1۔ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم وَہُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَۃِ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ وَمَعَہٗ بِـلَالٌ فَأَتَی النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَہٗ: أَبْشِرْ، فَقَالَ: قَدْ أَکْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ عَلٰی أَبِي مُوْسٰی وَبـِلَالٍ کَہَیْئَۃِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ: رَدَّ الْبُشْرَی فَاقْبَـلَا أَنْتُمَا قَالَا: قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِیْہِ مَائٌ فَغَسَلَ یَدَیْہِ وَوَجْہَہٗ فِیْہِ وَمَجَّ فِیْہِ ثُمَّ قَالَ: اشْرَبَا مِنْہُ وَأَفْرِغَا عَلٰی وُجُوْہِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا sوَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَـلَا، فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ رضي اﷲ عنہا مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَفْضَلَا لَہَا مِنْہُ طَائِفَۃً۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
1: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب غزوۃ الطائف في شوال سنۃ ثمان، 4 / 1573، الرقم: 4073، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین، 4 / 1943، الرقم: 2497۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر قیام پذیر تھے اور اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے تو بارگاہِ نبوت میں ایک اعرابی آکر کہنے لگا: (یارسول اﷲ!) کیا آپ اپنا وہ وعدہ پورا نہیں فرمائیں گے جو آپ نے مجھ سے کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جنت کی) بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگا کہ آپ اکثر مجھے صرف یہی فرما دیتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس نے تو بشارت قبول نہیں کی، کیا تم دونوں اسے قبول کرتے ہو؟ دونوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ہم اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگایا اس میں اپنے دستِ اقدس اور چہرہ مبارک دھویااور پھر اس میں کلی فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا: تم دونوں اسے پی لو۔ باقی اپنے چہروں اور سینوں پر چھڑک لو اور دونوں (جنت کی) بشارت حاصل کرو۔ پس دونوں حضرات نے برتن لے کر حکم کی تعمیل کی۔ تو حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنھا نے (جو کہ پردے کے اندر سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہیں تھیں) انہیں آواز دی کہ اس (بابرکت) پانی میں سے (کچھ حصہ) اپنی ماں کے لیے بھی ضرور چھوڑنا۔ تو ان دونوں صحابہ نے (وہ پانی بچا کر) ان کی خدمت میں بھی بطورِ تبرک پیش کر دیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنہهما قَالَ أَتٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَبْدَ اﷲِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَہٗ، فَأَمَرَ بِہٖ، فَأُخْرِجَ، فَوَضَعَہٗ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَنَفَثَ عَلَیْہِ مِنْ رِیْقِہٖ وَأَلْبَسَہٗ قَمِیْصَہٗ، فَاﷲُ أَعْلَمُ۔ وَکَانَ کَسَا عَبَّاسًا رضي الله عنه قَمِیْصًا۔ قَالَ سُفْیَانُ: وَقَالَ أَبُوْ ہَارُوْنَ: وَکَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم قَمِیْصَانِ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبْدِ اﷲِ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَلْبِسْ أَبِي قَمِیْصَکَ الَّذِي یَلِي جِلْدَکَ، قَالَ سُفْیَانُ: فَیُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم أَلْبَسَ عَبْدَ اﷲِ قَمِیْصَہٗ مُکَافَأَۃً لِمَا صَنَعَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
2: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ، 1 / 453، الرقم: 1285، ومسلم في الصحیح، کتاب صفات المنافقین وأحکامھم، 4 / 2140، الرقم: 2773۔
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبد اﷲ بن اُبی کی قبر پر تشریف لے گئے جبکہ اسے گڑھے میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر اسے باہر نکالا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا۔ اس پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اپنی قمیص اسے پہنائی۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اس (عبد اﷲ بن اُبی) نے (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو (غزہ بدر کے موقع پر جب وہ قیدی بن کر آئے تھے) اپنی قمیص پہنائی تھی۔ حضرت سفیان سے روایت ہے کہ حضرت ہارون نے فرمایا: اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر دو قمیصیں تھیں۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی تھے) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ کو وہ قمیص پہنائیں جو جسم اطہر سے لگی ہوئی ہے۔ حضرت سفیان نے بیان کیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لیے عبد اﷲ بن اُبی کو اپنی قمیص پہنائی کہ اس کے اس احسان کا بدلہ ہو جائے (جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دے کر کیا تھا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنہما قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بِقَبْرَیْنِ فَقَالَ: إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِي کَبِیْرٍ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِي بِالنَّمِیْمَۃِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطْبَۃً فَشَقَّہَا نِصْفَیْنِ، فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ ہٰذَا؟ قَالَ: لَعَلَّہٗ یُخَفِّفُ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب ما جاء في غسل البول، 1 / 88، الرقم:215، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء منہ، 1 / 240، الرقم: 292۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبر کے اندر ان پر گزرنے والے حالات سے باخبر ہو کر صحابہ کرام سے) فرمایا : انہیں عذابِ قبر ہو رہا ہے اور وہ بھی کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلیاں بہت کھاتا پھرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔ ... الحدیث۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنہما یَقُوْلُ: مَرِضْتُ مَرَضًا، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم یَعُوْدُنِي وَأَبُوْ بَکْرٍ وَہُمَا مَاشِیَانِ، فَوَجَدَانِي أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوْئَہٗ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَإِذَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَیْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي کَیْفَ أَقْضِي فِي مَالِي، فَلَمْ یُجِبْنِي بِشَيئٍ حَتّٰی نَزَلَتْ آیَۃُ الْمِیْرَاثِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
4: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب عیادۃ المغمی علیہ، 5 / 2139، الرقم: 5327، ومسلم في الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الکلالۃ، 3 / 1234۔1235، الرقم: 1616۔
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بہت زیادہ بیمار پڑ گیا، تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے پیدل تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنے وضو سے بچا ہوا (متبرک) پانی میرے اوپر چھڑکا جس سے مجھے ہوش آگیا۔ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں تو میں عرض گزار ہوا: یارسول اﷲ! (مرنے سے قبل) میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ یا میں اپنے مال کا فیصلہ کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کوئی جواب مرحمت نہ فرمایا یہاں تک کہ آیتِ میراث نازل ہو گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه أَنَّ امْرَأَۃً سَوْدَائَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا، فَفَقَدَہَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَسَأَلَ عَنْہَا أَوْ عَنْہُ فَقَالُوْا: مَاتَ۔ قَالَ: أَفَـلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي؟ قَالَ: فَکَأَنَّہُمْ صَغَّرُوْا أَمْرَہَا أَوْ أَمْرَہٗ۔ فَقَالَ: دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِہٖ فَدَلُّوْہُ، فَصَلّٰی عَلَیْہَا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ ہٰذِہِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْئَ ۃٌ ظُلْمَۃً عَلٰی أَہْلِہَا وَإِنَّ اﷲَ عزوجل یُنَوِّرُہَا لَہُمْ بِصَـلَاتِي عَلَیْہِمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
وفي روایۃ لابن ماجہ: قَالَ: فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَیْہِ لَہٗ رَحْمَۃٌ۔
5: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب کنس المسجد، 1 / 175۔ 176، الرقم: 446، 448، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، 2 / 659، الرقم: 956۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (عورت یا جوان کو کچھ عرصہ ) مفقود پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت یا نوجوان کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو آپ لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں: گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا: یہ قبریں ان قبروں والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی قبور میں) روشنی فرما دے گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میرا اس نوجوان کا جنازہ پڑھنا اس کے لیے باعث رحمت (و برکت) ہے۔‘‘
6۔ عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ رضي اﷲ عنھا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَہٗ فَقَالَ: اغْسِلْنَہَا ثَـلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَالِکَ بِمَائٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَۃِ کَافُوْرًا، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا، آذَنَّاہُ فَأَلْقٰی إِلَیْنَا حِقْوَہٗ فَقَالَ: أَشْعِرْنَہَا إِیَّاہُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
6: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما یستحب أن یغسل وترًا، 1 / 423، الرقم: 1196، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب في غسل المیت، 2 / 646، الرقم: 939، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في غسل المیت، 3 / 315، الرقم: 990۔
’’حضرت اُمّ عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا) کو (ان کے وصال کے بعد) غسل دے رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ بار غسل دینا، اور کافور کو آخر میں رکھنا۔ اورجب فارغ ہو جائو تو مجھے اطلاع کر دینا۔ جب ہم فارغ ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع کر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطور تبرک) اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور فرمایا: انہیں اس میں لپیٹ دو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
7۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْہُ، وَعَنْ یَمِیْنِہٖ غُـلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْیَاخُ عَنْ یَسَارِہٖ، فَقَالَ: یَا غُـلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِیَہُ الْأَشْیَاخَ؟ قَالَ: مَا کُنْتُ لِأُوْثِرَ بِفَضْلِي مِنْکَ أَحَدًا یَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
وَقَالَ النَّوَوِيُّ: وَہٰذَا الْغُـلَامُ ہُوَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما۔
7: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المساقاۃ الشرب، باب في الشرب، 2 / 829، الرقم: 2224، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب استحباب إدارۃ الماء واللبن ونحوہما عن یمین المبتدئ، 3 / 1604، الرقم: 2030، ومالک في الموطأ، 2 / 926، الرقم: 1656۔
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بزرگ صحابہ بائیں طرف تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) بزرگوں کو پہلے عطا کروں؟ اس لڑکے نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اُس لڑکے کو وہ تبرک عنایت فرمایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’امام نووی نے فرمایا: وہ نوجوان حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما تھے۔‘‘
8۔ عَنِ السَّائِبِ ابْنِ یَزِیْدَ رضي الله عنه یَقُوْلُ: ذَھَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَی النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَۃِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوْئِہٖ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہٖ، فَنَظَرْتُ إِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّۃِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَۃِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
8: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1 / 81، الرقم: 187، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتم النبوۃ وصctaفتہ ومحلہ من جسدہ صلى الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1823، الرقم: 2345۔
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر وضو فرمایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
9۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّہٗ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَحَانَتْ صَلَاۃُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوْئَ، فَلَمْ یَجِدُوْہُ، فَأُتِيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِوَضُوْئٍ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي ذَالِکَ الْإِنَاءِ یَدَہٗ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَتَوَضَّئُوْا مِنْہُ۔ قَالَ: فَرَأَیْتُ الْمَائَ یَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِہٖ حَتّٰی تَوَضَّئُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِہِمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
9: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب التماس الوضوء إذا حانت الصلاۃ، 1 / 74، الرقم: 167، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم: 2279۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ لوگوں نے پانی تلاش کیا تو نہ ملا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس برتن میں اپنا دستِ مبارک ڈالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی کو (چشمے کی طرح) پھوٹتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آخری آدمی نے بھی وضو کرلیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
10۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم دَعَا بِإِنَائٍ مِنْ مَائٍ، فَأُتِيَ بِقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فِیہِ شَيئٌ مِنْ مَائٍ، فَوَضَعَ أَصَابِعَہٗ فِیْہِ۔ قَالَ أَنَسٌ ص: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَی الْمَاءِ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہٖ۔ قَالَ أَنَسٌ ص: فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّأَ مَا بَیْنَ السَّبْعِیْنَ إِلَی الثَّمَانِیْنَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
10: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب الوضوء من التور، 1 / 84، الرقم: 197، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم: 2279۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا برتن منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کھلے منہ کا پیالہ پیش کیا گیا جس میں ذرا سا پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں اپنی انگلیاں مبارک ڈالیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پانی کو دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹ کر بہہ رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے وضو کرنے والوں کا اندازہ کیا تو وہ سترّ سے اَسّی افراد تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
11۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بِإِنَائٍ، وَھُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ یَدَہٗ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَائُ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہٖ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ۔ قَالَ قَتَادَۃُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَۃٍ، أَوْ زُھَائَ ثَـلَاثِ مِائَۃٍ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
11: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3 / 1309۔1310، الرقم: 3379۔3380، 5316، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم: 2279۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے جس سے تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو یا تین سو کے لگ بھگ تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
12۔ عَنْ أَبِي جُحَیْفَۃَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالْہَاجِرَۃِ إِلَی الْبَطْحَاءِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ وَبَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَزَادَ فِیْہِ عَوْنٌ عَنْ أَبِیْہِ أَبِي جُحَیْفَۃَ قَالَ: کَانَ یَمُرُّ مِنْ وَرَائِہَا الْمَرْأَۃُ وَقَامَ النَّاسُ، فَجَعَلُوْا یَأَْخُذُوْنَ یَدَیْہِ، فَیَمْسَحُوْنَ بِہَا وُجُوْہَہُمْ۔ قَالَ: فَأَخَذْتُ بِیَدِہٖ، فَوَضَعْتُہَا عَلٰی وَجْہِي، فَإِذَا ہِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، وَأَطْیَبُ رَائِحَۃً مِنَ الْمِسْکِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
12: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 3 / 1304، الرقم: 3360، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ المصلي، 1 / 360، الرقم: 503۔
’’حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز وادی بطحاء کی جانب تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے (بطور سترہ) ایک نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت عون نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا کہ اس نیزے کے پیچھے سے عورتیں گزر گئیں اور مرد کھڑے رہے پھر صحابہ کرام اپنے ہاتھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے مس کر کے اپنے چہروں پر مل لیتے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ مبارک تھاما اور اپنے چہرے سے مس کیا تو دیکھا کہ وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ عمدہ تھی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
13۔ عَنْ أَبِي جُحَیْفَۃَ رضي الله عنه یَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالْھَاجِرَۃِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ یَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِہٖ فَیَتَمَسَّحُوْنَ بِہٖ، فَصَلَّی النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم الظُّھْرَ رَکْعَتَیْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ، وَبَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ، وَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی: دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ فِیْہِ مَائٌ، فَغَسَلَ یَدَیْہِ وَوَجْھَہٗ فِیْہِ وَمَجَّ فِیْہِ، ثُمَّ قَالَ لَھُمَا: اشْرَبَا مِنْہُ، وَأَفْرِغَا عَلٰی وُجُوْھِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
13-14: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1 / 80، الرقم: 185، وأیضًا في کتاب الصلاۃ في الثیاب، باب الصلاۃ في الثوب الأحمر، 1 / 147، الرقم: 369، وأیضًا في کتاب الصلاۃ، باب سترۃ الإمام سترۃ من خلفہ، 1 / 187، الرقم: 473، وأیضًا في باب الصلاۃ إلی العنزۃ، 1 / 188، الرقم: 477، وأیضًا في باب السترۃ بمکۃ وغیرھا، 1 / 188، الرقم: 479، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین، 4 / 1943، الرقم: 2497۔
’’حضرت ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پھر اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی۔ پھر اُن دونوں حضرات (یعنی حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو عامر اشعری) سے فرمایا: اس میں سے پی لو اور اسے اپنے چہروں اور سینوں پر بھی ڈال لو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
14۔ وفي روایۃ عنہ: قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّۃٍ حَمْرَائَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَیْتُ بِـلَالًا أَخَذَ وَضُوْئَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَیْتُ النَّاسَ یَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْئَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْہُ شَیْئًا تَمَسَّحَ بِہٖ، وَمَنْ لَمْ یُصِبْ مِنْہُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِہٖ، ثُمَّ رَأَیْتُ بِـلَالًا أَخَذَ عَنَزَۃً فَرَکَزَھَا، َوخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي حُلَّۃٍ حَمْرَائَ مُشَمِّرًا، صَلّٰی إِلَی الْعَنَزَۃِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَیْنِ، وَرَأَیْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ، یَمُرُّوْنَ مِنْ بَیْنِ یَدَي الْعَنَزَۃِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
’’اور حضرت ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں آپ نے بیان فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور پھر میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپک رہے ہیں۔ جسے اس پانی میں سے کچھ مل گیا اُس نے اسے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے کچھ نہ مل سکا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ (پر ہاتھ مل کر اس) سے تری حاصل کی (اور اسے اپنے جسم پر مل لیا)۔ پھر میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر (بطور سترہ) گاڑ دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرخ لباس میں جوڑے کو سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے اور نیزے کی طرف منہ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے دیکھا کہ نیزے سے پرے آدمی اور جانور گزر رہے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
15۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم کَانَ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیُبَرِّکُ عَلَیْہِمْ وَیُحَنِّکُہُمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
15: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبیان بالبرکۃ ومسح رؤسھم، 5 / 2338، الرقم: 5994، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3 / 1691، الرقم: 2147۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (نو مولود) بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں برکت کی دعا دیتے اور (اپنے مبارک لعابِ دہن سے انہیں) گھٹی دیتے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
16۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنہما أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَیْرِ رضي اﷲ عنہما بِمَکَّۃَ قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ، فَنَزَلْتُ قُبَائً، فَوَلَدْتُُ بِقُبَائٍ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہٖ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَوَضَعْتُہٗ فِي حَجْرِہٖ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ، فَمَضَغَہَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ شَيئٍ دَخَلَ جَوْفَہٗ رِیْقُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ حَنَّکَہٗ بِالتَّمْرَۃِ، ثُمَّ دَعَا لَہٗ، فَبَرَّکَ عَلَیْہِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُوْدٍ وُلِدَ فِي الإِْسْـلَامِ، فَفَرِحُوْا بِہٖ فَرَحًا شَدِیْدًا، لِأَنَّہُمْ قِیْلَ لَہُمْ: إِنَّ الْیَہُوْدَ قَدْ سَحَرَتْکُمْ، فَـلَا یُوْلَدُ لَکُمْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
16: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العقیقۃ، باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد عنہ وتحنیکہ، 5 / 2081، الرقم: 5152، وأیضًا في کتاب المناقب، باب ھجرۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1422، الرقم: 3697، وأیضًا في التاریخ الکبیر، 5 / 6، الرقم: 9، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3 / 1691، الرقم: 2146۔
وفي روایۃ: عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا قَالَتْ: أَوَّلُ مَوْلُوْدٍ وُلِدَ فِي الإِْسْلَامِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ الزُّبَیْرِ رضي اﷲ عنہما أَتَوْا بِہِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم تَمْرَۃً، فَـلَاکَہَا ثُمَّ أَدْخَلَہَا فِي فِیْہِ، فَأَوَّلُ مَا دَخَلَ بَطْنَہٗ رِیقُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ۔(1)
(1) أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب ہجرۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، 3 / 1423، الرقم: 3698۔
’’حضرت اَسماء بنت ابو بکر رضی اﷲ عنہما بیان فرماتی ہیں کہ مکّہ مکرّمہ میں قیام کے دوران حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما ان کے شکم مبارک میں تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے ہجرت کی تو پورے دنوں سے تھی۔ پس میں مدینہ منورہ پہنچ گئی اور قبا میں ٹھہری تو وہیں ان کی ولادت ہو گئی۔ پس میں انہیں لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر حضرت عبد اﷲ کے منہ میں رکھ دیا۔ پس سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں گئی وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے ساتھ انہیں گھٹی دی اور ان کے لیے دعا کرکے مبارک باد دی۔ اسلام میں (ہجرت کے بعد) پیدا ہونے والا یہ سب سے پہلا بچہ تھا۔ پس اس کی پیدائش پر مسلمانوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا کیوں کہ یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ یہودیوں نے (مسلمانوں پر) جادو کر رکھا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ سب سے پہلا بچہ جو دار الاسلام میں پیدا ہوا، وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر تھے۔ انہیں بارگاہ نبوت میں لایا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کھجور لے کر چبائی اور اسے حضرت عبد اللہ کے منہ میں رکھ دیا۔ پس جو (بابرکت) چیز حضرت عبد اللہ کے پیٹ میں سب سے پہلے گئی وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
17۔ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضي الله عنه قَالَ وُلِدَ لِي غُـلَامٌ، فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَسَمَّاہُ إِبْرَاہِیْمَ، فَحَنَّکَہٗ بِتَمْرَۃٍ وَدَعَا لَہٗ بِالْبَرَکَۃِ وَدَفَعَہٗ إِلَيَّ، وَکَانَ أَکْبَرَ وَلَدِ أَبِي مُوْسٰی۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
17: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العقیقۃ، باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد لمن لم یعق عنہ وتحنیکہ، 5 / 2081، الرقم: 5150، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3 / 1690، الرقم: 2145۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور مجھے واپس دے دیا۔ یہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
18۔ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ رضي اﷲ عنہما قَالَا: إِنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم بِعَیْنَیْہِ۔ قَالَ: فَوَاﷲِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہٗ وَجِلْدَہٗ، وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہٗ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہٗ وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَہٗ۔ فَرَجَعَ عُرْوَۃُ إِلٰی أَصْحَابِہٖ فَقَالَ: أَي قَوْمِ، وَاﷲِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاﷲِ، إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہٗ أَصْحَابُہٗ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا، وَاﷲِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْھُمْ، فَدَلَکَ بِھَا وَجْھَہٗ وَجِلْدَہٗ، وَإِذَا أَمَرَھُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہٗ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَہٗ وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَہٗ ...الحدیث۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
18: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ، 2 / 974، الرقم: 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحیح، 11 / 216، الرقم: 4872۔
’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ (قبولِ اسلام سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر جب) عروہ بن مسعود (بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرامث (کے معمولاتِ محبت و تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا مبارک لعابِ دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے تو اس حکم کی فوراً تعمیل کی جاتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ (متبرک) پانی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ پانی اسے مل جائے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے انتہائی پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے شان و شوکت والے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن، خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور غایت درجہ تعظیم کے باعث ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
19۔ عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ الرَّبِیْعِ رضي الله عنه قَالَ: وَھُوَ الَّذِي مَجَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي وَجْھِہٖ - وَھُوَ غُـلَامٌ - مِنْ بِئْرِھِمْ۔ وَقَالَ عُرْوَۃُ، عَنِ الْمِسْوَرِ وَغَیْرِہٖ، یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا صَاحِبَہٗ وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ۔
19: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس،1 / 81، الرقم: 186، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 336، الرقم: 9720۔
’’حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جب یہ بچے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کنویں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی فرمائی تھی۔ اور عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو قریب تھا کہ لوگ اس (متبرک) پانی کے حصول کے لیے آپس میں لڑ مرتے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، اَحمد اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
20۔ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم إِلٰی أَبِي رَافِعٍ الْیَھُوْدِيِّ رِجَالاً مِنَ الْأَنْصَارِ، فأَمَّرَ عَلَیْھِمْ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عَتِیْکٍ ص، وَکَانَ أَبُوْ رَافِعٍ یُؤْذِي رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَیُعِیْنُ عَلَیْہِ، وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَہٗ بِأَرْضِ الْحِجَازِ ... (قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَتِیْکٍ رضي الله عنه فِي قِصَّۃِ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ:) وَضَعْتُ ظِبَۃَ السَّیْفِ فِي بَطْنِہٖ حَتّٰی أَخَذَ فِي ظَہْرِہٖ فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُہٗ فَجَعَلْتُ أَفْتَحَُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّی انْتَھَیْتُ إِلٰی دَرَجَۃٍ لَہٗ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَی أَنِّي قَدِ انْتَہَیْتُ إِلَی الْأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَیْلَۃٍ مُقْمِرَۃٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُھَا بِعِمَامَۃٍ ... فَانْتَہَیْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَحَدَّثْتُہٗ، فَقَال: ابْسُطْ رِجْلَکَ۔ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَھَا، فَکَأَنَّھَا لَمْ أَشْتَکِھَا قَطُّ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ۔
20: أخرجہ البخاری في الصحیح، کتاب المغازي، باب قتل أبي رافع عبد اﷲ بن أبي الحُقَیْقِ، 4 / 1482، الرقم: 3813، والأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1 / 125، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3 / 946۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لیے اس کی) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبد اﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع یہودی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی شان مبارک میں گستاخی کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (دین کے) خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا ... (حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:) پس میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر زور دیا تو اس کی کمر سے پار نکل گئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ملک عدم میں پہنچ گیا ہے۔ تو میں ایک، ایک دروازے کو کھول کر باہر نکلتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک منزل سے اترتے ہوئے جب میں نے اپنا پیر آگے رکھا اور میں چاندنی رات میں یہی محسوس کر رہا تھا کہ زمین پر آ پہنچا ہوں، پس میں اوپر سے زمین پر گرا اور میری پنڈلی (کی ہڈی) ٹوٹ گئی میں نے اسے عمامہ سے باندھ لیا۔ ... پھر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پائوں آگے کرو۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ کرم پھیرا تو (وہ ٹوٹی ہوئی پنڈلی یوں جڑ گئی) جیسے اس میں کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
وفي روایۃ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ جَدِّہٖ رضي الله عنهم قَالَ: أُصِیْبَتْ عَیْنُ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه یَوْمَ أُحُدٍ فَبَزَقَ فِیْہَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فَکَانَتْ أَصَحَّ عَیْنَیْہِ۔ رَوَاہُ أَبُوْ یَعْلٰی۔(1)
(1) أخرجہ أبو یعلی في المسند، 3 / 120، الرقم: 1550، وأیضًا في المفارید / 64، الرقم: 62، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 298۔
’’ایک روایت میں حضرت عبد الرحمن بن حارث بن عبید رضی اللہ عنہم اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے دن حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تو اس آنکھ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن مبارک لگایا پس وہ آنکھ (اسی وقت ٹھیک ہو کر) دوسری آنکھ سے بھی بہتر ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
21۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِي عُبَیْدٍ قَالَ: رَأَیْتُ أَثَرَ ضَرْبَۃٍ فِي سَاقِ سَلَمَۃَ رضي الله عنه فَقُلْتُ: یَا أَبَا مُسْلِمٍ، مَا ہٰذِہِ الضَّرْبَۃُ؟ فَقَالَ: ہٰذِہٖ ضَرْبَۃٌ أَصَابَتْنِي یَوْمَ خَیْبَرَ فَقَالَ النَّاسُ: أُصِیْبَ سَلَمَۃُ، فَأَتَیْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَنَفَثَ فِیْہِ ثَـلَاثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَکَیْتُہَا حَتَّی السَّاعَۃِ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
21: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب غزوۃ خیبر، 4 / 1541، الرقم: 3969، وأبو داود في السنن، کتاب الطب، باب کیف الرقي، 4 / 12، الرقم: 3894، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 48، الرقم: 16562۔
’’حضرت یزید بن ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو ان سے دریافت کیا: اے ابو مسلم! یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ زخم مجھے غزوہ خیبر میں آیا تھا۔ لوگ تو یہی کہنے لگے تھے کہ آج سلمہ کا آخری وقت آپہنچا ہے لیکن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تین مرتبہ پھونک مار کر دم فرمایا تو اس کے بعد آج تک مجھے کبھی کوئی تکسلیف محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
22۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَوْہَبٍ رضي الله عنهم قَالَ: أَرْسَلَنِي أَہْلِي إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ رضي اﷲ عنہا زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَائٍ وَقَبَضَ إِسْرَائِیْلُ ثَـلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّۃٍ فِیْہِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الْإِنْسَانَ عَیْنٌ أَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَیْہَا مِخْضَبَہٗ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَأَیْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَأَحْمَدُ۔
22: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب اللباس، باب ما یذکر في الشیب، 5 / 2210، الرقم: 5557، وابن ماجہ في السنن، کتاب اللباس، باب الخضاب بالحنائ، 2 / 1196، الرقم: 3623، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 296، الرقم: 26581۔
’’حضرت عثمان بن عبد اﷲ بن موہب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: میرے گھر والوں نے مجھے ایک پیالے میں پانی دے کر اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ (راوی) حضرت اسرائیل نے اپنی تین انگلیاں بند کرکے اس پیالی کی طرح بنائیں جس کے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک ڈالا گیا تھا (اور بیان کیا کہ) جب کسی آدمی کو نظر لگ جاتی یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس ایک برتن میں پانی بھیج دیا جاتا (تو وہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ موئے مبارک ڈال دیتیں اور بیمار شخص کو وہ پانی پینے سے فوراً شفاء ہو جاتی)۔ پس میں نے اس بوتل میں جھانک کر دیکھا تو میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) چند سرخ موئے مبارک کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
23۔ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ: قُلْتُ لِعُبَیْدَۃَ: عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم ، أَصَبْنَاہُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ رضي الله عنه، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَھْلِ أَنَسٍ رضي الله عنه، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَۃٌ مِنْہُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ۔
23: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الإنسان وکان عطاء لا یری، 1 / 75، الرقم: 168، والبیہقي في السنن الکبری، 7 / 67، الرقم: 13188۔
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سب سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
24۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: جَائَتِ امْرَأَۃٌ إِلَی النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم بِبُرْدَۃٍ فَقَالَ سَہْلٌ لِلْقَوْمِ: أَتَدْرُوْنَ مَا الْبُرْدَۃُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: ہِيَ الشَّمْلَۃُ۔ فَقَالَ سَہْلٌ: ہِيَ شَمْلَۃٌ مَنْسُوْجَۃٌ فِیْہَا حَاشِیَتُہَا فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَکْسُوْکَ ہٰذِہٖ، فَأَخَذَہَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم مُحْتَاجًا إِلَیْہَا، فَلَبِسَہَا، فَرَآہَا عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ۔ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَحْسَنَ ہٰذِہٖ فَاکْسُنِیْہَا۔ فَقَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم لَامَہٗ أَصْحَابُہٗ۔ قَالُوْا: مَا أَحْسَنْتَ حِیْنَ رَأَیْتَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم أَخَذَہَا مُحْتَاجًا إِلَیْہَا، ثُمَّ سَأَلْتَہٗ إِیَّاہَا وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّہٗ لَا یُسْأَلُ شَیْئًا فَیَمْنَعَہٗ۔ فَقَالَ: رَجَوْتُ بَرَکَتَہَا حِیْنَ لَبِسَہَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم لَعَلِّي أُکَفَّنُ فِیْہَا۔ وفي روایۃ: قَالَ سَہْلٌ: فَکَانَتْ کَفَنَہٗ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔ وَقَالَ الطَّبَرَانِيُّ: قَالَ قُتَیْبَۃُ: کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه۔
24: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الآداب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکرہ من البخل، 5 / 2245، الرقم: 5689، والنسائي في السنن،کتاب الزینۃ، باب لبس البرود، 8 / 204، الرقم: 5321، وابن ماجہ في السنن، کتاب اللباس، باب لباس رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم ، 2 / 1177، الرقم: 3555، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 143، 169، 200، الرقم: 5785، 5887، 5997۔
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک عورت چادر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئی۔ حضرت سہل نے دوسرے حضرات سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چادر کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ شملہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ ایسی شملہ ہے جس پر حاشیے بنے ہوئے ہیں۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہ چادر آپ کے اوڑھنے کی خاطر لائی ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ چادر قبول فرما لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت چادر کی ضرورت بھی تھی اور اسے پہننے کا شرف بخشا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اَطہر پر دیکھا تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو بہت اچھی ہے، لہٰذا یہ مجھے اوڑھا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لے لو (اور اسے چادر عطا فرمادی)۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر تشریف لے گئے تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ کیوں کہ جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چادر کی ضرورت بھی ہے اس کے باوجود تم نے وہی مانگ لی جبکہ تم یہ جانتے بھی تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا کہ میں اس چادر سے حصولِ برکت کا امیدوار ہوں کیوں کہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے کا شرف حاصل ہو گیا ہے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اسی میں کفنایا جائوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر وہی چادر اس صحابی کا کفن بنی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام طبرانی نے بیان فرمایا: امام قتیبہ نے فرمایا: وہ (بطور تبرک چادر مانگنے والے شخص) جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘
25۔ عَنْ أَبِي بُرْدَۃَ رضي الله عنه قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَلَقِیَنِي عَبْدُ اﷲِ بْنُ سَـلَامٍ رضي الله عنه فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ فَأَسْقِیَکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِیْہِ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَتُصَلِّي فِي مَسْجِدٍ صَلّٰی فِیْہِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فَانْطَلَقْتُ مَعَہٗ فَسَقَانِي سَوِیْقًا وَأَطْعَمَنِي تَمْرًا وَصَلَّیْتُ فِي مَسْجِدِہٖ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ۔
25: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما ذکر النبي صلى الله عليه وآله وسلم وحض علی اتفاق أہل العلم وما اجتمع علیہ الحرمان مکۃ والمدینۃ، 6 / 2673، الرقم:6910، والعسقلاني في تغلیق التعلیق، 5 / 32۔
’’حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبد اللہ بن سلامص ملے۔ انہوں نے مجھے فرمایا: آؤ میرے ساتھ میرے گھر چلو تاکہ میں (بطورِ تبرک) تمہیں اس پیالے میں پلائوں جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوش فرمایا کرتے تھے اور اس مسجد میں نماز پڑھائوں جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔ پس میں ان کے ساتھ چلا گیا تو اُنہوں نے مجھے (اس متبرک پیالے میں) ستُّو پلائے اور کھجوریں کھلائیں اور میں نے اُن کی مسجد میں نماز بھی پڑھی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے۔
26۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا رَمٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم الْجَمْرَۃَ وَنَحَرَ نُسُکَہٗ وَحَلَقَ، نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّہُ الْأَیْمَنَ فَحَلَقَہٗ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ، ثُمَّ نَاوَلَـہُ الشِّقَّ الْأَیْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ فَحَلَقَہٗ، فَأَعْطَاہُ أَبَا طَلْحَۃَ، فَقَالَ: اقْسِمْہُ بَیْنَ النَّاسِ۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ۔
26: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمی ثم ینحر ثم یحلق، 2 / 948، الرقم: 1305، والترمذي في السنن، کتاب الحج، باب ما جاء بأي جانب الرأس یبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم: 912، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 449، الرقم: 4116، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4 / 299، الرقم: 2928۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو (سر مبارک منڈوانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے (دائیں طرف کے) بال مبارک مونڈے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہص کو بلایا اور انہیں وہ بال مبارک عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا: یہ بھی مونڈو، تو اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا: یہ بال بھی لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
27۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم أَتٰی مِنًی فَأَتَی الْجَمْرَۃَ فَرَمَاہَا، ثُمَّ أَتٰی مَنْزِلَہٗ بِمِنًی وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ: خُذْ وَأَشَارَ إِلٰی جَانِبِہِ الْأَیْمَنِ ثُمَّ الْأَیْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ یُعْطِیْہِ النَّاسَ۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔
27: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2 / 947، الرقم: 1305، والبیھقي في السنن الکبری، 5 / 103، الرقم: 9183۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منٰی کے مقام پر تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منٰی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔ وہاں قربانی ادا کی اور حجام سے سر مونڈنے کے لیے فرمایا اور اسے دائیں جانب کی طرف اشارہ فرمایا (کہ پہلے اس طرف سے مونڈو)، پھر بائیں جانب اشارہ فرمایا (اور اس طرف سے) مونڈنے کا حکم دیا، پھر اپنے موئے مبارک لوگوں کو (تبرکاً) عطا فرمائے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
28۔ وفي روایۃ: فَقَالَ لِلْحَلَّاقِ: ہَا وَأَشَارَ بِیَدِہٖ إِلَی الْجَانِبِ الْأَیْمَنِ ہٰکَذَا، فَقَسَمَ شَعَرَہٗ بَیْنَ مَنْ یَلِیْہِ، قَالَ: ثُمَّ أَشَارَ إِلَی الْحَلَّاقِ وَإِلَی الْجَانِبِ الْأَیْسَرِ فَحَلَقَہٗ فَأَعْطَاہُ أُمَّ سُلَیْمٍ: وَأَمَّا فِي رِوَایَۃِ أَبِي کُرَیْبٍ قَالَ: فَبَدَأَ بِالشِّقِّ الْأَیْمَنِ فَوَزَّعَہُ الشَّعَرَۃَ وَالشَّعَرَتَیْنِ بَیْنَ النَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: بِالْأَیْسَرِ فَصَنَعَ بِہٖ مِثْلَ ذَالِکَ، ثُمَّ قَالَ: ہَاہُنَا أَبُوْ طَلْحَۃَ فَدَفَعَہُ إِلٰی أَبِي طَلْحَۃَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ۔
28: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2 / 947، الرقم: 1305، وأبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب الحلق والتقصیر، 2 / 203، الرقم: 1981، وابن حبان في الصحیح، 4 / 206، الرقم: 1371۔
’’اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے دائیں جانب اشارہ کر کے حجام سے فرمایا: یہاں سے (مونڈو)، پھر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں وہ بال مبارک تقسیم فرما دیئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجام کو بائیں جانب اشارہ کیا، اس نے اس طرف سے بال مبارک مونڈے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ موئے مبارک حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا کو عطا فرمائے۔ اور ابو کریب کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں جانب سے شروع کیا اور لوگوں میں ایک ایک دو دو بال مبارک تقسیم فرمائے، پھر بائیں جانب اشارہ کیا اور اس طرف بھی ایسا کیا (یعنی سر اقدس منڈوایا)۔ پھر دریافت فرمایا: یہاں ابو طلحہ ہیں؟ اور (ان کے حاضر ہونے پر) وہ بال مبارک حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
29۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْبُدْنِ، فَنَحَرَہَا وَالْحَجَّامُ جَالِسٌ وَقَالَ بِیَدِہٖ عَنْ رَأْسِہٖ، فَحَلَقَ شِقَّہُ الْأَیْمَنَ فَقَسَمَہٗ فِیْمَنْ یَلِیْہِ ثُمَّ قَالَ: احْلِقْ الشِّقَّ الْآخَرَ۔ فَقَالَ: أَیْنَ أَبُوْ طَلْحَۃَ؟ فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔
29: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2 / 947، الرقم: 1305، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 445، الرقم: 4102۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمرہ عقبہ میں کنکریاں ماریں، پھر اونٹوں کی طرف گئے اور انہیں نحر (یعنی قربان) کیا، حجام بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے اپنے سر مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس نے دائیں جانب مونڈ دی۔ جو لوگ قریب بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال مبارک ان میں تقسیم فرما دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوسری جانب مونڈو اور دریافت فرمایا: ابو طلحہ کہاں ہیں؟ (ان کی آمد پر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ موئے مبارک انہیں عطا فرمائے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
30۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم صَـلَاۃَ الْأُوْلٰی، ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی أَھْلِہٖ وَخَرَجْتُ مَعَہٗ، فَاسْتَقْبَلَہٗ وِلْدَانٌ فَجَعَلَ یَمْسَحُ خَدَّي أَحَدِھِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا، قَالَ: وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدِّي۔ قَالَ: فَوَجَدْتُ لِیَدِہٖ بَرْدًا أَوْ رِیْحًا کَأَنَّمَا أَخْرَجَھَا مِنْ جُؤْنَۃِ عَطَّارٍ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
30: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب رائحۃ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولین مسہ والتبرک بمسحہ، 4 / 1814، الرقم: 2329، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 323، الرقم: 31765، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 228، الرقم: 1944۔
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا، سامنے سے کچھ بچے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر ہاتھ مبارک پھیرا، اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ مبارک پھیرا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ابھی ابھی) عطار کے ڈبہ سے ہاتھ باہر نکالا ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
31۔ عَنْ أَنَسٍ ص، عَنْ أُمِّ سُلَیْمٍ رضي اﷲ عنہا أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم کَانَ یَأْتِیْہَا فَیَقِیْلُ عِنْدَہَا، فَتَبْسُطُ لَہٗ نِطْعًا فَیَقِیْلُ عَلَیْہِ وَکَانَ کَثِیْرَ الْعَرَقِ فَکَانَتْ تَجْمَعُ عَرَقَہٗ، فَتَجْعَلُہٗ فِي الطِّیْبِ وَالْقَوَارِیْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم : یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا ہٰذَا؟ قَالَتْ: عَرَقُکَ أَدُوْفُ بِہٖ طِیْبِي۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
31: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلى الله عليه وآله وسلم والتبرک بہ، 4 / 1816، الرقم: 2332، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 287، الرقم: 14091۔
’’حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لاتے اور وہاں قیلولہ فرماتے تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھا دیتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک بہت آتا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو جمع کرکے خوشبو میں ملا کر بوتلوں میں بھردیتیں۔ (ایک مرتبہ ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے سلیم! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے جسے میں اپنی خوشبو میں ملاتی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
32۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَائَ تْ أُمِّي بِقَارُوْرَۃٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِیْہَا، فَاسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا ہٰذَا الَّذِي تَصْنَعِیْنَ؟ قَالَتْ: ہٰذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُہٗ فِي طِیْبِنَا وَہُوَ مِنْ أَطْیَبِ الطِّیْبِ۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
وفي روایۃ: عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ زَیْدٍ رضي اﷲ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم قَالَ فِي بِیْتِ أُمِّ سُلَیْمٍ رضي اﷲ عنہا عَلٰی نِطْعٍ، فَعَرِقَ فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَأُمُّ سُلَیْمٍ تَمْسَحُ الْعَرَقَ فَقَالَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا تَصْنَعِیْنَ؟ قَالَ: فَقَالَتْ: آخَذُ ہٰذَا لِلْبَرَکَۃِ الَّتِي تَخْرُجُ مِنْکَ۔ رَوَاہُ ابْنُ سَعْدٍ۔
32: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلى الله عليه وآله وسلم والتبرک بہ، 4 / 1815، الرقم: 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 136، الرقم: 12419، والطبراني في المعجم الکبیر، 25، 119، الرقم: 289، 297، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8 / 428۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، اور قیلولہ کے لیے آرام فرما ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آیا، میری والدہ ایک شیشی لے کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے امّ سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے، جسے ہم اپنی خوشبو میںڈالیں گے اور یہ سب سے بہترین خوشبو ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت براء بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر میں چمڑے کے بستر پر قیلولہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا وہ پسینہ مبارک پونچھ کر (بوتل میں جمع) کرنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُمّ سلیم! تم اسے کیا کرو گی؟ وہ عرض کرنے لگیں: (یا رسول اﷲ!) جو پسینہ مبارک آپ کے جسدِ اقدس سے نکلا ہے (اسے بطور خوشبو استعمال کروں گی)۔‘‘ اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
33۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم یَدْخُلُ بَیْتَ أُمِّ سُلَیْمٍ رضي اﷲ عنہا فَیَنَامُ عَلٰی فِرَاشِھَا، وَلَیْسَتْ فِیْہِ۔ قَالَ: فَجَائَ ذَاتَ یَوْمٍ فَنَامَ عَلٰی فِرَاشِھَا۔ فَأُتِیَتْ، فَقِیْلَ لَھَا: ھٰذَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم نَامَ فِي بَیْتِکِ عَلٰی فِرَاشِکِ۔ قَالَ: فَجَائَتْ وَقَدْ عَرِقَ، وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُہٗ عَلٰی قِطْعَۃِ أَدِیْمٍ، عَلَی الْفِرَاشِ۔ فَفَتَحَتْ عَتِیْدَتَھَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَالِکَ الْعَرَقَ، فَتَعْصِرُہٗ فِي قَوَارِیْرِھَا۔ فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَا تَصْنَعِیْنَ، یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، نَرْجُوْ بَرَکَتَہٗ لِصِبْیَانِنَا۔ قَالَ: أَصَبْتِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
33: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتبرک بہ، 4 / 1815، الرقم: 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم: 1334، 1339۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُمّ سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر اِستراحت فرما ہو گئے، حضرت اُمّ سُلیم آئیں تو انہیں بتایا گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر میں بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (محو اِستراحت ہیں اور جسدِ اقدس) پسینے میں شرابور ہے اور وہ پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی (خوشبو کی) بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا: اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
34۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي عَمْرَۃَ عَنْ جَدَّۃٍ لَہٗ، یُقَالُ لَہَا کَبْشَۃُ الْأَنْصَارِیَّۃُ رضي اﷲ عنہا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَیْہَا، وَعِنْدَہَا قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْہَا وَہُوَ قَائِمٌ، فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَۃِ تَبْتَغِي بَرَکَۃَ مَوْضِعِ فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ۔
رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
34: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الأشربۃ، باب ما جاء في الرخصۃ في ذلک، 4 / 306، الرقم: 1892، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأشربۃ، باب الشرب قائمًا، 2 / 1132، الرقم: 3423، والطبراني في مسند الشامیین، 1 / 369، الرقم: 639۔
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی عمرہ رضی اللہ عنہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، وہاں ان کے پاس ایک مشکیزہ لٹکاہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس لٹکے ہوئے مشکیزہ کے منہ سے پانی نوش فرمایا توانہوں نے اس مشکیزے کا دہانہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ مبارک لگنے کی وجہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وقال النَّوَوِيُّ في شرحہ علی صحیح مسلم وأیضًا في الرِّیاض: وَقَدْ رَوَی التِّرْمِذِيُّ وَغَیْرُہٗ عَنْ کَبْشَۃَ بِنْتِ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنہا وَھِيَ أُخْتُ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَشَرِبَ مِنْ قِرْبَۃٍ مُعَلَّقَۃٍ لِوَجْھَیْنِ قَائِمًا، فَقُمْتُ إِلٰی فِیْھَا فَقَطَعْتُہٗ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ، وَقَطْعٌ لِفَمِ الْقِرْبَۃِ فَعِلَّتُہٗ لِوَجْھَیْنِ، أَحَدُھُمَا: أَنْ تَصُوْنَ مَوْضِعًا أَصَابَہٗ فَمُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَنْ أَنْ یَبْتَذِلَ وَیَمَسَّہٗ کُلُّ أَحَدٍ۔ وَالثَّانِيُّ: أَنْ تَحْفَظَہٗ لِلتَّبَرُّکِ بِہٖ وَالِاسْتِشْفَاءِ۔ وَاﷲُ أَعْلَمُ۔
ذکرہ النووي في شرحہ علی صحیح مسلم، 13 / 194، وأیضًا في ریاض الصالحین / 204، الرقم: 204۔
’’امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں اور ریاض الصالحین میں بیان فرمایا: امام ترمذی اور دیگر اَئمہ محدثین نے حضرت کبشہ بنت ثابت رضی اﷲ عنہا سے روایت کیا ہے جو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مشکیزہ جس کے دو منہ تھے اس میں سے کھڑے ہوکر پانی نوش فرمایا۔ میں نے اس مشکیزہ کے منہ کو کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور مشکیزے کے منہ کو کاٹ کر رکھنے کے دو سبب تھے۔ پہلا سبب تو یہ تھا کہ جس جگہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہن مبارک لگا تھا اس جگہ کو بے ادبی سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کی حفاظت کو یقینی بنایاجائے کہ ہر کوئی اسے نہ چھوئے اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے ذریعے تبرک اور شفا حاصل کریں۔‘‘
35۔ عن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: بَعَثَنِي أَبُوْ طَلْحَۃَ رضی اللہ عنہ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم لِأَدْعُوَہٗ وَقَدْ جَعَلَ طَعَامًا قَالَ: فَأَقْبَلْتُ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مَعَ النَّاسِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَاسْتَحْیَیْتُ فَقُلْتُ: أَجِبْ أَبَا طَلْحَۃَ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: قُوْمُوْا: فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ لَکَ شَیْئًا قَالَ: فَمَسَّہَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَدَعَا فِیْہَا بِالْبَرَکَۃِ ثُمَّ قَالَ: أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِي عَشَرَۃً۔ وَقَالَ: کُلُوْا وَأَخْرَجَ لَہُمْ شَیْئًا مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہٖ، فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، فَخَرَجُوْا فَقَالَ: أَدْخِلْ عَشَرَۃً، فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا فَمَا زَالَ یُدْخِلُ عَشَرَۃً وَیُخْرِجُ عَشَرَۃً حَتّٰی لَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ فَأَکَلَ حَتّٰی شَبِعَ ثُمَّ ہَیَّأَہَا فَإِذَا ہِيَ مِثْلُہَا حِیْنَ أَکَلُوْا مِنْہَا۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔
35-37: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب جواز استتباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذلک وبتحققہ تحققا تامًا، 3 / 1612، الرقم: 2040، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم: 13307، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 313، الرقم: 31707، وأبو یعلی في المسند، 7 / 170، الرقم: 4145،4331۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بھیجا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا لاؤں، درآں حالیکہ انہوں نے کھانا تیار کر رکھا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب گیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میری جانب متوجہ ہوئے تو مجھے (کچھ عرض کرتے ہوئے) جھجک محسوس ہوئی۔ تاہم میں نے عرض کیا: حضرت ابو طلحہ کی دعوت قبول کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: اٹھو چلو۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان کے گھر پہنچے تو) حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے تو آپ کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کھانے کو چھوا اور اس پر برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: میرے صحابہ میں سے دس افراد کو بلاؤ، اور ان سے فرمایا: کھاؤ، اور اپنی انگلیوں کے درمیان سے کچھ نکالا، سو انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے، پھر وہ چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دس اور آدمیوں کو بلاؤ، پھر انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے اور چلے گئے۔ پھر اسی طرح دس، دس کر کے صحابہ کرام آتے اور کھانا کھا کر جاتے رہے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا اور سب نے سیر شکم ہو کر کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا منگوایا تو وہ اتنا ہی باقی تھا جتنا ان کے کھانے سے قبل تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، اَحمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
36۔ وفي روایۃ عنہ: قَالَ: بَعَثَنِي أَبُوْ طَلْحَۃَ رضي الله عنه إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَسَاقَ الْحَدِیْثَ بِنَحْوِ حَدِیْثِ ابْنِ نُمَیْرٍ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فِي آخِرِہٖ: ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ، فَجَمَعَہٗ ثُمَّ دَعَا فِیْہِ بِالْبَرَکَۃِ قَالَ: فَعَادَ کَمَا کَانَ۔ فَقَالَ: دُوْنَکُمْ ہٰذَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی مروی ہے کہ مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت کے لیے بلانے) بھیجا، اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس کے بعد جو کھانا بچا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جمع فرمایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، وہ کھانا پھر پہلے جتنا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لو یہ اپنا کھانالے لو۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
37۔ وفي روایۃ عنہ: قَالَ: أَمَرَ أَبُوْ طَلْحَۃَ رضي الله عنه أُمَّ سُلَیْمٍ رضي اﷲ عنہا أَنْ تَصْنَعَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم طَعَامًا لِنَفْسِہٖ خَاصَّۃً، ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَیْہِ وساق الحدیث وقال فیہ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم یَدَہٗ وَسَمَّی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: اِئْذَنْ لِعَشَرَۃٍ، فَأَذِنَ لَہُمْ، فَدَخَلُوْا، فَقَالَ: کُلُوْا وَسَمُّوا اﷲَ، فَأَکَلُوْا حَتّٰی فَعَلَ ذَالِکَ بِثَمَانِیْنَ رَجُـلًا، ثُمَّ أَکَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بَعْدَ ذَالِکَ وَأَہْلُ الْبَیْتِ وَتَرَکُوْا سُؤْرًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا سے یہ کہا کہ تم خود خصوصی طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرو۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، اس کے بعد وہی بیان ہے، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کھانے پر) اپنا دستِ اقدس رکھا اور بسم اللہ پڑھی، پھر فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ، انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا، وہ آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بسم اللہ پڑھو اور کھاؤ۔ سو انہوں نے کھایا یہاں تک کہ اسی (80) آدمیوں نے وہ کھانا کھایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور (پھر بھی) کھانا باقی بچ گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
38۔ عَنْ أَبِي زَیْدِ بْنِ أَخْطَبَ رضي الله عنه قَالَ: مَسَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یَدَہٗ عَلٰی وَجْھِي وَدَعَا لِي، قَالَ عَزْرَۃُ: إِنَّہٗ عَاشَ مِائَۃً وَعِشْرِیْنَ سَنَۃً وَلَیْسَ فِي رَأْسِہٖ إِلَّا شَعَرَاتٌ بِیْضٌ۔
رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔
38: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب: (6)، 5 / 594، الرقم: 3629، والطبراني المعجم الکبیر، 17 / 27، الرقم: 45، 18 / 21، الرقم: 35، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم: 2182۔
’’حضرت ابو زید اَخطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لیے دعا فرمائی۔ عزرہ (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت ابو زید ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کی برکت سے) ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
وفي روایۃ: عَنْ أَبِي زَیْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : اُدْنُ مِنِّي قَالَ: فَمَسَحَ بِیَدِہٖ عَلٰی رَأْسِہٖ وَلِحْیَتِہٖ۔ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: اَللّٰھُمَّ، جَمِّلْہُ وَأَدِمْ جَمَالَہٗ۔ قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِئَۃَ سَنَۃٍ، وَمَا فِي رَأْسِہٖ وَلِحْیَتِہٖ بَیَاضٌ إِلاَّ نَبْذٌ یَسِیْرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْہِ وَلَمْ یَنْقَبِضْ وَجْھُہٗ حَتّٰی مَاتَ۔ رَوَاہُ أَحْمَدُ۔(1)
(1) أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 77، الرقم: 21013، والعسقلاني في الإصابۃ، 4 / 599، الرقم: 5763، والمزي في تھذیب الکمال، 21 / 542، الرقم: 4326۔
’’ایک روایت میں حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: میرے قریب ہو جائو۔ پھر میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی: الٰہی! اسے زینت بخش اور اس کے حسن و جمال کو دوام عطا فرما۔ (راوی کہتے ہیں کہ) حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی لیکن ان کے سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے۔ ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
اسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔
39۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي لَیْلٰی عَنْ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ ص، رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: بَیْنَمَا ہُوَ یُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَکَانَ فِیْہِ مِزَاحٌ، بَیْنَا یُضْحِکُہُمْ فَطَعَنَہُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي خَاصِرَتِہٖ بِعُوْدٍ، فَقَالَ: أَصْبِرْنِي۔ فَقَالَ: اصْطَبِرْ۔ قَالَ: إِنَّ عَلَیْکَ قَمِیْصًا وَلَیْسَ عَلَيَّ قَمِیْصٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم عَنْ قَمِیْصِہٖ فَاحْتَضَنَہٗ وَجَعَلَ یُقَبِّلُ کَشْحَہٗ، قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ۔
رَوَاہُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْہَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِیْحُ الإِسْنَادِ۔
39: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في قبلۃ الجسد، 4 / 356، الرقم: 5224، والحاکم في المستدرک، 3 / 327، الرقم: 5262، والطبراني في المعجم الکبیر، 1 / 205۔206، الرقم: 556۔557، والبیہقي في السنن الکبری، 7 / 102، الرقم: 13364۔
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت اُسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں سے ہنسی مزاح کی بات چیت کر کے انہیں ہنسا رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی کمر میں لکڑی سے کچوکا لگایا تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے بدلہ دیجیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم بدلہ لے لو۔ اس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کے بدن پرقمیض مبارک ہے جبکہ میرے بدن پر قمیض نہیں تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیض مبارک اوپر اٹھالی تو وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسلیوں (اور شکم) مبارک کو چومنے لگا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہی (حصول برکت کا) ارادہ تھا (کہ میں آپ کے جسم اقدس سے مس ہونے کی سعادت حاصل کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ سے نجات پا جاؤں)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وفي روایۃ: عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ مَجْزَأَۃَ رضي اﷲ عنہا أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَۃَ رضي الله عنه کَانَتْ لَہٗ قُصَّۃٌ فِي مُقَدَّمِ رَأْسِہٖ، إِذَا قَعَدَ أَرْسَلَھَا، فَتَبْلُغُ الْأَرْضَ، فَقَالُوْا لَہٗ: أَلَا تَحْلِقُھَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مَسَحَ عَلَیْہَا بِیَدِہٖ، فَلَمْ أَکُنْ ِلأَحْلِقَھَا حَتّٰی أَمُوْتَ فَلَمْ یَحْلِقْہَا حَتّٰی مَاتَ۔
رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ۔(1)
(1) أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3 / 589، الرقم: 6181، والبخاري في التاریخ الکبیر، 4 / 177، الرقم: 2403، والطبراني في المعجم الکبیر، 7 / 176، الرقم: 6746۔
’’حضرت صفیہ بنت مجزاۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصے میں بالوں کی ایک طویل لٹ تھی۔ جب وہ بیٹھتے تھے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے تھے اور بالوں کی وہ لٹ زمین تک پہنچ جاتی تھی۔ لوگ ان سے کہتے کہ آپ اسے منڈواتے کیوں نہیں؟ تو وہ بتاتے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بالوں پر اپنا دست شفقت پھیرا تھا۔ پس میں ان بالوں کو اپنی موت تک نہیں کٹواؤں گا پس انہوں نے اپنی موت تک بالوں کی اس لٹ کو نہیں کٹوایا (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مَس فرمایا تھا )۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
40۔ عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا وَفْدًا إِلَی النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَبَایَعْنَاہُ وَصَلَّیْنَا مَعَہٗ، وَأَخْبَرْنَاہُ أَنَّ بِأَرْضِنَا بِیْعَۃً لَنَا فَاسْتَوْھَبْنَاہُ مِنْ فَضْلِ طَھُوْرِہٖ۔ فَدَعَا بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّہٗ لَنَا فِي إِدَاوَۃٍ وَأَمَرَنَا فَقَالَ لَنَا: اخْرُجُوْا فَإِذَا أَتَیْتُمْ أَرْضَکُمْ فَاکْسِرُوْا بِیْعَتَکُمْ وَانْضَحُوْا مَکَانَہَا بِہٰذَا الْمَاءِ وَاتَّخِذُوْھَا مَسْجِدًا، قُلْنَا: إِنَّ الْبَلَدَ بَعِیْدٌ وَالْحَرَّ شَدِیْدٌ وَالْمَائَ یَنْشُفُ، فَقَالَ: مُدُّوْہُ مِنَ الْمَاءِ فَإِنَّہٗ لَا یَزِیْدُہٗ إِلَّا طِیْبًا۔ فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَکَسَرْنَا بِیْعَتَنَا، ثُمَّ نَضَحْنَا مَکَانَہَا وَاتَّخَذْنَاہَا مَسْجِدًا فَنَادَیْنَا فِیْہِ بالْأَذَانِ، قَالَ: وَالرَّاہِبُ رَجُلٌ مِنْ طَیِّیئٍ، فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ: دَعْوَۃُ حَقٍّ۔ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ تَلْعَۃً مِنْ تَـلَاعِنَا فَلَمْ نَرَہٗ بَعْدُ۔
رََوَاہُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ وَإِسْنَادُہٗ صَحِیْحٌ۔
وفي روایۃ: فَخَرَجْنَا فَتَشَاحَحْنَا عَلٰی حَمْلِ الإِْدَاوَۃِ أَیُّنَا یَحْمِلُہَا فَجَعَلَہَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم نَوْبًا لِکُلِّ رَجُلٍ مِنَّا یَوْمًا وَلَیْلَۃً۔ رَوَاہُ ابْنُ حِبَّانَ۔
40: أخرجہ النسائي في السنن، کتاب المساجد، باب اتخاذ البیع المسجد، 2 / 38، الرقم: 701، وابن حبان في الصحیح، 3 / 405، الرقم: 1123، 4 / 479، الرقم: 1602، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1 / 423، الرقم: 4870۔
’’حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم وفد کی صورت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: (یارسول اﷲ!) ہماری بستی میں ایک گرجا ہے (اب ہم اجتماعی طور پر قبولِ اسلام کے بعد اسے گرا کر اس جگہ ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں)۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی برکت کے لیے مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی طلب کر کے ہاتھ دھوئے اور کلی فرمائی۔ پھر ایک ڈول میں پانی ڈال دیا اور حکم فرمایا: جاؤ، اور جب تم اپنی بستی میں پہنچو تو (اپنے) اس گرجے کو گرا کر اس جگہ یہ پانی چھڑک کر مسجد تعمیر کر لینا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا شہر دور ہے اور راستے میں بھی سخت گرمی پڑتی ہے، پانی خشک ہوجاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس میں مزید پانی ملاتے رہنا یہ پانی اس (نئے پانی کی) پاکیزگی (اور برکت) میں بھی اضافہ ہی کرے گا۔ بہرحال ہم وہاں سے چل کر اپنے شہر پہنچے اس گرجے کو مسمار کیا اور اس جگہ وہ پانی چھڑکا اور مسجد تعمیر کی۔ پھر ہم نے وہاں اذان دی۔ قبیلہ بنی طی میں سے ایک پادری نے جب اذان سنی توکہنے لگا: یہی حق کی صدا ہے۔ پھر وہ ایک جانب بلندی پر چلاگیا اور اس کے بعد ہم نے اسے کبھی (وہاں) نہیں دیکھا۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں بیان کیا کہ پھر ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو ہم میں سے ہر ایک اس بات کی حرص و تمنا رکھتا تھا کہ اس مقدس پانی کو اُٹھا کر لے جانے کی سعادت اُسے مل جائے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں سے ہر ایک کی دن، رات میں اسے اٹھانے کے لیے باری مقرر فرما دی۔‘‘
اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
41۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ الْأَسْوَدِ السُّوَائِيِّ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم الصُّبْحَ، فذکر الحدیث، قَالَ: ثُمَّ ثَارَ النَّاسُ یَأْخُذُوْنَ بِیَدِہٖ یَمْسَحُوْنَ بِہَا وُجُوْہَہُمْ۔ قَالَ: فَأَخَذْتُ بِیَدِہٖ فَمَسَحْتُ بِہَا وَجْہِي فَوَجَدْتُہَا أَبْرَدَ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْیَبَ رِیْحًا مِنَ الْمِسْکِ۔
رَوَاہُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ۔
وفي روایۃ: قَالَ: قَبَّلْتُ یَدَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَإِذَا ہِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْیَبُ رِیْحًا مِنَ الْمِسْکِ۔ رََوَاہُ ابْنُ قَانِعٍ۔
وفي روایۃ: قَالَ: أَخَذْتُ بِیَدِہٖ، فَوَضَعْتُہَا عَلٰی صَدْرِي، فَمَا وَجَدْتُ کَفًّا أَبْرَدَ وَلَا أَطْیَبَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم لَہِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْیَبُ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ۔ رَوَاہُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ۔
41: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 161، الرقم: 17513، والدارمي في السنن، 1 / 366، الرقم: 1367، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 67، الرقم: 1638، والبخاري في التاریخ الکبیر، 8 / 317، الرقم: 3154، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 3 / 221، الرقم: 1201، وابن عبد البر في الاستیعاب، 4 / 1571، الرقم: 2755۔
’’حضرت جابر بن یزید بن اسود سوائی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں فجر کی نماز ادا کی۔ پھر آگے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: پھر (نماز سے فراغت کے بعد) لوگ جوش و خروش سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو تھامتے اور اسے اپنے چہروں پر پھیرتے جاتے۔ راوی نے بیان کیا کہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس تھاما اور (حصولِ برکت کے لیے) اسے اپنے چہرے پر پھیرا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار پایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد، دارمی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں بیان کیا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو بوسہ دیا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘
اسے امام ابن قانع نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو پکڑا اور اسے اپنے سینے پر رکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ ٹھنڈی اور خوشبو دار ہتھیلی کہیں نہیں پائی۔ یہ برف سے زیادہ ٹھنڈی اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved