3. عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ الْأَزْدِيِّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي: أَنَّهَا رَأَتْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَخَلْفَهٗ إِنْسَانٌ یَسْتُرُهٗ مِنَ النَّاسِ أَنْ یُصِیْبُوْهُ بِالْحِجَارَةِ، وَهُوَ یَقُوْلُ: أَیُّهَا النَّاسُ، لَا یَقْتُلْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَیْتُمْ فَارْمُوْا بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ، ثُمَّ أَقْبَلَ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا ذَاهِبُ الْعَقْلِ فَادْعُ اللهَ لَهٗ قَالَ لَهَا: ائْتِیْنِي بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ بِمَاءٍ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ فَتَفَلَ فِیْهِ وَغَسَلَ وَجْهَهٗ ثُمَّ دَعَا فِیْهِ ثُمَّ قَالَ: اذْهَبِي فَاغْسِلِیْهِ بِهٖ، وَاسْتَشْفِي اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَقُلْتُ لَهَا: هَبِي لِي مِنْهُ قَلِیْـلًا لِابْنِي هٰذَا، فَأَخَذْتُ مِنْهُ قَلِیْـلًا بِأَصَابِعِي فَمَسَحْتُ بِهَا شِقَّةَ ابْنِي فَکَانَ مِنْ أَبَرِّ النَّاسِ فَسَأَلْتُ الْمَرْأَةَ بَعْدُ مَا فَعَلَ ابْنُهَا؟ قَالَتْ: بَرَأَ أَحْسَنَ بَرْءٍ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَ رِجَالُهٗ وُثِّقُوْا.
حضرت سلیمان بن عمرو بن احوص الازدی بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی کی گہرائی سے جمرہ عقبہ (شیطان) کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے پیچھے ایک صحابی تھے جو آپ ﷺ کو لوگوں سے بچائے ہوئے تھے مبادا کسی کی کنکری آپ ﷺ کو لگ جائے۔ اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اے لوگو! تم میں سے بعض بعض کو مار نہ ڈالیں۔ جب تم کنکریاں پھینکو تو بیچ کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکو، بعد ازاں آپ ﷺ (واپس) آئے تو آپ ﷺ کے پاس ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اس بیٹے کی عقل زائل ہوچکی ہے، آپ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں، آپ ﷺ نے اسے فرمایا: میرے پاس پتھر کے کٹورے میں پانی لے کر آؤ، آپ ﷺ نے اس (کٹورے) میں اپنا لعابِ دہن ڈالا اور اس بچے کا چہرہ دھویا پھر اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر فرمایا: چلی جاؤ اور اسے اس پانی کے ساتھ غسل دینا اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرتی رہنا۔
راویہ کہتی ہیں: میں نے اس عورت سے کہا: مجھے بھی اپنے اس بیٹے کے لیے اس (پانی) میں سے تھوڑا سا عطا کردو۔ میں نے اپنی انگلیوں کے ساتھ اس میں تھوڑا سا پانی لیا اور اس سے اپنے بیٹے کے سر کے آدھے حصہ پر مل دیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ نیکوکار ہوگیا۔ بعد ازاں میں نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کے بیٹے کا کیا بنا؟ اس نے کہا کہ اسے بیماری سے بڑی اچھی طرح شفا نصیب ہوگئی۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
4. عَنْ أُمِّ جُنْدُبٍ رضی الله عنها، قَالَتْ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَمٰی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي یَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَبِعَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا بِهٖ بَـلَاءٌ لَا یَتَکَلَّمُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ هٰذَا ابْنِي وَبَقِیَّۃُ أَهْلِي وَإِنَّ بِهٖ بَـلَاءً لَا یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ائْتُوْنِي بِشَيئٍ مِنْ مَاءٍ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَغَسَلَ یَدَیْهِ وَمَضْمَضَ فَاهُ ثُمَّ أَعْطَاهَا، فَقَالَ: اسْقِیْهِ مِنْهُ وَصُبِّي عَلَیْهِ مِنْهُ وَاسْتَشْفِي اللهَ لَهٗ، قَالَتْ: فَلَقِیْتُ الْمَرْأَةَ فَقُلْتُ: لَوْ وَهَبْتِ لِي مِنْهُ فَقَالَتْ: إِنَّمَا هُوَ لِهٰذَا الْمُبْتَلٰی، قَالَتْ: فَلَقِیْتُ الْمَرْأَةَ مِنَ الْحَوْلِ، فَسَأَلْتُهَا عَنِ الْغُـلَامِ فَقَالَتْ: بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْـلًا لَیْسَ کَعُقُوْلِ النَّاسِ. وفي روایۃ: وَعَقَلَ عَقْـلًا لَیْسَ کَعُقُوْلِ الرِّجَالِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حُمَیْدٍ.
حضرت اُمّ جندب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے قربانی کے دن وادی کے بطن میں جمرۂ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ کے پیچھے بنو خثعم کی ایک عورت چلی آئی، اس کی گود میں ایک بچہ تھا جسے کوئی عارضہ لاحق تھا جس کی وجہ سے وہ بات نہ کر سکتا تھا۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے گھرانے میں یہ ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے۔ اسے کوئی عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تھوڑا سا پانی لاؤ چنانچہ پانی پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ (اس میں) دھوئے اور (اس میں) کلی کی پھر اس عورت کو پانی دے کر فرمایا: یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو۔ اُم جندب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس عورت سے مل کر کہا: (اس بابرکت پانی میں سے) تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ اس نے کہا: یہ (پانی) اس بیمار بچے کے لیے ہی ہے۔ اُم جندب فرماتی ہیں کہ دوسرے سال اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے اس بچے کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا: وہ بچہ بالکل صحت یاب ہوگیا تھا اور اب عام لوگوں سے بھی زیادہ عقل مند ہے۔
اِسے امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، طبرانی اور عبدبن حمیدنے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ: فَجَائَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا ابْنٌ لَهَا بِهٖ مَسٌّ، قَالَتْ: یَا نَبِيَّ اللهِ، ابْنِي هٰذَا، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ ﷺ فَدَخَلَتْ بَعْضَ الْأَخْبِیَةِ فَجَائَتْ بِتَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِیْهِ مَاءٌ، فَأَخَذَهٗ بِیَدِهٖ فَمَجَّ فِیْهِ وَدَعَا فِیْهِ وَأَعَادَهٗ فِیْهِ، ثُمَّ أَمَرَهَا، فَقَالَ: اسْقِیْهِ وَاغْسِلِیْهِ فِیْهِ، قَالَ: فَتَبِعْتُهَا، فَقُلْتُ: هَبِي لِي مِنْ هٰذَا الْمَاءِ، فَقَالَتْ: خُذِي مِنْهُ، فَأَخَذْتُ مِنْهُ حَفْنَةً، فَسَقَیْتُهُ ابْنِي عَبْدَ اللهِ فَعَاشَ، فَکَانَ مِنْ بِرِّهٖ مَا شَاءَاللهُ أَنْ یَکُوْنَ، قَالَتْ: وَلَقِیْتُ الْمَرْأَةَ فَزَعَمَتْ أَنَّ ابْنَهَا بَرِءَ وَأَنَّهٗ غُـلَامٌ لَا غُـلَامَ خَیْرٌ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَأَیَّدَهُ الْعَسْقَـلَانِيُّ وَالسُّیُوْطِيُّ.
ایک روایت میں ہے: ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا۔ اسے کوئی بیماری تھی (یا اس پر اثر تھا)۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہ بیٹا بیمار ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے حکم دیا وہ بعض خیموں میں سے ایک پتھر کے برتن میں پانی لے آئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس برتن میں سے دست مبارک سے پانی لے کر کلی کرکے اس میں ڈال دی اور دعا کرکے وہ دستِ مبارک اس میں ڈال دیئے پھر اس سے فرمایا: اِسی سے پلاؤ اور اِسی سے نہلاؤ۔ (راویہ)کہتی ہیں کہ میں اس عورت کے پیچھے پیچھے گئی۔ میں نے کہا: مجھے بھی اس میں سے تھوڑا سا پانی دے دو۔ اس نے کہا: اس میں سے لے لو۔ میں نے اس میں سے لے لیا۔ میں نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو وہ پانی پلایا وہ (صحت اور سلامتی کے ساتھ) زندہ رہا اور جیسا اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ نیک بنا۔ کہتی ہے: میں اس عورت سے ملی اس کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا بالکل صحت یاب ہوگیا ہے اور وہ ایسا لڑکا ہے کہ اس سے بہتر کوئی اور لڑکا نہیں۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور عسقلانی و سیوطی نے ان کی تائید کی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved