1. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، کَيْفَ تُعْرَضُ صَـلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ : يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ. قَالَ : إِنَّ ﷲَ عزوجل حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
وفي رواية : فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ جَلَّ وَعَـلَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَامَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ : صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : وَقَدْ صَحَّحَ هٰذَا الْحَدِيْثَ بْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَ قُطْنِيُّ، وَالنَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.
أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب فضل یوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم : 1047، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم : 1374، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 519، الرقم : 1666، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم : 1085، والدارمي في السنن، 1 / 445، الرقم : 1572، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 8، الرقم : 16207، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8697، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 118، الرقم : 1733.1734، وابن حبان في الصحيح، 3 / 190، الرقم : 910، والحاکم في المستدرک، 1 / 413، الرقم : 1029، والبزار في المسند، 8 / 411، الرقم : 3485، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 97، الرقم : 4780، وأيضًا في المعجم الکبير، 1 / 261، الرقم : 589، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 371، الرقم : 634، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 248، الرقم : 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 109، الرقم : 3029، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 37، الرقم : 22، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 524، الرقم : 661، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 370، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515.
’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اِس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ سو اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ایسا نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاءِ کرام (علیھم السلام) کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے اور امام وادیاشی نے بھی فرمایا : اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثير نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی نے الاَذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔
2. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَـلَاءِکَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : قَالَ الدَّمِيْرِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : حَسَنٌ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فيض القدير، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی حاضری کا خصوصی دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے تک اُس کا درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اور آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاءِ کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا : اِس کے رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے حدیثِ حسن کہا ہے۔
3. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلّٰی فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عَجِلْتَ، أَيُهَا الْمُصَلِّي، إِذَا صَلَّيْتَ، فَقَعَدْتَ، فَاحْمَدِ اﷲَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، وَصَلِّ عَلَيَّ، ثُمَّ اُدْعُهُ قَالَ : ثُمَّ صَلّٰی رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَالِکَ، فَحَمِدَ اﷲَ وَصَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُهَا الْمُصَلِّي، اُدْعُ تُجَبْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : فِيْهِ رُشْدَيْنُ بْنُ سَعْدٍ حَدِيْثُهُ فِي الرِّقَاقِ مَقْبُوْلٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 516، الرقم : 3476، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب التمجيد والصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الصلاة، 3 / 44، الرقم : 1284، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 380، الرقم : 1207، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 351، الرقم : 709، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 307، الرقم : 792، 794. 795، وأيضًا في الدعائ / 46، الرقم : 89. 90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 319، الرقم : 2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 155.
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی : ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما.‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نمازی! تو نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو پھر سکون سے بیٹھ جاؤ، پھر اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام منذری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
4. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ أَوْ أَبِي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ لِيَقُلْ : اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ، فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ.
وَقَالَ الرَّازِيُّ : قَالَ أَبُوْ زُرْعَةَ : عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي أُسَيْدٍ کِـلَاهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَصَحُّ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ نُدْبًا مُؤَکَّدًا أَوْ وُجُوْبًا عَلَی النَّبِيّ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَنَّ الْمَسَاجِدَ مَحَلُّ الذِّکْرِ، وَالسَّـلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْهُ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1 / 126، الرقم : 465، وابن ماجه في السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، 1 / 254، الرقم : 772، والدارمي في السنن، 1 / 377، الرقم : 1394، وابن حبان في الصحيح، 5 / 397، الرقم : 2048، والرازي في علل الحديث، 1 / 178، الرقم : 509.
’’حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو اُسید الانصاری رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجے پھر کہے : ’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے : ’’اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ و دارمی نے روایت کیا ہے۔
امام ابو حاتم رازی نے بیان کیا کہ امام ابو زُرعہ نے فرمایا : حضرت ابو حمید اور ابو اُسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام کو محبوب، ضروری اور لازم سمجھتے ہوئے عرض کرنا چاہیے کیوں کہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔
5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَجْعَلُوْا بُيُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِي عِيْدًا وَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَا تَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ کُنْتُمْ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَأَيَدَهُ ابْنُ کَثِيْرٍ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2042، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، وأيضًا، 3 / 30، الرقم : 11818، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 81، الرقم : 8030، والبزار عن علي رضی الله عنه في المسند، 2 / 147، الرقم : 509، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4162، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 44، الرقم : 27، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 13 / 516، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 316.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان کی طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عید گاہ بناؤ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر ممکن ہو کثرت سے زیارت کیاکرو) اور مجھ پر (کثرت سے) درود بھیجا کرو۔ سو تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی و بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے فرمایا : اِسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن کثير نے بھی اِن کی تائید کی ہے۔
6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلْيُصَلِّ عَلَيَّ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مَرَّةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
أخرجه النسائي في السنن الکبری، کتاب عمل اليوم والليلة، باب ثواب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 21، الرقم : 9889، وأبو يعلی في المسند، 7 / 75، الرقم : 4002، وأيضًا في المعجم، 1 / 203، الرقم : 240، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 162، الرقم : 4948، والطيالسي في المسند، 1 / 283، الرقم : 6122، وأبو نعيم في حلية الأولياء ، 4 / 347، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2559، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے سامنے بھی میرا ذکر ہو اسے چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بصورتِ رحمت) اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔‘‘
اسے امام نسائی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
7. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَکْثِرُوْا عَلَيَّ الصَّـلَاةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَا تُهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب التفسير، باب تفسير سورة الأحزاب، 2 / 457، الرقم : 3577، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 110، الرقم، 3030، والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 305.
’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، بے شک جو بھی مجھ پر جمعہ کے دن درود بھیجتا ہے اُس کا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّـلَاةِ فِي کُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ، فَإِنَّ صَـلَاةَ أُمَّتِي تُعْرَضُ عَلَيَّ فِي کُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ، فَمَنْ کَانَ أَکْثَرَهُمْ عَلَيَّ صَـلَاةً کَانَ أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَلَا بَأْسَ بِسَنَدِهِ کَمَا قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْعَجْلُوْنِيُّ : رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، کتاب الجمعة، باب ما يؤمر به ليلة الجمعة ويومها، 3 / 249، الرقم : 5791، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 110، الرقم : 3032، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2583، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 167، والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 304.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو، بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے روز مجھے پیش کیا جاتا ہے اور میری اُمت میں سے جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا وہ مقام و منزلت کے اعتبار سے بھی میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا.‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : اِس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے اور امام منذری اور عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ ذَکَرَنِي فَلْيُصَلِّ عَلَيَّ وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالْمَقْدِسِيُّ، وَقَالَ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 354، الرقم : 3681، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 395، الرقم : 1567، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 137.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص بھی میرا ذکر کرے اسے چاہیے کہ وہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہوں۔‘‘
اسے امام ابو یعلی اور مقدسی نے روایت کیا ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اس کی سند صحیح ہے۔
9. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا بُرَيْدَةُ، إِذَا جَلَسْتَ فِي صَـلَاتِکَ، فَـلَا تَتْرُکَنَّ التَّشَهُدَ وَالصَّلَاةَ عَلَيَّ فَإِنَّهَا زَکَاةُ الصَّلَاةِ، وَسَلِّمْ عَلٰی جَمِيْعِ أَنْبِيَاءِ اﷲِ وَرُسُلِهِ، وَسَلِّمْ عَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِيْنَ. رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ وَالدَّيْلِمِيُّ.
أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 3، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 392، الرقم : 8527، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 132.
’’حضرت عبید اﷲ بن بریدہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بریدہ! جب تم اپنی نماز پڑھنے بیٹھو تو تشہد اور مجھ پر درود بھیجنا کبھی ترک نہ کرنا، وہ نماز کی زکاۃ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اُس کے صالح بندوں پر بھی سلام بھیجا کرو۔‘‘
اِس حدیث کو امام دار قطنی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
وَزَادَ التِّرْمِذِيُّ : وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم بھذا التشھد، 1 / 306، الرقم : 408، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 353، 354، الرقم : 484. 485، والنسائي في السنن، کتاب السھو، باب الفضل في الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 50، الرقم : 1296، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم : 8869. 10292.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘
اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : ’’اوراﷲتعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَـلَاةً.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْمِزِّيُّ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : حَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ. وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَلَهُ شَاهِدٌ عِنْدَ الْبَيْهَقِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه وَلَا بَأْسٌ بِسَنَدِهِ.
أخرجه الترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 354، الرقم : 484، وابن حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم : 911، وابن أبيشيبة في المصنف، 6 / 325، الرقم : 31787، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 177، الرقم : 559، وأبو يعلی في المسند، 8 / 427، الرقم : 5011، والشاشي في المسند، 1 / 408، الرقم : 413. 414، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 17، الرقم : 9800، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 249، الرقم : 5791، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 212، الرقم : 1563، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 316، والمزي في تهذيب الکمال، 15 / 482، الرقم : 3509، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 167.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جس نے ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہوگا.‘‘
اسے امام ترمذی، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی، نووی اور مزی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام عسقلانی نے بھی فرمایا : اسے امام ترمذی نے حسن اور امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور امام بیہقی کے ہاں بھی اس کی تائید حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔
12. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ، قَامَ فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ، اُذْکُرُوا اﷲَ، اُذْکُرُوا اﷲَ، جَائَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ، جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ، قَالَ أُبَيٌّ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُکْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْکَ، فَکَمْ أَجْعَلُ لَکَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ : مَا شِئْتَ، قَالَ : قُلْتُ : الرُّبُعَ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قُلْتُ : النِّصْفَ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قَالَ : قُلْتُ : فَالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قُلْتُ : أَجْعَلُ لَکَ صَلَا تِي کُلَّهَا، قَالَ : إِذًا تُکْفَی هَمَّکَ وَيُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، 4 / 636، الرقم : 2457، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 136، الرقم : 21280، والحاکم في المستدرک، 2 / 457، 458، الرقم : 3578، 3894، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 89، الرقم : 170، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 187، الرقم : 1499، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 389، الرقم : 1185، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2577، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا تو گھر سے باہر تشریف لے آتے اور فرماتے : لوگو! اللہ کا ذکر کرو، اللہ کا ذکر کرو، ہلادینے والی (قیامت) آگئی، پیچھے آنے والا ایک اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا، موت اپنی سختی کے ساتھ آگئی، موت اپنی سختی کے ساتھ آگئی۔ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں کثرت سے آپ پردرود بھیجتا ہوں۔ سو میں آپ پر کتنا درود بھیجا کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس قدر تم چاہو؟ انہوں نے عرض کیا : کیا میں اپنی دعا (اور ذکر اذکار) کا چوتھائی حصہ آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تم چاہو لیکن اگر اس میں اضافہ کرلو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آدھا حصہ خاص کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تو چاہے لیکن اگر تو اس میں اضافہ کرلے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے، میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) دو تہائی کافی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تو چاہے لیکن اگر تو اس میں اضافہ کرلے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میں ساری دعا (اور ذکر اَذکار کا سارا وقت) آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کرتا ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر تو یہ درود ہی تمہارے تمام غموں (کا مداوا کرنے) کے لیے کافی ہو جائے گا اور (اسی کے باعث) تمہارے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اسے امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
13. عَنْ حِبَّانَ بْنِ مُنْقِذٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَجْعَلُ ثُلَثَ صَلَاتِي عَلَيْکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ قَالَ : الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَصَلَاتِي کُلُّهَا؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَنْ يَکْفِيْکَ اﷲُ مَا أَهَمَّکَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَآخِرَتِکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ مَرْسَـلًا، وَقَالَ : هٰذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 35، الرقم : 3574، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 142، الرقم : 2122، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1580، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2578، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1 / 198، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا میں اپنی دعا (اور ذکر اَذکار) کا تیسرا حصہ آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں اگر تو چاہے (تو ایسا کر سکتا ہے) پھر اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا دعا کا دو تہائی حصہ (آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، پھر اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا ساری کی ساری دعا (آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں)؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر تواللہ تعالیٰ تیرے دنیا اور آخرت کے تمام معاملات کے لیے کافی ہو جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے بھی مرسلاً روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے فرمایا : یہ مرسل جید ہے۔ اور امام منذری اور امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيٍّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرَأَيْتَ أَنْ جَعَلْتُ صَلَاتِي کُلَّهَا صَلَاةً عَلَيْکَ؟ قَالَ : إِذًا يَکْفِيْکَ اﷲُ مَا أَهَمَّکَ مِنْ أَمْرِ دُنْيَاکَ وَآخِرَتِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، کتاب صلاة التطوع والإمامة، باب في ثواب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 253، الرقم : 8706، وأيضًا، 6 / 325، الرقم : 31783.
’’حضرت طفیل بن اُبی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کی کیا رائے ہے اگر میں اپنی ساری دعا آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر تو اللہ تعالیٰ تمہارے دنیا و آخرت سے متعلق تمام اُمور کے لیے کافی ہوجائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يُسلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي حَتّٰی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّـلَامَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ يَزِيْدَ الإِسْکَنْدَرَانِيُّ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَمَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ…وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10050، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181.4161، وابن راھويه في المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری اُمت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے (کو اُس) کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، اَحمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابوداود نے روایت کیا ہے اور اِس کے راوی ثقہ ہیں۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کی سند میں عبد اللہ بن یزید الاسکندرانی راوی کو میں نہیں جانتا جبکہ مہدی بن جعفر اور دیگر تمام راوی ثقات ہیں۔
15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ ِﷲِ مَـلَاءِکَةً سَيَاحِيْنَ فِي الْأَرْضِ، يُبَلِّغُوْنِي مِنْ أُمَّتِي السَّـلَامَ.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ والدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه النسائي في السنن کتاب السھو، باب السلام علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 43، الرقم : 1282، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 380، الرقم : 1205، وأيضًا، 6 / 22، الرقم : 9894، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم : 2774، وابن حبان في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 914، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215، الرقم : 3116، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3576.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلا شبہ اﷲ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں (جن کی ڈیوٹی یہی ہے کہ) وہ مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، دارمی، ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
16. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَـلَاءِقِ، فَـلَا يُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، إِلَّا بَلَغَنِي بِاسْمِهِ واسْمِ أَبِيْهِ، هٰذَا فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ قَدْ صَلّٰی عَلَيْکَ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : فِيْهِ ابْنُ الْحِمْيَرِيِّ لَا أَعْرِفُهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
وروی أبو الشيخ ابن حَيَانَ وَلَفْظُهُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ ِﷲِ تَبَارَکَ وَتعَالٰی مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَـلَاءِقِ کُلِّهِمْ، فَهُوَ قَاءِمٌ عَلٰی قَبْرِي، إِذَا مُتُّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي صَلّٰی عَلَيَّ صَـلَاةً إِلَّا سَمَّاهُ بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيْهِ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، صَلّٰی عَلَيْکَ فُـلَانٌ،
فَيُصَلِّي الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی ذَالِکَ الرَّجُلِ بِکُلِّ وَاحِدٍ عَشَرًا.
أخرجه البزار في المسند، (ابن الحِمْيَرِي)، 4 / 255، الرقم : 1425، 1426، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 416، الرقم : 2831، وابن حيان في العظمة، 2 / 762، الرقم : 1، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے)کی قوت عطاء فرمائی ہے، سو روزِ قیامت تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا، اور عرض کرے گا : یا رسول اﷲ! فلاں بن فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا اور امام بخاری نے التاریخ الکبير میں اور منذری نے بھی روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اِس کی سند میں ابن حمیری راوی کو میں نہیں جانتا، اِس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
’’ابو شیخ ابن حیان کی روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، جسے اﷲتعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آواز سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطا فرمائی ہے، پس وہ فرشتہ میرے وصال کے بعد میری قبر پر قیامت تک کھڑا رہے گا. میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود بھیجے گا، وہ فرشتہ اس کا نام اور اس کے باپ کا نام لے گا اور کہے گا : یا محمد! (میرے آقا!) فلاں شخص نے آپ کی خدمت میں درود بھیجا ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس شخص پر ہر ایک درود کے بدلے میں دس رحمتیں نازل فرمائے گا.‘‘
17. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشَرًا بِهَا، مَلَکٌ مُوَکَّلٌ بِهَا حَتّٰی يُبَلِّغَنِيْهَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، (باب الصاد، ما أسند أبو أمامة)، 8 / 134، الرقم : 7611، وأيضًا في مسند الشاميين، 4 / 324، الرقم : 3445، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2569.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صلے میں (بصورتِ رحمت) اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اور ایک فرشتہ کے ذمہ یہ کام لگا دیا گیا ہے کہ وہ اس ہدیہ درود کو میری خدمت میں پیش کرے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ بَلَغَتْنِي صَلَاتُهُ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْهِ، وَکُتِبَتْ لَهُ سِوَی ذَالِکَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ رَاوٍ لَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، (باب الألف، من اسمه أحمد)، 2 / 178، الرقم : 1642، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2572، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اُس کا درود مجھے پہنچ جاتا ہے اور میں بھی اس پر درود بھیجتا ہوں اور اس کے علاوہ اس کے لیے د س نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور منذری نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : امام طبرانی نے اِسے بغیر کسی نقص والی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کی سند میں ایک روای کو میں نہیں جانتا اور بقیہ تمام رجال ثقات ہیں۔
19. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب الفضل في الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 50، الرقم : 1297، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 385، الرقم : 1220 / 10194، والبخاري في الأدب المفرد / 224، الرقم : 643، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، والرقم : 8703، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم : 12017، والحاکم في المستدرک، 1 / 735، الرقم : 2018.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
20. عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَائَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ يُرٰی فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ : إِنَّهُ جَائَ نِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ : (إِنَّ ربَّکَ يَقُوْلُ : ) أَمَا يُرْضِيْکَ يَا مُحَمَّدُ، أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ وَالدَّرِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه النسائي في السنن کتاب السهو، باب الفضل في الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 50، الرقم 1295، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1218، والدارمي في السنن 2 / 408، الرقم : 2773، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 30، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3575، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 252، الرقم : 8695، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 100، الرقم : 4720.
’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا : آپ کا ربّ فرماتا ہے : اے محمد! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں؟ اور آپ کی امت میں سے کوئی آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، دارمی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
21. عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيْعَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَلِّي عَلَيَّ إِلَّا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَـلَاءِکَةُ مَا صَلّٰی عَلَيَّ. فَلْيُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَالِکَ أَوْ لِيُکْثِرْ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
وفي رواية عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا صَلّٰی عَلَيَّ أَحَدٌ صَلَاةً إِلَّا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَـلَاءِکَةُ مَا دَامَ يُصَلِّي عَلَيَّ فَلْيُقِلَّ عَبْدٌ مِنْ ذَالِکَ أَوْ لِيُکْثِرْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ مَاجَه کُلُّهُمْ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبَيْهِ وَعَاصِمٌ … وَصَحَّحَ لَهُ التِّرْمِذِيُّ وَهٰذَا الْحَدِيْثُ حَسَنٌ فِي الْمُتَابَعَاتِ وَاﷲُ أَعْلَمُ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا فَلْيُکْثِرْ أَوْ لِيُقِلَّ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 294، الرقم : 907، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 445.446، الرقم : 15718، 15727، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8696، وأيضًا، 6 / 326، الرقم : 31791، وأبو يعلی في المسند، 13 / 154، الرقم : 7196، وابن الجعد في المسند، 1 / 136، الرقم : 869، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 130، الرقم : 317، وابن المبارک في المسند، 1 / 29، الرقم : 49، وأيضًا في الزهد، 1 / 364، الرقم : 1026، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 211، الرقم : 1557. 1559، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 189، الرقم : 216. 218، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 27، الرقم : 6، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2576.
’’حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو بھی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو فرشتے اس پر اس وقت تک درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے۔ اب اس انسان کی مرضی ہے کہ وہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجے یا قلت سے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا : اس کی اسناد حسن ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا مگر فرشتے اس پر اس وقت تک درود بھیجتے رہتے ہیں، جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے، سو اب اس انسان کی مرضی ہے کہ وہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجے یا قلت سے۔
اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن ماجہ، ان سب نے حضرت عاصم بن عبید اللہ سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت عامر ص) سے روایت کیاہے ۔ اور امام ترمذی نے انہیں صحیح قرار دیا ہے۔ اوریہ حدیث متابعات میں حسن ہے۔ واﷲ اعلم.
’’ایک روایت میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے۔ اب انسان کی مرضی وہ کثرت سے مجھ پر درود بھیجے یا قلت سے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بنِ عَمْروٍ رضي اﷲ عنهما، يَقُوْلُ : مَنْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَاحِدَةً، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ وَمَـلَاءِکَتُهُ سَبْعِيْنَ صَلَاةً.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 172، 187، الرقم : 6605. 6754، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 325، الرقم : 2566، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160، والمناوي في فيض القدير، 1 / 384، 6 / 169.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ (بصورتِ رحمت) درود بھیجتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اسے امام احمد نے اسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند حسن ہے۔
23. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ : رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيََّّ صَلَاةً، کَتَبَ اﷲُ لَهُ قِيْرَاطًا، وَالْقِيْرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، باب ما يذهب الوُضوء من الخطايا، 1 / 51، الرقم : 153.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک قیراط کے برابر ثواب لکھ دیتا ہے اور (اﷲ تعالیٰ کے ہاں) قیراط اُحد پہاڑ کی مثل ہے۔‘‘ اسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
24. عَنْ أَبِي کَاهِلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا أَبَا کَاهِلٍ أَنَّهُ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ کُلَّ يَوْمٍ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ وَکُلَّ لَيْلَةٍ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ حُبًّا بِي وَشَوْقًا إِلَيَّ، کَانَ حَقًّا عَلَی اﷲِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ذُنُوْبَهُ تِلْکَ اللَّيْلَةَ وَذَالِکَ الْيَوْمَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 362، الرقم : 928، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2580، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 218، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 340، الرقم : 10441.
’’حضرت ابو کاہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو کاھل! جو شخص بھی تین دفعہ دن کو اور تین دفعہ رات کو مجھ پر شوق اور محبت کے ساتھ درود بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ اس بندے کے اس رات اور دن کے گناہوں کو بخشنا اپنے اوپر واجب کر لیتا ہے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ الصَّـلَاةَ عَلَيَّ زَکَاةٌ لَکُمْ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8704، 6 / 325، الرقم : 31785، وأبو يعلی في المسند، 11 / 298، الرقم : 6414، وابن السري في الزهد، 1 / 117، الرقم : 147، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 48، الرقم : 46.47، والحارث فی المسند، 2 / 962، الرقم : 1062.
’’ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ (تمہارا) مجھ پر درود پڑھنا تمہارے لیے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘
اسے امام ابنِ ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
25. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ عَبْدَيْنِ مُتَحَابَّيْنِ فِي اﷲِ يَسْتَقْبِلُ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَيُصَافِحُهُ، وَيُصَلِّيَانِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَّا لَمْ يَفْتَرِقَا حَتّٰی تُغْفَرَ ذُنُوْبُهُمَا مَا تَقَدَّمَ مِنْهُمَا وَمَا تَأَخَّرَ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه أبو يعلی في المسند، 5 / 334، الرقم : 2960، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 252، الرقم : 871، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 160، الرقم : 194، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 471، الرقم : 8944، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 329، الرقم : 2586، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 275.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی دو آدمی جو اﷲ تعالیٰ کی خاطر باہم محبت رکھتے ہوں، ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا استقبال کرتا ہے اور اس سے مصافحہ کرتا ہے اور وہ دونوں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
اسے امام ابو یعلی نے روایت کیا اور امام بخاری نے التاریخ الکبير میں اور ابن السنی و بیہقی نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ عَشْرًا صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ مِائَةً وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مِائَةً کَتَبَ اﷲُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ بَرَائَ ةً مِنَ النِّفَاقِ وَبَرَائَ ةً مِنَ النَّارِ وَأَسْکَنَهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الشُّهَدَاءِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثمِيُّ : وَفِيْهِ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ سَالِمِ بْنِ سَلَمٌ الْهُجَيْمِيُّ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 188، الرقم : 7235، وأيضًا في المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2560، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے، اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لیے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام (اور درجہ) شہداء کے ساتھ ہو گا.‘‘
اسے امام طبرانی اور منذری نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا : اس میں ابراہیم بن سالم بن سلم عجیمی نامی راوی کو میں نہیں جانتا بقیہ تمام رجال ثقات ہیں۔
27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ فِي کِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَـلَاءِکَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اسْمِي فِي ذَالِکَ الْکِتَابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ، وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : ذَکَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 232، الرقم : 1835، والخطيب البغدادي في شرف أصحاب الحديث، 1 / 36، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 62، الرقم : 157 وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 6 / 81، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 32، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 4 / 107، والعسقلاني في لسان الميزان، 2 / 26، الرقم : 93.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر کسی کتاب میں درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لیے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘
اسے امام طبرانی، خطیب بغدادی اور منذری نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : اسے امام ابن حبان نے الثقات میں روایت کیا ہے۔
28. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ حِيْنَ يُصْبِحُ عَشْرًا وَحِيْنَ يُمْسِي عَشْرًا أَدْرَکَتْهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادَيْنِ وَإِسْنَادُ أَحَدِهِمَا جَيِّدٌ وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 261، الرقم : 987، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 120.
’’حضرت ابو دَرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت مجھ پر دس دفعہ درود بھیجے گا اُسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘
امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ان میں سے ایک کی سند جید ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
29. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ أَبِي لَيْلٰی قَالَ : لَقِيَنِي کَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : أَ لَا أُهْدِي لَکَ هَدِيَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقُلْتُ : بَلٰی، فَأَهْدِهَا لِي، فَقَالَ : سَأَلْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّ اﷲَ قَدْ عَلَّمَنَا کَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْکُمْ؟ قَالَ : قُوْلُوْا : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبيائ، باب قول اﷲ تعالی : واتخذ اﷲ إبراهيم خليلا، 3 / 1233، الرقم : 3190، وأيضًا في کتاب الدعوات، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 2338، الرقم : 5996، ومسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، 1 / 305، الرقم : 406، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب نوع آخر، 3 / 47، الرقم : 1287. 1289، والدارمي في السنن، 1 / 356، الرقم : 1342.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا بیان ہے کہ مجھے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا : کیا میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں جسے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، آپ مجھے وہ ضرور عطا کریں، انہوں نے فرمایا : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : ـ یارسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی خدمت میں سلام بھیجنا تو سکھا دیا ہے لیکن ہم آپ کے اہلِ بیت پر درود کیسے بھیجا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو : اے اﷲ! درود بھیج حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آلِ محمد پر جیسے تونے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور آلِ ابراہیم پر، بیشک تُو بہت تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آلِ محمد پر جیسے تونے برکت نازل فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر، بے شک تُو تعریف اور بزرگی والاہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
30. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَکْتَالَ بِالْمِکْيَالِ الْأَوْفٰی، إِذَا صَلّٰی عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، 1 / 258، الرقم : 982، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 87، الرقم : 305، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 151، الرقم : 2682، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 596، الرقم : 5871، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 167.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص یہ پسند کرتاہے کہ اس کا نامہ اعمال (اجر و ثواب کے)پیمانے سے پورا پورا ناپا جائے، تو جب وہ ہم اہلِ بیت پر درود بھیجے تو اسے یوں کہنا چاہئے : {اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ} ’’اے اللہ! تو درود بھیج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ان کی ازواجِ مطہرات، ان کی اولادِ اطہار اور ان کے اہلِ بیت اطہار پر جیسا کہ تونے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر، بے شک تُو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
اسے امام ابو داؤد، بیہقی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔
31. عَنْ زَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَنَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : صَلُّوْا عَلَيَّ وَاجْتَهِدُوْا فِي الدُّعَاءِ وَقُوْلُوْا : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ. رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ.
وفي رواية : عَنْ زَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِنِّي سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : کَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکَ؟ قَالَ : صَلُّوْا وَاجْتَهِدُوْا، ثُمَّ قُوْلُوْا : اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ ابْنُ الْقَيِّمِ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب نوع آخر، 3 / 48، الرقم : 1292، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 383، الرقم : 1292، وأيضًا، 6 / 19، الرقم : 9881، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الرقم : 1714، والدولابي في الکنی والأسمائ، 2 / 809، الرقم : 1412، وابن القيم في جلاء الأفہام / 40، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 651.
’’حضرت زید بن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا : (یا رسول اﷲ!) ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود بھیجا کرو اور خوب گڑگڑا کر دعا کیا کرو اور یوں کہا کرو : {اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ} ’’اے اﷲ! تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیج.‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت زید بن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا : تو میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر خوب درود بھیجا کرو اور خوب گڑگڑایا کرو پھر یوں کہا کرو : {اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ} ’’اے اﷲ! تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر برکت نازل فرما جیسے کہ تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل کی، بے شک تو بہت زیادہ تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔ اور علامہ ابن القیم الجوزیہ نے کہا : اس کی سند صحیح ہے۔
32. عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِي رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ صَلّٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَقَالَ : اَللّٰهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : وَهٰذَا إِسْنَادٌ لَا بَأْسَ بِهِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالْکَبِيْرِ وَأَسَانِيْدُهُمْ حَسَنَةٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 108، الرقم : 17032، والبزار في المسند، 6 / 299، الرقم : 2315، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 321، الرقم : 3285، وأيضًا في المعجم الکبير، 5 / 25، الرقم : 4480، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 329، الرقم : 2587، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 / 217، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 52، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 329، الرقم : 2587، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 514.
’’حضرت رُوَیفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور یہ کہا : {اَللّٰهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ} ’’یا اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے روز اپنے نزدیک مقامِ قرب پر فائز فرما.‘‘ اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘
اسے امام احمد بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن کثير نے فرمایا : اس کی اسناد میں کوئی نقص نہیں ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام بزار نے اور طبرانی نے الاوسط اور الکبير میں روایت کیا ہے، ان سب کی سند حسن ہے۔
33. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ قَالَ حِيْنَ يُنَادِي الْمُنَادِي : اَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَاءِمَةِ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَارْضَ عَنْهُ رِضًا لَا تَسْخَطُ بَعْدَهُ، اِسْتَجَابَ اﷲُ لَهُ دَعْوَتَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ السُّنِّيِّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 337، الرقم : 14659، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 69، الرقم : 194، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 88، الرقم : 96، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 116، الرقم : 396، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 332.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اذان سنتے وقت یہ کہا : {اَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَاءِمَةِ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَارْضَ عَنْهُ رِضًا لَا تَسْخَطُ بَعْدَهُ} ’’اے میرے اللہ! اے اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے ربّ! تُو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور ان سے اس طرح راضی ہو جا کہ اس کے بعد تو ناراض نہ ہو۔‘‘ تو (اس درود کے بعد) اللہ تعالیٰ اس بندے کی (ہر) دعا قبول فرماتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور ابن السنی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَيُمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ لَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ صَدَقَةٌ فَلْيَقُلْ فِي دُعَاءِهِ : اَللّٰهُمَّ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ، وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، فَإِنَّهَا زَکَاةٌ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، کتاب الرقاق، باب الأدعية، 3 / 185، الرقم : 903، والبخاري في الأدب المفرد / 223، الرقم : 640، والحاکم في المستدرک، 4 / 144، الرقم : 7175، والبيہقي في شعب الإيمان، 2 / 86، الرقم : 1231.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کسی مسلمان کے پاس صدقہ نہ ہو تو وہ اپنی دعا میں یہ کہے : {اَللّٰهُمَّ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ، وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ} ’’یا اﷲ! تو اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج، مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں پر بھی درود بھیج.‘‘ سو اس کا یہ درود اس کی زکوٰۃ (یعنی روحانی و جسمانی پاکیزگی کا باعث) ہو گی۔‘‘
اسے امام ابنِ حبان نے اور بخاری نے الادب المفرد میں اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
35. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَالَ : جَزَی اﷲُ عَنَّا مُحَمَّدًا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ. أَتْعَبَ سَبْعِيْنَ کَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ، وَقَالَ الذَّهَبِيُّ : قَالَ النَّسَاءِيُّ : هَانِیُ بْنُ هَاِنیٍ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَذَکَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 82، الرقم؛ 235، وأيضًا في المعجم الکبير، 11 / 206، الرقم : 11509، وأيضًا في مسند الشاميين، 3 / 197، الرقم : 2070، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 206، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 338، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 329، الرقم : 2585، والذهبي في ميزان الاعتدال، 7 / 72، الرقم : 9206. 9207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے یہ کہا : {جَزَی اﷲُ عَنَّا مُحَمَّدًا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ} ’’اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جزائے خیر عطا فرمائے جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل ہیں۔‘‘ تو گویا اس نے ہزار صبحوں تک ستر (ثواب لکھنے والے) فرشتوں کو تھکا دیا.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ذہبی نے بیان کیا کہ امام نسائی نے فرمایا : راوی ہانی بن ہانی میں کوئی نقص نہیں، اور ابن حبان نے انہیں الثقات میں ذکر کیا ہے۔
36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْکُرُوا اﷲَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوْا عَلٰی نَبِيِّهِمْ إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَائَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُمْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ : سَنَدُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في القوم يجلسون ولا يذکرون اﷲ، 5 / 461، الرقم : 3380، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 107. 108، الرقم : 10238. 10239، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 484، الرقم : 10282، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 8 / 130، وابن المبارک في الزهد، 1 / 28، الرقم : 47، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 262، الرقم : 2330، والمقدسي في الترغيب في الدعائ / 193، الرقم : 106.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر وہ مجلس جس میں لوگ جمع ہوں اور اس میں نہ تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور نہ ہی اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں تو وہ مجلس قیامت کے دن ان لوگوں کے لیے وبال ہو گی اور پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں معاف فرما دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام مقدسی نے بھی فرمایا : اس کی سند حسن ہے۔
37. عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ث، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلْبَخِيْلُ الَّذِي مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب قول رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : رغم أنف رجل، 5 / 551، الرقم : 3546، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 34، الرقم : 8100، 6 / 19.20، الرقم : 9883. 9885، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 201، الرقم : 1736، وابن حبان في الصحيح، 3 / 189، الرقم : 909، والحاکم في المستدرک، 1 / 734، الرقم : 2015، وأبو يعلی في المسند، 12 / 147، الرقم : 6776، والطبراني في المجعم الکبير، 3 / 127، الرقم : 2885، والبزار في المسند، 4 / 185، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 213، الرقم : 1565.1568، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 148، الرقم : 452، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1 / 311، الرقم : 432، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 37، الرقم : 2230، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 332، الرقم : 2600.2601، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 164.
’’حضرت حسین بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد، ابن حبان، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ابوعیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَبْخَلِ النَّاسِ؟ قَالُوْا : بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ.
’’ایک روایت میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں لوگوں میں سے بخیل ترین آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (سب سے زیادہ بخیل) وہ شخص ہے جس کے سامنے میراذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام منذری نے فرمایا ہے۔
38. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ نَسِيَ الصَّـلَاةَ عَلَيَّ خَطِئَ طَرِيْقَ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
وفي رواية : عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَنَسِيَ الصَّـلَاةَ عَلَيَّ خَطِيئَ طَرِيْقَ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 294، الرقم : 908، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 326، الرقم : 31793، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 128، الرقم : 2887، وأيضًا، 12 / 180، الرقم : 12819، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 46.48، الرقم : 41.44، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 6 / 267، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 215، الرقم : 1573، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 331. 332، الرقم : 2597، 2599.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا.‘‘
اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے تو قیامت کے دن وہ جنت کاراستہ بھول جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَجْلِسٍ فَتَفَرَّقُوْا مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ اﷲِ وَالصَّـلَاةِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، کتاب البر والإحسان، باب الصحبة والمجالسة، ذکر البيان بأن تفرق القوم عن المجلس عن غير ذکر اﷲ، 2 / 351، الرقم : 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم : 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم : 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر وہ (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پڑھے بغیر منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لیے قیامت کے روز باعث حسرت (وخسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہ ہو گی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
40. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا وُضُوْئَ لَهُ، وَلَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ يَذْکُرِاسْمَ اﷲِ عَلَيْهِ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا يُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا يُحِبُّ الْأَنْصَارَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارَ قُطْنِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب ما جاء في التسمية علی الوضوئ، 1 / 140، الرقم : 400، والدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 402، الرقم : 992، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 121، الرقم : 5699، وأيضًا في الدعائ / 139، الرقم : 382، والروياني في المسند، 2 / 228، الرقم : 1098، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 379، الرقم : 3781، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 196، الرقم : 7938.
’’حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں، جو آدمی وضو کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا اس کا وضو نہیں ہوتا اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا، اس کی نماز نہیں ہوتی، اور جو انصار سے محبت نہیں رکھتا اس کی بھی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، دارقطنی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
41. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ : إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا يَصْعَدُُ مِنْهُ شَيئٌ حَتّٰی تُصَلِّيَ عَلٰی نَبِيِّکَ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ،2 / 356 الرقم 486، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2590.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ یقینا دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی (مکرم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھ لو۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : کُلُّ دُعَاءٍ مَحْجُوْبٌ حَتّٰی يُصَلِّيَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَآلِ مُحَمَّدٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌٌ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 220، الرقم : 721، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 216، الرقم : 1575، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2589، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4754، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے سند جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں۔
مذکورہ بالا اَحادیث مبارکہ کی روشنی میں درود و سلام کے مختصراً درج ذیل فضائل ہمارے سامنے آئے ہیں :
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved