صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے مقام کی ہمسری کا دعویٰ کوئی بڑے سے بڑا ولی، قطب، غوث حتی کہ سیدنا غوث الاعظم بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ رب العزت نے انہیں تمام مخلوق میں اپنے محبوب کی معیت و مصاحبت کے لیے بطورِ خاص منتخب فرمایا۔ صحبتِ نبوی ﷺ کے فیضان نے ان میں وہ قدسی صفات پیدا فرما دیں جو دنیا میں کسی اور فرد کے حصے میں نہیں آئیں اور اس شرف میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں۔ ان صحبت یافتگانِ مصطفی ﷺ کے فضائل و کمالات قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ خود حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت اور ان کی عداوت کو اپنی عداوت قرار دیااور ان کے خلاف گستاخی اور زبان درازی کرنے والوں کو کڑی وعید سنائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی اپنی رضا و خوشنودی کی سند عطا فرمائی اور جنت کی خوشخبری دی۔ مرزا غلام احمد قادیانی ان ذواتِ مقدسہ کو بھی گستاخی اور اہانت کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکے۔ ان کی زبان درازیوں اور افترا پردازیوں سے یہ نفوس مقدسہ بھی محفوظ نہیں رہے۔ مرزا صاحب کے خبثِ باطن کو ظاہر کرنے کے لیے ہم ذیل میں شانِ صحابہ کی توہین میں ان کی چند تحریروں سے اقتباسات نقل کرتے ہیں۔
1۔ ’’جو شخص میری جماعت میں داخل ہوا در اصل سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 258، طبع ربوہ
2۔ ’’پس ان دونوں گروہوں میں تفریق کرنی ایک کو دوسرے سے مجموعی رنگ میں افضل قرار دینا ٹھیک نہیں۔ یہ دونوں فرقے درحقیقت ایک ہی جماعت میں ہیں۔ صرف زمانہ کا فرق ہے۔ وہ بعثت اولیٰ کے تربیت یافتہ ہیں، یہ بعثت ثانی کے۔‘‘
اخبار’’ الفضل‘‘ قادیان، ج: 5، نمبر: 92، ص: 5، مورخہ 28 مئی 1918ء
1۔ ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘
معیار الاخیار، اشتہارمرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ تبلیغ رسالت، 9: 30، مجموعہ اشتہارات، 3: 278
2۔ ’’میرے ایک محب تھے جو اس وقت مولوی فاضل بھی ہیں اور اہلِ بیت مسیح موعود کے خاص رکن رکین ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ سچ تو یہ ہے کہ رسول اللہ کی بھی اتنی پیشین گوئیاں نہیں جتنی مسیح موعود کی ہیں۔ پھر انہوں نے ایک اور بھی ایسا ہی دکھ دینے والا فقرہ بولا کہ ابو بکرو عمر کیا تھے وہ تو حضرت غلام احمد (قادیانی) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے۔‘‘
ماہنامہ المہدی، بابت جنوری، فروری 1915ئ، 2/3، رضی اللہ عنہ 57، مؤلفہ حکیم محمد حسین قادیانی
1۔ ’’بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابو ہریرہ ) وہ اپنی غلط فہمی سے عیسیٰ موعود کی پیشگوئی پر نظر ڈال کر یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ ہی آجائیں گے جیسا کہ ابتدا میں ابو ھریرہ کو بھی یہ دھوکہ لگا ہوا تھا اور اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 34، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 36
2۔ ’’جیسا کہ ابوہریرہ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اعجاز احمدی: 18، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 127
3۔ ’’جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔‘‘
ضمیمہ براہین احمدیہ، 5: 410، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 410
’’حق بات یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک معمولی انسان تھا نبی اور رسول تو نہیں تھا اس نے جوش میں اگر غلطی کھائی تو کیا اس کی بات کو اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی میں داخل کیا جائے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام حصہ دوم: 596، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 422
یوں تو ہر صحابیِ رسول ﷺ ہدایت کا ستارہ ہے لیکن بدری صحابہ رضی اللہ عنہم خصوصی امتیازی شان اور فضیلت کے حامل ہیں۔ اس لیے ان کی گستاخی دوہرا جرم ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بدری صحابہ کے مقابلہ میں اپنے 313 چیلوں کی فہرست تیارکی اور اسے اپنی کتابوں میں شائع کیا۔ مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد اس فہرست کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میاں امام الدین صاحب سکھیوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1896-1897ء میں تیار کی تھی اور اسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث سے پتا لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی ایک فہرست تیار کروائی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا۔
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 3: 128
مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
’’اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا۔ اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہلِ بدر کے شمار سے برابر ہوگا یعنی تین سوتیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔
’’اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لیے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ انجام آتھم: 41-45، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 325-328
’’بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ براہین احمدیہ، 5: 285، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 285
’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ملفوظات احمدیہ، 1: 131
’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ، حاشیہ: 9، روحانی خزائن، 18: 13
1۔ ’’اور انہوں نے کہا کہ اس شخص نے (یعنی مرزا صاحب نے) امام حسین اور حسن سے اپنے تئیں اچھا سمجھا۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں (بے شک) اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اعجاز احمدی: 52، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 164
2۔ ’’امام حسین رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے بارے میں کہ ان پر میری فضیلت سن کر یوں ہی غصہ میں آ جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے کہاں امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے۔ زید کا ہی نام لیا ہے۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو چاہیے تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام بھی لے دیا جاتا اور پھر مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ کہہ کر اور بھی ابوّت کا خاتمہ کر دیا۔ اگر اِلا حسین اس آیت کے ساتھ کہہ دیا جاتا تو شیعہ کا ہاتھ کہیں تو پڑ جاتا۔‘‘
ملفوظات احمدیہ، مرتبہ محمد منظور الٰہی قادیانی، 4: 191، 192
3۔ ’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسین کو رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا بلکہ نام تک مذکور نہیں۔ ان سے تو زید ہی اچھا رہا جس کا نام قرآن شریف میں موجود ہے۔ ان کو آنحضرت ﷺ کا بیٹا کہنا قرآن شریف کی نص صریح کے برخلاف ہے جیسا کہ آیت مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ سے سمجھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رجال میں سے تھے، عورتوں میں سے تو نہیں تھے۔ حق تو یہ ہے اس آیت نے اس تعلق کو جو امام حسین کی آنحضرت ﷺ سے بوجہ پسر دختر ہونے کے تھا، نہایت ہی ناچیز کر دیا ہے۔
’’غرض حسین کو نبیوں پر فضیلت دینا بیہودہ خیال ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ بھی خدا کے راست باز بندوں میں سے تھے لیکن ایسے بندے تو کروڑہا دنیا میں گزر چکے ہیں اور خدا جانے آگے کس قدر ہوں گے پس بلاوجہ ان کو تمام انبیاء کا سردار بنا دینا خدا کے پاک رسولوں کی سخت ہتک کرنا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کو تمام انبیاء کی صفات کاملہ کا مظہر ٹھہرایا ہے۔ اب سوچنے کے لائق ہے کہ امام حسین کو اس سے کیا نسبت ہے … کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن واحادیث اور تمام نبیوں کی شہادت سے مسیح موعود حسین سے افضل ہے اور جامع کمالات متفرقہ ہے پھر اگر درحقیقت میں وہی مسیح موعود ہوں تو خود سوچ لو کہ حسین کے مقابل مجھے کیا درجہ دینا چاہئے اور اگر میں وہ نہیں ہوں تو خدا نے صدہا نشان کیوں دکھلائے اور کیوں وہ ہر دم میری تائید میں ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 45-50، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 423-428
4۔ ’’اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 19: 193
5۔ ’’مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 19: 181
6۔ ’’اور بخدا اسے (یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو) مجھ سے کچھ زیادت نہیں اور میرے پاس خدا کی گواہیاں ہیں۔ پس تم دیکھ لو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 19: 193
7۔ ’’اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک (مرزا صاحب) ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، دافع البلائ: 13، ’’روحانی خزائن‘‘ 18: 233
8۔ ’’کیا تو اس (حسین ) کو تمام دنیا سے زیادہ پرہیزگار سمجھتا ہے اور یہ تو بتلاؤ کہ اس سے دینی فائدہ کیا پہنچا، اے مبالغہ کرنے والو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 19: 180
9۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے شہید کربلا پر اپنی برتری کا دعویٰ کرتے ہوئے درج ذیل توہین آمیز شعر کہا:
کربلائے است سیرِ ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 99، روحانی خزائن، 18: 477
مرزا محمود احمد قادیانی نے اس شعر کی وضاحت درج ذیل گستاخانہ الفاظ میں کی ہے:
’’کہ میرے گریبان میں سو حسین ہیں۔ لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام (مرزا قادیانی) نے فرمایا میں سو حسین کے برابر ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اس کا یہ مفہوم ہے کہ سو حسین کی قربانی کے برابر میری ہر گھڑی کی قربانی ہے۔‘‘
آگے کہتے ہیں:
’’یہ تو ادنیٰ سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (مرزا قادیانی) امام حسین رضی اللہ عنہ کے برابر تھے یا ادنیٰ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ولی تھے مگر ان کو وہ غم اور صدمہ کس طرح پہنچ سکتا تھا جو اسلام کو مٹتا دیکھ کر حضرت مسیح موعود کو ہوا۔‘‘
خطبہ مرزا محمود احمد قادیانی، مندرجہ اخبار الفضل ج: 13، ص: 7، نمبر: 80، مورخہ 26 جنوری 1916ء
10۔ ’’تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے۔ کیا تو انکار کرتا ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی اعجاز احمدی: 82، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 194
مرزاغلام احمدقادیانی نے اپنی اولاد کو پنج تن پاک سے تشبیہ دیتے ہوئے درج ذیل توہین آمیز اشعار کہے:
میری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہے
یہی ہیں پنچ تن جس پر بنا ہے
غلام احمد قادیانی، در ثمین (اردو): 45
ام المومنین کی اصطلاح جو صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص ہے مرزا صاحب نے اس کا اطلاق بر بنائے دعویٰ نبوت اپنی بیویوں پر بھی کیا:
’’ام المومنین‘‘ کا لفظ جو مسیح موعود کی بیوی کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت اقدس نے سن کر فرمایا ’’اعتراض کرنے والے بہت ہی کم غور کرتے ہیں اور اس قسم کے اعتراض صاف بتاتے ہیں کہ وہ محض کینہ اور حسد کی بناپر کیے جاتے ہیں ورنہ نبیوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگر امہات المومنین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں۔‘‘
ملفوظات احمدیہ، جلد اول
مرزا غلام احمد قادیانی نے اولیائے کرام اور اللہ کے برگزیدہ و مقبول بندوں کی اہانت میں جو کلمات کہے وہ ذیل میں اس لیے بیان کیے جاتے ہیں کہ صحیح العقیدہ مسلمان قادیانیت کی حقیقت کو جان لیںاور اس کے دام تزویر سے دور رہیں۔
1۔ ’’اسلام میں اگرچہ ہزارہا ولی اور اہل اللہ گزرے ہیں مگر ان میں کوئی موعود نہ تھا لیکن وہ جو مسیح کے نام پر آنے والا تھا، وہ موعود تھا (یعنی خود مرزا صاحب)۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تذکرۃ الشہادتین: 29، روحانی خزائن، 20: 31
2۔ ’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ اور مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں، تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اور اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں، ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 391، روحانی خزائن، 22: 406
3۔ ’’اور خدا تعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے براہین احمدیہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرما دیا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ … اور یہ دعویٰ امت محمدیہ میں سے آج تک کسی اور نے ہرگز نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا یہ نام رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی وحی سے صرف میں اس نام کا مستحق ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 67، روحانی خزائن 22: 502، 503
4۔ ’’حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوب میں آپ ہی تحریر فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے بعد آنے والے ہیں جن پر حضرت احدیت کی خاص خاص عنایات ہیں، ان سے افضل نہیں ہوں اور نہ وہ میرے پیرو ہیں۔ سو یہ عاجز بیان کرتا ہے نہ فخر کے طریق پر بلکہ واقعی طور پر شکراً نعمۃ اللہ کہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ نے ان بہتوں پر افضلیت بخشی ہے کہ جو حضرت مجدد صاحب سے بھی بہتر ہیں اور مراتب اولیاء سے بڑھ کر نبیوں سے مشابہت دی ہے۔‘‘
ارشاد مرزا غلام احمد قادیانی صاحب، مندرجہ ’’حیات احمدیہ‘‘ 2: 79
’’میں ولایت کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت ﷺ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہو گا اور میرے عہد پر ہو گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 35، روحانی خزائن، 16: 69۔ 70
1۔ ’’سلطان عبدالقادر، اس الہام میں میرا نام سلطان عبدالقادر رکھا گیا کیونکہ جس طرح سلطان دوسروں پر حکمران اور افسر ہوتا ہے اسی طرح مجھ کو تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی ہے یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کا تعلق نہیں رہے گا جب تک وہ میری اطاعت نہ کریں اور میری اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہ اٹھائیں۔ یہ اسی قسم کا فقرہ ہے جیسا کہ یہ فقرہ کہ قد می ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ یہ فقرہ سید عبدالقادر جیلانی کا ہے جس کے معنی ہیں کہ ہر ایک ولی کی گردن پر میرا قدم ہے۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 706
2۔ ’’حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور (مرزا قادیانی) نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادرؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کرا کر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ آؤ ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہو کر قد ناپیں پھر انہوں نے میرے بائیں طرف کھڑے ہو کر کندھے سے کندھا ملایا تو اس وقت دونوں برابر برابر رہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 3: 16
مرزا نے حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے متعلق ایسی لغو اور بے ہودہ زبان استعمال کی ہے کہ جو کسی عام مسلمان کے لیے بھی روا نہیں رکھی جاسکتی۔
1۔ ’’مجھے ایک کتاب کذاب (حضرت پیر مہر علی شاہ) کی طرف سے پہنچی ہے۔ وہ خبیث کتاب اور بچھو کی طرح نیش زن۔ پس میں نے کہا کہ اے گولڑہ کی زمین تجھ پر لعنت، تو ملعون کے سبب سے ملعون ہو گئی پس تو قیامت کو ہلاکت میں پڑے گی۔‘‘
اعجاز احمدی: 75، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 188
2۔ ’’اورلُونمبڑی کی طرح بھاگا پھرتا ہے، اے نادان اول کسی تفسیر کو عربی فصیح میں لکھنے سے اپنی عربی دانی ثابت کر، پھر تیری نکتہ چینی بھی قابل توجہ ہو جائے گی۔ ورنہ بغیر ثبوت عربی دانی کے میری نکتہ چینی کرنا اور کبھی سرقہ کا الزام دینا اور کبھی صرفی نحوی غلطی کا، یہ صرف گوہ کھانا ہے، اے جاہل، بے حیاء اول عربی بلیغ و فصیح میں کسی سورۃ کی تفسیر شائع کر پھر تجھے ہر ایک کے نزدیک حق حاصل ہو گا کہ میری کتاب کی غلطیاں نکالے یا مسروقہ قرار دے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح: 65، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 441
اسی یاوہ گوئی پر مبنی تحریر نے بالآخر حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرهٗ کو مجبور کر دیا تھا کہ مرزا کی حقیقت کھلے عام آشکار کی جائے۔ آپؒنے جب دیکھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مسلمانوں کے عقائد کو مسخ کر رہا ہے اور نت نئی تاویلات کے ذریعے ختم نبوت اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑا رہا ہے تو آپ نے 1317ھ (بمطابق 1899-900ائ) ماہ شعبان المعظم اور رمضان المبارک میں ایک رسالہ بعنوان ’’شمس الھدایۃ في اثبات حیات المسیح‘‘ تألیف کیا۔ اس رسالہ نے قادیانی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ اس رسالہ میں آپ نے قرآن و حدیث کے دلائل سے رفع و نزول مسیح کا عقیدہ ثابت کیا اور اس حوالے سے قادیانی عقائد کا ردّ فرمایا۔
مورخہ 20 فروری 1900ء کو مرزا صاحب کے مشیر حکیم نور الدین کی طرف سے آپ کو ایک خط موصول ہوا جس میں بارہ سوالات درج تھے۔ خط ملتے ہی آپ نے ان سوالات کے مسکّت جوابات لکھوا ئے، انہیں مرزا صاحب کو ارسال بھی فرما دیا اور الگ سے چھپوا بھی دیا۔ ان جوابات نے علمی و عوامی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل کی۔ ملک کے کونہ کونہ سے علماء و فضلاء نے تحریری و تقریری خراجِ تحسین پیش کیا۔ چنانچہ مرزا صاحب سے ’’شمس الھدایۃ‘‘ کا جواب لکھنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ مرزا صاحب نے کتاب کا جواب لکھنے کی بجائے ایک بار پھر قادیانی امت کے سامنے سر اونچا رکھنے کے لیے آپؒ کو مناظرے کی دعوت دے دی۔ پیر صاحب نے اس دعوت کو فوراً قبول کر لیا اور تقریری و تحریری مناظرے کا مقام شاہی مسجد لاہور قرار پائی۔ مناظرہ کے دن ملک کے طول و عرض سے لوگ لاہور پہنچ گئے۔ مگر مرزا صاحب عین وعدہ کے دن شکست کے خوف سے بھاگ گئے۔ یہ مرزا صاحب کی ایک تاریخی شکست تھی جس کے بعد قادیانیت کے ہتھکنڈے خاصی حد تک محدود ہو گئے تھے۔ مرزا صاحب نے مناظرہ سے فرار کے بعد ’’اعجاز المسیح‘‘ اور ’’شمس بازغہ‘‘ کے نام سے دو کتابیں تحریر کیں جن کے جواب میں حضرت پیر مہر علی قدس سرهٗ نے ’’سیف چشتیائی‘‘ تصنیف فرمائی۔ یہ کتاب 1902ء میں شائع کی گئی۔ آپ ؒنے اس کتاب میں مرزا صاحب کے تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے اور ان کی عبارات پر متعدد اعتراضات وارد کیے۔
قادیانیوں سے محبت اور رواداری کا درس دینے والے اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے درج ذیل عبارات پہ بطور خاص غور فرمائیں اور نوٹ فرمائیں کہ مرزا قادیانی نے مسلمانوں کو کافر، پکے کافر، جہنمی، خنزیر اور بدکار عورتوں کی اولاد قرار دیتے ہوئے ان کی کہیں بھی کوئی رعایت نہیں کی اور ان کے لیے انتہائی فحش بازاری زبان استعمال کی۔ بطور حوالہ چند عبارات درج ذیل ہیں:
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل: 110
’’اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی، وہ جہنمی ہے۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 168
’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نجم الہدیٰ: 53، مندرجہ روحانی خزائن، 14: 53
’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔‘‘
غلامٖ احمد قا دیانی نزول المسیح: 4، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 382
تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ و المودۃ و ینتفع من معارفھا و یقبلنی و یصدق دعوتی الا ذریّۃ البغایا۔
آئینہ کمالات اسلام: 547، 548، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 547، 548
’’میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔‘‘
البغایا جمع کا صیغہ ہے، اس کا واحد بغیۃ ہے، جس کا معنی بدکار، فاحشہ، زانیہ ہے۔
خود مرزا صاحب نے ’’خطبہ الہامیہ (ص: 49)‘‘، مندرجہ ’’روحانی خزائن (16: 49)‘‘ اور ’’انجام آتھم (ص: 282)‘‘، مندرجہ روحانی خزائن (11: 282)‘‘ میں لفظ بغایا کا ترجمہ بازاری عورتیں کیا ہے اور ایسے ہی ’’نور الحق (حصہ اول، ص: 123)‘‘، مندرجہ ’’روحانی خزائن (8: 163)‘‘ میں لفظ بغایا کا ترجمہ زن بدکار وغیرہ کیا ہے۔
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
محمود احمد قادیانی، آئینہ صداقت: 35
قادیانیوں کے نزدیک مسلمانوں سے معاشرتی تعلقات اسی طرح حرام ہیں جس طرح مسلمانوں کے نزدیک کسی بھی کافر، مرتد، زندیق سے حرام ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی صفوں میں گھسے رہنے پر ان کا اصرار صرف اس لیے ہے تاکہ وہ مسلم معاشرے کے نہ صرف سماجی و معاشرتی تائید سے بھرپور استفادہ کر سکیں بلکہ مار آستین بن کر ان پر زہریلے وار بھی برساتے رہیں۔
درج ذیل حوالہ جات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ قادیانی خود کو مسلمانوں سے بالکل الگ ایک قوم اور اقلیت سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ہی مسلمانوں سے ملے جلے رہنے پر مصر بھی ہیں۔ یہ اصل میں اپنے تاریخی دوغلے کردار کے تسلسل کو منافقت اور مداہنت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نبھانے کے مترادف ہے۔
’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریم ﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں، ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا، اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ و ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دیئے گئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، کلمۃ الفضل: 169، 170
1۔ ’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذّب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 64
2۔ تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا: 401
2۔ ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘
مرزا محمود احمد، انوارِ خلافت: 90
3۔ مرزاصاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے اپنے مریدوں کو غیر احمدیوں یعنی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے کیوں منع کر رکھا ہے؟ کہا:
’’جن لوگوں نے جلدبازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے، رد کر دیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں ان سے لاپروا پڑے ہیں ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے انما یتقبل اللہ من المتقین (المائدہ: 28) ’’خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے۔‘‘ اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ملفوظات احمدیہ، 1: 449
4۔ مرزا صاحب نے سلسلہ احمدیہ سے ناواقف افراد کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا:
’’اول تو کوئی ایسی جگہ ایسی نہیں جہاں لوگ واقف نہ ہوں اور جہاں ایسی صورت ہو کہ لوگ ہم سے اجنبی اور ناواقف ہوں تو ان کے سامنے اپنے سلسلہ کو پیش کر کے دیکھ لیا۔ اگر تصدیق کریں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو۔ ورنہ ہر گز نہیں اکیلے پڑھ لیا کرو۔ خدا اس وقت چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے پھرجان بوجھ کر ان لوگوں میں گھسنا جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے۔ منشاء الٰہی کی مخالفت ہے۔‘‘
فتاویٰ احمدیہ: 19
’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے اس سال میں خدا سے علم پا کر جماعت کی تنظیم و تربیت کے متعلق دو مزید احکامات جاری فرمائے یعنی اول تو آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ آئندہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی کی امامت میں نماز ادا نہ کرے بلکہ صرف احمدی امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے۔ یہ حکم ابتداء میں 1898ء میں زبانی طور پر جاری ہوا تھا مگر بعد میں 1900ء میں تحریری طور پر بھی اس کا اعلان کیا گیا۔ آپ کا یہ فرمان جو خدائی منشاء کے ماتحت تھا اس حکمت پر مبنی تھا کہ جب غیر احمدی مسلمانوں نے آپ کے دعویٰ کو رد کر کے اور آپ کو جھوٹا اور مفتری قرار دے کر اس خدائی سلسلہ کی مخالفت پر کمر باندھی ہے جو خدا نے اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لیے جاری کیاہے اور جس سے دنیا میں اسلام اور روحانی صداقت کی زندگی وابستہ ہے تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ کوئی شخص جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لاتا ہے وہ آپ کے منکر کی امامت میں نماز ادا کرے۔ نماز ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور اس کا امام گویا خدا کے دربار میں اپنے مقتدیوں کا لیڈر اور زعیم ہوتا ہے پس جو شخص خدا کے مامور کو رد کر کے اس کے غضب کا مورد بنتا ہے۔ وہ ان لوگوں کا پیش رو نہیں ہو سکتا جو اس کے مامور کو مان کر اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرتے ہیں۔ اس میں کسی کے برا منانے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کا بھی ایک طبعی اور قدرتی نتیجہ تھا جو جلد یا بدیر ضرور ظاہر ہونا تھا چنانچہ حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے متبعین کا امام انہی میں سے ہوا کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر یا مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تمہیں میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ ’امامکم منکم‘ یعنی جب مسیح نازل ہو گا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بالکل ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سلسلہ احمدیہ: 84، 85
’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو، دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خداکے لیے ہے تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ملفوظات احمدیہ، 1: 525
’’دوسری ہدایت جو آپ نے اپنی جماعت کے لیے جاری فرمائی، وہ احمدیوں کے رشتہ ناطہ کے متعلق تھی۔ اس وقت تک جیسا کہ احمدیوں اور غیر احمدی مسلمانوں کی نماز مشترک تھی یعنی احمدی لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اسی طرح باہمی رشتہ ناطہ کی بھی اجازت تھی یعنی احمدی لڑکیاں غیر احمدی لڑکوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں مگر 1898ء میں حضرت مسیح موعود نے اس کی بھی ممانعت فرما دی اورآئندہ کے لیے ارشاد فرمایا کہ کوئی احمدی لڑکی غیر احمدی مرد کے ساتھ نہ بیاہی جائے۔ یہ اس حکم کی ایک ابتدائی صورت تھی جس کی بعد اس میں مزید وضاحت ہوتی گئی اور اس حکم میں حکمت یہ تھی کہ طبعاً اور قانوناً ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت پر انتظامی لحاظ سے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ پس اگر ایک احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ بیاہی جائے تو اس بات کا قوی اندیشہ ہو سکتا ہے کہ مرد عورت کے دین کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا اور خواہ اسے اس میں کامیابی نہ ہو لیکن بہرحال یہ ایک خطرہ کا پہلو ہے جس سے احمدی لڑکیوں کو محفوظ رکھنا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں چونکہ اولاد عموماً باپ کے تابع ہوتی ہے اس لیے اس قسم کے رشتوں کی اجازت دینے کے یہ معنی بھی بنتے ہیں کہ ایک احمدی لڑکی کو اس غرض سے غیر احمدیوں کے سپرد کر دیا جائے کہ وہ اس کے ذریعہ غیر احمدی اولاد پیدا کریں۔ اس قسم کی وجوہات کی بنا پر آپ نے آئندہ کے لیے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ گو حسب ضرورت غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لیا جا سکتاہے مگر کوئی احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ نہ بیاہی جائے بلکہ احمدیوں کے رشتے صرف آپس میں ہوں۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سلسلہ احمدیہ: 84، 85
’’ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امارت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا۔‘‘
مرزا محمود قادیاني، انوار خلافت: 93، 94
خلیفہ قادیاں ابن مرزائے قادیاں میاں محمود صاحب لکھتے ہیں:
1۔ ’’قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا بھی جنازہ جائز نہیں۔ پھر غیر احمدی کا جنازہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔‘‘
مرزا محمود، انوار خلافت: 92
2۔ ’’غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اس لیے ان کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح علیہ السلام کا مکفر نہیں۔ میں یہ سوال کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ درست ہے تو پھر ہندوئوں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟‘‘
مرزا محمود قادیانی، انوار خلافت: 91
’’آپ (مرزا قادیانی) کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آ گیا، جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے کہ یہ میری بڑت عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حضرت نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اس نے طلاق لکھ کر حضرت کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘
مرزا محمود احمد قادیانی، انوار خلافت: 91
مرزا قادیانی کا بیٹا فضل احمد سمجھتا تھا کہ اس کے والد نے نبوت کا دعویٰ کر کے امت مسلمہ سے غداری کی ہے، اس لیے اس نے اپنے باپ کے ’’دعویٰ نبوت‘‘ کو کبھی تسلیم نہیں کیا جس کی بنا پر مرزا قادیانی نے اپنے فرمانبردار بیٹے کا نماز جنازہ نہ پڑھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو غیر احمدی سمجھتا تھا۔ قادیانیوں کے جنازے پڑھنے والے اور انہیں مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کرنے کی اجازت دینے پر اصرار کرنے والے نام نہاد مسلمان کیا اس بات پر غور فرمائیں گے؟
مرزا قادیانی نے مقدس مقامات اور شعائر اسلام کی توہین و اہانت میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں:
1۔ ’’حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا کہ جو بار بار یہاں نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا۔ تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے۔ پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں۔‘‘
مرزا بشیر الدین محمود، حقیقۃ الرویاء: 46
2۔ ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (قادیان میں) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘
آئینہ کمالاتِ اسلام: 352، مندرجہ روحانی خزائن، 5: 352
3۔ مرزا صاحب نے اپنے ایک شعر میں قادیاں کو ارض حرم قرار دیتے ہوئے کہا:
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے اَرضِ حرم ہے
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 52
’’اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انا انزلناہ قریبا من القادیان تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے، تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ پر شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے جن میں مکہ، مدینہ اور قادیان۔‘‘
غلام احمد قادیانی ازالہ اوہام، 1: 40، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 40
’’مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا، قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الأقصٰی الذی بارکنا حولہ۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 21، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 21
قادیاں کے سالانہ جلسہ میں قادیانی مذہب کے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمود احمد قادیانی نے کہا:
’’وہ روضہ مطہرہ جس میں اس خدا کے بر گزیدہ کا جسم مبارک مدفون ہے۔ جسے افضل الرسل نے اپنا سلام بھیجا اور جس کی نسبت حضرت خاتم النبیین نے فرمایا: ’’یدفن معی في قبری‘‘اس اعتبار سے مدینہ منورہ کے گنبد خضریٰ کے انوار کا پورا پورا پرتو تو اس گنبد بیضاء پر پڑ رہا ہے اور آپ گویا ان برکات سے حصہ لے سکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے مرقد منور سے مخصوص ہیں۔‘‘
الفضل، مورخہ 18 دسمبر 1922ء
اسی مرزا محمود احمد قادیانی نے 1932ء کے سالانہ جلسہ میں کہا:
’’پھر شعائر اللہ کی زیارت بھی ضروری ہے۔ یہاں (قادیان میں) کئی ایک شعائر اللہ ہیں۔ مثلاً یہی ایک علاقہ جہاں جلسہ ہو رہا ہے … اسی طرح شعائر اللہ میں مسجد مبارک، مسجد اقصٰی، منارۃ المسیح شامل ہیں۔‘‘
الفضل، مورخہ 8 جنوری 1933ء
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا اسلام اور اہلِ اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ایک الگ مذہب کے پیروکا ر ہیں جو سرا سرکذب و کفریہ کلمات کا پلندہ ہے۔ مرزا صاحب اور ان کے صاحبزادگان نے صاف صاف لکھا ہے کہ غیر احمدی یعنی مسلمان کافر ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا، ان کا جنازہ پڑھنا اور انہیں اپنی لڑکیوں کا رشتہ دینا حرام ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک مسلمانوں سے میل جول بھی ممنوع اور حرام ہے۔ معلوم ہوا کہ قادیانی کسی نئے مذہب اور شریعت کے پیروکار ہیں جس کی رُو سے اہل اسلام کے ساتھ سماجی اور معاشرتی تعلقات رکھنا جائز نہیں۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ مرزا صاحب خود ساختہ ظلی و بروزی کے ہی نہیں تشریعی نبوت کے بھی مدعی تھے۔ لهٰذا خود مرزا صاحب اور ان کے تمام پیرو کار اپنے ان کفر و الحاد سے مملو عقائد کے باعث قرآن و سنت اور اجماع امت کی رو سے کافر قرار پائے۔
قادیانی زعماء کی مذکورہ بالا عبارات میں قادیانی ذریّت کے لیے بھی یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ انہیں اپنے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے اور اسلامی شعائر کو استعمال کرنے سے روکے جانے پر احتجاج اور واویلا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسلامی قانون نے انصاف کرتے ہوئے انہیں ان کا حق دیا ہے، انہیں الگ تشخص دیا ہے، ان کے بزرگوں کی خواہشات کے عین مطابق انہیں غیر مسلم قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسلام کی حدود سے باہر کر دیا ہے۔ پھر یہ احتجاج کس بات پر؟ عجیب بات ہے کہ آپ عامۃ المسلمین کے اسلام کے منکر ہو کر بھی مسلمان رہنا چاہتے ہیں!
یہ اُن مسلمانوں کے لیے بھی مقامِ غور اور لمحۂ فکریہ ہے جو قادیانیوں کی مجلسوں میں حاضری دیتے ہیں اور رواداری و مصلحت کے پیش نظر ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved