إِنَّ الْأَصْلَ فِي الرِّحْلَةِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ رِحْلَةُ نَبِيِّ اللهِ مُوسَى علیه السلام إِلَى الْخَضِرِ، وَقَدْ ذَكَرَ اللهُ تَعَالَى هَذِهِ الرِّحْلَةَ فِي سُوْرَةِ الْكَهْفِ:
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤی اَبْلُغَ
مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا
نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا فَلَمَّا جَاوَزَا
قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ؗ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَی الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ
ؗ وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ
فِی الْبَحْرِ ۖۗ عَجَبًا قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِهِمَا
قَصَصًاۙ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا
وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا قَالَ لَهٗ مُوْسٰی هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤی
اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
[الكهف، 18: 60-66]
حصول علم کے لیے سفر کرنے کی اصل (بنیاد) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سفر سے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سفر کو سورۃ الکہف میں یوں بیان فرمایا ہے:
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے:) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے (جواں سال ساتھی اور) خادم (یوشع بن نون علیہ السلام) سے کہا: میں (پیچھے) نہیں ہٹ سکتا یہاں تک کہ میں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ تک پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں۔ سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے درمیان سنگم پر پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زندہ ہوکر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔ پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے (تو) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا: ہمارا کھانا ہمارے پاس لاؤ بیشک ہم نے اپنے اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا کیا ہے۔ (خادم نے) کہا: کیا آپ نے دیکھا جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا تھا، اور مجھے یہ کسی نے نہیں بھلایا سوائے شیطان کے کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں، اور اس (مچھلی) نے تو (زندہ ہوکر) دریا میں عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا (اور وہ غائب ہو گئی تھی)۔ موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہی وہ (مقام) ہے ہم جسے تلاش کر رہے تھے، پس دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر (وہی راستہ) تلاش کرتے ہوئے (اسی مقام پر) واپس پلٹ آئے۔ تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علم لدنی (یعنی اسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھا۔ اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved