1. قَالَ بَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ : وَکَانَ الشَّارِعُ يَاتِي قُبُوْرَ الشُّهَدَائِ عِنْدَ رَاسِ الْحَوْلِ فَيَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ، فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ، وَکَانَ ابُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ ث، يَفْعَلُوْنَ ذَالِکَ، وَزَارَ الشَّارِعُ قَبْرَ امِّه، يَوْمَ الْفَتْحِ فِي الْفِ مُقَنَّعٍ ذَکَرَهُ ابْنُ ابِي الدُّنْيَا، وَذَکَرَ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَانَسٍ ث، إِجَازَةَ الزِّيَارَةِ، وَکَانَتْ فَاطِمَةُ رضي اﷲ عنها، تَزُوْرُ قَبْرَ حَمْزَةَ رضی الله عنه کُلَّ جُمُعَةٍ، وَکَانَ عُمَرُ رضی الله عنه يَزُوْرُ قَبْرَ ابِيْهِ فَيَقِفُ عَلَيْهِ وَيَدْعُوْ لَه، وَکَانَتْ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها تَزُوْرُ قَبْرَ اخِيْهَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ وَقَبْرَه بِمَکَّةَ، ذَکَرَه اجْمَعُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ. وَقَالَ ابْنُ حَبِيْبٍ : لَا بَاسَ بِزِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، وَالْجُلُوْسِ إِلَيْهَا، وَالسَّلَامِ عَلَيْهَا عِنْدَ الْمُرُوْرِ بِهَا. وَقَدْ فَعَلَ ذَالِکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . وَسُئِلَ مَالِکٌ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ؟ فَقَالَ : قَدْ کَانَ نُهِيَ عَنْهُ ثُمَّ اذِنَ فِيْهِ. فَلَوْ فَعَلَ ذَالِکَ إِنْسَانٌ وَلَمْ يَقُلْ إِلَّا خَيْرًا لَمْ ارَ بِذَالِکَ بَاسًا. وَقَالَ فِي التَّوْضِيْحِ ايْضًا : وَالْامَّةُ مُجْمَعَةٌ عَلٰی زِيَارَةِ قَبْرِ نَبِينَا صلی الله عليه وآله وسلم ، وَابِي بَکْرٍ، وَعُمَرَ رضي اﷲ عنهما. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ اتَی قَبْرَهُ الْمُکَرَّمَ، فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَتَاهُ. قَالَ بَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ : وَمَعْنَی النَّهْيِ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ إِنَّمَا کَانَ فِي اوَّلِ الْإِسْلَامِ عِنْدَ قُرْبِهِمْ بِعِبَادَةِ الْاوْثَانِ، وَاتِّخَاذِ الْقُبُوْرِ مَسَاجِدَ، فَلَمَّا اسْتَحْکَمَ الْإِسْلَامُ، وَقَوِيَ فِي قُلُوْبِ النَّاسِ، وَامِنَتْ عِبَادَةُ الْقُبُوْرِ، وَالصَّلَاةِ إِلَيْهَا، نُسِخَ النَّهْيُ عَنْ زِيَارَتِهَا لِانَّهَا تُذَکِّرُ الآخِرَةَ وَتُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا.
ذکره بدر الدين العينی في عمدة القاری، 8 / 70
’’علامہ بدر الدین عینی(شارح صحیح بخاری ) زیارتِ قبور کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : شارع اسلام (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہر سال کے شروع میں شہداء کی قبروں پر تشریف لے جاتے اور فرماتے : تم نے جو صبر کیا اُس کی بدولت تم پر سلامتی ہو، اور آخرت کا ٹھکانہ ہی سب سے بہتر ہے. حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت کی اور اِسے ابن ابی الدنیا اور ابن ابی شیبہ نے حضرت علی، حضرت عبد اﷲ بن مسعود اور حضرت انس بن مالک سے زیارتِ قبور کے جواز میں بیان کیا ہے. (اِسی طرح) حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہر جمعہ کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کیا کرتی تھیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد کی قبر پر حاضری دیتے وہاں تھوڑی دیر قیام فرماتے اور اُن کے لیے دعا کرتے. (اِسی طرح) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اپنے بھائی حضرت عبد الرحمٰن کی قبر پر حاضر ہوتیں اور اُن کی قبر مکہ میں تھی. اِن تمام روایات کو امام عبد الرزاق نے بیان کیا ہے. حضرت ابنِ حبیب نے کہا ہے کہ زیارتِ قبور کرنے، ان کے پاس بیٹھنے اور قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں. بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا ہے. امام مالک سے زیارتِ قبور کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : بے شک اس عمل سے پہلے منع کیا گیا تھا پھر اس کی اجازت ہو گئی اگر کوئی انسان یہ عمل کرے اور خیر کے سوا کچھ نہ کہے تو میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا.
’’علامہ بدر الدین عینی اِس کی توضیح میں یہ بھی کہتے ہیں : تمام اُمت کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور، اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کی قبروں کی زیارت کرنے پراتفاق ہے. حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب وہ شہر سے واپس لوٹتے تو سیدھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہوتے اور کہتے یا رسول اﷲ! آپ پر سلام ہو، اے ابو بکر! آپ پر سلام ہو، اے ابا جان! (حضرت عمر) آپ پر سلام ہو.
’’علامہ بدر الدین عینی مزید فرماتے ہیں : زیارت قبور سے منع کرنے کا معنی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کا بتوں کی عبادت اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے زمانہ سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ ممانعت تھی، لیکن جب اسلام مستحکم ہوا اور لوگوں کے دلوں میں راسخ اور مضبوط ہوگیا اور قبروں کی عبادت اور ان کے لیے نماز کا خوف ختم ہوگیا تو پھر زیارتِ قبور کی ممانعت منسوخ ہو گئی کیونکہ دراصل زیارتِ قبور آخرت کی یاد دلاتی ہے اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے.‘‘
2. عَنْ طَاؤُوْسِ : کَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ انْ لَا يَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْمَيتِ سَبْعَةَ ايَامٍ، لِانَّهُمْ يفْتَنُوْنَ وَيحَاسَبُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعَةَ ايَامٍ.
ذکره بدر الدين العينی في عمدة القاری، 8 / 70
’’حضرت طاؤوس رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک میت کی قبر میں آزمائش ہوتی ہے اور ان کا حساب ہوتا ہے.‘‘
3. متاخرین میں حضرت شاہ ولی اﷲ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی نے فتاوی عزیزی میں نہ صرف یہ کہ زیارتِ قبور کو جائز قرار دیا ہے بلکہ زیارتِ قبور کے آداب اور اہلِ قبور سے استمداد کا طریقہ کار بھی بتایا ہے. اِس حوالے سے ان کی عبارت ملاحظہ کریں :
جواب : ہرگاہ کہ برائے زیارتِ قبرے از عوام مومنین برود اوّل پشت بقبلہ، رو بسینۂ میت نما ید و سورۂ فاتحہ یکبار و اخلاص سہ بار و در وقت در آمدن بمقبرہ این الفاظ بگوید السلام علیکم اہل الدیار من المؤمنین والمسلمین یغفر اﷲ لنا ولکم وانا ان شاء اﷲ بکم للاحقون. واگر قبر بزرگے از اولیاء وصلحا باشد روے بسوی سینہ آن بزرگ کردہ بنشیند وبست و یکبار بچہار ضرب سُبُّوحٌ قُدوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ گوید و سورہ اِنَّا اَنْزَلْنٰۃُ سہ باربخواند و دل را از خطرات خلاص کردہ مقابل سینۂ آن بزرگ آرد، برکات روح دردل این زیارت کنندہ خواہند رسید.
شاه عبدالعزيز، فتاوی عزيزی، 1 : 176
جواب : جو شخص بھی کسی عام مومن کی قبرپر چلا جائے تو قبلہ کی طرف پشت کرکے چہرہ میت کے سینے کی طرف کرے. ایک بار سورۂ فاتحہ اور تین بار سورۂ اخلاص پڑھے اور جب قبرستان میں داخل ہو تو یہ الفاظ کہے : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ اَہْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ يَغْفِرُاﷲُ لَنَا وَلَکُمْ وَاِنَّا اِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لَ.لَاحِقُوْنَ. (اے امؤمنین و مسلمین سے تعلق رکھنے والے لوگو! تم پر سلامتی ہو. اﷲتعالیٰ ہماری اور تمہاری بخشش و مغفرت فرمائے. ہم بھی ان شاء اﷲ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں.) اگر وہ قبر اولیاء و صلحاء میں سے کسی بزرگ کی ہو تو اپنا چہرہ اس بزرگ کے سینہ کی طرف کرے اور بیٹھ جائے اور 21 مرتبہ چار ضربوں کے ساتھ ان اسماء مبارکہ کا ورد کرے سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ اور سورہ القدر تین بار پڑھے. اس بزرگ ہستی کے سامنے اپنے قلب کو وساوس وخطرات سے پاک کرے تو اس زیارت کرنے والے کے دل میں اس بزرگ ہستی کی روحانی برکات پہنچ جائیں گی.‘‘
اس سے متصل ایک اور سوال ان سے دریافت کیا گیا کہ صاحبِ مزار کا کامل ہونے کا پتہ کس طرح چلے گا اور اگر صاحبِ مزار کامل ہو تو اس سے استمداد کا طریقہ بتائیں، تو انہوں نے وہ بھی بتایا. ذیل میں سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کریں.
جواب : بعضے از اہل قبور مشہو بکمال اند و کمال ایشان متواتر شدہ طریق استمداد از ایشان آنست کہ جانب سر قبرِ او سورہ بقر انگشت بر قبر نہادہ تا مُفْلِحُوْنَ بخواند باز بطرف پائیں قبر بیاید و آمَنَ الرَّسُوْلُ تا اخر سورہ بخواند و بزبان گوید اے حضرت من برائے فلان کار در جناب الہی التجا و دعا میکنیم شما نیز بدعا وشفاعت امداد من نمائید باز رو بقبلہ آرد و مطلوب خود را ز جناب باری خواہد وکسانیکہ کمال اینان معلوم نیست ومشہور و متواتر نشدہ دریا فت کمال آنہا بہمان طریق است کہ بعد از فاتحہ و درود وذکر سُبُّوْحٌ دل خود را مقابلہ سنیہ مقبور بدا رد وا گر راحت و تسکین ونورے دریافت کند بداند کہ این قبر اہل صلاح و کمال ست لاکن استمداد از مشہورین باید کرد.
شاه عبدالعزيز، فتاویٰ عزيز، 1 : 177
جواب : بعض صاحبانِ مزار کا کامل ہونا مشہور ہوتا ہے او ان کا باکمال ہونا تسلسل کے ساتھ ثابت ہوتا ہے. ایسے با کمال صاحب مزار ہستیوں سے استمداد کا طریقہ یہ ہے کہ قبر کے سرہانے انگلی رکھ کر سورہ بقرہ کی تلاوت آغاز سے مفلحون تک کرے. پھر قبر یا پائنتی کی طرف آئے اور سورۂ بقرہ میں سے آمن الرسول سے لے کر آخر تک مکمل پڑھے، اور اپنی زبان سے یوں کہے : اے حضرت میں اپنی فلاں حاجت کے لئے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا ہوں آپ بھی بارگاہِ الٰہی میں اپنی دعا اور شفاعت سے میری امداد فرمائیں.‘‘ پھر اپنا رخ بطرف قبلہ کرے اور اپنا مطلوب خود بارگاہِ الٰہی سے طلب کرے. اور وہ صاحبِ مزار جن کے بارے میں کامل ہونا معلوم نہ ہو اور عوام میں ان کا کامل ہونا بھی معروف اور تواتر کے ساتھ نہ ہو تو ایسے لوگوں کا مقام و مرتبہ اس طریقہ کے ساتھ معلوم کیا جاسکتا ہے. سورہ فاتحہ اور درود شریف پڑھ کر ’’سبوحٌ‘‘ کا ذکر کرے اپنا دل اس صاحب مزار شخص کے سینہ کے سامنے کرے اگر راحت و سکون پائے تو جان لے کہ یہ صاحبِ مزار کامل شخصیّت کا مالک ہے. لیکن (پھر بھی) استمداد معروف صاحب کمال بزرگوں سے ہی کیا جائے.‘‘
قَالَ دُرْدِيْرُ : وَجَازَ زِيَارَةُ الْقُبُوْرِ بَلْ هِيَ مَنْدُوْبَةٌ بِلَا حَدٍّ بِيَوْمٍ أَوْ وَقْتٍ اوْ فِي مِقْدَارِ مَا يمْکَثُ عِنْدَهَا.
ذکره الدردير في الشرح الکبير، 1 / 422
’’علامہ دردیر لکھتے ہیں : زیارتِ قبور جائز بلکہ مندوب ہے اس چیز کا تعین کیے بغیر کہ کب اور کس وقت زیارت کے لیے جایا جائے اور قبروں کے پاس کتنی دیر ٹھہرا جائے.‘‘
1. قَالَ الشَّرْبِيْنِيُّ : وَيَنْدُبُ زِيَارَةُ الْقُبُوْرِ الَّتِي فِيْهَا الْمُسْلِمُوْنَ، لِلرِّجَالِ بِالْإِجْمَاعِ. وَکَانَتْ زِيَارَتُهَا مَنْهِيا عَنْهَا ثُمَّ نُسِخَتْ بِقَوْلِه صلی الله عليه وآله وسلم : کُنْتُ نَهِيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا. يکْرَهُ زِيَارَتُهَا لِلنِّسَائِ لِأَنَّهَا مَظِنَّةٌ لِلطَّلَبِ بِبُکَائِهِنَّ وَرَفْعِ أَصْوَاتِهِنَّ نَعَمْ يَنْدُبُ لَهُنَّ زِيَارَةُ قَبْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْقُرُبَاتِ وَيَنْبَغِي أَنْ يلْحَقَ بِذَالِکَ بَقِيَةُ الْأَنْبِيَائِ وَالصَّالِحِيْنَ وَالشُّهَدَائِ.
ذکره الشربيني في الإقناع، 1 / 208
’’علامہ محمد شربینی خطیب شافعی کہتے ہیں : جس قبرستان میں مسلمان مدفون ہوں اس کی زیارت کرنا مردوں کے لئے بالاجماع مستحب ہے. پہلے زیارتِ قبور کی ممانعت تھی بعد ازاں یہ ممانعت اس حدیث مبارکہ سے منسوخ ہو گئی جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب اس کی زیارت کر لیا کرو‘‘ اور عورتوں کے لیے زیارت مکروہ ہے کیونکہ وہاں ان سے رونا دھونا اور آوازوں کو بلند کرنا متوقع ہوتا ہے البتہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنا ان کے لئے مندوب ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت سب سے بڑی قربت ہے. اور یہ بھی جائز ہے کہ اس حکمِ زیارت میں دیگر انبیاء علیہم السلام اور صالحین اور شہداء عظام کی زیارات کو بھی شامل کرلیاجائے.‘‘
2. قَالَ النَّوَوِيُّ الشَّافِعِيُّ : يَسْتَحِبُّ لِلرِّجَالِ زِيَارَةُ الْقُبُوْرِ. وَهَلْ يکْرَهُ لِلنِّسَائِ؟ وَجْهَانِ : أَحَدُهُمَا، وَبِه قَطَعَ الْأَکْثَرُوْنَ، يکْرَهُ. وَالثَّانِي، وَهُوَ الْأَصَحُّ عِنْدَ الرَّوْيَانِيُّ، لَا يکْرَهُ إِذَا أُمِنَتْ مِنَ الْفِتْنَةِ.
ذکره النووي في روضة الطالبين، 2 / 139
’’امام نووی شافعی لکھتے ہیں : مردوں کے لئے قبروں کی زیارت مستحب عمل ہے اور کیا عورتوں کے لئے مکروہ ہے؟ اس میں دو مؤقف ہیں، ایک مؤقف جس میں جمہور علماء ہیں کہ عورتوں کیلئے مکروہ ہے اور دوسرا مؤقف جو رویانی کے نزدیک صحیح ترین ہے وہ یہ کہ جب فتنہ سے تحفظ ہو تو مکروہ نہیں.‘‘
1. قَالَ ابْنُ الْقُدَامَةِ الْمَقْدِسِيُّ : وَيسْتَحَبُّ لِلرِّجَالِ زِيَارَةُ الْقُبُوْرِِلانَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کُنْتُ نَهِيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْمَوْتَ.
ذکره ابن قدامة في الکافي في فقه احمد بن حنبل، 1 / 274
’’لوگوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا مستحب ہے کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا پس اب تم زیارت کیا کروں کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے.‘‘
2. وَقَالَ فِي الْمُغْنِي : لَا نَعْلَمُ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ خِلَافٍا فِي إِبَاحَةِ زِيَارَةِ الرَّجُلِ الْقُبُوْرَ. وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ سَعِيْدٍ : سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ : تَرْکُهَا أَفْضَلُ عِنْدَکَ أَوْ زِيَارَتُهَا؟ قَالَ : زِيَارَتُهَا. وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ.ه قَالَ : کُنْتُ نَهِيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْمَوْتَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ بِلَفْظٍ : فَإِنَّهَا تُذَکِّرُ الآخِرَةَ.
ذکره ابن قدامة في المغني، 2 / 223
’’کتاب المغنی میں ابن قدامہ لکھتے ہیں : ہم نہیں جانتے کہ اہلِ علم کا مرد کے لیے زیارت قبور میں کوئی اختلاف ہو. علی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے زیارتِ قبور کا مسئلہ پوچھا کہ آپ کے نزدیک زیارت کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا؟ انہوں نے فرمایا : قبروں کی زیارت کرنا بہتر ہے اور یہ بات حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے.‘‘ اسے امام مسلم نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فانھا تذکر الآخرۃ کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.‘‘
3. قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ : وَقَالَ الْاکْثَرُوْنَ : زِيَارَةُ قُبُوْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ مُسْتَحَبَّةٌ لِلدُّعَائِ لِلْمَوْتٰی، وَالسَّلَامُ عَلَيْهِمْ کَمَا کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْرُجُ إِلَی الْبَقِيْعِ فَيَدْعُوْ لَهُمْ، وَکَمَا ثَبَتَ عَنْهُ فِي الصَّحِيْحَيْنِ انَّه خَرَجَ إِلٰی شُهَدَائِ احُدٍ فَصَلَّی عَلَيْهِمْ صَلَاتَه عَلَی الْمَوْتَی کَالْمُوَدَّعِ لِلْاحْيَائِ وَالْامْوَاتِ، وَثَبَتَ عَنْهُ فِي الصَّحِيْحِ انَّه کَانَ يعَلِّمُ اصْحَابَه إِذَا زَارُوْا الْقُبُوْرَ انْ يَقُوْلُوْا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ اهلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ يَرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنَّا وَمِنْکُمْ وَالْمُسْتَاخِرِيْنَ. نَسْالُ اﷲَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِيَةَ. اَللّٰهُمَّ لَا تَحْرَمْنَا اجْرَهُمْ وَلَا تُفْتِنَا بَعْدَهُمْ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُمْ. وَهذَا فِي زِيَارَةِ قُبُوْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ.
ذکره ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 27 / 377.
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں : اکثر علماء کا یہ کہنا ہے کہ مومنین کی قبروں کی زیارت کرنا اور فوت شدگان کے لئے سلامتی کی دعا کرنا مستحب ہے، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے جاتے اور اُن کے لیے دعا فرماتے، اور جیسا کہ صحیحین میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہدائے اُحد کے مزارات پر تشریف لے گئے، اُن پر اِس طرح نماز ادا فرمائی جیسے میت پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، اور ایسے کلام فرمایا جیسا آپ زندوں اور مردوں سب کو الوداع کہہ رہے ہوں، اور صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیم فرماتے کہ جب وہ قبروں کو دیکھیں تو یوں کہیں : اے مومنوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی ضرور بالضرور تم سے ملنے والے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے گزر جانے والوں اور آنے والوں پر رحم فرمائے، ہم اﷲ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کے طلب گار ہیں. اے اﷲ! ہمیں اُن کے اجر سے محروم نہ فرما اور ہمیں اُن کے بعد فتنوں میں مبتلا نہ فرمانا. پس تو ہماری اور اُن کی مغفرت فرما. یہ سارا عمل مومنین کی قبروں کی زیارت کے بارے میں ہے.‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved