1. عَنْ أَبِي بَکْرَۃَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ ﷺ یَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: أَتَدْرُونَ أَيُّ یَوْمٍ هٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهٗ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهٖ. قَالَ: أَلَیْسَ یَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهٗ سَیُسَمِّیْهِ بِغَیْرِ اسْمِهٖ. فَقَالَ: أَلَیْسَ ذُو الْحَجَّةِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهٗ سَیُسَمِّیْهِ بِغَیْرِ اسْمِهٖ. قَالَ: أَلَیْسَتْ بِالْبَلْدَةِ الْحَرَامِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِکُمْ هٰذَا فِي بَلَدِکُمْ هٰذَا، إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَ لَا، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: اللّٰھُمَّ اشْهَدْ، فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ. فَـلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی، 2/620، الرقم/1654، وأیضًا في کتاب العلم، باب قول النبي ﷺ: رُبَّ مبلغ أوعی من سامع، 1/37، الرقم/67، وأیضًا في کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاہد الغائب، 1/51، الرقم/104، وأیضًا في کتاب المغازي، باب حجۃ الوداع، 4/1599، الرقم/4144، ومسلم في الصحیح، کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات، باب تغلیظ تحریم الدماء والأعراض والأموال، 3/1305-1306، الرقم/1679.
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: حضور نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر (قربانی کے دن) ہمیں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے اور ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ فرمایا: کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ اس کا بھی کوئی اور نام رکھیں گے۔ فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: جی ہاں (یا رسول اللہ)۔ فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ فرمایا: کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: جی ہاں (یا رسول اللہ)۔ فرمایا: تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں ہے، (اور یہ حرمت برقرار رہے گی) یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے عرض کیا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ (پھر فرمایا: تم میں سے) حاضر شخص اِس پیغام کو غائب تک پہنچا دے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن تک بات پہنچائی گئی ہو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ تم لوگ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ ہو جانا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ أَبِي شُرَیْحٍ أَنَّهٗ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِیْدٍ، وَهُوَ یَبْعَثُ الْبُعُوْثَ إِلٰی مَکَّۃَ: ائْذَنْ لِي أَیُّهَا الْأَمِیرُ، أُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَیْنَايَ حِینَ تَکَلَّمَ بِهٖ، حَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَیْهِ؛ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَهَا اللهُ وَلَمْ یُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ بِهَا دَمًا وَلَا یَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِیْهَا. فَقُولُوا: إِنَّ اللهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهٖ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِیْهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ. فَقِیلَ لِأَبِي شُرَیْحٍ: مَا قَالَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْکَ یَا أَبَا شُرَیْحٍ، لَا یُعِیذُ عَاصِیًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاہد، 1/51، الرقم/104، وأیضاً في أبواب الإحصار وجزاء الصید، باب لا یعضد شجر الحرم، 2/651، الرقم/1735، وأیضاً في کتاب المغازی، باب منزل النبي ﷺ یوم الفتح، 4/1563، الرقم/4044، ومسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب تحریم مکۃ وصیدہا وخلاہا وشجرہا ولقطتہا إلا لمنشد علی الدوام، 2/987، الرقم/1354، والترمذي في السنن، کتاب الحج، باب ما جاء في حرمۃ مکۃ، 3/173، الرقم/809، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب تحریم القتال فیہ، 5/205، الرقم/2876.
حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب کہ وہ انہیں مکہ مکرمہ کی جانب روانہ کر رہے تھے: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا وہ ارشاد بیان کروں جو آپ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمایا۔ اسے میرے دونوں کانوں نے سنا، دل نے محفوظ رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے آپ کو اُس وقت دیکھا جب کہ آپ (وہ بات ارشاد) فرما رہے تھے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا بنایا ہے، اسے حرمت والا لوگوں نے نہیں بنایا۔ لہٰذا جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے اس شہر میں خون ریزی کرنا اور اس کا درخت کاٹنا جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں (فتح مکہ کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے قتال کو دلیل بنائے تو اُسے کہو کہ اللہ تعالیٰ نے (اُس دن) اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی لیکن تمہیں اجازت نہیں دی جب کہ مجھے دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی گئی تھی۔ اب پھر اِس شہر کی حرمت اُسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ یہاں موجود لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ حضرت ابو شریح سے پوچھا گیا کہ عمرو نے کیا کہا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: اس نے کہا: اے ابو شریح! میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ سرکش اور خون خرابہ کرکے بھاگنے والے کو پناہ نہیں دی جاتی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ أَبِي جَمْرَۃَ، قَالَ: کُنْتُ أُتَرْجِمُ بَیْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَیْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَیْسِ أَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ؟ قَالُوا: رَبِیعَةُ. فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ، أَوْ بِالْوَفْدِ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا نَدَامٰی. قَالُوا: إِنَّا نَأْتِیکَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِیدَةٍ، وَبَیْنَنَا وَبَیْنَکَ هٰذَا الْحَيُّ مِنْ کُفَّارِ مُضَرَ وَلَا نَسْتَطِیعُ أَنْ نَأْتِیَکَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهٖ مَنْ وَرَائَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّۃَ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ. أَمَرَهُمْ بِالْإِیمَانِ بِاللهِ تعالیٰ وَحْدَهٗ. قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِیمَانُ بِاللهِ وَحْدَهٗ؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهٗ أَعْلَمُ. قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِیتَاءُ الزَّکَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ. وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ: رُبَّمَا قَالَ: النَّقِیرِ؛ وَرُبَّمَا قَالَ: الْمُقَیَّرِ. قَالَ ﷺ: احْفَظُوْهُ وَأَخْبِرُوْهُ مَنْ وَرَائَکُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب تحریض النبي ﷺ وفد عبد القیس علی أن یحفظوا الإیمان والعلم ویخبروا من وراء ہم، 1/45، الرقم/87، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الأمر بالإیمان باللہ تعالی ورسولہ وشرائع الدین والدعاء إلیہ والسؤال عنہ وحفظہ وتبلیغہ من لم یبلغہ، 1/47، الرقم/17.
حضرت ابو جمرہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا ہے: میں حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر لوگوں کے مابین ترجمان کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا۔ حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عبد القیس کا وفد حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وفد کے لوگ کون ہیں؟ یا فرمایا: کس قوم سے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: قبیلہ ربیعہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس قوم یا (فرمایا:) اس وفد کو خوش آمدید۔ انہیں ہمارے یہاں نہ تو کوئی رسوائی ہو گی اور نہ کوئی ندامت۔ وہ عرض گزار ہوئے: ہم آپ کی خدمت میں بڑی دور سے حاضر ہوئے ہیں جب کہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار کا یہ قبیلہ مضر حائل ہے۔ لہٰذا ہم آپ کی بارگاہ میں حرمت والے مہینوں کے علاوہ حاضر نہیں ہو سکتے۔ آپ ﷺ ہمیں ایسے اعمال کا حکم فرمائیے جو ہم اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی بتا دیں اور ہم ان اعمال کے باعث جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا یعنی انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ وحدهٗ پر ایمان لانا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور مالِ غنیمت سے خُمس ادا کرنا۔ (راوی کہتے ہیں) آپ ﷺ نے انہیں (شراب سازی میں استعمال ہونے والے) کدو کے صراحی نما پختہ خول، سبزگھڑے اور تارکول لگے ہوئے مرتبان کے استعمال سے منع فرمایا۔ شعبہ کا بیان ہے کہ انہوں (ابو جمرہ) نے شاید (المُزَفَّت کی بجائے) اَلنَّقِیْرُ کہا یا شاید اَلْمُقَیَّرُ (روغنی برتن) کہا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِن (آٹھ) باتوں کو یاد کر لو اور اپنے پچھلوں کو بھی بتا دینا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4. عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یَقُولُ: إِنِّي لَأُحَدِّثُکُمُ الْحَدِیْثَ، فَلْیُحَدِّثِ الْحَاضِرُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ.
رَوَاهُ الْمَقْدِسِيُّ وَالرَّامَهُرْمُزِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَی الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهٗ مُوَثَّقُوْنَ.
أخرجہ المقدسي في الأحادیث المختارۃ، 8/335، الرقم/406، والرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/171، الرقم/41، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/77، الرقم/232، وذکرہ الفسوي في المعرفۃ والتاریخ، 2/210، والہیثمي في مجمع الزوائد، 1/139.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: میں تمہیں حدیث بیان کرتا ہوں، تم میں سے جو شخص حاضر ہے وہ غیر حاضر کو حدیث بیان کر دے۔
اسے امام مقدسی اور رامہرمزی نے روایت کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے: اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ قرار دیے گئے ہیں۔
5. عَنْ أَبِي هَارُوْنَ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: کُنَّا إِذَا أَتَیْنَا أَبَا سَعِیْدٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِوَصِیَّةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. قُلْنَا: وَمَا وَصِیَّةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ؟ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سَیَأْتِي مِنْ بَعْدِي قَوْمٌ یَسْأَلُوْنَکُمُ الْحَدِیْثَ عَنِّي، فَإِذَا جَاؤُوْکُمْ فَالْطُفُوْهُمْ وَحَدِّثُوْهُمْ.
رَوَاهُ الرَّامَهُرْمُزِيُّ وَالْخَطِیْبُ.
أخرجہ الرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/176، الرقم/22، والخطیب البغدادي في شرف أصحاب الحدیث/21.
ابو ہارون العبدی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ہم جب حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو وہ ہمارا یوں استقبال کرتے: رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق خوش آمدید۔ ہم کہتے: رسول اللہ ﷺ کی وصیت کیا ہے؟ وہ فرماتے: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: میرے بعد تمہارے پاس عنقریب لوگ آئیں گے، وہ تم سے میری حدیث کے متعلق سوال کریں گے، جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں تو تم اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا اور انہیں (میری) حدیث بیان کرنا۔
اسے رامہرمزی اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved