1. رَوَی أَبُوْ حَنِيْفَةَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّه قَالَ : نَهَيْنَاکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، وَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارِةِ قَبْرِ أُمِّه فَزُوْرُوْهَا وَلَا تَقُوْلُوْا هُجْرًا.
رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 2 / 199، وأبو يوسف في کتاب الآثار، 1 / 225، الرقم : 996، ومالک في الموطأ،کتاب الضحايا، باب ادخار لحوم الأضاحي، 2 / 485، الرقم : 1031، والشافعي في المسند / 361، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 237، الرقم : 13512، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، 4 / 89، الرقم : 2033.
’’امام اعظم ابو حنیفہ علقمہ بن مرثد سے وہ سلیمان بن بریدہ سے اور وہ اپنے والد حضرت بریدہص سے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، لیکن اب محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، سو (اب) تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اور بے ہودہ باتیں مت کیا کرو.‘‘
اِسے امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی، اَحمد اور نسائی نے روایت کیا ہے.
2. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
2 : اخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب استئذان النبي صلی الله عليه وآله وسلم ربه في زيارة قبر امه، 2 / 672، الرقم : 977، وايضًا فيکتاب الاضاحي، باب بيان ما کان من النهي عن اکل لحوم الاضاحي بعد ثلاث في أول الإسلام وبيان نسخه وإباحة إلی متی شاء، 3 / 1563، الرقم : 1977، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب في زيارة القبور، 3 / 218، الرقم : 3235، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، 4 / 89، الرقم : 2032.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب تم زیارتِ قبور کیا کرو.‘‘
اسے امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے.
3. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَدْ کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَقَدْ اذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ امِّه، فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّهَا تُذَکِّرُ الْآخِرَةَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : حَدِيْثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَالْعَمَلُ عَلٰی هذَا عِنْدَ اهلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُوْرِ بَاسًا وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ وَاحْمَدَ وَإِسْحٰقَ.
3 : أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في الرخصة في زيارة القبور، 3 / 370، الرقم : 1054، وابن ابي شيبة في المصنف، 3 / 29، الرقم : 11809، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 311، الرقم : 17263، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 189، الرقم : 5377.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، بلاشبہ اب محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیوں کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے.‘‘
اِسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے. امام ترمذی نے فرمایا : حدیثِ بریدہ حسن صحیح ہے. تمام اہل علم کا اس پر عمل ہے اور وہ زیارتِ قبور میں کچھ حرج نہیں سمجھتے، امام ابن مبارک، امام شافعی، امام اَحمد بن حنبل اور امام اسحق رحمہم اﷲ بھی اِسی بات کے قائل ہیں.
4. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : زَارَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَبْرَ امِّه فِي الْفِ مُقَنَّعٍ فَلَمْ يرَ بَاکِيا اکْثَرَ مِنْ يَوْمِئِذٍ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
4 : اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 531، الرقم : 1389، وايضًا، 2 / 661، الرقم : 4192، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 15، الرقم : 9290
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہزار مجاہدین کے ساتھ اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت کی اور اُس روز سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتا ہوا نہیں دیکھا گیا.‘‘
اِسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے.
5. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثٍ : عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا، وَلْتَزِدْکُمْ زِيَارَتُهَا خَيْرًا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ عَوَانَةَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
5 : أخرجه النسائي في السنن،کتاب الضحايا، باب الإذن في ذلک، 7 / 234، الرقم : 4429، وابن حبان في الصحيح، 12 / 212، الرقم : 5390، وابو عوانة في المسند، 5 / 84، الرقم : 7882، والحاکم في المستدرک،1 / 532، الرقم : 1391، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 76، الرقم : 6986
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیاتھا. اِن میں سے ایک قبروں کی زیارت تھی، لیکن اب قبروں کی زیارت کیا کرو. پس یہ زیارت تمہاری (آخرت کی) بھلائی میں اضافہ کر دے گی.‘‘
اِسے امام نسائی، ابن حبان اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے.
6. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَهَيْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثٍ وَانَا آمُرُکُمْ بِهِنَّ : نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْکِرَةً، وَنَهَيْتُکُمْ عَنِ الْاشْرِبَةِ انْ تَشْرَبُوْا إِلَّا فِي ظُرُوْفِ الْادَمِ فَاشْرَبُوْا فِي کُلِّ وِعَائٍ غَيْرَ انْ لَا تَشْرَبُوْا مُسْکِرًا، وَنَهَيْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْاضَاحِيِّ انْ تَاکُلُوْهَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَکُلُوْا وَاسْتَمْتِعُوْا بِهَا فِي اسْفَارِکُمْ. رَوَاهُ ابُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
6 : أخرجه ابو داود في السنن،کتاب الاشربة، باب في الاوعية، 3 / 332، الرقم : 3698، والنسائي في السنن،کتاب الاشربة، باب الإذن في شيء منها، 7 / 234، الرقم : 4430، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 292.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تین کاموں سے تمہیں منع کیا تھا لیکن اب اُن کے کرنے کا تمہیں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا لیکن اب اُن کی زیارت کیا کرو کیونکہ اِس میں موت کی یاد ہے. میں نے تمہیں چمڑے کے سوا دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا، اب ہر برتن میں پی لیا کرو، ہاں نشہ آور چیز نہ پیا کرو اور میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کیا تھا لیکن اب (بعد میں بھی) کھا لیا کرو اور اپنے سفر میں اس سے فائدہ اُٹھایا کرو.‘‘
اسے امام ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے.
7. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْکِرَةً. رَوَاهُ ابُوْ دَاوُدَ.
7 : اخرجه أبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب في زيارة القبور، 3 / 218، الرقم : 3235، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 128، الرقم : 7194.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب تم زیارتِ (قبور) کیا کرو یہ تمہیں (آخرت) کی یاد دلاتی ہیں.‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے.
8. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا، فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا، وَتُذَکِّرُ الآخِرَةَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
8 : أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في زيارة القبور،1 / 501، الرقم : 1571، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 189، الرقم : 5375، والمبارکفوري في تحفة الاحوذي، 4 / 136.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا اب زیارتِ (قبور) کیا کرو کیونکہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے.‘‘
اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے.
9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ا لَا إِنِّي کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا تُذَکِّرُکُمْ آخِرَتَکُمْ.
رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
9 : أخرجه الدارقطني في السنن،کتاب الاشربة وغيرها، 4 / 259، الرقم : 69، وابن ابي شيبة في المصنف، 3 / 29، الرقم : 11809.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آگاہ رہو! بے شک میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ تمہیں تمہاری آخرت یاد دلائے گی.‘‘
اِسے امام دار قطنی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے.
10. عَنْ انَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ ثُمَّ بَدَا لِي انَّهَا تُرِقُّ الْقَلْبَ، وَتُدْمِعُ الْعَيْنَ، وَتُذَکِّرُ الْآخِرَةَ، فَزُوْرُوْهَا، وَلَا تَقُوْلُوا هُجْرًا.
رَوَاهُ احْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
10 : اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 3 / 237، الرقم : 15321، وابو يعلی في المسند، 6 / 373، الرقم : 3707، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 129، الرقم : 7198، وايضًا في شعب الإيمان، 7 / 15، الرقم : 9289، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 65.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا پھر مجھے خیال آیا کہ یہ دل کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے. سو (اب) تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اور بے ہودہ باتیں مت کیا کرو.‘‘
اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے.
11. عَنْ انَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْمَوْتَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 531، الرقم : 1388.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا، اب تم اُن کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے.‘‘ اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے.
12. عَنْ انَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَمَنْ شَائَ انْ يَزُوْرَ قَبْرًا، فَلْيَزُرْهُ، فَإِنَّه يَرِقُّ الْقَلْبَ، وَيدْمِعُ الْعَيْنَ، ويذَکِّرَ الآخِرَةَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 532، الرقم : 1394.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا، اب جو بھی قبر کی زیارت کرنا چاہے اُسے اجازت ہے کہ وہ زیارت کر لے کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے (خشیتِ الٰہی میں) آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے.‘‘
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے.
13. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : نَهٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ. ثُمَّ قَالَ : إِنِّي کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا تُذَکِّرُکُمُ الآخِرَةَ. رَوَاهُ احْمَدُ وَابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَه.
13 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1 / 145، الرقم : 1235، وابن ابي شيبة في المصنف، 3 / 29، الرقم : 11806، وابو يعلی في المسند، 1 / 240، الرقم : 278.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے زیارتِ قبور سے منع فرمایا بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی.‘‘
اِسے امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.
14. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنِّي کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، وَاکْلِ لُحُوْمِ الْاضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍٍ، وَعَنْ نَبِيْذِ الْاوْعِيَةِ، ا لَا فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ، فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا، وَتُذَکِّرُ الآخِرَةَ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَه.
14 : اخرجه عبد الرزاق في المصنف، کتاب الجنائز، باب في زيارة القبور، 3 / 573، الرقم : 6714، والحاکم في المستدرک، 1 / 531، الرقم : 1387، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 129، الرقم : 7197.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، میں تمہیں تین دن کے بعد قربانی کے گوشت کو کھانے سے منع کیا کرتا تھا، اور برتن میں نبیذ سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارتِ (قبور) کیا کرو کیونکہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے.‘‘ اِسے امام عبد الرزاق اور حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.
15. عَنْ ابِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِيْهَا عِبْرَةً.
رَوَاهُ احْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
15 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 3 / 38، الرقم : 11347، والحاکم في المستدرک، 1 / 530، الرقم : 1386، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 77، الرقم : 6988.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا، اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ اس میں نصیحت اور عبرت ہے.‘‘ اِسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے.
16. عَنْ امِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ لَکُمْ فِيْهَا عِبْرَةً. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
16 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 278، الرقم : 602، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 58، والمبارکفوري في تحفة الاحوذي، 4 / 136.
’’اُم المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا، پس اب تم زیارت کیا کرو، بے شک اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے.‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے.
17. عَنْ ابِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : زُرِ الْقُبُوْرَ تَذَکَّرْ بِهَا الْآخِرَةَ، وَاغْسِلِ الْمَوْتٰی فَإِنَّ مُعَالَجَةَ جَسَدِه مَوْعِظَةٌ بَلِيْغَةٌ، وَصَلِّ عَلَی الْجَنَائِزِ لَعَلَّ ذَالِکَ انْ يحْزِنَکَ فَإِنَّ الْحَزِيْنَ فِي ظِلِّ اﷲِ يَتَعَرَّضُ کُلَّ خَيْرٍ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَقَالَ الْحَاکِمُ : رُوَاتُه عَنْ آخِرِهِمْ ثِقَاتٌ.
17 : أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 533، الرقم : 1395، وايضًا، 4 / 366، الرقم : 7941، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 15، الرقم : 9291، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 294، الرقم : 3343، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 175، الرقم : 5309.
’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبروں کی زیارت کیا کرو، اِس سے تمہیں آخرت کی یاد آئے گی، مُردوں کو غسل دیا کرو کہ اُن کے جسم کا بوسیدہ پن تمہارے لیے واضح نصیحت ہے. نماز جنازہ پڑھا کرو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں غمگین کر دے اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں غمگین ہونا ہر بھلائی کے آنے کا سبب ہے.‘‘
اِسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا : اِس حدیث کے تمام راوی شروع سے آخر تک ثقہ ہیں.
18. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : زُوْرُوْا إِخْوَانَکُمْ وَسَلِّمُوْا عَلَيْهِمْ، وَصَلُّوْا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ لَکُمْ فِيْهِمْ عِبْرَةً.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
18 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 294، الرقم : 3341.
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے (فوت شدہ) بھائیوں کی زیارت کیا کرو، اُنہیں سلام کیا کرو اور اُن کے لیے رحمت کی دعا کیا کرو. بے شک اس میں تمہارے لیے عبرت ہے.‘‘ اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے.
19. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه، قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَتْلٰی احُدٍ، بَعْدَ ثَمَانِيَ سِنِيْنَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَائِ وَالْامْوَاتِ، ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيْکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَيْکُمْ شَهِيْدٌ، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْحَوْضُ، وَإِنِّي لَانْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هٰذَا، وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشٰی عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا، وَلٰکِنِّي أَخْشٰی عَلَيْکُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوْهَا. قَالَ : فَکَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796، الرقم : 2296، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الميت يصلي علی قبره بعد حين، 3 / 216، الرقم 3224، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 279، الرقم : 768.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں، مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے. حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا).‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.
20. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه انَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی اهلِ احُدٍ صَلَاتَه عَلَی الْمَيتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ، وَانَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ، وَإِنِّي، وَاﷲِ، لَانْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي اعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِنِ الْارْضِ اوْ مَفَاتِيْحَ الْارْضِ، وَإِنِّي، وَاﷲِ، مَا اخَافُ عَلَيْکُمْ انْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي، وَلٰکِنْ اخَافُ عَلَيْکُمْ انْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
20 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشهيد، 1 / 451، الرقم : 1279، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 149، الرقم : 17382، وابن حبان في الصحيح، 7 / 473، الرقم : 3198، وابن عبد البر في التمهيد، 2 / 302.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور غزوۂ اُحد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی جس طرح (عام) مُردوں پر پڑھی جاتی ہے. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں. بیشک اﷲ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں، اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.
21. عَنْ ابِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه انَّ امْرَاةً سَوْدَائَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، اوْ شَابًّا، فَفَقَدَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَسَالَ عَنْهَا اوْ عَنْهُ فَقَالُوْا : مَاتَ. قَالَ : افَلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي! قَالَ : فَکَانَّهُمْ صَغَّرُوْا امْرَهَا اوْ امْرَه، فَقَالَ : دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِه فَدَلُّوْهُ، فَصَلّٰی عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ : إِنَّ هذِهِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْئَةٌ ظُلْمَةً عَلٰی اهلِهَا، وَإِنَّ اﷲَ ينَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
21 : اخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب کنس المسجد، 1 / 175.176، الرقم : 446، 448، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2 / 659، الرقم : 956، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 3 / 211، الرقم : 3203، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 / 489، الرقم : 1527.1529، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 388، الرقم : 9025.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پھر (کچھ دن) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے موجود نہ پایا، تو اُس کے متعلق دریافت فرمایا : صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے مجھے بتایاکیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں : گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اُس کی قبر کے بارے میں بتاؤ. صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا : یہ قبریں ان قبر والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی تاریک قبور میں) روشنی فرما دے گا.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں.
22. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَبْرَيْنِ، فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيعَذَّبَانِ وَمَا يعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ، امَّا هذَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِه، وَامَّا هذَا فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِعَسِيْبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّه بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلٰی هذَا وَاحِدًا وَعَلٰی هذَا وَاحِدًا. ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّه يخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
22 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الادب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وابو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا غیبت کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے. ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے.
23. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيعَذَّبَانِ، وَمَا يعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ، امَّا احَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَامَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ اخَذَ جَرِيْدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ هذَا؟ قَالَ : لَعَلَّه يخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوء، باب ما جاء في غسل البول، 1 / 88، الرقم : 215، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2069، وابن حبان في الصحيح، 7 / 398، الرقم : 3128، واحمد بن حنبل في المسند، 1 / 225، الرقم : 1980.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب دیا جا رہا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا. ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرا چغلی کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اُس کے دو حصے کیے. پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا. لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے یہ عمل کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن کے باعث اِن کے عذاب میں تخفیف رہے گی جب تک یہ سوکھ نہ جائیں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.
24. عَنْ ابِي امَامَةَ بْنِ سَهلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه انَّه قَالَ : اشْتَکَتِ امْرَاةٌ بِالْعَوْالِي مِسْکِيْنَةٌ، فَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْالُهُمْ عَنْهَا، وَقَالَ : إِنْ مَاتَتْ فَلَا تَدْفِنُوْهَا حَتّٰی اصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَتُوُفِّيَتْ فَجَائُوْا بِهَا إِلَی الْمَدِيْنَةِ بَعْدَ الْعَتَمَةِ، فَوَجَدُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ نَامَ، فَکَرِهُوْا انْ يوْقِظُوْهُ، فَصَلُّوْا عَلَيْهَا، وَدَفَنُوْهَا بِبَقِيْعِ الْغَرْقَدِ، فَلَمَّا اصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَائُوْا، فَسَالَهُمْ عَنْهَا، فَقَالُوْا : قَدْ دُفِنَتْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَقَدْ جِئْنَاکَ فَوَجَدْنَاکَ نَائِمًا، فَکَرِهنَا انْ نُوْقِظَکَ، قَالَ : فَانْطَلِقُوْا، فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَشَوْا مَعَه، حَتّٰی ارَوْهُ قَبْرَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَصَفُّوْا وَرَائَه، فَصَلّٰی عَلَيْهَا وَکَبَّرَ ارْبَعًا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ.
24 : اخرجه النسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الجنازة بالليل، 4 / 69، الرقم : 1969، وايضًا في باب الإذن بالجنازة، 4 / 40، الرقم : 1907، ومالک في الموطا، کتاب الجنائز، باب التکبير علی الجنائز، 1 / 227، الرقم : 533، والشافعي في المسند، 1 / 358، وابن ابي شيبة في المصنف، 2 / 476، الرقم : 11223.
’’حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اطرافِ مدینہ کے گاؤں میں سے ایک عورت بیمار ہوئی جو مفلس اور نادار تھی. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے اُس کا حال دریافت فرماتے رہتے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ فوت ہو جائے تو میرے نماز جنازہ پڑھائے بغیر اُسے دفن نہ کرنا. وہ فوت ہو گئی تو لوگ عشاء کے بعد اُسے مدینہ منورہ لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محوِ استراحت پایا. صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اُس کی نماز جنازہ پڑھ کر اُسے جنت البقیع میں دفن کر دیا. صبح جب صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس عورت کا حال دریافت فرمایا.اُنہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اُسے تو دفن کر دیا گیا ہے. ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیکن آپ استراحت فرما تھے. ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا. یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرامث کے ساتھ (قبرستان) تشریف لے گئے. حتیٰ کہ اُنہوں نے اُس غریب عورت کی قبر کی نشاندہی کی. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف بنائی. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں ارشاد فرمائیں.‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، مالک اور شافعی نے روایت کیا ہے.
25. عَنْ رَبِيْعَةَ يَعْنِي ابْنَ الْهُدَيْرِ قَالَ : مَا سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اﷲِ يحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَدِيْثًا قَطُّ غَيْرَ حَدِيْثٍ وَاحِدٍ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا هُوَ؟ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يرِيْدُ قُبُوْرَ الشُّهَدَائِ حَتّٰی إِذَا اشْرَفْنَا عَلٰی حَرَّةِ وَاقِمٍ فَلَمَّا تَدَلَّيْنَا مِنْهَا وَإِذَا قُبُوْرٌ بِمَحْنِيَةٍ، قَالَ : قُلْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اقُبُوْرُ إِخْوَانِنَا هذِه؟ قَالَ : قُبُوْرُ اصْحَابِنَا، فَلَمَّا جِئْنَا قُبُوْرَ الشُّهَدَائِ قَالَ : هذِه قُبُوْرُ إِخْوَانِنَا.
رَوَاهُ ابُوْ دَاوُدَ وَاحْمَدُ.
25 : اخرجه ابو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2043، واحمد بن حنبل في المسند، 1 / 161، الرقم : 1387، والبزار في المسند، 3 / 168.169، الرقم : 955، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 3 / 14، الرقم : 813، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 249، الرقم : 10079، وابن عبد البر في التمهيد، 20 / 246.
’’حضرت ربیعہ بن ہدیر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث روایت کرتے نہیں سنا. میں عرض گزار ہوا : وہ کونسی حدیث ہے؟ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قبورِ شہداء کی زیارت کے ارادے سے نکلے یہاں تک کہ ہم واقم نامی ٹیلے پر چڑھ گئے. جب ہم اُترے تو ساتھ ہی متعدد قبریں تھیں. ہم عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ فرمایا : یہ ہمارے ساتھیوں کی قبریں ہیں. جب ہم قبورِ شہداء کے پاس پہنچے تو فرمایا : یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں.‘‘ اِسے امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے.
26. عَنْ بَشِيْرِ بْنِ نَهِيْکٍ انَّ بَشِيْرَ بْنَ الْخَصَاصِيَةِ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ امْشِي مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَرَّ عَلٰی قُبُوْرِ الْمُسْلِمِيْنَ فَقَالَ : لَقَدْ سَبَقَ هؤُلَائِ شَرًّا کَثِيْرًا، ثُمَّ مَرَّ عَلٰی قُبُوْرِ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَ : لَقَدْ سَبَقَ هؤُلَائِ خَيْرًا کَثِيْرًا فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةُ فَرَای رَجُلًا يَمْشِي بَيْنَ الْقُبُورِ فِي نَعْلَيْهِ، فَقَالَ : يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَتَيْنِ، الْقِهِمَا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
26 : اخرجه النسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب کراهية المشي بين القبور في النعال السبتية، 4 / 96، الرقم : 2048، وايضًا في السنن الکبری، 1 / 658، الرقم : 2175،
’’حضرت بشیر بن نہیک بیان کرتے ہیں کہ حضرت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی قبور کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ لوگ بہت بڑی برائی سے بچ گئے. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے تشریف لے گئے، اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : یہ لوگ بہت بڑی بھلائی سے محروم رہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے تشریف لے گئے. بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص قبروں میں جوتیاں پہن کر چل رہا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سبتی جوتوں والے! اِن کو اُتار دو.‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے.
27. عَنْ بَشِيْرِ بْنِ الْخَصَاصِيَةِ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا انَا امْشِي مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، مَا تَنْقِمُ عَلَی اﷲِ اصْبَحْتَ تُمَاشِي رَسُوْلَ اﷲِ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا انْقِمُ عَلَی اﷲِ شَيْئًا، کُلُّ خَيْرٍ قَدْ آتَانِيْهِ اﷲُ، فَمَرَّ عَلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ فَقَالَ : ادْرَکَ هؤُلَائِ خَيْرٌ کَثِيْرٌ، ثُمَّ مَرَّ عَلٰی مَقَابِرِ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَ : سَبَقَ هؤُلَائِ خَيْرًا کَثِيْرًا، قَالَ : فَالْتَفَتَ فَرَای رَجُلًا يَمْشِي بَيْنَ الْمَقَابِرِ فِي نَعْلَيْهِ، فَقَالَ : يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَتَيْنِ، الْقِهِمَا.
وفي رواية الحاکم زاد : فَنَظَرَ، فَلَمَّا عَرَفَ الرَّجُلُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَرَمَی بِهِمَا. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
27 : اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في خلع النعلين في المقابر، 1 / 499، الرقم : 1568، والحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 528، الرقم : 1380، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 80، الرقم : 7008.
’’حضرت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خصاصیہ! تمہیں اللہ کی جانب سے کیا بات بری معلوم ہوتی ہے حالانکہ تم اُس کے رسول کے ساتھ چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بری معلوم نہیں ہوتی. اللہ تعالیٰ نے مجھے بھلائی عنایت فرمائی ہے اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی قبروں پر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن لوگوں نے بہت خیر حاصل کی، پھر مشرکین کی قبروں پر سے گزرے تو فرمایا : ان لوگوں کے ہاتھوں سے بھلائی نکل گئی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو جوتوں سمیت قبرستان میں چلتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سبتی جوتوں والے جوتے اُتار دو.‘‘
اور امام حاکم کی روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے : ’’اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا اور جب اُس نے پہچان لیا کہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو اُس نے اپنے جوتے اُتار کر پھینک دئیے.‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے.
28. عَنْ بَشِيْرِ بْنِ الْخَصَاصِيَةِ رضی الله عنه بَشِيْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم انَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَای رَجُلًا يَمْشِي فِي نَعْلَيْنِ بَيْنَ الْقُبُوْرِ فَقَالَ : يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَتَيْنِ، الْقِهِمَا.
رَوَاهُ احْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
28 : اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 5 / 83، 224، الرقم : 20803، 22003، والحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 529، الرقم : 1381، وابن ابي شيبة في المصنف، 3 / 65، الرقم : 12142، وابن ابي عاصم في الآحاد والمثاني، 3 / 270، الرقم : 1651.
’’حضرت بشیر بن خصاصیہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشارت یافتہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ جوتوں سمیت قبروں کے درمیان چل رہا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا : اے سبتی جوتوں والے! اِنہیں اُتار دو.‘‘
اِسے امام احمد، حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے.
وفي رواية : عَنْ عُمَرَ بْنِ حَزْمٍ رضی الله عنه قَالَ : رَانِي النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَانَا مُتَّکِيئٌ عَلٰی قَبْرٍ، فَقَالَ : قُمْ، لَا تُؤْذِ صَاحِبَ الْقَبْرِ اوْ يؤْذِيْکَ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
اخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 43 / 303، والهندي في کنز العمال، 15 / 321، الرقم : 42988، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 255، والعيني في عمدة القاري، 8 / 185، وملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 4 / 176.
’’ایک روایت میں حضرت عمر بن حزم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک قبر کے ساتھ ٹیک لگائے دیکھا تو فرمایا : کھڑئے ہو جاؤ، صاحب قبر کو تکلیف نہ دو، ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں تکلیف پہنچائے.‘‘
اِسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے.
29. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، في رواية طويلة قَالَتْ : قُلْتُ : کَيْفَ أَقُوْلُ لَهُمْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ (تَعْنِي فِي زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ) قَالَ : قُوْلِي : اَلسَّلَامُ عَلٰی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَيَرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِيْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
29 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبر والدعاء لاهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 91، الرقم : 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 221، الرقم : 25897، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 576، الرقم : 6722.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو : اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ضرور بالضرور ملنے والے ہیں.‘‘ اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے.
30. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم (کُلَّمَا کَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم) يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَی الْبَقِيْعِ، فَيَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ، وَاتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، غَدًا مُؤَجَّلُوْنَ، وَإنَّا، إِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِاهلِ بَقِيْعِ الْغَرْقَدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
30 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 93، الرقم : 2039، وأبو يعلی في المسند، 8 / 199، الرقم : 4758، وابن حبان في الصحيح، 7 / 444، الرقم : 3172.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی جب میرے یہاں باری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) رات کے آخری پہر بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے) فرماتے : تم پر سلامتی ہو، اے مومنوں کے گھر والو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی کہ جسے کل ایک مدت بعد پاؤ گے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں. اے اﷲ! بقیع غرقد (اہلِ مدینہ کے قبرستان) والوں کی مغفرت فرما.‘‘
اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے.
31. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوْا إِلَی الْمَقَابِرِ فَکَانَ قَائِلُهُمْ يَقُوْلُ، وفي رواية ابِي بَکْرٍ : اَلسَّلَامُ عَلٰی أَهْلِ الدِّيَارِ، وفي رواية زُهَيْرٍ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ. وَإِنَّا إِنْ شَائَ اﷲُ، لَلَاحِقُوْنَ. اسْالُ اﷲَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِيَةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
31 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 671، الرقم : 975، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 353، الرقم : 23035، وابن حبان في الصحيح، 7 / 445، الرقم : 3173، والروياني في المسند، 1 / 67، الرقم : 15، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 79، الرقم : 7005.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں قبرستان کی طرف جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں (آدابِ زیارت) سکھلاتے. پس اُن میں سے کہنے والا کہتا، ابو بکر بن ابی شیبہ (راوی حدیث) کی روایت میں ہے : گھر والوں پر سلامتی ہو اور حضرت زہیر (راوی حدیث) کی روایت میں ہے : اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی ضرور بالضرور تم سے ملنے والے ہیں، ہم اﷲ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کے طلب گار ہیں.‘‘
اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے.
32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِقُبُوْرِ الْمَدِيْنَةِ، فَاقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِه، فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا اهلَ الْقُبُوْرِ، يَغْفِرُ اﷲُ لَنَا وَلَکُمْ، انْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاثَرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
32 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما يقول الرجل إذا دخل المقابر، 3 / 369، الرقم : 1053، والهندي في کنز العمال، 15 / 273، الرقم : 42561، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 553، الرقم : 1765.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے قبرستان سے گزرے تو اہلِ قبور کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ’’اے اہلِ قبور! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے تم ہم سے پہلے پہنچے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں.‘‘
اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے.
33. عَنْ مَالِکٍ الدَّارِص قَالَ : اصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَص، فَجَائَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَسْقِ لِامَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَاتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَاقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَاخْبِرْه انَّکُمْ مَسْقِيوْنَ وَقُلْ لَه : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَاتَی عُمَرَ، فَاخْبَرَه، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.
رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُه صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
33 : أخرجه ابن ابي شيبة في المصنف،کتاب الفضائل، باب ما ذکر في فضل عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام / 130، والهندي في کنز العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية في اقتضاء الصراط المستقيم / 373، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 167، وقال : إسناده صحيح، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 484.
’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے تو ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اَطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لیے سیرابی مانگیں کیوں کہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دشمن تمہاری جان لینے کے درپے ہیں اُن سے) ہوشیار رہو، ہوشیار رہو. پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمرص رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ کسی کام میں عاجز ہو آجاؤں.‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے. امام ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے. امام عسقلانی نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے.
34. عَنْ دَاوُدَ بْنِ ابِي صَالِحٍ قَالَ : أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَه عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُوْ أَيوْبَ رضی الله عنه فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ (وفي رواية : وَلَا الْخَدَرَ) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا تَبْکُوْا عَلَی الدِّيْنِ إِذَا وَلِيَه أَهلُه وَلٰکِنِ ابْکُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَه غَيْرُ أَهلِه.
رَوَاهُ احْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
34 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، الرقم : 8571، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 158، الرقم : 3999، وايضًا في المعجم الاوسط،1 / 94، الرقم : 284، وأيضًا، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام / 113، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967.
’’حضرت داود بن ابی صالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان (روضہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دینے) آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ جھکائے کھڑا ہے، تو اس نے اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس آدمی کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے، اُنہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں کہ) میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا. (اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں کسی تاریک جگہ پر نہیں آیا) میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : دین پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نا اہل ہو.‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے.
35. عَنْ نَافِعٍ رضی الله عنه، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما انَّه کَانَ إِذَا ارَادَ انْ يَخْرُجَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی ثُمَّ اتٰی قَبْرَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلًيْکُمْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَتَاه، ثُمَّ يَاخُذُ وَجْهَه وَکَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ يَفْعَلُ ذَالِکَ قَبْلَ انْ يَدْخُلَ مَنْزِلَه.
رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْجَهضَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.
وفي رواية : عَنْ نَافِعٍ رضی الله عنه عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَا بِقَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَلّٰی عَلَيْهِ وَدَعَا لَه وَلَا يَمَسُّ الْقَبْرَ ثُمَّ يسَلِّمُ عَلٰی ابِي بَکْرٍ ثُمَّ قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَه.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِيَاضٌ.
وَذَکَرَ الذَّهَبِيُّ : نَافِعٌ هُوَ ابُوْ عَبْدِ اﷲِ الْمَدَنِيُّ، مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما تَابِعِيٌّ، ثِقَةٌ، ثَبَتٌ، فَقِيْه مَشْهُوْرٌ مَاتَ سَنَةَ، 117ه اوْ بَعْدَ ذَالِکَ.
35 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف،کتاب الجنائز، باب من کان يأتي قبر النبي صلی الله عليه وآله وسلم فيسلم، 3 / 28، الرقم : 11793، وعبد الرزاق في المصنف،کتاب الجنائز، باب السلام علی قبر النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 576، الرقم : 6724، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 84، الرقم : 99.100، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10051، وايضًا في شعب الإيمان، 3 / 487،490، الرقم : 4150،4161، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 156، والقاضي عياض في الشفا / 586، الرقم : 1474، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 5 / 95.101.
’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما جب کبھی (مدینہ منورہ سے) کہیں باہر جانے کا ارادہ کرتے تو (سب سے پہلے) مسجد نبوی میں جا کر نوافل ادا کرتے پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوتے اور یوں سلام عرض کرتے : ’’اَلسَّلَامُ عَلًيْکُمْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ‘‘ اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَتَاہ‘‘ پھر جہاں کہیں تشریف لے جانا ہوتا وہاں جاتے اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو بھی اپنے گھر میں داخل ہونے سے قبل روضۂ انور پر اسی طرح سلام عرض کرنے تشریف لے جاتے. (اور پھر اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے).‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، عبد الرزاق، جہضمی، بیہقی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے.
’’اور ایک روایت میں حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما اپنے کسی سفر سے واپس لوٹتے، توسب سے پہلے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے اور بلندی درجات کے لیے دعا کرتے، لیکن (ازرائے ادب و تعظیم) قبر انور کو مَس نہ کرتے، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرتے، پھر (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضر ہو کر) یوں سلام عرض کرتے : اے میرے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو.‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے.
’’امام ذہبی نے فرمایا : حضرت نافع سے مراد حضرت ابو عبد اﷲ مدنی رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور نہایت جلیل القدر تابعی، ثقہ، ثبت اور مشہور فقہیہ ہیں اور اُن کی وفات سن 117 ھ یا اِس کے بعد ہوئی.‘‘
وقال العلامه بدر الدين العيني في ’’العُمدة‘‘ : وَالامَّةُ مُجْمَعَةٌ عَلٰی زِيَارَةِ قَبْرِ نَبِينَا صلی الله عليه وآله وسلم وَابِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي اﷲ عنهما وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ اتٰی قَبْرَهُ الْمُکَرَّمَ فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا ابَتَاه، وَمَعْنَی النَّهْيِ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ إِنَّمَا کَانَ فِي اوَّلِ الْإِسْلَامِ عِنْدَ قُرْبِهِمْ بِعِبَادَةِ الْاوْثَانِ وَاتِّخَاذِ الْقُبُوْرِ مَسَاجِدَ فَلَمَّا اسْتَحْکَمَ الْإِسْلَامُ وَقَوِيَّ فِي قُلُوْبِ النَّاسِ وَامِنَتْ عِبَادَةُ الْقُبُوْرِ وَالصلاة إِلَيْهَا نُسِخَ النَّهْيُ عَنْ زِيَارَتِهَا لِانَّهَا تُذَکِّرُ الآخِرَةَ وَتُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا.
ذکره العيني في عمدة القاري، 8 / 70.
’’علامہ بدر الدین عینی نے اپنی شرح بخاری ’’عمدۃ القاری‘‘ میں فرمایا : اُمت کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی قبور کی زیارت پر اِجماع ہے. اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما جب سفر سے واپس لوٹتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کرتے اور عرض کرتے : ’’یا رسول اﷲ! آپ پر سلامتی ہو، اے ابو بکر! آپ پر سلامتی ہو، اے میرے والد محترم (عمر فاروق)! آپ پر سلامتی ہو.‘‘ اور زیارت قبور سے منع کی وجہ آغاز اسلام میں لوگوں کا بتوں کی پوجا کے دور کا قریب ہونا اور قبروں کو سجدہ گاہ بنا لینا تھا، لیکن جب دین اسلام مستحکم ہو گیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان مضبوط ہو گیا اور قبروں کی عبادت اور ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا اندیشہ جاتا رہا تو زیارتِ قبور کی نہی کا حکم منسوخ کر دیا گیا کیونکہ یہ (زیارتِ قبور) آخرت کی یاد دلاتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے.‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved