5. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهٗ أُصِیْبَتْ عَیْنُهٗ یَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهٗ عَلٰی وَجْنَتِهٖ، فَأَرَادُوْا أَنْ یَقْطَعُوْھَا، فَسَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: لَا، فَدَعَا بِهٖ، فَغَمَزَ حَدَقَتَهٗ بِرَاحَتِهٖ، فَکَانَ لَا یُدْرٰی أَيُّ عَیْنَیْهِ أُصِیْبَتْ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ قَانِعٍ.
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن ان کی آنکھ تیر کا نشانہ بن گئی۔ چنانچہ ڈھیلا نکل کر چہرے پر لٹک گیا، دیگر صحابہ نے اُسے کاٹ دینا چاہا، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا، پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور آنکھ کو اپنے دستِ مبارک سے دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔تو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی کہ (دیکھنے والے کو) معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ زخمی ہوئی تھی۔
اِسے امام ابو یعلی، بیہقی اور ابن قانع نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: شَهِدَ قَتَادَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ رضی الله عنه الْعَقَبَةَ مَعَ السَّبْعِیْنَ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکَانَ مِنَ الرُّمَاةِ الْمَذْکُوْرِیْنَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، شَهِدَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَرُمِیَتْ عَیْنُهٗ یَوْمَ أُحُدٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهٗ عَلٰی وَجْنَتِهٖ، فَأَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عِنْدِي امْرَأَةً أُحِبُّهَا، وَإِنْ هِيَ رَأَتْ عَیْنِي خَشِیْتُ تَقَذُّرَهَا، فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اللهِ بِیَدِهٖ، فَاسْتَوَتْ وَرَجَعَتْ، وَکَانَتْ أَقْوٰی عَیْنَیْهِ وَأَصَحَّهُمَا بَعْدَ أَنْ کَبِرَ، وَشَهِدَ أَیْضًا الْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ کُلَّهَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَکَانَتْ مَعَهٗ رَایَۃُ بَنِي ظُفُرٍ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ. وَقَالَ الْبَیْهَقِيُّ: وَفِي الرِّوَایَتَیْنِ جَمِیْعًا عَنِ ابْنِ الْغَسِیْلِ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ یَوْمَ بَدْرٍ، وَاللهُ أَعْلَمُ.
محمد بن عمر سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ کے وقت ستر انصار کے ہمراہ حاضر ہوئے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے، آپ بدر اور اُحد میں حاضر ہوئے، آپ کی آنکھ غزوۂ اُحد میں تیر کا نشانہ بن گئی تو آپ کے رخسار پر ڈھلک گئی آپ نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک بیوی ہے جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں: (مجھے خدشہ ہے کہ) اگر اس نے میری آنکھ اس حالت میں دیکھ لی تو شاید اسے بری لگے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے (باہر نکلی ہوئی آنکھ کو) اس کی جگہ پر اپنے دست مبارک سے رکھ دیا، تو وہ آنکھ اپنی جگہ پر پیوست ہوگئی اور جب آپ بوڑھے ہوئے تو وہ آنکھ دونوں آنکھوں میں سے زیادہ قوت والی اور زیادہ صحت والی تھی، حضرت قتادہ غزوۂ خندق اور دیگر تمام غزوات میں بھی حاضر ہوئے فتح مکہ کے موقع پر آپ کے ہاتھ میں بنو ظفر کا پرچم تھا۔
اِسے امام حاکم، بیہقی، ابن سعد اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے فرمایا: اور دونوں روایتوں میں ابن غسیل سے مروی ہے کہ بے شک وہ غزوۂ بدر کا دن تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَمٰی یَوْمَ أُحُدٍ عَنْ قَوْسِهٖ حَتَّی انْدَقَّتْ سِیَتُهَا، فَأَخَذَهَا قَتَادَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ فَکَانَتْ عِنْدَهٗ، وَأُصِیْبَتْ یَوْمَئِذٍ عَیْنُ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ حَتّٰی وَقَعَتْ عَلٰی وَجْنَتِهٖ فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ وَأَحَدَّهُمَا.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ هِشَامٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ، وَذَکَرَهُ الطَّبَرِيُّ وَالْأَصْبَهَانِيُّ وَابْنُ تَیْمِیَّةَ.
ایک روایت میں حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ اُحد کے دن اُن کی کمان سے اتنے تیر پھینکے کہ اس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔ اسے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے اٹھا لیا اور وہ ان کے پاس ہی رہی، اس دن حضرت قتادہ کی آنکھ تیر کا نشانہ بن کر اُن کے رخسار پر ڈھلک گئی، پس اسے رسول اللہ ﷺ نے اس کی جگہ پر لوٹا دیا تو وہ آنکھ دونوں میں سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ تیز بصارت والی آنکھ ہوگئی۔
اِسے امام بیہقی، ابن ابی شیبہ، ابن ہشام اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام طبری، اصفہانی اور ابن تیمیہ نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
7. عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ جَدِّهٖ قَتَادَةَ رضی الله عنه: أَنَّهٗ أُصِیْبَتْ عَیْنُهٗ یَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهٗ عَلٰی وَجْنَتِهٖ فَأَرَادَ الْقَوْمُ أَنْ یَقْطَعُوْهَا، فَقَالَ: أَنَأْتِي رَسُوْلَ اللهِ ﷺ نَسْتَشِیْرُهٗ فِي ذٰلِکَ، فَجِئْنَاهُ فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ، فَأَدْنَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْهُ، فَرَفَعَ حَدَقَتَهٗ حَتّٰی وَضَعَهَا مَوْضِعَهَا، ثُمَّ غَمَزَهَا بِرَاحَتِهٖ، وَقَالَ: اللّٰهُمَّ، اکْسُهٗ جَمَالًا، فَمَاتَ وَمَا یَدْرِي مَنْ لَقِیَهٗ أَيُّ عَیْنَیْهِ أُصِیبَتْ.
رَوَاهُ أَبُوْ عَوَانَةَ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَأَیَّدَهُ الْأَصْبَهَانِيُّ وَالذَّهَبِيُّ وَالْمَقْرِیْزِيُّ وَالسُّیُوْطِيُّ.
حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ بن نعمان اپنے دادا حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن اُن کی آنکھ تیر کا نشانہ بن گئی، اُس کا ڈھیلا ان کے چہرے پہ آگیا، لوگوں نے اسے کاٹنے کا ارادہ کیا تو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ہم اس آنکھ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مشورہ نہ کرلیں؟ ہم بارگاهِ رسالت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کی خدمت سب ماجرا عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت قتادہ کو قریب کیا اور ان کی آنکھ (کے لٹکے ہوئے ڈھیلے) کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا، پھر اُن کی آنکھ کو اپنی مبارک ہتھیلی سے بند کردیا (تو آنکھ اور اس کی بصارت پلٹ آئی)۔ پھر آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی: اے اللہ! اسے مزید خوبصورتی عطا فرما۔ پس حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اور (عمر بھر) اُن سے ملنے والا کبھی نہ پہچان سکا کہ کونسی آنکھ زخمی ہوئی تھی۔
اِسے امام ابو عوانہ نے اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن عساکرنے روایت کیا ہے۔ امام اصبہانی، ذہبی، مقریزی اور سیوطی نے ان کی تائید کی ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ: وَقِیْلَ: إِنَّ أَبَا عَبْدِ اللهِ عَقْبِيٌّ بَدْرِيٌ أُحُدِيٌّ وَشَهِدَ الْمشَاهِدَ کُلَّهَا وَأُصِیْبَتْ عَیْنُهٗ یَوْمَ بَدْرٍ، وَقِیْلَ: یَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَقِیْلَ: یَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ الْأَصَحُّ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهٗ عَلٰی وَجْهِهٖ، فَأَرَادُوْا قَطْعَهَا، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ فَرَفَعَ حَدَقَتَهٗ بِیَدِهٖ حَتّٰی وَضَعَهَا مَوْضِعَهَا، ثُمَّ غَمَزَهَا بِرَاحَتِهٖ، وَقَالَ: اللّٰهُمَّ، اکْسُهٗ جَمَالًا، فَمَاتَ وَإِنَّهَا لَأَحْسَنُ عَیْنَیْهِ وَمَا مَرِضَتْ بَعْدُ.
وَقَالَ الْهَیْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ: فَأَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، وَعَیْنُهٗ فِي یَدِهٖ، فَقَالَ: مَا هٰذِهٖ، یَا قَتَادَۃُ؟ قَالَ: هُوَ کَمَا تَرٰی، فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ، وَلَکَ الْجَنَّۃُ، وَإِنْ شِئْتَ رَدَدْتُهَا، وَدَعَوْتُ اللهَ تَعَالٰی، فَلَمْ تَفْقِدْ مِنْهَا شَیْئًا، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ الْجَنَّةَ لَجَزَاءٌ جَلِیْلٌ وَعَطَاءٌ جَمِیْلٌ، وَلٰـکِنِّي رَجُلٌ مُبْتَلًی بِحُبِّ النِّسَاءِ، وأَخَافُ أَنْ یَقُلْنَ: أَعْوَرُ، فَـلَا یُرِدْنَنِي، وَلٰـکِنْ تَرُدُّهَا، وَتَسْأَلُ اللهَ تَعَالٰی لِيَ الْجَنَّةَ، فَأَخَذَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِیَدِهٖ وَأَعَادَهَا إِلٰی مَکَانِهَا، فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ إِلٰی أَنْ مَاتَ، وَدَعَا لَهٗ بِالْجَنَّةِ.
ذَکَرَهُ الْعَیْنِيُّ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ وَالْمَقْرِیْزِيُّ وَالْحَلَبِيُّ.
ایک روایت میں ہے: کہا گیا ہے کہ ابو عبد اللہ (حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ ) بیعتِ عقبہ، غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد (وغیرہ) تمام غزوات میں حاضر ہوئے۔ غزوۂ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غزوۂ خندق کا دن تھا، اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ غزوۂ اُحد کا دن تھا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ اُن کی آنکھ کا ڈھیلا ان کے رخسار پر ڈھلک گیا، لوگوں نے اسے کاٹ دینا چاہا (مگر) پھر وہ انہیں لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ ﷺ نے اُن کی آنکھ کا ڈھیلا اپنے دستِ مبارک سے اٹھا کر اُس کی جگہ پر رکھ دیا، پھر اسے اپنی مبارک ہتھیلی سے بند کردیا اور یوں دعا فرمائی: اے اللہ اسے خوبصورتی عطا فرما۔ پھر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس حال میں واصل بحق ہوئے کہ زخمی ہو کر بھی حضور ﷺ کے دستِ مبارک سے شفا پانے والی آنکھ زیادہ خوبصورت تھی اور وہ بعد ازاں کبھی بیماری کا شکار بھی نہ ہوئی۔
اور ہیثم بن عدی نے بیان کیا: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں یوں حاضر ہوئے کہ اُن کی آنکھ اُن کے ہاتھ میں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قتادہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جو کچھ حضور کے سامنے ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم صبر کرو تو جنت پاؤ گے۔ اور اگر چاہو تو میں اُسے واپس اپنی جگہ لوٹا دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تم اپنی آنکھ میں کوئی کمی بھی نہیں پاؤں گے۔ تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! جنت عظیم جزاء اور خوبصورت عطاء ہے لیکن میں ایسا آدمی ہوں جو بیویوں کی محبت میں مبتلا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے یک چشم کہیں گی، پھر وہ مجھ سے بے رغبت ہو جائیں گی۔ آپ اس آنکھ کو لوٹا دیں اور میرے لیے اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال (بھی) فرمائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس (باہر نکلی ہوئی) آنکھ کو پکڑا اور اسے اس کی جگہ واپس لوٹا دیا (جس سے آنکھ صحیح ہوگئی اور بصارت پلٹ آئی)۔ پھر ان کی وفات تک وہ آنکھ حضرت قتادہ کی دوسری آنکھ سے بہتر رہی اور آپ ﷺ نے اُن کے لیے جنت کی دعا بھی فرمائی۔
اِسے امام بدر الدین عینی، ابن الجوزی، مقریزی اور حلبی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ إِسْحَاقَ مِنْ حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنهما، وَقَالَ: أُصِیْبَتْ عَیْنُ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ یَوْمَ أُحُدٍ، وَکَانَ قَرِیْبَ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ، فَأَخَذَهَا بِیَدِهٖ فَرَدَّهَا، فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ وَأَحَدَّهُمَا نَظَرًا، وَقَالَ أَبُوْ مَعْشَرٍ السِّنْدِيُّ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ عَلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رضی الله عنه، فَقَالَ: مِمَّنِ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ:
أَنَا ابْنُ الَّذِي سَالَتْ عَلَی الْخَدِّ عَیْنُهٗ
فَرُدَّتْ بِکَفِّ الْمُصْطَفٰی ﷺ أَحْسَنَ الرَّدِّ
فَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ لِأَوَّلِ أَمْرِهَا
فَیَا حُسْنَ مَا عَیْنٌ وَیَا حُسْنَ مَا رَدَّ
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَیْنِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَذَکَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَابْنُ کَثِیْرٍ.
ایک روایت میں ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنهما کی حدیث میں ہے، انہوں نے بیان فرمایا: حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ غزوۂ احد کے دن تیر کا نشانہ بن گئی، ان کی شادی قریب تھی وہ (اپنی زخمی آنکھ لے کر) حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس آنکھ کو پکڑا اور اُسے اس کی جگہ پر لوٹا دیا، وہ آنکھ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی نہایت خوبصورت اور زیادہ تیز نظر والی آنکھ بن گئی۔ ابو معشر سندھی کہتے ہیں: حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟ تو (آنے والے نے) یہ شعر کہے:
میں اس شخص کی اولاد سے ہوں جس کے رخسار پر اُس کی آنکھ ڈھلک گئی تھی تو محمد مصطفی ﷺ کے دستِ مبارک سے وہ آنکھ بہترین انداز میں (پہلی جگہ پر) لوٹائی گئی۔
وہ اسی طرح ہوگئی جیسے وہ پہلے تھی۔ اس آنکھ کے حسن کے کیا کہنے اور (حضور ﷺ کے) حسنِ عطا کے کیا کہنے۔
اسے امام ابن عبد البر نے اور عینی نے مذکورہ الفاظ میں روایت کیا ہے۔ ابن جوزی اور ابن کثیر نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
8. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه، قَالَ: أُهْدِيَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَوْسٌ فَدَفَعَهَا إِلَيَّ یَوْمَ أُحُدٍ، فَرَمَیْتُ بِهَا بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتَّی انْدَقَّتْ عَنْ سِنَّتِهَا، وَلَمْ أَزَلْ عَنْ مَقَامِي نَصْبَ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَلْقَی السِّهَامَ بِوَجْهِي، کُلَّمَا مَالَ سَهْمٌ مِنْهَا إِلٰی وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَیَّلْتُ رَأْسِي لِأَقِيَ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِـلَا رَمْيٍ أَرْمِیْهِ، فَکَانَ آخِرُهَا سَهْمًا بَدَرَتْ مِنْهُ حَدَقَتِي عَلٰی خَدِّي، وَتَفَرَّقَ الْجَمْعُ، فَأَخَذْتُ حَدَقَتِي بِکَفِّي، فَسَعَیْتُ بِهَا فِي کَفِّي إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا رَآهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي کَفِّي دَمَعَتْ عَیْنَاهُ، فَقَالَ: اللّٰهُمَّ، إِنَّ قَتَادَةَ قَدْ أَوْجَهَ نَبِیَّکَ بِوَجْهِهٖ، فَاجْعَلْهَا أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ وَأَحَدَّهُمَا نَظَرًا، فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ وَأَحَدَّهُمَا نَظَرًا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ، وَأَیَّدَهُ الذَّهَبِيُّ وَالسُّیُوْطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک کمان پیش کی گئی، آپ ﷺ نے وہ کمان مجھے عطا فرمائی، میں اس کمان سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر تیر چلاتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈوری ٹوٹ گئی، میں رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرے کے سامنے اپنے چہرے پر تیر کھاتا رہا، جب بھی کوئی تیر رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرے کی طرف آتا تو میں اپنے سر کو اسی طرف جھکا دیتا تاکہ تیر چلائے بغیر رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور کو (اپنے چہرے کی ڈھال کے ذریعے) بچاؤں، اُن میں سے آخری تیر میری آنکھ میں آلگا جس سے میری آنکھ میرے رخسار پر لٹک گئی، میں اپنی آنکھ کو ہاتھ میں لیے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، جب رسول اللہ ﷺ نے میری آنکھ میرے ہاتھ میں دیکھی تو آپ ﷺ کی چشمان مبارک میں آنسو اُتر آئے، آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی: اے اللہ! قتادہ نے اپنے چہرے کو تیرے نبی کے چہرے کے لیے ڈھال بنائے رکھا، لہٰذا تو اس کی زخمی آنکھ کو زیادہ خوبصورت اور زیادہ تیز نظر والی آنکھ بنا دے۔ (رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے) دوسری آنکھ کے مقابلہ میں وہ آنکھ زیادہ خوبصورت اور زیادہ تیز نظر والی بن گئی۔
اِسے امام طبرانی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام ذہبی، سیوطی اور ہندی نے اس کی تائید کی ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ: قَالَ: وَرُمِيَ قَتَادَۃُ یَوْمَ بَدْرٍ أَوْ یَوْمَ حُنَیْنٍ بِشَيئٍ، فَأُصِیْبَتْ إِحْدٰی عَیْنَیْهِ فَسَقَطَتْ عَلٰی خَدِّهٖ فَبَصَقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِیْهَا ثُمَّ رَدَّهَا فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْهِ نَظَرًا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
ایک روایت میں ہے، راوی نے بیان کیا: غزوۂ بدر یا غزوۂ حنین کے دن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو تیر مارا گیا۔ تو اُن کی ایک آنکھ زخمی ہو کر اُن کے رخسار پر ڈھلک گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس آنکھ پر اپنا لعاب دہن مبارک لگایا پھر اُسے واپس لوٹا دیا تو وہ آنکھ (ٹھیک ہونے کے بعد) بصارت کے اعتبار سے بہترین آنکھ بن گئی۔
اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
9. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ جَدِّهٖ، قَالَ: أُصِیْبَتْ عَیْنُ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، یَوْمَ أُحُدٍ، فَبَزَقَ فِیْهَا النَّبِيُّ ﷺ فَکَانَتْ أَصَحَّ عَیْنَیْهِ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی.
حضرت عبد الرحمن بن حارث بن عبید سے روایت ہے، وہ اپنے دادا عبید سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: غزوۂ اُحد کے روز حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی آنکھ زخمی ہوگئی، حضور نبی اکرم ﷺ نے اس پر اپنا مبارک لعاب دہن لگایا تو وہ آنکھ دونوں آنکھوں میں سے زیادہ خوبصورت ہو گئی۔
اسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ عنهما قَالَ: کَانَ فُـلَانٌ یَجْلِسُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَإِذَا تَکَلَّمَ النَّبِيُّ ﷺ بِشَيئٍ اخْتَلَجَ وَجْھَهٗ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: کُنْ کَذٰلِکَ، فَلَمْ یَزَلْ یَخْتَلِجُ حَتّٰی مَاتَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْأَصْبَھَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں کہ (منافقین میں سے) ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں بیٹھتا تھا اور آپ ﷺ جب کوئی کلام فرماتے تو وہ (بوجہ بغض و عناد) اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے (بار بار یہ حرکت کرتے دیکھ کر) فرمایا: اسی طرح ہو جا، نتیجتاً (اس کا یہ حال ہو گیا) کہ وہ مرتے دم تک ہر وقت اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا رہتا تھا۔
اِسے امام حاکم اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایاہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ عَمْرِو بْنِ مَیْمُوْنٍ رضی الله عنه قَالَ: أَحْرَقَ الْمُشْرِکُوْنَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ رضی اللہ عنهما بِالنَّارِ، قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، یَمُرُّ بِهٖ وَیُمِرُّ یَدَهٗ عَلٰی رَأْسِهٖ فَیَقُوْلُ: یَا نَارُ، کُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍ کَمَا کُنْتِ عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ، تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَذَکَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ.
ایک روایت میں حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنهما کو آگ میں جلا (کر اذیت) دیتے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرتے اور اپنا دستِ اقدس ان کے سر پر پھیرتے اور (حکم) فرماتے: اے آگ، عمار پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام پر (سلامتی والی) ہو گئی تھی (تو وہ آگ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جلاتی نہیں تھی) اور (آپ ﷺ فرماتے: اے عمار! کفار کا یہ عذاب تیری زندگی نہ لے سکے گا بلکہ) تجھے ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔
اِسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور ابن الجوزی نے بھی اسے ذکر کیا ہے۔
11. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا عَائِشَۃُ، لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِي جِبَالُ الذَّهَبِ، جَائَنِي مَلَکٌ إِنَّ حُجْزَتَهٗ لَتُسَاوِي الْکَعْبَةَ، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّکَ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلَامَ، وَیَقُوْلُ لَکَ: إِنْ شِئْتَ نَبِیًّا عَبْدًا، وَإِنْ شِئْتَ نَبِیًّا مَلِکًا؟ قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلٰی جِبْرِیْلَ قَالَ: فَأَشَارَ إِلَيَّ: أَنْ ضَعْ نَفْسَکَ قَالَ: فَقُلْتُ: نَبِیًّا عَبْدًا۔ قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَعْدَ ذٰلِکَ لَا یَأْکُلُ مُتَّکِئًا، یَقُوْلُ: آکُلُ کَمَا یَأْکُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ حَیَّانَ وَالْبَغَوِيُّ وَأَبُوْ سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: وَإِسْنَادُهٗ حَسَنٌ. وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ.
حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، آپ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں، میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اُس کی ازار باندھنے کا مقام کعبہ کی بلندی کے برابر تھا۔ اس نے کہا: اگر آپ چاہیں تو نبی اور بادشاہ بن جائیں، (نبی اکرم ﷺ ) فرماتے ہیں: جبریل امین علیہ السلام نے مجھے اشارہ کیا کہ آپ عجز و نیاز کا راستہ اختیار فرمائیں۔ سو میں نے کہا: میں نبی اور اللہ تعالیٰ کا بندہ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: اُس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ ٹیک لگا کر کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: میں اُسی طرح کھاؤں گا جس طرح ایک عبد (بندہ) کھاتا ہے اور اُسی طرح بیٹھوں گا جیسے عبد (بندہ) بیٹھتا ہے۔
اس روایت کو امام ابو یعلی، ابن سعد، ابن حیان، بغوی اور ابو سعد نیشاپوری نے روایت کیا ہے، امام ہیثمی نے کہا: اس کی سند حسن ہے۔ ذہبی نے کہا: یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔
12. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَرَأَتْ فِرَاشَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، عَبَائَةً مَثْنِیَّةً، فَانْطَلَقَتْ، فَبَعَثَتْ إِليَّ بِفِرَاشٍ حَشْوُهُ الصُّوْفُ. فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا هٰذَا، یَا عَائِشَۃُ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، فُـلَانَۃُ الْأَنْصَارِیَّۃُ دَخَلَتْ عَلَيَّ، فَرَأَتْ فِرَاشَکَ، فَذَهَبَتْ، فَبَعَثَتْ إِلَيَّ بِهٰذَا. فَقَالَ: رُدِّیْهِ. قَالَتْ: فَلِمَ أَرُدُّهٗ؟ وَأَعْجَبَنِي أَنْ یَکُوْنَ فِي بَیْتِي، حَتّٰی قَالَ ذٰلِکَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: رُدِّیْهِ، یَا عَائِشَۃُ، فَوَاللهِ، لَوْ شِئْتُ لَأَجْرَی اللهُ تَعَالٰی مَعِي جِبَالَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الزُّهْدِ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ. وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: صَحِیْحٌ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں: میرے پاس انصار کی ایک عورت آئی، تو اس نے رسول اللہ ﷺ کا بستر دیکھا کہ دہری کی ہوئی عباء ہے تووہ (یہ منظر دیکھ کر) چلی گئی، پھر اس نے میرے پاس (حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے) ایک بستر بھیجا جس میں اُون بھری ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ میرے حجرے میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے پوچھا: عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں انصاری عورت میرے پاس آئی تھی، اُس نے آپ کا بستر دیکھا تو وہ چلی گئی۔ پھر اس نے یہ (آپ ﷺ کے لیے) میری طرف بھیج دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِسے واپس کر دو۔ آپ بیان کرتی ہیں: میں نے عرض کیا: میں یہ بستر کیوں واپس کروں؟ (مجھے رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں) مجھے اچھا لگا کہ یہ میرے گھر میں رہے۔ آپ ﷺ نے تین بار یہی فرمایا، آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! یہ لوٹا دو۔ اللہ کی قسم! اگر میں چاہوں تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلایا کرے۔
اسے امام احمد نے ’کتاب الزھد‘ میں اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ میں روایت کیا ہے۔ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved