26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ إِلٰی أُحُدٍ، وَمَعَهٗ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهٗ بِرِجْلِهٖ وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ، فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ، أَوْ شَهِیْدَانِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اُس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان l تھے۔ اُن سب کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ (جوشِ مسرت سے) وجدمیںآ گیا۔ آپ ﷺ نے اُس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں (سو وہ ٹھہر گیا)۔
اِسے امام بخاری، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلٰی حِرَاءٍ، هُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ. فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَۃُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اهْدَأْ، فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ أَوْ شَھِیْدٌ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر l بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو رسول ﷲ ﷺ نے (پہاڑ سے مخاطب ہو کر) فرمایا: ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔ (سو وہ ٹھہر گیا)۔
اِسے امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَیْرِيِّ قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِیْنَ أَشْرَفَ عَلَیْهِمْ عُثْمَانُ … قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ وَالإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلٰی ثَبِیْرِ مَکَّةَ وَمَعَهٗ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضی اللہ عنهما وَأَنَا، فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتّٰی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهٗ بِالْحَضِیْضِ، قَالَ: فَرَکَضَهٗ بِرِجْلِهٖ، وَقَالَ: اسْکُنْ ثَبِیْرُ، فَإِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّیْقٌ وَشَهِیْدَانِ، قَالُوْا: اَللّٰهُمَّ، نَعَمْ۔ قَالَ: اللهُ أَکْبَرُ، شَهِدُوْا لِي، وَرَبِّ الْکَعْبَةِ، أَنِّي شَهِیْدٌ ثَـلَاثًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ.
ایک روایت میں حضرت ثمامہ بن حزن قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس آیا … (اُس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کی چھت سے) لوگوں سے فرما رہے تھے: میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ عنهما اور میں بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے پائوں کی ٹھوکر مار کر فرمایا: اے ثبیر! رک جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) محاصرین نے کہا: جی ہاں (ایسا ہی ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اکبر! اِن لوگوں نے میرے حق میں گواہی دے دی۔ ربّ کعبہ کی قسم! میں شہید ہوں، یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دوہرائے۔
اِسے امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی حِرَاءَ، فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اثْبُتْ حِرَاءُ، مَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ أَوْ شَهِیْدٌ، وَعَلَیْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَعُثْمَانُ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِیْدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنهما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ جبلِ حراء پر تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے حراء! ٹھہر جا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اِس پر رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل l تھے۔
اِسے امام ابو یعلی، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْقَاضِي أَبُوْ بَکْرِ بْنُ الْعَرَبِيِّ فِي الْعَارِضَةِ: … إِنَّمَا اضْطَرَبَتِ الصَّخْرَۃُ وَرَجَفَ الْجَبَلُ اسْتِعْظَامًا لِمَا کَانَ عَلَیْهِ مِنَ الشَّرَفِ، وَبِمَنْ کَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْأَشْرَافِ.
قاضی ابو بکر بن العربی العارضۃ میں بیان کرتے ہیں کہ چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، یہ دراصل اس شرف پر فخر و انبساط کی وجہ سے تھا جو دنیا کی معززترین ہستیوں کے اس پر تشریف فرما ہونے کی وجہ سے اسے نصیب ہوا تھا۔
وَنَقَلَ الْقَسْطَـلَانِيُّ فِي الإِرْشَادِ: قَالَ ابْنُ الْمُنِیْرِ: اَلْحِکْمَۃُ فِي ذٰلِکَ أَنَّهٗ لَمَّا أَرْجَفَ أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ یُبَیِّنَ أَنَّ هٰذِهِ الرَّجْفَةَ لَیْسَتْ مِنْ جِنْسِ رَجْفَةِ الْجَبَلِ بِقَوْمِ مُوْسٰی علیہ السلام لَمَّا حَرَّفُوْا الْکَلِمَ، وَأَنَّ تِلْکَ رَجْفَۃُ الْغَضَبِ، وَهٰذِهٖ هَزَّۃُ الطَّرَبِ، وَلِهٰذَا نَصَّ عَلٰی مَقَامِ النُّبُوَّةِ وَالصِّدِّیْقِیَّةِ وَالشَّهَادَةِ، الَّتِي تُوْجِبُ سُرُوْرَ مَا اتَّصَلَتْ بِهٖ لِرَجَفَانِهٖ، فَأَقَرَّ الْجَبَلُ بِذٰلِکَ، فَاسْتَقَرَّ.
امام قسطلانی نے اپنی کتاب إرشاد الساري میں نقل کیا ہے: امام ابن منیر نے فرمایا: اِس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ واضح کر دینا چاہا کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ علیہ السلام پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے کلمات (الٰہیہ) میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، کیونکہ وہ تھرتھراہٹ غضبِ الٰہی کی تھی، اور یہ (قربِ مصطفی ﷺ کی وجہ سے) رقصِ مسرت تھا، اِسی لیے آپ ﷺ نے مقامِ نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، پس پہاڑ نے بھی اپنی تھرتھراہٹ سے اُس چیز کا اقرار کیا اور پھر احتراماً پُرسکون ہوگیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved