(1) قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف لِیَبْلُوَنِیْٓ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌo
(النمل، 27: 40)
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکرگزاری کرتا ہوں یا ناشکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لیے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے۔
(2) یٰٓـاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِo الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَo
(الانفطار، 82: 6-8)
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔ جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لیے ابتداً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا۔ جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔
(3) اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْo
(العلق، 96: 1-5)
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
42-43: 1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: یَدُ اللهِ مَلْأَی لَا یَغِیضُهَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ. وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِي یَدِهٖ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التوحید، باب قول الله تعالی: لما خلقت بیدي، 6: 2697، الرقم: 6976، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، 2: 691، الرقم: 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 313، الرقم: 8125، والنسائي في السنن الکبری، 4: 413، الرقم: 7733، وأبو یعلی في المسند، 11: 229، الرقم: 6343، وابن حبان في الصحیح، 2: 503، الرقم: 725
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ(فیضانِ کرم سے) بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا خرچ کرنا بھی اُس کی عطاؤں کو کم نہیں کرتا۔ پھر فرمایا: کیا تم نے دیکھا کہ اس نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تو اُس وقت سے (اب تک اپنی مخلوق کو) کتنا عطا کر چکا ہے؟ لیکن جو (خزانہ) اُس کے دست قدرت میں ہے اُس کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(43) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِیْمَا رَوٰی عَنِ اللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنَّهٗ قَالَ: یَا عِبَادِي، إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِي، وَجَعَلْتُهٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا، فَـلَا تَظَالَمُوْا یَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهٗ، فَاسْتَهْدُوْنِي أَهْدِکُمْ. یَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهٗ، فَاسْتَطْعِمُوْنِي أُطْعِمْکُمْ. یَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ کَسَوْتُهٗ، فَاسْتَکْسُوْنِي أَکْسُکُمْ. یَا عِبَادِي، إِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، فَاسْتَغْفِرُوْنِي، أَغْفِرْ لَکُمْ. یَا عِبَادِي، إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضَرِّي، فَتَضُرُّوْنِي، وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِي، فَتَنْفَعُوْنِي. یَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِي مُلْکِي شَیْئًا. یَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِي شَیْئًا. یَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِي صَعِیْدٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلُونِي، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهٗ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ. یَا عِبَادِي، إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیْهَا لَکُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیْکُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ، فَـلَا یَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَهٗ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، 4: 1994، الرقم: 2577، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ، 4: 656، الرقم: 2495، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 72، الرقم: 29557، وعبد الأعلی بن مسھر في النسخۃ، 1: 23، الرقم: 1.
ایک روایت میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یہ روایت کیا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا ہے، لهٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، لهٰذا تم مجھ سے ہی ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلائوں، لهٰذا تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھانا کھلائوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہنائوں، لهٰذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہنائوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، لهٰذا تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان پہنچانے کی ہرگز قدرت نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم میرے نفع کے مالک نہیں کہ مجھے کچھ نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے) اس میں کمی ہوتی ہے، اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے جمع کر رہا ہوں، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا دوں گا، پس جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جسے خیر کے سوا کوئی چیز (مثلاً آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔
اسے امام مسلم، ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
44-45: 2. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: قَالَ اللهُ تعالیٰ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِي، وَاللهِ، لِلّٰهِ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهٖ، مِنْ أَحَدِکُمْ یَجِدُ ضَالَّتَهٗ بِالْفَلَاةِ. وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ یَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَیْهِ أُھَرْوِلُ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ واللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب التوحید، باب قول الله تعالی: ویحذرکم الله نفسہ، 6: 2694، الرقم: 6970، ومسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب الحث علی ذکر الله تعالی، 4: 2102، الرقم: 2675، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 413، الرقم: 934، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب في حسن الظن بالله، 5: 581، الرقم: 3603، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب فضل العمل، 2: 1255، الرقم: 3822، والنسائي في السنن الکبری، 4: 412، الرقم: 7730، والطبراني في الدعائ، 1: 522، الرقم: 1866، والبیہقي في شعب الإیمان، 1: 406، الرقم: 550.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جہاں بھی وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:) الله تعالیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی شخص کو جنگل میں اپنی گم شدہ سواری کے مل جانے پر ہوتی ہے۔ اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں؛ اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے، جب کہ مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
(45) وَفِي رِوَایَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِیْمَا یَرْوِي عَنْ رَبِّهٖ، قَالَ: أَرْبَعُ خِصَالٍ، وَاحِدَۃٌ مِنْهُنَّ لِي، وَوَاحِدَۃٌ لَکَ، وَوَاحِدَۃٌ فِیْمَا بَیْنِي وَبَیْنَکَ، وَوَاحِدَۃٌ فِیْمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِبَادِي. فَأَمَّا الَّتِي لِي فَتَعْبُدُنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَیْئًا، وَأَمَّا الَّتِي لَکَ عَلَيَّ فَمَا عَمِلْتَ مِنْ خَیْرٍ جَزَیْتُکَ بِهٖ، وَأَمَّا الَّتِي بَیْنِي وَبَیْنَکَ فَمِنْکَ الدُّعَائُ وَعَلَيَّ الإِجَابَۃُ، وَأَمَّا الَّتِي بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِبَادِي فَارْضَ لَهُمْ مَا تَرْضٰی لِنَفْسِکَ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَیْهَقِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ أبو یعلی في المسند، 5: 143، الرقم: 2757، والبیہقي في شعب الإیمان، 7: 518، الرقم: 11186، والدیلمي في مسند الفردوس، 5: 245، الرقم: 8086، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 1: 51، وابن حجر العسقلاني في المطالب العالیۃ، 13: 692، الرقم: 3297، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4: 86.
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے رب تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں، الله تعالیٰ نے (بندے سے) فرمایا: چار خوبیاں ہیں جن میں سے ایک میرے لیے ہے اور ایک تمہارے لیے ہے؛ ایک میرے اور تمہارے مابین ہے اور ایک تمہارے اور میرے بندوں کے درمیان ہے۔ جو شان خاص میرے لیے ہے وہ یہ کہ صرف میری عبادت کرنا اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا؛ مجھ پر تیرا حق یہ ہے کہ تجھے تیری ہر نیکی کی جزا دوں گا۔ اور جو میرے اور تمہارے درمیان ہے وہ یہ کہ تجھ پر دعا مانگنا لازم ہے اور مجھ پر قبول کرنا (لازم ہے)۔ اور (چوتھی خوبی) جو تمہارے اور میرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کے لیے بھی وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
اسے امام ابو یعلی، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
46-48: 3. عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: إِنَّ اللهَ حَيٌّ کَرِیْمٌ، یَسْتَحْیِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْهِ یَدَیْهِ أَنْ یَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الوتر، باب الدعائ، 2: 78، الرقم: 1488، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: 105، 5: 556، الرقم: 3556، وابن حبان في الصحیح، 3: 160، الرقم: 876، وعبد الرزاق عن أنس رضی اللہ عنہ في المصنف، 2: 251، الرقم: 3250، والطبراني في المعجم الکبیر، 6: 256، الرقم: 6148، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 211، الرقم: 2965.
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات حیا دار اور کریم ہے۔ وہ اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ کوئی شخص اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور وہ اُنہیں خالی اور نا مراد واپس لوٹا دے۔
اسے امام ابو داود، ترمذی، ابن حبان اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
(47) وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ رَبَّکُمْ حَيٌّ کَرِیْمٌ، یَسْتَحْيٖ أَنْ یَرْفَعَ الْعَبْدُ یَدَیْهِ، فَیَرُدَّهُمَا صِفْرًا لَا خَیْرَ فِیْهِمَا، فَإِذَا رَفَعَ أَحَدُکُمْ یَدَیْهِ، فَلْیَقُلْ: {یَا حَيُّ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ} ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ؛ ثُمَّ إِذَا رَدَّ یَدَیْهِ، فَلْیُفْرِغَ ذٰلِکَ الْخَیْرَ عَلٰی وَجْهِهٖ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 3: 106، الرقم: 876، وأبو یعلی في المسند، 3: 391، الرقم: 1867، والبزار عن سلمان رضی اللہ عنہ في المسند، 6: 478، الرقم: 2511، والطبراني في المعجم الکبیر، 12: 423، الرقم: 13557، وابن راشد في الجامع، 10: 443، والقضاعي في مسند الشہاب، 2: 165، الرقم: 1111، والدیلمي في مسند الفردوس، 1: 221، الرقم: 847.
ایک روایت میں حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارا ربّ بڑا حیادار اور کریم ہے۔ وہ اس بات سے حیا محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ (اس کے سامنے دعا کے لیے) ہاتھ اُٹھائے اور وہ اُنہیں خالی لوٹا دے۔ پس جب بھی تم میں سے کوئی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو یوں کہے: {یَا حَيُّ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ} یہ کلمات تین بار دہرائے پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو (دعا سے) ہٹائے تو وہ اُنہیں اپنے چہرہ پر پھیر لے۔
اِسے امام حبان، ابو یعلی اور بزار نے جب کہ طبرانی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔
(48) وَفِي رِوَایَةِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ، أَنَّهٗ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ کَرِیمٌ، یُحِبُّ الْکَرَمَ وَمَعَالِيَ الأَخْلَاقِ، وَیَبْغَضُ سَفْسَافَهَا.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ رَاشِدٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 1: 111، الرقم: 51، وابن راشد في الجامع، 11: 143، الرقم: 20150، والطبراني في المعجم الکبیر، 3: 131، الرقم: 151، والبیہقي في السنن الکبری، 10: 191، الرقم: 20570.
ایک روایت میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: الله تعالیٰ کریم ہے اور وہ کرم اور اعلیٰ اخلاق کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا اَخلاق کو ناپسند فرماتا ہے۔
اِسے امام حاکم، ابن راشد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَال: سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ یُحِبُّ الطَّیِّبَ، نَظِیْفٌ یُحِبُّ النَّظَافَةَ، کَرِیْمٌ یُحِبُّ الْکَرَمَ، جَوَّادٌ یُحِبُّ الْجُوْدَ، فَنَظِّفُوْا. أُرَاهُ قَالَ: أَفْنِیَتَکُمْ وَلَا تَشَبَّهُوْا بِالْیَهُوْدِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ یَعْلٰی.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في النظافۃ، 5: 111، الرقم: 2799، والبزار في المسند، 3: 320، الرقم: 1114، وأبو یعلی في المسند، 2: 121، الرقم: 790.
حضرت صالح بن ابی حسان سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب کو پسند کرتا ہے۔ وہ پاک ہے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، کریم ہے اسے کرم محبوب ہے، بہت سخی ہے سخاوت پسند فرماتا ہے۔ نظافت اختیار کرو۔ راوی فرماتے ہیں: میرے خیال میں حضرت سعید نے فرمایا: اپنے صحنوں کو صاف رکھا کرو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو (جو اپنے گھروں کا کوڑا دوسرے گھروں کے سامنے ڈال دیتے تھے)۔
اِسے امام ترمذی، بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
49: 4. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ أَنَّ مُکَاتَبًا جَائَهٗ فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ کِتَابَتِي، فَأَعِنِّي. قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْهِنَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، لَوْ کَانَ عَلَیْکَ مِثْلُ جَبَلِ ثَبِیْرٍ دَیْنًا أَدَّاهُ اللهُ عَنْکَ؟ قَالَ: قُلْ: اَللّٰهُمَّ، اکْفِنِي بِحَـلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ، وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُهٗ حَسَنٌ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 153، الرقم: 1318، وأیضًا في فضائل الصحابۃ، 2: 670، 707، الرقم: 1142، 1208، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: 111، 5: 560، الرقم: 3563، والبزار في المسند، 2: 185، الرقم: 563، والحاکم في المستدرک، 1: 721، الرقم: 1973، والطبراني في الدعائ: 317، الرقم: 1042، والدیلمي في مسند الفردوس، 1: 469، الرقم: 1907، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 2: 117-118، الرقم: 489-490، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 2: 380، الرقم: 2801.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب (ایسا غلام جو ایک مخصوص رقم ادا کرکے اپنے آقا سے آزادی کا معاہدہ کر لے) نے ان کے پاس آکر عرض کیا: میں اپنی آزادی کے بدلے رقم ادا کرنے سے عاجز ہوں آپ میری مدد فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا: کیا میں تجھے چند ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو رسول الله ﷺ نے مجھے سکھائے تھے؟ اگر تجھ پر ثبیر پہاڑ جتنا قرض بھی ہو گا تو اللہ تعالیٰ تیری طرف سے ادا کر دے گا۔ فرمایا: یوں کہا کرو: {اَللّٰهُمَّ اکْفِنِي بِحَـلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ} ’یا اللہ! مجھے حلال رزق عطا فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل و کرم کے ساتھ اپنے ماسوا سے بے نیاز فرما دے۔ ‘
اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے، اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اور امام المقدسی نے بھی فرمایا: اس کی اسناد حسن ہے۔
50: 5. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيَّ لَیْلَۃٍ لَیْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَقُوْلُ فِیْهَا؟ قَالَ: قُوْلِي: اَللّٰهُمَّ، إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 171، الرقم: 25423، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب منہ، 5: 534، الرقم: 3513، وابن ماجہ في السنن، کتاب الدعائ، باب الدعاء بالعفو والعافیۃ، 2: 1265، الرقم: 3850، والحاکم في المستدرک، 1: 712، الرقم: 1942، وابن راہویہ في المسند، 3: 748، الرقم: 1361، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 339، الرقم: 3701.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں: میں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں) عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر مجھے شبِ قدر معلوم ہو جائے تو میں اس (رات) میں کیا دعا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم یوں دعا کرو: {اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي} ’یا اللہ! تو بہت سخی اور معاف کرنے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے۔ مجھے معاف فرما دے۔ ‘
اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
51-61: 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْکَرْبِ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الکرب، 5: 2336، الرقم: 5986، وأیضًا في الأدب المفرد: 245، الرقم: 702، ومسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب دعاء الکرب، 4: 2092، الرقم: 2730، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 228، الرقم: 2012، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء ما یقول عند الکرب، 5: 495، الرقم: 3435، وابن ماجہ في السنن، کتاب الدعائ، باب الدعاء عند الکرب، 2: 1278، الرقم: 3883، والنسائي في السنن الکبری، 4: 397، الرقم: 7674-7675.
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ تکلیف کے وقت یوں (کلماتِ حمد و ثنا) فرماتے: {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ} ’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو عظیم اورحلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو عرشِ عظیم کا ربّ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیںہے، جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے اور عزت والے عرش کا رب ہے۔ ‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(52) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا یُصِیبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ، وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ، حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُهَا إِلَّا کَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَایَاهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب ما جاء في کفارۃ المرض، 5: 5237، الرقم: 5318، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض، 4: 1992، الرقم: 2573، والترمذي في السنن عن أبي سعید، أبواب الجنائز، باب ما جاء في ثواب المریض، 3: 298، الرقم: 966.
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو پہنچنے والا کوئی درد، تکلیف، غم، ملال، اذیت اور دُکھ ایسا نہیں خواہ اس کے پاؤں میں کانٹا ہی چبھے، مگر اس کی وجہ سے الله تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(53) وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ: أَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي مَرَضِهٖ وَهُوَ یُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، وَقُلْتُ: إِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، قُلْتُ: إِنَّ ذَاکَ بِأَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ؟ قَالَ: أَجَلْ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُهٗ أَذًی إِلَّا حَاتَّ اللهُ عَنْهُ خَطَایَاهُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، 2138، الرقم: 5323، وأیضا في باب أشد الناس بلاء الأنبیائ، 5: 2139، الرقم: 5324، وأیضا في باب وضع الید علی المریض، 5: 2143، الرقم: 5336، وأیضا في باب ما یقال للمریض، 5: 2143، الرقم: 5337، وأیضا في باب ما رخص للمریض أن یقول إني وجع، 5: 2145، الرقم: 5343، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض أو حزن، 4: 1991، الرقم: 2571، وأحمد في المسند، 1: 381، الرقم: 3618.
ایک روایت میں حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم ﷺ کی علالت کے دوران آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کو سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: (یارسول الله!) آپ کو تو بڑا سخت بخار ہے، شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کے لیے دوگنا اجر ہے؟ فرمایا: ہاں، اسی طرح جب کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ (اس کے بدلے میں) اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(54) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ یُرِدِ اللهُ بِهٖ خَیْرًا یُصِبْ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَمَالِکٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب ما جاء في کفارۃ المریض، 5: 2138، الرقم: 5321، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 237، الرقم: 7234، ومالک في الموطأ، کتاب العین، باب ما جاء في أجر المریض، 2: 941، الرقم: 1684، والنسائي في السنن الکبری، 4: 351، الرقم: 7478، وابن حبان في الصحیح، 7: 168، الرقم: 2907.
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے تکالیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اِسے امام بخاری، احمد، مالک، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
(55) وَفِي رِوَایَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی قَالَ: إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِي بِحَبِیبَتَیْهِ فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهٗ مِنْهُمَا الْجَنَّةَ. یُرِیْدُ عَیْنَیْهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب فضل من ذہب بصرہ، 5: 4021، الرقم: 5329، وأحمد في المسند، 3: 144، وأبو یعلی في المسند، 6: 375، والطبراني في المعجم الأوسط، 1: 86، الرقم: 250، والبیہقي في السنن الکبری، 3: 375، الرقم: 6344، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 3: 112، الرقم: 6525.
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللهتعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں کے ذریعے (یعنی دونوں آنکھوں کی بینائی چھین کر) آزماتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو ان کے عوض میں اُسے جنت عطا فرماتا ہوں۔ دو چیزوں سے مراد آنکھیں ہیں۔
اِسے امام بخاری، احمد بن حنبل، ابو یعلی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
(56) وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ یَقُوْلُ: إِذَا أَخَذْتُ کَرِیْمَتَي عَبْدِي فِي الدُّنْیَا، لَمْ یَکُنْ لَهٗ جَزَائٌ عِنْدِي إِلَّا الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَعَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في ذہاب البصر، 4: 602، الرقم: 2400، وأبو یعلی في المسند، 7: 215، الرقم: 4211، وعبد بن حمید في المسند، 1: 368، الرقم: 1227، وذکرہ ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 10: 117، والہندي في کنز العمال، 3: 112، الرقم: 6528.
ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں دنیا میں اپنے کسی بندے کی دو پیاری چیزیں (یعنی آنکھیں) لے لیتا ہوں تو میرے نزدیک اس کا بدلہ صرف جنت ہے۔
اِسے امام ترمذی، ابو یعلی اورعبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔
(57) وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، تعالیٰ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یُصَابُ بِبَـلَائٍ فِي جَسَدِهٖ إِلَّا أَمَرَ اللهُ تعالیٰ الْمَلَائِکَةَ الَّذِیْنَ یَحْفَظُوْنَهٗ، فَقَالَ: اکْتُبُوا لِعَبْدِي کُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ مَا کَانَ یَعْمَلُ مِنْ خَیْرٍ مَا کَانَ فِي وِثَاقِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِیْرِ وَرِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِیْحِ.
أخرجہ أحمد في المسند، 2: 159، 194، 198، الرقم: 6482، 6825، 6870، والدارمي في السنن، 2: 407، الرقم: 2770، والحاکم في المستدرک، 1: 499، الرقم: 1287، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 440، الرقم: 10804، والبخاري في الأدب المفرد: 176، الرقم: 500، والبیہقي في شعب الإیمان، 7: 183، الرقم: 9929، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 2: 303.
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے جس شخص کو بھی جب جسمانی طور پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا تھا وہ ہر دن اور رات اس کے لیے لکھتے رہو جب تک وہ میرے عہد پر قائم ہے۔
اِسے امام احمد، دارمی، حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا: یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے کہا: اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام احمد کے راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں۔
(58) وَفِي رِوَایَةِ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ بَعَثَ اللهُ تَعَالٰی إِلَیْهِ مَلَکَیْنِ، فَقَالَ: انْظُرَا مَاذَا یَقُوْلُ لِعُوَّادِهٖ؟ فَإِنْ هُوَ إِذَا جَاؤُوْهُ حَمِدَ اللهَ، وَأَثْنٰی عَلَیْهِ، رَفَعَا ذٰلِکَ إِلَی اللهِ تعالیٰ - وَهُوَ أَعْلَمُ - فَیَقُوْلُ: لِعَبْدِي عَلَيَّ إِنْ تَوَفَّیْتُهٗ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ أَنَا شَفَیْتُهٗ، أَنْ أُبْدِلَ لَهٗ لَحْمًا خَیْرًا مِنْ لَحْمِهٖ، وَدَمًا خَیْرًا مِنْ دَمِهٖ، وَأَنْ أُکَفِّرَ عَنْهُ سَیِّئَاتِهٖ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب العین، باب ما جاء في أجر المریض، 2: 940، الرقم: 1682، والبیہقي في شعب الإیمان، 7: 187، الرقم: 9941، وابن عبد البر في الاستذکار، 8: 406، الرقم: 749، وأیضا في التمہید، 5: 47، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 3: 126-127، الرقم: 6704، والعراقي في المغني عن حمل الأسفار، 1: 517، الرقم: 1997.
ایک روایت میں حضرت عطا بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: دیکھتے رہو یہ بیمار پرسی کے لیے آنے والوں کو ( اپنی بیماری کے متعلق) کیا کہتا ہے؟ اگر وہ آنے والوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے تو دونوں فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں (اور سارا ماجرا بیان کرتے ہیں۔ ) حالانکہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میں نے اس بندے کو موت دی تو اسے جنت میں داخل کروں گا اور اگر اسے شفا عطا کی تو پہلے سے زیادہ اچھا گوشت اور خون عطا کروں گا ( یعنی اسے پہلے سے زیادہ اچھی صحت عطا کروں گا) اور اس کی خطاؤں کو مٹا دوں گا۔
اِسے امام مالک اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
(59) وَفِي رِوَایَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ، إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ ثَـلَاثَةَ أَیَّامٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهٗ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا.
أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر، 1: 314، الرقم: 519، وابن أبي الدنیا في المرض والکفارات: 66، الرقم: 61، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 2: 297، والہندي في کنز العمال، 3: 125، الرقم: 6684، وابن القیم في عدۃ الصابرین: 74.
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بندہ تین دن تک بیمار رہتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے (گناہوں سے پاک) پیدا ہوا تھا۔
اِسے امام طبرانی اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
(60) وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، تعالیٰ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تُرَدُّ دَعْوَۃُ الْمَرِیْضِ حَتّٰی یَبْرَأَ.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا وَالْفَاکِهِيُّ.
أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 7: 210، الرقم: 10029، وابن أبي الدنیا في المرض والکفارات: 71، الرقم: 70، والفاکہي في أخبار مکۃ، 1: 420، الرقم: 909، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 4: 166، الرقم: 5280، والسبکي في طبقات الشافعیۃ الکبری، 3: 337، وأیضًا، 9: 321.
ایک روایت میں حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صحت یاب ہونے تک بیمار کی دعا ردّ نہیں ہوتی۔
اسے امام بیہقی، ابن ابی الدنیا اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔
(61) وَفِي رِوَایَةِ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عُوْدُوا الْمَرْضٰی، وَمُرُوْهُمْ فَلْیَدْعُوا لَکُمْ؛ فَإِنَّ دَعْوَةَ الْمَرِیْضِ مُسْتَجَابَۃٌ وَذَنْبَهٗ مَغْفُورٌ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6: 140، الرقم: 6027، وأیضا في الدعائ: 346، الرقم: 1136، والبیھقي في شعب الإیمان، 7: 209، الرقم: 10028، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 4: 166، الرقم: 5279، والہندي في کنز العمال، 9: 41، الرقم: 25147، والعجلوني في کشف الخفائ، 2: 99، الرقم: 1795.
ایک روایت میں حضرت انس (بن مالک) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیماروں کی عیادت کیا کرو اور انہیں اپنے لیے دعا کے لیے کہا کرو کیونکہ بیمار کی دعا مقبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیے گئے ہوتے ہیں۔
اسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved