مرزا غلام احمدقادیانی نے اپنی تحریروں میں شانِ الٰہی، شانِ مصطفی ﷺ، شانِ انبیاء علیھم السلام میں جو گستاخیاں، دشنام طرازیاں اور ہرزہ سرائیاں کی ہیں اور قرآن مجید اور احادیثِ رسول ﷺ کے متعلق جو کلمات کہے ہیں وہ اس قدر گستاخانہ اور توہین آمیز ہیں کہ ان کی توقع کسی عام مسلمان سے نہیں کی جا سکتی۔ ان کلمات کا اعادہ من و عن ہم یہاں اس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ قارئین کی طبع لطیف کو پراگندہ اور متعفن کرنے کا موجب بنے گا۔ تاہم مرزا صاحب کی بدکلامیوں اور درشت گوئیوں کو ریکارڈ پر لانے کے لیے ان کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے بعض خرافات کا نـقلِ کفر کفر نباشد کے مصداق حوالہ دینا ناگزیر ہے۔
مرزائے قادیاںنے اپنی بدزبانی اور توہین آمیز گستاخی کا نشانہ تمام پاکیزہ، برگزیدہ اور منزہ و مزکیّ ہستیوں کو بنایا ہے اور شاید ہی کوئی اس کے زبان و قلم کی زخم سے بچا ہو۔ ہم یہاں مرزا صاحب کی اپنی تحریروں سے چند اقتباسات نقل کر رہے ہیںتاکہ ان کے ذریعے زہر میں بجھے ہوئے لغو اور طنزیہ و ہجویہ خرافات کے چند نمونے پیش کیے جا سکیں جس سے مقصود قارئین کو قادیانیت کا حقیقی روپ دکھانا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں مرزائے قادیاں کی جن تحریروں سے توہین کا پہلو نکلتا ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ مرزا صاحب کے نزدیک خدا کا تصور کیا ہے ان کی درج ذیل تحریر سے واضح ہے:
’’اس بیان مذکورہ کی تصویر دکھانے کے لیے تخیلی طور ہم فرض کر سکتے ہیںکہ قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لیے بے شمار ہاتھ، بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہیں، یہ وہی اعضاء ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں عالم نا م ہے۔ جب قیوم عالم کوئی حرکت جزوی یا کلی کرے گا تو اس حرکت کے ساتھ اس کے اعضا ء میں حرکت پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہے۔‘‘ (1)
(1) غلام احمد قادیانی، توضیح المرام: 75، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 90
2۔ مرزا صاحب مز ید لکھتے ہیں:
ربنا عاج۔
1۔ غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ: 556، روحانی خزائن، 1:
663
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 105
’’ہمارا رب عاجی ہے (اس کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے)۔‘‘
اس عبارت میں مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کے لیے ایک ایسا مہمل لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنیٰ ان کو خود بھی معلوم نہیں۔ اللہ عزوجل کی طرف اس قسم کے الفاظ منسوب کرنا صراحتاً گستاخی ہے۔
3۔ اسی طرح انہوںنے اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) چوروں کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی احتراز نہ کیا اور لکھا کہ
’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تجلیّاتِ الٰہیہ: 4، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 396
4۔ مزید برآں انہوں نے خدا کی حقانیت کو اپنی بعثت سے مشروط کرتے ہوئے کہا:
’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، دافع البلاء: 11مندرجہ روحانی خزائن، 18: 231
5۔ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ پر مرض میں مبتلا ہونے کا الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں پھر بعد اس کے یہ سوال ہو گا کہ کیوں نہیں بولتا کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے مگر کان مرض سے محفوظ ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ براہین احمدیہ، 5: 144، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 312
کہتے ہیں جب کسی کی جھجک ختم ہو جائے تو وہ آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مرزاصاحب بھی کفر کے سفر پر جب گامزن ہوئے تو بڑھتے ہی چلے گئے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ کا حیا بھی نہ کیا۔ مرزا صاحب جب مجدد اور مسیح کے بعد انبیاء و رسل کی مثلیت کے دعوے کر چکے تو خواب پریشاں میں اپنے آپ کو رسول سے بھی آگے خدا کے منصب پر فائز کر لیا۔
مرزا صاحب خواب پریشاں میں اپنے آپ کو رسول سے بھی آگے خدا کے منصب پر فائز کر لیتے ہیں۔ وہ عینِ خدا ہونے کا دعویٰ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
1۔ ورأیتنی فی المنام عین اللہ وتیقنت أننی ھو۔
1۔ غلام احمد قادیانیآئینہ کمالات اسلام: 564 مندرجہ روحانی
خزائن، 5: 564
2۔ غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ: 85، مندرجہ روحانی خزائن، 13: 103
’’میں (مرزا غلام احمد قادیانی) نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔‘‘
ایک جگہ مرزا صاحب خود کو کن فیکون کے مقامِ الوہیت پر فائز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
2۔ انما أمرک اذا أردت شیئا تقول لہ کن فیکون۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃالوحی: 105، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 108
’’تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔‘‘
3۔ أنت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی۔
1۔ مرزا قادیانی، لیکچر لدھیانہ: 5، مندرجہ روحانی خزائن، 20:
253
2۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86، مندرجہ روحانی خزائن: 89
’’تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔‘‘
4۔ انت منی بمنزلۃ عرشی۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86، مندرجہ روحانی خزائن: 89
’’تو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔‘‘
5۔ انت منی وانا منک۔
1۔ مفتی محمد صادق قادیانی، ذکر حبیب: 221
2۔ تذکرہ، الہامات مرزا: 517، 700، 771
’’تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘
6۔ یَا قَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ۔
1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 74، مندرجہ روحانی خزائن،
22: 77
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 581
’’اے چاند اور اے سورج تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘
7۔ اَنت منی بمنزلۃ بروزی۔
تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 596
’’اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہو گیا۔‘‘
’’خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہو گیا اور میرا غضب و حلم اور تلخی و شرینی اور حرکت و سکون سب اسی کا ہو گیا۔ اور اس حالت میں، میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی۔ اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا انّا زیّنا السّمَاء الدّنیا بمَصَابیح۔ پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہو گئی اور میری زبان پر جاری ہوا أردت أن استخلف فخلقت آدمَ انا خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ: 86، 87، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 104، 105
1۔ ’’ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ خدا قادیان میں نازل ہوگا اپنے وعدہ کے موافق۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات ومکا شفات مرزا: 452
2۔ انّا نبشّرک بغلام مظھر الحق والعلٰیط کانّ اللہ نزل من السّمآء۔
غلام احمد قادیانی، حقیقۃالوحی: 95مندرجہ روحانی خزائن، 22: 98، 99
’’ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا گویا آسمان سے خدا اترے گا۔‘‘
یہاں آ کر تو مرزا قادیانی متانت و شائستگی کی تمام حدود پھلانگ گیا۔ اس مقام پر بسوخت عقل زحیرت کہ ایںچہ بوالعجبیست کہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
مرزا صاحب ’’براہینِ احمدیہ‘‘ میں یہ گل کھلاتے ہیں:
1۔ ’’اور در حقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابلِ بیان نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 64، روحانی خزائن، 21: 81
اس پوشیدہ تعلق کی وضاحت مرزا صاحب کا ایک پیروکار قاضی یار محمد قادیانی بایں الفاظ کرتا ہے:
2۔ ’’حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمدقادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔‘‘ (معاذاللہ)
قاضی یار محمد قادیانی، اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر، 34، ص: 13
یہ کلمہ یقینا شیطان کی وسوسہ اندازی کی معراج کا مظہر ہے جس نے مرزا کے نہاں خانہ ذہن میں ایسے بیہودہ خیال کی میخ لگا دی۔ اس سے دل میں یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید مرزا صاحب کے ذہنی توازن میںخاصہ خلل واقع ہو گیا تھا اور وہ ترنگ میں آ کر ایسے کفریہ کلمات بکنے لگتے جن کی کسی جاہل، ان پڑھ کلمہ گو سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ خدا تعالیٰ کے لیے ایسے نازیبا اور بیہودہ الفاظ استعمال کرنا اور قومِ لوط کے اس فعل کا اپنی طرف منسوب کرنا مرزا صاحب کی بدترین مریضانہ ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔
آگے چل کر وہ اپنی اسی نفسیاتی مریضانہ کیفیت کے باعث ایک اور انکشاف کرتے ہیں:
3۔ ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب کے آخر براہین کے حصہ چہارم صفحہ نمبر 558 میں درج ہے۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اسی طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کشتی نوح، : 47، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 50
4۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے جو بمنزلہ اطفال اللہ ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیۃ الوحی: مندرجہ روحانی خزائن، 22: 581
قرآن حکیم نے سورۂ اخلاص میں توحید باری تعالیٰ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے صراحتاً فرمایا ہے:
لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo
الاخلاص، 112: 3
’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo‘‘
نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہا، کفار مکہ نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا جبکہ مرزا سب سے آگے نکل گئے اور خود کو خدا کا بیٹا کہنے لگے۔ اپنے ایک خود ساختہ الہام میں لکھتے ہیں:
1۔ انت منی بمنزلۃ ولدی۔
(2) غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 86: مندرجہ روحانی خزائن، 22: 89
’’تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
2۔ اسمع ولدی۔
منظور الٰہی قادیانی، البشری، 1: 49
’’اے میرے بیٹے سُن!‘‘
3۔ میں نے تجھ سے ایک خرید و فروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا میں مالک بن گیا تو بھی اس خرید و فروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی، تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے ہوں۔
مرزا غلام احمد قادیانی، دافع البلاء: 8، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 228
4۔ أنت من ماء نا وہم من فشلٍ۔
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 496
’’تو ہمارے پانی سے ہے، اور وہ لوگ فشل سے۔‘‘
1۔ یحمدک اللہ من عرشہ ویمشی إلیک۔
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 81، 499
’’خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔‘‘
مرزا صاحب کو ان کے خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا:
1۔ اُصَلِّی وَ اَصُوْمُ اَسْھَرُ وَ اَناَمُ۔
1۔ البشریٰ، مجموعہ الہاماتِ مرزا، 2: 79،
2۔ مجموعہ اشتہارات، 3: 592، تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 474
’’میں نماز پڑھوں گا اور روزہ رکھوں گا اور افطار کروں گا جاگتا ہوں اور سوتا ہوں۔‘‘
اِنِّيْ مَعَ الْاَسْبَابِ اٰتِيْکَ بَغْتَةً اِنِّيْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِيْبُ اُخْطِيْ وَاُصِيْبُ اِنِّيْ مَعَ الرَّسُوْلِ مُحِيْطٌ۔
1۔ البشریٰ، مجموعہ الہاماتِ مرزا، 2: 79
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 475
’’میں اسباب کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا۔ خطا کروں گا اور بھلائی کروں گا۔ اپنے رسول کے ساتھ محیط ہوں۔‘‘
مرزا صاحب کی مذکورہ بالا عبارات سے ظاہر ہے کہ ان کا خدا وہ نہیں جو مسلمانوں کا ہے، کیونکہ مسلمانوں کا خدا ان تمام صفات سے منزہ ہے جو انہوں نے بیان کی ہیں۔ اس خدا کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ کوئی مثیل۔ جب مرزا کا مسلمانوں کے خدا سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا تو عیاں را چہ بیاں کے مصداق ان کا اسلام سے بھی کوئی واسطہ نہ رہا۔ خود مرزا صاحب اور ان کے پیروکار ضروریات دین کے انکار کے باعث دائرہ اسلام سے نکل گئے۔ مسلمان فقط وہ ہے جو ضروریات دین کو تمام تر لوازم و شرائط کے ساتھ مانتا ہے اور جو ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے گا وہ کافرہے اور جو سرے سے خدا کا ہی انکار کر دے، بلکہ اپنی ذات میں خدائی صفات پائے جانے کا دعویٰ کرے تو اس کے کفر میں کیا کسر باقی رہ جاتی ہے۔ سو مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کے کافر ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں رہ جاتا۔
خدائے عزوجل کی شان میں ہرزہ سرائی کے بعد مرزا اور اس کے حواریوں نے اس ذات کو اہانت کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جو بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کی مصداق ہے۔ بطور نمونہ چند عبارات درج ذیل ہیں:
1۔ ’’پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 3، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 207
2۔ ’’خدا تعالیٰ نے آج سے 26 برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 67، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 502
3۔ ’’نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرتِ صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے بلکہ اُسی کے جلال کے لیے۔ اسی لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گو بروزی طور پر مگر کسی اور کو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 4، روحانی خزائن: 18: 207، 208
4۔ ’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود (مرزا قادیانی) اور نبی کریم ﷺ میں کوئی دوئی باقی نہیں حتی کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ صار وجودی وجودہ (دیکھو خطبہ الہامیہ: 171) اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسیح موعود (مرزا قادیانی) میری قبر میں دفن کیا جائے گا جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود (مرزا قادیانی) نبی کریم ﷺ سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کے کام پورے کرے اور ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیان باطلہ پر اتمام حجت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچا دے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منہم لما یلحقوا بھم میں فرمایا تھا۔‘‘
بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ قادیان، ص: 105، نمبر: 4، جلد: 14
5۔ ’’اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں جیسا کہ وہ (مرزا صاحب) خود فرماتا ہے: صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وما رانی اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت اخرین و منہم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود (مرزا صاحب) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔‘‘
بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ قادیان، ص: 158، نمبر: 4، جلد: 14
6۔ مرزا قادیانی کے خاص مرید قاضی ظہور الدین اکمل نے مرزا صاحب کی شان میں ایک نظم لکھی جسے انہوں نے خوب سراہا۔ اس کے دو شعر درج ذیل ہیں:
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
از قاضی محمد ظہور الدین اکمل قادیانی، منقول از اخبار ’’پیغام صلح‘‘ مورخہ، 14 مارچ، 1916ئ، اخبار ’’بدر‘‘ قادیان، نمبر 43، ج 2، 25 اکتوبر 1906ئ، رضی اللہ عنہ 4
7۔ ’’اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں۔ نہ نیا نبی نہ پرانا بلکہ خود محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے ہیں۔‘‘
ارشاد مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان، نمبر، 30 نومبر 1901ء
8۔ ’’اب معاملہ صاف ہے اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود کا انکار بھی کفر ہونا چاہئے کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے۔ اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول حضرت مسیح موعود آپ کی روحانیت اقوی اور اکمل اور اشد ہے۔ آپ کا انکار کفر ہو۔‘‘
بشیر احمدقادیانی، کلمۃ الفصل‘‘ مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ رضی اللہ عنہ 146۔ 147، نمبر 3، جلد 14
مرزا غلام احمد قادیانی نے سورۃ الصف میں مذکور حضور نبی اکرم ﷺ کے اسم مبارک احمد کا مصداق خود کو قرار دینے کی بھونڈی گستاخی کی، جس کا ثبوت درج ذیل عبارات ہیں:
1۔ ’’اور جیسا کہ آیت و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا آخر زمانہ میں ایک مظہرظاہر ہو گا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہوگا جس کا نام آسمان پر احمد ہوگا۔‘‘
2۔ ’’خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں، یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں، اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں۔ اب اسم احمد کا نمونہ ظاہر کرنے کا وقت ہے یعنی جمالی طور کی خدمات کے ایام ہیں اور اخلاقی کمالات کے ظاہر کرنے کا زمانہ ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین نمبر 4: 17، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 445، 446
3۔ ’’وسمّانی ربی أحمد فاحمدونی فلا تشتمونی (میرے رب نے میرا نام احمد رکھا ہے، پس میری تعریف کرو اور مجھے دشنام مت دو اور اپنے امر کو ناامیدی کے درجہ تک مت پہنچاؤ اور جس نے میری تعریف کی اور کوئی قسم کی تعریف نہ چھوڑی تو اس نے سچ بولا اور جھوٹ کا ارتکاب نہ کیا اور جس نے اس بیان کو جھٹلایا، پس اس نے جھوٹ بولا ہے اور اپنے خدا کے غصے کو بھڑکایا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانیِ خطبہ الہامیہ: 20، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 53
4۔ ’’اور اس آنے والے کا نام جو احمدرکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں اسی کی طرف یہ اشارہ ہے: ومبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد مگر ہمارے نبی فقط احمد ہی نہیں محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں لیکن آخری زمانہ میں بر طبق پیش گوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام حصہ دوم: 673، روحانی خزائن، 3: 463
5۔ مرزا محمود صاحب اس کی تائید میں لکھتے ہیں:
’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا یا آنحضرت ﷺ کا … اور کیا سورۃ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہو گا بشارت دی گئی ہے، آنحضرت ﷺ کے متعلق ہے یا حضرت مسیح موعود کے متعلق؟ میرا یہ عقیدہ ہے کہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں۔‘‘
مرزا محمود، انوار خلافت: 18
6۔ ’’ان تمام الہامات میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو احمد کے نام سے پکارا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود بیعت لیتے وقت یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ ’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں‘‘ پر اس پر بس نہیں جبکہ آپ نے اپنی جماعت کا نام بھی احمدی جماعت رکھا۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ آپ احمد تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، کلمۃ الفصل:، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز، قادیان: 139، نمبر: 3، ج: 14
7۔ ’’اب یہاں سوال ہوتا ہے کہ وہ کون سا رسول ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آیا اور اس کا نام احمد ہے۔ میرا اپنا دعویٰ ہے اور میں نے یہ دعویٰ یوں ہی نہیں کر دیا بلکہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح اول نے بھی یہ ہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں چنانچہ ان کے درسوں کے نوٹوں میں یہی چھپا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس آیت (اسمہ احمد) کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں۔‘‘
مرزا محمود احمد، انوار خلافت: 21
1۔ ’’ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے۔ کسی کو بہت، کسی کو کم مگر مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ ﷺ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے۔ پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔‘‘
بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ قادیان، ص: 113، نمبر: 4، جلد: 14
2۔ ’’الغرض مسیح موعود کی تحریروں سے یہ بات پختہ طور سے ثابت ہو رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود یقینا محمد تھے اور آپ کو چونکہ آنحضرت صلعم کا بروزی وجود عطا کیا گیا تھا اس لیے آپ عین محمد تھے اور آپ میں جمیع کمالاتِ محمدیہ کامل طور پر منعکس تھے۔ پس اس لیے آپ کے عین محمد ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ایسا ہونا قدیم سے مقدر تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک بروز محمد جمیع کمالات محمدی کے ساتھ مبعوث ہوگا۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ج: 3، نمبر: 37، مورخہ 16 ستمبر 1915ء
1۔ ’’اس (نبی کریم ﷺ) کے لیے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا، اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘
غلام احمد قادیانی، اعجاز احمدی: 71، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 183
2۔ ’’اور جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 271، 272
3۔ ’’ہمارے نبی کریم ﷺ کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کا انتہا نہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لیے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت (مرزا کے زمانہ میں) پوری طرح سے تجلی فرمائی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 177، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 266
4۔ ’’اور ظاہر ہے کہ فتح مبین کا وقت ہمارے نبی کریم کے زمانہ میں گزر گیا اور دوسری فتح باقی رہی کہ پہلے غلبہ سے بہت بڑی اور زیادہ ظاہر ہے اور مقدر تھا کہ اس کا وقت مسیح موعود کا وقت ہو اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ کے اس قول میں اشارہ ہے: سبحان الذی اسری…۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 288
5۔ ’’اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت ﷺ پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے سترباع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابتہ الارض کی ماہیت کماہی ہی ظاہر فرمائی گئی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام، حصہ دوم: 691، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 473
6۔ ’’غرض اس زمانہ کا نام جس میں (ہم) ہیں زمان البرکات ہے لیکن ہمارے نبی ﷺ کا زمانہ فرمان التائیدات اور دفع الافات تھا۔‘‘
اشتہار مرزا غلام احمد قادیانی، مورخہ 28 مئی 1900ء مجموعہ اشتہارات، 3: 92۔ حاشیہ مندرجہ تبلیغ رسالت، 9: 44
7۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتی کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘
1۔ ’’میاں محمود احمد، خلیفہ قادیان ڈائری مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘
جلد 10، نمبر 50، رضی اللہ عنہ 5، مورخہ 17، جولائی 1922ء
2۔ قول خلیفۃ المسیح۔ اخبار الفضل، 17 جولائی1922
8۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا… اس زمانہ میں تمدنی ترقی زیادہ ہوئی ہے اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ پر حاصل ہے، نبی کریم ﷺ کی ذہنی استعدادوں کا پورا ظہور بوجہ تمدن کے نقص کے نہ ہوا اور نہ قابلیت تھی۔ اب تمدن کی ترقی سے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ (بعثت ثانی) ان کا پورا ظہور ہوا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کو موقع ملا اور ذہنی طاقتوں کی نشوونما ہو گئی چنانچہ آج کل باریک اقسام گناہ کی نکل آئی ہیں اور کئی باریک نیکیاں بھی ظاہر ہو رہی ہیں۔ مقابلہ زیادہ سخت ہے، لوگ اعلیٰ تربیت کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جن کا جواب بغیر ذہنی ترقی کے مشکل تھا۔ تلوار کے جہاد کے بجائے قلمی جہاد کا وقت ہے۔‘‘
مضمون از ڈاکٹر شاہنواز خاں، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز، قادیانی بابت ماہ مئی 1929ء
مرزا صاحب نے گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے خود کو درود و سلام کا مصداق قرار دیا ہے۔ اس حوالے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
1۔ صلّی اللہ علیک وعلی محمد۔
تذکرہ مجموعہ الہامات: 794
2۔ یُصلّون علیک صلحاء العرب و ابدالُ الشّام و تصلّی علیک الارضُ والسّماءُ و یَحمَدکَ اللهُ مِن عرشِهِ۔
تذکرہ مجموعہ الہامات: 168
’’تجھ پر عرب کے صلحاء اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے، زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔‘‘
3۔ ’’ان الہامات کے کئی مقامات میں اس خاکسار پر خدا تعالیٰ کی طرف سے صلٰوۃ اور سلام ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین، 212، روحانی خزائن، 17: 368
4۔ ایک قادیانی شاعر مرزا کی مدح میں یوں رقمطراز ہے:
اے امام الوریٰ سلام علیک
مہ بدر الدجے سلام علیک
مہدی عہد و عیسیٰ موعود
احمد مجتبیٰ سلام علیک
مطلع قادیاں پہ تو چمکا
ہو کے شمس الہدیٰ سلام علیک
تیرے آنے سے سب نبی آئے
مظہر الانبیاء سلام علیک
مسقط وحی مہبط جبرئیل
سدرۃ المنتہیٰ سلام علیک
کفر کی شب کو کر دیا کافور
مثل شمس الضحیٰ سلام علیک
مانتے ہیں تیری رسالت کو
اے رسول خدا سلام علیک
اہل عالم کا تو مطاع ہوا
مظہر مصطفی سلام علیک
تیرے ہاتھوں میں سیف قرآں ہے
اے شہے لافتی سلام علیک
ہے مصدق تیرا کلام خدا
اے مرے میرزا سلام علیک
تیرے ملنے سے مل گیا مولیٰ
احمد حق نما سلام علیک
تیرے یوسف کا تحفہ صبح و مسا
ہے درود و دعا سلام علیک
قاضی محمد یوسف قادیانی، روزنامہ الفضل قادیان، 30 جون 1920ء
1۔ ’’اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی اکرم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا یہی معنی آخرین منھم کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: مندرجہ روحانی خزائن، 16: 258، 259
1۔ ’’ہمارے نبی کریم ﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے ایسا ہی مسیح موعود بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے۔‘‘
خطبہ الہامیہ: 180، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 270
2۔ ’’پس ان معنوں میں مسیح موعود (جو آنحضرت کے بعث ثانی کے ظہور کا ذریعہ ہے) کے احمد اور نبی اللہ ہونے سے انکار کرنا گویا آنحضرت کے بعث ثانی اور آپ کے احمد اور نبی اللہ ہونے سے انکار کرنا ہے جو منکر کو دائرہ اسلام سے خارج اور پکا کافر بنا دینے والا ہے۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ج 3، نمبر 3، مورخہ 29، جون 1915ء
3۔ ’’اور آنحضرت کی بعثت اول میں آپ کے منکروں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا لیکن آپ کی بعثت ثانی میں آپ کے منکروں کو داخل اسلام سمجھنا یہ آنحضرت کی ہتک اور آیات سے استہزاء ہے۔ حالانکہ خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود نے آنحضرت کی بعثت اول و ثانی کی باہمی نسبت کو ہلال اور بدر کی نسبت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے لازم آتا ہے کہ بعثت ثانی کے کافر کفر میں بعث اول کے کافروں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مسیح موعود کی جماعت و اخرین منھم کی مصداق ہونے سے آنحضرت کے صحابہ میں داخل ہے۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ج3، نمبر 10، مورخہ 15، جولائی 1915ء
1۔ ’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی ﷺ سے ظہور میں آئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 67، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 153
2۔ ’’بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی ﷺ کے باقی تمام انبیاء میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے اور خدا نے اپنی حجت پوری کر دی ہے اب چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 136، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 574
3۔ میری تائید میں اس (خدا) نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ… اگر میں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔
غلام احمد قادیانی حقیقۃ الوحی: 67، روحانی خزائن، 22: 70
4۔ ’’ان چند سطروں میں جو پیشگوئیاں ہیںوہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 56، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 72
5۔ ’’اور درحقیقت یہ خارق عادت نشان ہیں اور اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی ان کا شمار کیا جائے تب بھی یہ نشان جو ظاہر ہوئے دس لاکھ سے زائد ہوں گے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 56، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 72
6۔ ’’اور خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اس لیے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لیے ہزارہا نشان ایک جگہ جمع کر دیے لیکن پھر بھی جو انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 317، روحانی خزائن، 23: 332
7۔ ’’میرے خدا نے عین صدی کے سر پر مجھے مامور فرمایا اور جس قدر دلائل میرے سچا ماننے کے لیے ضروری تھے وہ سب دلائل تمہارے لیے مہیا کر دیئے اور آسمان سے لے کر زمین تک میرے لیے نشان ظاہر کیے اور تمام نبیوں نے ابتداء سے آج تک میرے لیے خبریں دی ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تذکرۃ الشہادتین: 63، روحانی خزائن، 20: 64
’’امتیازی نشان جس سے وہ شناخت کیا جاتا ہے پس یقیناً سمجھو کہ سچا مذہب اور حقیقی راست باز ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 58، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 63
1۔ ’’اور اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجامِ کار آخر زمانہ میں بدر ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے پس خدا تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدر میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کے رو سے بدر کی مشابہ ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 184، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 275
2۔ ’’اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جمالی نام ہے اور احمد جمالی، احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کے رو سے ایک ہی ہیں اسی کی طرف یہ اشارہ ہے و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد مگر ہمارے نبی ﷺ فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیش گوئی مجرد احمدجو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 673، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 463
4۔ ’’اب دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیاکہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے۔ اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا۔ بدر پر ایسے عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں۔ اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایما ہے اور یہ کہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لیے عورتیں تک کہتی ہیں کہ چودھویں صدی خیر و برکت کی آئے گی۔ خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیش گوئی تھی جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سلام کہا مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو اس کو دوکاندار خودغرض کہا گیا۔‘‘
مرزا غلام احمد قایانی، مندرجہ ملفوظات احمدیہ، 1: 163
’’حافظ محمد ابراہیم نے مجھ سے بیان کیا کہ 1903ء کا واقعہ ہے کہ میں ایک دن مسجد مبارک کے پاس والے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی عبدالکریم مرحوم تشریف لائے اور اندر سے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) بھی تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر میں مولوی محمد احسن امروہی بھی آ گئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود سے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کے خلاف بعض باتیں بطور شکایت بیان کرنے لگے اس پر مولوی عبدالکریم کو جوش آگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہر دو کی ایک دوسرے کے خلاف آوازیں بلند ہو گئیں اور آواز کمرے سے باہر جانے لگی۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (یعنی اے مومنو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز کے سامنے بلند نہ کیا کرو) اس حکم کے سنتے ہی مولوی عبدالکریم تو فوراً خاموش ہو گئے اور مولوی محمد احسن تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ اپنا جوش نکالتے رہے اور حضرت اقدس وہاں سے اٹھ کر ظہر کی نماز کے واسطے مسجد مبارک میں تشریف لے آئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 2: 30
حلفیہ بیان محمد ابراہیم قادیانی مندرجہ رسالہ ’’فرقان‘‘ قادیان، جلد: 1، ص: 10، بابت
اکتوبر 1942ء
مرزائے قادیان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں نازل ہونے والی وحی الٰہی کو اپنے سے منسوب کر لیا، وہ آیات قرآنی جن کے مفہوم کو مرزا صاحب نے اپنی ارذل ترین ذات کی قبا پر چسپاں کر لیا ان میں سے چند ایک ذیل میں مع حوالوں کے دی جاتی ہیں:
1۔ ’’چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہینِ احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں، ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے: ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ دیکھو ص: 498 ’’براہین احمدیہ‘‘۔ اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے پھر… اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے: محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی … اسی طرح ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 2، روحانی خزائن، 18: 207
2۔ ’’مجھے بتلایا گیا تھا تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے: ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اعجاز احمدی: 7، ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن، 29: 113
3۔ انا اعطیناک الکوثر، فصل لربک وانحر، ان شانئک ھو الابتر۔
تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا: 281، 282
4۔ و رفعنا لک ذکرک۔
تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 282
5۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 621
6۔ و داعیا الی اللہ و سراجا منیرا۔
(3) تذکرہ مجموعہ الہامات: 626
7۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔
تذکرہ مجموعہ الہامات: 634
8۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔
تذکرہ مجموعہ الہامات: 634
9۔ قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا (ای مرسل من اللہ)۔
’’کہہ (اے غلام احمد) اے تمام لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں۔‘‘
منظور الٰہی قادیانی، البشری، 2: 56
10۔ وما ینطق عن الھوی ان ہو الا وحی یوحی۔
غلام احمد قادیانی، اربعین، 3: 36
’’اور یہ (مرزا صاحب) اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے۔‘‘
11۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔
غلام احمد قادیانی، اربعین، 3: 32۔ 61
’’اور ہم نے دنیا پر رحمت کے لیے تجھے بھیجا ہے۔‘‘
12۔ ما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 70
13۔ الرحمن علم القرآن۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 70
14۔ قل انی امرت وانا اول المومنین۔
(3) غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 70
15۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 71
16۔ داعیا الی اللہ سراجا منیرا۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 75
17۔ دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 76
18۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 78
19۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 79
20۔ ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یدﷲ فوق ایدیہم۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 80
21۔ سلام علی ابراہیم۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 87
22۔ فاتخذوا من مقام ابراہیم مصلی۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 88
23۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 94
24۔ انا اسلنا الیکم رسولا شاہدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 101
25۔ انا اعطیناک الکوثر۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 102
26۔ اراد اللہ ان یبعثک مقاما محمودا۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 102
27۔ یس والقران الحکیم، انک لمن المرسلین، علی صراط مستقیم۔
غلام احمد قادیا نی، حقیقت الوحی: 107
1۔ ’’میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وآخرین منھم لما یلحقوبھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے 20 برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور پر آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
ایک غلطی کا ازالہ: 10، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 212
2۔ ’’مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، کشتی نوح: 56، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 61
انبیاء کرام کائنات کی بزرگ ترین، مقدس ترین اور افضل ترین شخصیات ہیں۔ تمام انبیاء کرام براہ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے منتخب بندے ہیں۔ انہیں ہر غلطی، کوتاہی اور خطا سے پاک اور معصوم رکھا گیا۔ ان کی سیرت و کردار میں انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہر مذہب اور قوم کے نزدیک ہر نبی قابل احترام اور لائق تعظیم ہے۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا اور بلا تفریق سب کا ادب و احترام کرنا اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے یہ امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ حضرت آد م علیہ السلام سے لے کر سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ تک کسی بھی نبی کی توہین کفر ہے۔ مگر مرزا صاحب کی نظر میں ان مقدس ہستیوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ انہوں نے انتہائی دیدہ دلیری اور جسارت کے ساتھ تمام انبیاء کرام علیھم السّلام کی پاکیزہ ذوات کو طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ بنایا، خود کو ان سے افضل قرار دیا اور جابجا ان کی تنقیص و توہین کے مرتکب ہوئے۔ حالانکہ خود ان کے نزدیک انبیاء کرام کی تحقیر، معصیت اور غضب الٰہی کا موجب اور کفر کا باعث ہے۔
مرزا صاحب اپنی دریدہ د ہنی کے باوصف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:
’’اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے اور سب پر ایمان لانا فرض ہے … کسی نبی کی اشارہ سے بھی تحقیر سخت معصیت ہے اور موجب نزول غضب الٰہی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 390، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 390
ستم ظریفی یہ کہ اسی قلم سے جو انگریز کے لیے رطب اللساں رہتا ہے انبیاء کرام علیھم السّلام کی شان میں ایسے ایسے توہین آمیز جملے نکلے ہیں کہ کسی مسلمان کے قلم سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
درج ذیل چند اقتباسات کی روشنی میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ آیا مرزا صاحب خود اپنے بقول دائرۂ اسلام سے نکل کر دائرۂ کفر میں داخل ہوئے یا نہیں؟
مرزا صاحب کذب و افتراء سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
1۔ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیھم السّلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی، حاشیہ، ص: 73، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 76
2۔ ’’اور دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا سو جیسا کہ براھین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے۔ میں آدم علیہ السلام ہوں، میں نوح علیہ السلام ہوں میں ابراہیم علیہ السلام ہوں میـں اسحاق علیہ السلام ہوں میں یعقوب علیہ السلام ہوں، میں اسمعیل علیہ السلام ہوں میں موسیٰ علیہ السلام ہوں میں داؤد علیہ السلام ہوں میں عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم ہوں میں محمد ﷺ ہوں یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دیئے اور میری نسبت جری اللہ فی حلل الأنبیاء فرمایا یعنی خدا کا رسول پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 84، 85، روحانی خزائن 22: 521
3۔ اپنے ایک شعر میں کہا:
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 100
انبیاء گرچہ بودند بسے
من بعرفان نہ کمترم ز کسے
آدمم نیز احمد مختار
در برم جامہ ہمہ ابرار
آنچہ داد ست ہر نبی را جام
داد آن جام را مرا بہ تمام
زندہ شد ہر نبی بآمدنم
ہر رسولے نہاں بہ پیراہنم کم نیم زاں
ہمہ بروئے یقیں
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
غلام احمد قادیانی’’در ثمین‘‘: 287۔ 288، ’’نزول المسیح‘‘: 99۔ 100، ’’روحانی خزائن‘‘ 18: 477۔ 478
’’انبیاء اگرچہ بہت سے ہوئے ہیں
میں عرفان میں کسی سے کم نہیں ہوں
میں آدم ہوں اور احمد مختار بھی ہوں
میں تمام نیکوں کے لباس میں ہوں
خدا نے ہر نبی کو جو جام دیا تھا
وہ تمام کے تمام جام مجھے دے دیئے ہیں
ہر نبی میری آمد سے زندہ ہو گیا
ہر رسول میری قمیص میں چھپا ہوا ہے
مجھے اپنی وحی پر مکمل یقین ہے (اور اس یقین میں کسی نبی سے کم تر
نہیں ہوں)
جو جھوٹ کہے وہ لعین ہے‘‘
’’پس اب کیا یہ پرلے درجے کی بے غیرتی نہیں کہ جہاں لا نفرق بین احد من رسلہ میں داؤد اور سلیمان اور زکریا و یحی علیھم السلام کو شامل کرتے ہیں، وہاں مسیح موعود جسیے عظیم الشان نبی کو چھوڑ دیا جاوے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل مندرجہ رسالہ ریویوآف ریلیجنز، ج: 14: ص: 117، نمبر: 3
مرزا صاحب کے بیٹے مرزا محمود لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو جو بلحاظ مدارج کئی نبیوں سے افضل ہیں اور صرف محمد کے نائب ہو کر ایسے مقام پر پہنچے کہ نبیوں کو بھی اس مقام کا رشک ہے۔‘‘
خطبہ مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ج: 20، ص: 7، نمبر: 93، مورخہ 5 فروری 1933ء
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی صفات کو اپنی طرف منسوب کرنے کی جسارت کرتے ہوئے لکھا:
’’انت مني بمنزلۃ موسیٰ اور پھر اسی براہین احمدیہ میں میرا نام موسیٰ رکھ کر فرمایا: ولما تجلی ربّہ للجبل جعلہ دکا و خرّ موسیٰ صعقًا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 84، روحانی خزائن22: 520
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جن کا کم و بیش 25 مرتبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ذکر فرمایا ہے، اسی طرح ان کی والدہ ماجدہ کا بھی کم و بیش 32 مرتبہ تذکرہ کلام الهٰی میں فرمایا۔ دیگر انبیاء کرام کے مقابلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کچھ ایسی خصوصیات کے بھی حامل ہیں جن میں کوئی اور نبی ان کا شریک نہیں، جیسے بن باپ کے پیدا ہونا، گہوارے میں کلام کرنا زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانا اور قرب قیامت دوبارہ دنیا میں تشریف لانا وغیرہ۔ آپ علیہ السلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وہ برگزیدہ پیغمبر ہیں کہ جنہیں کلمۃ اللہ کہا گیا اور صالحیت کی سند عطا کی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓـئِکَةُ یٰـمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِيْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَo وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَo
آل عمرآن، 3: 45، 46
’’جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمہ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم (علیھما السّلام) ہو گا وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگاo اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہوگاo‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس عظیم المرتبت نبی کے بارے میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی نے ایسے نازیبا کلمات کہے ہیں کہ جن کو سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مرزا صاحب کو کوئی ذاتی قد ہے اور ایک لحاظ سے یہ قابل فہم بھی ہے کہ جب تک مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ ثابت نہ کرتے ان کا کاروبارِ نبوت اور دعویٰ مسیح موعود نہ چل سکتا۔ چنانچہ اپنی راہیں صاف کرنے کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ پیغمبر سے دشمنی کا وتیرہ اپنایا۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے کہ یہی مرزا صاحب لکھ چکے ہیں:
و من زاد علی ھذہ الشریعۃ مثقال ذرۃ او نقص منھا او کفر بعقیدۃ اجماعیۃ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین۔
غلام احمد قادیانی، انجام آتھم: 144، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 144
’’جو شخص شریعت محمدی میں ذرہ بھر کمی بیشی کرے یا کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔‘‘
1۔ ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا، اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔‘‘
غلام احمد قادیا نی، حاشیہ انجام آتھم: 6، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 290
2۔ ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور پر ایسے طریق پر اطلاع دے دی جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے اور جیسے انسان میں قویٰ موجود ہوں انہیں کے موافق اعجاز کے طور پر بھی مدد ملتی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 154، 155مندرجہ روحانی خزائن، 3: 254، 255
یہاں مرزا قادیانی یہودیت کی مسخ شدہ تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے مسیحں کو کلمۃ اللہ ماننے کی بجائے ان کا باپ یوسف کو ثابت کرتا ہے۔ گویا وہ بدبخت نہ صرف صدیقہ و طاہرہ سیدہ مریم علیھا السّلام پر ایک گھناؤنا الزام لگا رہا ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارشادات کا بھی صاف انکاری ہے، علامہ اقبالؒ نے مرزائیت کے یہی نقوش دیکھ کر سچ کہا تھا کہ قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔
3۔ ’’میں سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام: 2
مرزا صاحب پستی کی اس حد تک گر گئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر چوری کا الزا م لگانے سے بھی گریز نہ کیا:
’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، انجام آتھم: 6، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 290
پھر مسیح دشمنی میں اس حد تک چلے گئے کہ گالی گلوچ کی عادت ان سے منسوب کر ڈالی:
’’ہاں آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
حاشیہ انجام آتھم: 5، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 289
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جھوٹ بولنے کی عادت منسوب کرتے ہوئے کہا:
’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
حاشیہ انجام آتھم: 5، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 289
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر شراب خوری کا الزام لگاتے ہوئے کہا:
1۔ ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے، اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
حاشیہ کشتی نوح: 94، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 71
2۔ ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کیلیے افیون مفید ہوتی ہے پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی ہمدردی فرمائی لیکن اگر ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کرکے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نسیم دعوت: 69، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 434، 435
3۔ ’’یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ست بچن حاشیہ: 172، مندرجہ روحانی خزائن، 10: 296
انہی مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کو بھی معاف نہ کیا اور کہا:
’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار تھیں اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر شاید یہ بھی خدائی کے لیے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں کے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہو سکتا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، انجام آتھم: 7، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 291
تہذیب و شائستگی کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے یہاں تک اتر آئے کہ آپ علیہ السلام پر کنجریوں کی صحبت کا الزام لگا دیا:
1۔ ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور نہیں سنا گیا کہ فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحيٰ کا نام حصور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
مقدمہ دافع البلاء: 4، مندرجہ روحانی خزائن: 18: 220
2۔ ’’یہ لوگ بار بار ملزم اور لا جواب ہو کر پھر نیشن زنی سے باز نہیں آتے اور اس شخص کو تمام عیبوں سے مبرا سمجھتے ہیں جس نے خود اقرار کیا کہ میں نیک نہیں اور جس نے شرابخوری اور قمار بازی اور کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر بلکہ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کمائی کا تیل ڈلوا کر اور اس کو یہ موقعہ دے کر کہ وہ اس کے بدن سے بدن لگاوے اپنی تمام امت کو اجازت دے دی کہ ان باتوں میں کوئی بات بھی حرام نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، انجام آتھم: 38، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 38
1۔ ’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 353، مندرجہ روحانی خزائن، 15: 481
2۔ ’’مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعود ہونے کا کیوں دعویٰ کیا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسیٰ سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے، میں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو۔ پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے۔ کفر خود تمہارے اندر ہے۔ اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم تو ایسا کفر منہ پر نہ لاتے۔ خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ مسیحی: 16، 17، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 354، 355
3۔ ’’خلاصہ کلام یہ کہ چونکہ میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اسی کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لیے تھی، اس لیے مجھے وہ قوتیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لیے ضروری تھیں تو پھر اس امر میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لیے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کی قوت دی۔ وھذا تحدیث نعمۃ اللہ ولا فخر… انسانی مراتب پرد ۂ غیب میں ہیں، اس بات میں بگڑنا اور منہ بنانا اچھا نہیں کیا جس قادر مطلق نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا، وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقت الوحی: 153، روحانی خزائن، 22: 157
4۔ ’’خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا جو اس سے پہلے مسیح سے اپنی شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام، جو میں کر سکتا ہوں، وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ ہرگز نہ دکھلا سکتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، غلام احمد قادیانی، حقیقت الوحی‘‘: 148
5۔ ’’پھر جبکہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے پھر تو یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقت الوحی: 155، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 159
6۔ ’’اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے جو غلام احمد ہے…۔‘‘ اس کے بعد چند اشعار لکھتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے۔
غلام احمد قادیانی، دافع البلاء: 20، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 240
7۔ مرزا صاحب اپنی ایک فارسی نظم میں اس لن ترانی کا اظہار یوں کرتے ہیں:
اینک منم کہ حسبِ بشارات آمدم
عیسیٰ کجا ست تا بہ نہد پا بہ منبرم
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام: 158
’’یہ میں ہوں جو بشارتوں کے مطابق آیا ہوں، عیسیٰ کی کیا مجال کہ وہ میرے منبر پر پاؤں رکھ سکے۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو غیر اخلاقی حملوں کا نشانہ بنانے کے بعد سیدہ مریم علیہا السلام کی کردار کشی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی:
’’اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تیئں نکاح سے روکا پھر بزرگانِ قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آئے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کشتی نوح: 20، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 18
2۔ ’’پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرئیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خواتین سرحدی کے بعض قبائل میں یہ مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے حتی کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے حمل بھی ہو جاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیںجس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایام صلح، حاشیہ: 74، مندرجہ روحانی خزائن، 14: 300
مرزائے قادیاں نے ابو الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کی شان میں افترا پردازی اور زباں درازی میں کوئی کمی نہ کی:
1۔ ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کر کے انہیں ذی روح انس و جن پر سردار، حاکم اور امیر بنایا جیسا کہ آیت اسجد والادم سے معلوم ہوتا ہے پھر شیطان نے انہیں بہکایا اور جنتوں سے نکلوا دیا اور حکومت اس اژدھے کی طرف لوٹائی گئی۔ اس جنگ و جدال میں آدم کو ذلت و رسوائی نصیب ہوئی اور جنگ کبھی اس رخ اور کبھی اس رخ ہوتی ہے اور رحمن کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے نیک انجام ہے۔ اس لیے اللہ نے مسیح موعود کو پیدا کیا تاکہ آخر زمانہ میں شیطان کو شکست دے اور یہ وعدہ قرآن میں لکھا ہوا تھا۔‘‘
ما الفرق فی آدم والمسیح الموعود۔
خطبہ الہامیہ، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 312
2۔ ’’آدم اس لیے آیا کہ نفوس کو اس دنیا کی زندگی کی طرف بھیجے اور ان میں اختلاف اور عداوت کی آگ بھڑکائے اور مسیح امم اس لیے آیا کہ ان کو دار فنا کی طرف لوٹائے اور ان میں سے اختلاف و مخاصمت، تفرقہ اور پراگندگی کو دور کرے اور انہیں اتحاد و محویت، نفی غیر اور باہمی اخلاص کی طرف کھینچے اور مسیح اللہ کے اسم کا مظہر ہے جو خاتم سلسلہ مخلوقات ہے یعنی آخر جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول ھو الاخر میں اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ وہ کائنات کے آخر ہونے کی نشانی ہے۔ ما الفرق فی آدم والمسیح الموعود۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ضمیمہ خطبہ الہامیہ رضی اللہ عنہ الف، روحانی خزائن، 16: 308
3۔ ’’لاجرم خدا نے مجھ کو آدم بنایا اور مجھ کو وہ سب چیزیں بخشیں اور مجھ کو خاتم النبیین اور سید المرسلین کا بروز بنایا اور بھید اس میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ فرمایا تھا کہ اس آدم کو پیدا کرے گا جو آخری زمانہ میں خاتم الخلفاء ہو گا، جیسا کہ زمانہ کے شروع میں اس آدم کو پیدا کیا جو اس کا پہلا خلیفہ تھا اور یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ فطرۃ کا دائرہ گول ہو جائے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ’’خطبہ الہامیہ‘‘: 167، مندرجہ روحانی خزائن، 16: 254
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دیگر انبیاء علیھم السلام کی توہین و تنقیص میں مرزا کی جسارتیں بھی کم نہیں، ان میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
1۔ ’’اور خدا تعالیٰ میرے لیے اس کثرت سے نشان دکھلا رہا ہے کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے مگر میں ان لوگوں کو کس سے مثال دوں۔ وہ اس خیرہ طبع انسان کی طرح ہیں جو روز روشن کو دیکھ کر پھر بھی اس بات پر ضد کرتا ہے کہ رات ہے، دن نہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقت الوحی: 137، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 575
2۔ ’’اور یہ جو فرمایا کہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ ابراہیم جو بھیجا گیا ہے۔ تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کے طرز پر بجا لاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جیسا کہ آیت مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہو گا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہو گا جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا۔ ایسا ہی یہ آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین نمبر3: 31، روحانی خزائن، 17: 421
’’پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزا غلام احمد قادیانی) اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا اور اس امت کے یوسف (مرزا غلام احمد قادیانی) کی بریت کے لیے پچیس برس پہلے ہی خدا نے آپ گواہی دے دی اور بھی نشان دکھلائے مگر یوسف بن یعقوب اپنی بریت کے لیے انسانی گواہی کا محتاج ہوا۔‘‘
’’مرزا غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 76، 82، مندرجہ روحانی خزائن، 21: 99
مرزا قادیانی نے خود آیت قرآنی میں معنوی تحریف کرتے ہوئے خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام پر لا کھڑا کیا۔
’’اوریہ جو فرمایا کہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا ہے تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لاؤ اور ہرایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جیسا کہ آیت و مبشرًا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہو گا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہو گا جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پردین کو پھیلائے گا۔ ایسا ہی یہ آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیّٰ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا جو اس ابراہیم کا پیرو ہوگا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین، 3: 38، 69، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 121، 420
مرزا صاحب مختلف طریقوں سے قرآن مجید کی توہین کے مرتکب ہوئے۔ ان کی کتابوں سے درج ذیل چند اقتباسات اس پر شاہد ہیں:
’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘
تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا: 635
’’ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دُنیا سے اُٹھ گیا ہے۔ اسی لیے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ (مرزا قادیانی) کو بروزی طور پر دوبارہ دُنیا میں مبعوث کرکے آپ پر قرآن شریف اُتارا جائے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، کلمۃ الفصل: 173
مرزا صاحب اپنا ایک الہام درج کرتے ہیں:
انا انزلناہ قریبا من القادیان۔
اس کی تفسیر یہ ہے کہ انا انزلناہ قریباً من دمشق بطرف شرقی عند المنارۃ البیضاء کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 76، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 140
’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیساکہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خداکا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے، خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 220، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 220
’’قرآن شریف کے لیے تین تجلیات ہیں۔ وہ سیدنا حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے… آنحضرت ﷺ کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ، 5: 53
مرزا صاحب اپنے ایک کشف کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انا انزلناہ قریباً من القادیان تو میں نے سن کر تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقعہ پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام، حاشیہ، 1: 77، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 140
مرزا نے قرآن حکیم کی شان میں دریدہ دہنی کرنے بعد احادیث نبوی ﷺ میں بھی ذَمّ کا پہلو نکالا، ملاحظہ ہو:
1۔ ’’میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں قرآن اور وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اعجاز احمدی: 30، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 140
2۔ اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہے، اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پا کر رد کر دے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 10، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 51
مرزا صاحب کی خرافات اور کفریہ تضحیک کے چند اقتباسات جو ہم نے نقل کیے ہیں اس قبیل کی عبارات قادیانی ذریّت کی سینکڑوں کتب میں موجود ہیں۔ ہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر طوالت کے خوف سے صرف چند پر اکتفا کیا ہے لیکن اس سے یہ بات بلا شک و شبہ ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ تمام عبارات مرزا غلام احمد قادیانی، ان کے جانشینوں اور پیروکاروں کے واضح کفریہ عقائد پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی ان کے کفر میں شک کرے تو پھر اس کے اپنے کافر ہونے میں رتی بھر احتمال کی گنجائش نہیں رہتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved