Allah Ta`ala Per Bandoon Kay Huqooq

عاصیوں اور گنہگاروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذِمہ کرم پر رحمت کو لازم کر رکھا ہے

بَابٌ فِي أَنَّهٗ تَعَالٰی کَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لِلْعُصَاةِ وَالْمُذْنِبِیْنَ

اَلْقُرْآن

(1) وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(البقرۃ، 2: 199)

اور الله سے (خوب) بخشش طلب کرو، بے شک الله نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

(2) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللهِ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(البقرۃ، 2: 218)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے الله کے لیے وطن چھوڑا اور الله کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ الله کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور الله بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

(3) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(آل عمران، 3: 31)

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور الله نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

(4) وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَo

(آل عمران، 3: 135)

اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔

(5) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ ط وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo

(النساء، 4: 64)

اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔

(6) وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَا تَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلاًo

(النساء، 4: 83)

اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو یقینا چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔

(7) دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃً ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo

(النساء، 4: 96)

اس کی طرف سے (ان کے لیے بہت) درجات ہیں اور بخشائش اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

(8) وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo

(النساء، 4: 110)

اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا۔

(9) وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللهَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo

(النساء، 4: 129)

اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

(10) فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(المائدۃ، 5: 39)

پھر جو شخص اپنے (اس) ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلے تو بے شک الله اس پر رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا ہے۔ یقینا الله بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

(11) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللهِ وَلِقَآئِهٖٓ اُولٰٓئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَاُولٰٓئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo

(العنکبوت، 29: 23)

اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ لوگ میری رحمت سے مایوس ہوگئے اور ان ہی لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

(12) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّهٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo

(الزمر، 39: 53)

آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔

(13) وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍo

(الشورٰی، 42: 30)

اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔

اَلْحَدِیْث

36: 1. عَنْ حُذَیْفَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: تَلَقَّتِ الْمَـلَائِکَۃُ رُوْحَ رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ. فَقَالُوْا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَیْرِ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا. قَالُوْا: تَذَکَّرْ. قَالَ: کُنْتُ أُدَایِنُ النَّاسَ فَآمُرُ فِتْیَانِي أَنْ یُنْظِرُوا الْمُعْسِرَ وَیَتَجَوَّزُوْا عَنِ الْمُوْسِرِ. قَالَ: قَالَ اللهُ تعالیٰ: تَجَوَّزُوْا عَنْهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

36: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر، 3: 1194، الرقم: 1560، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 361، الرقم: 8715، والنسائي في السنن، کتاب البیوع، باب حسن المعاملۃ والرفق في المطالبۃ، 7: 318، الرقم: 4694، وأیضا في السنن الکبری، 4: 60، الرقم: 6293، والدارمي في السنن، 2: 324، الرقم: 2546.

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ (مرنے کے بعد) فرشتے اُس کی روح سے ملے اور پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اُس نے کہا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: (اپنی کوئی نیکی) یاد کرو، اُس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہتا تھا کہ مفلس کو مہلت دیں اور مالدار سے درگزر کریں۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا: تم بھی اِس سے درگزر کرو۔

اسے امام مسلم، اَحمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

37-38: 2. عَنْ بُرَیْدَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِّرْنِي. فَقَالَ: وَیْحَکَ! ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَیْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَیْرَ بَعِیْدٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَیْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَیْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَیْرَ بَعِیْدٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِّرْنِي. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مِثْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی إِذَا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ قَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ: فِیْمَ أُطَهِّرُکَ؟ فَقَالَ: مِنَ الزِّنٰی، فَسَأَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَبِهٖ جُنُوْنٌ؟ فَأُخْبِرَ أَنَّهٗ لَیْسَ بِمَجْنُوْنٍ. فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا؟ فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْکَهَهٗ فَلَمْ یَجِدْ مِنْهُ رِیْحَ خَمْرٍ. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَزَنَیْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَأَمَرَ بِهٖ، فَرُجِمَ.

فَکَانَ النَّاسُ فِیْهِ فِرْقَتَیْنِ قَائِلٌ یَقُوْلُ: لَقَدْ هَلَکَ، لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْئَتُهٗ، وَقَائِلٌ یَقُوْلُ: مَا تَوْبَۃٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ، أَنَّهٗ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ، فَوَضَعَ یَدَهٗ فِي یَدِهٖ، ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ. قَالَ: فَلَبِثُوْا بِذٰلِکَ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَـلَاثَۃً، ثُمَّ جَاءَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَهُمْ جُلُوْسٌ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ. قَالَ: فَقَالُوْا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسِعَتْهُمْ.

قَالَ: ثُمَّ جَائَتْهُ امْرَأَۃٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ: وَیْحَکِ! ارْجِعِي، فَاسْتَغْفِرِي اللهَ، وَتُوْبِي إِلَیْهِ. فَقَالَتْ: أَرَاکَ تُرِیْدُ أَنْ تُرَدِّدَنِي کَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ. قَالَ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: إِنَّهَا حُبْلٰی مِنَ الزِّنٰی. فَقَالَ: أَنْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. فَقَالَ لَهَا: حَتّٰی تَضَعِي مَا فِي بَطْنِکِ. قَالَ: فَکَفَلَهَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتّٰی وَضَعَتْ. قَالَ: فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِیَّۃُ. فَقَالَ: إِذًا لَا نَرْجُمُهَا، وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِیْرًا، لَیْسَ لَهٗ مَنْ یُرْضِعُهٗ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِلَيَّ رَضَاعُهٗ یَا نَبِيَّ اللهِ. قَالَ: فَرَجَمَهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزنی، 3: 1321، الرقم: 1695، والنسائي في السنن الکبری، 4: 276، الرقم: 7163، وأبو عوانۃ في المسند، 4: 134، الرقم: 6292، والطبراني في المعجم الأوسط، 5: 117، الرقم: 4843، والبیھقي في السنن الکبری، 8: 214، الرقم: 16705، والدار قطني في السنن، 3: 91، الرقم: 39.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجیے، آپ ﷺ نے فرمایا: افسوس ہے تم پر! جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور توبہ کرو، وہ تھوڑی دور جا کر لوٹ آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجیے، حضور نبی اکرم ﷺ نے پھر اسی طرح فرمایا، یہاں تک کہ چوتھی بار ان کے کہنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ انہوں نے عرض کیا: بدکاری سے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق پوچھا: کیا یہ مجنوں ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، وہ پاگل نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: کیا اس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہوکر ان کا منہ سونگھا مگر اُس سے شراب کی بدبو محسوس نہیں کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے بدکاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ ﷺ نے ان کو رجم کرنے کا حکم دیا۔

بعد میں حضرت ماعز کے متعلق لوگوں کی دو رائے ہو گئیں، بعض کہتے تھے کہ حضرت ماعز ہلاک ہو گئے اور اس گناہ نے انہیں گھیر لیا اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ حضرت ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کیوں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں خود حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دستِ اقدس پر اپنا ہاتھ رکھ کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے، حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ میں یہی اختلاف رہا، پھر (ایک دن) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے آپ ﷺ سلام کرنے کے بعد (اُن کے ساتھ) بیٹھ گئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت کرے، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے اگر اس کو تمام اُمت پر بھی تقسیم کر دیا جائے تو اسے کافی ہو گی۔

پھر آپ ﷺ کے پاس قبیلہ غامد سے جو اَزد کی شاخ ہے ایک عورت حاضر ہوئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر! جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور توبہ کرو، وہ کہنے لگی میرا خیال ہے کہ آپ مجھے بھی اسی طرح واپس کر رہے ہیں جس طرح آپ نے ماعز بن مالک کو واپس کر دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے کیا کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ بدکاری سے حاملہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم خود؟ اس نے عرض کیا: جی! آپ ﷺ نے فرمایا: تم وضع حمل تک رک جاؤ۔ حضرت بریدہ کہتے ہیں پھر ایک انصاری شخص نے اس کی خبرگیری اپنے ذمہ لے لی حتیٰ کہ اس کا وضع حمل ہوگیا، حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ پھر وہ (انصاری) حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ غامدیہ کا وضع حمل ہو گیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہم اس حال میں اس کو رجم نہیں کریں گے کہ اس کا بچہ چھوٹا ہو اور اسے دودھ پلانے والا کوئی نہ ہو، پھر ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسے دودھ پلوانا میرے ذمہ ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ بعد اَزاں آپ ﷺ نے اس عورت کو رجم کر دیا۔

اسے امام مسلم، نسائی، ابو عوانہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

(38) وَفِي رِوَایَةِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ جُهَیْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللهِ ﷺ وَهِيَ حُبْلٰی مِنَ الزِّنٰی، فَقَالَتْ: یَا نَبِيَّ اللهِ، أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ وَلِیَّهَا، فَقَالَ: أَحْسِنْ إِلَیْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ، فَأْتِنِي بِهَا، فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ، فَشُکَّتْ عَلَیْهَا ثِیَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا، فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْهَا. فَقَالَ لَهٗ عُمَرُ: تُصَلِّي عَلَیْهَا یَا نَبِيَّ اللهِ، وَقَدْ زَنَتْ! فَقَالَ: لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِیْنَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ لَوَسِعَتْهُمْ. وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَۃً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلّٰهِ تَعَالٰی.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزنی، 3: 1324، الرقم: 1696، والدارمي في السنن، 2: 235، الرقم: 2325، والطبراني في المعجم الأوسط، 5: 117، الرقم: 4843.

ایک روایت میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی درآں حالیکہ وہ بدکاری سے حاملہ تھی، اس نے عرض کیا: یا نبی اللہ! میں نے لائق حد جرم کیا ہے، آپ مجھ پر حد قائم فرمائیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا: اس کی اچھی طرح نگہداشت کرنا اور جب اس کا وضع حمل ہو جائے تو اسے میرے پاس لے کر آنا، اس نے ایسا ہی کیا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے کپڑے کس کر باندھنے کا حکم دیا (تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو) پھر آپ ﷺ کے حکم سے اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں حالانکہ اس نے بدکاری کا ارتکاب کیا ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کو مدینہ کے ستر آدمیوں پر بھی تقسیم کیا جائے تو انہیں کافی ہو گی، اور کیا تم نے اس سے افضل کوئی توبہ دیکھی ہے کہ توبہ کرنے والی نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا ہو۔

اسے امام مسلم، دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

39: 3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: بَیْنَمَا کَلْبٌ یُطِیْفُ بِرَکِیَّۃٍ، کَادَ یَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَایَا بَنِي إِسْرَائِیْلَ، فَنَزَعَتْ مُوْقَهَا، فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب أحادیث الأنبیائ، باب حدیث الغار، 3: 1279، الرقم: 3280، ومسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب فضل سقي البھائم المحترمۃ وإطعامھا، 4: 1761، الرقم: 2245، والبیہقي في السنن الکبری، 8: 14، الرقم: 15597.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک کتا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ شدتِ پیاس سے مر جائے گا۔ اِسی اثنا میں بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے اُسے دیکھ لیا۔ اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا۔ اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

40: 4. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ یَمْشِي، فَاشْتَدَّ عَلَیْهِ الْعَطَشُ، فَنَزَلَ بِئْرًا، فَشَرِبَ مِنْهَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا هُوَ بِکَلْبٍ یَلْهَثُ یَأْکُلُ الثَّرٰی مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ: لَقَدْ بَلَغَ هٰذَا مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي، فَمَلَأَ خُفَّهٗ، ثُمَّ أَمْسَکَهٗ بِفِیْهِ، ثُمَّ رَقِيَ، فَسَقَی الْکَلْبَ، فَشَکَرَ اللهُ لَهٗ، فَغَفَرَ لَهٗ. قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ أَجْرًا؟ قَالَ: فِي کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ أَجْرٌ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَمَالِکٌ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل سقي المائ، 2: 833، الرقم: 2234، وأیضًا في کتاب المظالم والغضب، باب الآبار علی الطرق إذا لم یتأذ بھا، 2: 870، الرقم: 2334، وأبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدّواب والبھائم، 3: 24، الرقم: 2550، ومالک في الموطأ، 2: 929، الرقم: 1661.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی جا رہا تھا کہ اُسے سخت پیاس لگی۔ وہ ایک کنوئیں میں اُترا اور اُس سے پانی پیا جب باہر نکلا تو ایک کتے کو ہانپتے دیکھا جو شدتِ پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا تھا۔ اُس نے دل میں کہا کہ اِسے بھی اُسی طرح پیاس لگی ہو گی جیسے مجھے پیاس لگی تھی۔ اُس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور منہ میں لے کر نکلا اور کتے کو پانی پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول فرما لی اور اُسے بخش دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیا جانوروں (پر مہربانی) کی وجہ سے بھی ہمیں اَجر ملتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر جاندار (کے ساتھ مہربانی کرنے) پر ثواب ملتا ہے۔

اِسے امام بخاری، ابو داود اور مالک نے روایت کیا ہے۔

41: 5. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: نَزَعَ رَجُلٌ، لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، غُصْنَ شَوْکٍ عَنِ الطَّرِیْقِ. إِمَّا کَانَ فِي شَجَرَۃٍ، فَقَطَعَهٗ وَأَلْقَاهُ، وَإِمَّا کَانَ مَوْضُوْعًا، فَأَمَاطَهٗ. فَشَکَرَ اللهُ لَهٗ بِهَا، فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 286، الرقم: 7834، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في إماطۃ الأذی عن الطریق، 4: 362، الرقم: 5245، وابن حبان في الصحیح، 2: 297، الرقم: 540، والطبراني في المعجم الأوسط، 3: 276، الرقم: 3133، والدیلمي في مسند الفردوس، 3: 99، الرقم: 4276.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے۔ شاید اُس ٹہنی کو کسی نے درخت سے کاٹ کر پھینک دیا تھا یا کسی اور وجہ سے گری پڑی تھی۔ اُس نے (اِس خیال سے کہ لوگوں کو اُس سے تکلیف ہوگی) ٹہنی راستے سے ہٹا دی۔ الله تعالیٰ نے اُس کا عمل قبول فرمایا اور اُسے جنت میں داخل فرما دیا۔

اِسے امام احمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ سے اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved