58/1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ فِي الْجَنَّةِ، لَمْ یُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ مَا صُدِّقْتُ. وَإِنَّ مِنَ الْأَنبِیَاءِ نَبِیًّا مَا یُصَدِّقُهُ مِنْ أُمَّتِهٖ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَبُو یَعْلَی.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب في قول النبي صلی الله علیه وآله وسلم: أنا أوّل الناس یشفع في الجنة، 1/188، الرقم: 196، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/140، الرقم: 12419، وابن أبی شیبة في المصنف، 6/304، الرقم: 31651، وأبو یعلی في المسند، 7/51، الرقم: 3968، وابن منده في الإیمان، 2/855، الرقم: 886، والبیهقی في شعب الإیمان، 1/284.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے میں جنت میں شفاعت کروں گا، انبیائے کرام میں سے کسی بھی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری تصدیق کی گئی ہے۔ انبیاء میں بعض نبی ایسے بھی ہیں کہ ان کی امت میں سے ایک شخص کے علاوہ اور کسی نے ان کی تصدیق نہیں کی۔‘‘
اس حدیث کوامام مسلم، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
59/2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَأَجِدُ النَّبِيَّ یَمُرُّ مَعَهُ الْأُمَّةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ مَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ مَعَهُ الْعَشَرَةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ مَعَهُ الْخَمْسَةُ، وَالنَّبِيُّ یَمُرُّ وَحْدَهُ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِیْرٌ، قُلْتُ: یَا جِبْرِیْلُ، هَؤُلَاءِ اُمَّتِي؟ قَالَ: لَا، وَلَکِنِ انْظُرْ إِلٰی الْأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِیْرٌ، قَالَ: هَؤُلَاءِ أُمَّتُکَ، وَهَؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ لَا حِسَابَ عَلَیْهِمْ وَلَا عَذَابَ، قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: کَانُوْ لَا یَکْتَوُوْنَ، وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ. فَقَامَ إِلَیْهِ عُکَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: ادْعُ ﷲَ أَنْ یَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: اَللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ. ثُمَّ قَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ: ادْعُ ﷲَ أَنْ یَّجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ: سَبَقَکَ بِهَا عُکَّاشَةُ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب یدخل الجنَّة سبعون أَلفا بغیر حسابٍ، 5/2396، الرقم: 6175، وفي کتاب الطب، باب مَنِ اکْتَوَی أَو کَوَی غیرَهُ، وفضل من لم یَکْتَوِ، 5/2157، الرقم: 5378، وفي کتاب الطب، باب من لَمْ یَرْقِ، 5/2170، الرقم: 5420، وفي کتاب الأنبیاء، باب وفاة موسٰی وذکرِهِ بعدُ، 3/1251، الرقم: 3229، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علٰی دخول طوائف من المسلمین الجنة بغیر حساب ولا عذاب، 1/179۔ 199، الرقم: 216۔ 220، والترمذي في السنن، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، باب (16)، 4/631، الرقم: 2446، والنسائی في السنن الکبٰری، 4/378، الرقم: 7604، وابن حبان في الصحیح، 13/ 447-448، الرقم: 6084، 6430، والدارمي في السنن، 2/422، الرقم: 2807، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/271، الرقم: 2448، وأبو یعلیٰ في المسند، 9/233، الرقم: 5340، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/241، الرقم: 605.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر (تمام) امتیںپیش کی گئیں پس ایک نبی گزرنے لگا اور اس کے ساتھ اس کی امت تھی ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ چند افراد تھے، ایک نبی کے ساتھ دس آدمی، ایک نبی کے ساتھ پانچ آدمی، ایک نبی صرف تنہا، میں نے نظر دوڑائی تو ایک بڑی جماعت نظر آئی میں نے پوچھا: اے جبرئیل! کیا یہ میری امت ہے؟ عرض کیا: نہیں، بلکہ (یا رسول اﷲ!) آپ افق کی جانب توجہ فرمائیں، میں نے دیکھا تو وہ بہت ہی بڑی جماعت تھی۔ عرض کیا: یہ آپ کی امت ہے اور یہ جو ستر ہزار ان کے آگے ہیں ان کے لئے نہ حساب ہے نہ عذاب، میں نے پوچھا: کس وجہ سے؟ انہوں نے کہا: یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، غیر شرعی جھاڑ پھونک نہیں کرتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر (کامل) بھروسہ رکھتے تھے۔ حضرت عکاشہ بن محصن نے رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ، اسے ان لوگوں میں شامل فرما۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: (یا رسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شامل فرمالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
60/3. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا رُبْعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَکَبَّرُوْا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَکَبَّرُوْا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرُوْا. قَالَ: لَا أَدْرِي؟ قَالَ: الثُّلُثَیْنِ أَمْ لَا؟
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَة وَأَحْمَدُ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، 2/146، الرقم: 3168، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، 2/326، الرقم: 4283، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/386، 3/33، 4/432، وأبو عوانة في المسند، 1/89، والحمیدی في المسند، 2/368، الرقم: 831، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10/394.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں امید رکھتا ہوں کہ تم تمام اہلِ جنت میں سے ایک چوتھائی ہو۔ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے فضلِ خداوندی سے امید ہے کہ تم اہلِ جنت میں سے ایک تہائی ہو۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں رحمتِ خداوندی سے پر امید ہوں کہ تم اہلِ جنت میں سے نصف ہو۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ اکبر کہا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو تہائی بھی فرمایا یا نہیں۔‘‘
اس حدیث کوامام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔
61/4. عَنْ بَهْزِ بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ فِي قَوْلِهٖ تَعَالَی: {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} ] آل عمران، 3:110[، قَالَ: إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِیْنَ أُمَّةً، أَنْتُمْ خَیْرُهَا وَأَکْرَمُهَا عَلَی ﷲِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَة وَأَحْمَدُ.وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، باب و من سورةِ آلِ عمران، 5/226، الرقم: 3001، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب صفة أمة محمد صلی الله علیه وآله وسلم، 2/1433، الرقم: 4287-4288، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/61، الرقم: 11604، 4/447، 5/3، والحاکم في المستدرک، 4/94، الرقم: 6987، والبیهقي في السنن الکبریٰ، 9/5، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/419، الرقم: 1012-1023، وعبد بن حمید في المسند، 1/156، الرقم: 411، والرویاني في المسند، 2/115، الرقم: 924، وابن المبارک في الزهد، 1/114، الرقم: 382.
’’حضرت بہز بن حکیم بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمان الٰہی: ’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا: تم ستر (70) اُمتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور معزز ہو۔‘‘
اس حدیث کوامام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے جب کہ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
62/5. عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ رضي ﷲ عنهما عَنْ أَبِیْهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَهْلُ الْجَنَّةِ عِشْرُوْنَ وَمِائَةُ صَفٍّ، ثَمَانُوْنَ مِنْهَا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، وَأَرْبَعُوْنَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَة، وَقَالَ التِّرْمِذِي: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة الجنة، باب ما جاء في کم صَفّ أهل الجنّة، 4/683، الرقم: 2546، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب صفة أمة محمد صلی الله علیه وآله وسلم، 2/1434، الرقم: 4289، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/347، الرقم: 22990، 23052، 23111، والدارمي في السنن، 2/434، الرقم: 2835، وابن حبان في الصحیح، 16/498، الرقم: 7459، والبزار في المسند، 5/368، الرقم: 1999، وابن أبی شیبة في المصنف، 6/315، الرقم: 31713، والحاکم في المستدرک، 1/155، الرقم: 273، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/67، الرقم: 82، في المعجم الأوسط، 2/77، الرقم: 1310، وفي المعجم الکبیر، 10/184، الرقم: 10398، وأبویعلٰیٰ في المعجم، 1/183، الرقم: 211.
’’حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اﷲ عنھما نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے اسی (80) صفیں میری اُمت کی ہوں گی اور باقی تمام امتوں کی صرف چالیس (40) صفیں ہوں گے۔‘‘
اس حدیث کوامام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے جب کہ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved