قرآنِ مجید ہدایتِ ربانی کا وہ اولین سرچشمہ ہے جس سے فیض یاب ہو کر انسان دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ یہ کتابِ مبین وہ آخری صحیفۂ آسمانی ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخر و اعظم ﷺ کو تما م مخلوقات کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ کتاب ہر قسم کے شکوک و شبہات سے کلیتاً پاک ہے۔ اس کا اعلان خود ذاتِ باری تعالیٰ نے اس کے آغازمیں ہی اپنے اس ارشاد میں فرما دیا ہے:
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ۔
البقرہ، 2: 2
’’ (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔‘‘
یہ کتابِ حق ہے، از اول تا آخر اصلاً تما م حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے۔ قرآن خود کئی مقامات پر اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ۔
النحل، 16: 89
’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔‘‘
ہر شے کا تفصیلی بیان قرآن کے اندر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَفْصِيْلَ کُلِّ شَيْئٍ۔
یوسف، 12: 111
’’اور ہر چیز کی تفصیل ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَيْئٍ۔
الانعام، 6: 38
’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتاً یا اشارتاً بیان نہ کر دیا ہو)۔‘‘
اس حقیقت کو سورۃ الانعام ہی میں یوں بیان فرمایا:
وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٌo
الانعام، 6: 59
’’اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)o‘‘
ایک اور مقام پر قرآن حکیم کی اس اعجازی شان کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:
وَکُلَّ شَيْئٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيْلاًo
بنی اسرائیل، 17: 12
’’اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہےo‘‘
ابن سراقہ کتاب الإعجاز میں ابوبکر بن مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں:
ما من شیء في العالم إلا و ھو في کتاب الله۔
سیوطی، الإتقان، 4: 30
’’کائنات میں کوئی شے ایسی نہیں جس کا ذکر قرآن میں موجود نہ ہو۔‘‘
علامہ ابن برجان اس کی تائید میں فرما تے ہیں:
ما قال النبي ﷺ من شیء فھو في القرآن بہ أو فیہ أصلہ۔
سیوطي، الاتقان، 4: 30
’’حضور نبی اکرم ﷺ کا کوئی فرمان ایسا نہیں کہ جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو یا اس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔‘‘
امام سیوطي نے الإتقا ن میں اس کی بہت سی مثالیں دی ہیں۔ گویا قرآن میں یا تو ہر چیز کا ذکر صراحت کے ساتھ ملے گا یا اجمالاً مگر اس کی اصل ضرور موجود ہوگی، یہ الگ بات کہ اس کا اخذ کرنا ہر شخص کے لیے ممکن نہ ہو، یہ صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جن کے سینوں کو باری تعالیٰ نے قرآنی معارف کا اہل بنا دیا اور انہیں صراط مستقیم پر چلا دیا ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کے راستے پر چلنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن حکیم ان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ أنْعَمَ اللهُ عَلَيْھِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّھَدَآء وَالصَّالِحِيْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
النساء، 4: 69
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘
قرآنی ہدایت و رہنمائی اور اس کے مطالب و مفاہیم تک رسائی کا واسطہ اور ذریعہ بھی یہی چار طبقات ہیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ راهِ ہدایت فی الحقیقت قرآن وسنت ہی کا راستہ ہے لیکن قرآن و سنت کا صحیح مدعا و منشا خدا کے انعام یافتہ، مقبول اور صالح بندوں کی پیروی سے ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ اگر محض اپنی رائے سے قرآن و سنت کے مطالب و مفاہیم متعین کرنے کی سعی کی جائے تو اس میں گمراہی کا امکان پایا جاتا ہے۔ یہی اس آیت کریمہ کا منشا ہے:
یُضِلُّ بِهِ کَثِيْرًا وَّ یَھْدِيْ بِهِ کَثِيْرًا۔
البقرۃ، 2: 26
’’ (اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اس ارشاد ربانی کے مطابق وہ جو محض اپنی رائے سے ْقرآن کو سمجھنا چاہیں گمراہی و ضلالت کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی رہنمائی سے سمجھنا چاہیں ہدایت پا جاتے ہیں۔ اس کی تائیداس حدیث رسول ﷺ سے بھی ہوتی ہے:
من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔
ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب التفسیر، باب ما جاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ، 5: 199
’’جس نے قرآن کا مفہوم اپنی رائے کی بناپر متعین کیا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
من قال في کتاب الله عزوجل برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔
ابوداؤد، السنن، کتاب العلم، باب الکلام في کتاب اللہ بغیر علم، 3:320
’’جس نے قرآن کا مفہوم اپنی رائے کی بناپر متعین کیا اوردرست کیا توپھر بھی اس نے خطا کی۔‘‘
گمراہی کے اسی خطرے کے پیش نظر ائمہ کرام نے تفسیر القران کے چند اصول بیان کیے ہیں جو مختصراً درج ذیل ہیں:
1۔ تفسیر القرآن بالقرآن
2۔ تفسیر القرآن بالحدیث
3۔ تفسیر القرآن بآثار الصحابۃ
4۔ تفسیر القرآن بأقوال التابعین
5۔ تفسیر القرآن بأقوال الأئمۃ المجتھدین
سب سے عمدہ اور واضح تفسیر وہ ہے جو قرآنی آیات کی دوسری قرآنی آیات کی روشنی میں کی جائے کیونکہ اسالیبِ قرآن میں سے یہ بھی ہے کہ اگر ایک جگہ کسی چیز کو بغیر صراحت کے بیان کیا گیا ہے توکسی دوسرے مقام پر اس کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔
دوسرے درجہ میں اس تفسیر کو فوقیت دی جائے گی جو حضور نبی اکرم ﷺ نے خود بیان فرمائی کیونکہ آپ ﷺ قرآن کے معلم اور شارح ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
1۔ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ۔
آٰل عمران، 3: 164
’’اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
2۔ وَأَنْزَلْنَا إلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْھِمْ۔
النحل، 16: 4
’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں۔‘‘
اگر فہم قرآن کے لیے حدیث نبوی ﷺ کی ضرورت نہ ہوتی تو حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصد بعثت میں تعلیم و تبیین کے پہلو کو نہ رکھا جاتا۔ معلوم ہوا کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث فہمی لابدی اور ناگزیر ہے۔
تیسرے درجہ میں صحابہ کرام سے منقول تفسیر قابلِ اعتماد اور اَرجح ہے کیونکہ انہیں براہ راست حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت و زیارت کا شرف نصیب ہوا اور اکثر و بیشتر انہی کے احوال و واقعات کو مدِنظر رکھ کر ان کی آنکھوں کے سامنے قرآن نازل ہوتا رہا۔ انہوں نے خود معلمِ کائنات ﷺ سے قرآن سیکھا اور اس کے مطالب و مفاہیم سے آگاہی حاصل کی۔ اس تناظر میں ان کی بیان کردہ تفسیر زیادہ قرین فہم اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
چوتھے درجہ میں تابعین کے تفسیری اقوال مستند اور معتبر ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر وبیشتر نے قرآنی علوم و معارف کی تعلیم براهِ راست صحابہ کرام سے حاصل کی۔
پانچویں درجہ میں قرآنی آیات کے مفہوم و مراد کوجاننے کے لیے ان ائمہ و علمائے تفسیر سے رہنمائی حاصل کی جائے گی جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی میدان کی سیاحت میں گزار دیں اور قرآن کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اپنی تفاسیر کو احادیث رسول ﷺ، آثارِ صحابہ اور اقوالِ تابعین کے گہرہائے نایاب سے آراستہ کیا۔ ان کا سرمایہ تفسیر درحقیقت مآخذِ سابقہ کا ہی ترجمان قرار پاتا ہے۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن کثیر، در منثور وغیرہم کا شمار اسی قسم کے ائمہ تفسیر میں ہوتاہے۔
اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ عصر حاضر میں بہترین اسلوب تفسیر یہ ہے کہ پہلے صحابہ و تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مفسرین کے اقوال و تفاسیر کی طرف رجوع کیا جا ئے، اگر متعلقہ آیت کی تفسیر ان حضرات ذی وقار سے معلوم ہوجائے تو شرحِ صدر سے مان کر اس پر اطمینان کا اظہار کیا جائے۔ البتہ مزید توثیق کے لیے قرآن وسنت سے اس تفسیر کے مآخذ کو دریافت کرنا بھی تحقیق کی دنیا میں قابل ستائش گردانا جاتا ہے۔
اَئمہ حدیث اور علمائے تفسیر نے سلف صالحین کے عظیم سرمایۂ علم و فن سے استفادہ کرتے ہوئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ذخیرۂ احادیث کو کھنگالتے تاکہ وہ مذکورہ آیت کے مفہوم اور مراد کو پاسکیں۔ اگر آیت کا مفہوم و معنی کسی بھی حدیث سے صراحتاً، اشارتاً یا کنایتاً واضح نہ ہوتا تو وہ لغتِ عرب، صرفی و نحوی قواعد، بلاغت اور سیاق و سباق سے جو معنی سب سے زیادہ قرین قیاس ہوتا اس پر اعتماد کرلیتے۔ مفسرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔ وہ قرآنِ حکیم کے مشکل مقامات کی تفسیر میں یہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔
اگرسلف صالحین کے اس عظیم سرمایہ تفسیر سے کسی شے کی وضاحت معلوم نہ ہو سکے تواہلِ علم وفن کو چاہئے کہ ذخیرۂ احادیث میں غور کریں اور اسی مراد کو اس آیت کی تفسیر جانیں جو یہاں سے صراحتاً یا اشارتاً متعین ہو اور اگر احادیث سے بھی کسی آیت کا معنی ومفہوم واضح نہ ہو جو تقریباً ناممکنات میں سے ہے، تو لغت عرب، نحوی و صرفی قواعد، معانی و بلاغت کے اعتبار اورسیاق و سباق کلام سے جو معنی قرین قیاس ہوں ان پر اعتماد کیا جائے۔ اس قسم کی آیات کی تفسیر میں صحابہ کرام کا یہی معمول تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الشعر دیوان العرب، فإذا خفي علینا حرف من القرآن الّذي أنزلہ اللہ بلغۃ العرب رجعنا إلی دیوانھا فالتمسنا معرفۃ ذلک منہ۔
سیوطي، الاتقان فيعلوم القرآن، النوع السادس والثلاثون، 2: 67
’’شعر عربوں کا دیوان ہے، جب قرآنِ کریم - جو لغتِ عرب میں نازل ہوا - کے کسی لفظ کا معنی ہماری نظروں سے پوشیدہ ہو جائے تو ہم اسی دیوان کی طرف رجوع کرتے اور اس لفظ کا مفہوم تلاش کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آخری دو صورتیں بہت شاذ و نادر ہیں کیونکہ تقریباً قرآن مجید کے بیشتر حصے کی تفسیر صحابہ وتابعین اور اَئمہ متقدمین سے منقول اور کتابی صورت میں مرتب ومدوّن اور محفوظ ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن کریم میں تحریفات اور اوہام کا دروازہ کھولنے کے لیے تفسیر کے متفقہ معیار اور مندرجہ بالا متداول اصولوں کو تاویل کا سہارا لے کر تبدیل کردیا۔ انہوں نے چار متفق علیہ معیاروں کو بالائے طاق رکھ کراپنی طرف سے مزید تین کا اضافہ کردیا۔ تین معیارات جو موصوف نے اپنی طرف سے گھڑے درج ذیل ہیں:
1۔ پانچواں معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن میں غور کرنا ہے۔
2۔ چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لیے جسمانی سلسلہ ہے، کیونکہ خداوند کریم کے دونوں سلسلوں میں بالکل تطابق ہے۔
3۔ ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین ہیں۔ اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے۔
غلام احمد قادیانی، برکات الدعا: 18۔ 20
مرزا صاحب کے یہ تینوں معیارات در حقیقت تحریفِ قرآن کی ایک سوچی سمجھی چال تھی۔ اس کا عملی ثبوت ان کی وہ تحریریں ہیں جن میں انہوں نے متعدد آیات کے نہ صرف معانی و مطالب بدل ڈالے بلکہ ان کے متن کو بھی تحریف کر کے مسخ کردیا۔ ان خود ساختہ معیارات سے موصوف کی نیت کو جانچا جا سکتا ہے کہ ان کے عزائم کیا تھے؟ مرزا صاحب نے انہی خود ساختہ معیارات کی بنا پر لفظِ خاتم النبیین کے متفق علیہ معنی میں تحریف کر کے نبوت کا دعوی کیا۔ ختم نبوت کے موضوع پر قرآنی استدلال پیش کرنے سے قبل اس تقدیم سے مقصود تفسیرِ قرآن کے صحیح اور متفق علیہ معیارات پر توجہ مرکوز کرنا ہے تاکہ تفسیرِ قرآن کے باب میں مرزا صاحب کی پیش کردہ تاویلات کا کما حقہ محاکمہ ہو سکے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا آخری نبی ہونا قرآنی آیات سے قطعیت اور حتمیت کے ساتھ ثابت ہے جس میں شک کرنا یقینی طور پر کفر والحاد کا باعث ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عقیدئہ ختم نبوت کے حوالے سے عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کا ذکر صرف ایک دو قرآنی آیات میں ہوا ہے اور اس کے علاوہ قرآن حکیم میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے جس کا ازالہ ختم نبوت کے باب میں ہوجانا چاہئے۔ اگر دقتِ نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ اور اس کے مطالب و مفاہیم پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قرآنِ حکیم میں ایمان اور عقیدے کے باب میں اتنی کثرت کے ساتھ کوئی اور مضمون بیان نہیں ہوا جتنی کثرت اور صراحت کے ساتھ عقیدۂ ختم نبوت بیان ہوا ہے۔ سینکڑوں قرآنی آیات میں حضور نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شانِ ختم نبوت کا بیان وارد ہوا ہے۔ زیر نظر باب میں قریباً ایک سو انتیس (129) آیات اس لیے درج کر رہے ہیں تاکہ یہ مغالطہ دور کیا جا سکے کہ ختم نبوت اور ردِقادیانیت جیسے اہم موضوع کا جائزہ صرف چند قرآنی آیات کی روشنی میں لیا گیا ہے۔
ان آیات کریمہ کی توضیح و تفسیرمیں متعدد احادیث وآثار بھی موجود ہیں جنہیں ہم بالتفصیل نمبر وار قرآنی آیات نقل کرنے کے بعد ایک مستقل باب میں بیان کریں گے۔ یہاں صرف آیات سے ختم نبوت پر استدلال کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین کے اعتراضات کا بالاختصار علمی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ ط وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًاo
الأحزاب، 33: 40
’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہرچیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
زیرِ نظر آیت کریمہ جو مسئلۂ ختم نبوت کو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہے دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین ہیں جبکہ دوسرا حصہ صریح الفاظ میں آپ ﷺ کی ختمِ نبوت کو بیان کرتا ہے۔ کوئی سوال کرسکتا ہے کہ کسی بالغ مرد کا باپ ہونا ختم نبوت میں مانع کیسے ہو گیا اور باپ نہ ہونے سے ختمِ نبوت کیسے ثابت ہو گئی جبکہ سابقہ انبیاء علیھمم السّلام جیسے حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا بالغ اولاد کا باپ ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کسی بالغ مرد کے باپ نہیں یہ ذکر کر کے آپ ﷺ کی ابوّت کی نفی کی گئی ہے جس کے اندر کئی حکمتیں کار فرما ہیں جن میں سے چند ایک کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ اگر بیٹا باپ کے نقش قدم پر اور تابع فرمان ہو تو اس کے اندر ابنیت کے باعث جزئیت پیدا ہو جاتی ہے، وہ متعدد وجوہ کی بنا پر باپ کا جز ہوتا ہے جس میں باپ کے چاہنے یا نہ چاہنے کا کوئی تعلق نہیں۔ شکل و صورت، اخلاق و عادات، شمائل و خصائل اور طبعی و روحانی خوبیوں میں وہ باپ سے مماثلت رکھتا ہے۔ حیاتیاتی سائنس کے مطابق یہ خصوصیات جینز (Genes) اور (Chromosomes) کے ذریعے باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہیں اور اس عمل کو کوئی چاہے بھی تو نہیں روک سکتا۔
بیٹے میں جزئیت کے باعث باپ کی کئی خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کو اپنے اخلاق و عادات کا حصہ بنائے۔ اگر باپ صالح ہو تو شراکت امورِ خیر میں ہو گی۔ غیر صالح ہو تو شراکت اسے برائی کی طرف لے جائے گی۔ شراکت کے ساتھ وراثت بھی باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے۔ اس طرح ابنیت میں یہ تین چیزیں (جزئیت، شراکت اور وراثت) بیٹے میں منتقل ہوتی ہیں۔ انبیاء کرام کا میراثِ نبوت کو جاری رکھنے کے لیے بیٹے کی دعا مانگنا قرآن میں مذکور ہے جیسے حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی تھی۔ قرآن حکیم بیان کرتا ہے:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِيَّا رَبَّهٗ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ج إِنَّکَ سَمِيْعُ الدُّعَآءo
آل عمران، 3: 38
’’اسی جگہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد چونکہ کسی نبی نے نہیں آنا تھا اس بناء پر آپ ﷺ کسی بالغ مرد کے باپ نہ ہوئے، کیونکہ اگر آپ ﷺ کا کوئی صاحبزا دہ زندہ ہوتا تو وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نبی بن جاتا جس سے آپ ﷺ کی ختم نبوت باقی نہ رہتی۔ اس کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال پر آپ ﷺ نے فرمایا:
لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّيْقًا نَبِیًّا۔
ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاۃ، 1: 484
’’اگر وہ (ابراہیم) زندہ رہتے (اور سن بلوغت کو پہنچ جاتے) تو سچے نبی ہوتے۔‘‘
اسی حکمت کی بنا پر حضور نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے سیدنا قاسم، سیدنا طیب و طاہر اور سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہم بچپن میں ہی وصال فرما گئے، کوئی بھی سن بلوغت کو نہ پہنچا۔ اسی لیے قرآن نے آپ ﷺ کی ابوّت کی نفی فرمائی، ابوّت کے لیے بالغ مرد ہونا شرط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْھِمْ۔
1۔ یوسف، 12: 109
2۔ النحل، 16: 43
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلاَّ رِجَالاً نُّوْحِيْ الَيْھِمْ۔
الانبیاء، 21: 7
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مَردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے۔‘‘
ان آیات سے واضح ہے کہ قرآن حکیم نے ختم نبوت کے اثبات میںآپ ﷺ کے کسی مرد کا باپ ہونے کی تو نفی فرمائی لیکن کسی بچے کا باپ ہونے کی نفی نہیں فرمائی۔
اب ہم اس مضمون کو ان آیات کی روشنی میں مزید واضح کرتے ہیں جن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے لیے ابوّت کی نفی کی ہے۔
یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں:
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَيْرُنِ ابْنُ اللهِ وَ قَالَتِ النَّصَارٰی الْمَسِیحُ ابْنُ اللهِ۔
التوبۃ، 9: 30
’’اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘
سورۂ اخلاص میں ابنیت کی مکمل نفی تصورِ توحید کے اثبات میں کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَمْ یَلِدْo
الاخلاص، 112: 3
’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہےo‘‘
یہود و نصاریٰ کے عقیدے کا ردّ حضور نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس سے کرایا گیا:
قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِيْنَo
الزخرف، 43: 81
’’فرما دیجئے کہ اگر (بفرضِ محال) رحمٰن کے (ہاں) کوئی لڑکا ہوتا (یا اولاد ہوتی) تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو کسی نہ کسی شکل کی یا کسی نہ کسی سطح کی الوہیت اس میں ضرور پیدا ہوجاتی، اور اس کی اُلوہیت کے اوصاف اس میں کسی حد تک منتقل ہونے کے باعث وہ یقیناً معبود ہوتا، کیونکہ یہ تو امرِ محال ہے کہ خدا کا بیٹا نافرمان ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو گوارا نہیں تھا کہ اس کے سوا کوئی اور بھی معبود ہو یا جزئیت، شراکت اور وراثت کے طور پر خدا ہو۔ لهٰذا اس بات کو خارج از امکان قرار دینے سے اس کی ابنیّت اور ابوّت کی خودبخود نفی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے وحی کی زبان میں کہلوایا گیاکہ اگر کوئی اللہ کا بیٹا ہوتا تو اس کی تصدیق کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی اور میں اس کو سجدہ کرتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِيْ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَo لَا شَرِيْکَ لَهٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَo
الانعام، 6: 162، 163
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج و قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہےo اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوںo‘‘
قرآن حکیم نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ ہونے پر یہ دلیل دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو اور بیٹا ہو کر بھی خدا نہ ہو تو اس کی خدائی پر حرف آتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا ہو کر خدا ہو پھر اس کی خدائی میں شرک واقع ہوتا ہے اس لیے بیٹے سے پاک ہونے کا قطعی اعلان ہوا تاکہ نہ خدائی پر حرف آئے اور نہ خدائی میں شرک لازم آئے۔
ربط آیات کو مد نظر رکھیں تو ان کا باہمی تعلق واضح ہوتاہے اور اس بات کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے لیے کسی جوان بیٹے کا باپ ہونے کی نفی کیوں کی؟ اپنی توحید کا بیان کرتے ہوئے اپنے لیے مطلقاًبیٹے کی نفی فرمائی اور اپنے محبوب ﷺ کی رسالت کے بیان میں آپ ﷺ کے لیے جوان بیٹے کی نفی فرمائی۔ اس سے بتانا یہ مقصود تھا کہ جس طرح میرا کوئی بیٹا نہیں اسی طرح میرے محبوب ﷺ کا بھی کوئی بیٹا نہیں، اس فرق کے ساتھ کہ محمد مصطفی ﷺ مخلوق ہیں، ان کا بیٹا ہو سکتا ہے چنانچہ آپ ﷺ کا بیٹا ہوا جو سن بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی وفات پا گیا اور میں چونکہ خدا ہوں، میری صفت ’’لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ‘‘ ہے، میرا کوئی بیٹا ہو ہی نہیں سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت میں شرک کی نفی کے لیے اپنی ابوت کی نفی فرمائی اور اپنے محبوب ﷺ کی نبوت میں شرک کا امکان ختم کرنے کے لیے آپ ﷺ کے لیے جوان بیٹے کا باپ ہونے کی نفی فرما دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے بالغ بیٹا نہ ہونے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قرآن اور تاریخِ انبیاء شاہد ہے کہ بہت سے انبیاء علیھم السلام ایسے ہوئے جو خود بھی نبی تھے اور ان کے بیٹے بلکہ پوتے بھی منصبِ نبوت پر فائز ہوئے جیسے ابوالانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام بھی نبی تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نبی تھے۔ قرآن مجید میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ نبوت ایک خاندان اور گھرانے میں کئی نسلوں تک چلی۔ یہ خاندانی نبوت بلاشبہ ان کے لیے اضافی فضیلت کا باعث ہوئی۔
اس نکتے کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک نبی کے جوان بیٹے کا نبی ہونا فضیلت کا باعث ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کا بیٹا مشیتِ ایزدی سے جوان ہوکر بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتا اور نبی نہ ہوتا تو ان انبیاء کو جن کے بیٹے بھی نبی ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ پر اضافی فضیلت مل جاتی۔ قیامت کے دن جب دوسرے انبیاء کے پیچھے ان کے بیٹے اور پوتے بھی بحیثیت نبی کھڑے ہوتے جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بیٹے بحیثیتِ غیر نبی کھڑے ہوتے تو وہ لامحالہ طور پر اس جزوی فضیلت میں حضور نبی اکرم ﷺ سے بڑھ جاتے۔ ا س طرح آپ ﷺ کے افضل الانبیاء ہونے پر حرف آتا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی یہ کہنے کی جسارت بھی کرے کہ مصطفی ﷺ کے بیٹے جوان ہوئے اور نبی نہ ہوئے، بصورت دیگر اگر حضور نبی اکرم ﷺ کا بیٹا نبی ہو جاتا تو آپ ﷺ کی ختم نبوت اور خاتم النبیین ہونے پر حرف آتا۔ خدائے بزرگ و برتر کو یہ قطعاً منظور نہ تھا کہ میرے مصطفی ﷺ کے بعد اور کوئی نبی ہو۔ اسے تو فقط یہ منظور تھا کہ میرے مصطفی ﷺ جیسا بھی کوئی نہ ہو اور آپ ﷺ کے بعد بھی کوئی نہ ہو، اکرم و افضل بھی میرا مصطفی ﷺ رہے اور خاتم بھی میرا مصطفی ﷺ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو سب سے افضل رکھنے کے لیے یہ امر ناگزیر اور ضروری تھا کہ آپ ﷺ کا کوئی بیٹا جوان نہ ہوتا تاکہ دونوں صورتوں میں کوئی آپ ﷺ کو مطعون نہ کر سکتا۔
سورۃ الاحزاب کی متذکرہ بالا آیت نمبر 40 کے دو ٹکڑوں کے درمیان ’’لٰـکن‘‘ کا لفظ بظاہر برمحل معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہاں آتا ہے جہاں پہلے حصے پر کوئی اعترض وارد ہوا ہو، لٰـکِنْ کہہ کر اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ یہاں اس لفظ کے لانے میں اشارہ اس طرف ہے کہ آیت کے پہلے حصہ میں حضور نبی اکرم ﷺ سے جو ابوت کی نفی کی گئی ہے اس میں کسی ظاہر بیں کے لیے چند شبہات پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے لفظِ لٰـکن ان کے ازالہ کے لیے آیا ہے۔ وہ شبہات یہ ہیں:
1۔ پہلا شبہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں تو شایدآپ ﷺ کے دل میں وہ شفقت پدری بھی نہ ہو جو ماں کی ممتا کی طرح صرف باپ میں ہوتی ہے کسی اور میں نہیں ہو سکتی، حالانکہ یہ شفقت لازمۂ نبوت ہے۔ امت اس شفقت سے فیض یاب ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ابوت کی نفی سے امت آقا علیہ السلام کی شفقت سے محروم ہوگئی ہو؟
2۔ دو سرا شبہ یہ ہے کہ ہر نبی اپنی امت کے لیے بمنزلۂ باپ ہوتا ہے۔ جب آیت مذکورہ میں آپ ﷺ کی ابوّت کی نفی کردی گئی تو کسی کم نظر کے ذہن یہ بات بھی آسکتی تھی کہ باپ نہیں تو پھر شاید نبی بھی نہ ہوں۔
3۔ تیسرا شبہ یہ ممکن ہے کہ ابوّت کی نفی سے بظاہر آپ ﷺ کے لیے ایک قسم کا نقص لازم آتا ہے کہ آپ ﷺ کے کوئی اولاد نرینہ نہیں جس سے ان کفار کو طعنہ زنی کا موقع ملتا ہے جو آپ کو ابتر کہتے تھے۔
اللہ رب العزت نے آیت مذکورہ کے الفاظ ’’وَلٰکِنْ رَّسُولَ اللهَ‘‘ کے ذریعے ان تمام ممکنہ اوہام و شبہات کا ازالہ فرما یا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پہلے شبہ کا ازالہ یوں ہوتا ہے کہ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ کے الفاظ سے یہ باور کرانا مقصود ہے کہ دیکھنا کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے جواں بیٹے کا باپ نہ ہونے سے امت آپ ﷺ کی شفقت سے محروم رہ گئی بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کیا گیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور رسول اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی باپ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ویُسمّی کلّ من کان سبباً في إیجاد شیئٍ أو إصلاحہ أو ظہورہ أبا ولذلک یُسمیّ النّبي أبا المؤمنین قال الله {النَّبِيُّ اَوْلٰی بِالْمُؤمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّھَاتُھُمْ} وفي بعض القراءات وھو أب لھم۔
راغب اصفہانی، المفردات في غریب القرآن: 7
’’اور ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد، اصلاح یا ظہور کا سبب بنے باپ کہا جاتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آیت {یہ نبیِ (مکرّم ﷺ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں} میں حضور نبی اکرم ﷺ کو مومنوں کا باپ قرار دیا ہے۔ اور ایک قرا ءت میں ’’وَھُوَ أبٌ لَھُمْ‘‘ بھی آیا ہے۔‘‘
امام موصوف کی اس صراحت سے مستفاد ہو ا کہ ابوّت دو قسم کی ہوتی ہے:
1۔ ابوّتِ جسمانی
2۔ ابوّتِ روحانی
ابوّتِ جسمانی سے مراد نسبی و رضاعی ابوّت ہے جس سے اَحکامِ حلت و حرمت ثابت ہوتے ہیں اور روحانی ابوّت وہ ابوّت ہے کہ جس میں شفقت و مہربانی کا عنصر نسبی اور رضاعی باپ سے بھی زیادہ ہونا لازم اور ضروری ہے، جیسے استاد کی ابوّت شاگرد کے لیے، شیخ کی ابوّت مرید کے لیے اور نبی کی ابوّت امت کے لیے۔ آیت میں وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ کے الفاظ سے اسی قسم کی ابوّت ثابت ہے لهٰذا حضور نبی اکرم ﷺ امت کے روحانی باپ ہیں۔ ایک باپ کی شفقتِ پدری کا موازنہ رسول اللہ ﷺ کی شفقت سے نہیں کیا جا سکتا کہ کروڑوں باپوں کی شفقت مل کر بھی رسول رحمت ﷺ کی شفقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ بات نصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس امت کے لیے سراپا رحمت و رافت اور محبت و شفقت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءوْفٌ رَّحِيْمٌo
التوبۃ، 9: 128
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کی امت پر کمال درجہ شفقت و مہربانی کا ذکر فرمایا ہے کہ لوگو! میرے محبوب ﷺ کی شفقت بے پایاں کا توکوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ تمہارے لیے ان کی شفقت کا یہ عالم ہے کہ ان پر تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا گراں گزرتا ہے، کانٹا تمہیں چبھتا ہے اور درد انہیں ہوتا ہے، انہیں اپنی توکوئی فکر نہیں بس رات دن تمہارے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بھاگتے پھرتے ہیں اور انہی کی ذات ستودہ صفات مومنوں کے لیے سراپا شفقت و مہربانی ہے۔
امام رازی (م 606ھ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک حدیث مبارکہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال علیہ الصلوٰۃ والسلام: لا حلم أحب إلی اللہ تعالیٰ من حلم إمام و رفقہ ولا جھل أبغض إلی اللہ من جھل إمام وخرقہ فلما کان علیہ الصلوٰۃ والسلام إمام العالمین وجب أن یکون أکثرھم حلماً وأحسنھم خلقاً۔
رازی، التفسیر الکبیر، 9: 50
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو کوئی حلم امام کے حلم اور نرم خوئی سے زیادہ پسندیدہ نہیں، اور کوئی جہالت امام کی جہالت اور درشت خوئی سے زیاہ ناپسندیدہ نہیں۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات امام العالمین ہے تو آپ ﷺ کا تمام لوگوں سے زیادہ حلیم الطبع اور بااخلاق ہونا ضروری ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
الانبیاء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
جب کائنات کی کوئی شے آپ ﷺ کی رحمت سے محروم نہیں تو آپ ﷺ کی اپنی امت کیونکر محروم ہو سکتی ہے۔
امت کے لیے آپ ﷺ کی رافت ورحمت کا تذکرہ ایک اور مقام پر یوں فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَو کُنْتَ فَظٍّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔
آل عمران، 3: 159
’’ (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘
وَلٰـکِن رَّسُوْلَ اللهِ سے ابوّت کی نفی سے پیدا ہونے والے تینوں شبہات دور ہوگئے کہ امت کا روحانی باپ ہونے کی وجہ سے آپ کی امت پر شفقت و مہر بانی نسبی اور رضاعی باپ سے بدرجہا زیادہ ہے۔ لهٰذا امت کا آپ ﷺ کی عنایات سے محروم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ دوسرا شبہ خود ہی دور ہو گیا کہ یہاں صرف خاص معنی میں نسبی ورضاعی ابوّت کی نفی کی گئی ہے، اس ابوّت کی نفی نہیں کی گئی جو لازمۂ نبوت ہے۔ تیسرا شبہ یوں زائل ہوگیا کہ آپ ﷺ لا ولد اور مقطوع النسل کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ ساری امت آپ ﷺ کی اولاد کی طرح ہے اور آپ ﷺ بے حساب وبے شمار افرادِ امت کے باپ ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کی عددی کثرت کا اندازہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ آخرت میں آپ ﷺ کی امت تمام انبیاء علیھم السلام کی امتوں سے تعداد میں زیادہ ہوگی۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنَ الْأَنْبِیَاء نَبِیٌّ إلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلُهُ اٰمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإنَّمَا کَانَ الَّذِيْ أُوْتِيْتُ وَحیًا أوْحَاهُ اللهُ إليَّ وَأَرْجُوْا أَنْ أَکُوْنَ أکْثَرُهُم تاَبِعًا یَوْمَ الْقیَامَۃ۔
1۔ بخاري، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی و
أول ما نزل، 4: 1905، رقم:4696
2۔ بخاري، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب قول النبی ﷺ : بعثت بجوامع الکلم،
6: 2654، رقم: 6846
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، باب وجوب الیمان برسالۃ نبینا محمد إلیجمیع الناس،
1: 134، رقم: 152
4۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 451، رقم: 9827
5۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 341، رقم: 8472
’’ہر نبی کو ایسی نشانیاں عطا کی گئیں جنہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لاتے اور مجھے جو نشانی دی گئی ہے وہ وحی الٰہی ہے، پس مجھے امید ہے کہ روزِ محشر میرے پیروکاروں کی تعداد تمام انبیاء سے زیادہ ہوگی۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَناَ أَکْثَرُ الأنبیاء تبعاً یوم القیامۃ۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب فی قول النبی أنا أول
الناس یشفع فی الجنۃ وأنا اکثر، 1: 188، رقم: 196
2۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، 9: 4
3۔ ابن ابی شیبۃ، المصنف، 6: 325، رقم: 31781
4۔ ابو یعلی، المسند، 7: 46، رقم: 3959
5۔ ابو یعلی، المسند، 7: 51، رقم: 3967
6۔ ابن مندۃ، الایمان، 2: 858، رقم: 889
’’روزِ محشر میرے پیروکار تمام انبیاء علیھم السلام کے پیروکاروں سے تعداد میں زیادہ ہوں گے۔‘‘
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إنِّی لَأکْثَرُ الْأَنْبِیَاء تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
1۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب ذکر الحوض، 2: 1438، رقم:
4301
2۔ ابن ابی شیبۃ، 6: 309، رقم: 31681
3۔ ابو یعلی، المسند، 2: 303، رقم: 1028
4۔ عبد بن حمید، المسند، 1: 284، رقم: 904
’’بیشک روزِ محشر میرے پیروکار تمام انبیاء علیہم السلام کے پیروکاروں سے تعداد میں زیادہ ہوں گے۔‘‘
4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَأَجِدُ النَّبِيَّ یَمُرُّمَعَهُ الْأُمَّةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّمَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ مَعَهُ الْعَشَرَةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّمَعَهُ الْخَمْسَةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ وَحْدَهُ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ، قُلْتُ: یَا جِبْرِيْلُ، ھٰؤُلَاء أُمَّتِي؟ قَالَ: لَا، وَلٰـکِنِ انْظُرْ إِلَی الْأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ، قَالَ: ھٰؤُلَاءِ أُمَّتُکَ، وَھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ أَلْفًا قُدَّامَھُمْ لَا حِسَابَ عَلَيْھِمْ وَلَا عَذَابَ، قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: کَانُوْا لَا یَکْتَوُوْنَ، وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَيَّرُوْنَ وَعَلَی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔ فَقَامَ إِلَيْهِ عُکَّاشَةُ بْنُ مَحْصَنٍ فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَّجْعَلَنِي مِنْھُمْ، قَالَ: اَللَّھُمَّ اجْعَلْهُ مِنْھُمْ۔ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ: اُدْعُ اللهَ أَنْ يَّجْعَلَنِي مِنْھُمْ قَالَ: سَبَقَکَ بِھَا عُکَّاشَةُ۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب یدخل الجنَّۃ سبعون أَلفا
بغیر حسابٍ، 5: 2396، رقم: 6175
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب: مَنِ اکْتَوَی أَو کَوَی غیرَهُ، وفضل من لم یَکْتَوِ،
5: 2157، رقم: 5378
3۔ بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب من لَمْ یَرْقِ، 5: 2170، رقم: 520
4۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیائ، باب وفاۃ موسی وذکرِهِ بعدُ، 3: 1251، رقم:3229
5۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر
حساب ولا عذاب، 1: 179۔ 199، رقم: 216۔ 220
6۔ ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب (16)، 4: 631، رقم:
2446
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھ پر (تمام) امتیں پیش کی گئیں پس ایک نبی گزرنے لگا اور اس کے ساتھ اس کی امت تھی ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ چند افراد تھے، ایک نبی کے ساتھ دس آدمی، ایک نبی کے ساتھ پانچ آدمی، ایک نبی صرف تنہا، میں نے نظر دوڑائی تو ایک بڑی جماعت نظر آئی۔ میں نے پوچھا: اے جبرئیل! کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ آپ افق کی جانب توجہ فرمائیں، میں نے دیکھا تو وہ بہت ہی بڑی جماعت تھی۔ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت ہے اور یہ جو ستر ہزار ان کے آگے ہیں ان کے لیے نہ حساب ہے نہ عذاب، میں نے پوچھا: کس وجہ سے؟ انہوں نے کہا: یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، غیر شرعی جھاڑ پھونک نہیں کرتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے تھے۔ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں شامل فرما۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرمالے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔‘‘
5۔ حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ عنھما نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
أَھْلُ الْجَنَّةِ عِشْرُوْنَ وَمِائَةُ صَفٍّ، ثَمَانُوْنَ مِنْھَا مِنْ ھٰذِهِ الْأُمَّةِ، وَأَرْبَعُوْنَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ۔
1۔ ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی
کم صَفّ أھل الجنّۃ، 4: 683، رقم: 2546
2۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ، 2: 1434، رقم: 4289
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم: 22990، 23052، 23111
4۔ حاکم، المستدرک، 1: 155، رقم: 273
5۔ دارمی، السنن، 2: 434، رقم: 2835
6۔ ابن حبان، الصحیح، 16: 498، رقم: 7459
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے اَسی (80) صفیں میری اُمت کی ہوں گی اور باقی تمام امتوں کی صرف چالیس (40) صفیں ہوں گی۔‘‘
زیر نظر آیت کریمہ میں جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اثبات نفی ابوت سے ہو چکا اور اس پر ممکنہ شبہات کا ازالہ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ کے جملہ سے کر دیا گیا تو اس کے بعد وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ کا جملہ کیوں لایا گیا؟ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1۔ ان الفاظ کے ذریعے رب کائنات نے اس بات کو مزید واضح فرمایا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لهٰذا جس طرح آپ ﷺ کی نبوت قیامت تک جاری ہے اسی طرح آپ ﷺ کی ابوّت بھی جاری ہے۔ قیامت تک پیداہونے والی امت بمنزلہ آپ ﷺ کی اولاد کے ہے۔
2۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ امت کے روحانی باپ ہوئے اور آپ ﷺ کی شفقت حقیقی جسمانی باپ سے بھی زیادہ ہوئی تو چونکہ اولاد باپ کی وارث ہوتی ہے، اس لیے یہاں شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ کہیں امت نبوت کی بھی وارث نہ ہو۔ خاتم النبیین کے الفاظ نے اس شبہ کا ازالہ کر کے اور واضح فرما دیا کہ امت اگر چہ آپ ﷺ کی روحانی اولاد ہے مگر منصبِ نبوت کی وارث نہ ہوگی۔ یہ منصب آپ ﷺ پر ختم ہو چکا ہے۔ اب قیامت تک کوئی شخص آپ ﷺ کے منصبِ نبوت کا وارث نہیں ہو سکتا، البتہ امت کے علماء و صلحاء کمالاتِ نبوت کے وارث ہوں گے۔
3۔ خاتم النبیین کے مبارک الفاظ لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خبردار فرماناچاہتا ہے کہ لوگو! یہ میرا آخری رسول جو تمہارے پاس پیغام ہدایت لے کر آیا ہے اس کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ اب قیامت تک میرے محبوب کی ہی نبوت کا چرچا ہوتا رہے گا اور انہی کی شریعت پر عمل ہو گا۔ تم اپنے احوال کو درست کر لو اور اس نبی آخر الزماں ﷺ کی محبت و اتباع کو حرز جان بنا لو!
4۔ خاتم النبیین کا کلمہ اضافہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ربِ ذو الجلال نے ولکن رسول اللہ کے کلمات سے آپ ﷺ کی روحانی ابوّت میں مضمر بے پناہ شفقت کا ذکرفرمایا اور پھر اسی شفقت کے منتہائے کمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! آپ ﷺ سب خلقِ خدا پر شفیق اور مہربان ہیں اور چونکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ ﷺ کی شفقت تمام انبیاء علیھم السّلام سے زیادہ ہے کیونکہ پہلے انبیاء علیھم السّلام اگر کوئی چیز چھوڑ بھی دیتے تو بعد میں آنے والا نبی اس کی کمی کو پورا کر دیتا تھا لیکن آپ ﷺ کے بعد تو کسی نبی نے آنا ہی نہیں اس لیے آپ ﷺ نے امت کے لیے کوئی چیز ادھوری نہیں چھوڑی۔ گویا آپ ﷺ کی اپنی امت پر شفقت و محبت منتہائے کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
آیت مذکورہ میں وَلٰـکِنْ رَّسُولَ اللهِ کے بعد وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن کا جملہ وارد ہوا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والے رسول ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ آیت میں وَلٰـکِنْ رَّسُولَ اللهِ کے بعد رسول کی مناسبت سے وخاتم الرسل (اور رسولوں کے خاتم ہیں) ہونا چاہئے تھا لیکن فرمایا: وخاتم النبیین یعنی آپ ﷺ نبیوں کے خاتم ہیں، اس ذکر کرنے کا سبب کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ نبی اور رسول میں فرق کو سمجھ لیا جائے۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ ہر نبی رسول نہیں لیکن ہر رسول کے لیے نبی ہونا ضروری ہے، جب تک کوئی نبی نہ ہو وہ رسول ہو ہی نہیں سکتا۔ نبی وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ وحی بھیجے اور اس سے کلام کرے، وہ اسے شریعت اور کتاب دے یا نہ دے، کلام کرنا شرط ہے خواہ براهِ راست کرے یا فرشتہ بھیج کر یا پردے کے پیچھے سے کرے۔ جیسے ارشاد فرمایا:
وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَاءُ ط اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo
الشوری، 42: 51
’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براهِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہو گا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہےo‘‘
اللہ تعالیٰ نبی سے کلام کرنے کے لیے جبرائیل بھیجے یا پردے کے پیچھے سے کلام کرے یا بلاحجاب مقامِ قاب قوسین پر بلا کر کلام کرے۔ اس آیت میں تین درجے بیان ہوئے ہیں اور ان تینوں کے اطلاقات کا نبی پر ہونا ثابت ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ اللہ کا اپنی شان کے لائق کسی کو بلانا اور اس سے کلام کرنا اسے نبوت کے مقام پر فائز کر دینا ہے اور اس کا عام انسان کی بجائے نبی بن جانا ہے خواہ اسے شریعت اور کتاب عطا ہو یا نہ ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کو حضور نبی اکرم ﷺ کا فیض صحبت صحابی بنا دیتا ہے بشرطیکہ وہ ایمان کی حالت میں ہو، بس کوئی ایمان کی حالت میں مصطفی ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نے ایک نظر اسے دیکھ لیا تو ایک لمحہ کی صحبت کا فیض اسے صحابی بنا گیا، جس سے برابری کا دعویٰ کوئی قطب و غوث بھی نہیں کر سکتا۔
تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء تو بہت ہوئے لیکن رسول بہت کم ہوئے، صرف وہی رسول ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کتاب یا صحیفہ دے کر کسی قوم کی طرف بھیج دیا۔ قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کا ذکر ہے جو فقط نبی ہیں رسول نہیںجیسے حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام وغیرہما، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی رسول نہیں بنایا گیا تو اس کے نبی ہونے کا بھی انکار کر دیا جائے، اس کا نبی ہونا لازماً برقرار رہتا ہے۔
اب ہم دوبارہ اسی آیت کی طرف آتے ہیں جس میں وَلٰـکِنْ رَّسُولَ اللهِ کے بعد انبیاء کے خاتم ہونے کا ذکر ہے۔ اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے نبوت کا دروازہ بند کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت اور مرتبہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس شان و عظمت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے درجہ کو سب کے لیے ظاہر کیا جائے، تاکہ یہ شبہ ہی ختم ہو جائے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے۔ آپ ﷺ کے خاتم النبیین (آخری نبی) ہونے کی بات سے پہلے آپ ﷺ کے رسول ہونے کا ذکر کر دیا گیا تاکہ آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ عظمت میں کسی کو کوئی شبہ نہ رہے، اس لیے کہ رسول کا درجہ نبی سے زیادہ ہوتا ہے اگر ولکن رسول اللہ کے بعد وخاتم الرسل فرما دیا جاتا تو یہ امکان باقی رہتا کہ رسولوں کا آنا تو بند کر دیا گیا شاید نبی آتے رہیں گے۔ اس شبے کے امکان کو بھی خاتم النبیین کہہ کر ختم فرما دیا کہ اب سلسلۂ نبوت ختم اور دروازۂ نبوت قیامت تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور کوئی اس بارے میں کسی مغالطے میں نہ رہے، جب کسی نبی نے ہی نہیں آنا تو رسول کہاں سے آئے گا۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں خاتم الرسل کہا جاتا تو پھر بعد میں آنے والے کئی کذّاب مدعیانِ نبوت ذہنوں میں خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے کہ رسولوں کا آنا بند ہوا ہے، نبیوں کا تو نہیں ہوا۔
خاتم النبیین کے الفاظ میں یہ نکتۂ محبت مستور ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا اظہار فرما رہا ہے کہ محبوب! ہم آپ سے پہلے بہت سوں سے ہم کلام ہوتے رہے مگر جب سے آپ سے سلسلۂ کلام کا آغاز کیا ہے اب اس کے بعد ہم کسی اور سے بات ہی نہیں کریں گے۔ آپ کو بلا لینے کے بعد اب ہمارا کسی اور سے کیا سروکار اور واسطہ۔ آپ کے بعد کوئی لاکھ دعوی کرتا پھرے ہم اس سے بات تک نہیں کرتے چہ جائیکہ اسے نبوت عطاکر دیں۔ جب آپ کو خاتم النبیین کہہ دیا تو اب قیامت تک ہم کسی اور کو نبوت کا تاج نہیں پہنائیں گے۔ اب قیامت تک اور اس کے بعد آخرت میں بھی تاجدار ِانبیاء آپ ہی رہیں گے اور سارے نبی اپنی امتوں کی بخشش کے لیے آپ ہی کے در پر دست سوال دراز کریں گے، قیامت کے دن آپ ہی کو مقامِ محمود پر سرفراز کیا جائے گا۔
آیت مبارکہ کی روشنی میں بیان کردہ مندرجہ بالا مضمون کی تائید متعدد احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے مگر چونکہ احادیث ختم نبوت پرالگ باب قائم ہے اس لیے انہیں یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
آیتِ ختمِ نبوت کے حوالے سے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین مسلمانوں کے ذہنوں کو الجھانے اور راهِ حق سے پھسلانے کے لیے مختلف اعتراضات کرتے ہیں اور بعض من گھڑت تاویلات و تعبیرات اور تشریحات پیش کرتے ہیں جن کی حقیقت شبہات سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہاں ان شبہات کا ازالہ از حد ضروری ہے۔
اگر خاتم النبیین سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے توقرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو متفق علیہ نبی ہیں کی آمد کیسے ہو سکتی ہے، حالانکہ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ قرآن وسنت سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ لهٰذا دونوں میں سے کسی ایک عقیدے کا انکار لازم ہے۔ ختم نبوت پرایمان سے نزولِ مسیح کے عقیدہ سے دستبردار ہونا لازم ٹھہرتا ہے اور نزول مسیح کو مانا جائے تو ختم نبوت کا عقیدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔
اس اعتراض کا جواب بڑا واضح ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں قطعاً کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں۔ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کو وصفِ نبوت کے ساتھ متصف نہیں کیا جائے گا، اس سے یہ مراد نہیں کہ پہلے نبیوں سے نبوت چھین لی گئی ہے یا وہ سب وفات پاچکے ہیں اور ان میں سے کوئی دنیا میں نہیں آسکتا۔ گزشتہ انبیاء چونکہ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل وصف نبوت سے متصف ہوئے لهٰذا ان میں سے کسی ایسے نبی کی آمد کہ جس کی خبر قرآن و سنت نے دی ہو ختم نبوت سے مانع نہیں۔ ختم نبوت کے باب میں وارد شدہ تمام احادیث سے بھی وصفِ نبوت کا انقطاع مراد ہے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نبی بنا کر مبعوث کیا گیا اس لیے قرب قیامت کے زمانے میں ان کی آمد عقیدۂ ختم نبوت سے متعارض نہیں۔ نیز یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت محمدی ﷺ کے تابع اور ممد و معاون کے طور پر تشریف لائیں گے وہ اپنی شریعت نافذ نہیں فرمائیں گے۔ لهٰذا عقیدۂ نزول مسیح کسی طور پر بھی عقیدۂ ختم نبوت سے متناقض و متصادم نہیں۔
زیر نظر آیت کریمہ کے حوالے سے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی طرف سے یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ خاتم النبیین میں لفظ خاتم کے معنی مہر کے ہیں اور خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضرت محمد ﷺ نبیوں کی مہر تصدیق کے حامل ہیں۔ آپ ﷺ اپنے بعد جس کسی پر یہ مہر ثبت فرما دیں وہ نبی بن جاتا ہے۔
لفظِ خاتم (تاء پر زبر اور زیر کے ساتھ) متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ائمہ لغت کے نزدیک جب اس کی اضافت قوم یا جماعت کی طرف کی جائے تو یہ ’’آخر اور ختم کرنے والا‘‘ کے معنی میں ہوگا۔ آیت مذکورہ میں یہ لفظ النبیین کی طرف مضاف ہو رہا ہے، اس لیے اس کے معنی ’’نبیوں کا آخر اور نبیوں کا ختم کرنے والا‘‘ کے ہیں۔ یہ معنی قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ائمہ لغت و تفسیر سمیت جمیع امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے۔
خاتم کے یہ معنی کہ آپ ﷺ کی مہر تصدیق سے نبی بنتے ہیں سراسر قرآن وسنت، اجماعِ امت، قواعد لغت اور محاورۂ عرب کے خلاف ہے۔ خاتم کا معنی مہر لیا بھی جائے تو اس کا مادہ ختم ہے جس کے معنی ہیں کسی شے کو مضبوطی سے اس طرح بند کرنا کہ باہر سے کوئی چیزاندر نہ جاسکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ آ سکے۔ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت سے سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے اب قیامت تک نہ توکو ئی اس میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ سابقہ انبیاء ہی میں سے کو ئی اس سلسلہ سے باہر نکل سکتا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مہر تصدیق سے نبی بن سکتے ہیں تو نبوت ایک اکتسابی وصف بن جاتی ہے حالانکہ یہ ایک وہبی چیز ہے جس میں کسی انسان کے اختیار اور کسب کا کوئی دخل نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَللهُ اَعْلَمُ حَيْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ۔
الأنعام، 6: 124
’’اللہ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے۔‘‘
لفظِ ختم کا تعلق ہمیشہ ما قبل سے ہوتا ہے اس لیے آپ ﷺ اَنبیائے سابقین کے خاتم یعنی ختم کرنے والے یا ان کے سلسلہ کو بندکرنے والے ہیں نہ کہ اپنے بعد کسی نبی کی تصدیق کرنے والے ہیں اگر خاتم کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو مرزا صاحب نے لیے ہیں تو لفظِ خاتم کی اضافت مذاق بن کر رہ جائے گی جیسے خاتم المہاجرین کے معنی ہوں گے جس کی مہر سے مہاجر بنتے ہیں اور خاتم القوم کے معنی ہوں گے جس کی مہر سے قوم بنتی ہے۔ کوئی صاحب عقل سلیم اس معنی کو تسلیم نہیں کر سکتا۔
مرزا صاحب نے اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں خاتم الأولاد کی مثال کے ذریعے خود اس لفظ کو آخر کے معنی میں لیا ہے جو ان کے اپنے خودساختہ معنی کا رد ہے۔
مرزا صاحب اور ان کے متّبعین ایک شبہ یہ پیداکرتے ہیں کہ خاتم بمعنی انگوٹھی ہے جس سے زینت مراد لیا گیا ہے یعنی حضور نبی اکرم ﷺ زینتِ انبیا ہیں۔ چنانچہ یہ آیت ختم نبوت سے متعلق ہی نہیں۔
’’انگوٹھی‘‘ اور ’’زینت‘‘ لفظِ خاتم کا مجازی معنی ہے اور علمِ لغت، بدیع، بلاغت اور اصول کی رو سے مجازی معنی اس وقت لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا متعذر، مشکل، ناممکن اور محال ہو، لهٰذا جب یہاں حقیقی معنی درست ہے اور قرآن وسنت کے عین مطابق ہے تو مجازی معنی لینے کی کوئی وجہ اور ضرورت ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ہر خاص و عام کے خیالات کو اور حقیقی و مجازی معانی وغیرہ کو تفسیرِ قرآن قرار دیا جانے لگے تو احکامِ شریعت بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ لوگ اَقِيْمُوا الصَّلٰوۃ سے درود پڑھنا اور دعا کرنا مراد لے سکتے ہیں، فَلْیَصُمْہ کی تفسیر کسی بھی کام سے رکنا کریں گے اور حج و زکوٰۃ کو بھی ان کے حقیقی معنی پر محمول کر کے آسانی اور فرار کی راہ تلاش کرنا چاہیں گے۔ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ شریعت نے کسی لفظ کا جو معنی متعین کر دیا ہے وہی مراد لیا جائے گا خواہ حقیقی ہو یا مجازی۔ اسی طرح یہاں لفظِ خاتم کے مجازی معنی کا احتمال موجود ہے لیکن چونکہ اس لفظ کا جو معنی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور جس پر اجماع امت ہے اسے چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمo
الفاتحۃ، 1: 5
’’ (اے اللہ!) ہمیں سیدھا راستہ دکھاo‘‘
بعض مفسرین کے نزدیک صراطِ مستقیم حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس اور آپ ﷺ کے دونوں وزیر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما ہیں۔
عَنْ عَاصِمٍ الأحْوَلِ عَنْ أبِي الْعَالِیَةِ فِيْ قَوْلِهِ {اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ} قَالَ: ھُوَ رَسُوْلُ اللهِ وَصَاحِبَاهُ۔ قَالَ: فَذَکَرْنَا ذٰلِکَ لِلْحَسَنِ۔ قَالَ: صَدَقَ أَبُوْ الْعَالِیَةِ وَ نَصَحَ۔
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 18:170
2۔ طبري، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1: 101
3۔ قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی: 63، 64
’’عاصم الاحول، ابوالعالیہ سے ارشاد باری تعالیٰ { (اے اللہ!) ہمیں سیدھا راستہ دکھا} کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ یعنی صراطِ مستقیم رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے دو ہم نشین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما ہیں۔ ہم نے یہ تفسیر حضرت حسن بصری کے سامنے پیش کی تو انہوں نے فرمایا: ابو العالیہ نے سچ کہا اور خالص بات کی۔‘‘
ایک روایت میں آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے خاص اہل بیت اور صحابہ کا ذکر ہے، یہ سب صراط مستقیم ہیں۔
قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی: 63، 64
اس تفسیر کے مطابق اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ و اہل بیت ہی صراط مستقیم کہلائیں گے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کی ذات کو، اس کے گھر والوں اور اہل مجلس لوگوں کو صراط مستقیم نہیں کہا جاسکتا۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو منزل تک پہنچاتا ہے اور وہ راستہ حضور نبی اکرم ﷺ سے شروع ہوتا ہے اور آپ ﷺ کے اہلِ بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے سیدھا جنت کو جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام صراطِ مستقیم اس معنی میں ہیں کہ وہ براهِ راست آپ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے پھر آپ ﷺ کی سنت مطہرہ اور سیرت پاک کی تعلیمات کو آگے بیان کیا اور اس کی تشریح کا فریضہ سر انجام دیا۔ یہاں ختم نبوت کا نکتہ یہ ہے کہ اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ ہی ہر شخص کے لیے مینارۂ نور ہیں اور آپ ﷺ ہی کی راہ ہدایت دنیوی و اخروی کامیابی کی راہ ہے اس کے بعد کسی اور کو ہدایت کی راہ لانے کی ضرورت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِيْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔
البقرہ، 2: 4
’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
4۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۔
النساء، 4: 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ۔‘‘
شرائط ایمان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ وحی پر ایمان لایا جائے خواہ وہ وحی حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہو یا آپ سے پہلے پیغمبروں پر۔ اَلْحَمْد سے وَالنَّاس تک پورے قرآن مجید میں وحی کو بااعتبار ایمان تقسیم کرتے ہوئے صرف دو اقسام بیان کی گئیں:
1۔ اس وحی پر ایمان جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی۔
2۔ اس وحی پر ایمان جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نازل ہوئی۔
مذکورہ بالا آیات میں وحی کی انہی دو اقسام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اوّل الذّکر وحی وہ ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی، اسے ماننا عین ایمان اور اس کا انکار کفر ہے۔ مؤخر الذکر وحی وہ ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نازل ہوئی، اس کا ماننا بھی ایمان اور اس کا انکار کفر ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی نزولِ وحی امر الٰہی ہوتا تو اس کی بھی یہی شان ہوتی اور قرآن ضرور اس کا ذکر کرتا مگر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فقط دو قسموں کی وحی کا ذکر کیا اور اس میں کوئی ابہام نہ رہنے دیا، ایک وہ وحی جو حضور تاجدار کائنات حضرت محمد ﷺ پر اتری، دوسری وہ جو آپ ﷺ سے پہلے اتری۔ وحی بھیجنے والا خود صرف دو قسم کی وحی کی بات کرتا ہے تو کسی اور کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ تیسری قسم کی وحی کی بات کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ آپ ﷺ کے بعد بھی وحی کا سلسلہ جاری ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں ایمان کا ذکر کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ ایمان اس ماننے کو کہتے ہیں جس کے انکار سے کفر لازم آ جائے کیونکہ وحی کو بھی ایمان کے مسلمات میں شامل کیا گیا ہے لهٰذا وحی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے انکار سے کفر لازم آئے چنانچہ انکارِ وحی کی دو صورتیں ہیں:
1۔ ایک نبیٔ برحق پر وحی نازل ہوئی اور کسی نے اس کا انکار کر دیا تو انکار کرتے
ہی کافر ہو گیا۔
2۔ کوئی نبی ہی نہ ہو اور نہ اس پر وحی نازل ہوتی ہو اور کوئی اسے نبی کہہ دے تب بھی
کفر لازم آجائے گا۔
ایمان کا مسئلہ انتہائی نازک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایمان کا ذکر کیا وہاں اس کی وضاحت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ یہ اس لیے کہ اگر اللہ اور اس کا رسول ایمان اور اس کے متعلقات کو واضح نہ کریں تو ان کی وضاحت کے لیے اور کون آئے گا۔ چونکہ مذکورہ بالا آیت بھی متلعقاتِ ایمان کے حوالے سے ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وحی کی ان دو اقسام کے علاوہ کوئی تیسری قسم ہوتی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے بیان نہ فرمائی ہو۔ اگر کوئی وحی حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد نازل ہونا ہوتی تو وَمَا یُنَزَّلُ مِنْ بَعْدِکَ (اور جو وحی آپ کے بعد نازل ہوگی) کے الفاظ وارد ہوتے اور یہ کہہ کر اسے بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیا جاتا لهٰذا جو حضور نبی اکرم ﷺ کی وحی اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی کو مانے وہی مومن ہے اور جو آپ ﷺ کے بعد کسی وحی کا دعویٰ کرے وہ خود بھی کا فر ہے اور اس پر یقین کرنے والا بھی کافر ہے۔
مذکورہ بالا آیات کے مفہوم پر غور سے ذہن میں سوال پیدا ہوتاہے کہ جو وحی پہلے اتری اس کا ذکر پہلے اور جو وحی بعد میں اتری اس کا ذکر بعد میں ہونا چاہئے تھا لیکن یہاں ترتیب اس کے برعکس ہے، آخر کیوں؟ تقدمِ ذکر کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کی جماعت میں حضور نبی اکرم ﷺ کا اعلیٰ و ارفع مقام واضح فرمانا چاہتا ہے۔ بے شک وحی سابقہ انبیاء پر پہلے اتری مگر آپ ﷺ مقام و مرتبہ اور تخلیق میں تمام انبیاء سے پہلے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس رفعتِ شان کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کا ذکر سب پر مقدم ہوتا۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے تمام انبیاء کو آپ ﷺ سے پہلے قرار دیا۔ آیت مبارکہ میں لفظ مِنْ قَبْلِکَ استعمال ہوا ہے۔ قبل کا معنی پہلے ہے جس کی ضد اور مقابل بعد اور آخر دونوں آتے ہیں، مگر بعد اور آخر میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر دس آدمی کسی کے گھر چلے جائیں تو دوسرا آدمی پہلے کے بعد جائے جبکہ تیسرا دوسرے کے بعد گھر میں داخل ہو۔ اس طرح نواں آٹھویں کے بعد اور ان نو آدمیوں میں سے ہر ایک اپنے سے پہلے کے بعد ہے مگر آخر میں کوئی بھی نہیں کہ آخر میں صرف وہی ہوگا جو سب کے بعد ہے اور اس کے بعد کوئی نہیں۔ یعنی وہ جس کے آنے کے بعدسب کے آنے کا سلسلہ ختم ہو جائے اور کسی اور کے آنے کا امکان نہ رہے۔ اگر ہم از رهِ تمثیل کسی کا نام لے کر کہیں کہ باقی سارے اس سے پہلے آئے ہیں، ہمارا یہ کہنا ہی اس کے سب سے آخر میں آنے کی دلیل ہے چنانچہ سب انبیاء کا آپ سے پہلے ہونا آپ کے آخر ہونے کی دلیل ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو صرف اس وحی پر ایمان لانے کا حکم دے رہا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر اتری اور آپ ﷺ سے پہلے اتری، حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی وحی پر ایمان لانے کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی وحی پر ایمان کیوں لائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں روئے خطاب صرف اہلِ ایمان سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فرمایا ہے، یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ نہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر قرآن اور کتب ما سبق پر ایمان لانے کی پابندی عائد فرمائی ہے اور جوحضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی وحی پر ایمان لائے، ان کا شمار ایمان والوں میں ہوتا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے خطاب ہی نہیں کیا۔ وہ چاہیں مانتے پھریں، وہ کافر ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُوْلُوْا اٰمَنَّا بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ ج لَانُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَo
البقرۃ، 2: 136
’’ (اے مسلمانو!) تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السّلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السّلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرمانبردار ہیںo‘‘
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 136 میں مسلمانوں کو صرف نزولِ وحی کی دو قسموں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، ایک اس وحی پر جو ان کی طرف بھیجی گئی یعنی قرآن حکیم اور دوسری وہ جو پہلے انبیاء کی طرف بھیجی گئی جن میں سے چند جلیل القدر انبیاء کے اسمائے گرامی بطور مثال درج کیے گئے۔ اس جگہ وَمَا اُوْتِیَ صیغہ ماضی اور النَّبِیُّوْنَ پر لامِ استغراق اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ انبیاء پر آسمانی وحی کا نزول تمام ہوچکا۔ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰٓـئِکَتِهٖ وَکُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَيْکَ الْمَصِيْرُo
البقرۃ، 2: 285
’’ (وہ) رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں:) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہےo‘‘
سورۃ البقرہ، کی محولہ بالا آیت میں ختم نبوت سے متعلق دو چیزیں بطور خاص قابلِ توجہ مذکور ہیں۔
1۔ صرف اس وحی پر ایمان لانا کافی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد وحی آنے کا کوئی امکان ہوتا توآیت میں اس پر ایمان لانے کو بھی لازم قرار دیا جاتا۔
2۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا واجب ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی کسی بھی رنگ میں (خواہ بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی صورت میں) آنے والا تھا تو آیت میں ضرور بالضرور اس کی اطلاع دی جاتی اوراس پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا۔ عدم ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کا وجود خارج از امکان ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْکَ کَمَآ اَوْحَيْنَـآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ م بَعْدِهٖ ج وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَھٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ج وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاo
النساء، 4: 163
’’ (اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السّلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھیo‘‘
اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی کا سلسلہ تمام ہو چکا۔ بصورتِ دیگر پیشِ نظر آیت میں اس کا ضرور ذکر کیاجاتا۔ قرآن کا حضور نبی اکرم ﷺ کی وحی کے بعدکسی وحی کا ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سلسلۂ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہو چکا ہے۔
قرآن مجید بشمول مذکورہ بالا آیات کئی مقامات پر یہ بات واضح کر چکا ہے کہ وحی وہی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر اور آپ ﷺ سے پہلے انبیاء سابقہ پر نازل ہوئی اور آپ ﷺ ہی کی ذات اقدس کے ساتھ اس کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید میں کہیں بھی نزولِ وحی کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مقدسہ کے بعد وحی نازل ہونے کے امکان کا اشارةً بھی ذکر نہیں کیا جو حتماً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نزول وحی اور اجرائے وحی کا دروازہ قیامت تک آپ ﷺ کے بعد بند ہو چکا ہے۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وحی اُترنے کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔
نبی اور غیر نبی میں مابہ الامتیاز فرق و امتیاز وحی الٰہی ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس کے علاوہ نبوت کے کچھ اور خصائص بھی ہیں لیکن کائنات بشریت میں دیگر انسانوں سے جو شے نبی کو منفرد اور ممتاز کرتی ہے، وہ وحی الٰہی ہے اور اس کی حاملِ خصوصیت کو نبوت کا نام دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ جب وحی الٰہی کے شرف سے کسی بندے کومتمیز فرما دیتا ہے تو پھر خصائص و خصائلِ نبوت میں سے جو چاہے اور جسے چاہے اس کے حسبِ حال حصہ عطا فرما دیتا ہے۔
وحی الٰہی تین صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے لیے منتخب بندے پر نازل ہوتی ہے۔ اگرچہ کتب حدیث میں اس کی اور بھی کئی شکلیں بیان کی گئی ہیں مگر اس وقت ہم یہاں صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وحی اللہ کے نبی کی طرف قرآن کی رو سے تین صورتوں میں نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ شوریٰ میں ان صورتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَان لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللهُ اِلاَّ وَحْیًا اَوْمِنْ وَرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآء۔
الشوریٰ، 42: 51
’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براهِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔‘‘
قرآن مجید نے محولہ بالا آیت میں نزولِ وحی کی جو تین صورتیں بیان کی ہیں۔ اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے دل میں کوئی حکم یا پیغام القا کر دیتا ہے اور وہ اس کا نفسِ مضمون آگے بیان کرتا ہے۔ وحی کی اس قسم میں نطق تو نبی کا ہوتا ہے، مگر کلام فی الحقیقت اللہ کا ہوتا ہے یعنی مخلوق تک پیغام پہنچانے کے لیے زبان تو بندے کی کھلتی ہے مگر اس زبان پر کلام اللہ کا جاری ہوتا ہے۔
مذکورہ آیت کے مطابق نزول وحی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے براہ راست پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے۔ اس طرح اللہ کا نبی اپنی آنکھ سے محبوب حقیقی (اللہ) کو تو نہیں دیکھتا لیکن اپنے کانوں سے اس کی آواز ضرور سنتا ہے، جیسے کہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ شرف حسبِ ارشادِ باری تعالیٰ نصیب ہوا:
وَکَلَّمَ اللهُ مُوْسیٰ تَکْلِيْمًاo
النساء، 4: 164
’’اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائیo‘‘
تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ اپنے مقرب فرشتے کو اپنے صاحبِ شریعت نبی کی طرف پیغام دے کر بھیجتا ہے اور پھر اس فرشتے کے ذریعے اس نبی کے قلب پر اپنی وحی نازل کرتا ہے۔ جیسا کہ قلبِ مصطفوی ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں ارشاد فرمایا:
قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللهِ۔
البقرہ، 2: 97
’’آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
نَزَّلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo
الشعراء، 26: 193، 194
’’اس (قرآن) کو روح الامین (جبرائیل) لے کر اترا ہےo آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیںo‘‘
اس امر میں کوئی شک نہیں اور مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ وحی کا نزول مذکورہ بالا تین صورتوں میں اللہ کے منتخب بندے نبی پر ہوتا ہے اور نبی کے لیے وحی کا ہونا ضروری ہے لهٰذا وحی اِلٰہی ہی نبی اور غیر نبی کے مابین امتیازی فرق ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَيَّ۔
الکھف، 18: 110
’’فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے، ذرا غور کرو) میری طرف (تو) وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے)۔
اس آیۂ کریمہ میں عقیدۂ توحید و رسالت میں فرق بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ سے فرمایا کہ میرے بندوں کو بتا دو کہ بلاشبہ نفس بشریت کے اعتبار سے میں تم جیسا بشر ہوں لیکن میرے اور تمہارے درمیان ایک چیز وجہ امتیاز ہے وہ یہ کہ میری طرف بارگاهِ حق سے وحی نازل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ ان پر یہ واضح کر دو کہ یہ لوگ تجھے اپنی طرح کھاتا پیتا گلیوں میں چلتا پھرتا بازار میں لین دین اور کاروبار کرتا جنگوں اور صلح میں شرکت کرتا الغرض ظاہری زندگی کے تمام مظاہر میں اپنے ساتھ شریک دیکھ کر تجھے اپنے جیسا بشر تصور کرنے لگتے ہیں، تو اپنی زبان سے اُنہیں کہہ دے کہ محض بادی النظر میں تم جیسا ہوں اور جہاں تک باقی باتوں کا تعلق ہے تم میرے جیسے نہیں ہو سکتے، ایسا کہنا سراسر غلط ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کی رو سے آپ ﷺ نے اپنی عدم مثلیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: أَیُّکُمْ مِثْلِيْ (تم میں سے کون میری مثل ہو سکتا ہے)؟ جبکہ یُوْحیٰ إلَيَّ (اللہ مجھ سے کلام کرتا ہے) اور تم اس سے محروم ہو۔ یہاں پر ما بہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز پہلو بشریت و رسالت مصطفی ﷺ کے باب میں واضح کرتے ہوئے منکرین کو باور کرایا جا رہا ہے کہ بشری زندگی کے احوال و اوصاف اور خصائص اللہ نے مجھے بھی وہی عطا کیے ہیں جو تم کو عطا کیے ہیں لیکن خبردار تم ان ظاہری احوال کو دیکھ کر مجھے اپنے جیسا تصور نہ کرنے لگ جانا بلکہ یہ امر ہمہ وقت تمہارے دل و نگاہ میں رہے کہ اللہ مجھ سے کلام کرتا ہے اور وحی الٰہی کی جو فضیلت مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس سے ہما شما کو محروم رکھا گیا ہے۔ اس نے بشریت کے احوال کے ساتھ نبوت کے فضائل و کمالات اور خصائص و امتیازات عطا کرکے مجھے تم سے ممتاز کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ایک مثال حقیقت حال کو بخوبی واضح کر دے گی۔ خاک کی دو ڈھیریاں علیحدہ علیحدہ پڑی ہوئی ہیں، ایک ڈھیری کوڑا کرکٹ میں پڑی بدبو دار چیز دیر تک گل سڑ رہی ہے جبکہ دوسری ڈھیری شگفتہ پھولوں سے مہک رہی ہے تو خاک کی دونوں ڈھیریاں دیکھنے میں ایک جیسی نظر آتی ہیں مگر دونوں کے اوصاف اور احوال و خصائص میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ پہلی ڈھیری کے پاس سے گزرتے ہوئے بدبو اور تعفن کے بھبھکے ایک ثانیے کے لیے رکنے نہیں دیتے جبکہ دوسری ڈھیری کے پاس ذرا دیر رکیں تو مشام جاں خوشبو سے مہکنے لگتا ہے اور یہ خوشبو ان پھولوں کی مہکار کا اثر ہے جس کی صحبت نے اس مشت خاک کو گل و گلزار میں بدل دیا۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس خوشبودار مٹی سے ہم کلام ہو کر اس کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا:
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتی باگل نشستم
جمال ہم نشین درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
(گلستان سعدی)
(مٹی کہنے لگی کہ میں ایک ناچیز مٹی تھی لیکن کچھ دیر پھول کی صحبت میں رہنا نصیب ہوا۔ یہ اسی کی صحبت کا اثر ہے کہ اس نے مجھے با کمال کر دیا (اور مجھ میں خوشبو پیدا ہو گئی) وگرنہ جیسا کہ مجھے خبر ہے میں تو صرف ایک مٹی ہوں۔)
حضور نبی اکرم ﷺ کا پیکر بشریت ظاہری احوال میں ہمارے جیسا نظر آتا ہے جس پر مدتوں تجلیات الٰہی اور وحی کا نزول ہوتا رہا اور آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نزولِ وحی نے آپ ﷺ کی بشریت کی ماہیت کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس پیکرِ بشریت کے اندر پیدا ہونے والے خصائص، فضائل اور عظمتوں کے عالم کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ بعض لوگ ظاہری چیزوں میں قدر مشترک دیکھتے ہیں لیکن قدر مابہ الامتیاز کی طرف ان کی نظر نہیں جاتی۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کی وحی اور نعمتِ نبوت پیکرِ بشریت کو پورے عالم انسانیت سے ممتاز کر دیتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی بشریت کو کسی ارضی پیمانے پر نہیں ناپا جا سکتا۔ اس کو خالق کائنات نے اپنا شہکار بنا کر ان کمالات و امتیازات سے نوازا جو کسی اور فرد بشر میں نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم کو بھی بشریت ملی اور حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی پیکرِ بشریت عطا ہوا لیکن ہمارے جیسے عام لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر غلیظ اور گندی شے پر بیٹھنے والی مکھی ہم پر بیٹھ جاتی ہے جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پیکر بشریت پر ایک عام مکھی کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ ہم سے پسینہ نکلے تو اس سے بدبو پیدا ہوتی ہے لیکن آپ ﷺ کے جسم اطہر سے نکلنے والے پسینے کا یہ عالم تھا کہ جن راہوں سے گزر جاتے فضائیں معطر ہو جاتیں۔ ہمارا لعاب دہن جراثیم کا مرکز ہے مگر اس پیکرِ بشریت کا یہ عالم ہے کہ لعاب دہن اگر کسی کے سقیم جسم پر لگ جائے تو اسے شفا ہو جاتی ہے۔
ایک نابینا شخص کو اس لعابِ دہن کی شفا بخشی سے بینائی دوبارہ نصیب ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ کا دستِ مسیحائی کسی کو چھو لے تو موت زندگی میں بدل جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے نفسِ بشریت کی ظاہری مماثلت کا انکار نہیں مگر آپ ﷺ کی بشریت بے مثل کمالات و فضائل کی حامل ہے اور ہماری بشریت کی عجز و بے بسی اور فروتنی ایک تسلیم شدہ بات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بشریت معطر، منور حد درجہ لطیف اور سراپا نورانی ہے فقط اس لیے کہ آپ ﷺ کا قلبِ اطہر اللہ کے کلام کا مرکز اور اس کی وحی کا منبع و سرچشمہ ہے۔
چونکہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ جس طرح قدیم ہے اس کا کلام بھی اسی طرح قدیم ہے۔ جس طرح اللہ کو عارضی اور محدود سمجھنا کفر ہے اسی طرح اللہ کی کسی صفت کو عارضی، محدود اور معاذ اللہ ناقص سمجھنا بھی کفر ہے۔ کلامِ اِلٰہی اللہ کی صفت ہے تو جس پیکر بشریت کا پوری زندگی اللہ کے کلام سے تعلق پیدا ہو گیا تو اس کا قلب صفات الهٰیہ کا مہبط اور مرکز و محور بن گیا ہے اور جس کا قلب صفات الهٰیہ اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہوگیا اس کے ترفع و تقدس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ کتب احادیث میں درج ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو دیکھنے والے دیکھتے کہ آپ ﷺ کی حالت مختلف اور دگرگوں ہو جاتی کبھی ذات رسالت مآب ﷺ کو پسینہ آجاتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ وحی قلب اطہر پر نازل ہو رہی ہوتی لیکن بوجھ کے باعث اُونٹنی زمین پر بیٹھ جاتی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو احوالِ نبوت کے رازدان تھے وہ آپ ﷺ کی ظاہری کیفیت کو دیکھ کر جان جاتے کہ اللہ کا کلام آقا و مولا ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہو رہا ہے اور جب حضور نبی اکرم ﷺ واپس اپنی پہلی حالت کی طرف رجوع فرماتے تو وہ سمجھ جاتے کہ اب وحی کا آنا ختم ہو گیا ہے۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بشریت پر وارد ہونے والے ظاہری اثرات اس بات کے آئینہ دار تھے کہ آپ ﷺ پر کلامِ اِلٰہی حالت بشریت میں نازل ہوتا تھا اور حضور نبی اکرم ﷺ کا پیکر بشریت اس قابل بنا دیا گیا تھا کہ کلامِ اِلٰہی اور صفات اِلٰہی کو اپنے اندر جذب کر لیتا چنانچہ دُنیا کے کسی فرد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ ﷺ کو اپنے جیسا بشر تصور کرے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ باشد درنوشتن شیر شیر
مولانا فرماتے ہیں کہ ان اولیاء اللہ کے معاملات کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو اور یہ گمان نہ کروکہ وہ ہماری طرح کے بشر ہیں اور ان کے احوال و معاملات ہمارے حالات سے مماثلت رکھتے اور یکساں نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے شِیر اور شیر لکھنے میں ایک جیسے ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شِیر دودھ کو کہتے ہیں جو انسان کی غذا ہے جبکہ شیر وہ درندہ ہے کہ انسان اُس کی غذا ہے۔ دونوں لفظوں کے حروف اور لکھنے کاانداز بھی ایک جیسا ہے، فقط زیر و زبر کے فرق نے دونوں کی حقیقت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکباز لوگ دیکھنے میں عام انسانوں جیسے ہیں لیکن ان کی بارگاہ خداوندی میں مقربیت، تعلق اور نسبت کے اعتبار سے اُنہیں کائنات سے منفرد کر دیتی ہے۔ یہ تو پاکانِ امت کی بشریت کا عالم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بشریت مقدسہ کا کیا عالم ہے اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا وجود بشری ہونے کے باوجود سایہ نہ تھا اس بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ پیکرِ بشریت رکھتے تھے، لیکن آپ کی نورانیت نے اس کی ماہیت بدل دی تھی۔ اس لیے جب سورج چمکتا یا چاندنی رات ہوتی تو زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کا سایہ نہ پڑتا حالانکہ جسم کی یہ خاصیت ہے کہ وہ سایہ رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے جو لطافت نور کو عطا کی ہے اس سے کہیں زیادہ لطافت حضور نبی اکرم ﷺ کے جسم اور بشریت کو عطا کی یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کا جسم اطہر نور سے بھی بدرجہا لطیف تر تھا۔ چنانچہ جس طرح نور عام چیزوں سے گزرتا ہے، آپ ﷺ کے جسم اطہر سے بھی گزر جاتا۔ اس نورانیت کے باعث وجودِ مصطفوی ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ سائنسی توجیہ کی رو سے سایہ تو ہے ہی اندھیرے کا دوسرا نام۔ نبی رحمت سرکارِ دوجہاں ﷺ سرتاپا نور ہونے کی وجہ سے اندھیروں کو اُجالوں میں بدلنے کے لیے آئے تھے اگر ان کا جسم اطہر سایہ دار ہوتا تو اندھیروں کو ختم کس طرح کیا جا سکتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا نوری جسم تو آیا ہی اندھیرا دور کرنے کے لیے تھا پھر اس کا سایہ کہاں سے آتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآء اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِيْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ ط عَفَا اللهُ عَنْھَا ط وَاللهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌo
المائدہ، 5: 101
’’اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے) ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صوابدید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بُردبار ہےo‘‘
اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اگر اس سے متعلق کوئی حکم نازل کر دیا گیا تو اس چیز میں ہمیشہ کے لیے تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ قرآن حکیم سب سے آخری وحی ہے، اس کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہو گی کہ جس کے ذریعے اس حکم میں ترمیم ممکن ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ۔
البقرہ، 2: 41
’’اور اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو میں نے (اپنے رسول محمد ﷺ پر) اتاری (ہے) حالانکہ یہ (اس کی اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے۔‘‘
اہل کتاب کو صرف اس وحی پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی، آپ ﷺ کے بعد کسی پر نازل کردہ وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ وحی کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو چکا ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ ٰامِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ قَالُوْا نُؤمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآئَهُ وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَھُمْ۔
البقرہ، 2: 91
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس (کتاب) پر ایمان لائو جسے اللہ نے (اب) نازل فرمایا ہے (تو) کہتے ہیں: ہم صرف اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی، اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ (قرآن بھی) حق ہے (اور) اس (کتاب) کی (بھی) تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ وحی کو حق کہا گیا ہے، آپ کے بعد کسی نبی پر نازل کردہ وحی کو حق نہیں کہا گیا جو آپ ﷺ کے خاتم الوحی اور خاتم النبیین ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَإنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ یَدَيْهِ۔
البقرہ، 2: 97
’’آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن حکیم صرف ان آسمانی والہامی کتابوں کی تصدیق فرماتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں، اپنے بعد کسی آسمانی کتاب کی تصدیق نہیں کرتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نَزَّلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ یَدَيْهِ۔
آل عمران، 3: 3
’’(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں)کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں تسلسل کے ساتھ کتابِ حق کی شانِ مصدّقیت بیان ہوئی ہے۔ خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کی ایک واضح اور بین دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب مبین اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اگر بعد میں کسی وحی کا نزول ہونا ہوتا تو اس کا تذکرہ بھی لازماً کیا جاتا۔ وہ وحی جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نازل ہوئی اور جو وحی حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی دونوں اپنی شان اور مرتبہ میں وحی الٰہی ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ سابقہ کتبِ سماویہ اپنی صداقت و حقانیت کی تصدیق کے لیے قرآن کی محتاج ہیں۔ قرآن نے ان کی صداقت و حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس طرح منزل من اللہ کتابوں میں قرآن کریم نہ صرف خود وحی ہے بلکہ پہلے اترنے والی وحی کی تصدیق بھی کرنے والا ہے۔
ان آیات کریمہ سے دو چیزیں معلوم ہوئیں:
1۔ اللہ رب العزت نے اہل کتاب کو صرف قرآن مجید پر ایمان لانے کا حکم دیا اور اس کے بعد کسی اور وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ صراحتاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور وحی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ قرآن مجید صرف اپنے ما قبل وحی کی تصدیق کرتا ہے اگر مابعد وحی بھی نازل ہونا ہوتی تو ضرور اس کی بھی تصدیق کی جاتی۔ قرآن کو یہ شان اس لیے عطا کی گئی کہ اس نے آخر پر آکر سلسلۂ وحی کے خاتمے کا اعلان کرنا تھا جبکہ باقی سب کتابیں اس سے پہلے آ چکی تھیں۔
مذکورہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ فقط اسی کتاب اور وحی کو حق مانا جائے گا، جس کی تصدیق قرآن نے کر دی اورجس کی تصدیق قرآن نے نہیں کی، وہ لائق ایمان نہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ قرآنی تصدیق معیار حق ہے۔ اور یہ شان مصدقیت فقط قرآن کو عطا کی گئی ہے۔ قرآن حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کی خاتمیت اور سابقہ نازل ہونے والی آسمانی کتب کا مصدق بن کر اترا ہے۔ قرآن کے بعد نازل ہونے والی کتاب اور وحی کے حق ہونے کی تصدیق تو بعد کی بات ہے قرآن نے تواشارۃ اور کنایۃ اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔ چنانچہ جو کتاب اور وحی تصدیق و توثیقِ قرآن سے خالی ہو وہ حق نہیں ہو سکتی۔
اس مقام پر یہ سوال کہ قرآن کی تصدیق ناقص ہے یا کامل اور اگر قرآن کی تصدیق کامل ہے تو پھر اس کا کسی بعد میں آنے والی وحی کی تصدیق نہ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے بعد ہی وحی آنے کا دروازہ مطلقاً بند ہوچکا ہے کیونکہ اگر قرآن کے بعد بھی وحی اترنا ہوتی تو قرآن ضرور اس کی تصدیق کرتا۔ سو اگر کوئی شخص قران کے بعد نزول وحی کا اعتقاد رکھے تو وہ جان لے کہ یہ قرآن کے دائرہ تصدیق سے خارج ہے اور جو نام نہاد وحی قرآن کے دائرہ تصدیق سے خارج ہے وہ لائق ایمان ہی نہیں۔ معاذ اللہ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن کی تصدیق ناقص ہے تو لامحالہ یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن وحی میں بعض کی تصدیق تو کرتا ہے اور بعض کی نہیں کرتا، تو پھر اس تصدیق کا کوئی فائدہ نہیں اور اسے معتبر نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایمان کے باب میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جس طرح ذاتِ مصطفی ﷺ میں کسی قسم کا کوئی نقص اور عیب ماننا کفر ہے۔ اسی طرح قرآن اوراس کی تصدیق میں کسی قسم کاکوئی نقص اور عیب ماننابھی صریحاً کفر ہے۔ جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کامل و اکمل ہے، اسی طرح قرآنی تصدیق بھی کامل و اکمل ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَمَّا جَآء ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ۔
البقرہ، 2: 101
’’اور (اسی طرح) جب ان کے پاس اللہ کی جانب سے رسول (حضرت محمد ﷺ) آئے جو اس کتاب کی (اصلاً) تصدیق کرنے والے ہیں جو ان کے پاس (پہلے سے) موجود تھی۔‘‘
اس آیۂ کریمہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ صرف ان الہامی کتابوں کے مصدق ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوئیں۔ آپ ﷺ اپنے بعد کسی الہامی کتاب کے مصدق نہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًاo
`الأحزاب، 33: 7
’’اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیھم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیاo‘‘
یہ آیت کریمہ میثاق انبیاء کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس میثاق میں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے قبل آنے والے تمام انبیاء اپنی ارواح مبارکہ کی صورت میں شریک ہوئے۔ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے حبیب مکرم ﷺ کا ذکر فرمایا جس کی وجہ خود زبان رسالت مآب نے بیان فرمائی ہے:
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ} الاٰیۃ، قال النبي ﷺ : کنت أول النبیین في خلق وآخرھم فی البعث، فبدأ بي قبلھم۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 470
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے فرمان الٰہی {اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے …} کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تخلیق میں انبیاء سے اول ہوں اور بعثت میں سب سے آخری ہوں چنانچہ ابتدا مجھ سے کی گئی۔‘‘
اس ارشاد گرامی سے محولہ بالا آیت کریمہ کا حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کی دلیل ہونا ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَةٍ ثُمَّ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمُ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ۔
آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد کر لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس (وہ سب پر عظمت والا)رسول تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور تم ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ میں اس مفہوم پر مبنی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ سب سے آخر میں تشریف لانے والے باعظمت رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ نہ صرف پہلے آنے والی کتابوں بلکہ سابقہ انبیاء کی بھی تصدیق کرنے والے ہیں۔ ان برحق نازل ہونے والی آسمانی کتابوں میں صراحت کے ساتھ آپ ﷺ کی آمد کی خوش خبری سنائی گئی تھی اور آپ کے نبی آخر الزماں ہونے کا ذکر پوری علامات کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 81 میں نہ صرف خلقتِ محمدی ﷺ اور عظمتِ رسالتِ نبوی ﷺ کا ذکر ہو رہا ہے بلکہ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو اس میں ختمِ نبوت کا بیان بھی موجود ہے۔ آیتِ مذکورہ میں واضح طور پر دو پہلو از روئے استدلال ختمِ نبوت سے متعلق ہیں۔
1۔ ثُمَّ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ کے کلمات کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ انبیاء کرام علیہم السلام کو مخاطب کرکے ارشاد فرما رہا ہے کہ جب تم سب آ چکو گے اور اپنی اپنی نبوتوں کے زمانے گزار چکو گے اور کسی حال میں کوئی نیا نبی یا رسول آنے والا نہیں ہو گا تو پھر تم سب کے آخر میں میرا پیارا رسول ﷺ آئے گا۔
2۔ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ کے کلمات کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام انبیاء کا مُصَدِّق قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرے تمام انبیاء آئندہ آنے والوں کے لیے مبشر تھے۔ انہوں نے باری باری حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد کی بشارتیں دیں لیکن حضور ﷺ کسی کے مبشر نہیں بلکہ سب کے مصدِّق ہیں اور یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ تصدیق کرنے والا (مصدِّق) سب کے بعد ہی آتا ہے۔ بفرض محال اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ لازمًا اس کے مبشر ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا کہ دوسرے انبیاء کی طرح آپ ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آئے۔ اس لیے کہ اس سے آپ ﷺ کی عالم گیر رسالت اور نبوتِ تامہ میں نقص یا کمی کا شائبہ ہوسکتا تھا۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کو تاقیامت قائم رکھنا مقصود تھا اس لیے خدائے علیم و خبیر نے تمام انبیاء و رسل آپ ﷺ سے پہلے بھیج دیئے، اور آپ ﷺ کو تمام انبیاء کرام علیھم السلام کا خاتم بنا دیا۔
جس طرح اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن کو ساری کتابوں کا مصدق بنا دیا ہے۔ اسی طرح صاحب قرآن حضرت محمد ﷺ کو خاتم الانبیاء بنا کر سارے نبیوں کا مصدق بنایا، جس طرح نزولِ قرآن کے ساتھ وحی الٰہی کی تصدیق ہو گئی اسی طرح آقائے دوجہاں ﷺ تشریف لائے تو پہلی ساری نبوتوں کی تصدیق ہو گئی۔ جو شخص قرآن کے بعد کسی نئی وحی کا اعتقاد رکھے وہ قرآن کی شانِ مصدقیت کا انکاری ہے اور جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ خاتم الانبیاء ﷺ کی تصدیق سے انکاری ہے۔ نبوتیں بھی وہی حق ہیںجو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے اتریں اور حضور نبی اکرم ﷺ نے ان پر اپنی تصدیق کی مہر ثبت فرما دی۔ وحی اور کتابیں بھی وہی حق ہیں جو قرآن سے پہلے اتریں اور قرآن نے اتر کر اپنی مہر تصدیق ثبت فرما دی۔ قرآن کی شان مصدّقیت کا ذکر تو پچھلے صفحات پر گزر چکا ہے۔ اب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی شان مصدّقیت کا ذکر کریں گے۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ میثاق مضاف اور النبیین مضاف الیہ ہے اور یہ جمع کا صیغہ ہے۔ عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب جمع کا صیغہ مضاف الیہ واقع ہو تو اس میں عموم آجاتا ہے۔ اس قاعدے کی رو سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ میثاق (جو کہ میثاق نبوت تھا) اللہ گنے تمام انبیاء سے لیا تھا وہ افراد جو اس میثاق میں شامل نہیں گروہ انبیاء سے خارج رہے، اس کے علاوہ یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی مدد و نصرت کرنے کا جو پختہ وعدہ اپنے انبیاء سے لیا تھا، وہی وعدہ انبیاء اپنی امتوں سے لیتے رہے چنانچہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لم یبعث الله عزوجل نبیًّا آدم فمن بعدہ إلا أخذ علیہ العہد في محمّدٍ (ﷺ) لئن بُعث وھو حيّ لیؤمنَنّ بہ ولینصرَنّہ ویأمرَہ، فیأخذ العہد علی قومہ۔
طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 3: 232
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بعد جتنے بھی نبی بھیجے ہر نبی کو مبعوث کرنے سے پہلے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ان سے پختہ عہد لیا کہ ان کی دنیوی زندگی میں اگر حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئیں تو وہ ضرور بالضرور حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ضرور بالضرور آپ ﷺ کی مدد کریں گے اور ان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ اپنی امتوں سے بھی (یہی) عہد لیں۔‘‘
سورۃ آل عمران کی مذکورہ آیتِ میثاق میں لفظ ثُمَّ استعمال ہوا ہے جو کہ بعد میں آنے والے کے لیے ہوتا ہے۔ پہلے انبیاء کو کتاب و حکمت کے ساتھ بھیج دیئے جانے کا ذکر کرنے کے بعد ثُمّ کا استعمال بَعدیّت پر دلالت کر رہا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ اے گروہ انبیاء و رسل! جب تم سارے کے سارے کتاب و حکمت کے ساتھ آچکو گے تو پھر تم سب کے بعد وہ رسول آئے گا، جو نبی آخرالزماں ہے، وہ تاجدار کائنات، شان مصدقیت کا پیکر بن کر آئے گا اور وہ تمہاری نبوت و رسالت، تمہاری تعلیمات اور ہدایات کی تصدیق فرمائے گا۔
اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی مدد و نصرت کرنے کی یہ ذمہ داری اپنے انبیاء کو سونپی اور اس کی ادائیگی کا ان سے پختہ وعدہ لیا، چنانچہ ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ ہر نبی نے نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا قبول فرمایا، ہر نبی کی نبوت حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے پر منحصر تھی۔ انبیاء کرام نے حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کے بعد آپ ﷺ کی مدد و نصرت بھی کی۔ جس کی ایک صورت یہ تھی کہ ہر نبی نے اپنے معاصر یا اپنے ماقبل انبیاء کی نصرت کی تصدیق کی۔ اسی طرح اپنے مابعد آنے والے کی بھی تصدیق کی۔ یہ نصرت واجب اور ان کے فرائض منصبی میں شامل تھی۔ بعد میں آنے والے کی نصرت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے متعلق پیشین گوئی کی جائے اور اس کی علامتوں اور نشانیوں کو بعد میں آنے والوں پر اچھی طرح واضح کیا جائے اور ایمان لانے کے علاوہ اس کی تصدیق و اتباع اور مدد و نصرت کی وصیت اپنی امت کو کر دی جائے چنانچہ امام رازیؒ آیتِ میثاق کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
أن الانبیاء علیھم الصّلوۃ والسّلام کانوا یأخذون المیثاق من أممھم بأنہ إذا بعث محمد ﷺ فإنہ یجب علیھم أن یّومنوا بہ وأن ینصروہ۔
را زی، التفسیر الکبیر، 8: 116
’’تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں سے یہ عہد لیتے رہے کہ جب حضرت محمد ﷺ تشریف لائیں تو ان پر واجب ہے کہ وہ محمد ﷺ پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔‘‘
چنانچہ ہر نبی نے اپنے زمانے میں آقائے دوجہاں ﷺ کی بعثت کا ذکر کیا اور اپنی قوم کو اس کی بشارت دی۔ تمام الہامی کتب و صحائف میں حضور نبی اکرم ﷺ کی جہانِ آب و گل میں تشریف آوری کے تذکرے اور بشارتیں بڑی کثرت اور تواتر سے بیان ہوتی رہی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جب خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اُنہوں نے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰیٰـتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo
البقرہ، 2: 129
’’اے ہمارے رب! اُن میں اُنہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول مبعوث فرما جو اُن پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور اُن (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک توہی غالب حکمت والا ہےo‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو بشارت دی، اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے:
وَاِذْ قَالَ عِيْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبـَنِيْ اِسْرَائِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰةِ وَ مُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُهٗ اَحْمَدُ۔
الصف، 61: 6
’’اور جب (حضرت) عیسیٰ ابن مریم نے فرمایا (کہ) اے بنی اسرائیل! میں اللہ کا رسول ہوں (جو) تمہاری طرف (بھیجا) گیا ہوں (میں) تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے ان کا اسم گرامی احمد ہوگا۔‘‘
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَنَا دَعْوَةُ أَبِيْ إِبْرَاهِيْمَ وَبَشَارَةُ عِيْسٰی۔
1۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 453، رقم: 3566
2۔ احمد بن حنبل، المسند، 4: 127، 128
3۔ ابن حبان، الصحیح، 14: 313، رقم: 6404
4۔ بیہقی، شعب الایمان، 2: 134، رقم: 1385
’’میں اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل علمائے یہود و نصاریٰ اپنی اپنی آسمانی کتابوں میں درج بشارتوں کے حوالے سے بخوبی جانتے تھے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کے ظہور کا زمانہ قریب آ چکا ہے، انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کے دار الہجرت تک کا علم تھا یعنی یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب نامی بستی میں تشریف لائیں گے۔ چنانچہ وہ کھجوروں کے جُھنڈ والے اس شہر خنک میں ایک طویل عرصے سے آپ ﷺ کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘ دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کے ذاتی نام ہیں جبکہ باقی سب آپ کے صفاتی نام ہیں۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِي خَمْسَةُ أَسْمَاء: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یَمْحُو اللهُ بِي الْکُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ
ﷺ ، 3: 1298، رقم: 3339
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ: من بعدی اسمہ أحمد، 4: 1848، رقم:
4614
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ ﷺ ، 4: 1828، رقم: 2354
4۔ ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الأدب، باب ما جاء فی اسماء النبی ﷺ ، 5: 130، رقم:
2840
’’میرے پانچ نام ہیں: میں محمد و احمد ہوں اور میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہے اور میں حاشر ہوں کہ لوگوں کا حشر میرے قدموں میں کیا جائے گا اور میں عاقب یعنی آخری نبی ہوں۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے جب حضور تاجدار کائنات، نبی آخر الزماں ﷺ کی آمد کی بشارت دی تو انہوں نے آپ کے اسم مبارک محمد کی بجائے احمد کیوں ذکر کیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ محمد اور احمددونوں حضور نبی اکرم ﷺ کے ذاتی نام ہیں مگر احادیث سے ثابت ہے کہ آسمانوں پر آپ کے اسم احمد کی دھوم ہے جبکہ زمین پر اسم محمد ﷺ کا چرچا ہے۔ انہوں نے وہ نام بتایا جس سے آپ ﷺ کو آسمانوں پر پکارا جاتا تھا۔ چنانچہ امام قسطلانی حدیث نقل کرتے ہیں:
لَمَّا خَلَقَ اللهُ تَعَالٰی آدَمَ، أَلْھَمَهُ أَنْ قَالَ: یَا رَبِّ! لِمَا کَنَّيْتَنِي أَبَا مُحَمَّدٍ؟ قَالَ اللهُ تَعَالٰی: یَاآدَمُ! ارْفَعْ رَأْسَکَ۔ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَرَأَی نُوْرَ مُحَمَّدٍ ﷺ فِيْ سُرَادِقِ الْعَرْشِ، فَقَالَ: یَا رَبِّ! مَا ھَذَا النُّورُ؟ قَاْلَ: ھَذَا ُنوْرُ نَبِيٍّ مِّنْ ذُرِّیَّتِکَ اسْمُهُ فِي السَّمَآء أَحْمَدُ وَفِي الْأَرْضِ مُحَمَّدٌ، لَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُکَ وَلَا خَلَقْتُ سَمَآءً وَ لَا أَرْضًا۔
قسطلانی، المواھب اللّدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 9
’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ان کو الہام کیا تو انہوں نے پوچھا کہ اے میرے پروردگار تو نے کس لیے میری کنیت ابومحمد رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے آدم اپنا سر اوپر اٹھاؤ، حضرت آدم علیہ السلام نے جب اپنا سر اوپر اٹھایا تو انہوں نے حضرت محمد ﷺ کا نورِ اقدس عرش کے خیموں میں دیکھا تو انہوں نے پوچھا، اے میرے مولا یہ نور کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اے آدم‘‘ یہ میرے (برگزیدہ) نبی کا نور ہے جو تیری اولاد سے ہے۔ اس (پیکر نور) کا نام آسمان پہ احمد اور زمین پر محمد ہے۔ اگر یہ پیکر نورنہ ہوتا تونہ میں تجھے پیدا کرتا اور نہ آسمان کو پیدا کرتا اور نہ ہی زمین کو۔‘‘
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جو آپ کا اسم مبارک احمد ذکر فرمایا اس کی بے شمار حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جب وہ آپ ﷺ کی آمد کی بشارت دے رہے تھے اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ کا قیام آسمانوں پر تھا یعنی وہ آپ ﷺ کا زمینی دور نہ تھا، اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے اس نام کا ذکر کیا جس سے آپ ﷺ کو اس وقت کائناتِ سماوی میں پکارا جا رہا تھا۔
دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا آسمان پر نام احمد اور زمین پر محمد ہے مگر حضور نبی اکرم ﷺ نے بالآخر زمین پر آنا تھا اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ وہ محمد ﷺ بتاتے کیونکہ زمین پر تو اسی نام کی دھوم ہونی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ گو حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر پیدا ہوئے اور زمین والوں میں رہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کی مگر فی الواقع ان کی پیدائش سے لے کر رفع سماوی تک ان کے بہت سے احوال آسمان والوں سے مشابہ تھے۔ ان کی پیدائش مروجہ انسانی طریقہ سے ہٹ کر اس طرح ہوئی کہ جلیل القدر فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور حضرت مریم کے دامن پر پھونک مارنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی، پھر مختصر ارضی زندگی بسر کرنے کے بعد دوبارہ ان کا آسمان پر عروج ہو گیا گویا آغاز و اختتام کے اعتبار سے ان کی حیات آسمانی مخلوق سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے انہوں نے اپنی قوم کو حضور نبی اکرم ﷺ کا سماوی نام یعنی ’’احمد‘‘ بتایا۔
اُمم سابقہ آسمانی کتابوں کے ذریعے نبی آخرالزماںحضرت محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں مکمل معرفت رکھتی تھیں۔ انہیں آپ کی جائے ولادت، مقام بعثت، مقام ہجرت، آپ ﷺ کے خصائص و کمالات، اوصاف و معجزات اور محامد و محاسن کے بارے میں اپنے انبیاء اور کتب سے کامل آگاہی حاصل ہو چکی تھی۔ الہامی صحیفوں میں درج بشارات کے حوالے سے قرآنِ حکیم میں ارشادِ خداوندی ہے:
اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِيْ التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ۔
الأعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دُنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر من جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں)، جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘
اس باب میں حضرت عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میری حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کے ان محاسن و محامد کے بارے میں بتائیے جن کا ذکر تورات میں کیا گیا ہے۔ وہ کتب سماویہ کے عالم ہونے کی حیثیت سے کہنے لگے کہ تورات میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے ان اوصاف و کمالات کا ذکر ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، انہوں نے اِس سلسلہ میں تورات کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت بھی کی:
{یٰـاَیُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا}(2) وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُکَ المتَوَکِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِیظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا یَدْفَعُ بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ، وَلَکِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ وَلَنْ یَقْبِضَهُ اللهُ حَتَّی یُقِیمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَائَ بِأَنْ یَقُولُوا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَیَفْتَحُ بِهَا أَعْیُنًا عُمْیًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب کراہیۃ السخب فی السوق،
2: 747، رقم: 2018
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، إنا أرسلناک شاہدا و مبشرا ونذیرا، 4: 1831، رقم:
4558
3۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 174
4۔ بیہقی، شعب الایمان، 2: 147، رقم: 1410
’’اے نبی مکرم ! ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا، بروقت ڈر سنانے والا، اُمیّوں (عوام) کے لیے جائے پناہ، تو میرا بندہ ہے اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو درشت خو ہے نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا ہے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا بلکہ معاف کر دیتا اور درگذر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی طرف نہیں بلائے گا یہاں تک ایک ٹیڑھی ملت کو آپ کے ذریعہ درست کر دے اور وہ سب کہنے لگیں: نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اندھی آنکھوں کو بینائی، بہرے کانوں کو سماعت اور غلافوں میں لپٹے ہوئے دلوں کو نورِ ہدایت سے منور کر دے گا۔‘‘
وہ آپ ﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جیسے والدین اپنی اولاد کو پہچاننے میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور مغالطہ نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں مفصل حال اپنی کتابوں میں پڑھ چکے تھے کہ انہیں آپ ﷺ کو دیکھ کر پہچاننے میں کوئی شبہ نہ رہا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰـھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآء ھُمْ۔
البقرۃ، 2: 146
’’اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسا (کہ بلاشبہ) اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔‘‘
کتب سابقہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت و شان اس حد تک بیان کی گئی تھی کہ آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے یہود اپنے حریف مشرکینِ عرب پر فتح پانے کے لیے آپ ﷺ کے وسیلہ سے بارگاہ ِربّ العزت میں دعا کرتے جس کے نتیجے میں فتح سے ہمکنار ہوتے۔ اس بات پر نص قرآنی شاہد عادل ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَمَّا جَآءَ هُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِيْنَ کَفَرُوْا ج فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِهٖ فَلَعْنَةُ الله عَلَی الْکَافِرِيْنَo
البقرہ، 2: 89
’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (توراۃ) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد ﷺ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اس کے منکر ہو گئے، پس انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہےo‘‘
آیتِ کریمہ میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول معظم ﷺ جن کے وسیلۂ جلیلہ سے یہود و مشرکینِ عرب پر فتح پانے کے لیے بارگاهِ الٰہی میں دعا مانگا کرتے تھے جب وہ بزم آرائے ہستی ہوئے تو وہ محض حسد اور اپنے تعصّب و عناد کی بنا پر آنے والے رسول کا انکار کر بیٹھے اور وادیٔ کفر میں سرگرداں ہو گئے، باوجود اس کے کہ وہ انہیں ان کی علامات سے بخوبی جانتے اور پہنچانتے تھے۔
امام قرطبیؒ آیت مذکورہ کی تفسیر میں روایت نقل کرتے ہیں:
قال ابن عباس رضي الله عنه: کانت یھود خیبر تقاتل غَطَفان، فلما التقوا ھزمت یہود، فعادت یہود بھذا الدعاء وقالوا: إنا نسألک بحق النبي الأمّيّ الذي وعدتنا أن تخرجہ لنا فی آخر الزمان ألا تنصرنا علیہم۔ قال: فکانوا إذا التقوا دعوا بھذا الدعاء فھزموا غَطَفان، فلما بُعِث النبي ﷺ، کفروا، فأنزل الله تعالیٰ: {وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِيْنَ کَفَرُوْا} أی بک یا محمد۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 2: 27
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ خیبر کے یہودی غطفان قبیلے سے بر سر پیکار رہا کرتے تھے۔ پس جب دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو یہودی شکست کھاگئے۔ پھر انہوں نے یہ دعا پڑھتے ہو ئے دوبارہ حملہ کیا: ’’(الٰہی!) ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس نبی اُمی (ﷺ) کے وسیلہ سیجنہیں تونے آخری زمانہ میں ہمارے لیے بھیجنے کا ہم سے وعدہ کیا ہے، ان کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی وہ دشمن کے سامنے آئے تو انہوں نے یہی دعا پڑھی اور اس کی برکت سے (قبیلہ) غطفان کو شکست ہو گئی۔ لیکن جب نبی اکرم ﷺ مبعوث ہوئے تو انہوں نے (آپ ﷺ کا) انکار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے۔} یعنی اے محمد! آپ کے وسیلہ سے (فتح کی دعا مانگا کرتے تھے)۔‘‘
علامہ سید محمود آلوسی آیت مذکورہ کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
روی السُّدِّیّ أنھم کانوا إذا اشتد الحرب بینھم وبین المشرکین، أخرجوا التوراۃ ووضعوا أیدیھم علی موضع ذکر النبي ﷺ ، وقالوا: اللّھم! إنا نسألک بحق نبیک الذي وعدتنا أن تبعثہ في آخر الزّمان أن تنصرنا الیوم علی عدونا۔ فیُنصَرون۔
آلوسي، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 1: 320
’’سدی نے بیان کیا ہے کہ جب قوم یہود اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ شدت پکڑ لیتی تو وہ (یعنی اہل کتاب یہود) تورات کھول کر اس مقام پر ہاتھ رکھتے جہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت و شان کا ذکر ہوتا اور دعا کرتے: اے اللہ ہم تیری بارگاہ میں تیرے اس برگزیدہ نبی کے وسیلہ سے درخواست کرتے ہیں جس کا تونے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ تو اسے آخری زمانے میں (آخری نبی بنا کر) مبعوث فرمائے گا۔ آج ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ کے توسل سے اللہ تعالیٰ انہیں فتح و نصرت عطا فرماتا۔‘‘
ان روایات سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل بھی اہلِ کتاب آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں مانگا کرتے تھے۔
یہود کا معمول تھا کہ وہ آسمانی کتابوں میں درج حضور نبی اکرم ﷺ کے احوال پڑھتے اور اپنی اولاد کوبھی سناتے، وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ کو اپنا مسکن بنائیں گے لیکن جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں ہوئی ہے تو حسد کی آگ میں جل گئے اور ایمان لانے سے انکاری ہو گئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرتِ مدینہ سے تقریباً ایک ہزار سال قبل یمن کا تبع نامی حکمران اپنے لشکر اور سینکڑوں علماء کرام کے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کی غرض سے اس خطے میں آیا۔ خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور اسے غلاف پہنانے کے بعد وہ واپسی پر اپنے لشکر سمیت یثرب کی سرزمین سے گزرا۔ اس وقت یثرب ایک چشمے کا نام تھا جہاں آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یمن کے بادشاہ کے ساتھ 400 سے زائد آسمانی کتابوں کا علم رکھنے والے صاحب کمال علماء تھے۔ اُنہوں نے جب سرزمین یثرب کے محل وقوع اور آثار کا جائزہ لیا تو سابقہ الہامی صحیفوں میں مذکور بشارات اور نشانیوں کی روشنی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہی وہ تاریخی مقام اور مقدس خطہ زمین ہے جو نبی آخرالزماں ﷺ کا مقام ہجرت بنے گا۔ ان کے علم، شوق، وجدان اور عشق نے انہیں واپس جانے سے روک لیا، اُنہوں نے متفقہ طور پر اس مقامِ مقدسہ پر رہنے کا ارادہ کر لیا اور بادشاہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ روایات میں ہے کہ جب تبع اول نے ان علماء سے اس خطے میں ٹھہرنے کی حکمت دریافت کی تو انہوں نے کہا:
إنا نجد في کتبنا أن نبیا اسمہ محمد ھذہ ھجرۃ، فنحن نقیم لعلنا نلقاہ۔
صالحی، سبل الہدیٰ والرشاد، 3: 274
’’ہماری کتابوں میں موجود ہے کہ نبی جس کا نام محمد (ﷺ) ہے یہ شہر اس کا دار الہجرت ہے، پس ہم یہاں اس نبی کے شوقِ لقاء میں مقیم رہیں گے۔‘‘
جب یمن کے حکمران کے علم میں یہ بات آئی کہ اس خطہ دل نواز کے مقدر میں رسول آخر ﷺ کا دار الہجرت ہونا لکھا جا چکا ہے تو اس نے بھی علماء کے ساتھ یہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے شوقِ دیدارِ میں نہ اپنی سلطنت کا خیال رہا اور نہ ہی کسی اور چیز کا، محبتِ رسول اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی اور روح ذکرِ محمدی سے سرشار ہو گئی، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ مطلعِ فاراں پر ستارۂ محمد ﷺ کب طلوع ہو گا اور حضور نبی اکرم ﷺ کب ہجرت کر کے اس شہر بے مثال کو اپنی قدم بوسی کا شرف عطا کریں گے، تبع بادشاہ نے اپنے ہر عالم کے لیے گھر بنوایا، پھر چار سو لونڈیاں خرید کر ان کا نکاح ایک ایک عالم سے کر دیا۔ اس نادیدہ عاشقِ رسول نے ایک گھر نبی آخرالزماں ﷺ کے لیے بھی تعمیر کرایا کہ جب ہجرت کر کے آقائے دوجہاں ﷺ یہاں تشریف لائیں تو اپنے ہی گھر میں قیام کریں۔ وہ گھر جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا مرورِ ایام سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا۔ وہ انہی علماء کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے ایک ہزار سال قبل حضور نبی اکرم ﷺ کے دار الہجرت میں قیام کی سعادت حاصل کی تھی اور جن کی ہر نسل حضور نبی اکرم ﷺ کی راہ دیکھتے دیکھتے اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر ملکِ عدم کو سدھار جاتی اور پھر نئی نسل آپ ﷺ کی آمد کے لمحے کا انتظار کرنے لگتی۔
وبنی للنبي دارا ینزلھا إذا قدم المدینۃ فتداول الدار الملاک إلی أن صارت لأبي أیوب وھو من ولد ذالک العالم۔
صالحی، سبل الہدیٰ و الرشاد، 3: 274
’’اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے یہ تعمیر کیا تھا تاکہ جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو اس میں قیام فرمائیں۔ یہ مکان کئی بادشاہوں کی تحویل میں باری باری آتا رہا یہاں تک کہ یہ حضرت ابو ایوب (رضی اللہ عنہ) کی ملکیت میں آیا اور وہ اُس عالم کی اولاد میں سے تھے۔‘‘
شاهِ یمن عشق اور ایمان کے جس مقام پر کھڑا تھا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے، نبی آخرالزماں ﷺ کے ظہور سے ایک ہزار سال قبل اس نے والی کون و مکاں ﷺ کے نام اپنے مکتوب میں لکھا:
أما بعد، یا محمد! فإنی آمنت بک وبربک ورب کل شیء وبکل ما جاء ک من ربک من شرائع الإسلام والإیمان، وإنی قلت ذلک فإن أدرکتک فیھا ونعمت، وإن لم أدرکک فاشفع لي یوم القیامۃ ولا تنسٰني۔ فإني من أصل الأولین وبیعتک قبل مجیئک وقبل أن یرسلک الله، وأنا علی ملّتک و ملّۃ ابراہیم۔
حلبی، إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، 2: 279
’’یا محمد! میں آپ پر اور آپ کے رب پر اور کائنات کی ہر شے کے رب پر اور آپ کے رب کی طرف سے آپ پر دین اسلام اور ایمان کے باب میں جو احکام نازل ہوئے ان پر ایمان لایا اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پالیا اور آپ کی زیارت کی نعمت سے بہرہ یاب ہوا تو یہ میری خوش بختی ہوگی اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب نہ ہوسکے تو روز قیامت میری شفاعت فرمایئے گا اور مجھے فراموش نہ کیجئے گا کہ میں پہلوں کی نسل سے ہوں اور آپ کی آمد اور اللہ کے بھیجنے سے پہلے ہی آپ کی بیعت کرتا ہوں، میں آپ کے اور ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔‘‘
اس نے وہ خط سونے سے سربمہر کیا اور ان علماء میں سے سب سے بڑے عالم کے حوالے کر دیا۔ وہ خط نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ دس صدیاں گزر گئیں، حضور نبی اکرم ﷺ جب ہجرت کر کے تشریف لائے اور اونٹنی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی اور ہادیِ برحق ﷺ نے دارِ ابو ایوب میں قیام کیا تو حضرت ابو ایوب انصار ی رضی اللہ عنہ نے وہ خط جو ایک ہزار سال قبل، شاہ ِیمن نے والی کون و مکاں ﷺ کے نام تحریر کیا تھا پیش کر دیا۔
(2) صالحی، سبل الہدیٰ و الرشاد، 3: 274
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت عالمِ عیسائیت میں چار اناجیل ایسی ہیں جن کو ان کے نزدیک اسناد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ اناجیل ’متی‘، ’مرقس‘، ’لوقا‘ اور ’یوحنا‘ سے منسوب ہیں۔ اس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کے کسی نسخے کی تدوین ستر عیسوی سے پہلے نہیں ہوئی۔ انسا ئیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا میں اناجیلِ اربعہ کے بارے میں یہ تبصرہ قابلِ غور ہے:
Its exact date and exact place of origin are uncertain, but it appears to date from the later years of the 1st century.
’’اس کی ٹھیک تاریخ اور اس کے معرضِ وجود میں آنے کا صحیح مقام غیر یقینی ہے لیکن بادی النظر میں اس کا تعلق پہلی صدی کے آخر ی سالوں سے ہے۔‘‘
اس کے بارے میں مزید کہا گیا ہے:
We have no certain knowledge as to how or where the fourfold Gospel canon came to be formed.
Encyclopaedia Britannica, vol. 3, p. 513.
’’ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کوئی حتمی علم نہیں ہے کہ یہ چار مستند اَناجیل کیسے اور کہاں معرض وجود میں آئیں۔‘‘
یہاں ان اناجیل کو مرتب کرنے والوں کی حیثیت بھی محلِ نظر ہے۔ وہ نہ توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے اور نہ انہوں نے دینِ عیسوی کو قبول کیا تھا۔ ان مرتبین نے ان لوگوں کا کوئی حوالہ بھی نہیں دیا جن کی وساطت سے یہ انجیلیں ان کے ہاتھ لگیں۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہوا۔ یہ سوال آج تک جواب طلب ہے کہ وہ کتاب جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد ستر سال تک مرتب ہی نہیں ہوئی اور نہ کسی نے یہ بتانے کی زحمت کی کہ وہ کہاں اور کیسے دستیاب ہوئی، اس کے مستند ہونے پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ سریانی زبان میں لکھے جانے والے نسخوں کے اصل ناپید ہیں اور ان کے یونانی زبان میں تراجم کا اصل سے کیسے موازانہ کیا جائے جب کہ ان کا کوئی اصلی نسخہ کہیں بھی دستیاب نہیں اور پھر جو سب سے قدیم یونانی ترجمہ ملتا ہے وہ چوتھی صدی کا لکھا ہوا ہے۔ ان یونانی تراجم پر کوئی کیسے انحصار کرے جبکہ ان اناجیل کا ترجمہ بعد میں لاطینی زبان میں ہوا جو رومن ایمپائر (Roman Empire) کی سرکاری زبان تھی اور دورانِ ترجمہ بہت سی من گھڑت باتوں کے شامل ہو جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس ترجمہ در ترجمہ کے عمل سے جو انجیل وجود میں آئی اس میں لفظی و معنوی تحریف اور ردو بدل کاواقع ہونا ایک ایسی ناقابلِ تردیدحقیقت ہے جو محتاجِ وضاحت نہیں۔
اندریں حالات ان اناجیل کی صحت کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لینا کوئی مشکل کام نہیں۔ اِمتدادِ زمانہ کے ساتھ ان میں کیا کیا تحریفات اور تاویلات ہوئی ہوں گی ان کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ چنانچہ اس صورتِ حال کے پیش نظر اگر مذکورہ انجیلوں میں ان بشارتوں کا حوالہ نہ ملے تو قرآن پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی جواز موجود ہے، لیکن تحریف کے باوجود حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد کے بارے میں خوشخبریاں ان مسخ شدہ کتابوں میں بھی راہ پا گئیں جس کا واضح ثبوت وہ عبارتیں ہیں جن میں یہ پیش گوئیاں کسی نہ کسی صورت میں ہیں۔ ذیل میں نمونہ کے طور پر انجیل میں سے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو نبی آخر الزماں ﷺ کی تشریف آوری کی خوش خبری ان الفاظ میں دی:
1. He shone forth from Mount Paran.
Deuteronomy, 33:2.
’’وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا۔‘‘
استثناء، 33: 2
حبقوق نبی نے فرمایا:
2. God came from Teman, and the Holy One from Mount Paran. His glory covered the heavens, and the earth was full of his praise.
Habakkuk, 3:3.
’’خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوهِ فاران سے ملا۔ اس کا جلال آسمان پر چھا گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوگئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔‘‘
حبقوق، باب، 3: 3
اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
3. Nevertheless I tell you the truth. It is to your advantage that I go away, the counsellor will not come to you; but if I go, I will send him to you. ﷺ nd when he comes, he will convince the world concerning sin, and righteousness and judgement.
John, 16:7, 8.
’’لیکن میں تم سے سچ بیان کرتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو مددگار (فارقلیط، تسلی دینے والا) تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدل کے بارے میں بتائے گا۔‘‘
یوحنا، باب 16: 8، 9
4. ﷺ nd he preached, saying, " ﷺ fter me comes he who is mightier than I, the thong of whose sandals I am not worthy to stoop down and untie.
Saint Mark, 1:7.
’’اور یہ منادی کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زورآور ہے۔ میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں۔‘‘
مرقس، باب، 1: 7
5. If you love me, you will keep my commandments. and I will pray the Father, and he will give you another councellor to be with you forever.
John,14:15-16.
’’اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کروگے۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہارے لیے دوسرا مدد گار بھیجے گا جو کہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘
یوحنا، باب، 14: 15، 16
6. But the counsellor,the Holy spirit, whom the Father will send in my name, he shall teach you all things, and bring to your remembrance all that I have said to you.
John, 14:26.
’’لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘
یوحنا، 14: 26
7. Hereafter I will not talk much with you for the prince (6) of this world cometh, and hath nothing in me.
John, 14:30.
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کے سردار نے آنا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘
یوحنا، 14: 30
8. But when the counsellor comes, whom I shall send to you from the Father, even the Spirit of truth,who proceeds from the Father,he will bear witness to me.
John, 14:26.
’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روحِ حق جس نے باپ سے صادر ہونا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘
یوحنا، 14: 26
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کی دیواریں اٹھاتے وقت جو دعا مانگی وہ بلاشبہ نسلِ اسماعیل علیہ السلام سے ایک ایسا پیغمبر مبعوث کرنے سے متعلق تھی جس کا مقامِ بعثت مکہ ہو۔ چنانچہ موجودہ تورات کی ’’کتاب پیدائش (Genesis)‘‘ میں اس کے واضح اشارات ملتے ہیں:
9. ﷺ nd as for Ish'mael, have heard you; behold, I will bless him and make him fruitful and will multiply him exceedingly; he shall be the father of twelve princes, and I will make him a great nation.
Genesis,17:20.
’’اور اسمٰعیل (علیہ السلام) کے حق میں، میں نے تیری بات سنی، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے بارآور کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔‘‘
پیدائش، باب، 17: 20
10. The angel of the Lord said to her, ''I will so greatly multiply your descendants that cannot be numbered for multitude." ﷺ nd the angel of the Lord said unto her, ''Behold, you are with child, and shall bear a son; you shall call his name Ish'mael; because the Lord has given heed to your affliction.''
Genesis,16: 10,11.
’’اور خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اس کا شمار نہ ہو سکے گا۔ اور خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہو گا اس کا نام اسمٰعیل رکھنا اس لیے کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا۔‘‘
پیدائش، باب، 16:10، 11
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل علیھما السلام کو فاران (مکہ) کے بیابان میں رخصت کیا اور مشکیزہ کا پانی ختم ہو گیا تو حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے گریہ و زاری شروع کی۔ ’کتاب پیدائش‘ میں اس کا ذکر یوں مذکور ہے:
11. And God heard the voice of the lad; and the angel of God called to Hagra from heaven, and said to her, "what troubles you, Hagra? Fear not; for God has heard the voice of the lad where he is. Arise, lift up the lad, and hold him fast with your hand; for I will make him a great nation. Then God opened her eyes, and she saw a well of water; and she went, and filled the skin with water, and gave the lad drink. And God was with the lad, and he grew up; he lived in the wilderness, and became an expert with the bow. He lived in the wilderness of Paran; and his mother took for him a wife from the land of Egypt.
Genesis, 21:17-21.
’’تب خدا نے اس لڑکے (اسمٰعیل) کی آواز سنی اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا کہ اے ہاجرہ! تجھ کو کیا ہوا؟مت ڈر کیونکہ خدا نے اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے سن لی ہے۔ اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں (چاهِ زمزم) دیکھا، اور جا کر مشک کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کو پلایا۔ اورخدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان (عرب) میں رہنے لگا اور تیرانداز بنا۔ اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے اس کے لیے بیوی لی۔‘‘
پیدائش، باب، 2: 17۔ 21
تورات کے اس نسخے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت اور ان کی نسل کے پھولنے پھلنے اور اس سے بارہ سرداروں کے پیدا ہونے کے جو تذکرے موجود ہیں وہ صریحاً قرآن مجید میں مذکور دعائے ابراہیمی اور وعدۂ ایزدی کی تائید کرتے ہیں۔
اصل انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بشارت ’فارقلیط‘ کے لفظ سے دی تھی۔ عبرانی زبان کا یہ لفظ ’احمد‘ یا ’محمد‘ کے معنوں کے مترادف ہے۔ یونان کے قدیم تراجم میں اس کا ترجمہ ’پریکلیوطاس‘ بیان کیا گیا ہے جو ’فارقلیط‘ کا ہم معنی ہے۔ یونانی مترجمین نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس سے اسلام کی حقانیت ثابت ہوتی ہے ’پریکلیوطاس‘ کو بدل کر ’پریکلیطاس‘ کر دیا جس کا انگریزی ترجمہ counsellor یا comforter کیا گیا جس کا اردو ترجمہ ’مددگار‘ اور ’تسلی دہندہ‘ کیا جاتا ہے۔ مسلمان سکالرز نے خود مسیحی اہل ِعلم کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ اصل لفظ ’پریکلیوطاس‘ ہی ہے جو فارقیط کا صحیح ترجمہ ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی زبان عبرانی تھی اور انہوں نے فارقلیط ہی کہا ہو گا جو قرآنی بشارت اور دعویٰ سے عین مطابقت رکھتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ تورات اور انجیل کی زبان نہیں جانتے تھے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ جب مسلمانوں نے فتوحات کے بعد اپنے قدم فلسطین، عراق اور شام کے علاقوں میں جما لیے تو مسلمان علماء کے رابطے مسیحی اور یہودی علماء سے ہوئے، اسطرح انجیلوں کے بارے میں انہیں جو معلومات حاصل ہوئیں وہ اصل سے زیادہ قریب ہیں۔ اس وقت انجیل کے نسخے سریانی زبان میں تھے جنہیں مسلمان علماء نے عربی میں منتقل کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ہشام (م213ھ) نے ’السیرۃ النبویۃ (2: 64)‘ میں محمدبن اسحاق (م 151ھ)سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یوحنا کے باب 15 کے فقرہ نمبر 2 کا عربی متن یوں ہے:
فلو قد جاء المنحمنا ھذا الذی یرسلہ الله إلیکم من عند الرب وروح القدس، ھذا الذی من عند الرب خرج فھو شھید علی وأنتم أیضا، لأنکم قدیما، کنتم معی فی ھذا قلت لکم لکیما ما لاتشکو۔
’’اور جب منحمنا آئے گا جسے اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجے گا اور وہ اللہ تعالی کے پاس سے آئے گا تو وہ میری سچائی کا گواہ ہو گا اور تم بھی میری سچائی کے گواہ ہو کیونکہ تم عرصہ دراز سے میرے ساتھ ہو، میں نے تم سے یہ باتیں اس لیے کہی ہیں تاکہ تم شک میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔‘‘
والمنحمنا بالسریانیۃ محمد و ھو بالرومیۃ البرقلیطس ﷺ۔
’’اور سریانی زبان میں منحمنا کا معنی ’محمد‘ ہے اور رومی (زبان) میں اُنہیں ا فارقلیط کہتے ہیں۔‘‘
انجیل کے ان جملوں میں آنے والے پیغمبر کی درج ذیل صفات گنوائی گئی ہیں:
1۔ آنے والا پیغمبر لوگوں کو مسیحی تعلیمات کی وہ باتیں یاد دلائے گا جو وہ بھول چکے ہوں گے۔
2۔ وہ نامکمل کو مکمل کرے گا اور سچی باتوں کی خبر دے گا۔
3۔ اس کی زبان سے جو باتیں نکلیں گی وہ اس کی اپنی نہ ہوں گی بلکہ وہی کہے گا اور سنائے گا جو خدا کی طرف سے ہو گا۔
4۔ وہ مسیح کی تعلیم کو زندہ کرے گا اور اس کی گواہی دے گا اور اس پر ایمان نہ لانے والے کو گناہگار ٹھہرائے گا۔
اس سچائی سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ لوگ اصل مسیحی تعلیم کو بھلا چکے تھے اور توحید کی بجائے تثلیث کے قائل تھے۔ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھولی بسری باتوں کو پھر سے زندہ کر دیا اور قرآن حکیم کی تعلیمات سے نصاریٰ کے غلط عقائد کی اصلاح کی اور تثلیث کی بجائے توحید کا علم بلند کیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی اُلوہیت کا ردّ کیا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے مسئلہ حیات و موت پر عقائدِ فاسدہ کی جمی ہوئی گرد کو صاف کیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتے ہوئے ان کی جو نشانیاں بتائیں وہ سب حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے سوا کسی اور پر پوری نہیں اترتیں۔ اب اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آپ ﷺ نے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مسخ شدہ شحصیت کو بحال کیا اور جن غلط باتوں سے انہیں متہم کیا گیا تھا ان کا نہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ ان پر باندھے گئے ان بہتانوں کی قلعی کھول دی جو یہودیوں نے مسیح دشمنی اور نصاریٰ نے محبت کے غلو میں قائم کیے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہی کہے گا جو خدا اس سے کہلائے گا اس کی تصدیق خود قرآن نے کر دی:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
النجم، 53: 3، 4
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo‘‘
دنیائے عیسائیت کی پیش کردہ چار انجیلوں کے علاوہ صدیوں تک گوشۂ گمنامی میں رہنے والی ایک ایسی انجیل منصہ شہود پر ظاہر ہوئی جسے ’انجیل برنباس‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے بہت سے لاینحل عقدے حل ہوجاتے ہیں اور اصل مسیحی عقائد پر شکوک و شبہات کی جو دبیز تہہ چڑھ گئی تھی اس کی پردہ دری ہو جاتی ہے۔ اس انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایسے روشن ارشادات موجود ہیں جن میں واضح طور پر پیغمبر آخرالزماں ﷺ کا نام لے کر ان کی آمد کی بشارتیں دی گئی ہیں اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی گئی ہے کہ جب وہ پیغمبر آئے تو اس کا دامن مضبوطی سے تھام لیں۔
برنباس (Barnabas) قبرص کا رہنے والا اور مذہب یہودیت کا پیروکار تھا۔ لیکن جب اس نے دین عیسوی اختیار کیا تو اس کی اشاعت اور فروغ کے لیے ہمہ تن کوش ہو گیا۔ وہ بہت کامیاب مبلغ ثابت ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے انتہائی قریبی تعلق ہونے کی بنا پر وہ بہت جلد حواریوں کی آنکھ کا تارا بن گیا جس کی وجہ سے مسیحیت میں اسے قابلِ قدر مقام حاصل ہو گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات آپ کے پہلے ماننے والوں کے نزدیک نزاعی (controversial) نہیں تھیں۔ وہ سب آپ کو ایک راست باز انسان اور اللہ کا برگزیدہ پیغمبر سمجھتے اور جانتے تھے اور وہ صحیح معنوں میں موحد تھے۔ ساری خرابی سینٹ پال کے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد پیدا ہوئی۔ اس نے مسیحیت کے پرچار میں اس کی اصل تعلیمات کو مسخ کر کے حق اور سچ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا اور عیسوی عقائد و نظریات پر ضرب کاری لگائی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس نے جس دین عیسائیت کو رائج کیا اس کا منبع انجیل یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات نہ تھیں بلکہ یہ اس کی ذاتی اختراع اور سوچ کا نتیجہ تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ تک برنباس اور سینٹ پال اکٹھے کام کرتے رہے لیکن پھر بوجوہ ان میں اختلافات پیدا ہوگئے جو وقت کے ساتھ شدت اختیار کر گئے اور پھر وہ مرحلہ آیا جس میں وہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔ ہوا یہ کہ سینٹ پال نے حلال و حرام کے بارے میں دین موسوی کے احکامات پس پشت ڈال دیئے۔ ایسا کرنے سے اسے حکومت اور کچھ سرکردہ لوگوں کی تائید اور حمایت حاصل ہو گئی اور اس کے پھیلائے ہوئے جال میں عوام الناس گرفتار ہوگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برنباس اور اس کے ساتھی اثر و رسوخ کھو بیٹھے اور دین عیسوی میں انہیں کوئی مقام حاصل نہ رہا۔ اس کے باوجود چوتھی صدی عیسوی تک برنباس کا ایک مضبوط حلقہ موجود تھا اور وہ لوگ تثلیث کی بجائے خدائے واحد کے پرستار تھے۔ برنباس کی انجیل پہلی دو صدیوں میں مستند انجیل مانی جاتی رہی اور دین کے معاملوں میں اس کو بطور حجت تسلیم کیا جاتا رہا۔ لیکن 325ء میں جو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ عبرانی زبان میں جتنی انجلیں موجود ہیں ان سب کو تلف کر دیا جائے۔
انجیل برنباس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے جس طرح پیغمبر برحق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو عطا کی تھیں۔ وہ ان بے شمار بشارتوں کی حامل ہیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد اور آپ ﷺ کی صفات کا ذکر کثرت اور تواتر کے ساتھ کیا گیا ہے۔
انجیل برنباس کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
1. But after me shall come the splendour of all the Prophets and holy ones, and shall shed light upon the darkness of all that the Prophets have said because he is the messenger of God.
Chapter 17, p. 33.
’’لیکن میرے بعد وہ ہستی تشریف لانے والی ہے جو اپنی شان میں تمام انبیاء اور ذواتِ مقدسہ سے افضل ہوگی، تمام نبیوں نے جو کہا ہے وہ ان پر روشنی ڈالے گی، اس لیے کہ وہ ہستی اللہ کی پیغمبر ہے۔‘‘
2. For I am not worthy to unloose the ties of the hosen or the latchets of the shoes of the messenger of God whom ye call "Messiah" who was made before me, and shall come after me, and shall bring the words of truth, so that his faith shall have no end.(2)
(2) Chapter 42, p. 99.
’’میں تو اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس عظیم ہستی کے جوتوں کے تسمے بھی کھول سکوں، وہ جسے تم مسیحا کہتے ہو، اس کی خلقت مجھ سے پیشتر ہوئی لیکن اس کی تشریف آوری میرے بعد ہوگی۔ وہ سچے لفظوں کے ساتھ مبعوث ہو گا اور اس کا دین کبھی ختم نہ ہوگا۔‘‘
جب گمراہ لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا تو اس بات سے انہیں بے حد تکلیف ہوئی۔ اس پر بعض اہلِ حکومت نے انہیں یقین دلایا کہ آپ مطمئن رہیں، ہم شہنشاهِ روم سے ایسا فرمان جاری کرائیں گے جس میں لوگوں کو ان باتوں سے روک دیا جائے گا۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے:
3. But my consolation is in the coming of the Messenger, who shall destroy every false opinion of me, and his faith shall spread and shall take hold of the whole world, for so hath God promised to Abraham, our father.
Chapter 97, p. 225.
’’بلکہ میرے لیے موجبِ تسکین تو اس رسول کی آمد ہوگی جو میرے بعد آکر میرے بارے میں تمام باطل اور جھوٹے نظریات کو مٹا دے گا، اس کا دین فروغ پائے گا اور تمام دنیا میں پھیل جائے گا، ایسا وعدہ ہمارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی کیا گیا ہے۔‘‘
جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس رسول کے بعد بھی اور نبی آئیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
4. There shall not come after him true Prophets sent by God, but there shall come a great number of false prophets, where at I sorrow. For satan shall raise them up.
Chapter 97, p. 225.
’’آپ (ﷺ) کے بعد کوئی اللہ کا فرستادہ سچا نبی نہیں آئے گا لیکن شیطان کے قائم کردہ جھوٹے نبی کثرت سے آئیں گے۔ جن کا مجھے افسوس ہے۔‘‘
5۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی آخرالزمان کا نام محمد ﷺ بتاتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کائناتِ ارضی و سماوی پیدا فرمائی:
The name of the Messiah is admirable, for God himself gave him the name when he had created his soul, and placed it in celestial splendour. God said: "Wait Muhammad; for for thy sake I will create paradise, the world, and a great multitude of creatures.… when I shall send thee into the world. I shall send thee as my Messenger of salvation and thy word shall be true, in so much that heaven and earth shall fail, but thy faith shall never fail."
Chapter 97, p. 227.
’’اس مسیحا کا نام ’قابلِ مدح و ستائش‘ ہے یہ نام خود خدا نے اسے اس وقت دیا جب اس کی روح کو پیدا کیا اور اس کو عالمِ بالا کی پرشکوہ رفعتوں میں رکھا اور اس کے بارے میں فرمایا: اے محمد! انتظار کر کہ میں نے تیری خاطر جنت کو پیدا کیا ہے اور ساری دُنیا اور اس میں طرح طرح کی بے شمار مخلوقات کو بھی پیدا کیا ہے۔ … میں تجھے اس دُنیا میں نجات دہندہ رسول بنا کر بھیجوں گا۔ تیرا کلمہ کلمۂ حق ہو گا۔ زمین و آسمان کو تو زوال آسکتا ہے لیکن تیرے دین کو کبھی زوال نہ ہو گا۔‘‘
اِس کے بعد فرمایا:
Muhammad is his blessed name.
Chapter 97, p. 227.
’’اُن کا بابرکت نام محمد (ﷺ) ہوگا۔‘‘
یہ سن کر حاضرین دست بدعا ہوئے:
O God, send us Thy messenger. O Muhammad, come quickly for the salvation of the world.
Chapter 97.
’’اے خدا! ہمارے لیے اس رسول کو بھیج۔ اے محمد! جلد اس دُنیا کی نجات کے لیے تشریف لے آئیے۔‘‘
اُس کے بعد برنباس کی انجیل میں یہ درج ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آخری حالات کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قتل کرانے کی سازش کی جائے گی مگر وہ ایسا کر نہیں پائیں گے۔ پھر میرا ایک حواری تھوڑے سے لالچ کے لیے مجھے گرفتار کرائے گا لیکن وہ مجھے پھانسی دینے میں ناکام ہوں گے اور مجھے آسمان پر اُٹھا لیا جائے گا اور جس نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہو گا اُسے میری جگہ شبے میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا۔
I shall abide in that dishonour for a long time in the world. But when Muhammad shall come, the sacred Messenger of God, that infamy shall be taken away, and this shall God do because I have confessed the truth of the Messiah, who shall give me this reward, that I shall be known to be alive and to be a stranger to that death of infamy.
Chapter 112, p. 259.
’’کافی عرصہ تک دنیا میں وہ لوگ میری عزت کو بٹہ لگاتے رہیں گے لیکن جب محمد (ﷺ) تشریف لائیں گے جو اللہ کے مقدس رسول ہیں تو اس بدنامی کا داغ دھل جائے گا اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے گا کیونکہ میں اس مسیحا کی سچائی کا اقرار کرتا ہوں۔ اس کا وجود میرے لیے باعث انعام ہو گا اور لوگوں کا میرے زندہ رہنے پر ایمان قائم ہو جائے گا اور اس ذلت کی موت سے میری براء ت ثابت ہو جائے گی۔‘‘
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔
المائدۃ، 5: 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
اس آیہ کریمہ نے دینِ اسلام کی اَکملیّت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ اس کے نتیجے میں ملنے والی نعمت کی دائمیّت نے حتمی طور پر کسی اور نبوت کے امکان کو یکسر رد کردیا۔ یہاں دین سے مراد دینِ اسلام ہے جبکہ نعمت سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت ہے۔ یعنی ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو! تم پر نعمتِ نبوت تمام ہو چکی۔ اب اس کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں اور دینِ اسلام مکمل شکل میں تمہارے پاس آگیا ہے۔ اب قیامت تک یہی دین چلے گا اور کسی نئے دین کی ضرورت نہیں رہی۔
امام خازن اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقیل إکمال الدّین لھذہ الأمّۃ إنہ لا یزول ولا ینسخ وإن شریعتھم باقیۃ إلی یوم القیامۃ۔
خازن، لباب التأویل في معانی التنزیل، 1: 435
’’اس امت کے لیے تکمیلِ دین سے مراد یہ ہے کہ یہ دین نہ مٹے گا اور نہ منسوخ ہو گا اور اس کی شریعت قیامت تک باقی رہے گی۔‘‘
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:
ھذہ أکبر نِعَم اللہ تعالی علی ھذہ الأمّۃ حیث أکمل تعالیٰ لھم دینھم فلا یحتاجون إلی دین غیرہ ولا إلی نبیّ غیرنبیّھم صلوات اللہ و سلامہ علیہ ولھذا جعلہ اللہ تعالٰی خاتم الأنبیاء و بعثہ إلی الإنس والجنّ فلا حلال إلا ما أحلّہ ولا حرام إلا ما حرّمہ ولا دین إلا ما شرعہ و کلّ شی أخبر بہ فھو حق صدق لا کذب فیہ ولا خلف۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 13
’’اللہ تعالیٰ کا اس امت پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ان کا دین مکمل فرما دیا۔ اب وہ کسی دوسرے دین کے محتاج نہیں اور نہ اپنے نبی ﷺ کے سوا کسی دوسرے نبی کے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام نبیوں کے آخر میں انسانوں اور جنوں کی طرف بھیجا۔ پس جس چیز کو آپ ﷺ نے حلال قرار دیا وہی حلال ہے اور جس چیز کو آپ ﷺ نے حرام قرار دیا اس کے علاوہ کوئی حرام نہیں اورجس دین کو آپ ﷺ لائے اس کے علاوہ (قیامت تک) کوئی دین نہیں اور ہر وہ چیز جس کے متعلق آپ ﷺ نے خبر دی وہ سچی ہے، اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی وہ خلاف واقع ہے۔‘‘
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
وأخرج ابن جریر وابن المنذر عنہ قال أخبر اللہ نبیّہ والمؤمنین إنہ أکمل لھم الإیمان فلا یحتاجون إلی زیادۃ أبدا وقد أتمّہ فلا ینقص أبدا وقد رضیہ فلا یسخطہ أبدا۔
شوکانی، فتح القدیر، 2: 12
’’ابن جریر اور ابن منذر بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ اور ایمان والوں کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان (یعنی دین) کو مکمل کر دیا۔ بس اب کبھی بھی اس میں اضافہ کی ضرورت نہیں اور نعمت تمام کر دی جو کبھی بھی کم نہ ہو گی اور اسلام پر راضی ہوگیا۔ پس اب کبھی بھی ناراض نہ ہو گا۔‘‘
انسانی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اب نئے نبی کی ضرورت کیوں نہیں جبکہ پہلے ایسا ہوتا چلا آیا ہے، بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے متعدد انبیاء مبعوث فرمائے، ایک نبی کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ دو سرا نیا نبی مبعوث فرما دیتا۔
یہ سوال کہ امت مسلمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد اب نئے نبی کی ضرورت کیوں نہیں۔ اس کا ایک جواب تواوپر گزر چکا کہ دین کی تکمیل کے بعدکسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہ رہی، اسی سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے اور اپنے مقدس پیغام کو کائنات انسانی تک پہنچانے کے لئے وحی کا سلسلہ شروع فرمایا اور انبیاء کرام کو مختلف وقتوں میں مبعوث فرما کر ان پر اپنی وحی نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے بعضوں پر کتابیں اور بعضوں پر صحیفے اتارے اور بعضوں سے اللہ رب العزت اپنی شان کے مطابق ہمکلام ہوا۔ اس طرح اللہ کا پیغام بصورتِ وحی انبیاء علیہم السّلام کی بعثت کے ذریعے نسلِ انسانی تک مختلف زمانوں اور مکانوں میں پہنچتا رہا تاآنکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا زمانہ آگیا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کے بعد نبیوں کی بعثت کے نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کر کے خلافت و نیابتِ محمدی ﷺ کا ہمہ گیر نظام قائم کر دیا۔ اب قیامت تک بلا انقطاع یہی نظام چلے گا۔
اوپر اٹھائے گئے سوال کا تیسرا جواب یہ ہے کہ نبی کا کام اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے لهٰذا جو بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے اس کے پاس وحی کی صورت میں پیغام الٰهی کا ہونا ضروری ہے، اگر اس کے پاس پیغام ہی نہ ہو تو پھر اس کا پیغمبر ہونا چہ معنی دارد؟ ایسا ہونا امرِمحال ہے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت یوں ہوتی ہے، مثلاً ایک شخص ہے جو تلاشِ معاش کے سلسلے میں پردیس میں رہتا ہے۔ اسے خبر ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کے شہر جا رہا ہے۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے گھر والوں کو اپنا مکمل حال احوال اور پیغام بھیج دیتا ہے۔ دوسرے دن کوئی اور شخص آکر یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے شہر جا رہا ہوں کوئی پیغام ہو تو مجھے دو۔ اب وہ پیغام تو پہلے ہی بھیج چکا ہے لهٰذا وہ کہے گا کہ پیغام تو کوئی نہیں بس سب کو دعا سلام کہہ دینا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد ہوئی تو نوعِ انسانی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس جو پیغام تھا اس نے وہ سارا آپ ﷺ کے ذریعے بھیج دیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم میں خود فرما رہا ہے کہ میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا، اپنا پیغام و ہدایت تمہارے پاس بھیج کر اپنی نعمت پوری کر دی، اب جبکہ اس نعمت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ نعمت بھی پوری کر دی گئی اور پیغام بھی پورا بھیج دیا گیا تو کسی نئے پیغام اور نئے پیغمبر کی ضرورت ہی نہ رہی۔ بقول حکیم الامّت علامہ اقبالؔ:
نوعِ انسان را پیام آخریں
حاملِ او رحمةً للعالمین
(نسلِ انسانی کے پاس آخری پیغام حضور رحمةً للعالمین ﷺ کے ذریعے پہنچا دیا گیا۔)
اور اب جب کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی وساطت سے اللہ تعالیٰ کا سارا پیغام انسانیت تک پہنچ گیا۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قرآن کے ساتھ مبعوث ہونے کے بعد بھی کوئی پیغام انسانیت کے نام بھیجا جانا باقی رہ گیا تھا جو حضور نبی اکرم ﷺ کو نہیں مل سکا اور وہ پیغام اس مدعئ نبوت کے ہاتھوں بھیجنا پڑا۔ اگر یہ مان لیا جائے تو اس طرح قرآن ناقص ہوا کہ اگر نعمت تمام ہے اور نبوت مکمل ہے تو پھر نیا پیغام چہ معنیٰ دارد؟ اور دین کے لیے نئے پیغام اور نبی کا کیا جواز ہے؟کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی پیغام رہ گیا تھا جس کے لیے کوئی نیا نبی بھیجا جانا ضروری ہوگیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کا پیغام قرآنِ حکیم کی صورت میں مکمل آ چکا اور احکام و ہدایتِ دین اسلام کی صورت میں مکمل آ چکے تو اب کسی نئے نبی کی کیا ضرورت؟
اس واضح اِرشادِ اِلهٰیہ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا اعلان سوائے اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لانے کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی نبوت اور آپ پر نازل ہونے والی قرآن کریم کو نامکمل سمجھتا ہے اور جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت اور قرآن کو ناقص و نامکمل سمجھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
انسانی ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ نبوت و بعثت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ امم سابقہ پر یہ نعمت جاری رہی، مگر جب حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت ہوئی تو اللہ رب العزت نے اس نعمت کو بعد میں جاری رکھنے کی بجائے اس سلسلے ہی کو ختم فرما دیا۔ یہ معاذ اللہ امت کی اس عظیم نعمت سے محرومی کے مترادف ہے۔ یہ شبہ ایک بہت بڑے مغالطے کی پیداوار ہے کہ سلسلۂ نبوت ختم ہونے سے نعمت ختم ہو گئی، بے شک نبوت اور بعثت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور نعمت سے محرومی تب ہو گی جب نبوت موجود نہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت سب سے بڑی نعمت کے طور پر موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی۔
پہلے زمانے میں کسی نبی کی نبوت کا دائرہ اور علاقہ محدود ہوتا تھا وہ کسی ایک شہر یا گاؤں کے لیے مبعوث ہوتا اور اس پر ایمان لانا صرف اسی علاقے کے رہنے والے لوگوں کے لیے ضروری ہوتا لهٰذا اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی اسی علاقے تک محدود رکھا جاتا اور وہ علاقہ جو اس نبی کی حدود میں شامل نہ ہوتا وہاں کے لیے کسی اور نبی کی بعثت ناگزیر ہوتی۔ تاریخِ انبیاء بتاتی ہے کہ ایک ہی وقت میں زمین پر اللہ کے کئی نبی موجود ہوتے۔ ایک نبی کے وصال کے بعد دوسرا نبی آجاتا اور نئے نبی کی بعثت سے قبل پہلے نبی کی نبوت کا زمانہ ختم ہو چکا ہوتا۔ گردشِ ماہ و سال کے نتیجے میں جب آقائے دوجہاں ﷺ کا زمانہ آ گیا تو مشرق سے مغرب تک کی پوری کائنات اپنی بسیط زمانی و مکانی وسعتوں کے اعتبار سے لامحدود تھی اور بے شمار علاقے اور خطے ایک افق سے دوسرے افق تک سب کے لیے ایک ہی نبی اور پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ مبعوث کر دیئے گئے جو بلاتفریق رنگ و نسل جملہ نوعِ انسانی کے ہادی و رہبر کامل تھے اورسب انسان ایک ہی نبوت کے سایہ رحمت میں اس طرح جمع کر دیئے گئے کہ انسانیت کو کسی نئے نبی کی ضرورت سے مطلقاً بے نیاز کر دیا گیا۔
چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک سارے زمانوں کو ایک ہی نبوت عطا فرما دی گئی۔ اس لیے محرومی کا سوال ہی نہ رہا نعمتِ نبوت تو بدستور موجود ہے۔ لهٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت کا معنی یہ ہو اکہ پہلی نبوّتیں اپنے دائروں میں محدود تھیں جبکہ آپ ﷺ کی نبوت زمان و مکاں کی ساری وسعتوں کو ابد تک محیط ہے۔ لهٰذا اب ہر زمانے میں نبی آخرالزماں ﷺ کی نبوت موجود اور قائم رہے گی اور جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ آج سے چودہ صدیاں پہلے نبی تھے اسی طرح آج بھی بدستور نبی ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ اس سے پہلے کسی نبی کی آمد پر جب اس نبی کا کلمہ اس کی امت کو دیا جاتا تو دوسرے نبی کی آمد پر اس کے نام کے ساتھ اس کلمہ کو بدل دیا جاتا لیکن حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد اب چاہے کروڑوں سالوںکا عرصہ بھی بیت جائے کلمہ فقط ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ یہ کہنے کے بعد کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ساتھ ہی یہ بھی کہا جائے گا کہ محمد ﷺ کے سوا کوئی رسول نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد اپنے غلاموں پر آج بھی اسی طرح شفقت فرماتے اور اپنے دیدار سے بہرہ ور کرتے ہیں جیسے اپنی ظاہری حیات میں فرماتے تھے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جس طرح پہلے قائم تھا ویسے ہی آج بھی قائم ہے۔
اس لیے یہ بات حتمی اور قطعی ہے کہ نبوت کی نعمت آج بھی باقی ہے، سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد نبوت محمدی ﷺ کی نعمت جس طرح پہلے قائم تھی آج بھی قائم ہے قیامت تک بلکہ قیامت کے بعد بھی قائم رہے گی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد سے پہلے سابقہ انبیاء کے زمانے میں نئے نبی کی بعثت پر کچھ اس کو مانتے اور کچھ نہ مانتے۔ جو مان لیتے اور اس پر ایمان لے آتے وہ مومن اور جو نئے نبی پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے وہ کافر ہو جاتے۔ گویا پہلے نبی پر ایمان لانے والے مومن ہو کر بھی کافر ہو جاتے۔ بنی اسرائیل کے یہودی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے اولاً اور اصلاً مومن تھے۔ اور مدت مدید سے سرتاجِ نبوت حضور خاتم الانبیاء ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔ وہ اپنی کتابوں میں یہ پڑھتے چلے آئے تھے کہ اس نبی کا قیام کھجوروں والے شہر ’’یثرب کی بستی‘‘ میں ہو گا۔ چنانچہ وہ یہودی ہزاروں میلوں کی مسافت طے کر کے صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں مدینہ آکر آباد ہو گئے تھے۔ وہ اپنے نبی کی عطا کردہ بشارت پر کامل ایمان رکھتے تھے، لیکن جب حضور نبی اکرم ﷺ اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو وہ یہودی جو پہلے مومن تھے اپنی بدبختی کے باعث حالتِ ایمان سے اس لیے باہر نکل گئے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانے کے باوجود کافر ہو گئے۔ یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ نبی کی آمد لوگوں کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے کہ جب نیا نبی آ جائے تو اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور ایمان نہ لانے والا کافر ہوجاتا ہے۔
یہودی عالم اور امت موسوی کے پڑھے لکھے لوگ آسمانی کتابوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اوصاف اور علاماتِ نبوت پڑھ کر پہلے ہی ایمان لا چکے تھے لیکن نبوت خاندانِ بنو اسماعیل میں منتقل ہوجانے کے باعث ان کی اکثریت نے تعصّب اور حسد کی بناء پر آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور اس انکار کے باعث ان پر بدبختی مسلط ہوگئی اور وہ کافر ہوگئے، حالانکہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی علامتوں کو بخوبی جانتے اور پہچانتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم امتِ مسلمہ کے شاملِ حال ہوا اور اس نے سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی بعثت پر ایمان کو اس کا مقدر بنا دیا۔ اگر خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو ختمِ نبوت کی نعمت عطا نہ ہوتی اور اجرائے نبوت کا سلسلہ جاری رہتا اور مختلف زمانوں میں نبی آتے رہتے تو اگر کوئی سچا نبی اپنی نبوت کا دعویٰ کرتا اور کئی جھوٹے لوگ بھی اعلان نبوت کرتے تو کوئی سچے نبی کو مانتا اور کوئی جھوٹے کو، اس طرح جھوٹے کو ماننے والے کا ایمان بھی غارت ہو جاتا اور سچے نبی کو نہ ماننے والے کا ایمان بھی برباد ہو جاتا۔ ہم تو اتنے سادہ لوح ہیں کہ نبی کی پہچان تو درکنار کھرے کھوٹے کی پہچان بھی نہیں کر سکتے۔ کتنے نام نہاد رہبر و رہنما لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ دھوکے کا سلسلہ جاری ہے، لوگ دھوکے پر دھوکا کھائے جاتے ہیں۔ اس عاقبت نااندیش قوم کو اگر ایمان کی آزمائش میں ڈال دیا جاتا تو خدا جانے وہ اصلی اور جعلی نبیوں کی پہچان کرتے کرتے کس حال میں مبتلا ہو جاتی۔ ہم تو عام انسان کی پرکھ کے قابل نہیں چہ جائیکہ جھوٹی نبوت اور سچی نبوت پرکھ سکیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے امتِ مسلمہ پر احسان عظیم کرتے ہوئے انہیں ختمِ نبوت کی نعمت عظمیٰ وجود مصطفی ﷺ کی صورت میں ارزانی فرما دی اور اسے وہ عظمت ورفعت اور شان و شوکت والا محبوب عطا کر دیا جو اپنے خصائص و معجزات، فضائل و کمالات اور محامد و محاسن میں سب انبیاء و رسل علیھم السّلام سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ اب اسی نور مجسم کی محبت ہمارے لیے مرکز و محور ایمان ہے اور ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی مطلق ضرورت نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپ ﷺ کے دامنِ عاطفت سے وابستہ ہو کر عصری فتنوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیں جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے ہمیں خبردار کر دیا تھا:
عصر ما مارا زما بیگانہ کرد
از جمال مصطفی بیگانہ کرد
(اس فتنہ پرور زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے اور جمالِ مصطفی ﷺ کی معرفت سے بیگانہ کر دیا ہے۔)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا نِ الَّذِيْ لَهٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔
الاعراف، 7: 158
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَرْسَلْنٰـکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً ط وَکَفٰی بِاللهِ شَهِيْدًاo
النساء، 4: 79
’’اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہےo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآء کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّکُمْ۔
النساء، 4: 170
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس یہ رسول (ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے، سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِيْنَo
الانعام، 6: 90
’’آپ فرما دیجئے: (اے لوگو!) میں تم سے اس (ہدایت کی فراہمی) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ توصرف جہان والوں کے لیے نصیحت ہےo‘‘
ارشاد فرمایا گیا:
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّيْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ ط وَهُوَالْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo
الجمعہ، 62: 2، 3
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےoاور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول ﷺ کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘
مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے تمام عالمِ انسانیت پر محیط ہونے کا بیان ہے، جس سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہے کہ اس کائنات میں جب تک نسل انسانی کا ایک فرد بھی باقی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، قوم، علاقہ اور زبان سے ہو حضور نبی اکرم ﷺ بلاشرکت غیر اس کے نبی اور رسول ہوں گے نیز کائناتِ انسانی کے سارے افراد بلاامتیاز رنگ، نسل و قوم اور زمان و مکاں نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ کے دائرے میں داخل ہیں۔
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 158 کا اسلوبِ بیان دیکھا جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ نے رسالتِ محمدی ﷺ کے دائرے کو اپنی مملکت کے دائرے کے ساتھ جوڑ کر بیان فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے امر سے فرما رہے ہیں:اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ گویا آپ ﷺ اپنی نبوت و رسالت کو بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا تعارف کروا رہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ لوگو ! میں تمہاری طرف اس خدا کا نمائندہ اور رسول بن کر آیا ہوں جو آسمانوں اور زمین کی ساری کائنات کا خالق و مالک اور بادشاہ ہے۔ جس کی مملکت آسمانوں اور زمین کے ختم ہو جانے کے بعد بھی قائم رہے گی۔ اس تعارف کے ذریعے آپ ﷺ نے اپنی نبوت و رسالت کا دائرہ بیان فرما دیاکہ جب تک زمین و آسمان رہیں گے تب تک آسمانِ نبوت پر میری ہی نبوت و رسالت کا آفتاب چمکتا رہے گا۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت یہ ہے کہ نبی اللہ کا سفیر ہوتا ہے اور سفیر ہمیشہ اپنے بادشاہ اور مملکت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس آیت کی رو سے حضور ﷺ امر الٰہی سے گویا یہ فرما رہے ہیں کہ میں اس رب کا سفیر بن کر آیا ہوں جو زمین و آسمان کی ساری مملکت کا خدا ہے۔ لهٰذا جہاں جہاں تک اس کی خدائی ہے وہاں وہاں تک میری مصطفائی ہے۔ جہاں جہاں تک اس کی مملکت ہے وہاں وہاں تک میری سفارت یعنی نبوت و رسالت ہے۔
اگر کوئی سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے بعد نیا رسول ماننا چاہے تو اسے چاہئے کہ ایسا کرنے سے پہلے کوئی نئی مملکت کا مالک خدا بنا لے کیونکہ خدائے مصطفی ﷺ کی مملکت میں آپ ﷺ کے بعد کوئی دوسرا رسول نہیں ہوسکتا۔ لہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی خدائی کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خدا ظلی و بروزی بھی نہیں ہو سکتا، اسی طرح اس کے مصطفی ﷺ کی مصطفائی میں کوئی دوسرا نبی ظلی و بروزی بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب آپ ﷺ کی نبوت ساری خلق کے لیے ہے تو اس پیکرِ نبوت و رسالت سے جس جس نوعیت کا فیض پہنچ سکتا تھا وہ ساری نوعیتوں کے فیض حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات سے سب کو بلا انقطاع پہنچ رہے ہیں۔ گویا مقامِ نبوت پر فائز ہو کر آپ ﷺ اللہ کی توحید کا پیغام بھی دیتے ہیں، دعوت و تبلیغ کا کام بھی سرانجام دیتے ہیں اور اس فریضہ نبوت کو امت کے اندر منتقل بھی کرتے ہیں، یعنی تبشیر و تنذیر اور تزکیہ نفس کے کام بھی آپ ﷺ کے فرائض نبوت میں شامل ہیں۔ اس میں اصلاحِ ظاہر بھی ہے اور اصلاحِ باطن بھی، علوم و فنون کے فیضان بھی ہیں اور معارف و لطائف بھی۔ آپ ﷺ بیک وقت علم ظاہر اور علم لدنی کے جامع ہیں اور دین کو غالب کرنے کا ضابطہ بھی عطا کرتے ہیں۔
تاریخ اسلام کے بالاستیعاب مطالعہ سے حضور ﷺ کی اس خصوصیت کا پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے دینِ اسلام کو غالب کر کے بھی دکھایا اور قیامت تک اسلام کو غالب کرنے کا ضابطہ اور نظام بھی دیا۔ اپنی سیرت بھی دی، اپنا اسوئہ حسنہ بھی دیا، اپنا روحانی اور تعلیماتی فیض بھی دیا اور اپنا عملی فیض بھی اور یہ سلسلہ نہ صرف ہمارے زمانے میں جاری و ساری ہے بلکہ آئندہ بھی ابدلآباد تک رہے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ فیض جو نبی کی ذات سے امت کو پہنچنا چاہئے اس میں سے کچھ فیض پہنچے اور کچھ نہ پہنچے تو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو آخری اور دائمی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ نبوت و رسالت ابدی، حتمی، قطعی اور دائمی تبھی رہ سکتی ہے کہ جب تک کائنات ہے تب تک ہر قسم کے فیض کے سلسلے اس بارگاہ سے جاری و ساری رہیں۔ فیضان نبوت کے سوتے جاری و ساری رہیں تو فیضانِ نبوت سے نخلِ حیات کی آبیاری ہوتی رہے گی یعنی امت کے ہر طبقے کو رہتی کائنات تک ہر قسم کا فیض پہنچتا رہے گا اور امت کے سروں پر دستِ رسالت ہمیشہ قائم رہے گا۔ اگر ایسا ہے تو حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کو ابدالآباد تک رہنے کا حق ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی بعض کو فیض پہنچے اور بعض کو نہ پہنچے اور بعضوں کے لیے معاذ اللہ نئی نبوت کے فیض کی ضرورت پڑ جائے تو پھر آقائے دوجہاں ﷺ کے ہر اعتبار سے من کلّ الوجوہ آخری نبی رہنے کا جواز نہیں رہتا، یا اگر یوں ہو تو پھر ذہن میں خلجان پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاذ اللہ، اللہ اپنے بندوں پر ظلم تو نہیں کر رہا جبکہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے سے پاک ہے اور اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور کوئی نہیں۔
اگر بندوں کو ضرورت ہدایت ہے اور وہ ہدایت بارگاہ مصطفی ﷺ سے ملنی بند ہو جائے تو آپ ﷺ کے بعد نئی نبوت کے سلسلے کو بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ اگر لوگوں کو چشمہ مصطفی ﷺ سے روحانیت کا فیض نہ ملے اور بارگاهِ مصطفی ﷺ سے مردہ دلوں کو زندگی نہ ملے، دعوت و تبلیغ رسالت کے سوتے خشک ہو جائیں اور ان کی اثر انگیزی باقی نہ رہے تو نئی نبوت کا سلسلہ بند کرنے کا معنی کیا ہے؟ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی فیض رسانی کا سلسلہ تو نہ کبھی بند ہوا ہے اور نہ کبھی بند ہو گا، فیض ہمیشہ آپ ﷺ ہی کے چشمہ نبوت سے ملے گا اور اس کے لیے اولیاء، علماء اور مجددّین و مصلحین کی صورت میں فیض کی لاکھوں کروڑوں نہریں جاری کر دی گئیں جن سے امت کے ہر طبقے کو حسب ضرورت اس کے ظرف اور استطاعت کے مطابق فیض مل رہا ہے۔ اب قیامت تک ہر قسم کا فیض جسے بھی ملے گا بارگاهِ مصطفوی ﷺ سے ہی ملے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت پر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا اور کسی نئے نبی کی ضرورت و احتیاج باقی نہ رہی۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ شریعت میں نبوت کی کوئی ایسی تقسیم ثابت نہیں کہ ایک نبوت کو کامل اور دوسری کو ناقص کہا جا سکے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک نبوت تام اور دوسری نبوت جزوی ہو، ایک نبوت حقیقی یا اصلی ہو اور دوسری ظلی و بروزی ہو، ایک نبوت مستقل ہو اور دوسری غیر مستقل۔ ایسی نبوت کی کوئی تقسیم نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔ نبوت کا معاملہ، نبوت کا تصور اور نبوت پر ایمان، یہ ایک فروعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بنیادی اصولی مسئلہ ہے۔ یہ ایمان اور کفر کا مسئلہ ہے۔ قرآن و سنت نے نبوت کا ایک ہی تصور دیا ہے۔ وہ یہ کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی وحی اترے وہ نبی ہوتا ہے، خواہ وحی ایک بار آئے یا ہزار بار۔ یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ جس شخص پر زندگی میں اللہ تعالیٰ کی سچی وحی آگئی وہ اللہ کا سچا اور کامل نبی ہے۔ اس کی نبوت کو کسی پیمانے سے جزوی، ظلی اور بروزی خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ شریعت میں ظلی، بروزی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہ تصور قادیانی ذریت کا خودساختہ ہے اور اس کا مقصد اپنے کفر کو اسلام کا لبادہ اوڑھانے اور اپنی ضلالت و گمراہی پر پردہ ڈالنے کی سعی ہے۔ ورنہ نبوت کی کوئی تقسیم نہ اللہ نے بیان فرمائی ہے اور نہ اللہ کے رسول ﷺ نے۔ لهٰذا مرزا غلام احمد قادیانی کی ظلی و بروزی نبوت محض ایک ڈھکوسلہ اور افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
الانبیاء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
متذکرہ بالا آیہ کریمہ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کا حصارِ رحمت سارے عالمِ انسانیت کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔ آپ ﷺ تمام جہانوں اور زمانوں کے لیے رحمت ہیں۔ آپ کی رحمت قیامت تک جاری و ساری ہے۔ ہر جن و بشر ر حمت کے اس بحرِ بے کراں سے فیضیاب ہورہا ہے۔ آپ ﷺ کی رحمت کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ضروت تو تب پیش آئے کہ جب آپ ﷺ کی رحمت کم ہو یا ماند پڑ جائے۔ جب یہ رحمت اپنے پورے جوبن پر ہے اور اس کا سائبان پوری کائنات پر محیط ہے تو پھر کسی اور نبی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی رحمتِ عامہ آپ ﷺ کی ختم نبوت کی واضح دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْراًo
سبا، 34: 28
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوش خبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیںo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَبٰـرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًاo
الفرقان، 25: 1
’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائےo‘‘
مذکورہ بالا دونوں آیات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ نذیری و بشیری کا مضمون بیان ہوا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام جہانوں اور تمام انسانوں کے لیے انعاماتِ الٰہیہ کی خوشخبری اور عذابِ الٰہی کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ قیامت تک آنے والی نوع انسانی کے لیے بشیر و نذیر ہیں۔ جس طرح آپ ﷺ کی بعثت و رحمت عام ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی بشارت و نذارت عام ہیں اور قیامت تک جاری ساری ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کی آپ ﷺ کی نبوت قیامت تک جاری و ساری ہے اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ کسی نئے نبی کی آمد کا امکان تو تب پیدا ہوتا کہ اگر آپ ﷺ کو کچھ خاص زمانوں یا انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا جاتا۔ جب تا قیامت آنے والے کسی زمانے کا کوئی انسان بھی آپ ﷺ کے دائرہ بشارت و نذارت سے باہر نہیں تو نئے نبی کی آمد کیونکر ممکن ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْکُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًاo فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِيْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَّیَهْدِيْهِمْ اِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاo
النساء، 4: 174، 175
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی ﷺ کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدهٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہےo پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس (کے دامن) کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو عنقریب (اللہ ) انہیں اپنی (خاص) رحمت اور فضل میں داخل فرمائے گا، اور انہیں اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا راستہ دکھائے گاo‘‘
اس آیت کریمہ کی رُو سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سب سے روشن اور واضح دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہ رہی۔ آفتابِ محمدی ﷺ آسمانِ نبوت پر کائنات میں قیامت تک یونہی چمکتا رہے گا، اس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی کہ کسی دوسرے آفتاب کی ضرورت محسوس ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّکُمْ وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ ِللهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللهُ عَلِيْمًا حَکِيْمًاo
النساء، 4: 170
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس یہ رسول (ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے، سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر (یعنی ان کی رسالت سے انکار) کرو گے تو (جان لو وہ تم سے بے نیاز ہے کیونکہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا (وہ سب) اللہ ہی کا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo‘‘
قرآنِ حکیم نے اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ عامہ کا مضمون بیان کرتے ہوئے صرف آپ ﷺ ہی کی رسالت پر ایمان لانے کو تمام انسانیت کے لیے باعثِ خیر اور انکار کو غضب الٰہی کا باعث قرار دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک پیدا ہونے والی نسل انسانی کے لیے ہے۔ کوئی لمحہ اور کوئی فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ لہذا حضور کی رسالت و نبوت ہی تا حشر تمام زمانوں اور تمام انسانوں کو محیط ہے۔ آپ پر ایمان لانے والے خیر سے اپنا دامن بھرتے رہیں گے اور منکرین غیض و غضبِ الٰہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری ہے توکسی اور نبی یا رسول کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاُوْحِیَ اِلَيَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِهٖ وَمَنْ م بَلَغَ۔
الانعام، 6: 19
’’اور میری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں اور ہر اس شخص کو جس تک (یہ قرآن) پہنچے ڈر سناؤں۔‘‘
زیرِ نظر آیت کریمہ سے واضح ہے کہ یہ قرآن صر ف کسی ایک دور کے انسانوں کے لیے ہی حجت نہیں بلکہ قیامت تک ہر اس انسان کے لیے حجت ہے جس تک اس کا پیغام پہنچا۔ قرآن حکیم کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کاانذار قیامت تک جاری ہے۔ اب قیامت تک صرف شریعتِ قرآن پر ہی عمل ہو گا کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں، یہی شریعت کافی و وافی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَo
الحجر، 15: 9
’’بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گےo‘‘
سورۃ الحجر کی مندرجہ بالاآیت کریمہ میں حفاظت قرآن کی الوہی ضمانت کا بیان ہے۔ قرآن مجید ہمارے لیے قیامت تک دست بردِ زمانہ سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ علامہ زمحشری اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَھُوَ حَافِظُهُ فِي کُلِّ وَقْتٍ مِنْ کُلِّ زِیَادَةٍ وَنُقْصَانٍ وَتَحْرِيْفٍ وَتَبْدِيْلِ بِخِلَافِ الْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَةِ فَإِنَّهُ لَمْ یَتَوَلَّ حِفْظَھَا وَإِنَّمَا اسْتَحَفَظَھَا الرَّبَّانِيِّيْنَ وَالْأَحْبَارُ۔
زمخشری، الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل، 2: 572
’’اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو ہر زمانے میں ہر قسم کی زیادتی و نقصان اور تحریف و تبدیل سے بچانے والا اور محافظ ہے۔ برخلاف کتبِ سابقہ کہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نہیں لی بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری (اس دور کے) علماء پر ڈالی۔‘‘
قرآن مجید سے پہلے بھی انبیاء پر وحی نازل ہوتی رہی مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل ہونے والی وحی کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی کیونکہ ہر نبی کے بعد دوسرے نبی کے آنے سے اس پر وحی کی تجدید ہونا تھی مگر حضور ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی حفاظت کی ذمہ داری اس لیے خالقِ کائنات نے قبول کی کہ آپ ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت اور وحی کا انقطاع ہو رہا تھا اور قیامت تک انسانیت کے لیے فقط قرآن ہی کو بطور صحیفہ انقلاب سرچشمہ ہدایت رہنا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ هُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰـلَمِيْنَo
صٓ، 38: 87
’’یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کے لیے نصیحت ہی ہےo‘‘
سورہ صٓ کی آیت نمبر 87 سے واضح ہے کہ قرآن حکیم قیامت تک تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ جب ہر زمانے کے لوگوں کے لیے بصورتِ ِقرآن نصیحت موجود ہے تو کسی نئی نصیحت کی ضرورت نہیں یہی نصیحت خدائے لم یزل کا آخری پیغام ہے۔ احادیث مبارکہ میں اسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يَّکْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ۔
ھود، 11: 17
’’کیا (یہ) اور (کافر) فرقوں میں سے وہ شخص جو اس (قرآن) کامنکر ہے (برابر ہوسکتے ہیں) جبکہ آتشِ دوزخ اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘
سورہ ہود کی زیر نظر آیت میں اَحزاب سے مراد قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہ ہیں۔ ان میں سے جو بھی قرآن کا انکار کرے گا، اس کے پیغام کو جھٹلائے گا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اس آیت سے درج ذیل اہم نکا ت اخذ ہوئے:
1۔ یہ آیت حضور نبی اکر م ﷺ کی رسالتِ عامہ کی دلیل ہے کیونکہ قرآن حکیم اور رسالتِ مصطفی ﷺ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ لهٰذا قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہوں میں سے جو کوئی رسالت مصطفی ﷺ کا انکا ر کرے وہ کافر اور جہنمی ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت قرآن کا واضح پیغام ہے۔ لهٰذا منکرِ ختم نبوت صریحاً کافر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَکَّةَ مُبٰـرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِيْنَo
آل عمران، 3: 96
’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہےo‘‘
اس آیہ کریمہ میں قبلہ اوّل کعبۃ اللہ جسے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر جملہ عالمِ اسلام کا قبلہ بنا دیا، کی اوّلیت کا بیان ہے۔ یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ کعبۃ اللہ اسلام کا ایک مرکزی شعار ہے۔ یہ تمام دنیا کے اہلِ اسلام کا قبلہ ہے۔ وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور حج و عمرہ میں اس کا طواف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی خواہش سے بنایا۔ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ کعبۃ اللہ تمام اہلِ جہان کے لیے تا قیامت مرکز ہدایت ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا یہی قبلہ ہے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ قبلہ مصطفی ﷺ کی عالمگیریت آپ ﷺ کی رسالتِ عامہ کی آئینہ دار ہے اور رسالتِ عامہ ختمِ نبوت کی مستقل دلیل ہے۔
ان سارے ارشاداتِ ربانی سے یہ نکتہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید، آپ ﷺ کا قبلہ، آپ ﷺ کی شان نذیریت اور آپ ﷺ کی رحمت اپنے اندر شان عالمگیریت رکھتی ہے۔ عالمین، عالم کی جمع ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں مثلاً عالمِ جن و انسان، عالمِ شجر و حجر، عالمِ نباتات و جمادات، عالمِ پست و بالا، عالمِ ناسوت، عالمِ برزخ، عالمِ آخرت، عالمِ ارواح، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، عالمِ لاہوت، عالمِ ہاہوت الغرض جتنے بھی عالم ہیں ان سب کے مجموعہ کو عالمین کہتے ہیں، اب جہاں تک دائرئہ عالمین پھیلا ہوا ہے وہاں تک نبوتِ مصطفی ﷺ اور رحمتِ مصطفی ﷺ محیط ہے، یہ ساری کائنات ایک عالم ہے خدا جانے کتنی اور کائناتیں اور عوالم ایسے ہیں جن کی ہمیں اب تک خبر بھی نہیں، ربِ کائنات نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فقط ایک عالم کا نہیں بلکہ سارے عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور ظاہر ہے کہ جس عالم پر حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت کا سایہ ہو گا اس پر آپ ﷺ کی نبوت کی چادر بھی تنی ہو گی، گویا قرآنِ حکیم نے آپ ﷺ کو سارے عالمین کے لیے رحمت قرار دے کر آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی عالمگیریت کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
اب تمام عالمین میں اللہ رب العزت کی ربوبیت اور اس کے محبوب ﷺ کی رحمت و نبوت کار فرما ہے، پوری کائنات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں اور مصطفی ﷺ کے علاوہ کوئی اور صاحبِ نبوت و رسالت نہیں۔
یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّدَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo
الاحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبی (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
اس آیت کریمہ میں حضور ختمی مرتبت علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تین شانوں کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کے تمام عالمِ خلق کے شاہد اور مبشر و نذیر ہونے سے عبارت ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور رحمت کو جس طرح عالمگیر بنایا اور انہیں تمام زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماورا رکھا اسی طرح آپ ﷺ کو عطا کی گئی نعمتوں اور فضیلتوں کو بھی زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا، مطلق اور غیر مقید رکھا۔ آپ ﷺ کے کسی منصب، فضیلت اور شان پر ربِّ کائنات نے کوئی قید نہیں لگائی بلکہ آپ ﷺ کی ہر شان کو مطلق اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد رکھا۔ ایسے عظیم اور عالم گیر نبی ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی نبوت کا گمان بھی صریح گمراہی اور ازلی بدبختی کو دعوت دینا ہے، قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آپ کے فضائل اور اعزازات کو بیان کیا گیا تو انہیں مطلق رکھا گیا مثلاً فضیلت شاہدیت کا بیان اس نکتے کو کھول دیتا ہے۔
جب کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص شاہد یعنی گواہ ہے تو فوراً ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ کس چیز کا گواہ؟ اس لیے کہ جب تک کوئی شے متعین نہ کی جائے اس وقت تک گواہی کا تصور واضح نہیں ہوتا۔ اب کائنات کی ساری شہادتیں متعین ہیں لیکن شہادت مصطفوی ﷺ کو غیر متعین رکھ دیا گیا ہے اس کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ازل سے ابد تک کائنات کی جس شے پر بھی گواہی مطلوب ہوگی، آپ کو اس پر گواہ بنایا جائے گا جبکہ اوروں کی شہادتیں زمان و مکان کے ساتھ مقید ہیں مگر حضور ﷺ کی شہادت اور گواہی ان حدود و قیود سے ماورا، مطلق اور عالمگیریت کی شان لیے ہوئے ہے، قرآن مجید نے گواہی کے اس تصور کو بڑی وضاحت کے ساتھ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں بیان کردیا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا خالق کائنات نے اپنے پیارے حبیب کو جو شان بھی عطا کی، اسے مطلق اور زمان و مکان کی قید اور حد بندی سے آزاد رکھا۔ کائنات کی ساری حدیں حضور نبی اکرم ﷺ کے دامنِ نبوت کے اندر سمٹ گئی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا منصبِ نبوت و رسالت اور شان عظمت اپنی وسعت کے اعتبار سے اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری شانیں اور منصب عالمگیر ٹھہرے تو ان شانوں اور منصب کا منبع و مرکز یعنی شان نبوت و رسالت کیوں آفاقی اور عالمگیر نہ ہو گی جب شان نبوت و رسالت عام ہوئی تو پھر ایسی مطلق شان نبوت و رسالت کے بعد کسی اور نبی کا تصور درحقیقت شان رسالت مصطفی کی نفی اور تنقیص کے مترادف ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰـئِثَ۔
الاعراف، 7: 157
’’جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔‘‘
اس آیۂ مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے دو بنیادی فرائض نبوت کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ کو احکامِ شریعت کی تبلیغ و دعوت، دین کی تجدید اور احیاء حتی کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کو جاری رکھنے کا منصب عطا کیا۔ ان امور کی انجام دہی کارِ نبوت ہے اور یہی منصب رسالت ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فرائض منصبی کے دو حصے ہیں جو اس طرح ہیں:
1۔ حضور ﷺ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے یعنی آپ ﷺ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے۔
2۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا۔ اب جس شے کو آپ ﷺ حلال کہہ دیں وہ حلال ہے اور جس کو حرام کہہ دیں وہ حرام ہے۔ چیزوں کو حلال اور ناپاک کو حرام قرار دینا، یہ نبی کا تشریعی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةُ۔
المائدہ، 5: 3
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے۔‘‘
قرآن مجید نے چار مقامات پر مردار کے حرام ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مردار اس جانور کو کہتے ہیں جو ویسے تو حلال ہو لیکن ذبح کیے بغیر مر جائے۔ چونکہ حلّت و حرمت کا تشریعی اختیار نبی کو بھی دیا گیا ہے اس لیے اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے مچھلی اور ٹڈی کو حلال قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ الْحُوْتُ وَالْجَرَادُ۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الصید، باب صید الحیتان و الجراد، 2: 1073، رقم: 3218
’’ہمارے لیے دو مردار مچھلی اور ٹڈی حلال قرار دیئے گئے ہیں۔‘‘
یہاں آقائے دوجہاں ﷺ کے تشریعی اختیار کا انکار کرنے والوں اور دینِ اسلام کے لیے فقط قرآن کو کافی سمجھنے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انہیں ذرا رک کر سوچنا چاہئے کہ مچھلی کھانا قرآن کی کس نص کی رو سے حلال ہے؟ اگر سنتِ نبوی پر انحصار اور اعتبار نہ کیا جائے تو قرآن تو حرمتِ میتہ کے حکم کی رو سے مچھلی کو حرام کہہ چکا تھا جس کے تحت بغیر ذبح کے حلال جانور کو حرام قرار دیا گیا ہے جبکہ اسے حرام کے زمرے سے نکال کر حلال بنانے والا اللہ کا رسول ہے، اسی طرح ٹڈی کو حلال کرنے والے بھی رسول اللہ ﷺ ہیں، مردوں کے لیے ریشم کا پہناوا حرام ہے مگر شارع علیہ السلام نے اپنے خصوصی تشریعی اختیار سے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو مستثنیٰ قرار دیا اور ان دونوں کے لیے ریشم حلال کر دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رَخَّصَ النَّبِيُّ ﷺ لِلزُّبَيْرِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ فِيْ لُبْسِ الْحَرِيْرِ لِحِکَّةٍ بِھِمَا۔
بخاری، الصحیح، کتاب اللّباس، باب ما یرخص للرجال من الحریر للحکۃ، 5: 2196، رقم: 5501
’’رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کو خارش (جلد کی بیماری) کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دے دی۔‘‘
تو پتا چلا کہ اللہ کے نبی کے فرائضِ منصبی دو طرح کے ہیں: ایک نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا، دوسرا اپنے اختیار تشریعی سے نص قرآنی کے ظاہر حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام قرار دینا۔
قرآن و سنت کے احکام حلّت و حرمت کے حوالے سے حتمی ہیں، اب قیامت تک نہ کسی حلال کو حرام قرار دینے کا کسی کو اختیار ہے اور نہ ہی حرام کو حلال قرار دینے کا، جسے حرام قرار دے دیا گیا وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے اور جسے حلال قرار دے دیا گیا وہ قیامت تک حلال ہے۔ حلّت و حرمت کے باب میں اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے اور بدی سے روکا جائے۔ امر و نہی جو اللہ کے نبی کا منصب تھا وہ اب آپ ﷺ کی امت کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ امت مصطفوی ﷺ کا من حیث الکل منصب یہ قرار پایا کہ اپنے نبی کے اتباع میں نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے اور قرآن کی رو سے یہ منصب امت ہی کا قرار پایا جس کو سرانجام دینے کے لیے پھر کسی نبی کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰیٰـتِهٖ وَ یُزَکِّيْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ۔
آل عمران، 3: 164
’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل چار فرائض مذکور ہیں:
1۔ تلاوتِ آیات
2۔ تزکیۂ نفوس
3۔ تعلیمِ کتاب
4۔ تعلیمِ حکمت
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد یہ چاروں اجزائے نبوت آپ ﷺ کی امت کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے:
قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور قرآن کو محفوظ رکھنا، یہ حضور ﷺ کی امت کے خوش نصیب افراد حفاظ و قراء کے سپرد کر دیا گیا، اب قرآن کی تلاوت اس کے حفظ اور اس کی تلاوت کے لیے کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ امت کو حفاظ و قراء وافر تعداد میں عطا کر دیئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ امتوں میں ایسا کوئی اہتمام نہ تھا۔ آقائے دو جہاں ﷺ کی امت کے نونہال سات سال کے بچے بھی حافظ قرآن بن جاتے ہیں، پوری کائنات میں کسی مقدس کتاب کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ سات سال کا بچہ، اس کا فصیح اللسان/ البیان حافظ ہو جائے، یہ ختم نبوت کا فیض امت کو علی الدوام حاصل ہو رہا ہے۔
اس پیغمبرانہ منصب کو عملاً سرانجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اولیاء و صوفیاء پیدا فرما دیئے جن کی صحبت کے فیض سے خلقِ خدا کے دلوں کے زنگ اترتے ہیں، ان کی نگاهِ فیضِ اثر سے نفوس کے تزکیئے ہوتے ہیں، اللہ یاد آتا ہے اور فسق و فجور کی آلائشیں ختم ہوتی ہیں، یہ صوفیاء تزکیہ نفوس کا علم بلند کیے رہتے ہیں۔ تزکیہ و تربیتِ روحانی، تزئین اخلاق اور تہذیبِ نفس، یہ سب کچھ صوفیاء کی تربیت گاہوں سے ملتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے آستانہ عالیہ پر کفارِ ہند کفرو شرک کا زنگ لے کر آتے اور ایمان کے نور سے منور ہوکر جاتے ہیں۔ اہلِ کفر کو کسی تقریر، کسی کتاب اور تصنیف کی ضرورت نہ پڑتی، فقط صحبت سے دلوں کا زنگ دھل جاتا۔ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ شہنشاهِ ولایت کی مجلس وعظ میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے احوال بدل جاتے۔ چور چوری کے ارادے سے آتا تو اس بارگاہ سے شانِ قطبیت لے کر جاتا، ان اولیاء اللہ کی مجلس سے ایمان، عمل صالح اور تقویٰ نصیب ہوتا ہے، طہارت نصیب ہوتی ہے حتی کہ ولایت ارزانی ہوتی ہے۔ قیامت تک تزکیہ و تصفیہ نفوس و قلوب سے متعلق کارِ نبوت اللہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء اور صوفیاء کو عطا کر دیا ہے اور یہ چشمہ ہائے فیض آج تک رواں دواں ہیں ہماری آنکھوں کو ان کی پہچان نہ ہو تو یہ علیحدہ بات ہے لیکن امر واقعہ ہے کہ وہ خطہ زمین کے ہر گوشے میں آج بھی روحانی طور پر موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت کی مختلف شکلیں ہیں جو کہیں حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام سے اور کہیں بابا فرید گنج شکرؒ کے نام سے آج بھی اپنا فیض تقسیم کر رہی ہیں۔ یہ وہ مراکز ہیں جہاں سے تزکیۂ نفس کا مصطفوی فیض مل رہا ہے، یہ سارے چشمے بھی ختم نبوت کا صدقہ ہیں۔
کتابِ الٰہی کی تعلیم کا کام اللہ نے حضور ﷺ کی امت کے علماء، ائمہ اور مجتہدین کو سپرد کر دیا، جو علوم القرآن اور علوم الحدیث کے ماہر اور معارف دین پر گہری نظر رکھنے والے ہیں، انہوں نے شریعت کے علوم و فنون کے اسرار و معارف کو چار دانگ عالم تک پھیلایا۔
ایسے علماء حق آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں إنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأنْبِیَاء (بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں) کے خطاب سے نوازا۔ اس طرح وہ فیض نبوت جو تعلیمِ کتاب سے متعلق ہے، بطریق علماء و مجتہدین قرن اول سے تاامروز قائم و دائم ہے اور قائم و دائم رہے گا۔ ختم نبوت کی برکت سے یہ نہ کبھی منقطع ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
یہ منصب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے مجدّدین اور حکماء و مجتہدین کو عطا کیا۔ یہ فیضانِ ختم نبوت ہے جو حضور ﷺ کی امت کے ان صاحبانِ حکمت کو ملا جو اصلاً امت کی اصلاح اور دینِ اسلام کی تجدید واحیاء کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اللهَ عزوجل یَبْعَثُ لِھَذِهِ الْأَمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھَا دِيْنَھَا۔
1۔ ابوداؤد، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ما یذکر في قرن
المائۃ، 4: 109، رقم:4291
2۔ حاکم، المستدرک، 4: 568
3۔ طبراني المعجم الأوسط، 6: 324، رقم: 6527
’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے آخر میں ایک شخص بھیجتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید و احیاء کا کام کرتا رہے گا۔‘‘
گزشتہ ادوار میں وہ کام جو بنی اسرائیل کے بڑے جلیل القدر انبیاء کرتے تھے، اب ہر صدی کے فاصلے پر یہی کام حضور ﷺ کی امت کے مجددین کے سپرد کیا گیا ہے جب یہ سارے کارہائے نبوت اور ان کے فیوضات موج بہ موج جاری و ساری اور رواں دواں ہیں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ نبوتِ محمدی ﷺ کا ظاہری اور باطنی فیض، سایہ رحمت اور دست شفقت کی صورت میں امت کے ان افراد کے سر پر رہتا ہے جو سچے دل سے آپ ﷺ کے دامن سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور طالبانِ نورِ ایمان و ہدایت ان کی وساطت سے آج بھی پیکرِ نبوت سے فیض گیر ہیں اور اس کے سرمدی اجالے سے اپنے دلوں کے اندھیرے دور کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ ہر قدم حضور نبی اکرم ﷺ کے لطف و رحمت کا فیض اٹھاتے ہیں۔ جب فیضانِ نبوت کا سلسلہ اس طرح جاری و ساری ہے تو پھر کسی اور نبوت کا تصور کیوں کیا جائے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَهَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
النحل، 16: 35
’’تو کیا رسولوں کے ذمہ (اللہ کے پیغام اور احکام) واضح طور پر پہنچا دینے کے علاوہ بھی کچھ ہے؟‘‘
اس آیۂ کریمہ میں پیکرانِ رسالت کے بھیجے جانے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان کا مقصدِ وحید پیغام حق لوگوں تک پہنچانا تھا جبکہ ہمارے آقا و مولا حضور نبی رحمت ﷺ کے سپرد صرف ابلاغِ مبین نہیں بلکہ ان مقاصدِ خمسہ کی تکمیل بھی ہے جو آپ ﷺ کو عطا کیے گئے۔ نبوت محمدی ﷺ کے ان پانچ مقاصد کی تفصیل اس طرح ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت مبارکہ سے سابقہ انبیاء کی شریعتیں منسوخ کر دی گئیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَةٍ اَوْ نُنْسِھَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo
البقرۃ، 2: 106
’’ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصد بعثت میں سے ایک تنسیخِ شریعت بھی ہے، آپ ﷺ سابقہ شرائع کو منسوخ کر کے تکمیلِ دین کے لیے ان سے بہتر شرع لائے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ وہ مکمل دین لے کر آئے جس میں ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ضمانت فراہم کی گئی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ۔
المائدۃ، 5: 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔‘‘
معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی بعثت مبارکہ سے دین مکمل ہو گیا اور اکمالِ دین کا مقصد جو آپ ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک تھا پورا ہو چکا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے دیگر فرائض نبوت کے ساتھ سابقہ امتوں کی شرائع میں موجود بعض چیزوں کی تخفیف کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے تاکہ امت کے راستے کی مشکلات دور ہوں اور لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جائے جس سے دین واضح ہو جائے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْھِمْ۔
الاعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے۔‘‘
مذکورہ آیت کریمہ میں بنیادی طور پر حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصدِ بعثت میں پاک چیزوں کو حلال، ناپاک کو حرام کرنا اور لوگوں سے وہ بوجھ ہٹا دینا ہے جو سابقہ امتوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر سزا کے طور پر ڈال دیئے گئے تھے۔ یہ سب امت کی آسانی کے لیے ہوا اور یہی شریعت میں تخفیف ہے۔
شریعتِ مطہرہ کی تبلیغ کے فریضہ کی بجا آوری کے لیے آپ ﷺ کو مامور فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔
المائدہ، 5: 67
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔‘‘
تبلیغ شریعت اشاعتِ دین کا ایک اہم فریضہ ہے، جس کو ہمیشہ جاری رکھنے کی ذمہ داری حضور نبی اکرم ﷺ نے امت کے سپرد کر دی۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے سابقہ انبیاء کرام کی طرح اپنے فرائضِ رسالت کی ادائیگی میں مکمل طور پر تبلیغ کا فریضہ انجام دیا مگر سابقہ انبیاء میں ہر نبی کے بعد یہ کام دوسرے نبی کے سپرد ہوتا تھا، اب چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور نبی کی آمد کا سلسلہ قیامت تک بند ہو گیا ہے لهٰذا یہ فریضۂ نبوت امت کے سپرد کر دیا گیا۔
احکام شریعت کو بتمام و کمال نافذ کرنے کا فریضہ بھی حضور ﷺ کے فرائض منصبی میں شامل ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ھُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْھُدٰی وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo
التوبہ، 9: 33
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول ﷺ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo‘‘
اس آیت کریمہ میں عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ سے یہ مقصود ہے کہ دین محمدی ﷺ کو قیامت تک سب ادیانِ عالم پر غالب کر دیا جائے۔ یہ فریضہ بھی حضور ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کو سرانجام دینا ہے اور جس کے لیے کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصدِ بعثت کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے وہ سارے کام سرانجام دیئے جو یکے بعد دیگرے انبیاء کرام علیھم السّلام اپنے فریضہ نبوت کی بجاآوری کے لیے انجام دیتے رہے۔ جس سے دین کا کام بہمہ وجوہ مکمل ہو گیا حضور ﷺ کی نافذ کردہ شریعت نے دین پر عمل پیرا ہونا ہر فردِ امت کے لیے آسان کر دیا اور کوئی کام ایسا نہ رہا جس کی تکمیل احکامِ شریعت کی تعمیل کے لیے ضروری ہو۔ اس طرح فریضہ تبلیغ کا جو کام حضور نبی اکرم ﷺ کے ذمہ تھا اس کو آپ ﷺ نے مکمل کیا اور بعد میں اسے مداومت کے ساتھ جاری رکھنے کا ذمہ امت کے سپرد کر دیا چنانچہ سورۃ الحج میں ارشاد ربانی ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔
الحج، 22: 41
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعد فرائض نبوت بتمام و کمال سرانجام دینے کے لیے وہ امور جن کو غیر نبی امتی انجام دے سکتے تھے انہیں سونپ دیے اور انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں مداومت کے ساتھ جاری رکھیں تاکہ دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے تبلیغ و تنفیذ شریعت اور دیگر دینی امور کی ذمہ داری امت کے صحیح الفہم اور صائب الرائے افراد کے سپرد کر دی گئی چونکہ بعثت نبوی کے مقاصد پورے اور مکمل ہو چکے ہیں اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اب قیامت تک کسی نئے نبی کی مطلقاً ضرورت نہ رہی۔
فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo
التغابن، 64: 8
’’پس تم اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور اُس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہوo‘‘
اس آیت کریمہ میں رَسُوْلِهٖ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مراد ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی الوہیت کے بعد آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک آنے والے ہر ہر انسان کے لیے ہے۔ کوئی زمانہ اور کوئی فردِ بشر اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان لانے کا حکم نہ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ۔
النور، 24: 62
’’ایمان والے تو وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لے آئے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں کو مومن کہا گیا ہے۔ قیامت تک وہی شخص مومن ہو گا جو ایمان باللہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے گا۔
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الأعراف، 7: 157
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo‘‘
اس آیتِ کریمہ میں تعلق بالرّسول ﷺ کی درج ذیل چار بنیادیں اور ان کی قرآنی ترتیب ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ایمان بالرسول ﷺ
2۔ تعظیمِ رسول ﷺ
3۔ نصرتِ رسول ﷺ
4۔ اتباعِ رسول ﷺ
تعلق کی پہلی دو جہتوں (ایمان اور تعظیم) میں مرکز و محور حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے جبکہ تعلق کی نوعیت ذاتی، حبیّ اور ادبی ہے، جبکہ دوسری دو جہتوں (نصرت و اتباع) میں مرکز و محور حضور ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کی تعلیمات ہیں اور تعلق کی نوعیت تعلیماتی، عملی اور اتباعی ہے۔ قرآن مجید نے چار جہات تعلق کو ایک خاص ترتیب سے بیان کرکے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اسلام میں اوّلاً حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وادب اور اعتماد و اعتقاد کا تعلق استوار ہوتا ہے اور بعد میں نتیجتاً آپ ﷺ کے دین اور تعلیمات سے عمل و اطاعت اور اتباع و نصرت کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ان چار جہات سے تعلق کو مضبوط کر لیں گے فلاحِ دارین انہی کا مقدر بنے گی۔ یہ تعلق حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے درمیان قیامت تک قائم ہے، کسی ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ آیت کریمہ میں آپ ﷺ کے بعدکسی شخص کے لیے اس قسم کے تعلق کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کے ساتھ اس چہار جہتی تعلق استوار کرنے پرکامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ ﷺ سلسلۂ نبوت کے خاتم ہیں، ایمان بالرسول، تعظیم رسول، نصرت رسول اور اتباع رسول کی تمام حدیں اور تمام تقاضے آپ ﷺ کی ذات پر ختم ہو چکے۔ لہذا آپ کے بعد جو کوئی بھی اپنے لیے ان تقاضوں کو ثابت کرنے کی کوشش کرے وہ کذّاب ہو گا۔
یٰٓاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
الحدید، 57:28
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم ﷺ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں رحمت و بخششِ خداوندی کا وعدہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے پر کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص پر ایمان لانے پر رحمت و بخشش کا وعدہ نہیں کیا گیا کیونکہ آپ ﷺ پر انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا سرے سے امکان ہی نہیں۔ اگر کوئی رحمت و بخشش خداوندی کا طلبگار ہے تو اسے صرف نبوت و رسالت محمدی ﷺ پر ایمان لانا ہو گا۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِيْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
الصف، 61: 10، 11
’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتادوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟o (وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول (ﷺ) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہوo‘‘
اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان رکھنا ہی اخروی عذاب سے بچنے کے لیے کافی ہے۔ اگر امت میں آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد متوقع ہوتی تو ضرور بالضرور اس پر ایمان لانے کو بھی اخروی عذاب سے نجات کا لازمہ قرار دیا جاتا۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد متوقع نہیں اس لیے اخروی عذاب سے چھٹکارے کے لیے فقط آپ ﷺ پر ایمان ہی کو کافی قرار دیا گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اٰمِنُوْا بِاللهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ ط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ کَبِيْرٌo
الحدید، 57: 7
’’اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لیے بہت بڑا اَجر ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں بھی ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کو اجرِ کبیر کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا مقدر ہوتا تو اس پر ایمان لانے کو بھی حصول اجر کا ذریعہ قرار دیا جاتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَ عَنْھُمْ سَيِّاٰتِھِمْ وَاَصْلَحَ بَالَھُمْo
محمد، 47: 2
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیے اور ان کا حال سنوار دیاo‘‘
اس آیت کریمہ میں صرف ان لوگو علیہ السلام کے گناہ مٹائے جانے کا وعدہ خداوندی ہے جو اس کتاب پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کی گئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہوتا اور اس پر کوئی کتاب وغیرہ نازل کرنا ہوتی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس پر ایمان لانے والے کے لیے بھی گناہ مٹانے کا وعدہ فرماتا چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد خالی از امکان تھی اس لیے یہاں اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس آیت کریمہ میں ایمان کو بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، لهٰذا قیامت تک اہلِ ایما ن صرف وہی ہوں گے جو اس کتاب پر ایمان لائیں گے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ کتاب یعنی قرآن حکیم پر ایمان لائیں گے۔ اس کتاب حکیم کے بعد کسی شخص پرنزولِ کتاب کا دعویٰ باطل ہوگا اور اس پر ایمان لانے والا کافر ہو گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo
النساء، 4: 59
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۔
الانفال، 8: 20
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَطِيْعُوْا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۔
الأنفال، 8: 46
’’اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔
النساء، 4: 80
’’جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ مطاع مطلق اللہ اور رسول ﷺ کی ذات ہے۔ ان دونوں کی اطاعت فی الحقیقت مستقل، دائمی، حتمی، قطعی اور غیر مشروط ہے اس لیے فرمایا اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اس کے بعد جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کی جائے۔
آیت میں لفظ یُطِع مضارع کا صیغہ ہے۔ عربی زبان میں تینوں زمانوں کے لیے دو صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک ماضی اور دوسرا حال اور مستقبل کے لیے۔ ماضی وہ زمانہ ہوتا ہے جو بیت گیا اور حال وہ زمانہ ہوتا ہے جو کبھی گزرتا نہیں یعنی ایسا وقت جو ہر گھڑی قائم رہتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مستقبل کا معنی ہے آئندہ آنے والا۔ ہم آئندہ کل کو مستقبل کہتے ہیں اور جب اس میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے اگلا کل ہمارے لیے مستقبل ہو جاتا ہے، لهٰذا جس طرح زمانہ حال کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح زمانہ مستقبل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا یعنی ان دونوں زمانوں میں دوام کارفرما ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے لیے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے کیونکہ فعل مضارع بیک وقت حال اور مستقبل یعنی دونوں زمانوں پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ لفظ ’یطیع‘ کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ جو کوئی اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا اس کی کوئی حد نہیں کہ کب تک کرے گا بلکہ عموم کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک کسی نہ کسی شکل میں نبی کی اطاعت کرنے والے موجود ہوں گے تب تک نبی ﷺ کی نبوت و رسالت دائماً قائم رہے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ لفظ یطیع فعل مضارع میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے اطاعت رسول ﷺ کا حکم بھی دوام اور ہمیشگی کا معنی لیے ہوئے ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر زمانہ میں بلافصل ہو گی۔ جس طرح رسالت محمدی ﷺ کا آفتاب دورِ صحابہ میں پوری آب و تاب سے چمکتا تھا اسی طرح آج بھی چمک رہا ہے اور اسی طرح قیامت تک چمکتا رہے گا۔ چنانچہ قیامت تک ہر طالب ہدایت آفتاب رسالت محمدی ﷺ سے ضوگیر رہے گا، جس کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کا تصور کرنا معاذ اللہ آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کا انکار ہے جو صریحاً کفر ہے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ میں لفظ رسول پر ال لگا کر اسے معرّف باللام بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں کوئی لفظ معرّف باللام ہو کر معرفہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں الرّسول سے عام رسول نہیں بلکہ خاص رسول مراد ہے اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی ہے۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی ذات مطاعِ مطلق ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے مذکورہ آیت کریمہ میں یُطِع مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اَطَاعَ ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اب قاعدہ یہ ہے کہ صیغہ ماضی تاکید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں یقین کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ ایک تمثیل سے اس کی وضاحت یوں ہے کہ ایک آدمی اپنے دو دوستوں سے کہے کہ وہ فلاں کام سے لاہور چلے جائیں۔ ان کی طرف سے جواب نہ آنے پر وہ یوں کہے کہ آپ نے میری بات نہیں مانی۔ ایک دوست جواب میں کہے کہ اچھا میں آپ کی بات مانتا ہوں جبکہ دوسرا کہے کہ میں نے آپ کی بات مان لی۔ جواب دونوں کا ایک ہے۔ مگر پہلا جواب مضارع میں ہے جبکہ دوسرا ماضی میں، اس دوسرے جواب میں زیادہ تاکید بھی ہے اور یقین بھی۔ علیٰ ھذا القیاس اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرّم سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی عظمت کو بلند کرنے کے لیے فرمایا کہ جو بھی اس رسول کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا اس نے میری اطاعت کی۔ یہ نہیں فرمایا کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے بلکہ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت براہ راست کی جائے گی تو اس میں شک ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوئی یا نہ ہوئی، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور غلامی کا قلادہ کسی بندئہ مومن نے اپنے گلے میں ڈال لینے کے بعد یہ عہد کر لیا کہ وہ حال و مستقبل میں اسے کبھی گلے سے نہیں اتارے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اطاعت و غلامی کو قبول کرنے کا اعلان فرما دیا کہ جو میرے رسول ﷺ کی اطاعت و غلامی اختیار کرتا ہے یا اختیار کرے گا وہ میری غلامی و اطاعت میں آ گیا پس اگر تم میرا بندہ بننا چاہتے ہو تو پہلے میرے مصطفی ﷺ کے غلام بنو۔ علامہ اقبالؒ نے اس مفہوم کو بصورتِ شعر یوں بیان کیا ہے:
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ محولہ بالا آیہ کریمہ میں صاحبان امر کا حکم ماننے اور ان کی اطاعت کرنے کی تعلیم مشروط ہے اور اس کے لیے لفظ اَطِيْعُوا علیحدہ نہیں آیا بلکہ فرمایا: اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ حکم دینا حق ہے اور اطاعت کا حق بالذات فقط اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے اور بطور حقدار ہونے کے دونوں مفروض الاطاعت ہیں جبکہ ’’اولی الامر‘‘ کا کام فقط اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت کرانا ہے۔ اس لیے ان کے حکم کو ماننا فی الحقیقت ان کی اطاعت کرنا نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنا ہے اس لیے فرمایا کہ اگر ان کا تمہارے ساتھ کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو پھر اس نزاعی مسئلے کے آخری، حتمی اور قطعی فیصلے کے لیے اسے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف لوٹا دو۔
بنظرِ غائر اَطِيْعُوا کے حکم پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آیت کریمہ کا سارا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ پاک کے نزدیک اہل ایمان کے لیے فقط دو حکم ماننے کے لائق یعنی مفروض الاطاعت ہیں:
1۔ حکمِ ذاتِ اُلوہیت
2۔ حکمِ ذاتِ رِسالت
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بعد اگر اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کا حکم مستقل بالذات اور ابدی ہوتا تو اس کے لیے اَطِيْعُوا کے لفظ کا اعادہ کیا جاتا لیکن فقط اُولِی الْاَمْر کہہ دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اُولِی الْاَمْر اگر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے تابع فرمان ہوں تو امت بھی ان کا حکم مان لے، اگر وہ اللہ اور رسول ﷺ کی راہ سے ہٹ جائیں اور ان کے حکم سے منحرف ہو جائیں تو ان کی اطاعت مسلمانوں پر فرض نہیں، بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ ان کی اطاعت کا قلادہ گلے سے اتارپھینکیں۔
یہ استدلال اس امر پر شاہد عادل ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بعد امت مسلمہ کا کوئی حاکم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو امت کا کوئی فرد اصلاً اس سے اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دورِ صحابہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹے صحابہ نے بڑے صحابہ سے اختلاف کیا۔ تبع تابعین نے تابعین سے اختلاف کیا، شاگردوں نے ائمہ و اساتذہ سے اختلاف کیا اور مریدوں نے مشائخ سے اختلاف کیا کیونکہ قرآن اپنے ارشاد فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ کے ذریعے یہ اجازت دے چکا ہے کہ کتاب و سنت کے احکام کی تعبیر پر اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے۔ مذکورہ آیت میں آگے اسی امر کی توضیح کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ۔
النساء، 4: 59
’’تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹا دو۔‘‘
آیتِ کریمہ میں مذکور رسول سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات ہے، قرآن مجید نے واضح اور غیر مبہم انداز سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو اپنے تمام نزاعات کے حل کے لیے آخری سند، حَکَم اور مرجع قرار دیا۔ اگر رسول اکرم ﷺ کے بعد کوئی اور نبی یا رسول مبعوث ہونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں مطلقاً اختلاف رونما ہونے کی صورت میں اپنا نزاعی معاملہ رسول آخر و اعظم ﷺ کی طرف لوٹانے کا حکم دینے کی بجائے اپنے زمانے کے رسول کی طرف لوٹانے کی تلقین کرتا مگر ارشادِ ربانی کا منشاء یہی ہے کہ اے امت مسلمہ تم جس زمانے میں میں بھی ہو، جب بھی اختلاف پیدا ہو جائے تمہیں اپنا نزاعی معاملہ نپٹانے کے لیے فقط بارگاہ مصطفی ﷺ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
یہ سوچ کہ صدیاں بیت جانے کے بعد نزاعی معاملات کے حل کے لیے انہیں رسول ﷺ کی بارگاہ کی طرف نہیں بلکہ کسی اور بارگاہ کی طرف لوٹانے کی ضرورت ہے، بے بنیاد اور غارت گر ایمان سوچ ہے اگر ہماری توجہ کا مرکز و محور ایک لمحہ کے لیے بھی ذات رسالت مآب ﷺ کی بجائے کسی اور کا در بن جائے تو ہمارے ایمان کا خرمن جل کر خاکستر ہو جائے گا اور اخروی زندگی میں سوائے خسارے کے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے قیامت تک آنے والے اہلِ ایمان کو ہر مسئلے کے حل کے لیے حضور ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے کر اس امکان ہی کو سرے سے رد کر دیا۔ اس آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ آ جانے کے بعد کسی مومن مرد اور مومن عورت کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ پھر اس فیصلہ کے خلاف چیں بہ جبیں ہو اور اپنی عقل، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کچھ کہنے کی جسارت بھی کرے بلکہ حق اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم آ جانے کے بعد اس کے آگے چوں چرا کرنے کی بجائے اپنی اطاعت کی جبیں بغیر کسی تامل اور پس و پیش کے دہلیز رسالت پر خم کر دے اور کوئی دوسری بات منہ سے نہ نکالے۔
یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدے کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تو نہیں انکار کیا اور نہ ہی اس نے توحید میں شرک کیا تھا، فقط انکار تھا تو مٹی سے بنائے ہوئے آدم علیہ السلام کے پیکر کو سجدہ کرنے سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلآَّ اِبْلِيْسَ ط اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ
البقرہ، 2: 34
’’اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا۔‘‘
… فَسَجَدُوْٓا اِلاَّ اِبْلِيْسَ قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًاo
الإسراء، 17: 61
…ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے کہا: کیا اسے سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے پیدا کیا ہے؟‘‘
اس حکم عدولی کا سبب اللہ رب العزت نے ابلیس سے پوچھا:
مَا مَنَعَکَ اَلاَّ تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ۔
الأعراف، 7:12
’’(اے ابلیس!) تجھے کس (بات) نے روکا تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے (سجدہ کرنے کا) حکم دیا تھا۔‘‘
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہ پوچھا کہ ابلیس تم نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ اگر یہ سوال ہوتا تو معاملے کی نوعیت کچھ اور ہو جاتی ابلیس سے صرف یہ پوچھا گیا کہ جب میں نے حکم دیا تو تمہیں سجدہ کرنے سے کس شے نے روکا؟ اس پر ابلیس کے جواب سے اس کی ذہنیت کا پتا چلتا ہے کہ اس نے حکمِ الٰہی کے ہوتے ہوئے اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کی بنا پر انکارِ سجدہ کا سبب یہ بتایا:
اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ۔
الاعراف، 7: 12
’’میں اس سے بہتر ہوں۔‘‘
ابلیس احساسِ برتری میں مبتلا تھا اس لیے کہنے لگا باری تعالیٰ میں آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں کرتا جبکہ میں اس سے بہتر ہوں۔ شیطان کی طرف سے دی گئی اس پہلی دلیل نے ایمان اور کفر کا فرق واضح کر دیا وہ یہ کہ جہاں ایمان کی بات ہوتی ہے وہاں دلیل نہیں چلتی۔ حکم الٰہی کو نہ ماننے کی دلیلیں انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہیں۔ ایمان یہ ہے کہ عقل و خرد اور مشاہدہ کو تعمیل حکم کی دہلیز پر قربان کر دیا جائے۔ شیطان نے دوسری دلیل دیتے ہوئے کہا:
خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنَ طِيْنٍo
الاعراف، 7: 12
’’استدلال تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے مٹی سے پیدا ہےo‘‘
شیطان کا استدلال یہ تھا کہ مٹی کا کام نیچے گرنا اور آگ کا کام اُوپر اُٹھنا ہے۔ اس کی نظر میں اُوپر جانے والی شے نیچے گرنے والی شے سے بہتر تھی۔ آدم کی تخلیق مٹی سے اور شیطان کی آگ سے ہوئی اس نے اپنے مشاہدے کی بنا پر آگ کو مٹی سے لطیف اور مٹی کو کثیف شے پایا۔ اس امر کی تصدیق قرآن نے بھی کی کہ ابلیس آگ سے اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ شیطان حلقۂ جنات میں سے تھا اور قرآن نے کئی مقامات پر اس باب میں ارشاد فرمایا:
وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍo
الرحمن، 55: 15
’’اور جنّات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیاo‘‘
جب کہ خاکی نہاد انسان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا:
وَلَقَدْ خلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاءٍ مَّسْنُوْنٍo
الحجر، 15: 26
’’اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھاo‘‘
شیطان کا مشاہدہ واقعتا حقیقت پر مبنی ہونے کی وجہ سے غلط نہ تھا لیکن اس مشاہدے سے اخذ کی جانے والی دلیل غلط تھی۔ اس نے اپنی دلیل کو حکم پر ترجیح دی اور انکاری ہوگیا۔ دوسری طرف فرشتوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ ہم نور سے اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ وہ بھی دلیل دے سکتے تھے کہ جس طرح آگ مٹی سے بہتر ہے اسی طرح نور آگ سے بہتر ہے۔ یہ بات ان کے مشاہدے میں بھی تھی۔ مشاہدہ ابلیس کا اور ملائکہ کا یکساں تھا لیکن ملائکہ نے دلیل چھوڑ کر حکمِ خدا کے سامنے گردن جھکا دی جبکہ ابلیس نے حکم ماننے پر دلیل کو ترجیح دی اور یوں سردار ملائکہ اپنی دلیل کے ہاتھوں مارا گیا۔
اس ساری بحث کی روشنی میں ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم آ جائے تو دلیل کو ترک کر دیا جائے۔ اس لیے اطاعت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ اور اُس کا رسول ﷺ حکم صادر کر دیں تو پھر تمہیں اپنی رائے سے کام لینے کا حق نہیں، رائے وہاں چلتی ہے، جہاں خدا اور خدا کے رسول ﷺ خاموش ہوں۔ اس لیے فقہاء اور ائمہ نے یہ اُصول وضع کیا کہ قرآن میں کوئی واضح حکم آجائے تو پھر وہی حکم نافذ ہوگا اگر قرآن میں واضح حکم نہ ملے تو پھر سنت کا حکم واجب الاطاعت ہے، اگر قرآن و سنت دونوں میں حکم نہ ملے تو پھر اجتہاد شرعی کی صورت میں رائے کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا منصب قضا سپرد کرتے وقت تعلیماً ارشاد فرمایا تھا:
کَيْفَ تَقْضِيْ إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَاءٌ قَالَ أَقْضِيْ بِکِتَابِ اللهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي کِتَابِ اللهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَلَا فِيْ کِتَابِ اللهِ قَالَ أَجْتَهِدُرَأْیِيْ وَلَا آلُوْ فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللهِ صَدْرَهٗ وَقَالَ اَلْحَمْدُ ِللهِ الَّذِيْ وفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللهِ لِمَا یُرْضِيْ رَسُوْلَ اللهِ۔
ابوداؤد، السنن کتاب القضاء باب إجتہاد الرأي في القضائ، 3: 303، رقم: 3592
’’اگر تمہارے سامنے کوئی حل طلب مسئلہ پیش ہو تو کس طرح فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کی کتاب سے، حضور ﷺ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت سے، حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں سنت رسول میں بھی نہ ملے اور کتاب اللہ میں بھی نہ ملے تو؟ عرض کیا پھر اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھوں گا۔ حضور ﷺ نے ان کے سینے پر دست اقدس پھیرا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس سے اس کا رسول خوش ہوتا ہے۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ سے دوسری یہ حقیقت مترشح ہے کہ اولی الامر میں سے کوئی شخص منصب نبوت تک کو نہیں پہنچ سکتا اگر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کے نتیجے میں کوئی منصبِ نبوت کا اہل ہوتا تو اللہ رب العزت امت کو اختلاف کا حق کبھی عطا نہ کرتا کیونکہ شرعی اور دینی امور میں اختلاف اس امر کا غماز ہے کہ امت اور اولی الامر دونوں کی ایک ہی حیثیت ہے اس لیے کہ نبی اور امتی کے درمیان کسی بھی امر دین اور امر شریعت پر اختلاف ہو ہی نہیں ہو سکتا کہ امورِ دینیہ میں نبی کی ذات سے اختلاف کفر کے مترادف ہے اور ایسا کرنے والا اسی لمحے کافر ہو جائے گا اور قرآن کفر کی اجازت نہیں دے سکتا۔
قرآن مجید اس تصور کو یوں واضح کرتا ہے:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَامُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضٰی اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَمْرًا اَنْ يَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔
الاحزاب، 33: 36
’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo
النساء، 4: 65
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںo‘‘
جس طرح قرآن میں مذکور ہر حکمِ الٰہی قیامت تک اہل ایمان کے لیے واجب الاطاعت ہے اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کا حکم بھی قیامت تک ان کے لیے حجت ہے۔ جب قرآن فقط حکم رسالت مآب ﷺ کو قیامت تک حجت اور مفروض الاطاعت قرار دے رہا ہے توپھر کسی اور کا حکم آپ ﷺ کے بعد کس طرح حجت آ سکتا ہے؟ اگر اس طرح کے امکان کو بالفرض تسلیم کرلیا جائے تو پھر حکم محمدی ﷺ کی قطعیت باقی نہیں رہتی اور یہ نص قرآنی کے خلاف ہے، نیز اس طرح کی دوئی سے محبت میں یکتائی نہیں رہتی اور وہ تقسیم ہو جاتی ہے۔ قرآن کا منشا اس امر کا متقاضی ہے کہ ساری وفاداریاں اور محبتیں رسول اللہ ﷺ سے محبت اور وفا پر قربان کر دی جائیں کیونکہ اس باب میں حضور نبی اکرم ﷺ تو والدین سے محبت کو بھی اپنی محبت سے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے حتی کہ اولاد اور خود اپنی ذات سے محبت بھی رسول ﷺ کی محبت میں شریک نہیں ہو سکتی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس باب میں ارشاد فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔
بخاری، الصحیح، کتابُ الایمان، باب حبّ الرّسُوْل، 1: 14، رقم:15
’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ میں اسے اس کے والدین اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے جب نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا تو ایک نبی کے بعد دوسرا نبی مرجعِ محبت بن جاتا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ایک نبی کی جگہ دوسرا نبی لے لیتا، لیکن جب نبوت کا سلسلہ اپنے ارتقا کو پہنچ کر ختم ہو گیا تو ساری محبتیں، ساری وفاداریاں اور ساری اطاعتیں سمٹ کر ذاتِ مصطفی ﷺ میں جمع ہوگئیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلٰی اللهِ وَرَسُوْلِهٖ لِیَحْکُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
النور، 24: 51
’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس رسول کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے وہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔ اہل ایمان آپ ﷺ ہی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور آپ ﷺ ہی کی اطاعت گزاری میں ان کے لیے فلاح کا مژدہ ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَخْشَ اللهَ وَیَتَّقِهِ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَo
النور، 24: 52
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے پس ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں بھی اطاعت الٰہی کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو حصول مراد کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر حضور ﷺ کے بعد بھی کسی نبی کا آنا مقدر تھا تو ضرور اس کی اطاعت کو بھی شامل کیا جاتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلٰی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
النور، 24: 54
’’فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (ﷺ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (ﷺ) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ افراد امت آپ ﷺ کی اطاعت کرتے رہیں گے اور ہدایت پاتے رہیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوْا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوةَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
النور، 24: 56
’’اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (ﷺ) کی (مکمل) اطاعت بجا لاؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)o‘‘
مذکورہ بالا آیات میں اطاعتِ رسول کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے اور ان دونوں اطاعتوں میں تفریق اور انقطاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جملہ انبیاء علیہم السلام میں صرف حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں جن کی اطاعت قیامت تک مطلقاً واجب قرار دی گئی۔ مذکورہ بالاآیات میں صیغۂ امر سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت کے وجوب کا ذکر ہے۔ ان آیاتِ بینات کی رو سے ان دونوں اطاعتوں کا وجوب دائمی ہے۔ ان دونوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو جاری رہے اور مصطفی ﷺ کی اطاعت منقطع ہو جائے، اب قیامت تک اطاعتِ الٰہی کے ساتھ صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی جائے گی۔ درمیان میں کوئی اور مطاع نہیں ہو سکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
النساء، 4: 69
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں صاف طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ صرف اطاعت مصطفی ﷺ اللہ کے انعا م یافتہ بندوں میں شمولیت کے لیے کافی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ ط اِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
التوبۃ، 9: 71
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں رسول کی اطاعت سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہی کی اطاعت ہے۔ اسی اطاعت کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم و کرم فرماتا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًاo
الاحزاب، 33: 71
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہواo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الاَ نْھٰرُ ج وَمَنْ يَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِيْمًاo
الفتح، 48: 17
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے گا وہ اسے بہشتوں میں داخل فرما دے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی، اور جو شخص (اطاعت سے) منہ پھیرے گا وہ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کر دے گاo‘‘
یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَيِّنُ لَکُمْ کَثِيْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ ط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّھْدِيْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَیَھْدِيْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo
المائدۃ، 5: 15، 16
’’اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o اللہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہےo‘‘
وَاکْتُبْ لَنَا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَآ اِلَيْکَ ط قَالَ عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ ج وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ ط فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰیٰـتِنَا یُؤْمِنُوْنَo الَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْھِمْ۔
الأعراف، 7: 156، 157
’’اور تو ہمارے لیے اس دنیا (کی زندگی) میں (بھی) بھلائی لکھ دے اور آخرت میں (بھی) بیشک ہم تیری طرف تائب و راغب ہوچکے، ارشاد ہوا: میں اپنا عذاب جسے چاہتا ہوں اسے پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس(رحمت) کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا نِ الَّذِيْ لَهٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِيْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَکَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo
الأعراف، 7: 158
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکوo‘‘
اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ ج فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ کَرِيْمٍo
یٰس، 36: 11
’’آپ تو صرف اسی شخص کو ڈر سناتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور خدائے رحمن سے بن دیکھے ڈرتا ہے، سو آپ اسے بخشِش اور بڑی عزت والے اَجر کی خوشخبری سنا دیںo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَo
الأنفال، 8: 64
’’اے نبی (معّظم!) آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لیo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِيْبُوْا ِللهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِيْکُمْ ج وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللهَ یَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْء وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَo
الأنفال، 8: 24
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گےo‘‘
مذکورہ بالا ارشادات ربّانی میں اتباع و اطاعت رسول ﷺ کے حوالے سے اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ دنیوی و اخروی نجات کا دارومدار حضور نبی اکرم ﷺ کی غیر مشروط غلامی اور فرماں برداری پر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات نہ صرف مطاعِ مطلق ہے بلکہ مدار نجات بھی فقط آپ ﷺ ہی کی اطاعت و اتباع ہے۔ دنیوی و اخروی فوزو فلاح اور کامیابی کا انحصار صرف آپ ﷺ کی غلامی اور آپ ﷺ کی ذات سے کامل وابستگی ہے۔ جو آپ ﷺ کے در کا گدا ہے وہی زمانے کا تاجدار ہے۔ بارگاهِ الٰہی سے رحم وکرم اور مغفرت و بخشش کی خیرات آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے نصیب ہوتی ہے۔ بندہ انعام یافتہ ہوکر انبیا ئ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے زمرۂ لایحزنون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اطاعت و اتباع مصطفی ﷺ دوزخ سے نجات کا پروانہ اور جنت میں داخلے کا ٹکٹ ہے۔ روز قیامتِ میدان محشرمیں بھی آپ ﷺ ہی کی شفاعت نجات کا ذریعہ بنے گی اور آپ ﷺ کہیں بھی اپنی گنہگار امت کو فراموش نہیں فرمائیں گے۔ معلوم ہوا کہ نجات کے لیے انبیائے سابقین پر ایمان کے ساتھ اطاعت و اتباع رسول ﷺ ہی لازمی و لابدی اور کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صلے میں مغفرت و بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگراس امت میں حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی ظلی یا بروزی بھی آنا ہوتا تو ضروری تھاکہ نجات کے لیے ا س کی اطاعت کو شرط ٹھہرایا جاتا۔ قرآن حکیم نے مدار نجات چونکہ صرف اطاعت واتباعِ مصطفی ﷺ کو قرار دیا ہے لهٰذا آپ ﷺ کے بعد کسی ظلی و بروزی نبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
النساء، 4: 69
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ کی تاویل کرتے ہوئے قادیانی اس میں مذکور چار درجات کا ذکر اس حوالے سے کرتے ہیں کہ اگر کوئی انسان اطاعت کاملہ کے نتیجہ میں صدیق، شہید اور صالح بن سکتا ہے تو اس کے نبی بننے میں کیا چیز مانع ہے، وہ نبی کیوں نہیں بن سکتا؟ ان کے بقول تین درجات کے اجراء کو ماننا اور ایک کو نہ ماننا تحریف معنوی کے مترادف ہے۔
اس شبہ کا ازالہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں نبوت یا کوئی اور درجہ ملنے کا توسرے سے ذکر ہی نہیںکہ کوئی انسان فلاں درجے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں تو محض اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے بندوں کے لئے چار قسم کے انعام یافتہ بندوں کی معیت و رفاقت کا ذکر ہے۔ مزید برآں آیت میں معیت سے مراد آخرت کی معیت اور سنگت ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کے اطاعت گزاروں کو نصیب ہو گی۔ دنیا میں انعام یافتہ بندوں کی سنگت ہر مومن کے لئے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس آیت کی یہی تفسیر امام جلال الدین سیوطیؒ نے جلالین میں، امام رازیؒ نے ’التفسیر الکبیر‘ میں اور بہت سے دیگر مفسرین نے کی ہے۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی زیارت کے متمنی رہتے تھے اور زیادہ دیر جدائی پر صبر نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اس حالت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے، وجہ دریافت فرمائی تو عرض کرنے لگے: میں اگر آپ کی زیارت کروں تو طبیعت میں شوقِ ملاقات کی وجہ سے اضطراب اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اخروی زندگی میں آپ جنت کے اعلیٰ درجے میں انبیاء کے ساتھ ہوں گے، وہاں ہم غلام آپ کی زیارت سے کیسے شاد کام ہو سکیں گے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ جنت میں وہ سب گروہ جن کا تذکرہ اس آیت میں کیا گیا ہے ایک ساتھ ہوں گے۔ یہ خوش نصیب اللہ اور رسول ﷺ کے اطاعت گزار انعام یافتہ بندے ہوں گے۔ اس میں معیت کا ذکر ہے، نبوت کا تو کوئی ذکر ہی نہیں جیسا کہ قادیانی دور کی کوڑی لاکر اطاعت کے صلے میں کسی انسان کا نبوت کے درجے تک رسائی پانے کا معنی نکالتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر صحابہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے رنگ میں یہ درجہ کمال لئے ہوئے تھے تو ان میں سے کوئی نبی کیوں نہ بنا؟ وہ اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ نبوت کسبی نہیں وہبی طور پر ملتی ہے قادیانیوں کا مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ مرزا صاحب کو نبوت اطاعت و اتباعِ رسول سے نہیں وہبی طور پر ملی ہے۔ خود مرزا صاحب کی یہ تحریر اس امر کی شہادت دیتی ہے۔
1۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی چیز ہے کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشرٰی، مندرجہ روحانی خزائن، 7: 301
2۔ ’’صراط الّذین أنعمت علیہم اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر۔‘‘
چشمہ مسیحی، 20: 365
نبوت وہبی شے ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہا منتخب فرما یا اور سب سے آخرپر ختمِ نبوت کا تاج ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے سر پر سجایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبيَّنَ لَهُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِهٖ جَھَنَّمَ ط وَسَاءَتْ مَصِيْرًاo
النساء، 4: 115
’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo‘‘
قُلْ اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلٰی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
النور، 24: 54
’’فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (ﷺ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (ﷺ) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَوْ یُطِيْعُکُمْ فِيْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ۔
الحجرات، 49: 7
’’اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے۔‘‘
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰـلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَاo
الاحزاب، 33: 66
’’جِس دن ان کے مُنہ آتشِ دوزخ میں (بار بار) الٹائے جائیں گے (تو) وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی ہوتیo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَطِيْعُوْا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِيْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَo
الأنفال، 8: 46
’’اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنیوالوں کے ساتھ ہےo‘‘
مذکورہ بالاآیات کریمہ میں مطاعِ مطلق حضور نبی اکرم ﷺ کی مخالفت اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی کرنے والے کو کڑی وعید سنائی گئی ہے۔ قرآن حکیم نے امت پر واضح فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کی حکم عدولی کرنے والے اور آپ ﷺ کی راہ ہدایت کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرنے والے کا ٹھکانا دوذخ ہے۔ جس طرح اطاعت و اتباعِ مصطفی ﷺ اور جنت کے درمیان کسی اور کی اطاعت شرط نہیں اسی طرح آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی پر دوزخ کے عذاب سے کوئی کذّاب نبی نہیں بچا سکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
آل عمران، 3: 31
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo‘‘
اس آیۂ کریمہ میں سرکار دوجہاں ﷺ کی اتباع کو محبتِ الٰہی کا زینہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت و پیروی سے اپنی محبت کو مشروط کر دیا۔ مذکورہ بالا ارشاد خداوندی کا روئے خطاب حضور نبی اکرم ﷺ کی معرفت عہد نبوی ﷺ کے مسلمانوں ہی سے نہیں ہماری طرف بھی ہے اور ہمارے بعد آئندہ آنے والی نسلوں کی طرف بھی۔ گویا فرمانِ خداوندی کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ سے محبت اور دوستی کرنا چاہتے ہو تو آؤ میری غلامی اختیار کر لو۔ وہ حکم جو کل صحابہ کرام کے لیے تھا اس کا اطلاق آج ہم پر بھی ہوتا ہے، جب تک حضور نبی اکرم ﷺ کی غلامی و اتباع کرنے والے رہیں گے تب تک حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اور آپ ﷺ کی اتباع و اطاعت کا حکم باقی رہے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔
الاحزاب، 33: 21
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو تمام افرادِ امت کے لیے اسوئہ حسنہ یعنی بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے وصال فرما جانے کے بعد بھی صاحبانِ حال اہل نظر یوں محسوس کرتے ہیں جیسے خود رسول اللہ ﷺ کی ذات ان کے درمیان موجود ہے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حاضر و ناظر رسول ﷺ ہم میں موجود ہے تو پھر کسی نئے نبی کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟
حضور ﷺ کی ختمِ نبوت کی بنیاد آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع پر ہے کہ اس کے بغیر اطاعتِ الٰہی کا تصور بھی ممکن نہیں اور یہ حکم قیامت تک دائماً قائم رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ اور سیرت کی پیروی کے بغیر اطاعت و اتباع متحقق نہیں ہو سکتی اور ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور غلامی کا دم بھرنے والے آپ ﷺ کی سیرت اور اسوہ حسنہ کے رنگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو رنگ لیں۔ لیکن کسی شخصیت کی سیرت اور اسوہ ہمیشہ کے لیے تبھی لائق اتباع و اطاعت ہو سکتا ہے جب اس کی سیرت کی تفصیلات بتمام و کمال میسر ہوں اگر بالفرض محال یہ ریکارڈ محفوظ نہ رہے اور لوگ یہ نہ جان سکیں کہ آقائے دوجہاں ﷺ کس طرح کھاتے پیتے تھے؟ کس طرح پہنتے تھے؟ کس طرح سوتے اور جاگتے تھے؟ کس طرح گفتگو فرماتے تھے تو کیا آپ ﷺ کی اطاعت کے خواست گار امتی ایسا کر سکیں گے؟ فَاتَّبِعُوْنِيْ اور اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ پر عمل ہو سکے گا؟ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل اسی صورت میں ممکن ہے جب سیرت کا سارا ریکارڈ من و عن محفوظ و موجود ہو اور جس طرح صحابہ عہدِ رسالت مآب ﷺ میں آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے آئینے میں جھانک کر تعلیمات حاصل کرتے تھے، ہم بھی سیرت رسول ﷺ کے تحریری سرمائے میں محفوظ تعلیمات سے استفادہ کرسکیں۔
پہلی امتوں کو بھی اپنے اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ۔
النساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہے کہ ہر نبی کی امت اپنے نبی کی سیرت کا جیتا جاگتا نمونہ اپنے سامنے موجود پاتی تھی تبھی تو وہ اس قابل ہوتی تھی کہ اپنے نبی کی پیروی کر سکے۔ جب تک اس امت کے پاس اپنے نبی کی سیرت محفوظ رہی اس وقت تک وہ واجب الاطاعت تھی مگر جب گردشِ لیل و نہار سے اس کی سیرت کے نقوش ماند پڑ گئے اور کوئی دوسرا نبی اپنی سیرت کے خدوخال پیروی کے لیے لے کر آگیا تو اب اس کی اطاعت لازمی ہو گئی۔ چونکہ سابقہ انبیاء کی تعلیماتی سیرت کچھ عرصہ بعد اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہی اس لیے وہ ان کے لیے لائقِ اطاعت و اتباع نہیں۔
آج دنیا میں کوئی مذہب اپنے انبیاء کے مکمل سیرتی ریکارڈ کے محفوظ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب کے پیروکار اب بھی موجود ہیں مثلاً کرشن مہاراج، مہاتما بدھ، مہاویر سوامی اور زرتشت کو ماننے والے دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں پائے جاتے ہیں۔ یہی حال حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے نام لیواؤں کا ہے مگر کیا ان میں کوئی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہمارے رہنما اور نبی کی سیرت کا ریکارڈ اپنی اصل حالت میں ان کے پاس موجود ہے۔ زیادہ دور مت جایئے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے کوئی پونے چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا مگر ان کے پیروکاروں میں جو عیسائی کہلاتے ہیں کوئی وثوق سے یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ان پر اتری ہوئی بائبل (انجیل) اصل حالت میں محفوظ ہے۔ اسی طرح دیگر کتب مقدسہ میں کوئی تحریف سے پاک نہیں۔ عیسائی سکالرز کو اس امر کا اعتراف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے صرف تین سالوں کا ریکارڈ موجود ہے بلکہ جدید تحقیق کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور سوانح کا جو ریکارڈ اب تک دستیاب ہوا ہے وہ ان کی حیات مبارکہ کے پچاس دنوں سے زیادہ کا نہیں۔ ان کے باقی حالات زندگی گمنامی کے دبیز پردوں میں گم ہوکر رہ گئے۔
جب یہ سب سے قریب ترین برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ریکارڈ کا حال ہے کہ ان کے نام لیواؤں کے پاس اپنے نبی کے دو ماہ کی سیرت کا ریکارڈ بھی محفوظ نہیں تو سابقہ انبیاء کے بارے میں ہمارا علم بالکل محدود ہے اس کے برعکس نبی آخر الزماں ﷺ کی سیرت مقدسہ کی حفاظت کا یہ عالم ہے کہ حیات مبارکہ کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جس کا ریکارڈ بتمام و کمال کتب تاریخ و سیر میں موجود نہ ہو۔
تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں حضور سرورِ کائنات ﷺ کی حیات طیبہ کا ہر ایک گوشہ آپ ﷺ کے سیرت نگاروں نے کمال دیانت و ضمانت اور حزم و احتیاط سے اپنی جزئیات سمیت محفوظ کر لیا، اب ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کب پیدا ہوئے؟ بچپن کیسے گزرا؟ جوانی کیسے گزری؟ کتنے سفر کیے؟ کس قسم اور رنگ کا لباس پہنتے تھے؟ دستار کیسے پہنتے تھے؟ اس کے شملے کیسے چھوڑتے؟ دستار کا رنگ کیا تھا؟ آقائے دوجہاں ﷺ جوتا مبارک کیسے پہنتے؟ اس کے تسمے کیسے ہوتے؟ وہ کس شے کے بنے ہوتے تھے؟ آقائے دوجہاں ﷺ سرمہ کیسے لگاتے تھے؟ کتنی مرتبہ آنکھ میں سلائی کھینچتے؟ سوتے کس طرح تھے؟ کس کروٹ پر سوتے؟ مسکراتے کس طرح تھے؟ ہونٹ کتنے کھلتے؟ دانت مبارک کتنے نظر آتے؟ بازو اٹھاتے تو باہیں کتنی نظر آتیں؟ چلتے تو کس طرح قدم اٹھاتے؟ تاریخ و سیر میں یہاں تک درج ہے کہ حضور ﷺ گفتگو کس قدر اعتماد سے فرماتے تھے؟ گفتگو کے وقت دانت کتنے کھلتے؟ آپ ﷺ اپنی گفتگو میں گنے چنے الفاظ کس رفتار سے بولتے؟کس طرح سمجھاتے؟ بات کے دوران میں ہاتھ مبارک کس طرح ہلاتے؟ حضور نبی اکرم ﷺ کا جسم مبارک اور سینہ مبارک کیسا تھا؟ سکوت کس طرح فرماتے؟ سفر و حضر کیسا تھا؟ کھاتے کیا تھے، پیتے کیا تھے، غذائیں کیا کیا تھیں؟ برتن کیا کیا تھے؟ کس چیز کو پسند فرماتے؟ سفر میں جاتے تو کس سواری پر سفر کرتے؟ کس کو ساتھ لے کر جاتے؟ آپ ﷺ کے متعلق یہ تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ آپ ﷺ ناخن کیسے ترشواتے تھے؟ کس انگلی سے ابتداء فرماتے اور کس پر جا کر ختم کرتے؟ دنیا کا کون سا ایسا فرد ہے جس کے ناخن کاٹنے تک کا طریقہ سیرت نگاروں نے محفوظ کر لیا ہو؟ سفر و حضر کا ایک ایک لمحہ جس سے عام طور پر صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے وہ بھی سیرت کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ آقائے دوجہاں ﷺ کے شب و روز کے معمولات، عادات اور شمائل و خصائل سے کتب حدیث اورسیرت و فضائل بھری ہوئی ہیں۔
آج دنیا کی کسی شخصیت کا نبی ہو یا غیر نبی، سوانحی ریکارڈ ایک تاریخی دستاویز کی صورت میں جزئیات سے لے کر کلیات تک دستیاب نہیں۔ عہد نبوی ﷺ میں ایسا کوئی رواج ہی نہ تھا۔ کسی اور کی اس قدر باریک بینی سے تفصیلات تاریخ کے سینے میں محفوظ اور جمع نہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس وقت آج کی طرح ادارے، لائبریریاں، یونیورسٹیاں اور تحقیق و تدوین کے شعبے بھی موجود نہ تھے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو مکہ کی پوری آبادی میں دس آدمی بھی پڑھے لکھے موجود نہ تھے پھر مدینہ طیبہ کی زندگی میں غزوات، مصائب و آلام، تکالیف و مشکلات سفر و حضر کا ایک طویل نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ تحقیقی اداروں، مرتبین اور مدوّنین کی کاوشوں کے بغیر اتنا عظیم
ریکارڈ کیسے محفوظ ہو گیا؟ یہ ایک سربستہ راز ہے جس کی توجیہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ اتنی مبسوط سیرت کے اس تاریخی دستاویز کے تیار کرنے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ہاتھ کارفرما تھا جس کا منشاء تھا کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ قیامت کے لیے قابل تقلید نمونہ کمال کے طور پر آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے تاکہ قیامت تک کے ہر انسان کے لیے اس ذاتِ مقدّسہ کی سیرت پر عمل کرنا ممکن ہو سکے اور ہر فردِ بشر حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں آپ ﷺ کی اطاعت اور اتباع کو اپنا شعار بنا سکے۔ یہ صرف اس صورت ممکن تھا کہ آپ ﷺ پر نبوت ختم کر دی جائے چنانچہ یہ سارا کچھ مشیتِ الٰہی کا منصوبہ تھا جس کی تکمیل کے ذریعے آپ ﷺ کو نبوت و رسالت، اسوہ و سیرت کے حوالے سے کائنات کی دائمی و ابدی اور حتمی و قطعی شخصیت بنا دیا گیا تاکہ ہر دور میں، ہر زمانے کے لوگ اس کی پیروی اور اتباع کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں آقا ﷺ کی سیرت کا ہر ہر گوشہ امت کے لیے محفوظ کر دیا گیا یہ سب کچھ ختم نبوت کی برکت سے ممکن ہوا اور اس کے صدقے امت کو یہ سرمایہ سعادت نصیب ہوا، اس لیے عقیدہ ختم نبوت کے لیے امت کا حساس ہونا اور اس کی حفاظت کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہ کرنا ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءوْفٌ رَّحِيْمٌo
التوبۃ، 9: 128
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
71۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهٰتُهُمْ۔
الأحزاب، 33:6
’’یہ نبیِ (مکرّم ﷺ ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔‘‘
اوپر درج کردہ آیات میں امت اور حضور ﷺ کے درمیان کارفرما خصوصی ربط اور تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت کے ساتھ اس قدر گہرا تعلق قائم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیھم السّلام میں سے کسی نبی کا انپی امت کے ساتھ ایسا گہرا تعلق نہ تھا۔ آیاتِ مذکورہ میں آپ ﷺ کے اسی تعلّق بالأمّۃ کو بیان کیا گیا ہے۔
اول الذکر آیت کریمہ میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں:
1۔ امتی کا دکھ اور پریشانی قلب مصطفوی ﷺ پر ناگوار اور گراں گزرتی ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی امت کے لیے بھلائی اور رحمت و خیر کی فراوانی کے طلب گار اور حریص ہیں۔
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ اہلِ ایمان پر نہایت شفقت فرمانے والے اور مہربان ہیں۔
مؤخر الذّکر آیتِ کریمہ کی توضیح میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ اَلنِبِيَّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الإستقراض و أداء الدّیون، باب الصلاۃ علی من ترک دینا، 2: 845، رقم: 2269
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں دنیا و آخرت میں ہر صاحب ایمان کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘
صحیح مسلم کی روایت ہے:
أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ۔
مسلم، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصّلاۃ والخطبۃ، 1: 592، رقم: 867
’’میں ہر مومن کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جو شخص مومن ہے اسے دنیا وآخرت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی قربت نصیب ہو گی۔ اب کوئی بدنصیب شخص ہی ہو سکتا ہے جو قربتِ مصطفوی ﷺ سے بیگانہ ہو کر کسی خودساختہ اور کذّاب مدعی نبوت سے ایسا قریبی تعلق استوار کرنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کو مومنین کی مائیں قرار دیا۔ چنانچہ اسی تصور کو مزید واضح کرتے ہوئے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَهٗ مِنْ م بَعْدِهٖٓ اَبَدًا۔
الاحزاب، 33: 53
’’اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی ازواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنے سے اس لیے منع فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کا تعلق اپنے امتیوں کے ساتھ بعد از وصال بھی اسی طرح ہے جس طرح ظاہری حیات میں تھا جبکہ غیر نبی کے فوت ہو جانے سے وہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے، ان کی بیویاں بیوہ ہو جاتی ہیں اور ان سے نکاح جائز ہوتا ہے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا تعلق اپنی امت سے منقطع نہیں ہوا بلکہ قائم و دائم ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا تو پھر کون ایسا بدبخت اور بدنصیب شخص ہو سکتا ہے جو درِ مصطفی ﷺ کو چھوڑ کر کسی اور در کا بھکاری بنے، جو دہلیزِ مصطفی ﷺ سے تعلق توڑ کر خودساختہ نبوت کا تانا بانا بننے والے کذّاب اور دجال شخص کے دام فریب میں پھنس کر اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر بیٹھے اور عذاب قبرکو دعوت دے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہو جائے۔
جب حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے غلاموں کے ساتھ اتنا گہراتعلق آج بھی قائم ہے تو پھر حضور ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَيْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَيْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَفِيْکُمْ رَسُوْلُهٗ۔
آل عمران، 3: 101
’’اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول (ﷺ) موجود ہیں۔‘‘
73۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ۔
الانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں پیغمبر آخر و اعظم ﷺ کی امت کے اندر دائمی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح حیات ظاہری میں صحابہ کے درمیان موجود تھے اسی طرح قرآن کی نص کے مطابق آپ ﷺ ہر دور میں امت کے لیے راحتِ جاں اور طمانیت قلب کا باعث ہیں کیونکہ قرآن کا یہ مژدئہ جانفزا فقط صحابہ کرام کے لیے ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام انسانیت کے لیے ہے۔ حضور ختمی مرتبت ﷺ کا وجود مسعود آج بھی بدستور امت کے لیے مشکلات و مصائب کے چلتے ہوئے تیروں کی یلغار میں ڈھال کا کام دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ آج بھی امت کے اندر موجود ہیں مگر فرق صرف یہ ہے کہ چہرۂ مصطفی ﷺ کو دیکھنے والی ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ و حیدر رضی اللہ عنہ کی نظر کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ورنہ ظاہری حیات میں ابوجہل اور ابولہب بھی آپ ﷺ کو دیکھتے تھے مگر دیکھنے کے باوجود ان کو نظر نہیں آتا تھا مگر مقامِ معرفت و مشاہدہ پر فائز دل بینا رکھنے والے آج بھی چہرۂ زیبائے مصطفی ﷺ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جن کے قلوب نورِ معرفت سے روشن ہیں، وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے کرم اور رحمت کی بارشیں آج بھی امت پر برستی دیکھ رہے ہیں مگر وہ کور چشم جن کے دلوں پر کفر و ارتداد اور ضلالت و گمراہی مسلط ہے ان کو کچھ نظر نہیں آتا اس لیے انہوں نے سمجھا کہ شاید آقا موجود نہیں ہیں۔ ان بدنصیبوں کو پتا نہیں کہ اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو جلوہ جاناں آج بھی بے نقاب ہے یہ ان کی نظر کا قصور ہے جو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشہ دیکھے
دیدئہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ط کُلَّمَا جَآء اُمَّةً رَّسُوْلُھَا کَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَھُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنَاھُمْ اَحَادِيْثَ ج فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَo
المومنون، 23: 44
’’پھر ہم نے پے در پے اپنے رسولوں کو بھیجا۔ جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا وہ اسے جھٹلا دیتے تو ہم (بھی) ان میں سے بعض کو بعض کے پیچھے (ہلاک در ہلاک) کرتے چلے گئے اور ہم نے انہیں داستانیں بنا ڈالا، پس ہلاکت ہو ان لوگوں کے لیے جو ایمان نہیں لاتےo‘‘
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی قوموں میں انبیاء علہیم السلام آتے تو ان کی تکذیب کی وجہ سے جو لوگوں کا وتیرہ بن چکی تھی قلیل تعداد میں لوگ ایمان لے آتے۔ جب ایک نبی چلا جاتا تو پھر دوسرا نبی آتا۔ اس طرح انبیاء کے یکے بعد دیگرے آنے کا سبب یہ تھا کہ ان قوموں کو پیغام توحید سنانے کی مسلسل ضرورت رہتی تھی مگر حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ ایمان لائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں بتدریج معتدبہ اضافہ ہوتا رہا اور قرائن بتاتے ہیں کہ یہ اضافہ قیامت تک مزید ہوتا رہے گا۔ پیغام توحید اور نور قرآن کی بنا پر دُنیا سے کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کا خاتمہ ہوتا رہے گا۔ چونکہ انبیاء علیھم السّلام کے آنے کا مقصد حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ساتھ پورا ہو چکا ہے اور پوری دنیا میں مسلمان کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَھِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًاo
النساء، 4: 41
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘
متذکرہ بالا آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی منفرد اور بے مثال شان کا ذکر کیا گیا ہے جو پہلے گزرنے والی امتوں پر شاہد ہونے سے متعلق ہے۔ ہر نبی اپنی امت کے اعمالِ نیک و بد کے لیے شاہد بنایا گیا ہے۔ سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَo
النحل، 16: 84
’’اور جس دن ہم ہر اُمت سے (اس کے رسول کو اس کے اعمال پر) گواہ بنا کر اٹھائیں گے پھر کافر لوگوں کو (کوئی عذر پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ (اس وقت) ان سے توبہ و رجوع کا مطالبہ کیا جائے گاo‘‘
حضور ﷺ کو جملہ انبیاء کی امتوں پر شاہد اور گواہ بنایا گیا۔ قیامت کے دن ہر امت سے پوچھا جائے گا کہ تمیں پیغام توحید پہنچا تھا کہ نہیں؟ بعض منکرینِ توحید عذاب کے ڈر سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ انہیں کوئی دعوت توحید دینے نہیں آیا، پھر ہر امت کے نبی کو لایا جائے گا اور وہ نبی گواہی دے گا کہ ہم نے پیغامِ توحید ان تک پہنچا دیا تھا اور یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جب سارے نبی گواہ بن کر آئیں گے، رب العالمین کی عدالت میں پوچھا جائے گا، ان سب پر گواہ کون ہے؟ پھر حضور اکرم ﷺ اٹھیں گے اور ان سب پر گواہی دیں گے۔ دوسرے نبیوں کی گواہی فقط اپنی امتوں تک محدود ہوگی مگر آپ ﷺ کی گواہی عالمگیر اور ان سب پر ہو گی جب اس کائنات ارضی میں عالمگیر گواہ تشریف لا چکے ہیں تو اب کسی اور کی گواہی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
ان آیات بینات سے درج ذیل دو نکات بطورِ خاص مستنبط ہوئے:
1۔ قیامت کے دن ہر امت کے لیے صرف ایک ہی نبی گواہ ہو گا اور ان سب انبیاء علیہم السّلام پر حضور نبی اکرم ﷺ گواہ ہوں گے۔ اب اگر حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں سے کوئی اور بھی دعویٰ نبوت کرے تو اس کا مطلب لامحالہ یہ نکلے گا کہ اس نبی کو بھی گواہ ماننا پڑے گا جو منشائے قرآنی کے سراسر خلاف ہے کیونکہ قرآن کی نص سے ہر امت میں صرف ایک نبی کا گواہ ہونا ثابت ہے اور دو گواہ نہیں ہو سکتے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ ایسی عظیم اور عالمگیر گواہی والے پیغمبر کے آنے کے بعد اب کسی اور کا دعویٰ نبوت کرنا سراسر کذب، دجل و فریب اور اس کے ماننے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
2۔ اگر امت مسلمہ میں کسی اور نبی کا آنا مقصود ہوتا تو یقینا قیامت کے دن اس امت پر کسی دوسرے گواہ اور نبی کا ہونا قرآن میں مذکور ہوتا لیکن پورے قرآن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور گواہ کا ذکر نہیں، تو اس سے ثابت ہوا کہ امت مسلمہ کا ایک ہی نبی ہے جو سب انبیاء علیہم السلام کے آخر میں تشریف لایا اور جس کے بعد کسی نبی کی گنجائش نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo
النساء، 4: 64
’’اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
اس آیت مقدسہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے گنہگاروں کو یہ مژدۂ جانفزا سنایا گیا ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں۔ ان کی نجات اور مغفرت کا وسیلہ رسولِ محتشم ﷺ کی ذات ہے جس کی وساطت سے اگر توبہ کی جائے تو اللہ اسے ضرور قبول فرمائے گا۔ اس حوالے سے ایک ایمان افروز روایت کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہو گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد عرب کے دور دراز علاقے میں رہنے والے ایک دیہاتی کے کانوں تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پہنچا کہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں چلے جاؤ تو سب گناہ دھل جاتے ہیں تو وہ شہر مدینہ کی طرف دوڑا، اس خیال سے کہ حضور ﷺ حیات ہوں گے اور میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور اللہ رب العزت سے معافی مانگوں گا اور آپ ﷺ سے درخواست کروں گا کہ میری شفاعت فرمادیں لیکن جب وہ مدینہ پہنچا تو لوگوں نے اس کو بتایا کہ حضور ﷺ وصال فرما چکے ہیں۔ اس نے کہا مجھے آپ ﷺ کا مزار اقدس دکھا دو۔ لوگ اسے آپ ﷺ کی قبر انور پر لے گئے۔ آگے کا واقعہ امام ابن کثیر عتبی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی ایک جماعت جن میں شیخ ابو منصور الصباغ بھی شامل ہیں، انہوں نے عتبی سے روایت کیا ہے، عتبی کہتے ہیں:
کنت جالسًا عند قبر النّبیّ ﷺ، فجاء أعرابیّ، فقال: السّلام علیک یا رسول اللہ! سمعت اللہ یقول: {وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo}، وقد جئتک مستغفرًا لذنبي مستشفعًا بک إلی ربّي۔ ثم انصرف الأعرابي، فغلبتني عیني، فرأیت النّبيّ ﷺ في النّوم، فقال: یا عتبي! الحق الأعرابیّ، فبشّرهُ أن اللہ قد غفر لهُ۔
ابن کثیر، تفسیرالقران العظیم، 1: 520
’’میں حضور نبی اکرم ﷺ کے مزار اقدس کے قریب بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور السّلام علیک یا رسول اللہ (ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے بعد) کہنے لگا: اللہ کا یہ ارشاد {اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo} سن کر یا رسول اللہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا تھا کہ اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگوں اور آپ سے درخواست کروں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میری شفاعت فرما دیں۔ (میری بدقسمتی کہ میرے پہنچنے سے پہلے آپ وصال فرما گئے اب میں مایوسی کی حالت میں واپس جا رہا ہوں۔ ) یہ کہہ کر وہ چل دیا کہ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی اور میں نے حالتِ خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عتبی! (میرے عاشق اُٹھ) اس دیہاتی (میرے گنہگار امتی) کو خوش خبری دے (کہ اس کا آنا قبول کر لیا گیا ہے اور) اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی ہے۔‘‘
علامہ قرطبی نے ایک واقعہ سیدنا حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا:
قدم علینا أعرابي بعد ما دفنّا رسول اللہ ﷺ بثلاثۃ أیام فرمی بنفسہ علی قبر رسول اللہ ﷺ وحثا علی رأسہ من ترابہ۔ فقال: قلت: یا رسول اللہ! فسمعنا قولک، ووعیتَ عن اللہ فوعینا عنک، وکان فیما أنزل اللہ علیک، {وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ}، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتک تستغفرلي۔ فنودي من القبر أنہ قد غفرلک۔
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 3، جزو 5: 265، 266
’’حضور ﷺ کے وصال مبارک کے تین بعد ایک دیہاتی ہمارے پاس آیا وہ آتے ہی حضور ﷺ کے مزارِ اقدس پر گر پڑا اور آپ ﷺ کی تربت مبارکہ کی مٹی اپنے سر میں ڈالنا شروع ہو گیا اور (رو رو کر) عرض کرنے لگا یا رسول اللہ! ہم نے سنا جو آپ نے فرمایا اور جو آپ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے سیکھا ہم نے وہ آپ سے سیکھا یا رسول اللہ! جو قرآن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا اس میں یہ آیت مبارکہ ہے {اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے …}۔ اے میرے آقا! میں نے اپنے آپ پر بڑے ظلم کیے، اب میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ میری بخشش و مغفرت کی دعا کیجئے اور میری شفاعت فرمائیے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) حضور ﷺ کی قبر انور سے آواز آئی: (اے میرے گنہگار اور دکھی دل امتی! خوش ہو جا) تجھے بخش دیا گیا ہے۔‘‘
اس روایت سے یہ بات اَلَمْ نَشْرَح ہو گئی کہ حضور نبی اکرم کے وصال مبارک سے آپ ﷺ کی نبوت اور اس کے فیوضات ختم نہیں ہوئے۔ آپ ﷺ آج بھی اپنی امت کے گنہگاروں کی شفاعت فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ کی نبوت آج بھی جاری و ساری ہے اور قیامت تک رہے گی بلکہ قیامت کے بعد جنت میں بھی اسی طرح جاری رہے گی۔ آپ جس نبوت کا زمانہ آخرت تک محیط اور جنت تک پھیلا ہوا ہو وہ نبوت بھلا کس طرح ختم ہو سکتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰٓی عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللهَ شَیئًا ط وَسَیَجْزِیَ اللهُ الشّٰکِرِيْنo
آل عمران، 3: 144
’’اور محمد (ﷺ بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پائوں پھر جائو گے؟ (یعنی کیا ان کی وفات یا شہادت کو معاذ اللہ دین اسلام کے حق نہ ہونے پر یا ان کے سچے رسول نہ ہونے پر محمول کرو گے)، اور جو کوئی اپنے الٹے پائوں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گاo‘‘
یہ آیت کریمہ وصال کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کے غیر منقطع ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ بعد از وصال بھی امت کے نبی ہیں۔ آپ ﷺ کی وفات سے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت منقطع نہیں ہوئی۔ امت پر آپ ﷺ کی اطاعت واتباع تا قیامت اسی طرح واجب ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیات ظاہری میں واجب تھی۔ اب قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت کا سکہ چلے گا اور آپ ﷺ کے دین، اسلام ہی کی پیروی ہو گی۔ نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کسی نئے دین یا شریعت کی پیروی کی ہوگی۔ اگر کوئی راهِ ہدایت سے منحر ف ہو جائے اور دین حق سے پھر جائے تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔
آل عمران، 3: 104
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں بین السطور یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد دعوت و تبلیغ دین کی ذمہ داریاں افرادِ امت کو سونپ دی گئی ہیں۔ اب اس میں سے ایک مخصوص جماعت وہی فریضہ سرانجام دے گی جو حینِ حیات حضور ﷺ کے ذمے تھا۔ فریضہ تبلیغ جو حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیاء کرام سرانجام دیتے تھے، سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد اب آپ ﷺ کی امت کو سونپ دیا گیا جبکہ اس سے قبل صاحبِ شریعت نبی کے رخصت ہونے کے بعد دوسرا نبی آتا جو صاحب شریعت نبی کی تبلیغ اور اصلاح کا کام سرانجام دیتا، چونکہ حضور ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اس لیے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کو یہ فریضۂ نبوت سونپ دیا گیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کو دائمی، ابدی اور عالمگیر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی امت کو وہ کارِ نبوت عطا کیا جو امت کے لائق تھا اور جس کو آئندہ علی الدّوام جاری رہنے کی ضرورت تھی۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نئے نبی کی آمد ضروری ہے، اس لیے جو ضروری امورِ نبوت پہلی امت میںنبی اور رسول آکر پورا کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کو وہ مقام عطا کر دیا کہ فیضانِ نبوت حضور نبی اکرم ﷺ سے وہ ضروری امور اب آپ ﷺ کی امت ہی سرانجام دیتی رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس ضمن میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ۔
1۔ ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقہ،
5: 48، رقم: 2682
2۔ ابوداؤد، السنن، کتاب العلم، باب الحثّ علی طلب العلم، 3: 317، رقم: 3641
3۔ ابن ماجہ، السنن، 1: 81، رقم: 223
4۔ احمد بن حنبل، المسند، 5: 196، رقم: 21763
5۔ ہیثمي، مجمع الزوائد، 1: 126
6۔ طبراني، مسند الشامیین، 2: 224، رقم: 1231
7۔ قضاعي، مسند الشہاب، 2: 103، رقم: 975
’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
جس طرح رشد و ہدایت، دعوت و تبلیغ، اصلاحِ احوال اور احیاء و تجدیدِ دین پر مبنی ضروری امور پورا کرنے کے لیے بنی اسرائیل کے انبیاء آتے تھے اب انہیں پورا کرنے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں سے اہلِ حق علماء پیدا ہوتے رہیں گے جن سے رشد و ہدایت کے چشمے پھوٹیں گے۔ اس طرح دعوت اور تبلیغ و ارشاد کے امور امت مصطفوی ﷺ کے علماء کے ہاتھوں انجام پانے کا ایک مستقل نظام وجود میں آیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ۔
آل عمران، 3: 110
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں حضورخیر الانام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی امت کو اللہ تعالیٰ نے خیر الامم (بہترین امت) کے لقب سے سرفراز فرمایا اور جس طرح حبیبِ خدا ﷺ کو آخرالانبیاء والرسل اور افضل الخلائق ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی امت کے سر پر خیرالامم کا تاج سجا دیا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں خود سرور کائنات ﷺ نے فرمایا:
إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِيْنَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُھَا وَأَکْرَمُھَا عَلَی اللهِ۔
1۔ ترمذي، الجامع الصحیح، أبواب التفسیر، باب من سورۃ آل عمران،
5: 226، رقم: 3771
2۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 94، رقم: 6987
3۔ احمد بن حنبل، المسند، 3: 61، رقم: 11604
4۔ دارمي، السنن، 2: 404، رقم: 2760
5۔ ابن ماجہ، السنن، 2: 1433، رقم: 4288
6۔ ازدي، الجامع لمعمر بن راشد، 11: 347
7۔ بیہقي، السنن الکبریٰ، 9: 5
’’تم ستر امتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور بزرگ ہو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادمبارک سے مترشح ہے کہ اُمتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی بے دین اور گمراہ نہیں ہوسکتی اور اس امر کی ضمانت دو چیزوں کے ساتھ مربوط کر دی گئی ہے:
1۔ قرآن مجید ایک ابدی صحیفۂ ہدایت ہے جس کی موجودگی کی وجہ سے اُمت گمراہ نہیں ہوگی۔
2۔ خود اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ بحیثیت ہادی اعظم امت میں موجود ہے اس وجہ سے بھی اُمت کی گمراہی کا امکان نہیں۔ چنانچہ اگر امت انفرادی اور اجتماعی طور پر کفر وارتداد اور ضلالت و گمراہی میں بدعملی اور بے اعتقادی سے بچنا چاہتی ہے تو اُسے دامنِ قرآن اور دامنِ مصطفی ﷺ کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَo
البقرہ، 2: 51
’’اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا تھا (وہ چالیس دن رات اعتکاف میںبیٹھے تھے) پھر تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے (کوہ طور پر جانے کے) بعد بچھڑے کو اپنا خدا ٹھہرا لیا اور تم بڑے ظالم تھےo‘‘
پہلی اُمتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے جو مختلف انبیاء کرام مبعوث فرمائے وہ اُنہیں پیغام حق دیتے رہے، جب ایک نبی دُنیا سے تشریف لے جاتا تو اس کی اُمت گمراہ ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہو جاتی بعض دفعہ ایک نبی کی موجودگی میں بھی امت گمراہ ہو جاتی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حینِ حیات یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کی اُمت نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام کی قوم نے ان کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عَزَيْرُ نِ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِيْحُ ابْنُ اللهِ۔
التوبہ، 9:30
’’اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘
تاریخِ انبیاء کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ سابقہ امتیں وقتا فوقتا شرک و گمراہی میں مبتلا ہوتی رہیں جس کی وجہ سے سلسلہ نبوت کا جاری رہنا ناگزیر ہو گیا جبکہ حضور ﷺ کی تشریف آوری کے بعد معاملے کی صورت یکسر بدل گئی۔ اس لیے کہ سلسلۂ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ چکا اور امت کے سوادِ اعظم کے گمراہ ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہا جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی اُمت کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ أُمَّتِيْ لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَةٍ فَإِذَا رَأَيْتُمِ اخْتِلَافاً فَعَلَيْکُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، 2: 1295، رقم: 3590
’’میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی پس اگر تم اختلاف دیکھو تو تم پرسوادِ اعظم کے ساتھ رہنا لازم ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ لَا یَجْمَعُ أُمَّتِيْ أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلَالَةٍ وَیَدُ اللهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَی النَّارِ۔
ترمذی، السنن، أبواب الفتن، باب في لزوم الجماعۃ، 4: 466، رقم: 2167
’’بے شک اللہ تعالیٰ میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور (سن لو کہ) جماعت (اجتماعی وحدت) پر اللہ تعالیٰ (کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو کوئی اس سے جدا ہو گا وہ دوزخ میں جا گرے گا۔‘‘
لہذا اُمتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی بے دین اور گمراہ نہیں ہوسکتی اور اس امر کی ضمانت دو چیزوں کے ساتھ مربوط کر دی گئی ہے۔
1۔ قرآن مجید ایک ابدی صحیفۂ ہدایت ہے جس کی موجودگی میں اُمت گمراہ نہیں ہو گی۔
2۔ خود اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے امت میں موجود ہونے کی وجہ سے بھی اُمت کی گمراہی کا امکان نہیں چنانچہ کثیر تعداد میں افرادِ امت کفر وارتداد، ضلالت و گمراہی اور بدعملی و بے اعتقادی سے محفوظ و مامون ہیں اور ایسا دامنِ قرآن اور دامنِ مصطفی ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے ہی سے ممکن ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے جملہ ارشادات اس پر شاہد عادل ہیں کہ اب ابدالآباد تک بحیثیتِ مجموعی آپ ﷺ کی اُمت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے اپنی اُمت کے بارے میں یہ ڈر نہیں کہ وہ شرکِ جلی میں مبتلا ہو گی۔ اس سے یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ جو خطرہ سابقہ اُمتوں کو اپنے انبیاء علیھم السّلام کے رخصت ہو جانے کے بعد لاحق رہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے لهٰذا حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَo وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَo
الواقعہ، 56: 13، 14
’’(اِن مقرّبین میں) بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگاo اور پچھلے لوگوں میں سے (ان میں) تھوڑے ہوں گےo‘‘
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَoوَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَo
الواقعہ، 56: 39، 40
’’ (ان میں) بڑی جماعت اگلے لوگوں میں سے ہوگیo اور (ان میں) پچھلے لوگوں میں سے (بھی) بڑی ہی جماعت ہوگیo‘‘
اوپر درج کردہ آیات کریمہ میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو امتِ آخرین کا لقب دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امت سب امتوں کے آخر میں ظہور پذیر ہوگی اور اس کے بعد کوئی امت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا لا وَجَآء تْهُمْ رُسُلُھُمْ بِـالْـبَيِّـنٰـتِ وَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَo ثُمَّ جَعَلْنٰـکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ م بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ کَيْفَ تَعْمَلُوْنَo
یونس، 10: 13
’’اور بیشک ہم نے تم سے پہلے (بھی بہت سی) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو (ان کے عمل کی) سزا دیتے ہیںo پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ (اب) تم کیسے عمل کرتے ہوo‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی اْلاَرْضِ۔
فاطر، 35: 39
’’وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں (گزشتہ اقوام کا) جانشین بنایاo‘‘
مذکورہ بالا آیات میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو زمین میں اممِ سابقہ کا خلیفہ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد نہ تو کوئی نئی امت پیدا ہوگی اور نہ نیا نبی آئے گا۔ قیامت تک یہی امت تاجدار کائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ رہے گی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ نہ دامن بدلے گا اور دامن گیر ہونے والے بدلیں گے۔
اس حوالے سے ارشاد فرمایا گیا:
اَلَمْ نُھْلِکِ الْاَوَّلِيْنَo ثُمَّ نُتْبِعُھُمُ الْاٰخِرِيْنَo
المرسلات، 77: 16، 17
’’کیا ہم نے اگلے (جھٹلانے والے) لوگوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا تھاo پھر ہم بعد کے لوگوں کو بھی (ہلاکت میں) ان کے پیچھے چلائے دیتے ہیںo‘‘
ان آیات میں اولین سے مراد پہلی امتوں کے کفاراور آخرین سے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کے کفار مراد ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام آخری امت ہے اور اس کا رسول آخری رسول ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا۔
البقرۃ، 2: 143
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ۔
الحج، 22: 78
’’تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں ﷺ ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو پہلی امتوں پر یہ شرف و فضیلت عطا فرمائی کہ اسے ان پر گواہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ جہاں اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو افضل الخلائق، آخر الانبیاء والرسل اور شاہد و گواہ بنایا اور آپ ﷺ کے فیضانِ نبوت کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کو خیرالامم اور آخر الامم ہونے کے ساتھ ساتھ امم سابقہ پر شاہد و گواہ بھی بنایا، اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو شاہدِ اقوامِ عالم بنانے کے بعد آپ ﷺ کی امت کو تمام سابقہ امتوں پر گواہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میرا رسول جس طرح تمہیں دین کی تبلیغ کرتا ہے اور تمہارے حال پر گواہ ہے اس طرح تم اوروں کو تبلیغ کرکے ان پر گواہ ہو جاؤ گے۔ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ جس طرح میرے نبی کی شہادت تمہارے اوپر ہے، بطورِ امتِ محمدی تمہاری شہادت باقی اقوام عالم پر ہوگی۔ سب سے برگزیدہ، سب سے بڑی، سب سے اعلیٰ و ارفع اور چنیدہ امت ہونے کے ناطے تم علمائِ بنی اسرائیل کے انبیاء جیسا کام سر انجام دوگے یعنی دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے تمہارا کام رشد و ہدایت کی شمعیں جلانا، ظاہر و باطن کے احوال کی اصلاح کرنا اور دین کو زندہ کرنا ہے جو پہلے انبیاء کا کام تھا۔ اب اس کی سرانجام دہی حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے ذمے ہے جو امتِ وسط ہے۔ گویا سرتاجِ انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کی شمعیں جلا جلا کر تمہارے حوالے کر رہے ہیں اور تم ان شمعوں کو لے کر چار دانگ عالم میں روشنی پھیلانا تمہارا منصب ہوگا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے حبیب مکرم کو مخاطب فرما کر دیگر انبیا و رسل علیھم الصلوٰۃ و السلام کی بعثت ونبوت، احوال و و اقعات اور خصائص و امتیازات کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم شاھد ہے کہ رب کائنات نے یہ ذکر مِنْ قَبْلُ یا اس کے ساتھ ضمیر متکلم یاحاضر کا اضافہ کر کے مِنْ قَبْلِی یا ِمِنْ قَبْلِکَ کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے، کسی ایک مقام پر بھی مِنْ بَعْد، مِنْ بَعْدِيْ یا مِنْ بَعْدِکَ کے الفاظ نہیں آئے جو اس بات کی واضح اور روشن دلیل ہے کہ پیغمبر صرف وہی ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے گزر چکے۔ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نئی شریعت لے کر نہیں آئے گا۔ اس مضمون کی تائید درج ذیل آیات کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
88۔ قُلْ قَدْ جَآءکُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ۔
آل عمران، 3: 183
’’آپ (ان سے) فرما دیں: بیشک مجھ سے پہلے بہت سے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے۔‘‘
89۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ۔
الانعام، 6: 42
’’اور بیشک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے۔‘‘
90۔ تَاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَـآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ۔
النحل، 16: 63
’’اللہ کی قسم! یقینا ہم نے آپ سے پہلے (بھی بہت سی) امتوں کی طرف رسول بھیجے۔‘‘
91۔ کَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِيْنَo
الزخرف، 43: 6
’’اور پہلے لوگوں میں ہم نے کتنے ہی پیغمبر بھیجے تھےo‘‘
92۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْھِمْ۔
یوسف، 12: 109
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
93۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْھِمْ۔
النحل، 16: 43
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
94۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلاَّ رِجَالاً نُّوْحِيْ الَيْھِمْ۔
الانبیاء، 21: 7
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھاجن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
95۔ فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ۔
آل عمران، 3: 184
’’پھر بھی اگر آپ کو جھٹلائیں تو (محبوب آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا۔‘‘
96۔ وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ۔
الأنعام، 6: 34
’’اور بیشک آپ سے قبل (بھی بہت سے) رسول جھٹلائے گئے۔‘‘
97۔ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ۔
فاطر، 35: 4
’’آپ سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے۔‘‘
98۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۔
آل عمران، 3: 144
’’اور محمد ( ﷺ بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں۔‘‘
99۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْکَ وَمِنْھُمْ مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْکَ۔
المؤمن، 40: 78
’’اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسولوں کو بھیجا، ان میں سے بعض کا حال ہم نے آپ پر بیان فرما دیا اور ان میں سے بعض کا حال ہم نے (ابھی تک) آپ پر بیان نہیں فرمایا۔‘‘
100۔ وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِيْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ۔
الزخرف، 43: 23
’’اور اسی طرح ہم نے کسی بستی میں آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا۔‘‘
101۔ وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَـآ۔
الزخرف، 43: 45
’’اور جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے آپ ان سے پوچھیے۔‘‘
102۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِء بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ۔
الرعد، 13: 32
’’اور بیشک آپ سے قبل (بھی کفار کی جانب سے) رسولوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا۔‘‘
103۔ سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا۔
بنی اسرائیل، 17: 77
’’ان سب رسولوں (کے لیے اللہ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا۔‘‘
104۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo
الانبیاء، 21: 25
’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری (ہی) عبادت کیا کروo‘‘
105۔ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَيْکَ وَاِلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo
الزمر، 39: 65
’’اور فی الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ (اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقیناّ تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گاo‘‘
106۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ۔
الفرقان، 25: 20
’’اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا (بھی) یقیناً کھاتے تھے۔‘‘
107۔ کَذٰلِکَ یُوْحِيْٓ اِلَيْکَ وَاِلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللهُ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمo
الشوری، 42: 3
’’اسی طرح آپ کی طرف اور اُن (رسولوں) کی طرف جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں اللہ وحی بھیجتا رہا ہے جو غالب ہے بڑی حکمت والا ہےo‘‘
108۔ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ ط اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّ ذُوْعِقَابٍ اَلِيْمٍo
حٰم السجدۃ، 41: 43
’’ (اے حبیب!) جو آپ سے کہی جاتی ہیں (یہ) وہی باتیں ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی جا چکی ہیں، بے شک آپ کا رب ضرور معافی والا (بھی) ہے اور درد ناک سزا دینے والا (بھی) ہےo‘‘
109۔ اَلَم تَرَاِلَی الَّذِيْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔
النساء، 4: 60
’’کیا آپ نے اِن (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (زبان سے) دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب یعنی قرآن) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان (آسمانی کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں۔‘‘
110۔ لٰـکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔
النساء، 4: 162
’’لیکن ان میں سے پختہ علم والے اور مومن لوگ اس (وحی) پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس (وحی) پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (برابر) ایمان لاتے ہیں، اور وہ (کتنے اچھے ہیں کہ) نماز قائم کرنے والے (ہیں) اور زکوٰۃ دینے والے (ہیں) اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے (ہیں)۔ ایسے ہی لوگوں کو ہم عنقریب بڑا اجر عطا فرمائیں گےo‘‘
اوپر درج کردہ تمام کی تمام آیات میں تسلسل اور تکرار کے ساتھ ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو حضور ختمی مرتبت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت سے متعلق ہے۔ اس امر میں کوئی التباس اور ابہام نہیں کہ قرآن نے ہر مقام پر آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کا ذکر بالالتزام کیا اور آپ ﷺ کے بعد کسی اور صاحبِ نبوت کی آمد کا اشارتاً اور کنایةً کوئی حوالہ نہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی رسالت و نبوت اور وحی کا ذکر کیا تو مِنْ قَبْلِکَ فرمایا۔ کسی ایک جگہ بھی مِنْ بَعْدِکَ نہیں فرمایا۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آناہوتا تو قرآن ضرور اس کا ذکر کرتا چونکہ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
مذکورہ بالا آیات کریمہ سے درج ذیل اہم نکات مستنبط ہوتے ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا واضح ثبوت ہیں:
1۔ صرف پہلے انبیاء کرام کی نشانیوں کا ذکر کیا بعد کے کسی نبی کے نشانات کی خبر نہیں دی۔
2۔ صرف حضور ﷺ سے پہلے امتوں کی طرف انبیاء کو بھیجنے کی بات کی، آپ ﷺ کے بعدکسی نبی یا رسول کو بھیجنے کی بات نہیں کی۔
3۔ منصبِ رسالت کو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ سے پہلے انبیاء کے ساتھ خاص کر کے واضح فرما دیا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی اس منصب کا حقدار نہیں اور کسی کو یہ عطا نہیں کیا جائے گا۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے انبیاء کی تکذیب اور ان کے تمسخر اڑائے جانے کا ذکر ہے، بعد کے نبی کی ایسی مشکلات کی خبر نہیں دی۔
5۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے انبیاء کی طرف وحی بھیجنے کا بیان ہے اور بعد میں وحی بھیجے جانے کو بیان نہیں کیا۔
6۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو مخاطب فرما کر مِنْ قَبْلِ کے الفاظ سے پہلے انبیاء کے اوصافِ نبوت کو بیان کیا مگر کسی جگہ بھی مِنْ بَعْدِکَ کے کلمہ کے ساتھ آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کا وصف بیان نہیں فرمایا۔ غرض جگہ جگہ مِنْ قَبْل، مِنْ قَبْلِی، مِنْ قَبْلِکَ کے الفاظ لا کر پہلے انبیاء کے تذکرے کرنا اور کہیں بھی مِنْ بَعْدِکَ یا اس کے مماثل کوئی لفظ لاکر بعد کے کسی نبی کا وصف بیان نہ کرنا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد جب وصفِ نبوت ہی ختم کر دیا گیا تو موصوف یعنی صاحبِ نبوت کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَتٰٓی اَمْرُ اللهِ فَـلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۔
النحل، 16: 1
’’اللہ کا وعدہ (قریب) آپہنچا سو تم اس کے چاہنے میں عجلت نہ کرو۔‘‘
112۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَo
الانبیاء، 21:1
’’لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیںo‘‘
113۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ السَّاعَةَ اَنْ تَاتِیَھُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُھَا۔
محمد، 47: 18
’’تو اب یہ (منکر) لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں (قریب) آپہنچی ہیں۔‘‘
114۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُo
القمر، 54: 1
’’قیامت قریب آپہنچی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔‘‘
115۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ هُوَ اِلَّا نَذيْرٌ لَّکُمْ بَيْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍo
سبا، 34: 46
’’وہ تو سخت عذاب (کے آنے) سے پہلے تمہیں (بروقت) ڈر سنانے والے ہیں (تاکہ تم غفلت سے جاگ اٹھو)o‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کا زمانہ قیامت سے متصل ہے اور اس کے فورًا بعد قیامت کا ظہور ہو گا جس کی خبرمذکورہ بالا ارشاداتِ الهٰیہ سے ملتی ہے
مفسرین نے سورۂ محمد کی محولہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اَشْرَاطُ السَّاعَۃ (قیامت کی نشانیوں) سے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت مراد لی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:
فبعثۃ رسول اللہ ﷺ من أشراط الساعۃ لأنہ خاتم الرسل الذی أکمل اللہ تعالٰی بہ الدّین وأقام بہ الحجۃ علی العالمین۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 177
’’پس رسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کیونکہ آپ ﷺ خاتم الرسل ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل کر دیا اور (سارے عالموں کی طرف رسول بنا کر) آپ ﷺ کے ذریعہ کائنات پر (اتمام) حجت قائم فرما دی۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی کھڑی کرتے ہوئے فرمایا:
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَھَاتَيْنِ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ﷺ : بعثت أنا والساعۃ کھاتین، 5: 2385، رقم: 6139
’’میں اور قیامت ان دو اُنگلیوں کی طرح بھیجے گئے ہیں۔‘‘
جس طرح دو اُنگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور قیامت ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی قرب قیامت کے زمانے میں آمد کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ ﷺ کی بعثت اور قیامِ قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ بلکہ قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ ہی کی نبوت و رسالت جاری و ساری رہے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْھُدٰی وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo
التوبۃ، 9: 33
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول ﷺ ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo‘‘
117۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ ط وَکَفٰی بِاللهِ شَهِيْدًاo
الفتح، 48: 28
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور (رسول ﷺ کی صداقت و حقانیت پر) اللہ ہی گواہ کافی ہےo‘‘
118۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo
الصّف، 61: 9
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘
مذکورہ بالا تینوں آیات میں لفظی اور معنوی اشتراک پایا جاتا ہے جو مضمون کی اہمیت کو اجاگر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ معظم ﷺ کو ہدایتِ عامہ اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ اس دین حق کو تما م ادیانِ عالم پر غالب کردے۔ یہ غلبہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد تمام ادیان اور ان کے پیشوایان کی آمد کے بعد ہوئی اور یہ اس حقیقت پر شاہد عادل ہے کہ دینِ مصطفی ﷺ سب سے آخری دین ہے اور اس کے لانے والے سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ التحیّۃ والثناء سب سے آخری رسول ہیں۔ ختم نبوت کی اس سے زیادہ واضح اور محکم دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَآءَ ط قَلِيْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَo
الأعراف، 7: 3
’’ (اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہوo‘‘
اس آیت کریمہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے ضمن میں درج ذیل دو نکات اخذ ہوئے:
1۔ لوگوں پر صرف اس وحی کا اتباع واجب ہے جو ان کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ پر اتاری گئی۔
2۔ اس کے علاوہ کسی دوسری وحی کے اتباع سے رکنا ہر شخص پر لازم ہے۔
اگر قرآن حکیم کے بعد کسی وحی کے نزول کا امکان ہوتا تو اس کی اتباع سے روک کر پابندی عائد نہ کی جاتی بلکہ اس کے اتباع کا حکم بھی دیاجاتا۔ جب قرآن کریم کے بعد کسی وحی کا اتباع کلیتاً ممنوع ہوا تو پھر دنیا میں نیا نبی بھیج کر اس پر نئی وحی اتارنا ایک امرِ لا یعنی ہوا جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات پا ک ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللهِ قف عَلٰی بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۔
یوسف، 12: 108
’’ (اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی۔‘‘
اس آیت کریمہ میں علی وجہ البصیرت دعوت حق دینے والوں کا ذکر ہے۔ جو خود حضور نبی اکرم ﷺ ہیں اورآپ ﷺ کے اسوہ پر چلنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے ربّانیین ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مَنِ اتَّبَعَنِی سے صحابہ کرام اور علماءِ حق مراد لیے ہیں۔ یہ تفسیر منشاء ایزدی کے عین مطابق ہے۔ اگر اس امت میں کسی اور نبی کی گنجائش ہوتی تو ضرور پہلے اس کا ذکر کیا جاتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ج فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ج وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ج وَمِنْهُمْ سَابِقٌم بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُوَ الْفَضْلُ الْکَبِيْرُo
فاطر، 35: 32
’’پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ ﷺ کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی (آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی) بڑا فضل ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم کے وارثین کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ امت محمدی ﷺ کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے جن میں کوئی فرد بھی نبی نہیں۔ اگر حضور ﷺ کی امت میںاجرائے نبوت مقصود ہوتا تو وارثین کتاب میں سب سے پہلے امت کے ان افراد کا ذکر کیا جاتا جنہیں منصب نبوت دیاجانا تھا۔ ایسا نہ کیا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ یَدَيْهِ وَ ھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِيْنَo
البقرہ، 2: 72
’’آپ فرما دیں جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مومنوں کے لیے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہےo
123۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نَزَّلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ یَدَيْهِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَo
آل عمران، 3: 3
’’ (اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہےo
124۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْزَلْنَـآ اِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ یَدَيْهِ مِنَ الْکِتٰبِ۔
المائدۃ، 5: 48
’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘
125۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰـرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ یَدَيْهِ۔
الأنعام، 6: 92
’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘
126۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلٰـکِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ یَدَيْهِ۔
یونس، 10: 37
’’یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہو چکی) ہیں۔‘‘
127۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا کَانَ حَدِيْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰـکِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ یَدَيْهِ۔
یوسف، 12: 111
’’ (بیشک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے) یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں۔‘‘
محولہ بالا آیات کریمہ میں بَيْنَ یَدَيْهِ کے الفاظ سے واضح ہے کہ قرآن حکیم فقط اس وحی کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی۔ وہ اپنے بعد کسی وحی کے نزول کی تصدیق تو درکنار اس کا ذکر تک نہیں کرتا، اگر قرآن حکیم کے بعد بھی وحی نازل ہونا ہوتی تو وہ اس کی لازماً تصدیق کرتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں جن پرآخری وحی نازل ہوئی۔ جس طرح حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح قرآن حکیم کے بعد کوئی وحی نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ قَالَ عِيْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰةِ وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ۔
الصف، 61: 6
’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھما السّلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ ) کی (آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں مذکور انبیاء علیھم السلام اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتب و صحائف کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء سابقین جہاں اپنے سے پہلے انبیاء اور ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کی وہاں آئندہ آنے والے نبی کی خوشخبری بھی سناتے رہے ہیں۔ اس کی مثال سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیت میں ہے جس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک طرف وحی ماسبق کی تصدیق فرما رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے بعد تشریف لانے والے نبی کا آسمانی نام لے کر خوشخبری بھی سنا رہے ہیں۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں سے چند آیات ہم گزشتہ صفحات میں بیان بھی کر چکے ہیں۔ لیکن قرآن اور صاحب قرآن اس باب میں فقط پہلے انبیاء اور وحی ماسبق کی تصدیق تو کرتے ہیں مگر اپنے بعد کسی نبی یا وحی کا سرے سے ذکر نہیں کرتے، لهٰذا اگر حضور ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت کا اجراء مانا جائے تو اس کی تصدیق قرآن سے ہونی زیادہ اہم اور ضروری تھی کیونکہ کتب سابقہ کی تصدیق اگر اہلِ کتاب کو نعمت ِاسلام کی طرف راغب کرتی ہے تو زمانہ مابعد میں آنے والے انبیاء پر ایمان لانا آئندہ نسلوں کے لیے مدار نجات ہے۔
قرآن اور صاحب قرآن کا انبیاء سابقین کے اسلوب کے برعکس اشد ضرورت کے باوجود اپنے بعد جدید نبی اور جدید وحی کا ذکر نہ کرنا بلکہ حتمی طور پر انقطاعِ وحی اور ختمِ نبوت کا اعلان کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد منشائے ایزدی ہی نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۔
ابراھیم، 14: 27
’’اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔‘‘
اس آیت کریمہ میں قولِ ثابت سے مراد وہ کلام ہے جو قبر میں ہر مسلمان قبر میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہے گا۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر مومن شخص قبر میں شہادت دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کو پہچاننے کے بعد کہے گا کہ یہ میرے نبی ﷺ ہیں اور ایک روایت کے مطابق وہ کہے گا کہ یہ میرے نبی محمد ﷺ ہیں جو خاتم النبیین ہیں۔ یہی قول ثابت ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبر میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ہی تشریف لائیں گے اور ہر شخص سے سوال بھی آپ ﷺ کے بارے میں کیا جائے گا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر بالحدیث والآثار سے یہی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت ہر مومن کے لیے دنیا سے لے کر قبر تک ایمان کا حصہ ہے اور وہاں سے حشر تک جاری و ساری ہے۔
اگر حضور ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی نبی مبعوث کیا جانا ہوتا اور اہلِ اسلام پر اس کی اتباع کو لازم ٹھہرایا جاتا تو لازمی طور قبر میں اس کی بھی پہچان کرائی جاتی اور امتی اس کا بھی نام لیتا لیکن اس کے بر عکس ہر مسلمان قبر میں نہ صرف اپنے آقا و مولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو نام لے کر پہچانتا ہے بلکہ خاتم النبیین کے الفاظ سے مرزائی اوہام کا رد بھی ہوتا ہے۔
گزشہ صفحات میں ہم نے قرآن مجید سے جو دلائل پیش کیے ہیں ان سے یہ بات صراحتًاثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہی خاتم النبیین ہیں لهٰذا آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے۔ سابقہ صحائفِ آسمانی میں آنے والے نبی کا حلیہ، حسب و نسب اور فضائل و خصائص بیان کیے گئے ہیں کیونکہ سابقین کی نسبت آئندہ آنے والوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت و اتباع ضروری ہے۔ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کا ذکر تو ملتا ہے مگر کسی بعد میں آنے والے کا نام اور دیگر تفصیلات و جزئیات کا کسی بھی حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت اور وحی کا تذکرہ کر کے مِنْ قَبْل یا مِنْ قَبْلِکَ کی قید لگا کر اس امر کا اعلان کر دیا ہے کہ نبوت و رسالت اور وحی کے تمام سلسلے صرف حضور ﷺ سے قبل زمانوں تک ہی محدود تھے جو آپ ﷺ کے بعد منقطع ہوگئے۔
دوسری بات یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ مطلع علی الغیب اور اپنی اُمت پر بے حد مہربان اور رؤف و رحیم ہیں۔ آپ نے قیامت تک پیش آنے والے تمام اہم معاملات کو صراحت کے ساتھ بیان فرما دیا مثلاً مسیح دجال کا خروج یا جوج ماجوج کا ظہور، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا، مختلف فتنوں کا رونما ہونا، الغرض ہر کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں تھا جسے آپ نے بیان نہ فرما دیا ہو مگر کسی ایک مقام پر بھی آپ ﷺ نے اشارةً یا کنایۃ یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نیا نبی مبعوث ہو گا۔ یا میں مہر لگا کر کسی کو نبی بناد وں گا یا فلاں ملک میں یا فلاں زمانہ میں کوئی ظلی یا بروزی تشریعی غیر تشریعی، اصلی یا لغوی، مستقل یا غیر مستقل، نبی پیدا ہو گا۔ اس کی علامات یہ ہوں گی اس کی اطاعت تم پر فرض ہو گی اور اگر تم نے اطاعت نہ کی تو منکر اور کافر ہو جاؤ گے اور دوزخ کا ایندھن بنو گے بلکہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جو بھی میرے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب کافر اور دجال ہو گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ حضور ﷺ نے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آسمان سے نزول کا ذکر کیا اور ان کی جائے نزول، وقتِ نزول اور ان کے کارہائے نمایاں، ان کی جائے مدفن وغیرہ کا صراحتاً ذکر فرما دیا تاکہ کسی کے دل میں کسی قسم کا کوئی التباس یا ابہام پیدا نہ ہو اور یہ بھی آپ ﷺ نے صراحتاً فرما دیا کہ وہ بحیثیت نبی نہیں بلکہ بحیثیت امام اور خلیفۃ الرسول تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ ہی کے اُمتی ہوں گے۔
جب کتابِ اِلٰہی اور احادیث رسول ﷺ سے اجرائے نبوت یا اجرائے وحی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے ایمان کے باب میں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ یقین کر لے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی پیدا ہو گا اور نہ کوئی رسول۔
اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق اَقسامِ نبوت تشریعی یا غیر تشریعی، ظلی یا بروزی میں سے کوئی قسم وجود پذیر ہونا ہوتی تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے یا قرآن میں اس کا کوئی حوالہ ضرور ملتا مگر قرآن و سنت سے نبوت کی ایسی کوئی تقسیم نہیں ملتی۔ جس کے مطابق اجرائے نبوت مانا جائے۔ اتنے براہین قاطعہ کے باوجود بھی کوئی شپّرہ چشم ختم نبوت کے آفتاب کو ماننے سے انکار کرے اور اپنا دعویٰ نبوت کر بیٹھے تو وہ دجّال، کذّاب اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کے اندھے مقلدین بھی گروہ کفار میں سے ہوں گے۔ اسلام سے اُن کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ دن کی روشنی دیکھتے ہوئے بھی سورج کا انکار کر رہے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved