100/1. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِیْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ یَقُوْلُ: اَلسَّـلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب (6)، 5/593، الرقم: 3626، والدارمی في السنن، (4) باب ما أکرم اﷲ به نبیه من إیمان الشجر به والبهائم والجن، 1/31، الرقم: 21، والحاکم في المستدرک، 2/677، الرقم: 4238، والمقدسی في الأحادیث المختارة، 2/134، الرقم: 502، والمنذری في الترغیب والترهیب، 2/150، الرقم: 1880، والمزي في تهذیب الکمال، 14/175، الرقم: 3103، والجرجانی في تاریخ جرجان، 1/329، الرقم: 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ۔‘‘
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے: یہ حدیث حسن ہے جبکہ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
101/2. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْطَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلٰی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَیْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَیْهِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتّٰی جَاءَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ: هَذَا سَیِّدُ الْعَالَمِیْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَبْعَثُهُ ﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِیْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا یَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهٖ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْیَةِ الإِبِلِ، قَالَ: أَرْسِلُوْا إِلَیْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَیْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلٰی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَیْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَیْهِ… قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَیُّکُمْ وَلِیُّهُ؟ قَالُوْا: أَبُوْ طَالِبٍ. فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُهُ حَتّٰی رَدَّهُ أَبُوْ طَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّیْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في نبوة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 5/590، الرقم: 3620، وابن أبی شیبة في المصنف، 6/317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1/42، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/45، الرقم: 19، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1/519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آپہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved