اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے دامنِ رحمت میں انسانیت کی فلاح کا جامع اور مربوط نظام سمیٹے ہوئے ہے۔ انسان کو اشرف المخلوق کا فخریہ اعزاز بھی اللہ تعالیٰ نے اس لیے دیا ہے کہ یہ زمین پر قدرت کا حسین ترین شاہکار ہے۔ انسان کو خالقِ کائنات نے سارے شرف اور اعزازات سے اس لیے نواز رکھا ہے کیونکہ یہی اس کا ’راز دارِ محبت‘ اور کائناتِ ارضی پر اللہ کی نیابت کا امین ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ذریعے ہر دور میں بہترین نظامِ تعلیم و تربیت سے نوازے رکھا حتیٰ کہ حضور ختم الرسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ ’’مجھے اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘
اخلاقِ حسنہ کی یہ تعمیر و تشکیل محض حصولِ علم سے ممکن نہیں بلکہ علم کے ساتھ عملِ صالح اور اُسوۂ حسنہ کی مکمل اتباع سے مشروط ہے۔ اسلام نے انسان کے اس بنیادی جوہرِ تربیت کو پروان چڑھانے کے لئے جو مکمل اور جامع نظام عطا فرمایا ہے اس کا اہم ترین ادارہ مسجد ہے۔ مسجد ہی اسلام کے نظامِ تربیت و روحانیت کی تشکیل کا مرکزی مقام ہے۔
مساجد کی تعمیر اسلامی ثقافت کا امتیاز بھی ہے اور اس کے روحانی نظام میں موجود نظم اور طہارت کی علامت بھی۔ مسجد اسلامی سوسائٹی میں باہمی اِحترام، خیر خواہی، اِجتماعیت اور محبت الٰہی کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ داخل ہونے کے فوراً بعد سب سے پہلے مسجد قبا کی تعمیر کا اہتمام فرمایا۔ بعد ازاں جب مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستقل قیام کا فیصلہ فرمایا تو سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں عارضی قیام کے دوران اپنے اور اپنی ازواجِ مطہرات کے رہائشی حجروں سے بھی پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعمیر فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تا دم وصال اسی مسجد کو اپنا مرکزی دفتر، دار الحکومت، دار القضاء، مرکز تعلیم و تربیت اور دیگر سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا محور بنائے رکھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اسی سنت مطہرہ پر عمل فرمایا۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اسلام نے نماز جیسی اعلیٰ ترین عبادت کی طرح ان تمام سیاسی، سماجی، تربیتی، تعلیمی اور عدالتی امور کی انجام دہی کو بھی دینی فرائض سمجھتے ہوئے برابر اہمیت اور اوّلیت دی ہے۔
مساجد ہر دور میں اور ہر خطے میں مسلمان آبادیوں کی شناخت اور پہچان رہی ہیں۔ اسی وجہ سے مساجد کو گنبدوں اور میناروں سے مزین کیا جاتا رہا ہے۔ مسجد کا مقام اسلامی معاشرے میں وہی ہے جو انسان کے جسم میں دل کو حاصل ہے۔ مسجد آباد رہے تو بستی پر اللہ کا کرم برستا رہتا ہے۔ مسجدیں ویران ہو جائیں تو بستیاں بھی ویران اور سنسان ہو جاتی ہیں۔ مساجد اسلام کے پاکیزہ روحانی تربیتی نظام کی طہارت و نفاست کے مراکز ہیں۔ مساجد میں اجتماعی عبادات کا فریضہ مسلمانوں کو باہمی محبت اور پر امن بقاے باہمی کی دعوت فکر بھی دیتا ہے۔ لیکن ہمارے دورِ فتن کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ پاکستان سمیت بعض اسلامی ممالک میں مذہبی تفرقہ پروری نے مسلمانوں کے یہ پاکیزہ روحانی مراکز بھی متنازع بنا دیے ہیں۔ مختلف مذہبی فرقوں نے اپنی اپنی مساجد بنالی ہیں جہاں ایک دوسرے کو بالعموم برداشت نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل اسلام کے اس عظیم نظام تربیت و عبادت پر ایک بدنما دھبہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مساجد تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے کھلی ہونی چاہئیں۔ جس طرح اللہ کے گھروں کا تقدس اور احترام سارے مسلمانوں پر واجب ہے اسی طرح ان میں ذکر اذکار اور معمولات تربیت بھی جملہ اہل اسلام کا حق ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں اس دینی، روحانی اور تربیتی مرکز کی تعمیر اور اہل اسلام کا ان سے تعلقِ محبت ہماری ایمانی اور ثقافتی ضرورت ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جامع السنۃ کی شکل میں جو عظیم مجموعہ احادیث مرتب کر رہے ہیں، یہ اربعین اسی مجموعہ کا منتخب حصہ ہے جس میں مساجد سے متعلق معروف احادیث ایک جگہ جمع کر دی گئی ہیں جن کی ضروری تخریج اور ترجمہ سینئر ریسرچ سکالر محترم محمد علی قادری کے حصے میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی شعائر کا احترام اور ان سے تعلق کے جملہ تقاضے بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
(ڈاکٹر علی اکبر قادری الازھری)
ڈائریکٹر فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
یکم جولائی 2012ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved