93/1. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه، قَالَ: احْتُبِسَ عَنَّا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتّٰی کِدْنَا نَتَرَاءَ عَیْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ سَرِیْعًا فَثَوَّبَ بِالصَّلاَةِ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ وَتَجَوَّزَ فِيْ صَلاَتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِهٖ فَقَالَ لَنَا عَلَی مَصَافِّکُمْ کَمَا أَنْتُمْ ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَیْنَا ثُمَّ قَالَ: أَمَّا إِنِّي سَأُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْکُمُ الْغَدَاةَ: إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَ صَلَّیْتُ مَاقُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَا تِي فَاسْتَثْقَلْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی فِي أَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ. قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ: فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَاءُ الْأَعْلَی؟ قُلْتُ: لَاأَدْرِي رَبِّ. قَالَهَا ثَـلَاثًا. قَالَ: فَرَأَیْتُهُ وَضَعَ کَفَّهُ بَیْنَ کَتِفَيَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهٖ بَیْنَ ثَدَیَّي فَتَجَلَّی لِي کُلُّ شَيئٍ وَ عَرَفْتُ.
و في روایته عن عبدالرحمن بن عائش و ابن عباسٍ: فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوٰتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ: فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: فِي الْکَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قُلْتُ: مَشْيُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْحَسَنَاتِ وَالْجُلُوْسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْد الصَّلٰوتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوئِ حِیْنَ الْکَرِیْهَاتِ، قَالَ ثُمَّ فِیْمَ؟ قُلْتُ فِي الدَّرَجَاتِ قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَلِیْنُ الْکَلَاَمِ وَالصَّلاَةِ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ثُمَّ قَالَ: سَلْ قُلْ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَأَنْ تَغَفِرَلِي وَتَرْحَمَنِيْ وَإذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، وَأَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلِ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ: إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوْهَا ثُمَّ تَعَلِّمُوْهَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبْرَانِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب تفسیر سورة ص، 2/155، الرقم: 3235، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/243، الرقم: 22162، والطبراني في المعجم الکبیر، 1/317، الرقم: 938، وأیضا، 8/322، الرقم: 8207، وأیضا، 20/109، الرقم:216، وأیضا، 20/141، الرقم:290، والحاکم في المستدرک، 1/521.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ صبح کی نماز کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیر ہوگئی اور ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار اس حد تک کیا کہ قریب تھا کہ آفتاب کی شعاع نظر آنے لگے۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیزی سے تشریف لائے۔ چنانچہ تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختصار سے نماز پڑھائی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا جس طرح تم بیٹھتے ہو اسی طرح صف بندی کئے ہوئے بیٹھے رہو۔ پھر فرمایا اپنی تاخیر کا واقعہ تم کو سنا تا ہوں، پھر واقعہ سنایا۔ (واقعہ یہ ہے:) رات کے وقت وضو کرکے جس قدر نماز میرے لئے مقدر تھی میں نے پڑھی، اس کے بعد مجھ کو نیند آگئی اور میں نماز ہی میں سوگیا۔ یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوں! جو بڑے حسین صورت میں جلوہ فرما ہے۔ پس اللہ تعالی نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کی: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اس وقت ملائکہ آسمانی کیا گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی: مجھے معلوم نہیں۔ تین مرتبہ یہی ارشاد ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے سینہ پر رکھا حتی کہ میں نے اسکی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان محسوس کی: پس ہر چیز مجھے پر روشن ہوگئی اور میں نے ہر چیز کو پہچان لیا۔‘‘
عبدالرحمٰن بن عائش اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا مجھے اس کا علم ہوگیا۔ پھر ارشاد ہوا: اے محمد! میں نے عرض کی: اے میرے رب! حاضر ہوں فرمایا (اب بتائو) ملائکہ کیا گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ کفارات کے متعلق ذکر ہو رہا ہے۔ فرمان ہوا۔ وہ (کفارات) کیا ہیں؟ میں نے عرض کی: جماعت کی نماز کے لئے قدم بڑھانا اور نمازوں کے بعد مساجد میں بیٹھنا اور باوجود دشواری کے کامل وضو کرنا، فرمایا: اور کس چیز کا ذکر ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کی: (جنت میں)درجات عالیہ کا۔ ارشاد ہوا وہ کیا ہیں؟ میں نے عرض کی: (غرباء اور مساکین) کو کھانا کھلانا اور نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور نماز پڑھنا، جس وقت کہ لوگ محوِ استراحت ہوں۔ ارشاد ہوا! کچھ مانگو، میں نے یہ دعا کی: ’’اے اللہ میں تجھ سے نیک کام کرنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق مانگتا ہوں اور مساکین کی صحبت مانگتا ہوں اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پہ رحم فرما۔ اور جب تو کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ فرمائے تو مجھے اس عذاب میں مبتلا ہونے سے بچا کر موت دے دے اور میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس عمل سے محبت جو تیری محبت کے قرب میں پہنچانے کا سبب بنے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میرا یہ خواب) سچا ہے یعنی (یہ واقعہ سچا ہے) اس دعا کو یاد کر لو اور لوگو کو سکھلاؤ۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved