94/1. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِیْنَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَبَیْنَا هُوَ یَخْطُبُ یَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ ﷲَ یَسْقِیْنَا فَمَدَّ یَدَیْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِیْحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِیَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتَّی أَتَیْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَیْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَیْرُهُ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، تَهَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ فَادْعُ ﷲَ یَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِیْنَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِیْلٌ.
وَفِيَ رِوَایَةٍ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَحَطَ الْمَطَرُ وَاحْمَرَّتِ الشَّجَرُ وَهَلَکَتِ الْبَهَائِمُ.
وَفِي رِوَایةٍ: وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ
وَفِي رَوَایَةٍ: فَمَا یُشِیْرُ بِیَدِهٖ إِلَی نَاحِیَةٍ مِنَ السَّمَاءِ إِلاَّ تَفَرَّجَتْ حَتَّی صَارَتِ الْمَدْیِنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ حتَّی سَالَ الْوَادِي قَنَاةُ، شَھْرًا.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/1313، الرقم: 3389، وفي کتاب الاستسقاء، باب الدعاء اذا کثر المطر، 1/ 346، الرقم: 975، وأیضا في کتاب الاستسقاء، باب الاستسقاء في الخطبة، 1/315، الرقم: 891، و مسلم في الصحیح، کتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، 2/614، الرقم: 897، وأبو داود في السنن، کتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع الیدین في الاستسقاء، 1/304، الرقم: 1174، والبخاري في الأدب المفرد، 1/214، الرقم: 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/95، الرقم: 2601، وفي الدعاء، 1/ 596-597، الرقم: 2179.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘
’’ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بارش رک گئی۔ درخت سوکھ گئے اور جانور ہلاک ہوگئے۔‘‘
’’دوسری روایت میں ہے کہ (کثرتِ بارش کے سبب) لوگوں نے عرض کیا: راستے منقطع ہوگئے ہیں۔‘‘
’’ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سمت میں ہاتھ سے اشارہ فرماتے تھے بادل پھٹ کر اسی طرف چلا جاتا تھا، بالآخر چاروں طرف بارش ہوتی رہی اور مدینہ درمیان میں ٹکی کی طرح رہ گیا اور ایک ماہ تک قنات نامی نالہ بہتا رہا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved