91/1. عَنْ عَائِشَهَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: کُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ: لَا یَمُوْتُ نَبِيٌّ حَتَّی یُخَیَّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ فِيْ مَرَضِهٖ الَّذِي مَاتَ فِیْهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ یَقُوْلُ: {مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ …} آلایة، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُیِّر.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلی الله علیه وآله وسلم ووفاته، 2/638، الرقم:4171، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب في فضل عائشة رضي اللّٰه تعالی عنھا، 2/286 الرقم:2444، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ذکر مرض رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، 6/117، الرقم:1620، ومالک في الموطأ، 2:117 الرقم:47، والهندي في کنز العمال، 11/47666، الرقم:32243.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں: میں سنا کرتی تھی کہ کسی نبی کا اس وقت تک انتقال نہیں ہوتا جب تک اسے دنیا و آخرت دونوں میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار نہیں دے دیا جاتا۔ چنانچہ مرضِ و فات میں - جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلق مبارک میں کوئی چیز اٹکی ہوئی معلوم ہوتی تھی - میں نے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲُ عَلَیْهِمْ…} تو میں سمجھ گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (موت کے مسئلہ پر) اختیار دے دیا گیا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
92/2. عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ فِي رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ وَهُوَ صَحِیْحٌ: لَنْ یُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتّٰی یَریٰ مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ یُخَیَّرُ فَلَمَّا نَزَلَ بِهٖ وَرَأْسُهُ عَلٰی فَخِذِي غُشِيَ عَلَیْهِ سَاعَةً ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلٰی السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ: اَللَّهُمَّ الرَّفِیْقَ الْأَعْلٰی قُلْتُ: إِذًا لَا یَخْتَارُنَا وَعَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَدِیْثُ الَّذِي کَانَ یُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِیْحٌ قَالَتْ: فَکَانَتْ تِلْکَ آخِرَ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَ بِهَا: اَللَّهُمَّ الرَّفِیْقَ الْأَعْلٰی.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب دعاء النبي صلی الله علیه وآله وسلم: اللهم الرفیق الأعلٰی، 5/2337، الرقم: 5988، وأیضًا في کتاب الرقاق، باب من أحب لقاءﷲ أحب ﷲ لقاءه، 5/2387، الرقم: 6144، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب في فضل عائشة رضي ﷲ عنها، 4/1894، الرقم: 2444، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/89، الرقم: 24627، والطبراني في مسند الشامیین، 4/195، الرقم: 3087، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 2/229، والربعي في وصایا العلماء، 1/28، والعسقلاني في فتح الباري، 8/137، الرقم: 4171، والعیني في عمدة القاري، 18/64، الرقم: 427.
’’امام ابن شہاب کا بیان ہے کہ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما نے مجھے اہل علم کے مجمع میں بتایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ تندرستی کی حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: کسی نبی کی اُس وقت تک روح قبض نہیں کی گئی یہاں تک کہ اسے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا نہ دیا گیا اور پھر اُسے اختیار دیا گیا (کہ وہ اس دنیا میں رہنا چاہے یا وصال الٰہی اختیار کرے)۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گھڑی بھر بے ہوشی طاری رہی جب افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھت کی طرف دیکھا اور کہا: اے اللہ! اے رفیق اعلیٰ۔ میں عرض گزار ہوئی: (یا رسول اﷲ!) کیا آپ ہمیں پسند نہیں فرماتے (یعنی مزید ہمارے درمیان جلوہ افروز نہیں رہنا چاہتے) اور میں جان گئی کہ یہ وہی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے فرمایا کرتے تھے اور وہ صحیح ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو آخری کلام فرمایا وہ یہی ہے: اے اللہ! اے رفیق اعلیٰ۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved