اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی محتشم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بے شمار ایسے خصائص و فضائل اور کمالات عطا فرمائے ہیں جن میں کوئی دوسرا آپ ﷺ کا ہم سر نہیں۔ ان میں سے ایک منفرد خصوصیت آپ ﷺ کی شانِ ختمِ نبوت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانی رشد و ہدایت کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے جس سلسلۂ نبوت و رسالت کا آغاز فرمایا تھا وہ آپ ﷺ کے اس جہاںمیں تشریف لانے کے ساتھ اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر ختم ہو گیا۔ اب ابدالآباد تک آپ ﷺ کے بعدنہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول۔ قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاتم النبیین کا لقب عطا فرمایا جس میں لفظ خاتم بدیہی طور پر آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کا مظہر و عکاس ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَo
الأحزاب، 33: 40
’’محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خاتم النبیین کہہ کر اپنے حبیب مکرّم سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی ختمِ نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔ ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جس سلسلہ نبوت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تھا وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ساتھ اپنے اختتام اور درجہ کمال کو پہنچ گیا۔
خاتم النبیین کا جو معنی خود حضور نبی اکرم ﷺ نے متعین فرمایا وہ متعدد احادیثِ متواترہ سے مطلقاً ثابت ہے، جیسے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي۔
1۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی
یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219
2۔ أبو داؤد، السنن، کتاب الفتن و الملاحم، باب ذکر الفتن و دلائلھا، 4: 97، رقم:
4252
3۔ ابن ماجۃ، السنن، کتاب الفتن، باب ما یکون من الفتن، 2: 130، رقم: 3952
4۔ حاکم، المستدرک، 4: 496، رقم: 8390
5۔ ابن أبی شیبۃ، المصنف، 7: 503، رقم: 3565
6۔ طبراني، المعجم الأوسط، 8: 200، رقم : 397
7۔ شیباني، الآحاد والمثانی، 1: 332، رقم: 456
8۔ شیباني، الآحاد والمثانی، 3: 24، رقم: 1309
9۔ سیوطي، الدر المنثور، 6: 618
’’میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
احادیث مبارکہ کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کے الفاظ سے اس معنی کی وضاحت فرمادی ہے۔ تقریباً دو سو سے زائد احادیث مبارکہ ختم نبوت کے مذکورہ معنی کی تائید میں آئی ہیں۔ اس کے بعد اب خاتم النبیین کے معنی ومفہوم میں کسی قسم کا نہ تو کوئی ابہام باقی رہتا ہے او نہ ہی مزید کسی لغوی تحقیق کی گنجائش یا ضرورت رہتی ہے۔
مضمونِ ختم نبوت اور اس کی تائید میں آنے والی احادیث مبارکہ الگ باب کے تحت آئندہ صفحات میں درج کی جائیں گی لیکن اس سے پہلے لفظ ختم اور خاتم کے معنی و مفہوم کی بحث اس لیے دی جارہی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار وں نے مذکورہ الفاظ کی من گھڑت تعبیرات و تشریحات اور تاویلات کے ذریعے اپنے دعوی باطل کو سچ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی۔ ذیل میں ہم ائمہ لغت کے اقوال اور تصریحات کی روشنی میں لفظ ختم اور خاتم کا معنی و مفہوم بیان کریں گے تاکہ یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے کہ امتِ مسلمہ کے اہلِ علم کے درمیان خاتم النبیین کے معنی و مفہوم کے تعین میں کوئی ابہام و التباس نہیں اور جمیع امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اس سے مراد آخری نبی ہی ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں مرزا غلام احمد قادیانی (1839۔ 1908ء) نے جب بتدریج نبوت کا دعویٰ کیا تواس نے کتاب وسنت اور اجماعِ امت کا انکار کرتے ہوئے خاتم النبیین کا معنی محض اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ’’نبیوں کی مہر‘‘ تراشا اور اس کی تفسیر یہ کی کہ حضرت محمد ﷺ انبیاء کی مہر ہیں۔ جس شخص پر آپ کی مہر لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی (معاذ اللہ!) اسی مہرکی تصدیق سے نبی بنا ہے۔ بطور حوالہ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
1۔ ’’اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے، بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا … اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لیے امتی ہونا لازمی ہے اور اس کی ہمت اور ہمدردی نے امت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔ ‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 27، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 29، 30
2۔ ’’اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلوسے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 96، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 99، 100
3۔ ’’خاتم النبیین کے معنی ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح آنحضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘
ملفوظاتِ احمدیہ، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی، 5: 290
4۔ ’’طریق کلام کے مطابق دوسرے الفاظ میں خاتم النبیین کے الفاظ رسول اللہ کے الفاظ کی نسبت بڑے درجے پر دلالت کرنے والے ہونے چاہئیں اور وہ یہی معنے ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ یعنی آپ کے بعد ایسے انبیاء پیدا ہوں گے جن کی نبوت کا معیار صرف آپ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا اور آپ کی شریعت کو قائم کرنا ہوگا۔‘‘
مکتوب مرزا محمود احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، مورخہ 29 اپریل 1927ئ، نمبر 85، جلد 14
5۔ ’’پس یقینًا ہمارے مخالف مولوی صاحبان نے خاتم النبیین کے معنے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے۔ آپ خاتم النبیین ہیں مگر ان معنوں میں کہ آپ کا وجود باجود مہر نبیوں کی ہے جو شخص آپ کے قولی اور فعلی نمونے کو کامل طور پر اپنے اندر پیدا کرلے گا اور اتباع اور اطاعت میں ایسا صراط مستقیم پر چلے گا ایک قدم بھی ادھر ادھر نہ ہوگا۔ ایسے شخص کی نبوت پر آپ کا وجود باجود ایک مہر ہے کیوں سرکاری مہروں کے لیے ضروری ہے کہ کاغذات بھی ہوں ورنہ مہروں کو بنانا ہی لغو ٹھہرے گا، پس جس صورت میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت کو نبیوں کی مہر قرار دیا ہے تو ضرور ہے کہ اس رتبہ میں نبی بھی ہوں جو آپ کی اتباع اور آپ کی تصدیق سے نبوت کا درجہ حاصل کریں جیسا کہ محاورے میں ہم بولتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کہہ کر اپنے اس قول پر مہر لگادی ہے یعنی اپنے منہ سے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ یہی مطلب اس آیہ کریمہ کے ہیں۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، مورخہ 8 دسمبر 1915ء، جلد3، نمبر 68
6۔ ’’ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں مگر ’’ختم‘‘ کے معنی وہ نہیں جو ’’احسان‘‘ کا سواد اعظم سمجھتا ہے اور جو رسول کریم ﷺ کی شان اعلیٰ و ارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپ نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے اپنی امت کو محروم کر دیا بلکہ یہ ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ اب وہی نبی ہوگا جس کی آپ تصدیق کریں گے کیونکہ آپ نبیوں کے مصدِّق ہیں۔ گویا کسی نبی کی اس وقت تک نبوت ثابت نہیں ہوسکتی جب تک آپ کی تصدیق اس کے ساتھ نہ ہو۔ انہی معنوں میں ہم رسول اکرم ﷺ کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 1، 2، مورخہ 22 سمتبر 1939ئ، ج 27، نمبر 218
7۔ ’’کہا گیا ہے کہ مبایعین (قادیانی صاحبان) آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے لیکن مجھے افسوس آتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور باوجود اس کے آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین بھی کہتے ہیں۔ وہ خاتم یعنی مہر ہی کیا ہوئی جو کسی کاغذ پر نہ لگی اور اس نے کسی کاغذ کی تصدیق نہ کی۔ اسی طرح نبی کریم خاتم النبیین کیا ہوئے جب کسی انسان پر آپ کی نبوت کی مہر نہ لگی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوا۔ اگر آپ کی امت میں کوئی نبی نہیں ہے تو آپ خاتم النبیین بھی نہیں ہیں۔‘‘
خطبہ جمعہ، مرزا محمود احمد، خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 7، مورخہ 10 جون 1915ئ، جلد 2، نمبر 151
8۔ ’’الحکم‘‘ مورخہ 17 فروری 1905ء میں حضرت خلیفہ اول (حکیم نور الدین) کے قلم مبارک سے ایک سائل کے جوابات شائع ہوئے ہیں۔ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی نبوت کا صریح ثبوت موجود ہے۔ وہ سوال اور جواب حسب ذیل ہے:
جواب: خاتم مہر کو کہتے ہیں۔ جب نبی کریم مہر ہوئے، اگر ان کی امت میں کسی قسم کا نبی نہیں ہوگا تو وہ مہر کس طرح ہوئے یا مہر کس پر لگے گی۔‘‘
اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 9، مورخہ 22 مئی 1922ئ، نمبر 91، جلد 9
’’وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہو گی ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جائے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے۔‘‘
قول مرزا غلام احمد قادیانی، بہ جواب سوال مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان، مورخہ 17 اپریل 1903ء، ’’ملفوظات‘‘ جلد 5، ص 344، طبع ربوہ
ذیل میں ہم لفظِ ختم اور خاتم کے لغوی اور شرعی معنی کے حوالے سے چیدہ چیدہ ائمہ لغت کا موقف بیان کریںگے تاکہ قادیانیوںکے بے بنیاد عقیدے کا بطلان کھل کرسامنے آجائے اوراس میں کسی قسم کا ابہام اور التباس باقی نہ رہے۔
قرآنِ حکیم کے کسی لفظ کا معنی متعیّن کرتے وقت محاورئہ عرب کا بھی خیال رکھا جانا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ عربوں کے ہاں یہ لفظ کن کن معانی میں مستعمل ہے اور یہاں کون سا معنی مراد لیا جا رہا ہے۔ ذیل میں لفظ خاتم کی لغوی بحث اس کے معنی کی تعیین وتخصیص میں معاون ومددگار ہو گی۔
لفظِ خاتم کی دو قرأتیں مذکور ہیں: ایک خاتِم (بکسر التاء) اور دوسری خاتَم (بفتح التاء)۔ امام ابن جریر طبری اور جمہور مفسرین کے نزدیک پہلی قراءت مختار ہے جبکہ دوسری قراء ت صرف امام حسن رحمۃ اللہ علیہ اور امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔
واختلفت القراء في قراء ۃ قولہ {وخاتم النبیین}، فقرأ ذلک قراء الأمصار سوی الحسن وعاصم بکسر التاء من خاتم النبیین بمعنی أنہ ختم النبیین۔
طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22: 16
’’فرمان الٰہی {وَخَاتم النبیین} کی قراء ت میں قراء کا اختلاف ہے۔ حسن اور عاصم کے علاوہ دورِ حاضر کے قراء نے اسے تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے، اس معنی میں کہ آپ ﷺ نے انبیاء (کے سلسلہ) کو ختم فرما دیا۔ ‘‘
لفظ خاتم کا ان دونوں قراء توں کی روشنی میں لغوی تجزیہ کیا جائے تو مذکورہ آیت کے حوالے سے اس کی درج ذیل تین صورتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ خاتِم (بکسر التاء) اسم فاعل بمعنی ختم کرنے والا
2۔ خاتَِم (بکسر التاء اور بفتح التاء)اسم بمعنی آخرِ قوم
3۔ خاتَم (بفتح التاء) اسم آلہ بمعنی مُہریعنی آخری
ان دونوں قرأتوں میں سے چاہے کسی کو بھی لیا جائے ان کا لغوی معنی یہی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمام انبیاء کرام علیھم السلام کے آخر میں ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ ائمہ لغت کے نزدیک لفظِ خاتم کا معنی درج ذیل ہے:
1۔ امام ابو منصور محمد بن احمدالازھری (282۔ 370ھ)
امام ابو منصورالازہری التھذیب فی اللّغۃ میں لفظِ ختم کے معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
قال أبو اسحاق النحوي معنی طبع فی اللغۃ وختم واحد، وھو التغطیۃ علی الشیٔ والاستیثاق من أن یدخلہ شیئ، کما قال: {اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا}۔
ازہری، التھذیب فی اللّغۃ، 1: 240
’’ابو اسحاق نحوی نے کہا : لغت میں طبع اور ختم کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں۔‘‘
علامہ موصوف یہی معنی امام زجاج کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں:
قال الزَّجَّاج في قولہ ل {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ}: معنی ختم في اللغۃ و ’’طبع‘‘ واحد وھوالتغطیۃ علی الشیء والاستیثاق منہ لئلا یدخلہ شیئ۔
ازہری، التھذیب فی اللغۃ، 1: 1113
’’زجاج نے ارشاد باری تعالیٰ {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ} کے حوالے سے کہا ہے: لغت میں ختم اور طبع کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں : کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔‘‘
موصوف لفظ خاتم کامعنی درج ذیل بیان کرتے ہیں:
وخاتم کل شیء آخرہ۔
ازہری، التھذیب فی اللغۃ، 1: 1113
’’اور ہر شے کا خاتم اس کا آخر ہے۔‘‘
علامہ ازہری زیر مطالعہ آیتِ مبارکہ کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں:
وقولہ ل {مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ} معناہ آخر النبیین ومن أسمائہ ’’العاقب‘‘ أیضاً معناہ آخرالأنبیاء۔
ازہری، التھذیب فی اللغۃ، 1: 1114
’’اور ارشاد باری تعالیٰ {محمد ( ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} کا معنی ’’تمام نبیوں کا فرد آخر‘‘ ہے۔ اور آپ ﷺ کے اسمائے گرامی میں سے ایک ’’عاقب‘‘ ہے جس کے معنی بھی ’’سب انبیاء کے آخری فرد‘‘ کے ہیں۔ ‘‘
2۔ امام اسماعیل بن عباد (326۔ 385ھ)
امام اسماعیل بن عباد المُحیط فی اللّغۃ میں لفظ ختم اور خاتم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وختام الوادی: أقصاہ وخاتمۃ السورۃ آخرھا۔ وکذلک خاتم کل شیئ۔
اسماعیل بن عباد، المحیط فی اللغۃ، 4: 315
’’اور وادی کے ختام سے مراد اس کاآخری کناراہے اور سورت کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے اور یہی معنی ہر شے کے خاتم کا ہے۔ ‘‘
اس معنی کے مطابق خاتم النبیین کا معنی ہوا: ’’نبیوں کاآخر۔ ‘‘
3۔ امام ابن حماد الجوہری (م 393ھ)
امام ابن حماد الجوہری الصحاح میں لفظِ خاتم اور اس کے مترادفات کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والخاتَمُ وَالخاتِمُ بکسر التّاء وفتحھا والخَیتام والخَاتَام کلّهُ بمعنی والجمع اَلخَوَاتِيْمُ وَخاتِمَۃ الشّیء آخرہ ومحمَّد ﷺ خاتم الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔
جوہری، الصحاح فی اللغۃ، 1: 330
’’خاتم تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنیٰ ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں۔‘‘
4۔ امام احمد بن فارس بن زکریا (م 395ھ)
امام ابن زکریا نے ’مقاییسں اللّغۃ (ص: 324)‘ میں ختم اور خاتم کے درج ذیل معانی بیان کیے ہیں:
ختم: وھو بلوغ آخرِ الشیئ: یقال ختمت العمل و ختم القاری السورۃ۔ فاما الختم، وھو الطبع علی الشیٔ فذلک من الباب أیضاً، لأن الطبع علی الشیٔ لا یکون إلا بعد بلوغ آخرہ … والخاتم مشتق منہ۔ والنبی ﷺ خاتم الأنبیاء لأنہ آخرھم۔
’’ختم کا معنی کسی چیز کے آخر پر پہنچنا ہے۔ کہا جاتا ہے میںنے کام ختم کر لیا اور قاری نے سورت ختم کر لی۔ پھر ختم کامعنی کسی شے پر مہر کرنا بھی ہے اور یہ بھی اسی باب سے ہے کیونکہ کسی شے پر مہر اسکے آخرپر پہنچنے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ اور خاتم اسی سے مشتق (derived) ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ ﷺ ان سب سے آخر پر (مبعوث ہوئے) ہیں۔‘‘
5۔ امام راغب اصفہانی (م 502ھ)
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب المفردات في غریب القرآن میں خاتم النبیین کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وَخَاتَم النّبيِّین لأنّهٗ ختم النّبُوّةَ أي: تمّمّھا بمجیِئهٖ۔
اصفہانی، المفردات في غریب القرآن، کتاب الخاء
’’حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا یعنی اپنی بعثت سے اسے مکمل فرما دیا۔‘‘
6۔ امام محمد بن اثیر جزری (م 606ھ)
امام ابن اثیر جزری لفظ خاتم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
فیہ (آمین خاتم رب العالمین علی عبادہ المومنین)، قیل: معناہ طابعہ وعلامتہ التي تدفع عنھم الأعراض والعاھات، لأن خاتم الکتاب یصونہ ویمنع الناظرین عما في باطنہ وتفتح تاؤہ وتکسر، لغتان۔
ابن اثیر، النہایۃ، 2: 10
’’حدیث میں ہے کہ آمین اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر خاتم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی مہر اور ایسی علامت ہے جو ان سے بیماریوں اور آفتوں کو دور کرتی ہے، کیونکہ جب مکتوب پر مہر لگا دی جاتی ہے تو وہ مکتوب کو کسی اور چیز کے دخول سے محفوظ رکھتی ہے اور لوگوں کو اس مکتوب کے دیکھنے سے منع کرتی ہے۔ خاتَم اور خاتِم اس لفظ میں دو لغت ہیں۔‘‘
7۔ علامہ ابو الفضل محمد بن عمر بن خالد القرشی (أتمہ 681ھ)
لغت عرب کی ایک اور کتاب صراح اللغۃ میں اس لغوی بحث کے حوالے سے یہ درج ہے:
خاتمۃ الشیء آخرہ ومحمدٌ خاتَم الأنبیاء بالفتحِ صلوات الله علیہ وعلیھم أجمعین۔
ابن خالد، صراح اللغۃ، باب المیم، فصل الخائ: 288
’’خاتمہ کے معنی کسی شے کے آخر کے ہیں اور اسی معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء یعنی سب سے آخری نبی ہیں۔ ‘‘
8۔ علامہ ابن منظور الافریقی (م 711ھ)
لغت عرب کی انتہائی مستند اور مقبولِ عرب و عجم کتاب لسان العرب میں امام ابن منظور ’’ابن سیدہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وخاتِمُ کلِّ شيْئٍ وخاتِمتہ: عَاقِبَتہ وَآخِرہ۔
(2) ابن منظور، لسان العرب، 12: 164
’’خاتم اور خاتمہ ہر چیز کے آخر اور انجام کو کہا جاتا ہے۔‘‘
صاحبِ لسان العرب اس کی مثال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ختام الوادی أقصاہ وخِتام القوم وخاتِمُھم وخاتَمھم آخرُھم عن اللّحیاني ومحمد ﷺ خاتم الأنبیاء علیہ وعلیھم الصّلوۃ والسّلام۔
’’ختام الوادی، وادی کے آخری کنارے کوکہتے ہیں اور ختام القوم، خاتم القوم (بکسر التاء) اور خاتم القوم (بفتح التاء)، ان سب کا معنی ہے: ’’قوم کا آخری فرد۔ ‘‘ اسی معنی میں لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں (کیونکہ آپ ﷺ باعتبارِ بعثت گروهِ انبیاء کے آخری فرد ہیں)۔ ‘‘
علامہ ابن منظور التھذیب للأزھری کے حوالے سے اس لفظ کی مزید تصریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
والخاتِم والخاتَم (بکسر التاء و بفتحھا) من أسماء النبی ﷺ وفی التنزیل العزیز: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُولَ اللهِ وَ خَاتِمَ النَّبِيِّيْنَ} أي آخرھم قال وقد قریء وخَاتَمَ، وقول العَجَّاج: مبارَک للأنبیاء خاتِمِ إنّما حملہ علی القراء ۃ المشہورۃ فکسر، ومن أسمائہ العاقب أیضاً ومعناہ آخر الأنبیاء۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، باب حرف المیم، فصل الخائ، 12: 164
’’خاتم اور خاتم (تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم ﷺ کے اسماء میں سے ہیں اور قرآن مجید میں ہے: {محمد ( ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} یعنی آپ ﷺ تمام انبیاء کے آخر پرہیں۔ اور اسے خاتَم (بفتح التاء) بھی پڑھا گیا ہے اور عجاج کاقول ’’مبارَک للأنبیاء خاتِمِ‘‘ قراءتِ مشہورہ پر کسرہ کے ساتھ ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے ’’عاقب‘‘ ہے جس کا معنی بھی ’’انبیاء کا آخر ‘‘ہے۔‘‘
9۔ علامہ محمد بن ابی بکر الرازی (م 721ھ)
امام موصوف اپنی کتاب مختار الصحاح میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والخاتَمُ بفتح التاء وکسرھا والخَیتام والخَاتَام کلّهُ بمعنی والجمع الخَوَاتِيْمُ وَخاتِمَۃ الشّیء آخرهُ ومحمَّد ﷺ خاتم الأنبیاء علیھم الصّلاۃ والسّلام۔
رازی، مختارالصحاح: 71
’’خاتم تاء کی زبر اورزیر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنیٰ ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمے سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں۔‘‘
10۔ علامہ محمد بن یعقوب الفیروزآبادی (م 817ھ)
موصوف اپنی کتاب القاموس المحیط میں لفظ ختم کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ختمہ یختمہ ختماً وختاماً، طبعہ وعلی قلبہ جعلہ لایفھم شیئا ولا یخرج منہ شیء والشیء ختماً بلغ آخرہ۔
’’ختمہ یختمہ ختماً وختاماً کے معنی ہیں کہ اس نے اس پر مہر کر دی اور اس کے دل پر مہر کر دی سے مراد ہے کہ اسے ایسا بنا دیا کہ وہ نہ توکچھ سمجھتا ہے اور نہ اس سے کوئی خیر کی بات ہی نکلتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے سوچنے سمجھنے اور نیکی کی طرف راغب ہونے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں) اور کسی شے کو ختم کرنے کا مفہوم ہے اس کے آخر پر پہنچنا۔‘‘
اور لفظ خاتَم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
والخاتَم … من کل شیء عاقبتہ وآخرتہ کخاتمتہ وآخر القوم کالخاتِم۔
فیروز آبادی، القاموس المحیط، فصل الخائ، باب المیم، 4: 104
’’اور خاتَم (تاء پر زبر) کے معنی ہیں: کسی شے کے اخیر میں آنے والا اور کسی شے کا آخر، خاتمہ کی طرح اورآخرِ قوم، خاتِم (تاء پر زیر) کی طرح۔ ‘‘
11۔ علامہ طاہر پٹنی (م 986 ھ)
لغاتِ حدیث کی ایک معتبر کتاب مجمع البحار میں لفظ خاتم کا معنی درج ذیل ہے:
خاتِم النّبوّۃ بکسرِ التّاء أي فاعل الختم وھو الإتمام وبفتحہا بمعنی الطابعِ أي شیئٍ یدل علی أنہ لا نبیّ بعدہ۔
مجمع البحار، 1: 329
’’خاتم النبوۃ میں تاء کی زیر کے ساتھ خاتِم ہو یعنی ختم کا فاعل ہو تو اس کا معنی ہوگا نبوت کو تمام کرنے والا۔ اور تاء کی زبر کے ساتھ خاتَم ہو تو اس کا معنی مہر ہوگا، یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ اب اس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘
اسی کتاب میں اس لفظ کی مزید وضاحت یو علیہ السلام بیان ہوئی ہے:
الخاتَم والخاتِم من أسمائہ ﷺ بالفتح اسم أي آخرھم وبالکسر اسم فاعل۔
مجمع البحار، 1: 330۔
’’(تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ) خاتِم اور خاتَم حضور نبی اکرم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔ تاء پر زبر کے ساتھ اسم ہے جس کے معنی آخر کے ہیں، اور زیر کے ساتھ اسم فاعل ہے جس کے معنی ختم یا تمام کرنے والے کے ہیں۔ ‘‘
12۔ ابو البقاء الحسینی الکفوی (م 1095ھ)
علامہ ابو البقاء کی کتاب کلیات میں جسے لغات عرب میں انتہائی معتمد کتاب کا درجہ حاصل ہے اس لغوی تحقیق کو یوں واضح کیا گیا ہے:
وتسمیۃ نبيِّنا خاتِمُ الأنبیاء لأنّ الخَاتِمَ اٰخِرُ الْقوم۔ قال الله تعالٰی: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أبَا أحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ}۔
ابو البقاء، الکلیات: 319۔
’’اور ہمارے نبی ﷺ کا نام خاتم الانبیاء اس لیے رکھا گیا کہ خاتم آخرِ قوم کو کہتے ہیں اور اسی معنی میں ارشاد باری تعالی {محمد ( ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} ہے کہ آپ سب نبیوں کے آخر میں ہیں۔‘‘
13۔ علامہ مرتضیٰ الزبیدی (م 1306ھ)
علامہ زبیدی اپنی کتاب تاج العروس میں لفظِ خاتم کے ذیل میں لکھتے ہیں:
والخاتِم من کل شیء عاقبتہ وآخرتہ کخاتمتہ والخاتَِم: آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالٰی: {وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ} أيْ آخرھم۔
زبیدی، تاج العروس، فصل الخاء من باب المیم، 16: 190
’’اور ہر شے کے خاتم کے معنی اس کے اخیر اور آخر کے ہیں، کسی شے کے خاتمہ کی طرح اور خاتَِم (تاء کی کسرہ اور فتح کے ساتھ) کے معنی خاتم کی طرح آخرِ قوم کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ {اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} اسی معنی میں ہے یعنی تمام انبیاء کے فردِ آخر۔ ‘‘
موصوف اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
وختام الوادي أقصاہ وختام القوم: آخرھم، عن اللحیانی ومن اسمائہ ﷺ الخاتِم والخاتَم وھوالذی ختم النبوۃ بمجیئہ۔
زبیدی، تاج العروس فصل الخاء من باب المیم، 16: 191
’’اور وادی کے ختام سے مراد اس کا آخری کنارا ہے اور قوم کے ختام سے مراد اس کا آخری فرد ہے۔ لحیانی سے منقول ہے کہ ختم اور خاتم (تا کی زیر کے ساتھ اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے ہیں۔ اور خاتم وہ ذات ہے جس نے اپنی تشریف آوری سے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا۔ ‘‘
14۔ معلم بطرس البستانی (م 1883ء)
موصوف کے نزدیک لفظ ختم اور خاتم کے معنی کی وضاحت درج ذیل ہے:
ختم الشیء ختماً بلغ آخرہ والقرآن والکتاب قرأہ کلہ وأتمہ۔
’’اس نے (فلاں) شے کو ختم کیا (کا معنی ہے کہ) وہ اس کے آخر پر پہنچا۔ اور قرآن اور (کسی کتاب) کو ختم کیا (یعنی) اسے پورے کا پورا پڑھا اور مکمل کیا۔‘‘
الخاتِم والخاتَم الخاتام وآخرالقوم۔
’’خاتِم (تاء پر زیر) اور خاتَم (تاء پر زبر) اور خاتام کے معنی آخر قو م کے ہیں۔‘‘
الخاتمۃ مؤنث الخاتم ومن کل شیء أقصاہ وتمامہ وعاقبتہ وآخرتہ کخاتمۃ الکتاب وغیرہ۔
بستانی، محیط المحیط: 217
’’خاتمہ خاتم کا مؤنث ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا انتہائی کنارا، اخیر اور آخر ہے، جیسے کتاب کا خاتمہ وغیرہ۔‘‘
آیت کریمہ { خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} سے اِستدلال
اہلِ لغت نے لفظِ خاتم کے مذکورہ معنی کی تائید میں آیت کریمہ خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ (1) سے بھی استدلال کیا ہے، علامہ جوہری لکھتے ہیں:
(1) المطففین، 83: 26
{خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي آخرہ لأنّ آخر ما یجدونہ رائحةُ المسک۔
جوہری، الصحاح فی اللغۃ، 1: 379
’’{اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کا آخر کیونکہ اہلِ جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو حاصل ہوگی۔‘‘
امام ابن زکریا اس حوالے سے لکھتے ہیں:
{خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي إنّ آخر ما یجدونہ منہ عند شربھم إیّاہ رائحۃ المسک۔
ابن زکریا، معجم مقاییس اللغۃ، 1: 324
’’اس کا ختام کستوری ہو گا یعنی اہلِ جنت اس مشروبِ خاص کو نوش کرنے کے بعد آخر پر کستوری کی خوشبو پائیں گے۔‘‘
لسان العرب اور تاج العروس میں مرقوم ہے:
وختام کل مشروب: آخرہ۔ وفی التنزیل العزیز {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي آخرہ لأن آخر مایجدونہ رائحۃ المسک۔
1۔ ابن منظور، لسان العرب، 12: 164
2۔ زبیدی، تاج العروس، 16: 191
’’اور ہر مشروب کے ختام سے مراد اس کا آخر ہے۔ قرآن عزیز میں ہے {اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کا آخر، کیونکہ اہل جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو آئے گی۔ ‘‘
فراء کے نزدیک ختام اور خاتم قریب المعنی الفاظ ہیں:
قال الفراء: والخاتِم والخِتام متقاربان فی المعنی، إلا أن الخاتِم الاسم والخِتام المصدر۔
ابن منظور، لسان العرب، فصل الخائ، 12: 164
’’فراء کہتے ہیں: خاتِم اور ختام دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں سوائے اس کے کہ خاتِم اسم ہے اور ختام مصدر ہے۔ ‘‘
ختامہ کے معنی مذکور سے بھی ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کے معنی نبیوں کا آخر ہی ہیں کیونکہ خاتم اور ختام ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔
ائمہ لغت کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کریمہ میں خاتم کی تاء پرزیر ہو یا زبر، اس کے معنی آخری کے ہیں۔ ماہرین لغت نے مختلف مثالیں دے کر اس معنی کو واضح کیاہے، جیسے امام اسماعیل بن عباد نے المُحیط فی اللّغۃ میں کہا ہے کہ کسی وادی کے ختام سے مراد اس کاآخری کناراہے اور کسی سورت کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے اور کسی بھی شے کے خاتم سے مراد اس کا آخر ہے۔ امام ابن حماد جوہری نے الصحاح میں کہا ہے کہ لفظ خاتم تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ اور اس کے مترادف الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھی کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے۔ وہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ اسی معنی میں خاتم الانبیاء علیہم الصّلوۃ والسّلام ہیں یعنی آخری نبی ہیں۔ امام احمد بن فارس بن زکریا نے مقاییسں اللّغۃ میں کہا ہے کہ خاتم لفظِ ختم سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے آخر پر پہنچنا کے ہیں، جیسے کہا جاتا ہے کہ میںنے کام ختم کر لیا اور قاری نے سورت ختم کرلی۔ انسان کسی کام کو اس کے آخر پر پہنچ کر ہی ختم کرتا ہے اور قاری سورت کے آخر پرپہنچتا ہے۔
امام ابن زکریا کے نزدیک اگر ختم کے معنی کسی شے پر مہر کرنا بھی کیے جائیں توپھر بھی یہ لفظ اپنے معنی سابق پر برقرار رہتا ہے کیونکہ کسی شے پر مہر اس کے آخرپر پہنچنے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ امام موصوف نے لفظ خاتم النبیین پر اس معنی کا اطلاق کرتے ہوئے کہاہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ ﷺ ان سب کے آخر پر (مبعوث ہوئے) ہیں۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب المفردات في غریب القرآن میں لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت ختم فرما دیا یعنی اپنی بعثت سے اسے مکمل فرما دیا۔ علامہ ازہری التھذیب فی اللّغۃ میںابو اسحاق نحوی اور زجاج کے حوالے سے لفظِ ختم کے معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ طبع اور ختم کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔ امام موصوف نے خاتم کا معنی کسی شے کا آخر کیا ہے اور آیت مذکورہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں خاتم النبیین سے مراد ’’تمام نبیوں کا فرد آخر‘‘ ہے۔ اس معنی کی وضاحت میں مزید کہاکہ آپ ﷺ کے اسمائے گرامی میں سے ایک ’’عاقب‘‘ ہے جس کے معنی بھی ’’سب انبیاء کے آخری فرد‘‘ کے ہیں۔
لغت عرب کی انتہائی مستند اور مقبولِ عرب و عجم کتاب لسان العرب میں علامہ ابن منظور افریقی ’’ابن سیدہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ خاتم اور خاتمہ ہر چیز کے آخر اور انجام کو کہا جاتا ہے، جیسے ختام الوادی، وادی کے آخری کنارے کوکہتے ہیں اور ختام القوم، خاتِم القوم (بکسر التاء) اور خاتَم القوم (بفتح التاء)، ان سب کا معنی ہے ’’قوم کا آخری فرد۔ ‘‘ اسی معنی میں لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ صاحبِ لسان العرب نے علامہ اَزہری کے حوالے سے بھی اس معنی کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام محمد بن اثیر جزری (م 606ھ)، علامہ محمد بن ابو بکر رازی (م 721)، علامہ محمدبن یعقوب فیروزآبادی (م 817ھ)، علامہ مرتضی زبیدی (م 1306ھ) اور دیگر معتبر ائمہ لغت نے بھی لفظ ختم اور خاتم کے معانی مذکورہ بالا ہی دیے ہیں اور خاتم النبیین سے تمام نبیوں کا فرد آخر مراد لیا ہے۔
اگر خاتم کے معنی مہر کے لیے جائیں تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ حضورنبی اکرم ﷺ انبیاء پر مہر لگانے والے ہیں یعنی آپ ﷺ نے آکر سلسلۂ انبیاء پر مہرکردی اور جس چیز پر مہرکردی جائے اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کریمہ سے یہ مفہوم واضح ہو گا:
خَتَمَ اللهَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ۔
البقرۃ، 2: 7
’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں پر مُہر لگا دی ہے۔ ‘‘
صاحبِ تھذیب ابو منصور ازہری اور صاحبِ قاموس محمد بن یعقوب فیروز آبادی نے اس معنی کی وضاحت دی ہے جو ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں۔
1۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، 1: 104
2۔ ازہری، التھذیب فی اللغۃ، 1: 240
لفظ خاتم کے اس معنی کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ جب تاجدار کائنات ﷺ نے سلسلۂ انبیاء کو ختم فرما کر اسے سر بمہر کر دیا تو اس کے بعد نبوت کا ہر دعویٰ باطل اور ہر مدعی نبوت کذّاب ہوگا۔ آئندہ صفحات میں اس نکتہ کو ائمہ تفسیر کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا جائے گا۔
ائمہ لغت کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کریمہ میں خاتم کی تاء پرزیر ہو یا زبر اس کے معنی آخری کے ہیں، اور یہ بھی واضح ہوا کہ ماہرین لغت کے نزدیک محاورۂ عرب میںخاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کا آخر اور ’’نبیوں کا ختم کرنے والا‘‘ کے ہیں لهٰذا س امر میں کوئی شک اور ابہام نہیں رہ جاتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر نبوت کا ختم ہونا خود قرآن مجید کی نصِ قطعی سے ثابت ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved