وَكَذَلِكَ كَانَتِ الرِّحْلَةُ فِي طَلَبِ الْحَدِيْثِ قَائِمَةً فِي عَهْدِ التَّابِعِيْنَ مِنْ أَجْلِ مَعْرِفَةِ الْحَدِيْثِ النَّبَوِيِّ وَالْعِلْمِ الشَّرِيْفِ.
حصول حدیث کے لیے سفر کرنے کا عمل دور تابعین میں بھی جاری رہا۔ وہ حدیث نبوی اور علم کے حصول کےلیے سفر کیا کرتے تھے۔
25. عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ التَّابِعِيِّ الْجَلِيْلِ (ت98ﻫ). سَأَلُهُ عَنْ بَعْضِ الشَّيْءِ وَأَصْحَابُهُ عِنْدَهُ، وَهُوَ يُصَلِّي، فَجَلَسَ، حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ عُبَيْدُ اللهِ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ : أَمْتَعَ اللهُ بِكَ؛ جَاءَكَ هَذَا الرَّجُلُ، وَهُوَ ابْنُ ابْنَةِ رَسُولِ اللهِ، وَفِي مَوْضِعِهِ يَسْأَلُكَ عَنْ بَعْضِ الشَّيْءِ، فَلَوْ أَقْبَلْتَ عَلَيْهِ، فَقَضَيْتَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ أَقْبَلْتَ عَلَى مَا أَنْتَ فِيهِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللهِ لَهُمْ: أَيْهَاتِ، لَا بُدَّ لِـمَنْ طَلَبَ هَذَا الشَّأْنَ مِنْ أَنْ يَتَعَنَّى.
ذَكَرَهُ محمَّدُ بْنُ سَعْدٍ فِي طَبَقَاتِهِ الْكُبْرَى.
أخرجه ابن سعد في الطبقات، 5: 215-216.
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود کے پاس ان سے کچھ پوچھنے کے لیے آئے۔ عبد اللہ بن عبد اللہ (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، ان کے دوست ان کے پاس موجود تھے، حضرت علی بن حسین بیٹھ گئے، نماز سے فارغ ہو کر عبید اللہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے، ان لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے نفع بخشے، آپ کے پاس یہ صاحب آئے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کے فرزند اور ان کے جانشین ہیں اور آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ ان کی ضرورت پوری کر دیتے (تو بہتر ہوتا)، پھر جو کام کر رہے تھے کرتے رہتے۔ عبید اللہ نے ان لوگوں کو جواب دیا کہ افسوس ہے جو اس شان (حصول علم) کا طالب ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ (انتظار کی) مشقت بھی اٹھائے۔
اس روایت کو امام محمد بن سعد نے ’الطبقات الکبریٰ‘ میں ذکر کیا ہے۔
26. عَنْ أَبِي مُطِيْعٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى، قَالَ: أَوْحَى اللهُ تَعَالَى إِلَى دَاوُدَ علیہ السلام أَنِ اتَّخَذَ نَعْلَيْنِ مِنْ حَدِيْدٍ، وَعَصًى مِنْ حَدِيْدٍ، وَاطْلُبِ الْعِلْمَ حَتَّى تَنْكَسِرَ الْعَصَا وَتَنْخَرِقَ النَّعْلاَنِ.
رَوَاهُ الْخَطِيْبُ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
أخرجه الخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 86، الرقم: 9؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 189، الرقم: 385.
ابو مطیع معاویہ بن یحیی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ لوہے کے جوتے پہن لو اور لوہے کا عصا پکڑ لو اور علم کے حصول میں نکل کھڑے ہو، حتی کہ عصا ٹوٹ جائے اور جوتے پھٹ جائیں۔
اسے خطیب بغدادی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ٱلسَّٰٓئِحُونَ﴾، قَالَ: هُمْ طَلَبَةُ الْحَدِيْثِ.
رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجه الخطيب البغدادي في شرف أصحاب الحديث: 87، الرقم: 11
عمر بن نافع حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام عکرمہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ٱلسَّٰٓئِحُونَ﴾ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ان سے مراد حدیث کے طلبہ ہیں۔
اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ: كُنَّا نَسْمَعُ الرِّوَايَةَ بِالْبَصْرَةِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَلَمْ نَرْضَ حَتَّى رَكِبْنَا إِلَى الْـمَدِينَةِ، فَسَمِعْنَاهَا مِنْ أَفْوَاهِهِمْ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 149، الرقم: 564؛ وابن عساکر في تاريخ دمشق الكبير، 18: 174؛ وابن سعد في الطبقات الکبری، 7: 113؛ والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 2: 224.
ابو عالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بصرہ میں (اہل بصرہ سے) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات سنا کرتے تھے لیکن اسی پر مطمئن نہ ہوتے، بلکہ سواریوں پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف سفر کرتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اپنی زبانی ان روایات کو سنتے۔
اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ الْـمُسَيِّبِ كَانَ يَقُولُ: إِنْ كُنْتُ لَأَسِيْرُ اللَّيَالِيَ وَالْأَيَّامَ فِي طَلَبِ الْحَدِيْثِ الْوَاحِدِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
أخرجه البيهقي في المدخل إلى السنن الكبرى: 277، 278، الرقم: 401؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 188، الرقم: 373؛ وابن سعد في الطبقات الكبرى، 2: 381، 5: 120؛ والخطيب في الكفاية: 402؛ وفي الرحلة في طلب الحديث: 127؛ والذهبي في تذكرة الحفاظ، 1: 55؛ وفي سير أعلام النبلاء، 4: 222.
مالک بیان کرتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت سعید بن مسیب فرمایا کرتے تھے: اگرچہ مجھے ایک حدیث کے حصول کےلیے کئی راتیں اور کئی دن کا سفر کرنا پڑتا تو میں ضرور کرتا۔
اس کو امام بیہقی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: إِنْ كُنْتُ لَأَسِيْرُ فِي طَلَبِ الْـحَدِيثِ الْوَاحِدِ مَسِيرَةَ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ.
ایک روایت میں انہوں نے فرمایا: اگرچہ مجھے ایک حدیث کے حصول کےلیے کئی راتیں اور کئی دن کا سفر کرنا پڑتا (تو میں ضرور کرتا)۔
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: إِنْ كُنْتُ لَأَرْحَلُ الْأَيَّامَ وَاللَّيَالِيَ فِي طَلَبِ الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ.
ایک اور روایت میں انہوں نے فرمایا: اگر مجھے ایک حدیث کے حصول کےلیے کئی راتیں اور کئی دن کا سفر کرنا پڑے تو میں ضرور کرتا۔
30. قَالَ مَكْحُوْلٌ التَّابِعِيُّ (ت118ﻫ): كُنْتُ عَبْدًا بِمِصْرَ لِامْرَأَةٍ مِنْ بَنِي هُذَيْلٍ فَأَعْتَقَتْنِي، فَمَا خَرَجْتُ مِنْ مِصْرَ وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْحِجَازَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْعِرَاقَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الشَّامَ فَغَرْبَلْتُهَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه أبوداود في السنن، كتاب الجهاد، باب فيمن قال الخمس قبل النفل، 3: 80، الرقم:، 2750؛ والبيهقي في السنن الكبرى، 6: 313، الرقم: 12579.
مکحول تابعی فرماتے ہیں: میں مصر میں بنی ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا تو میں مصر سے نہ نکلا مگر جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل کر کے۔ پھر میں حجاز میں آیا، اور اس وقت تک وہاں سے باہر نہ گیا جب تک میری دانست میں وہاں کے سارے علم پر حاوی نہ ہو گیا۔ پھر میں عراق میں آیا تو وہاں سے نہ نکلا مگر میری دانست میں جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل کرکے۔ پھر میں شام میں آیا اور اسے (حصول علم کی خاطر) کھنگال ڈالا۔
اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
31. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَدِيثٌ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ اللهَ لَيَكْتُبُ لِعَبْدِهِ الْـمُؤْمِنِ بِالْحَسَنَةِ الْوَاحِدَةِ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ». فَحَجَجْتُ ذَلِكَ الْعَامَ، وَلَـمْ أَكُنْ أُرِيدُ الْحَجَّ إِلَّا لِلِقَائِهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَأَتَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ، فَحَجَجْتُ الْعَامَ، وَلَـمْ أَكُنْ أُرِيدُ الْحَجَّ إِلَّا لِأَلْقَاكَ، قَالَ: فَمَا هُوَ؟ قُلْتُ: إِنَّ اللهَ لَيَكْتُبُ لِعَبْدِهِ الْـمُؤْمِنَ بِالْحَسَنَةِ الْوَاحِدَةِ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَيْسَ هَكَذَا قُلْتُ، وَلَـمْ يَحْفَظِ الَّذِي حَدَّثَكَ. قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَظَنَنْتُ أَنَّ الْحَدِيثَ قَدْ سَقَطَ قَالَ: إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّ اللهَ لَيُعْطِيَ عَبْدَهُ الْـمُؤْمِنَ بِالْحَسَنَةِ الْوَاحِدَةِ أَلْفَيْ أَلْفِ حَسَنَةٍ، ثُمَّ قَالَ: أَوَ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ تَعَالَى ذَلِكَ قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: لِأَنَّ اللهَ يَقُولُ: ﴿مَّن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنٗا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضۡعَافٗا كَثِيرَةٗ﴾[البقرة، 2: 245] وَالْكَثِيرةُ عِنْدَ اللهِ أَكْثَرُ مِنْ أَلْفَيْ أَلْفٍ، وَأَلْفَيْ ألف.
رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ فِي الرِّحْلَةِ.
أخرجه الخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث؛ وأخرجه الإِمام أحمد في المسند مختصرا وفيه أنه سمع النبي ﷺ يَقُولُ: إِنَّ اللهَ لَيُضَاعِفُ الْحَسَنَةَ أَلْفَيْ أَلْفِ حَسَنَةٍ.
حضرت ابو عثمان نہدی نے بیان کیا کہ ان کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ پہنچی جس میں انہوں نے بیان کیا تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ایک مومن بندے کے لیے ایک نیکی کے بدلے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا۔ میں نے اس سال حج کیا اور میرے حج کرنے کا مقصد صرف ان (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے اس حدیث کے بارے میں ملاقات کرنا تھا، پس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا: اے ابو ہریرہ! مجھے آپ سے ایک حدیث مبارکہ پہنچی ہے، میں نے اس سال حج کیا ہے اور حج سے میرا مقصد صرف آپ سے ملاقات کرنا تھا۔ انہوں نے پوچھا: (ملاقات کی) وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا: (یہ روایت کہ) بے شک اللہ تعالیٰ بندہ مومن کی ایک نیکی کے بدلے میں دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ایسے تو نہیں کہا، جس نے بھی تجھے یہ حدیث بیان کی ہے اس کو یاد نہیں رہا ہو گا، ابو عثمان نے کہا: مجھے گمان تھا کہ حدیث میں سے کچھ عبارت رہ گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کہا تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندہ مومن کی ایک نیکی کے بدلے بیس لاکھ نیکیاں دے گا، پھر فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب میں نہیں ہے؟ میں نے پوچھا: کیسے؟ انہوں نے فرمایا: ﴿مَّن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللهَ قَرۡضًا حَسَناً فَيُضَٰعِفَهُ لَهُٓ أَضۡعَافٗا كَثِيرَةً﴾ ’کون ہے جو الله کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا‘ اللہ کے ہاں کثیر بیس بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
اسے خطیب بغدادی نے ’الرحلة في طلب الحدیث‘ میں روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved