1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاهُ اﷲُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد، 2 / 713، الرقم : 1922، ومسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان، 2 / 831، الرقم : 1172، وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، 2 / 331، الرقم : 2462، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الاعتکاف، وقال : حديث حسن صحيح، 3 / 157، الرقم : 790.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَوْلُهُ : کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، يُسْتَفَادُ مِنْهُ إنَّ أَوَّلَ الْوَقْتِ الَّذِي يَدْخُلُ فِيْهِ الْمُعْتَکِفُ قُبَيْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَعَلَيْهِ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ،(1) لِأَنَّ الْمَعْلُوْمَ إِنَّهُ کَانَ صلی الله عليه وآله وسلم يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ وَيَحُثُّ الصَّحَابَةَ عَلَيْهِ وَعَدَّهُ الْعَشَرَ عَدَدَ اللَّيَالِي، فَيَدْخُلُ فِيْهِ اللَّيْلَةُ الْأُوْلٰی وَإِلَّا لَا يَتِمُّ هٰذَا الْعَدَدُ أَصْلًا.(2)
(1) العسقلاني، فتح الباري، 4 / 177.
(2) أبو الحسن السندي، حاشية علی سنن النسائی، 2 / 44.
’’راوی کے قول’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اول وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر ائمہ اربعہ اور اہل علم کے ایک طبقہ کا اتفاق ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور دس کا شمار راتوں کی گنتی کے اعتبار سے کیا ہے۔ پس اس میں (عشرہ اخیرہ کی) پہلی رات بھی شامل ہے ورنہ یہ عدد بالکل پورا ہی نہیں ہوتا۔‘‘
2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد کلها، 2 / 713، الرقم : 1921، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 133، الرقم : 6127.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
3. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَه.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح ، کتاب صلاة التراويح، باب العمل في العشر الأواخر من رمضان، 2 / 711، الرقم : 1920، وأبوداود في السنن، کتاب تفريع أبواب شعر رمضان، باب في ليلة القدر، 2 / 50، الرقم : 1376، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في فضل العشر الأواخر من شهر رمضان، 1 / 562، الرقم : 1768.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : جب (آخری) عشرہ شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمر بستہ ہو جاتے، اس میں شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگایا کرتے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، أَحْيَا اللَّيْلَ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ وَجَدَّ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الاجتهاد، باب الاجتهاد في عشر الآواخر من شهر رمضان، 2 / 832، الرقم : 1174، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 40، الرقم : 24177، والنسائي في السنن الکبریٰ، 1 / 421، الرقم : 1334، 2 / 270، الرقم : 3391، وابن حبان في الصحيح، 2 / 223، الرقم : 3437، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 341، الرقم : 2214، وإسحاق بن راهويه في المسند، 3 / 805، الرقم : 1440، والبيهقي في شعب الايمان، 3 / 319، الرقم : 3656.
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ماہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات بھر بیدار رہتے تھے، اپنے اہلِ خانہ کو بھی جگاتے تھے، عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے تھے اور خوب محنت کرتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
5. عَن عَائِشَةَ رضی الله عنها : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
5 : أخرجه مسلم في الصحيح ، کتاب الاعتکاف، باب الاجتهاد في العشر الآواخر من شهر رمضان، 2 / 832، الرقم : 1175، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 255، الرقم : 26231، والترمذي في السنن، باب ما جاء في ليلة القدر، 3 / 161، الرقم : 796، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في فضل العشر الأواخر من شهر رمضان، 1 / 562، الرقم : 1767، والنسائي في السنن الکبریٰ، 2 / 270، الرقم : 3390.
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں جس قدر (عبادت میں) کوشش فرماتے اتنی دوسرے دنوں میں نہ فرماتے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُوْقِظُ أَهْلَهُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 132، الرقم : 1104، والترمذي في السنن، کناب الصوم باب ما جاء في ليلة القدر، 3 / 161، الرقم : 795، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 253، الرقم : 7425، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 253، الرقم : 7703، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 251، الرقم : 8674، وأبو يعلی في المسند، 1 / 243، الرقم : 282، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 401، الرقم : 789، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 251، الرقم : 8674، والبزار في المسند، 2 / 300، الرقم : 724، والطيالسي في المسند، 1 / 18، الرقم : 118، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 60، الرقم : 93.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنے گھر والوں کو (عبادت کے لیے) جگایا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
7. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ. قَالَ نَافِعٌ : وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اﷲِ رضی الله عنه الْمَکَانَ الَّذِي کَانَ يَعْتَکِفُ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمَسْجِدِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاودَ.
7 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان، 2 / 830، الرقم : 1171، وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب أين يکون الاعتکاف، 2 / 332، الرقم : 2465، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في المعتکف يلزم مکانا من المسجد، 1 / 564، الرقم : 1773.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے مسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعْتَکِفُ فِي کُلِّ رَمَضَانَ عَشَرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ اعْتَکَفَ عِشْرِيْنَ يَوْمًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاودَ وَابْنُ مَاجَه .
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأوسط من رمضان، 2 / 719، الرقم : 1939، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 355، الرقم : 8647، وأبو داود في السنن کتاب الصوم، باب أين يکون الاعتکاف، 2 / 332، الرقم : 2466، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الاعتکاف، 1 / 562، الرقم : 1769.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : قَوْلُهُ : فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ اعْتَکَفَ عِشْرِيْنً، قِيْلَ : السَّبَبُ فِي ذٰلِکَ، أَنَّهُ عَلِمَ بِانْقِضَاءِ أَجَلِهِ، فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَکْثِرَ مِنْ أَعْمَالِ الْخَيْرِ لِيُبَيِّنَ لِأُمَّتِهِ الْاِجْتِهَادَ فِي الْعَمَلِ، إِذَا بَلَغُوْا أَقْصَی الْعَمَلِ لِيَلْقَوُ ا اﷲَ عَلَی خَيْرِ أَحْوَالِهِمْ.
العسقلاني في فتح الباري، 4 / 285
’’حافظ ابن حجر عسقلانی (اپنی شرح میں) نقل کرتے ہیں کہ راوی کا یہ کہنا کہ جب وہ سال آیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ پوری ہونے سے باخبر ہوگئے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تاکہ امت کے لئے نیک اعمال میں محنت کو واضح فرما سکیں تاکہ وہ نہایت اعلی اعمال تک پہنچیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے بہترین احوال کے ساتھ ملاقات کریں۔‘‘
9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ يَعْرِضُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الْقُرْآنَ کُلَّ عَامٍ مَرَّةً، فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ، وَکَانَ يَعْتَکِفُ کُلَّ عَامٍ عَشْرًا، فَاعْتَکَفَ عِشْرِيْنَ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاودَ وَابْنُ مَاجَه.
9 : أخرجه البخاري في الصحيح ، کتاب فضائل القرآن، باب کان جبريل يعرض القرآن علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1911، الرقم : 4712، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 336، الرقم : 4816 وأبو داود في السنن، کتاب الصوم باب أين يکون الاعتکاف، 2 / 332، الرقم : 2466، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الاعتکاف، 1 / 562، الرقم : 1769، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 7، الرقم : 7992.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کرتے تھے، جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس سال دو مرتبہ دور کیا۔ اور ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس روز کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔
اس حدیث کو امام بخاری، احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ فِي الْمُعْتَکِفِ : هُوَ يَعْکِفُ الذُّنُوْبَ، وَيُجْرٰی لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّهَا. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّيْلَمِيُّ.
10 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في ثواب الاعتکاف، 1 / 567، الرقم : 1781، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 207، الرقم : 6632، والکناني في مصباح الزجاجه، 2 / 85، الرقم : 643.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا : وہ اپنے آپ کو گناہ سے روک دیتا ہے اور معتکف کے لئے اس شخص کی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں جس نے تمام (عمر) نیکیاں ہی کی ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : لاَ إِعْتِکَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقَِ والطَّبَرَانِيُّ عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَهُ.
11 : أخرجه ابن أبي شيبه في المصنف، 2 / 337، الرقم : 9673، 9676، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 346،347، الرقم : 8009، 8010، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 301، الرقم : 9509.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اعتکاف صرف اس مسجد میں جائز ہے جہاں نماز باجماعت ہوتی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے روایت کیا ہے، جبکہ طبرانی نے اسی طرح کی حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
قَوْلُهُ : وَلَا إِعْتِکَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ أَيْ يَجْمَعُ النَّاسَ لِلْجَمَاعَةِ، قَالَ الشُّمُنِّي : شَرْطُ الْاِعْتِکَافِ مَسْجِدُ الْجَمَاعَةِ وَهُوَ الَّذِيْ لَهُ مُؤَذِّنٌ وَإِمَامٌ وَيُصَلّٰی فِيْهِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ أَوْ بَعْضُهَا بِجَمَاعَةٍ. وَعَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ : لَا يَصِحُّ الْإِعْتِکَافُ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ يُصَلّٰی فِيْهِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ بِجَمَاعَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ. قَالَ ابْنُ الْهُمَامِ : وَصَحَّحَهُ بَعْضُ الْمَشَائِخِ، وَقَالَ قَاضِيْخَانَ : وَفِي رِوَايَةٍ لَا يُصَحَّحُ الْاِعْتِکَافُ عِنْدَهُ إِلَّا فِي الْجَامِعِ، وَهُوَ ظَاهِرُ الْحَدِيْثِ. وَعَنْ أَبِي يُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ يَصِحُّ الِاعْتِکَافُ فِي کُلِّ مَسْجِدٍ وَهُوَ قَوْلُ مَالِکٍ وَالشَّافِعِيُّ.
المُلا علي القاری، مرقاة المفاتيح، 4 / 530.
’’راوی کا قول ہے کہ اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی درست ہے یعنی ایسی مسجد جہاں لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہوتے ہوں۔ شمنی نے کہا : جماعت والی مسجد اعتکاف کے لئے شرط ہے اور اس سے مراد ایسی مسجد ہے جہاں مؤذن اور امام مقرر ہو اور اس میں پانچ وقت کی نمازیں یا کچھ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہوں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے : اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی امام احمد کا قول ہے۔ علامہ ابن ہمام نے کہا : اس کو بعض مشائخ نے صحیح قرار دیا ہے۔ قاضی خان نے کہا : اور ایک روایت میں ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہی درست ہے اور یہی حدیث کا ظاہری معنی ہے۔ اور امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے اور یہی امام مالک اور امام شافعی کا بھی قول ہے۔‘‘
12. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : کُلُّ مَسْجِدٍ لَهُ مُؤَذِّنٌ وَإِمَامٌ، فَالْاِعْتِکَافُ فِيْهِ يَصْلُحُ. رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ.
12 : أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الصيام، باب الاعتکاف، 2 / 200، الرقم : 5.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ مسجد جس کا مؤذن اور امام ہو اس میں اعتکاف کرنا ٹھیک ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔
13. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ رضی الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اِعْتَکَافُ عَشْرٍ فِي رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 128، الرقم : 2888، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 425، الرقم : 3966 . 3967، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 : 96، الرقم : 1649، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 173.
’’(امام زین العابدین) حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما اپنے والدگرامی (حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کرنا دو حج اور دو عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَشٰی فِي حَاجَةِ أَخِيْهِ کَانَ خَيْرًا لَهُ مِنْ اِعْتِکَافِ عَشْرِ سِنِيْنَ. وَمَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اﷲِ عزوجل جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَةَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ.
14 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 220، 221، الرقم : 7326، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 263، الرقم : 3971، وقال : رواه الحاکم وقال : صحيح الإسناد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 192.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے تو یہ عمل اس کے لئے دس سال اعتکاف کرنے سے بہتر ہے اور جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
15. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَمُرُّ بِالْمَرِيْضِ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هُوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْهُ.
وَقَالَ ابْنُ عِيْسٰی : قَالَتْ : إِنْ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعُوْدُ الْمَرِيْضَ، وَهُوَ مُعْتَکِفٌ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
15 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2 / 334، الرقم : 2472، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 4 / 321، الرقم : 8378.
’’اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مریض کے پاس سے اعتکاف کی حالت میں گزرتے تو بغیر ٹھہرے حسبِ معمول گزرتے ہوئے اس کا حال پوچھ لیتے۔ ابن عیسیٰ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مریض کی مزاج پرسی فرما لیا کرتے تھے۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابوداؤد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
قَوْلُهُ : فَيَمُرُّ کَمَا هُوَ الخ. وَالْمَذْهَبُ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ : أَنَّ الْمُعْتَکِفَ لَا يَخْرُجُ لِعِيَادَةِ مَرِيْضٍ، وَلَا لِصَلَاةِ جَنَازَةٍ لِأَنَّهُ لَا ضُرَوْرَةَ إِلَی الْخُرُوْجِ، لِأَنَّ عِيَادَةَ الْمَرِيْضِ لَيْسَتْ مِنَ الْفَرَائِضِ بَلْ مِنَ الْفَضَائِلِ، وَصَلَاةُ الْجَنَازَةِ لَيْسَتْ بِفَرْضٍ عَيْنٍ، بَلْ فَرْضُ کِفَايَةٍ تَسْقُطُ عَنْهُ بِقِيَامِ الْبَاقِيْنَ بِهَا، فَلَا يَجُوْزُ إِبْطَالُ الْاِعْتِکَافِِ لأَجْلِهَا. إِذَا کَانَ خَرَجَ الْمُعْتَکِفُ لِوَجْهٍ مُبَاحٍ کَحَاجَةِ الْإِنْسَانِ أَوْ لِلْجُمُعَةِ ثُمَّ عَادَ مَرِيْضًا أَوْ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ کَانَ خُرُوْجُهُ لِذَلِکَ قَصْدًا، وَذٰلِکَ جَائِزٌ.
الکاساني، بدائع الصنائع، 2 / 114
وَعِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ إِذَا خَرَجَ لِقَضَاءِ الْحَاجَةِ وَاتَّفَقَ لَهُ عِيَادَةُ الْمَرِيْضِ وَالصَّلَاةُ عَلَی الْمَيِّتِ، فَلَمْ يَنْحَرِفْ عَنِ الطَّرِيْقِ وَلَمْ يَقِفْ أَکْثَرَ مِنْ قَدْرِ الصَّلَاةِ لَمْ يَبْطُلِ الْاِعْتِکَافُ، وَإِلَّا بَطَلَ. ذَکَرَهُ الطِّيْبِيُّ.
المُلا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4 / 529
’’راوی کا یہ قول ’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسبِ معمول گزرتے۔۔۔۔ ‘‘اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ معتکف مریض کی عیادت کے لیے نہیں نکلے گا نہ نماز جنازہ کے لئے کیونکہ ان کاموں کے لئے جانے کی شرعی ضرورت نہیں، مریض کی عیادت فرائض میں سے نہیں بلکہ فضائل میں سے ہے، اور نماز جنازہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے کہ دوسروں کی ادائیگی سے ساقط ہو جاتی ہے، پس اس کے لئے اعتکاف توڑنا جائز نہیں۔ جب معتکف کسی جائز سبب سے نکلے جیسے قضائے حاجت یا جمعہ کے لئے پھر اسی دوران مریض کی عیادت کی یا جنازہ پڑھایا بغیر اس کے کہ اس کا جانا فقط اس کے لئے ہو یہ جائز ہے۔‘‘
’’ائمہ اربعہ کے نزدیک جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لئے نکلا اور اتفاقاً مریض کی عیادت کی اور جنازہ پڑھا لیکن راستے سے نہ ہٹا اور نہ نماز پڑھنے کی مقدار ٹھہرا تو اعتکاف باطل نہ ہوا ورنہ باطل ہو گا۔
اسے امام طیبی نے روایت کیا ہے۔‘‘
وَفِي الْعَالَمَغِيْرِيَّةِ : وَلَا يَخْرُجُ لِعِيَادَةِ الْمَرِيْضِ، کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ : وَلَوْ خَرَجَ لِجَنَازَةٍ يَفْسُدُ اِعْتِکَافُهُ وَکَذَا لِصَلَاتِهَا. هَذَا کُلُّهُ فِي الْاِعْتِکَافِ الْوَاجِبِ. أَمَّا فِي النَّفْلِ : فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَخْرُجُ بِعُذْرٍ وَغَيْرِهِ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ، وَفِي التُّحْفَةِ : لَا بَأْسَ فِيْهِ بِأَنْ يَعُوْدَ الْمَرِيْضُ وَيَشْهَدُ الْجَنَازَةَ، کَذَا فِي شَرْحِ النِّقَايَةِ لِلشَّيْخِ أَبِي الْمَکَارِمِ.
الفتاوی الهندية، 1 / 212، 213
’’اور فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے : معتکف مریض کی عیادت کے لئے نہ نکلے۔ اسی طرح بحر الرائق میں بھی ہے : اور اگر کسی کے جنازہ کے لئے نکلا تو اس کا اعتکاف باطل ہو گیا اور اسی طرح نماز جنازہ کے لئے نکلا (تو بھی اعتکاف باطل ہو جائے گا)۔ یہ سب احکام واجب اعتکاف کے لئے ہیں، جہاں تک نفلی اعتکاف کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے باہر نکلے، یہ ظاہر الروایہ میں ہے۔ اور تحفہ میں ہے کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ معتکف مریض کی عیادت کرے اور جنازہ میں شرکت کے لئے چلا جائے۔ اسی طرح شیخ ابو المکارم کی شرح النقایہ میں ہے۔‘‘
16. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ کَانَ إِذَا اعْتَکَفَ، طُرِحَ لَهُ فِرَاشُهُ أَوْ يُوْضَعُ لَهُ سَرِيْرُهُ وَرَاءَ أُسْطُوَانَةِ التَّوْبَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
16 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب المعتکف يلزم مکانا من المسجد، 1 / 564، الرقم : 1774، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 350، الرقم : 2236، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 385، الرقم : 13424، والکناني في مصباح الزجاجه، 2 / 84، الرقم : 641، وقال : هذا إسناد صحيح.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ستونِ توبہ کے پیچھے تخت یا بستر بچھا دیا جاتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من صام صوم رمضان إيمانا واحتسابا، 2 / 672، الرقم : 1802، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 / 523، الرقم : 760، وأبو داود في السنن، أبواب شهر رمضان، باب في قيام شهر رمضان، 2 / 49، الرقم : 1372، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب ثواب من قام في رمضان وصامه إيمانا واحتسابا، 4 / 157، الرقم : 2203، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1 / 526، الرقم : 1641.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے شبِ قدر میں حالتِ ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی غرض سے رمضان کے روزے رکھے اُس کے بھی سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَتَاکُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَکٌَ، فَرَضَ اﷲُ عزوجل عَلَيْکُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَتُغْلَقُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَحِيْمِ، وَتُغَلُّ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِيْنِ،ِﷲِ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 230، 385، 424، الرقم : 7148، 8979، 9493، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب فضل شهر رمضان، 4 / 129، الرقم : 2106، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 270، الرقم : 8867، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 175، الرقم : 7383، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 418، الرقم : 1429، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 113، الرقم : 2594، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 301، الرقم : 4600.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس رمضان المبارک کا مہینہ آیا، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے افضل اور بہتر ہے، جو اس کے ثواب سے محروم کر دیا گیا گویا وہ ہر خیر سے محروم کر دیا گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور نسائی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
19. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها : أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلّٰی بِالنَّاسِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ. وَفِيهِ قَالَتْ : فَکَانَ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، وَيَقُولُ : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. قَالَ : فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
19 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصيام، باب من قام رمضان وصامه إيمانا واحتسابا، 4 / 155، الرقم : 2193، وابن حبان فی الصحيح، 6 / 284، الرقم : 2543، وإسحاق بن راهويه فی المسند، 2 / 304، الرقم : 837.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو نماز پڑھنے کے لیے باہر نکلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور حدیث شریف بیان فرمائی حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں کو (تراویح کے لیے) قیام کرنے کی ترغیب دیتے مگر تاکید سے حکم ارشاد نہ فرماتے تھے اور آپ ارشاد فرماتے : جو شخص شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے کھڑا ہو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا اور آپ کا حکم جوں کا توں برقرار رہا۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ مَالِکٍ رضی الله عنه، أَنَّهُ سَمِعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُوْلُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهُ. أَوْ مَا شَاءَ اﷲُ مِنْ ذٰلِکَ. فَکَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ يَبْلُغُوْا مِنَ الْعَمَلِ، مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُوْلِ الْعُمْرِ، فَأَعْطَاهُ اﷲُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شهْرٍ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَيْهَقِيُّ.
20 : أخرجه مالک في الموطأ، کتاب الاعتکاف، باب ما جاء في ليلة القدر، 1 / 321، الرقم : 698، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 323، الرقم : 3667، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 65، الرقم : 1508.
’’امام مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ثقہ (یعنی قابل اعتماد) اہلِ علم کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں یا اس بارے میں جو اﷲ تعالیٰ نے چاہا دکھایا۔ تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (سابقہ امتوں کے مقابلے میں) اپنی امت کی کم عمروں کا خیال کرتے ہوئے سوچا کہ کیا میری امت اس قدر نیک اعمال کر سکے گی جس قدر دوسری امتوں کے لوگوں نے طوالتِ عمر کے باعث کئے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ قدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مالک اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه ، قَالَ : دَخَلَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ، وَفِيْهِ لَيْلًةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ کُلَّهُ، وَلاَ يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلاَّ مَحْرُوْمٌ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
21 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1 / 526، الرقم : 1644، والطبراني في الأوسط، 2 / 119، الرقم : 1444، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 60، الرقم : 1491، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 61، الرقم : 604.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس یہ (مبارک) مہینہ آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو اس سے محروم کر دیا گیا تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم کر دیا گیا، اور اس کی بھلائی سے کسی کو محروم نہیں کیا جاتا مگر صرف وہ شخص جو اصلاً محروم ہے۔‘‘‘
اسے امام ابن ماجہ نے اسناد حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔
22. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ عزوجل وَهَبَ لِأُمَّتِي لَيْلَةَ الْقَدْرِ وَلَمْ يُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ..
22 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 173، الرقم : 647، وذکره السيوطي في تنوير الحوالک، 1 / 237، والزرقانی في الشرح علی موطأ الإمام مالک، 2 / 293، والمناوي في فيض القدير، 2 / 269.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی ہے، اس سے پہلے کسی امت کو یہ عطا نہیں فرمائی۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ، مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2 / 710، الرقم : 1913، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 828، الرقم : 1169، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في ليلة القدر، 3 / 158، الرقم : 792.
’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
24. عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رضی الله عنه قَالَ : رَأی رَجُلٌ أَنَّ لَيْلَةَ الْقَدْرِ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرٰی رُؤْيَاکُمْ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ. فَاطْلُبُوهَا فِي الْوِتْرِ مِنْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَيْهَقِيُّ.
24 : أخرجه مسلم في الصحيح ، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 823، الرقم : 1165، وأبو يعلی في المسند، 9 / 293، الرقم : 5419، والبيهقي في السنن، 4 / 308، الرقم : 8313.
’’حضرت سالم اپنے والد گرامی (حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رمضان کی ستائیسویں شب میں لیلۃ القدر کو خواب میں دیکھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب آخری دس دنوں کے بارے میں ہے۔ پس تم لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
25. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما : أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أُرُوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْمَنَامِ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرٰی رُؤْيَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّيْهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
25 : أخرجه البخاري في الصحيح ، کتاب الصوم، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : إذا رأيتم الهلال فصوموا وإذا رأيتموه فأفطروا، 2 / 709، الرقم : 1911، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 822، الرقم : 1165، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 17، الرقم : 4671، ومالک في الموطأ، کتاب الاعتکاف، باب ما جاء في ليلة القدر، 1 / 321، الرقم : 697، والنسائي في السنن الکبریٰ، کتاب الاعتکاف، باب التماس ليلة القدر في التسع والسبع والخمس، 2 / 272، الرقم : 3399.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ کو (رمضان کی) آخری سات راتوں میں خواب میں شبِ قدر دکھائی گئی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہو گئے ہیں، لہٰذا جو تم میں سے اسے تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
26. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاودَ.
26 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 823، الرقم : 1165، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 113، الرقم : 5932، وأبوداود في السنن کتاب الصلاة، باب من روی في السبع الأواخر، 2 / 53، الرقم : 1385، ومالک في المؤطأ کتاب الاعتکاف، باب ما جاء في ليلة القدر، 1 / 320، الرقم : 694.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ قدر کو رمضان المبارک کی آخری سات راتوں میں تلاش کیا کرو۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
قَوْلُهُ صلی الله عليه وآله وسلم : فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ. قَالَ التُّوْربَشْتِيُّ : اَلسَّبْعُ الْأَوَاخِرُ يَحْتَمِلُ أَنْ يُرَادَ بِهَا السَّبْعُ الَّتِي تَلِي آخِرَ الشَّهْرِ، وَأَنْ يُرَادَ بِهَا السَّبْعُ بَعْدَ الْعِشْرِيْنَ، وَحَمْلُهُ عَلَی هَذَا أَمْثَلُ لِتَنَاوُلِهِ إِحْدَی وَعِشْرِيْنَ وَثَلَاثاً وَعِشْرِيْنَ. قُلْتُ : وَلِتَحَقُّقِ هَذَا السَّبْعِ يَقِيْنًا وَابْتِدَاءً فَخِلَافُ ذَاکَ، وَإِنْ کَانَ بِحَسْبِ الظَّاهِرِ هُوَ الْمُتَبَادِرُ، وَاﷲُ أَعْلَمُ بِالسَّرَائِرِ. وَقَوْلُهُ صلی الله عليه وآله وسلم : فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ. لَا يُنَافِي قَوْلَهُ : فَالْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ. لِأَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُحَدِّثْ بِمِيْقَاتِهَا مَجْزُوْمًا، فَذَهَبَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ بِمَا سَمِعَهُ وَرَآهُ هُوَ. وَقَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالَّذِيْ عِنْدِي وَاﷲُ أَعْلَمُ. أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُجِيْبُ عَلَی نَحْوِ مَا سُئِلَ عَنْهُ، يُقَالُ لَهُ نَلْتَمِسُهَا فِي لَيْلَةِ کَذَا. فَيَقُوْلُ : إِلْتَمِسُوْهَا فِي لَيْلَةِ کَذَا فَعَلَی هَذَا تَنَوَّعَ کُلُّ فَرِيْقٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَتَبِعَهُ ابْنُ حَجْرٍ وَذَکَرَ مِثْلَ مَا ذُکِرَ، لَکِنْ فِيْهِ أَنَّهُ مَا يَحْفَظُ حَدِيْثًا وَرَدَ بِهَذَا اللَّفْظِ، فَکَيْفَ يُحْمَلُ عَلَيْهِ جَمِيْعُ أَلْفَاظِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ قَالَ التَّوْرْبَشْتِيُّ : وَالذَّاهِبُوْنَ إِلَی سَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ هُمُ الْأَکْثَرُوْنَ وَيَحْتَمِلُ أَنَّ فَرِيْقًا مِنْهُمْ عَلِمَ بِالتَّوْقِيْتِ، وَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فِي الْکَشْفِ عَنْهُ لِمَا کَانَ فِي حُکْمِ اﷲِ الْمُبَالَغَةُ فِي تَعْمِيَتِهَا عَلَی الْعُمُوْمِ، لِئَلَّا يَتَّکِلُوْا وَلْيَزْدَادُوْا جِدَّا وَاجْتِهَادًا فِي طَلَبِهَا، وَلِهَذَا السِّرِّ أُرٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ أُنْسِيَ.
الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4 : 509
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’لیلۃ القدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ کے بارے میں امام توربشتی بیان کرتے ہیں کہ ’’آخری سات راتوں‘‘ میں اس بات کا احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ سات راتیں ہوں جو مہینہ کے آخری حصہ کے ساتھ ملی ہوں۔ اور یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ یہ بیس کے بعد کی سات راتیں ہوں، اور اس کو اس معنی پر محمول کرنا زیادہ افضل ہے کیونکہ اس میں اکیسویں اور تیسویں رات بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اور اگر آپ اس سات کے عدد کو یقینی اور ابتدائی طور پر متحقق کرنا چاہتے ہیں تو یہ اس کے برعکس ہے اگرچہ ظاہر کے مطابق فوری طور پر یہی معنی سمجھ میں آتا ہے اور اﷲ تعالیٰ پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ’’اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے فرمان : ’’اسے آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ کے منافی نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعی طور پر اس رات کے وقت کے بارے میں بیان نہیں فرمایا۔ پس صحابہ نے جس طرح سنا اور دیکھا اس طرح اس کا وقت متعین کر لیا۔ اور امام شافعی نے فرمایا : یہ میرے نزدیک ہے لیکن اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اور وہ یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح کا سوال ہوتا تھا اسی طرح کا جواب عنایت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا جاتا کہ ہم اس کو فلاں رات میں تلاش کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ٹھیک ہے، اسے فلاں رات میں تلاش کرو۔ پس اس بات پر اہل علم کی آراء مختلف ہو گئیں اور حافظ ابن حجر نے بھی ان کی اتباع کی اور وہی کچھ ذکر کیا جو امام شافعی نے ذکر کیا، لیکن اس میں یہ ہے کہ کوئی ایسی حدیث محفوظ نہیں ہے جو ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہو۔ پس اس پر تمام الفاظ نبوت کو کیسے محمول کیا جا سکتا ہے! پھر توربشتی نے کہا کہ ستائیسویں رات کی طرف جانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اور اس چیز کا بھی احتمال ہے کہ کسی گروہ کو اس رات کا صحیح وقت معلوم ہو لیکن انہیں اس کے بارے میں بتانے کی اجازت نہ ہو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے اس کو عموم کے حکم میں رکھنے میں مبالغہ ہے تاکہ لوگ تکیہ کر کے نہ بیٹھ جائیں اور اس کی طلب میں محنت اور مجاہدہ کریں۔ (یہی وجہ ہے کہ یہ رات) اس راز کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھائی گئی اور پھر بھلا دی گئی۔‘‘
27. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ. ثُمَّ اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ فِي قُبَّةٍ تُرْکِيَّةٍ عَلٰی سُدَّتِهَا حَصِيرٌ. قَالَ : فَأَخَذَ الْحَصِيْرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ. ثُمَّ أَطْلَعَ رَأسَهُ فَکَلَّمَ النَّاسَ. فَدَنَوْا مِنْهُ. فَقَالَ : إِنِّي اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ. أَلْتَمِسُ هٰذِهِ اللَّيْلَةَ. ثُمَّ اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ. ثُمَّ أُتِيتُ. فَقِيلَ لِي : إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ. فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يَعْتَکِفَ فَلْيَعْتَکِفْ. فَاعْتَکَفَ النَّاسُ مَعَهُ. قَالَ : وَإِنِّي أُرِيْتُهَا لَيْلَةَ وِتْرٍ، وَإِنِّي أَسْجُدُ صَبِيحَتَهَا فِي طِيْنٍ وَمَاءٍ، فَأَصْبَحَ مِنْ لَيْلَةِ إِحْدٰی وَعِشْرِيْنَ، وَقَدْ قَامَ إِلَی الصُّبْحِ. فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ. فَوَکَفَ الْمَسْجِدُ. فَأَبْصَرْتُ الطِّيْنَ وَالْمَاءَ. فَخَرَجَ حِيْنَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَجَبِينُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِيْهِمَا الطِّيْنُ وَالْمَاءُ. وَإِذَا هِيَ لَيْلَةُ إِحْدٰي وَعِشْرِيْنَ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
27 : أخرجه مسلم في الصحيح ، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 825، الرقم : 1167، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 321، الرقم : 2171، وابن حبان في الصحيح، 8 / 440، الرقم : 3684.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، پھر ایک ترکی خیمہ میں رمضان المبارک کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا، جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے وہ چٹائی ہٹائی اور خیمہ کے ایک کونے میں کر دی، پھر خیمہ سے سر باہر نکالا اور لوگوں سے مخاطب ہوئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) بھیجا گیا، تو مجھے کہا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے، تم میں سے جو شخص اعتکاف بیٹھنا چاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے شبِ قدر طاق رات میں دکھائی گئی اور میں شبِ قدر کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا تھا۔ اکیسویں شب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات بھر قیام کیا، صبح کے وقت بارش ہوئی اور مسجد سے پانی ٹپکا اور میں نے پانی اور مٹی دیکھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہو کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس پیشانی اور ناک مبارک کی چوٹی دونوں میں مٹی اور پانی کے آثار تھے اور یہ آخری عشرہ کی اکیسویں رات تھی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أُنَيْسٍ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِيْتُهَا. وَأَرَانِي صُبْحَهَا أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِيْنٍ، قَالَ : فَمُطِرْنَا لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ. فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَانْصَرَفَ وَإِنَّ أَثَرَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ عَلٰی جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ. قَالَ : وَکَانَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ أُنَيْسٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
28 : أخرجه مسلم في الصحيح ، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 827، الرقم : 1168، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 495، الرقم : 16088.
’’حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے شبِ قدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی، پھر میں نے خواب دیکھا کہ میں شبِ قدر کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ حضرت ابن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تئیسویں شب بارش ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس پیشانی اور ناک مبارک پر پانی اور مٹی کے نشان تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں شب کو شبِ قدر قرار دیتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ زِرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه : أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، فَإِنَّ صَاحِبَنَا سُئِلَ [يَسْأَلُ] عَنْهَا؟ فَقَالَ : مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْهَا، فَقَالَ : رَحِمَ اﷲُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَاﷲِ، لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ. زَادَ مُسَدَّدٌ : وَلٰکِنْ کَرِهَ أَنْ يَتَّکِلُوا أَوْ أَحَبَّ أَنْ لَا يَتَّکِلُوا. ثُمَّ اتَّفَقَا : وَاﷲِ، إِنَّهَا لَفِي رَمَضَانَ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ لَا يَسْتَثْنِي. قُلْتُ : يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنّٰی عَلِمْتَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. قُلْتُ لِزِرٍّ : مَا الْآيَةُ؟ قَالَ : تُصْبِحُ الشَّمْسُ صَبِيْحَةَ تِلْکَ اللَّيْلَةِ مِثْلَ الطَّسْتِ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ حَتّٰی تَرْتَفِعَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاودَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
29 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / ء130، 131، الرقم : 21235، 21238، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في ليلة القدر، 2 / 51، الرقم : 1378، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 332، الرقم : 2193، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 252، الرقم : 700، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 316، الرقم : 9583.
’’حضرتِ زر بن حبیش نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : اے ابو منذر! مجھے شبِ قدر کے متعلق بتائیے کیونکہ جب ہمارے بزرگ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : جو سارا سال قیام کرے گا وہ اسے پالے گا۔ حضرت اُبی بن کعب نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ ابو عبدالرحمن (حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما) پر رحم فرمائے۔ بخدا! وہ بخوبی جانتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان میں ہے۔ مسدد کی روایت میں یہ بھی ہے : ’’لیکن انہوں نے (شبِ قدر کی نشان دہی اس لئے) ناپسند فرمائی کہ لوگ اسی پر اکتفاء نہ کر لیں۔‘‘ حضرت زِر اور مسدد دونوں نے اس پر اتفاق کیا۔ خدا کی قسم! حالانکہ ان کے نزدیک وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہی ہے اور اس میں کوئی اِستثناء نہیں۔ میں عرض گزار ہوا : اے ابو منذر! تم کس بناء پر یہ کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا : اُس دلیل یا نشانی کی بناء پر جانتا ہوں جو ہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے۔ (حضرت عاصم کہتے ہیں : ) میں نے حضرت زِر سے کہا کہ وہ نشانی کیا ہے؟ فرمایا : اس رات کی صبح سورج تھالی کی مانند نکلتا ہے اور کچھ بلند ہونے تک اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابوداؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
30. عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی الله عنه فَقُلْتُ : إِنَّ أَخَاکَ ابْنَ مَسْعُودٍ رضی الله عنه يَقُولُ : مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ. فَقَالَ : رَحِمَهُ اﷲُ أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّکِلَ النَّاسُ. أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ. ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي، أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ. فَقُلْتُ : بِأَيِّ شَيْئٍ تَقُوْلُ ذٰلِکَ، يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟ قَالَ : بِالْعَلَامَةِ، أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ، لَا شُعَاعَ لَهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
30 : أخرجه مسلم في الصحيح ، کتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها وبيان محلها وأرجی أوقات طلبها، 2 / 828، الرقم : 762.
’’حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ (جو اکابر تابعین میں سے تھے) بیان کرتے ہیں : میں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما سے کہا : آپ کے بھائی عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو شخص سال بھر قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کو پالے گا۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، ان کا ارادہ یہ تھا کہ کہیں لوگ ایک رات پر ہی تکیہ نہ کر لیں، ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک میں ہے اور رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہے اور اَغلباً طور پر وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے۔ پھر انہوں نے بغیر استثناء کے قسم کھا کر کہا : لیلۃ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہی ہے۔ میں نے کہا : اے ابو المنذر! تم یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : اُس دلیل یا اس نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس رات کے بعد جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
31. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فِي تَاسِعَةٍ تَبْقٰی، فِي سَابِعَةٍ تَبْقٰی، فِي خَامِسَةٍ تَبْقٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
31 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب التماس ليلة القدر في السبع الأواخر، 2 / 711، الرقم : 1917.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ شبِ قدر باقی بچنے والی راتوں میں سے نویں رات میں ہے یا ساتویں رات میں یا پانچویں رات میں۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ رضی الله عنه، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ : ذُکِرَتْ لَيْلَةُ الْقَدْرِ عِنْدَ أَبِي بَکْرَةَ، فَقَالَ : مَا أَنَا مُلْتَمِسُهَا لِشَيْئٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، إِلَّا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : الْتَمِسُوْهَا فِي تِسْعٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ فِي سَبْعٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ فِي خَمْسٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ فِي ثَلَاثِ أَوَاخِرِ لَيْلَةٍ.
قَالَ : وَکَانَ أَبُو بَکْرَةَ يُصَلِّي فِي الْعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ، کَصَلَاتِهِ فِي سَائِرِ السَّنَةِ، فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ اجْتَهَدَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ : وَقَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
32 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 40، الرقم : 20433، والترمذي في السنن، باب ما جاء في ليلة القدر، 3 / 160، الرقم : 794، والنسائي في السنن الکبریٰ، کتاب الاعتکاف، باب التماس ليلة القدر لآخر ليلة، 2 / 273، الرقم : 3404.
’’حضرت عیینہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں اُن کے والد گرامی (حضرت عبد الرحمن بن جوشن رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے پاس لیلۃ القدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : میں اسے رمضان کے آخری عشرہ کے سوا کہیں تلاش نہیں کرتا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! شبِ قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہے۔ نیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : لیلۃ القدر کو تلاش کرو، جب (رمضان کی) نو یا سات یا پانچ یا آخری تین راتیں باقی رہ جائیں۔‘‘
’’عبدالرحمن کہتے ہیں : ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رمضان کے پہلے بیس دنوں میں عام دنوں کی طرح نماز پڑھتے، جب آخری دس دن شروع ہوتے تو عبادت میں خوب مجاہدہ فرماتے۔‘‘
اسے امام احمدبن حنبل، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
33. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اطْلُبُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِن رَمَضَانَ، فِي تِسْعٍ يَبْقَيْنَ، وَسَبْعٍ يَبْقَيْنَ وَخَمِسٍ يَبْقَيْنَ وَثَلَاثٍ يَبْقَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
33 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 71، الرقم : 11697.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری دس راتوں میں تلاش کیا کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں ، جب سات راتیں باقی رہ جائیں، جب پانچ راتیں باقی رہ جائیں اور جب تین راتیں باقی رہ جائیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِِي رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا فِي وَتْرٍ، فِي إِحْدیٰ وَعِشْرِيْنَ، أَوْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ، أَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِيْنَ، أَوْ سَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ، أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ، أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ. فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَاءَ هَا إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
34 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 318، 321، 324، الرقم : 22765، 22793، 22815، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 71، الرقم : 1284، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 65، الرقم : 1507، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 175.176.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں شبِ قدر کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ (رات) ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے گا اور اسے اس کی توفیق عطا کی گئی، اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدبن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَيَقُوْلُ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : وَفِي الْبَابِ : عَنْ عُمَرَ، وَأُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَالْفَلَتَانِ بْنِ عَاصِمٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي سَعِيْدٍ، وَعَبْدِ اﷲِ بْنِ أُنَيْسٍ، وَأَبِي بَکْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَبِلَالٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنهم.
وَقَوْلُهَا : يُجَاوِرُ : يَعْنِي يَعْتَکِفُ، وَأَکْثَرُ الرِّوَايَاتِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ : الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي کُلِّ وِتْرٍ. وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، أَنَّهَا لَيْلَةُ إِحْدٰی وَعِشْرِينَ، وَلَيْلَةُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، وَخَمْسٍ وَعِشْرِينَ، وَسَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَتِسْعٍ وَعِشْرِينَ وَآخِرُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ الشَّافِعِيُّ : کَأَنَّ هٰذَا عِنْدِي، وَاﷲُ أَعْلَمُ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُجِيْبُ عَلٰی نَحْوِ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ، يُقَالُ لَهُ : نَلْتَمِسُهَا فِي لَيْلَةِ کَذَا، فَيَقُولُ : الْتَمِسُوْهَا فِي لَيْلَةِ کَذَا. قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَأَقْوَی الرِّوَايَاتِ عِنْدِي فِيْهَا، لَيْلَةُ إِحْدٰی وَعِشْرِينَ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، أَنَّهُ کَانَ يَحْلِفُ أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَيَقُولُ : أَخْبَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَلَامَتِهَا، فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، أَنَّهُ قَالَ : لَيْلَةُ الْقَدْرِ تَنْتَقِلُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ. حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ : بِهٰذَا.
35 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب التماس ليلة القدر في السبع الأوخر، 2 / 710، الرقم : 1916، والترمذي في السنن، باب ما جاء في ليلة القدر، 3 / 159، الرقم : 792.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے اور ارشاد فرماتے : رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : اس باب میں حضرت عمر، ابی بن کعب، جابر بن سمرہ، جابر بن عبد اللہ، ابن عمر، فلتان بن عاصم، انس، ابو سعید، عبد اللہ بن انیس، ابوبکرہ، ابن عباس، بلال اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے بھی روایات مذکور ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ يُجَاوِرُ کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف بیٹھتے۔ اکثر روایات میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے (یعنی لیلۃ القدر کو) رمضان شریف کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ وہ اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں یا آخری رات ہے۔
امام ترمذی نے کہا کہ امام شافعی فرماتے ہیں : میرے نزدیک یہی ہے، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کے مطابق جواب دیتے تھے، عرض کیا جاتا : ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : فلاں رات میں تلاش کرو۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک اکیسویں رات کی روایت زیادہ قوی ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ فرماتے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس کی نشانی بتائی، ہم نے اسے شمار کیا اور یاد رکھا۔ ابوقلابہ فرماتے ہیں : لیلۃ القدر آخری دس راتوں میں پھرتی رہتی ہے۔ عبد بن حمید نے عبدالرزاق، معمر اور ایوب کے واسطہ سے ابوقلابہ سے اس طرح بیان کیا ہے۔
36. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، قَالَ : لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاودَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
36 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب من قال سبع وعشرين، 2 / 53، الرقم : 1386، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 349، الرقم : 814، وابن حبان في الصحيح، 8 / 436، الرقم : 3680، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 3 / 93، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 4 / 312، الرقم : 8338.
’’حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔‘‘
اسے امام ابوداؤد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
37. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما، قالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کَانَ مُتَحَرِّيْهَا فَلْيَتَحَرَّهَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِْينَ. وَقالَ : تَحَرَّوْهَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ يَعْنِي : لَيْلَةَ الْقَدْرِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّحَاوِيُّ بإِسْنَادٍ صَحِيح.
37 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 27، الرقم : 4808، والطحاوي في شرح معاني الآثار، کتاب الطلاق، باب الرجل يقول لإمرأته أنت طالق ليلة القدر متی يقع الطلاق، 3 / 91، وابن عبدالبر في التمهيد، 17 / 85.86.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لیلۃ القدر کو تلاش کرنا چاہے، وہ ستائیسویں شب میں تلاش کرے۔ اور کہا : تم شبِ قدر کو ستائیسویں شب میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمدبن حنبل اور طحاوی نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
38. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما : أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اﷲِ، إنِّي شَيْخٌ کَبِيْرٌ عَلِيْلٌ يَشُقُّ عَلَيَّ الْقِيَامُ، فَأمُرْنِي بِلَيْلَةٍ لَعَلَّ اﷲَ يُوَفِّقُنِي فِيْهَا، لِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، قَالَ : عَلَيْکَ بالسَّابِعَةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
38 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 240، الرقم : 2149، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 311، الرقم : 11836، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 332، الرقم : 3688.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں بہت بوڑھا بیمار شخص ہوں، رات کو قیام کرنا مجھ پر گراں گزرتا ہے، مجھے کسی ایک رات کے بارے میں حکم دیجئے، شاید اﷲ تعالیٰ مجھے اس میں شبِ قدر عطا فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ستائیسویں شب کو ضرور قیام کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمدبن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
39. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ حَتّٰی يَنْقَضِيَ شَهْرُ رَمَضَانَ فَقَدْ أَصَابَ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ بِحَظٍّ وَافِرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
39 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 340، الرقم : 3707.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے سارا رمضان مغرب اور عشاء جماعت کے ساتھ پڑھی اس نے شبِ قدر کا وافر حصہ پا لیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
40. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيَّ لَيْلَةٍ لَيْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيْهَا؟ قَالَ : قُولِي : اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 171، الرقم : 25423، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب منه، 5 / 534، الرقم : 3513، وابن ماجه في السنن، کتاب الدعاء، باب الدعاء بالعفو والعافية، 2 / 1265، الرقم : 3850، والحاکم في المستدرک، 1 / 712، الرقم : 1942، وابن راهويه في المسند، 3 / 748، الرقم : 1361، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 339، الرقم : 3701.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! فرمایئے : اگر مجھے شبِ قدر معلوم ہو جائے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہو : اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (یا اللہ! تو بہت سخی اور معاف کرنے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھے معاف فرما دے)۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
41. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : لَوْ عَلِمْتُ أَيَّ لَيْلَةٍ لَيْلَةَ الْقَدْرِ لَکَانَ دُعَائِي فِيْهَا أَنْ أَسْأَلَ اﷲَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
41 : أخرجه النسائي في السنن الکبریٰ، کتاب عمل اليوم واليلة، باب ما يقول إذا واقف ليلة القدر، 6 / 219، الرقم : 10714.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ شبِ قدر کون سی ہے تو اس رات میری دعا یہ ہو گی کہ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور عافیت مانگوں۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved