ آ گیا ہے۔ وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے۔ اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بو علی سینا کے وقت میں تھا۔ ان کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے۔ بو علی سینا بھی میرے پاس ہی کھڑا ہے اور اس تیر کمان سے ایک شیر کو بھی شکار کیا۔‘‘
تذکرہ یعنی وحی مقدس، مجموعہ الہامات مرزا (طبع اول)، 1: 429، (طبع سوم):454
’’ہفتہ مختتمہ 24 فروری 1905ء میں حالت کشفی میں جبکہ حضور (مرزا قادیانی ) کی طبیعت ناساز تھی۔ ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا ہوا تھا ’’خاکسار پیپرمنٹ۔‘‘
1۔ اخبار، الحکم قادیان، 24 فروری 1905ء
2۔ مجموعہ مکاشفاتِ مرزا: 38، مولفہ منظور الٰہی قادیانی
3۔ تذکرہ (طبع سوم): 257
’’نشان (نبوت) ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایک دم قرار نہ تھا۔ کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاج دنداں اخراج دنداں۔ اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا تب اس وقت مجھے غنودگی آ گئی اور میں زمین پر بے تابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی تھی۔ میں نے بے تابی کی حالت میں اس چارپائی کی پائنتی پر اپنا سر رکھ دیا تھا اور تھوڑی سی نیند آ گئی۔ جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا۔ واذا مرضت فہو یشفین۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقت الوحی: 235، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 246۔ 247
’’ایک دفعہ جب میں گورداسپور میں ایک فوجداری کے مقدمہ کی وجہ سے جو کرم دین جہلمی نے میرے پر دائر کیا تھا موجود تھا مجھے الہام ہوا یسئلونک عن شانک قل اللہ ثم ذرہم فی خوضہم یلعبون یعنی تیری شان کے بارے میں پوچھیں گے کہ تیری کیا شان اور کیا مرتبہ ہے۔ کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے پھر ان کو اپنی لہو و لعب میں چھوڑ دے سو میں نے یہ الہام اپنی اس جماعت کو جو گورداسپور میں میرے ہمراہ تھی جو چالیس آدمی سے کم نہیں ہوں گے سنا دیا… پھر بعد اس کے جب ہم کچہری میں گئے تو فریق ثانی کے وکیل نے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ ایسا ہے جیسا کہ تریاق القلوب کتاب میں لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے اسی نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے۔ تب وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کے وقت ہوا تھا۔ قریباً عصر کے وقت پورا ہو گیا اور ہماری تمام جماعت کے زیادت ایمان کا موجب ہوا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 266، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 277۔ 278
میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
I love you.
میں تمہارے ساتھ ہوں۔
I am with you.
ہاں میں خوش ہوں۔
Yes, I am happy.
زندگی دکھ ہے۔
Life is pain.
میں تمہاری مدد کروں گا۔
I shall help you.
ہم کر سکتے ہیں جو چاہیں گے۔
We can, what will do.
خدا تمہاری طرف ایک لشکر کے ساتھ چلا آتا ہے۔
God is coming by His army.
وہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے تمہارے ساتھ ہے۔
He is with you to kill enemy.
وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔
The days shall come when God shall help you.
خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔
Glory be to the Lord. God maker of earth and heaven.(1)
تمہیں امرتسر جانا پڑے گا۔
You have to go to Amritsar.(2)
وہ ضلع پشاور میں ٹھہرتا ہے۔
He halts in the Zila Peshawar.(3)
ایک کلام اور دو لڑکیاں
Word and two girls.(4)
معقول آدمی۔
Fair man.(5)
(1) 1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 303، مندرجہ روحانی
خزائن، 22: 316، 317
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 64، 65
(2) البشریٰ، مجموعہ الہامات مرزا، 2: 3
(3) البشری، مجموعہ الہامات مرزا، 2: 4
(4) البشریٰ، مجموعہ الہامات مرزا، 2: 106
(5) البشریٰ، مجموعہ الہامات مرزا، 2: 84
Though all men should be angry, but God is with you. He shall help you, words of God can not exchange.(3)
(3) غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، حاشیہ در حاشیہ نمبر3: 554، مندرجہ روحانی خزائن، 1: 661
’’اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے مگر خدا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہاری مدد کرے گا خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔‘‘
’’اس کے بعد دو فقرے انگریزی ہیں جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں:
I shall give you a large party of Islam.
’’چونکہ اس وقت آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خواں نہیں اور نہ اس کے پورے معنی کھلے ہیں اس لیے بغیر معنوں کے لکھا گیا۔‘‘(4)
(4) غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، حاشیہ در حاشیہ نمبر2: 556، مندرجہ روحانی خزائن، 1: 664
مرزا پر عربی میں ہونے والے الہام کچھ یوں ہیں:
1۔ شانک عجیب و اجرک قریب۔
1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 75، مندرجہ روحانی خزائن،
22: 78
2۔ براہین احمدیہ (طبع دوم)، 2: 516
’’تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے۔‘‘
2۔ الارض والسماء معک کما ھو معی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 75، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 78
’’آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔‘‘
3۔ انت منی بمنزلہ توحیدی و تفریدی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 89
’’تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔‘‘
4۔ انت منی بمنزلہ عرشی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 89
’’تو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔‘‘
5۔ انت منی بمنزلہ ولدی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 89
’’تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
6۔ بشری لک یا احمدی انت مرادی و معی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 79، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 82
’’تجھے بشارت ہو، اے میرے احمد (اے غلام احمد) تو میری مراد اور میرے ساتھ ہے۔‘‘
7۔ انی حمی الرحمن۔
’’میں خدا کی چراگاہ ہوں۔‘‘
8۔ ربنا عاج۔
1۔ غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ: 556، روحانی خزائن، 1:
663
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 105
’’ہمارا رب عاجی ہے (اس کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے)۔‘‘
’’پھر اس کے بعد فرمایا: ھو شَعْنَا، نَعِسَا یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔ اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، حصہ چہارم: 556
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 106
قابل غور بات یہ ہے کہ مرزا صاحب کو معنی معلوم ہونا تو درکنار انہیں یقین سے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ الہام کس زبان میں ہوا ہے، اندازے سے کہتے ہیں کہ شاید عبرانی ہو۔
دوسرا الہام یہ ہے:
ایلی ایلی لما سبقتنی۔
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 4: 555، حاشیہ در حاشیہ نمبر 4
’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘
مرزا نے اپنا ایک الہام یہ بیان کیا کہ کشفی طور پر ایک مرتبہ ایک شخص دکھایا گیا اور مجھے مخاطب کر کے بولا:
’’ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما ہو تیری استتی گیتا میں موجود ہے۔‘‘
ملفوظات احمدیہ، 4: 142، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی
پریشن، عمر براطوس، یاپلاطوس۔
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 119۔ 120
مرزا صاحب کے الہامات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اولاً تاریخ انبیاء سے یہ بات ظاہر ہے اور خود قرآن حکیم اس پر شاہد عادل ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا روزِ آفرینش سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے ہر نبی پر اس کی قوم کی زبان میں وحی نازل فرماتا رہا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَيِّنَ لَھُمْ ط فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ يَّشَآء وَیَھْدِيْ مَنْ يَّشَآ۔
ابراہیم، 14: 4
’’اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لیے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے۔‘‘
ثانیاً: یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مرزا صاحب کے لیے جو پنجابی نژاد تھے یہ عادت کیوں بدل ڈالی اور ان کی قوم کے لیے جن میں عربی سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل بلکہ آٹے میں نمک کے برابر تھی عربی میں الہامات نازل ہوتے رہے۔ اس کی توجیہہ جو مرزا صاحب نے فرمائی اس سے خود ان کی تضاد بیانی ظاہر ہوتی ہے، فرماتے ہیں:
’’یہی ایک زبان ہے جو پاک اور کامل اور علوم عالیہ کا ذخیرہ اپنے مفردات میں رکھتی ہے اور دوسری زبانیں ایک کثافت اور تاریکی کے گڑھے میں پڑی ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ اس قابل ہرگز نہیں ہو سکتیں کہ خدا تعالیٰ کا کامل اور محیط کلام ان میں نازل ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آریہ دھرم، حاشیہ: 8، مندرجہ روحانی خزائن، 10: 8
اس پر طرّہ یہ اسی خدا نے دیگر زبانوں میں باوجود ان کی کثافت و تاریکی کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں الہامات نازل کردیئے۔ ثالثاً: مرزا صاحب کو ہمہ دانی کے باوصف کون سی ایسی مجبوری لاحق ہو گئی کہ وہ اس زبان کو جو ان کے نزدیک کامل اور پاک تھی چھوڑ کر دوسری کثیف اور ناپاک زبانوں میں پوری بہتر (72) کتابیں تصنیف کر ڈالیں اور بے شمار اشعار اردو اور فارسی میں کہہ ڈالے اور مدت العمر پنجابی زبان میں گفتگو فرماتے رہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ کے الہامات میں جگہ جگہ قرآنی آیات کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آیات دوبارہ کیوں اتریں؟ کیا وہ قرآن سے ناپید ہو چکی تھیں؟یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عربی ذخیرئہ الفاظ ختم ہو چکا تھا؟ اس کے جواب میں ہم العجب ثم العجب کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔
یہ الہامات جن سے مرزا صاحب کی مذکورہ کتب بھری پڑی ہیں اس قدر مہمل، بے ربط اور بے سروپا ہیں کہ ان سے موصوف کے ما فی الضمیرکے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا اور وہ ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے ربط جملے کسی عام پڑھے لکھے انسان کے شایان شان نہیں چہ جائیکہ ان بے معنی باتوں کو قدرت کا الہام کہا جائے اور ایساکہنے والے شخص کو نبی مان لیا جائے۔ ہمیں مرزا صاحب کے مبلغ علم و عرفان پر تو افسوس ہوتا ہی ہے ان سے زیادہ قابلِ افسوس بلکہ قابلِ رحم لوگ تو وہ ہیں جو ان کے پیرو اور متبعین کہلاتے ہیں حالانکہ اکثر قادیانی حضرات پڑھے لکھے بھی ہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ایمان کا تعلق علم و فکر سے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و توفیق کے ساتھ ہوتا ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤتِيْهِ مَنْ يَّشَآء (1) (یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔
(1) المائدۃ، 5: 54
مرزا صاحب نے حین حیات متعدد پیشین گوئیاں کیں اور انہیں قطعیت کے ساتھ اپنے کذب و صدق کے پرکھنے کا پیمانہ اور دلیل کے طور پر پیش کیا۔ ان کے اس دعویٰ کا ذکر اس اشتہار میں ہے جس میں وہ اپنی ایک پیشین گوئی کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محکِ امتحان نہیں ہو سکتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالاتِ اسلام: 288، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 288
قادیانی حضرات یہ اعلان بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے جو پیشین گوئیاں کیں وہ سچی ثابت ہوئیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ دو چار پیشین گوئیاں اور الہام اگر سچے بھی ہوں تو اس میں مرزا صاحب کا کیا کمال؟ کیونکہ وہ خود کہتے ہیں:
’’بلکہ بعض فاسقوں اور غایت درجہ کے بدکاروں کو بھی خوابیں آجاتی ہیں اور بعض پرلے درجے کے بدمعاش اور شریر آدمی اپنے ایسے مکاشفات بیان کیا کرتے ہیں کہ آخر وہ سچے نکلتے ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، توضیح المرام: 84، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 95
’’بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہے جس کی تمام جوانی بدکاری میں ہی گزری ہے کبھی سچی خواب دیکھ لیتی ہے اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت کبھی ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بسر و آشنا ببر کا مصداق ہوتی ہے کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ سچی نکلتی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، توضیح المرام: 84، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 95
مرزا صاحب کو اپنی پیشین گوئیوں کے سچا ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ بڑے وثوق سے کہتے ہیں:
’’اگر ثابت ہو کہ میری 100 پیشن گوئیوں میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین نمبر 4: 25، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 461
’’خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب۔ سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعویٰ میں کاذب ہو اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 322، 323، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 322، 323
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 222، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 1231
’’محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اور جھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ: 20، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 20، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
’’غلط بیانی اور بہتان طرازی راست بازوں کا کام نہیں بلکہ نہایت شریر اور بدذات آدمیوں کا کام ہے۔‘‘
آریہ دھرم: 13، مندرجہ روحانی خزائن، 10: 13
اب ہم ذیل میں اختصاراً بطور ثبوت مرزا کی پیشین گوئیوں میں سے چند ایک نقل کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ مرزا صاحب اپنے وضع کردہ پیمانہ کے مطابق بھی کذاب اور جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
8 اپریل 1886ء میں مرزا صاحب نے اپنی بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہونے کی پیشین گوئی کی جو جھوٹی ثابت ہوئی۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’آج آٹھ اپریل 1886ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے۔ جو ایک حمل مدت سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے۔‘‘
اشتہار از مرزا غلام احمد قادیانی، مورخہ 8 اپریل 1886ء، مجموعہ اشتہارات، 1: 116، 117، مندرجہ تبلیغ رسالت، 1: 75، 76، مولفہ میر قاسم علی
حقیقت یہ ہے کہ اس پیشین گوئی کے نتیجے میں لڑکی پیدا ہوئی۔
’’ایک صاحب ملازم ایگزامینر دفتر ریلوے لاہور … اپنے مراسلہ خط 13 جون 1886ء اس عاجز کو لکھتے ہیں کہ تمھاری پیش گوئی جھوٹی نکلی اور دختر پیدا ہوئی۔‘‘
1۔ مجموعہ اشتہارات، 1: 125، 126
2۔ مندرجہ تبلیغ رسالت، 1: 84۔ 85، مولفہ میر قاسم علی قادیانی
مرزا کا بیٹا مبارک احمد سخت بیمار ہو گیا۔ مرزا نے پیشین گوئی کی کہ:
’’27 اگست 1907 ء صاحب زادہ میاں مبارک صاحب جو تپ سے سخت بیمار ہیں۔ اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اور ابھی تک بیمار ہیں۔ ان کی نسبت آج الہام ہوا قبول ہو گئی۔ نو دن کا بخار ٹوٹ گیا۔ یعنی یہ دعا قبول ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے۔ یہ پختہ طور پر یاد نہیں رہا کہ کس دن بخار شروع ہوا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں کی صحت کی بشارت دی۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی کا اعلان، مندرجہ اخبار بدر مورخہ 29
اگست 1907ء
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا (طبع سوم): 228۔ 227
جبکہ یہ لڑکا 16 ستمبر کو صبح کے وقت فوت ہو گیا۔ مرزا بشیر احمد کا بیان ہے:
’’1907ء میں ہمارا چھوٹا بھائی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چھوٹا لڑکا مبارک احمدبیمار ہو گیا اور اسی بیماری میں بیچارہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں اس قدر شغف تھا کہ گویا آپ نے اپنی ساری توجہ اسی میں جما رکھی تھی اور ان ایام میں تصنیف وغیرہ کا سلسلہ بھی عملاً بند ہو گیا تھا۔‘‘
مرزا بشیر احمدکا بیان، مندرجہ اخبار الفضل، قادیان نمبر 247، جلد 28، مورخہ30 اکتوبر 1940ء
مبارک احمد کی وفات کے بعد مرزا صاحب نے کہا:
’’خدا کی قدرتوں پر قربان جاؤں کہ جب مبارک احمد فوت ہوا، ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا انا نبشرک بغلام حلیم ینزل منزل المبارک یعنی ایک حلیم لڑکے کی ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں جو بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور اس کا قائم مقام اور شبیہ ہو گا۔‘‘
اشتہار، مرزا غلام احمد قادیانی، تبصرہ، 5نومبر 1907ئ، مجموعہ اشتہارات، 3 : 587، مندرجہ تبلیغ رسالت، 10: 127
مرزا صاحب کے گھر میں اس پیشین گوئی کے بعد کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا۔
مرزا صاحب نے مسٹر عبد اللہ آتھم عیسائی سے 5 جون 1893ء میں مباحثہ کرنے کے بعد پیشین گوئی کی جس کے الفاظ یہ تھے:
’’آتھم پندرہ مہینے میں ہلاک ہو گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقت الوحی: 185، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 192
دوسری جگہ مرزا صاحب نے کہا:
’’میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پہ ہے۔ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے اور رو سیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے، مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانهٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرورکرے گا، ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی … اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں، بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، جنگ مقدس: 210۔ 211، مندرجہ روحانی خزائن، 6: 292۔ 293
اس پیشین گوئی کے مطابق آتھم کو 5، 6 ستمبر کی درمیانی رات 1894ء میں مر جانا چاہیے تھا مگر وہ نہ مرا بلکہ مقررہ معیاد ختم ہونے کے تقریباً دو سال بعد فوت ہوا۔
یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ آتھم کو مرزا کی پیشین گوئی کے مطابق مقررہ معیاد ختم ہو جانے کے بعد مر جانا تھا مگر وہ نہ مرا اور اس پیشین گوئی کی وجہ سے مرزا جھوٹا ثابت ہوا۔ اب قادیانی اس سوال کا جواب دیں کہ وہ سزائیں جو مرزا نے خود اپنے لیے تجویز کی تھیں، ان پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا محمود کہتا ہے:
’’آتھم کے متعلق پیشین گوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال تھی مگر مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب آتھم کی پیشین گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔ حضرت مسیح موعود (یعنی مرزا صاحب) ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور دوسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا بھی منایا گیا) جہاں حضرت خلیفہ اوّل مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں، وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں۔ اس طرح اُنہوں نے بین ڈالنے شروع کر دیئے۔ ان کی چیخیں سو سو گز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر دعا جاری تھی کہ یا اللہ! آتھم مر جائے۔ یا اللہ! آتھم مر جائے مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجے میں آتھم نہ مرا۔‘‘
خطبہ مرزا محمود احمد، مندرجہ الفضل قادیان، 20 جولائی 1940ء
یہ تو تھی قادیان کی کیفیت۔ اب ملاحظہ فرمائیں لاہور کی کیفیت:
’’مرزا غلام قادیانی کی پیشین گوئی مسٹر عبد اللہ آتھم کی موت کی نسبت لاہور میں 5 ستمبر 1894ء کی رات تک بڑا چرچا رہا کہ مرزا کی پیشین گوئی کے اختتام کا وقت آج رات کو ختم ہو رہا ہے۔ جا بجا بڑے بڑے مجمعے اور طرف دار پارٹیوں کے لوگ مختلف قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ایسے ہی اُمید کی جاتی ہے کہ پنجاب کے تمام مقامات میں بھی یہی کیفیت ہو گی۔ 6 ستمبر 1894ء کی صبح کو مسٹر عبد اللہ آتھم کی پارٹی ہشاش بشاش اور مرزا صاحب کی پارٹی مغموم اور پریشان حالت میں تھی۔‘‘
اخبار وفا دار، مورخہ 8 ستمبر 1894ء
مرزا صاحب کا منجھلا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے فرمائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی) میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورت یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سور ت تھی۔ جیسے ’’الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل الخ‘‘ اور ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کرکے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزا قادیانی) کے پاس لے گئے، کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا کہ کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں اور فرمایا کہ جب دانے کنوئیں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہیے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، حصہ اول: 159، روایت نمبر 160
مگر یہ سب پاپڑ بیلنے کے باوجود آتھم نہ مرا۔
مرزا قادیانی کے ماموں زاد بھائی مرزا احمد بیگ اور چچا زاد بہن عمر النساء کی بڑی بیٹی کا نام محمدی بیگم تھا۔ اس لڑکی کا والد اپنے کسی ضروری کام کے لیے مرزا صاحب کے پاس آیا۔ پہلے تو مرزا صاحب نے شخص مذکورہ کو حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی۔ مگر جب وہ کسی طرح بھی نہ ٹلا اور اس کا اصرار بڑھا تو مرزا نے الہام کے نام پر ایک عدد پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا:
’’خدا تعالیٰ نے اپنے الہام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دختر کلاں (محمدی بیگم) کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ کی برکت سے دور کر دے گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 279، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 279
مرزا نے ایک اور جگہ کہا:
’’اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا۔ اور یہ نکاح تمہارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888ء میں درج ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 286، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 286
مرزا صاحب نے مزید کہا:
’’پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔‘‘(2)
(2) غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 286، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 286
مرزا صاحب نے اسے تقدیر مبرم قرار دیتے ہوئے کہا:
اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی کیونکہ اس کے متعلق الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے: لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری یہ بات نہیں ٹلے گی پس اگر ٹل جاوے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
اشتہار 6 اکتوبر 1894ء مندرجہ تبلیغ رسالت، 3: 115
مرزاصاحب نے اپنی پیشین گوئی کی مزید توثیق کرتے ہوئے کہا:
’’اگر معیاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو میرے گلے میں رسی اور پاؤں میں زنجیر ڈالنا اور مجھے ایسی سزا دینا کہ تمام دُنیا میں کسی کونہ دی گئی ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالاتِ اسلام: 573
قصہ مختصر یہ کہ مرزا صاحب محمدی بیگم کے ساتھ شادی کرناچاہتے تھے۔ وہ مراد بر نہ آئی اور اس سلسلہ میں انہوں نے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں یعنی ایک ان کی پیشین گوئی بھی سچی ثابت ہو جائے اور دوسرے جنسی ہوس کی تسکین کا سامان بھی ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے محمدی بیگم کے بھائی کو ملازمت کا لالچ دیا۔ باپ کو رشوت کی پیشکش کی اور محمدی بیگم کے نام زمین لگانے کا بھی وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ اس رشتہ کے لیے اور بھی پیشین گوئیاں کیں، دھمکیاں دیں، عذاب کی وعیدیں سنائیں مگر کسی طرح بھی مرزا صاحب اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کی ساری حسرتیں خاک میں مل گئیں اور محمدی بیگم کا نکاح مرزا کی بجائے سلطان محمد نامی ایک شخص سے ہو گیا۔ مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ اے خداوند! اگر یہ پیشین گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر، چنانچہ اس وقت جو موجود تھے ان سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ 26 مئی 1908ء کو مرزا صاحب نامرادی کی حالت میں ذلت کے ساتھ ہیضہ کی بیماری میں مر گئے۔ محمدی بیگم کے نکاح کے بارے میں پیشین گوئی کی تفصیلات تو بہت زیادہ ہیں مگر ہم اس سلسلے میں صرف چند اہم اُمور پیش کرتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لڑکی کے باپ سے کہا:
’’لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 286، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 286
’’اگر کسی اور شخص سے لڑکی کا نکاح ہو گا تو اس لڑکی کے لیے یہ نکاح مبارک نہ ہو گا اور نہ تمہارے لیے۔ ایسی صورت میں تم پر مصائب نازل ہوں گے، جن کا نتیجہ موت ہو گا۔ پس تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جائو گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور ایسے ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ یہ حکم اللہ ہے، پس جو کرنا ہے کر لو، میں نے تم کو نصیحت کر دی ہے۔ پس وہ (محمدی بیگم کا باپ) تیوری چڑھا کر چلا گیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، آئینۂ کمالات اسلام: 576، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 572، 573
مرزا صاحب نے اپنے بیٹے فضل احمد کی ساس (جو کہ محمدی بیگم کی پھوپھی تھی) کو خط لکھا:
’’مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک محمدی (مرزا احمد بیگ کی لڑکی) کا نکاح (کسی اور سے) ہونے والا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے رشتے ناتے توڑ دوں گا اور کوئی تعلق نہیں رہے گا اس لیے از راهِ نصیحت لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی احمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کراؤ اور جس طرح تم سمجھا سکتی ہو اس کو سمجھا دو اور اگر ایسا نہ ہو گا تو آج میں نے مولوی نور الدین اور فضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آؤ تو فضل احمد (اپنی بیوی یعنی تمہاری بیٹی) عزت بی بی کے لیے طلاق نامہ لکھ کر بھیج دے اور اگر فضل احمد طلاق نامہ لکھنے سے گریز کرے یا عذر کرے اس کو عاق کیا جاوے اور اپنے بعد اس کو وارث نہ سمجھا جاوے اور ایک پیسہ اس کو وراثت کا نہ ملے۔ سو امید رکھتا ہوں کہ شرطی طور پر اس کی طرف سے طلاق نامہ لکھا آ جائے گا۔ جس کا یہ مضمون ہو گا کہ اگر مرزا احمد بیگ محمدی کا نکاح غیر کے ساتھ کرنے سے باز نہ آوے تو پھر اسی روز سے جو محمدی کا کسی دوسرے سے نکاح ہو گا، عزت بی بی کو تین طلاق ہیں سو اس طرح پر لکھنے سے اس طرف تو محمدی بیگم کا کسی دوسرے سے نکاح ہو گا اور اس طرف عزت بی بی پر فضل احمد کی طلاق پڑ جائے گی۔ سو یہ شرطی طلاق ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم کہ بجز قبول کرنے کی کوئی راہ نہیں اور اگر فضل احمد نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کر دوں گا اور پھر وہ میری وراثت سے ایک دانہ نہیں پا سکتا۔‘‘
منقول از نوشۃ غیب: 128۔ 129، مولفہ خالد وزیر آبادی
’’کیا میں چُوڑا یا چمار تھا جو مجھ کو لڑکی دینا عار یا ننگ تھی؟‘‘
’’مرزا نے اپنے بیٹے فضل احمد کے سسر مرزا علی شیر بیگ (محمدی بیگم کے پھوپھا) کو لکھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کس قدر میری عداوت ہو رہی ہے۔ اب میں نے سنا ہے کہ عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے … کیا میں چُوڑا یا چمار تھا جو مجھ کو لڑکی دینا عار یا ننگ تھی … لهٰذا آپ کو بھی لکھتا ہوں کہ آپ اس وقت کو سنبھال لیں اور احمد بیگ کو پورے زور سے خط لکھیں کہ وہ باز آ جائے۔‘‘
منقول از کلمۃ فضل رحمانی بجواب اوھام غلام احمد قادیانی، موٗلفہ قاضی فضل احمد گورداسپوری: 125۔ 127
مرزا علی شیر بیگ نے اس خط کے جواب میں لکھا:
’’ہاں مسلمان ضرور ہوں مگر آپ کی خودساختہ؛ نبوت کا قائل نہیں ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے سلف صالحین کے طریقے پر ہی رکھے اور اس پر ہی میرا خاتمہ بالخیر کرے … اور احمد بیگ کے متعلق میں کر ہی کیا سکتا ہوں نہ آپ فضول ایمان گنواتے اور الہام بانی کرتے اور نہ مرنے کی دھمکیاں دیتے اور نہ وہ کنارہ کش ہوتا … اور میری بیوی کا کیا حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی (کو مطلقہ ہونے سے بچانے) کے لیے بھائی کی لڑکی کو ایک دائم المریض آدمی کو جو مراق سے خدائی تک پہنچ چکا ہو، دینے کے لیے کس طرح لڑے۔‘‘
نوشتہ غیب: 126۔ 128، مولفہ خالد وزیر آبادی
محمدی بیگم کے بارے میں مرزا صاحب کی الہام بازیاں جاری رہیں اور وہ اس سے نکاح کے بارے میں اپنے جھوٹے الہاموں کا سہارا بھی لیتے رہے مگر جب محمدی بیگم کا نکاح ہو گیا تو ان پر نہ تو کوئی الہام اترا اور نہ انہیں اس کا علم ہی ہو سکا بلکہ دوسروں سے تصدیق کرتے پھرتے تھے، چنانچہ مرزا نے رستم علی نامی شخص کو خط لکھا:
’’میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی۔ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس خبر کی کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا لهٰذا مکلف ہوں کہ دوبارہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرما دیں کہ نکاح اب تک ہوا ہے یا نہیں۔
مکتوبات احمدیہ، 5:142۔ 143، نمبر 3، مجموعہ مکتوبات مرزا
محمدی بیگم سے شادی کرنے کے لیے مرزا صاحب منت ترلے سمیت ہر حربہ اختیار کرتے رہے مگر قدرت خدا کی کہ اس کی شادی دوسرے شخص سے ہو گئی بعد میں مرزا صاحب نے ایک اور پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ دوسرا الہام مجھ پر ہوا ہے کہ محمدی بیگم کا خاوند مر جائے گا اور وہ بیوہ ہو کر بالآخر تمہارے نکاح میں آئے گی۔ اس طرح تئیس (23) سال انتظار کیا مگر بے سود گیا اور مرزا صاحب نامراد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
جب محمدی بیگم کا نکاح لاکھ جتن کرنے کے باوجود مرزا صاحب سے نہ ہو سکا تو انہوں نے انتقامی کارروائی کے طور پر جو کچھ کیا اس کی تفصیل اس طرح ہے، مرزا صاحب کہتے ہیں:
’’اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گا اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا اور بالکل مجھ سے بیزاری ظاہر کی۔ اگر ان کی طرف سے ایک تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا لیکن انہوں نے (یعنی میرے بیٹے اور بیوی نے) دینی مخالفت کر کے دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ بیان نہیں کر سکتا اور عمداً چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جاؤں اور جس شخص کو انہوں نے نکاح کے لیے تجویز کیا ہے اس کو رد نہ کیا بلکہ اس شخص کے ساتھ نکاح ہو گیا اور اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہو گا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے اور اگر اس کا بھائی فضل احمد جس کے گھر میں مرزا احمد بیگ کی لڑکی (محمدی بیگم کی بھانجی) ہے اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس کو نکاح کی خبر ہو طلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہو گا اور آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں رہے گا اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقات خویشی، قرابت اور ہمدردی دور ہو جائے گی اور کسی نیکی، رنج و راحت، ماتم اور شادی میں ان سے شرکت نہیں رہے گی کیونکہ انہوں نے تعلق توڑ دیئے اور توڑنے پر راضی رہے سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاً حرام ہے۔‘‘
مجموعہ اشتہارات: 219
چنانچہ مرزا صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو اپنی جائیداد سے عاق کر دیا اور فضل احمد کی بیوی کو طلاق بھی دلوا دی۔
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 22، روایت نمبر 37
مرزا صاحب نے اپنے بیٹے مرزا فضل احمد کا جنازہ بھی نہ پڑھا۔
اخبار الفضل، قادیان، 29: 147، نمبر: 98، 22 اپریل و 2 مئی 1941ء
مرزا صاحب نے انتقاماً نہ صرف بہو کو طلاق دلوائی بلکہ اپنی بیوی کو بھی طلاق دے دی۔
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 26، روایت نمبر41
’’احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور خدا اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا۔ یعنی آخر وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور خدا سب روکیں درمیان سے اٹھا دے گا۔‘‘
1۔ مجموعہ اشتہارات، 2: 41
2۔ تبلیغ رسالت، 3: 13، اشتہار، 6 ستمبر 1894ء
’’خدا تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں (محمدی بیگم) انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن آخر کار ایسا ہی ہو گا اور فرمایاکہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری (مرزا صاحب) طرف لائے گا باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام: 396، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 305
مگر خدا کی قدرت کہ اتنی تگ و دو کے بعد بھی مایوسی، نامرادی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے شادی کے بارے میں سب سے پہلی پیشین گوئی 20 فروری 1886ء میں ایک اشتہار کے ذریعے کی جب کوئی امید کی صورت نظر نہ آئی تو 2 اکتوبر 1894ء میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی:
’’احمد بیگ کی دُختر کلاں (محمدی بیگم) کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا، یہ پیشین گوئیاں، تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو … اور اگر اے خداوند یہ پیشین گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
مجموعہ اشتہارات، 2: 116، مطبوعہ ربوہ، 1972ء
مرزاصاحب نے محمدی بیگم سے نکاح کے بارے میں پیشین گوئی کو اپنی سچائی اور جھوٹ کا معیار قرار دیتے ہوئے کہا:
’’بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا۔‘‘
1۔ اشتہار مرزا غلام احمد قادیانی، مورخہ 10جولائی 1888، مندرجہ
تبلیغ رسالت، 1: 118، مولفہ میر قاسم علی قادیانی
2۔ غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 288، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 288
’’میں اس پیشین گوئی کو اپنے صدق اور کذب کے لیے معیار قرار دیتا ہوں اور یہ خدا سے خبر پانے کے بعد کہہ رہا ہوں۔‘‘
انجام آتھم: 223
مرزا صاحب نے 5 اپریل 1907ء کو مولوی ثناء اللہ صاحب کو مخاطب کرکے کہا:
’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں۔ جیسا کہ آپ ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔‘‘
تبلیغ رسالت، 1: 120، مولفہ میر قاسم علی قادیانی
اس پیشین گوئی کے بعد مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی زندگی میں ہی ہیضہ کی بیماری کی وجہ سے وفات پائی۔ بقول مرزا ثابت ہوا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب صادق اور سچے تھے جبکہ مرزا صاحب نبوت پر خدا کی طرف سے مامور نہیں تھے بلکہ ان کی موت ایک مفسد اور کذاب کی موت تھی اور خدائی پکڑ تھی۔
مرزا نے کہا:
’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘
میگزین، 14 جنوری 1906ء
تاریخ شاہد ہے کہ مرزا کو مکہ و مدینہ کا عکس دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔ وہاں مرنا تو دور کی بات ہے، ان کی موت تو لاہور میں ہیضہ کے باعث بیت الخلا میں واقع ہوئی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved