مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أبِي طالب رضي اﷲ عنه
1. فَصْلٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه أوَّلَ مَنْ أسْلَمَ وَ صَلَّي
124 / 1. عَنْ أَبِي حَمْزَة : رَجُلٍ مِنَ الْأنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أبُو عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي رضي الله عنه ، 5 / 642، الرقم : 3735، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الرقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الرقم : 32106، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الرقم : 12151، 22 / 452، الرقم : 1102، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
125 / 2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : بُعِثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الإِثْنَيْنِ وَصَلَّي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الرقم : 3728، و الحاکم في المستدرک، 3 / 121، الرقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355.
126 / 3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَ قَالَ : قَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا. فَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِيْنَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَّاءِ خَدِيْجَة.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔‘‘
’’اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘
الحديث رقم 3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 642، الرقم : 3734.
127 / 4. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ في رواية طويلة : قَالَ : وَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيْجَة.
رَوَاهُ أحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الرقم : 3062، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 603، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 21، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119.
128 / 5. عَنْ حَبَّة الْعُرَنِيِّ قَالَ : رَأيْتُ عَلِيًّا ضَحِکَ عَلَي الْمِنْبَرِ، لَمْ أرَهُ ضَحِکَ ضِحْکًا أکْثَرَ مِنْهُ حَتَّي بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ : ذَکَرْتُ قَوْلَ أبِي طَالِبٍ ظَهَرَ عَلَيْنَا أبُوْطَالِبٍ وَ أنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نُصَلِّي بِبَطْنِ نَخْلَة، فَقَالَ : مَا تَصْنَعَانِ يَا بْنَ أخِي؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الإِسْلَامِ، فَقَالَ : مَا بِالَّذِي تَصْنَعَانِ بَأسٌ أوْ بِالَّذِي تَقُوْلَانِ بَأسٌ وَ لَکِنْ وَاﷲِ لَا تَعْلُوْنِي سِنِّيْ أبَدًا! وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أبِيْهِ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ لَا أعْتَرِفُ أنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّة عَبَدَکَ قَبْلِي، غَيْرَ نَبِيِّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادئ نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 5 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الرقم : 776، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الرقم : 188، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
129 / 6. عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ : أوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّة وَرُوْدًا عَلَي نَبِيِّهَا صلي الله عليه وآله وسلم أوَّلُهَا إِسْلَامًا، عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضي الله عنه . رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَة وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 6 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 267، الرقم : 35954، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الرقم : 6174، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الرقم : 179، وابن سعد في الطبقات، 2 / 31، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
2. فَصْلٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم
130 / 7. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أبِي طَالِبٍ، فِي غَزْوَة تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أمَا تَرْضَي أنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَة هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي؟ إِلَّا أنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
الحديث رقم 7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1871، 1870، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الرقم : 6927، و البيهقي في السنن الکبري، 9 / 40.
131 / 8. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَ قَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَ الصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضَي أنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَة هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسَي إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّة بَعْدِي. وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَة رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ قَالَ : فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ : ادْعُوْا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَ دَفَعَ الرَّايَة إِلَيْهِ. فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَة : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُوْ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ) (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَة وَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَآءِ أًهْلِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کہ کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب اس سعادت کے حصول کے انتظار میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کو میرے پاس لائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، اس وقت وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیجئے آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور کہا : اے اللہ! یہ میرا کنبہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 8 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 638، الرقم : 3724.
132 / 9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِي، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 637، الرقم : 3722، 3729، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 142، الرقم : 8504، والحاکم في المستدرک، 3 / 135، الرقم : 4630، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 235، الرقم : 614.
133 / 10. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الرقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الرقم : 1321، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 186، الرقم : 1756.
134 / 11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : يَا عَلِيُّ، لَا يَحِلُّ لِأحَدٍ يُجْنَبُ فِي هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِي وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الْحَدِيْثِ؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِي وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُويَعْلَي.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ امام علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کا معنی پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، بزار اور ابویعلی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم11 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 639، الرقم : 3727، والبزار في المسند، 4 / 36، الرقم : 1197، و أبو يعلي في المسند، 2 / 311، الرقم : 1042، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 65، الرقم : 13181.
135 / 12. عَنْ أُمِّ عَطِيَة قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللَّهُمَّ، لَا تُمِتْنِي حَتَّي تُرِيَنِي عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو(واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے بیان کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم12 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 643، الرقم : 3737، و الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 68، الرقم : 168، و في المعجم الأوسط، 3 / 48، الرقم : 2432، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 609، الرقم : 1039.
136 / 13. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِي ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِي إِلَي دَارِ الْهِجْرَة، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَة، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ، أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرہ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم13 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 633، الرقم : 3714، و الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4629، و الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 95، الرقم : 5906، و البزار في المسند، 3 / 52، الرقم : 806، و أبويعلي في المسند، 1 : 418، الرقم : 550.
137 / 14. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَة، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُ وَابْنُ ماجة وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3719، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب، 1 / 44، الرقم : 119، وأحمد بن حنبل في المسند 4 / 165، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32071، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 16، الرقم : 3511، والشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 183، الرقم : 1514.
138 / 15. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : آخَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَ بَيْنَ أَحَدٍ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم15 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3720، و الحاکم في المستدرک، 3 / 15، الرقم : 4288.
139 / 16. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 16 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3721، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 146، الرقم : 9372، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 454.
140 / 17. عَنْ بُرَيْدَة قَالَ : کَانَ أحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَة وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ اس حدیث کو ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3868، والحاکم في المستدرک، 3 : 168، الرقم : 4735، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 130، الرقم : 7258.
141 / 18. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَي عَائِشَة فَسَئَلْتُ : أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ : فَاطِمَة، فَقِيْلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ : زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا : لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 / 171.
142 / 19. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأنَا أُضَحِّي عَنْهُ. رَوَاهُ أبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم19 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الضحايا، باب : الأضحية عن الميت، 3 / 94، الرقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 150، الرقم : 1285.
143 / 20. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ ماجة.
’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 20 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : التنحنح في الصلاة، 3 / 12، الرقم : 1212، و ابن ماجة في السنن، کتاب : الأدب، باب : الاستئذان، 2 / 1222، الرقم : 3708، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 360، الرقم : 1136، و ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 242، الرقم : 25676.
144 / 21. عَنْ أُمِّ سَلَمَة قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاة بَعْدَ غَدَاة يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَة. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَة فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ اس کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا انہیں شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا سو ہم باہر آگئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم21 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 300، الرقم : 26607، و الحاکم في المستدرک، 3 / 149، الرقم : 4671، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 112.
145 / 22. عَنْ أُسَامَة عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ وَ عَلِيٌّ وَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَة. فَقَالَ جَعْفَرٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ عَلِيٌّ. أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ زَيْدٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا : انْطَلِقُوْا بِنَا إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي نَسْأَلَهُ. فَقَالَ أُسَامَة بْنُ زَيْدٍ : فَجَائُوا يَسْتَأذِنُوْنَهُ فَقَالَ : اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَائِ فَقُلْتُ : هَذَا جَعْفَرٌ وَ عًلِيٌّ وَ زَيْدٌ مَا أَقُوْلُ : أَبِي، قَالَ : ائْذَنْ لَهُمْ وَ دَخَلُوْا فَقَالُوْا : مَنْ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : فَاطِمَة قَالُوْا : نَسْأَلُکَ عَنِ الرِّجَالِ. قَالَ أَمَّا أَنْتَ، يَا جَعْفَرُ، فأشْبَهَ خَلْقُکَ خَلْقِي وَ أَشْبَهَ خُلُقِي خُلُقَکَ، وَ أَنْتَ مِنِّي وَ شَجَرَتِي. وَ أَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ فَخَتَنِي وَ أَبُو وَلَدَيَّ، وَ أَنَا مِنْکَ وَأَنْتَ مِنِّي وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ، فَمَوْلَايَ، وَ مِنِّي وَ إِلَيَّ، وَ أَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَيَّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا : جعفر، علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے : یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ، انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خُلق تمہارے خُلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی! تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 204، الرقم : 21825، و الحاکم في المستدرک، 3 / 239، الرقم : 4957، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 151، الرقم : 1369، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 274.
146 / 23. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ في رواية طويلة : قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُوْرَة التَّوْبَة. فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ فَأَخَذَهَا مِنْهُ، قَالَ : لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِّنِّي وَ أَنَا مِنْهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جا سکتا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الرقم : 3062
147 / 24. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : اشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ. قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَيُهَا النَّاسُ، لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ، إِنَّهُ لَأخْشَنُ فِي ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ.
رَوَاهُ أحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم24 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الرقم : 11835، و الحاکم في المستدرک، 3 / 144، الرقم : 4654، و ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 8.
148 / 25. عَنْ أُمِّ سَلَمَة قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِئْ أحَدٌ مِنَّا أنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ.
ٰوَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے اور حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 25 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 318، الرقم : 4314، والحاکم في المستدرک، 3 / 141، الرقم : 4647، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116.
149 / 26. عَنْ أبِي رَافِعٍ : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَجِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل تم سے راضی ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 26 : أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الرقم : 946، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
3. فَصْلٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه مِنْ أهْلِ الْبَيْتِ
150 / 27. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَة : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَ أَبْنَآءَ کُمْ) (آل عمران، 30 : 61) دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَة وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أهْلِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ : ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم27 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، و في کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، و الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169. 13170.
151 / 28. عَنْ صَفِيَة بِنْتِ شَيْبَة، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاة وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما فَأدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَة رضي اﷲ عنها فَأدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضي اﷲ عنه فَأدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا).
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أبِي شَيْبَة.
’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 28 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الرقم : 2424، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 672، الرقم : 1149، و الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، و ابن راهويه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271.
152 / 29. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَة سِتَّة أشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَي صَلَاة الْفَجْرِ، يَقُوْلُ : الصلاة يَا أهْلَ الْبَيْتِ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ (6) ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نمازِ فجر کے لئے نکلتے تو حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے دروازہ کے پاس سے گزرتے ہوئے فرماتے : اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے : ) ’’اے اھلِ بیت! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 29 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : التفسير، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 352، الرقم : 3206، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، 285، وفي فضائل الصحابة، 2 / 761، الرقم : 1340، 1341، والحاکم في المستدرک، 3 / 172، الرقم : 4748، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32272، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 360، الرقم : 2953، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 367، الرقم : 12223.
153 / 30. عَنْ عُمَرَ بْنِ أبِي سَلَمَة رَبِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَة عَلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَة، فَدَعَا فَاطِمَة وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا رضي الله عنهم فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أهْلُ بَيْتِي، فَأذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
’’پروردۂ نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 30 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : التفسير، باب : و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، و في کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل بيت النبي، 5 / 663، الرقم : 3787، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، و في فضائل الصحابة، 2 / 587، الرقم : 994، و الحاکم في المستدرک، 2 / 451، الرقم : 3558، 3 / 158، الرقم : 4705، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 54، الرقم : 2668.
154 / 31. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه فِي قَوْلِهِ تَعَالَي : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَيْتِ)، قَالَ : نَزَلَتْ فِي خَمْسَة : فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَ عَلِيٍّ، وَ فاَطِمَة، وَالْحَسَنِ، وَ الْحُسَيْنِ رضي الله عنهم.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حَيَانَ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمانِ خداوندی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے۔‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پنچتن کے حق میں نازل ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کے حق میں۔‘‘ اس حدیث کو طبرانی نے اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 31 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 380، الرقم : 3456، وفي المعجم الصغير، 1 / 231، الرقم : 375، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 384، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 278.
155 / 32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَة : (قُلْ لاَّ أسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّة فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَة وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 32 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
156 / 33. عَنْ أبِي بَرْزَة قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْألَ عَنْ أرْبَعَة عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أنْفَقَهُ، وَ عَنْ حُبِّ أهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَمَا عَلَامَة حُبِّکُمْ؟ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَي مَنْکَبِ عَلِيٍّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک اگلے جہاں میں نہیں پڑتے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اسے کس طرح کے اعمال میں بوسیدہ کیا ؟اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس حال میں اسے ختم کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے یہ کہاں سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کی (یعنی اہل بیت کی) محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شانے پر مارا (کہ یہ محبت کی علامت ہے)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 33 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 348، الرقم : 2191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 346.
4. فَصْلٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
157 / 34. عَنْ شُعْبَة، عَنْ سَلَمَة بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَة. أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَة). عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ وَ قَدْ رَوَي شُعْبَة هَذَا الْحَدِيْثَ عَنْ مَيْمُوْنٍ : عَنْ أبِي عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم
’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 34 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 633، الرقم : 3713، و الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الرقم : 5071، 5096.
وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيْثُ عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَة فِي الْکُتُبِ الْآتِيَة :
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4652، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 78، الرقم : 12593، وابن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1359، وحسام الدين الهندي في کنزالعمال، 11 / 608، الرقم : 32946، وابن عساکرفي تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير في البداية و النهاية، 5 / 451، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108.
وَ قَد رُوِيَ هَذَا الْحَدِيْثُ أيضاً عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ فِي الْکُتُبِ الْآتِيَة.
أخرجه ابن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1355، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32072.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الْحَدِيْثُ عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَة :
أخرجه ابن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1354، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 173، الرقم : 4052، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 229، الرقم : 348.
وَقَدَرُوِيِّ هَذَالْحَدِيْثُ عَنْ بُرَيْدَة فِي الْکُتْبِ الْآتِيَة :
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11 / 225، الرقم : 20388، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن أبي عاصم في السنة : 601، الرقم : 1353، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 457، وحسام الدين الهندي في کنز العمال، 11 / 602، الرقم : 32904.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَالْحَدِيْثُ عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَة :
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 252، الرقم : 646، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 106.
158 / 35. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حَصَيْنٍ، في رواية طويلة : إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 35 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 632، الرقم : 3712، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الرقم : 3062، وابن حبان في الصحيح، 15 / 373، الرقم : 6929، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، الرقم : 4579، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 132، الرقم : 8474، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 373، 372، الرقم : 32121، وأبويعلي في المسند، 1 / 293، الرقم : 355، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 128، الرقم : 265.
159 / 36. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّة الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ. إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالَي، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِي فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَي کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 36 : أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 45، 130، الرقم : 8148، 8464، والحاکم في المستدرک، 3 / 109، الرقم : 4576، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 166، الرقم : 4969.
160 / 37. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه، قَالَ : لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي عَلِيٍّ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأنْ يَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : إِنَّهُ بِمَنْزِلَة هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَة غَدًا رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ الشَّاشِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) فرمایا : علی میرے لیے اسی طرح ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، (وہ نبی تھے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور فرمایا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور امام شاشی نے روایت کیا ہے۔
و في رواية : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم : ألَا! إِنَّ اﷲَ وَلِيِّي وَ أنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْهِنْدِيُّ.
اور ایک روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حسام الدین ہندی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 37 : أخرجه النسائي في خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه : 33، 34، 88، الرقم : 10، 80، و الشاشي في المسند، 1 / 165، 166، الرقم : 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 88، و الهندي في ’کنز العمال، 15 / 163، الرقم : 36496.
(1) أخرجه الهندي في ’کنزالعمال، 11 / 608، الرقم : 32945، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 328.
161 / 38. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَة هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي، إِلاَّ أنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَة الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ.
رَوَاهُ ابْنُ ماجة وَالنَّسَائِيُّ فِي الْخَصَائِصِ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور امام نسائی نے خصائص علی بن ابی طالب میں روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 38 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الرقم : 121، و النسائي في الخصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، : 32، 33، الرقم : 91.
162 / 39. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَأَمَرَ الصَّلَاة جَامِعَة، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : أَ لَسْتُ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَي، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلَي بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوْا : بَلَي، قَالَ : فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ، عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ ماجة.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 39 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 88، الرقم : 116.
163 / 40. عَنْ بُرَيْدَة، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَة، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَتَغَيَرُ، فَقَالَ : يَا بُرَيْدَة، أَلَسْتُ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ : بَلَي، يَارَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مُوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَة.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، امام نسائی، امام حاکم اور امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الرقم : 22995، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 130، الرقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الرقم : 4578، وابن أبي شيبة في المصنف، 12 / 84، الرقم : 12181.
164 / 41. عَنْ مَيْمُوْنٍ أَبِي عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : قَالَ : زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ رضي الله عنه وَ أَناَ أَسْمَعُ : نَزَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِوَادٍ يُقَالَ لَهُ وَادِي خُمٍّ، فَأمَرَ بِالصلاة، فَصَلاَّهَا بِهَجِيْرٍ، قَالَ : فَخَطَبَنَا وَ ظُلِّلَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِثَوْبٍ عَلَي شَجَرَة سَمْرَة مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَوْ لَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنَ نَفْسِهِ؟ قَالُوا : بَلَي، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ، عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ وَالِ مَنْ وَالَاهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت میمون ابو عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ فرمایا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم41 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 372، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 131، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، الرقم : 5068.
165 / 42. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ.
’’(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 42 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 152، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 448، الرقم : 6878، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 705، الرقم : 1206، و ابن أبي عاصم في السنة : 604، الرقم : 1369، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163، و ابن کثير في البداية و النهاية، 4 / 171، و الهندي في کنز العمال، 13 / 77، 168، الرقم : 32950، 36511، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /
166107 / 43. عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ رضي الله عنه النَّاسَ فَقَامَ خَمْسَةٌ أوْ سِتَّةٌ مِنْ أصْحَابِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَشَهِدُوْا أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’ابواسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم43 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 366، و النسائي في خصائص أمير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 90، الرقم : 83، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 598، 599، الرقم : 1021، و. المقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 105، الرقم : 479، و البيهقي في السنن الکبري، 5 / 131، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 160، و الطبري في الرياض النضرة، 3 / 127، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 104.
167 / 44. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ في رواية طويلة : قَالَ : وَقَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة؟ قَالَ : وَ عَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ. فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أُوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة قَالَ : أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة قَالَ، فَتَرَکَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَي رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ : أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة؟ فَأَبَوْا قَالَ : فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أُوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة. فَقَالَ : أَنْتَ وَلِيِّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة.
رَوَاهُ أحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے بیٹوں سے فرمایا : تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرے ساتھ دوستی کرے گا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، سب نے انکار کر دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی تو دنیا وآخرت میں میرا دوست ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے آگے ان میں سے ایک اور آدمی کی طرف بڑھے اور فرمایا : تم میں سے دنیا و آخرت میں میرے ساتھ کون دوستی کرے گا؟ تو اس نے بھی انکار کر دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پر پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اﷲ! میں آپ کے ساتھ دنیا اور آخرت میں دوستی کروں گا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی عاصم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم44 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الرقم : 3062، والحاکم في المستدرک، 3 / 143، الرقم : 4652، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 603، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119.
168 / 45. عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه ، قَالَ : مَنْ صَامَ يَوْمَ ثَمَانِ عَشَرَة مِنْ ذِي الْحَجَّة کُتِبَ لَهُ صِيَامُ سِتِّيْنَ شَهْرًا، وَ هُوَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، فَقَالَ : أَلَسْتَ وَلِيَّ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالُوْا : بَلَي، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : بَخْ بَخْ لَکَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَ مَوْلَي کُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اﷲُ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ).
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَة وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 45 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 281، وابن أبي شيبة في المصنف، 12 / 78، الرقم : 12167، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 324، و الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 290، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 176، 177، و ابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 464، و الرازي في التفسير الکبير، 11 / 139.
169 / 46. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوْرِقٍ قَالَ : کُنْتُ بِالشَّامِ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ يُعْطِي النَّاسَ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي : مِمَّنْ أنْتَ؟ قُلْتُ : مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ قُرَيْشٍ؟ قُلْتُ : مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قَالَ : فَسَکَتُّ. فَقَالَ : مِنْ أَيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قُلْتُ : مَوْلَي عَلِيٍّ، قَالَ : مَنْ عَلِيٌّ؟ فَسَکَتُّ، قَالَ : فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَي صَدْرِي وَ قَالَ : وَ أنَا وَاﷲِ مَوْلَي عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ : حَدَّثَنِي عِدَّةٌ أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، ثُمَّ قَالَ : يَا مُزَاحِمُ کَمْ تُعْطِي أمْثَالَهُ؟ قَالَ : مِائَة أوْ مِائَتَي دِرْهَمٍ، قَالَ : أَعْطِهِ خَمْسِيْنَ دِيْنَارًا، وَقَالَ ابْنُ أبِي دَاوُدَ : سِتِّيْنَ دِيْنَارًا لِوِلَايَتِهِ عَلِيَّ بْنَ أبِي طالب رضي اﷲ عنه، ثُمَّ قَالَ : الْحَقُّ بِبَلِدِکَ فَسَيَأتِيْکَ مِثْلُ مَا يَأتِي نُظَرَاءَ کَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.
’’حضرت یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہیں؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے فرمایا : ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے انہیں پچاس (50) دینار زیادہ دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار اضافی دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیلہ کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم46 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 364، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 48 / 233، 69 / 127، ابن الاثير في أسد الغابة، 6 / 427، 428.
170 / 47. عَنْ عَمَرٍو ذِي مُرٍّ وَ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَا : خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ أعِنْ مَنْ أعَانَهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔‘‘ اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم47 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 192، الرقم : 5059، و النسائي في ’خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه : 100، 101، الرقم : 96، و ابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 170، و الهندي في کنزالعمال، 11 / 609، الرقم : 32946، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 104، 106.
171 / 48. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَة عَنْ أَبِيْهِ في رواية طويلة : قَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَنْتَقِصُوْنَ عَلِيًّا، مَنْ يَنْتَقِصُ عَلِيًّا فَقَدْ تَنَقَّصَنِي، وَمَنْ فَارَقَ عَلِيًّا فَقَدْ فَارَقَنِي، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، خُلِقَ مِنْ طِيْنَتِي وَ خُلِقْتُ مِنْ طِيْنَة إِبْرَاهِيْمَ، وَأَنَا أَفْضَلُ مِنْ إِبْرَاهِيْمَ، ذُرِّيَة بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاﷲُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ،. وَ إِنَّهُ وَلِيُکُمْ مِنْ بَعْدِي، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِالصُّحْبَة أَ لَا بَسَطَّتَ يَدَکَ حَتَّي أُبَايعَکَ عَلَي الإِسْلَامِ جَدِيْدًا؟ قَالَ : فَمَا فَارَقْتُهُ حَتَّي بَايَعْتُهُ عَلَي الإِسْلَامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔‘‘ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 48 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 163، 162، الرقم : 6085، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 128.
172 / 49. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم : أُوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِي بِوِلَايَة عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ : مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَ مَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّي اﷲَ عزوجل، وَ مَنْ أحَبَّهُ فَقَدْ أحَبَّنِي، وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اﷲَ عزوجل، وَ مَنْ أبْغَضَهُ فَقَدْ أبْغَضَنِي، وَ مَنْ أبْغَضَنِي فَقَدْ أبْغَضَ اﷲَعزوجل. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْهِنْدِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی، متقی ہندی، ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 49 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 429، الرقم : 1751، وابن عساکر في التاريخ دمشق الکبير، 45 : 181، 182، و الهندي في کنز العمال، 11 / 611، الرقم : 32958، الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108، 109 و قال : رواه الطبراني بإسنادين.
5. فَصْلٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ أحَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ أحَبَّنِي وَمَنْ أبْغَضَ عَلِيًّا رضي الله عنه فَقَدْ أبْغَضَنِي
173 / 50. عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّة : وَ بَرَأ النَّسْمَة : إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ : أنْ لَا يُحِبَّنِي إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
’’حضرت زر (بن حبیش) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم50 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان و علاماته، 1 / 86، الرقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الرقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الرقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الرقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الرقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الرقم : 560، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الرقم : 1325.
174 / 51. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ : أنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَا لَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا : مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اورکوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم51 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الرقم : 3736.
175 / 52. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 52 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الرقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 295.
176 / 53. عَنِ أُمِّ سَلَمَة تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُويَعْلَي.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘ اسے امام ترمذی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 53 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 635، الرقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الرقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الرقم : 886.
177 / 54. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَة رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ لِي : أ يُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : مَعَاذَ اﷲِ! أوْ سُبْحَانَ اﷲِ أوْ کَلِمَة نَحْوَهَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے فرمایا : کیا تم لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا اﷲ کی پناہ یا میں نے کہا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 54 : أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 133، الرقم : 8476، أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 323، الرقم : 26791، والحاکم في المستدرک، 3 / 130، الرقم : 4615، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130.
178 / 55. عَنِ ابِْن أَبِي مُلَيْکَة، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَسَبََّ عَلِيّاً عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَصَبَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا عَدُوَّ اﷲِ، آذَيْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا) لَوْکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيًّا لَآذَيْتَهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام سے ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس کو ایسا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : اے اﷲ کے دشمن تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی ہے۔ (پھر یہ آیت پڑھی : ) ’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اﷲتبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اﷲ نے ان کے لئے ایک ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ پھر فرمایا : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ظاہراً بھی) حیات ہوتے تو یقیناً (تو اس بات کے ذریعے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کا باعث بنتا۔‘‘ اس حدی۔ رضی اللہ عنھم کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
الحديث رقم 55 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 121، 122، الرقم : 4618.
179 / 56. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ، أنْتَ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِّدٌ فِي الْآخِرَة، حَبِيْبُکَ حَبِيْبِي، وَ حَبِيْبِي، حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّي، وَ عَدُوِّي، عَدُوُّ اﷲِ، وَالْوَيْلُ لِمَنْ أبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 56 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الرقم : 4640، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 325، الرقم : 8325.
180 / 57. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ : طَوْبَي لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لَمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أبُوْيَعْلَي.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے فرماتے ہوئے سنا (اے علی) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ہلاکت ہو اس کے لئے جو تجھ سے بغض رکھتا ہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور ابویعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 57 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الرقم : 4657 وأبو يعلي في المسند، 3 / 178. 179، الرقم : 1602، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 337، الرقم : 2157.
181 / 58. عَنْ سَلْمَانَ : أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : مُحِبُّکَ مُحِبِّي، وَ مُبْغِضُکَ مُبْغِضِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 58 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 239، الرقم : 6097، والبزار في المسند، 6 / 488، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 316، الرقم : 8304، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132.
6. فَصْلٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي الله عنه الْعِلْمِيَة
182 / 59. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا دَارُ الْحِکْمَة وَعِليٌّ بَابُهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 59 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 637، الرقم : 3723، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 634، الرقم : 1081، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 64.
183 / 60. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ قَاضِيًا، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تُرْسِلُنِي وَأَنَا حَدِيْثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِي بِالْقَضَاءِ، فقَالَ : إِنَّ اﷲَ سَيَهْدِي قَلْبَکَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَکَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْکَ الْخَصْمَانِ، فَلاَ تَقْضِيَنَّ حَتَّي تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ، کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأوَّلِ، فَإِنَّهُ أحْرَي أنْ يَتَبَيَنَ لَکَ الْقَضَاءُ. قَالَ : فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أوْ مَا شَکَکْتُ فِي قَضَاءٍ بَعْدُ. رَوَاهُ أبُوْدَاوُدَ وَابْنُ ماجة وَالنَّسَائِيُّ.
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم60 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الأقضية، باب : کيف القضاء، 3 / 301، الرقم : 3582، وابن ماجة في السنن، کتاب : الأحکام، باب : ذکر القضاة، 2 / 774، الرقم : 2310، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 116، الرقم : 8417، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الرقم : 636، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 86.
184 / 61. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أنَا مَدِيْنَة الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أرَادَ الْمَدِيْنَة فَلْيَأتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔‘‘ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 61 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 137، الرقم : 4637، و الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 44، الرقم : 106.
185 / 62. عَن عَبْدِ اﷲِ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ : أنَّ أقْضَي أهْلِ الْمَدِيْنَة ابْنُ أبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
’’حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 62 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الرقم : 4656، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 338، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 167.
186 / 63. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : وَ اﷲِ، مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيْمَا نَزَلَتْ وَ أيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَي مَنْ نَزَلَتْ، إِنَّ رَبِّي وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُوْلًا وَ لِسَانًا طَلْقًا. رَوَاهُ أبُوْنُعَيْمٍ وَابْنُ سَعْدٍ.
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔‘‘ اسے امام ابونعیم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 63 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 68، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 338.
7. فَصْلٌ فِي جَامِعِ صِفَاتِهِ وَ مَنَاقِبِهِ رضي الله عنه
187 / 64. عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أبِي التُّرَابِ، وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا. فَقَالَ لَهُ : أخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَة، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لإِنْسَانٍ : انْظُرْ أيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَ هُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أبَا التُّرَابِ. قُمْ أبَا التُّرَابِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابوحازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا، جب انہیں ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا : ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے فرمایا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا : میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اوران کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے)! اٹھو، اے ابو تراب اٹھو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
الحديث رقم64 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المساجد، باب : نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الرقم : 430، وفي کتاب الاستئذان، باب : القائلة في المسجد، 5 / 2316، الرقم : 5924، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الرقم : 2409، والحاکم في المستدرک، 1 / 211، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الرقم : 4137.
188 / 65. عَنْ سَلَمَة قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَال : أنَا أتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ اللَّيْلَة الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَة أوْ لَيَأخُذَنَّ الرَّايَة غَداً رَجُلٌ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ، فَأعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکۂ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
الحديث رقم 65 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الرقم : 3499، و في کتاب : المغازي، باب : غزوة خيبر، 4 / 1542، الرقم : 3972، و في کتاب : الجهاد و السير، باب : ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1086، الرقم : 2812، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1872، الرقم : 2407، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 362، الرقم : 12837.
189 / 66. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِسَدِّ الْأبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 66 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 641، الرقم : 3732، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115.
190 / 67. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ في رواية طويلة : قَالَ وَ سَدَّ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ : فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَ هُوَ طَرِيقُهُ. لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیئے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی حالتِ جنابت میں بھی مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کا راستہ ہے اور اس کے علاوہ اس کے گھر کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 67 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الرقم : 3062.
191 / 68. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زَمَنِ النَّّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : رَسُوْلُ اﷲِ خَيْرُ النَّاسِ، ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، وَ لَقَدْْ أُوْتِيَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأنْ تَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النًَّعَمِ : زَوَّجَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ، وَ وَلَدَتْ لَهُ، وَ سَدَّ الْأبْوَابَ إِلَّا بَابَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَة يَوْمَ خَيْبَرَ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تین خصلتیں عطا کی گئیں ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی مجھے مل جائے تو یہ مجھے سرخ قیمتی اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور وہ تین خصلتیں یہ ہیں) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی صاحبزادی سے کیا جس سے ان کی اولاد ہوئی اور دوسری یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر وادیئے مگران کا دروازہ مسجد میں رہا اور تیسری یہ کہ ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن جھنڈا عطا فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم68 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند 2 / 26، الرقم : 4797، وفي فضائل الصحابة، 2 / 567، الرقم : 955، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 120.
192 / 69. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَبْعٍ قَالَ : خَطَبَنَا عَلِيٌّ رضي اﷲ عنه فَقَالَ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّة وَبَرَأَ النَّسَمَة لَتُخْضَبَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذِِهِ، قَالَ : قَالَ النَّاسُ : فَأَعْلِمْنَا مَنْ هُوَ؟ وَاﷲِ لَنُبِيْرَنَّ عِتْرَتَهُ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَنْ يُقْتَلَ غَيْرُ قَاتِلِي، قَالُوْا : إِنْ کُنْتَ قَدْ عَلِمْتَ ذَلِکَ اسْتَخْلِفْْ إِذًا، قَالَ : لَا، وَلَکِنْ أَکِلُکُمْ إِلَي مَا وَکَلَکُمْ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ أحْمَدُ وَالْبَزَّارُ.
’’حضرت عبداﷲ بن سبع بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور مخلوقات کو زندگی عطا فرمائی یہ داڑھی ضرور بالضرور خون سے خضاب کی جائے گی (یعنی میری داڑھی میرے سر کے خون سے سرخ ہو جائے گی) راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا : پس آپ ہمیں بتا دیں وہ کون ہے؟ ہم اس کی نسل مٹا دیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں کہ میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ لوگوں نے کہا اگر آپ یہ جانتے ہیں تو کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں، آپ نے فرمایا : نہیں لیکن میں تمہیں وہ چیز سونپتا ہوں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں سونپی (یعنی باہم مشاورت سے خلیفہ مقرر کرو)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور بزار نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 69 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 156، الرقم : 1340، و البزار في المسند، 3 / 92، الرقم : 871، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 213، الرقم : 595.
193 / 70. عَنْ عَبْدِ اﷲِ في رواية طويلة : وَجَدْتُ فِي کِتَابِ أبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ، قَالَ : أمَا تَرْضَيْنَ أنْ زَوَّجْتُکِ أقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَ أکْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَ أعْظَمَهُمْ حِلْمًا؟ رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم70 : أخرجه أحمد في المسند، 5 / 26، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 229، و الهندي في کنز العمال، الرقم : 32924، 32925، و السيوطي في جمع الجوامع، الرقم : 4273، 4274.
194 / 71. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ألَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَبُونُعَيْمٍ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 71 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4626، و أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 63، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
195 / 72. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 72 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 152، الرقم : 4682، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الرقم : 10006، و الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 294، الرقم : 6865 عن معاذ بن جبل، وأبونعيم في حلية الأولياء، 5 / 58، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، و قال الهيثمي، وثقه ابن حبان و قال مستقيم الحديث.
196 / 73. عَنْ هُبَيْرَة : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَة، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی رضی اﷲ عنھما نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرئیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم73 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الرقم : 1719، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 336، الرقم : 2155.
197 / 74. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنیتوں سے زیادہ محبوب تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم74 : أخرجه البزار في المسند، 4 / 248، الرقم : 1417، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101.
198 / 75. عَنْ أُمِّ سَلَمَة، قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَا يَفْتَرِقَانِ حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر (اکھٹے) آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 75 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 135، الرقم : 4880، و الصغير، 1 / 255، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 134.
199 / 76. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتَّي، وَ أنَا وَ عَلِيٌّ مِنْ شَجَرَة وَاحِدَة.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لوگ جدا جدا نسب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں اور علی ایک ہی نسب سے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 76 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 263، الرقم : 1651، و الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 303، الرقم : 6888، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 100.
200 / 77. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : السُّبَّقُ ثَلَاثَة : السَّابِقُ إِلَي مُوسَي، يُوْشَعُ بْنُ نَونٍ وَ السَّابِقُ إِلَي عِيْسَي، صَاحِبُ يَاسِيْنَ، وَ السَّابِقُ إِلَي مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضي الله عنه . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سبقت لے جانے والے تین ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف (ان پر ایمان لا کر) سبقت لے جانے والے حضرت یوشع بن نون ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سبقت لیجانے والے صاحب یاسین ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سبقت لیجانے والے علی ابن ابی طالب ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 77 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 93، الرقم : 11152، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
201 / 78. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِأُمِّ سَلَمَة : هَذَا عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي، وَ دَمُهُ دَمِي، فَهُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَة هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي، إِلَّا أنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : یہ علی بن ابی طالب ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لئے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰں کے لئے حضرت ہارون علیہ السلام مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 78 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 18، الرقم : 12341، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 111.
202 / 79. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَکِيْمٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَعَالَي أوْحَي إِلَيَّ فِي عَلِيٍّ ثَلَاثَة أشْيَاءَ لَيْلَة أُسْرِيَ بِي : أنَّهُ سَيِّدُ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَ إِمَامُ الْمُتَّقِيْنَ، وَ قَائِدُ الغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے مجھے علی کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 79 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 88.
203 / 80. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ : (إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرحمٰن وُدًّا) قَالَ : مَحَبَّة فِي قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ. رَوَاهُ الطَبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت : (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّاO) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اتری ہے اور فرمایا : اس سے مراد مومنین کے دلوں میں(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کی محبت ہے۔‘‘ اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 80 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 125.
204 / 81. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَة مِنْ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 81 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، رقم؛ 10305، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، والمناوي في فيض القدير، 2 / 215، و الحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174.
205 / 82. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِي التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أحَقَّ أسْمَائِکَ أبُوْ تُرَابٍ، أنْتَ أبُوْ تُرَابٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابوتراب ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 82 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الرقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101.
206 / 83. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه : أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه حَمَلَ الْبَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتَّي صَعِدَ الْمُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا. وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلا.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَة.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کر لیا اور یہ آزمودہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم83 : أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، 6 / 374، الرقم : 32139، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 478، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 438، الرقم : 1168، وَقَالَ العجلونِي : رَواهُ الحَاکِمُ وَالبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرٍ، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306.
207 / 84. عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رَأيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حَصَيْنٍ يَحِدُّ النَّظْرَ إِلَي عَلِيٍّ فَقِيْلَ لَهُ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 84 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الرقم : 207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 109.
208 / 85. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : غَسَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَ أَسَامَة بْنُ زَيْدٍ وَکَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ وَيَقُوْلُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، طِبْتَ مَيْتًا وَحَيًّا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اور فضل بن عباس اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے تو کہتے تھے : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں! آپ وصال فرما کر اور زندہ رہ کر دونوں حالتوں میں پاکیزہ تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 85 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 277.
209 / 86. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 86 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 244، الرقم : 1351.
210 / 87. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : رَأَيْتُ أَبَابَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَتِ، أَرَاکَ تُکْثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا بُنَيَة، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے۔ پس میں نے آپ سے پوچھا : اے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 87 : أخرجه ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبير، 42 / 355، و الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14.
211 / 88. عَنْ أَنَسٍ رضي اﷲ عنه، قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : هَذَا جِبْرِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ اﷲَ عزوجل زَوَّجَکَ فَاطِمَة، وَ أَشْهَدَ عَلَي تَزْوِيْجِکَ أَرْبَعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، وَ أَوْحَي إِليَ شَجَرَة طُوْبَي أَنِ انْثُرِي عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَالْيَاقُوْتَ، فَنَثَرَتْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَالْيَاقُوْتَ، فَابْتَدَرَتْ إِلَيْهِ الْحُوْرُ الْعِيْنُ : يَلْتَقِطْنَ مِنْ أَطْبَاقِ الدُّرِّ وَالْيَاقُوْتِ، فَهُمْ يَتَهَادُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِليَ يَوْمِ الْقِيَامَة. رَوَاهُ مُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر (ملاء اعلیٰ میں) چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو، پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیتے رہیں گے۔‘‘ اس کو محب الطبری نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 88 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في الرياض النضرة في مناقب العشرة، 3 / 146، وفي ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : 72. 73.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved