1 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : أَلاَ إِنَّ عَيْبَتِيَ الَّتِي آوِي إِلَيْهَا أَهْلُ بَيْتِي، وَ إِنَّ کَرَشِيَ الْأَنْصَارُ. فَاعْفُوْا عَنْ مُسِيْئِهِمْ وَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہل بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہیں۔ ان کے بُروں کو معاف کر دو اور ان کے نیکوکاروں سے (اچھائی کو) قبول کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل الأنصار وقريش، 5 / 714، الرقم : 3904، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 399، الرقم : 32357، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 3 / 332، الرقم : 1716، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 252.
2 / 2. عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ خَلِيْفَتَيْنِ : کِتَابَ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں. ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162.
3 / 3. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ قَالَ : افْتَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَي الطَّاءِفِ فَحَاصَرَهُمْ ثَمَانِيَةً أَوْسَبْعَةً، ثُمَّ أَوْغَلَ غَدْوَةً أَوْ رَوْحَةً ثُمَّ نَزَلَ ثُمَّ هَجَرَ. ثُمَّ قَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَکُمْ فَرَطٌ وَ إِنِّي أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ . . . الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مکہ فتح کیا پھر طائف کا رخ کیا اور اس کا آٹھ یا سات دن محاصرہ کئے رکھا پھر صبح یا شام کے وقت اس میں داخل ہو گئے پھر پڑاؤ کیا پھر ہجرت فرمائی اورفرمایا : اے لوگو! بے شک میں تمہارے لئے تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور بے شک میں تمہیں اپنی عترت کے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض ہو گا ۔ ۔ ۔ الحديث۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 131، الرقم : 2559.
4 / 4. عَنِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتُمُوْهُمَا، وَهُمَا : کِتَابُ اللهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي. ثُمَّ قَالَ : أَ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو میں مؤمنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4577.
5 / 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
6 / 6. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه في رواية طويلة : قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِي الثَّقَلَيْنِ. فَنَادَي مُنَادٍ وَ مَا الثَّقَلاَنِ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : کِتَابُ اللهِ طَرَفٌ بِيَدِ اللهِ وَ طَرَفٌ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لاَ تَضِلُّوْا، وَالآخَرُ عِتْرَتِي وَ إِنَّ اللَّطِيْفَ الْخَبِيْرَ نَبَّأَنِي أَنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، سَأَلْتُ رَبِّي ذَلِکَ لَهُمَا، فَلاَ تَقَدَّمُوْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تَقْصُرْوا عَنْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تُعَلِّمُوْهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ أَوْلَي بِهِ مِنْ نَفْسِي فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو. پس ایک نداء دینے والے نے ندا دی یا رسول اللہ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کا ایک کنارا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے اور دوسری چیز میری عترت ہے اور بے شک اس لطیف خبیر رب نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ یہ میرے پاس حوض پر حاضر ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے رب سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ہی ان سے پیچھے رہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ان کو سکھاؤ کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا : پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے اے اللہ! جو علی کو اپنا دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 166، الرقم : 4971.
7 / 7. عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ انْصَرَفَ إِلَي الطَّائِفِ فَحَاصَرَهَا سَبْعَ عَشَرَةَ، أَوْتِسْعَ عَشَرَةَ، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلِيْهِ. ثُمَّ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَأَنَّ مَوْعِدَکُمُ الْحَوْضُ. وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ لتُقِيْمُنَّ الصَّلَاةَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّکَاةَ، أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْکُمْ رَجُلاً مِّنِّي. أَوْکَنَفْسِي يَضْرِبُ أَعْنَاقَکُمْ.ثُمَّ أَخَذَبِيَدِ علي رضي الله عنه فَقَالَ : بِهَذَا. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’حضرت مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے مکہ فتح کیا اس کے بعد آپ ﷺ طائف کی طرف روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے سترہ دن یا انیس دن طائف کا محاصرہ کئے رکھا پھر آپ ﷺ خطاب کے لئے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا : میں اپنی عترت کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض کوثر ہو گا اور نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ ادا کرو گے یا میں تمہاری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو مجھ میں سے ہے یا میری طرح کا ہے اور جو تمہاری گردنیں مارے گا پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اس آدمی سے میری مراد یہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 7 : أخرجه البزار في المسند، 3 / 258، 259، الرقم : 1050، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
8 / 8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَحِبُّوْا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ عزوجل. وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل البيت النبي ﷺ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.
9 / 9. عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ، فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحَدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاللهِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 9 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 13، الرقم : 140.
10 / 10. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لاَ نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.
و في رواية : قَالَ : وَاللهِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِي.
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
الحديث رقم 10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.
11 / 11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ عَلَي هَذَا الْمِنْبَرِ : مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُوْلُوْنَ : إِنَّ رَحِمَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لاَ تَنْفَعُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَلَي وَاللهِ، إِنَّ رَحِمِي مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَأَنِّي أَيُّهَا النَّاسُ، فَرَطٌ لَکُمْ عَلَي الْحَوْضِ فَإِذَا جِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَا فُلَانٌ بْنُ فَلَانٍ وَقَالَ : يَتَحَقَّقُ أَنَا فُلَانٌ بْنُ فُلَانٍ وَ قَالَ لَهُمْ : أَمَّا النَّسَبُ فَقَدْ عَرَّفْتُهُ وَ لَکِنَّکُمْ أَحْدَثْتُمْ بَعْدِي وَ أَرْتَدَدْتُمْ الْقَهْقَرِيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ان لوگوں کا کیا ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے نسبی تعلق قیامت کے روز ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیوں نہیں! اللہ کی قسم بے شک میرا نسبی تعلق دنیا و آخرت میں آپس میں باہم ملا ہوا ہے اور اے لوگو! بے شک (قیامت کے روز) میں تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا پس جب تم آ گئے تو ایک آدمی کہے گا یا رسول اللہ! میں فلاں بن فلاں ہوں پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کا فلاں بن فلاں کہنا پایۂ ثبوت کو پہنچے گا اور رہا نسب تو تحقیق اس کی پہچان میں نے تمہیں کرا دی ہے لیکن تم میرے بعد تم احداث کرو گے اور الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 18، الرقم : 11154، و الحاکم في المستدرک، 4 / 84، الرقم : 6958، و أبو يعلي في المسند، 2 / 433، الرقم : 1238، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 364.
12 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خَيْرُکُمْ، خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي مِنْ بَعْدِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْ يَعْلَي.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میری اہل کے لئے بہترین ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور امام ابویعلی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 352، الرقم : 5359، وأبو يعلي في المسند، 10 / 330، الرقم : 5924، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 616، الرقم : 1414، و الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 170، الرقم : 2851، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 276، الرقم : 3765، و المناوي في فيض القدير، 3 / 497، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 174.
13 / 13. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘ اسے امام طبرانی اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، و في المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.
14 / 14. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 14 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
15 / 15. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ خَادِمٌ تَخْدُمُهُمْ يُقَالَ لَهَا : بَرِيْرَةُ، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَقَالَ : يَابَرَيْرَةُ، غَطِّي شُعَيْفَاتِکِ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَنْ يُغْنِيَ عَنْکِ مِنَ اللهِ شَيْئاً قَالَ : فَأَخْبَرَتِ النَّبِيَّ ﷺ : فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ مُحُمَّرَةً وَجْنَتَاهُ، وَکُنَّا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ نَعْرِفُ غَضَبَهَ بِجَرِّ رِدَاءِهِ وَ حُمْرَةِ وَجَنَتَيْهِ. فَأَخَذْنَا السِّلاَحَ، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مُرْنَا بِمَا شِئْتَ، فَوَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَوْ أَمَرْتَنَا بِأُمَّهَاتِنَا وَآبَاءِنَا وَأَوْلاَدِنَا، لَأَمْضَيْنَا قَوْلَکَ فِيْهِمْ، فَصَعِدَ ﷺ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ عزوجل وَأَثْنَي عَلَيْهِ. وَ قَالَ : مَنْ أَنَا؟، فَقُلْنَا : أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ. قَالَ : نَعَمْ، وَلَکِنْ مَنْ أَنَا؟ فَقُلْنَا : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ. قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ يُنْفَضُ التُّرَابُ عَنْ رَأْسِهِ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ دَاخِلِ الْجَنَّةِ وَلاَ فَخْرَ، مَا باَلُ أَقْوَامٍ يَزْعَمُوْنَ أَنَّ رَحِمِي لاَ تَنْفَعُ. لَيْسَ کَمَا زَعَمُوْا، إِنِّي لَأَشْفَعُ وَأُشَفَّعُ، حَتَّي أَنَّ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ لَيَشْفَعُ فَيُشَفَّعُ، حَتَّي إِنَّ إِبْلِيْسَ لَيَتَطَاوَلُ طَمْعًا فِي الشَّفَاعَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول ﷺ کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا کرو بے شک محمد ﷺ تمہیں اللہ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اس واقع کی خبر دی پس آپ ﷺ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور ﷺ کے غصے کو آپ ﷺ کے چادر کے گھسیٹنے اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ ﷺ کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق) فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 203، الرقم : 5082، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376.
16 / 16. عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَهُوَ يَوَدُّنَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے (وصال کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 16 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
17 / 17. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 17 : أخرجه الطبراني فيالمعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
18 / 18. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّمَا سَمَّيْتُ بِنْتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اللهَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو آگ سے چھڑا (اور بچا) لیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 18 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الخطيب في تاريخ بغداد، 12 / 331، و المناوي في فيض القدير، 3 / 432.
19 / 19. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ يَوْماً، خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَنَة وَ مَنْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اہل بیت مصطفیٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 19 : أخرجه الديلمي فی مسند الفردوس، 2 / 142، الرقم : 2721.
20 / 20. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه مَرْفُوْعا. خَمْسٌ مَنْ أوْتِيَهُنَّ لَمْ يُقْدَرْ عَلَي تَرْکِ عَمَلِ الْآخِرَةِ زَوْجَةٌ صَالِحَةٌ وَ بَنُوْنَ أَبْرَارٌ وَ حَسَنُ مُخَالَطَةِ النَّاسِ وَ مَعِيْشَةٌ فِي بَلَدِهِ وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت زید بن ارقم سے مرفوعاً روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کو نصیب ہو جائیں تو وہ آخرت کے عمل کا تارک نہیں ہو سکتا (اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں) : نیک بیوی، نیک اولاد، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اپنے ملک میں روزگار اور آل محمد ﷺ کی محبت۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 20 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 196، الرقم : 2974.
21 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما رَفَعَهُ : أَنَا شَجَرَةٌ، وَ فَاطِمَةُ حَمْلُهَا، وَ عَلِيٌ لِقَاحُهَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمَرُهَا، وَ الْمُحِبُّوْنَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَقُهَا، هُمْ فِي الْجَنَّةِ حَقًا حَقًا. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کے پھل کی ابتدائی حالت ہے اور علی اس کے پھول کو منتقل کرنے والا ہے اور حسن اور حسین اس درخت کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس درخت کے اوراق ہیں وہ یقیناً یقیناً جنت میں (داخل ہونے والے) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 21 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 52، الرقم : 135.
22 / 22. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه رَفَعَهُ : أَرْبَعَةٌ أَنَا لَهُمْ شَفِيْعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الْمُکْرِمُ ذُرِّيَّتِي، وَالْقَاضِي لَهُمْ حَوَائِجَهُمْ، وَ السَّاعِي لَهُمْ فِي أُمُوْرِهِمْ عِنْدَ مَا اضْطَرُّوْا إِلَيْهِ، وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ.
رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں قیامت کے روز جن کے لئے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا (اور وہ یہ ہیں : ) میری اولاد کی عزت و تکریم کرنے والا، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا، اور ان کے معاملات کے لئے تگ و دو کرنے والا جب وہ مجبور ہو کر اس کے پاس آئیں اور دل و جان سے ان کی محبت کرنے والا۔‘‘ اس حدیث کو امام متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 22 : أخرجه الهندي في کنز العمال، 12 / 100، الرقم : 34180.
23 / 23. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْکَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ. وَبَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرَّيَتِهِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو درود بھیج محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر اور برکت عطا فرما محمد ﷺ کو اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
الحديث رقم 23 : أخرجه البخاريفي الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : يزفان النسلان في المشي، 3 / 1232، الرقم : 3189، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي ﷺ بعد التشهد، 1 / 306، الرقم : 407، و مالک في الموطأ، 1 / 165، الرقم : 395، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1217، و أبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 4039، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 150، الرقم : 2685.
24 / 24. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَکْتَالَ بِالْمِکْيَالِ الْأَوْفَي إِذَا صَلَّي عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ. کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامہ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے جب وہ ہم اہل بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہئے کہ یوں کہے : اے اللہ! تو درود بھیج حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ ﷺ کی ذریت اور اہل بیت پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 24 : أخرجه أبوداود فيالسنن، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي بعد التشهد، 1 / 258، الرقم : 982، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 151، الرقم : 2686، و في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1504، والمزي في تهذيب الکمال، 5 / 348.
25 / 25. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّي صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيْهَا عَلَيَّ وَعَلَي أَهْلِ بَيْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَ قَالَ أَبُوْمَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : لَوْ صَلَّيْتُ صَلَاةً لَا أُصَلِّي فِيْهَا عَلَي مُحَمَّدٍ، مَارَأَيْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ. رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہو گی۔‘‘ اسے امام دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 25 : أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، و ابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.
26 / 26. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي قَالَ : لَقِيَنِي کَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : أَلاَ أُهْدِي لَکَ هَدْيَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ قُلْتُ : بَلَي، قَالَ : فَأَهْدِهَا إِلَيَّ قَالَ : سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ؟ قَالَ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مُّجِيْدٌ. وَ اللَّهُمَّ، بَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور کہا کیا میں تمہیں وہ (حدیث) ہدیہ نہ کروں جو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے کہا کہ وہ مجھے ہدیہ کرو تو انہوں نے کہا : ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا۔ سو ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت پر درود کیسے بھیجا جائے؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو (بصورت رحمت) درود بھیج۔ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل پر بے شک تو حمید مجید ہے اور اے اللہ تو برکت عطا کر محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 26 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 160، الرقم : 4710، وأشارالحاکم إلي أن البخاري خرَّجه بلفظه، ولکنْ علّةُ ذکرهِ کما ذکره هنا، لإفادة أن آل البيت والآل جميعاً هم. ولابن المفضل جزئٌ في طريق حديث ابن أبي ليلي عن کعب بن عجرة، و الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 29، الرقم : 2368.
27 / 27. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا أرِيْدُ عَلِيًّا فَقِيْلَ لِي هُوَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَمَمْتُ إِلَيْهِمْ فَأَجِدَهُمْ فِي حَظِيْرَة مِّنْ قَصَبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رضي الله عنهم قَدَ جَمَعَهُمْ تَحْتَ ثَوْبٍ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، إِنَّکَ جَعَلْتَ صَلَوَاتِکَ وَرِضْوَانَکَ عَلَيَّ وَ عَلَيْهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلاش میں باہر نکلا تو مجھے کسی نے کہا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ہیں پس میں نے (وہاں) ان (کے پاس جانے) کا ارادہ کیا (اور جب میں وہاں پہنچا) تو میں نے انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی چادر کے اندر پایا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنھم ان سب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک کپڑے کے نیچے جمع کر رکھا تھا پس آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! بے شک تو نے اپنے درود اور اپنی رضوان کو مجھ پر اور ان پر خاص کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 27 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 95، الرقم : 230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 167.
28 / 28. عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : إِنَّ أَوَّلَ أَرْبَعة يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، أَنَا وَأَنْتَ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَ ذَرَارِيْنَا خَلْفَ ظَهُوْرِنَا، وَ أَزْوَاجُنَا خَلْفَ ذَرَارِيْنَا، وَ شِيْعَتُنَا عَنْ أَيْمَانِنَا وَ عَنْ شَمَائِلِنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بے شک پہلے چار اشخاص جو جنت میں داخل ہوں گے وہ میں، تم، حسن اور حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہوگی (یعنی ہمارے بعد وہ داخل ہو گی) اور ہماری بیویاں ہماری اولاد کے پیچھے ہوں گی (یعنی ان کے بعدجنت میں داخل ہوں گی) اور ہمارے چاہنے والے (ہمارے مدد گار) ہماری دائیں جانب اور بائیں جانب ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 28 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 950، 3 / 41، الرقم : 2624، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
29 / 29. عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَنَعَ إِلَي أَحَدٍ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَدًا فَلَمْ يُکَافِئْهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا فَعَلَيَّ مُکَافَأَتُهُ غَدًا إِذَا لَقِيَنِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اولاد عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ کوئی بھلائی کی اور وہ اس کا بدلہ اس دنیا میں نہ چکا سکا تو اس کا بدلہ چکانا کل (قیامت کے روز) میرے ذمہ ہے جب وہ مجھ سے ملاقات کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔
الحديث رقم 29 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 120، الرقم : 1446، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 439، الرقم : 315، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 173.
30 / 30. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ : أَنَّهُ ﷺ قَالَ : يَا عَلِيُّ، إِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَکَ وَلِذُرِّيَّتِکَ وَ لِوَلَدِکَ وَ لِأَهْلِکَ، وَلِشِيْعَتِکَ وَ لِمُحِبِّي شِيْعَتِکَ. فَابْشِرْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے علی! بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے اور تیری اولاد کو اور تیرے گھر والوں کو اور تیرے مددگاروں کو اور تیرے مددگاروں کے چاہنے والے کو بخش دیا ہے پس تجھے یہ خوشخبری مبارک ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 30 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5 / 329، الرقم : 8337.
31 / 31. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ : يَا أَيُّهاالنَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : کِتَابَ اللهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اللہ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری چیز) میرے گھر والے ہیں۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے۔
الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.
32 / 32. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَ هُوَ عَلَي نَاقَتِهِ الْقُصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : ياَ أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا، کِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دورانِ حج عرفہ کے دن دیکھا کہ آپ ﷺ اونٹنی قصواء پرسوار خطاب فرما رہے ہیں۔ پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ چیز کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم؛ 3786، و الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 258، و القزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 266.
33 / 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 33 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4715.
34 / 34. عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : قاَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَعَدَنِي رَبِّي فِي أَهْلِ بَيْتِي مَنْ أَقَرَّ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيْدِ وُلِّيَ بِالْبَلاَغِ، أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے رب نے مجھ سے میرے اہل بیت کے بارے وعدہ کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میری توحید کا اقرار کرے گا اسے یہ بات پہنچا دی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
الحديث رقم 34 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4718، و الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم : 7112.
35 / 35. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنَهَا غَرِقَ.
و في رواية : عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما قَالَ : مَنْ رَکِبَهَا سَلِمَ، وَمَنْ تَرَکَهَا غَرِقَ. رَوَاهُ الطَّّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اھلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔
اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘ اسے طبرانی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 35 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، و في المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478، 5 / 355، الرقم : 5536، 6 / 85، الرقم : 5870، في المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391، 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
36 / 36. عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
37 / 37. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ اللهُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ اللهُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 37 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294.
38 / 38. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ. فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ. وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ. فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِي ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں پس جب ستارے چلے گئے تو اہل آسمان بھی چلے گئے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے امان ہیں پس جب میرے اہل بیت چلے گئے تو اہل زمین بھی چلے گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 38 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 311، الرقم : 6913.
39 / 39. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ اللهُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ الله، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ اللهِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ اللهُ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ اللهُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللهِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللهُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010.
40 / 40. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اللهُ النَّارَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 40 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246.
41 / 41. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ اللهَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ دَخَلَ النَّارَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) اللہ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 41 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4712، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171.
42 / 42. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : بُغْضُ بَنِي هَاشِمٍ وَ الْأَنْصَارِ کُفْرٌ، وَ بُغْضُ الْعَرَبِ نِفَاقٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنو ہاشم اور انصار سے بغض رکھنا کفر ہے اوراہل عرب سے بغض رکھنا منافقت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 42 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 145، الرقم : 11312، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، و المناوي في فيض القدير، 3 / 205.
43 / 43. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَيَّهَا النَّاسُ، مَنْ أَبْغَضَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ حَشَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَهُوْدِيًّا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي قَالَ : وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ. أَيَّهَا النَّاسُ، احْتَجَرَ بِذَلِکَ مِنْ سَفْکِ دَمِهِ وَأَنْ يُّؤَدِّيَ الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُوْنَ. مُثِّلَ لِي أمَّتِي فِي الْبَطْنِ فَمَرَّبِي أَصْحَابُ الرَّايَاتِ فَاسْتَغْفَرْتُ لِعَلِيٍّ وَشِيْعَتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ہم سے مخاطب ہوئے پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! جو ہمارے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت یہودیوں کے ساتھ جمع کرے گا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اگرچہ وہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو مسلمان گمان ہی کیوں نہ کرتا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (ہاں) اگرچہ وہ روزہ اور نماز کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور خود کو مسلمان تصور کرتا ہو، اے لوگو! یہ لبادہ اوڑھ کر اس نے اپنے خون کو مباح ہونے سے بچایا اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں درآنحالیکہ وہ گھٹیا اور کمینے ہوں پس میری امت مجھے میری ماں کے پیٹ میں دکھائی گئی پس میرے پاس سے جھنڈوں والے گزرے تو میں نے حضرت علی اور شیعان علی کے لئے مغفرت طلب کی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 212، الرقم : 4002، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 3 / 171، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
44 / 44. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 44 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172
45 / 45. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 45 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 232، الرقم؛ 1614، الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955، و الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148.
46 / 46. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 46 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007.
47 / 47. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 47 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 85، الرقم : 2459.
48 / 48. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا : کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَي کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ نے کتاب اللہ (کی تعلیمات پر عمل کرنے پر) ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں. میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 48 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، واللالکائي في إعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.
49 / 49. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رضي الله عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ ﷺ نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اسے امام مسلم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 49 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي ﷺ، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102، والطبري في جامع البيان، 22 / 6، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 486، والمبارکفوري في تحفة الأحوزي، 9 / 49.
50 / 50. عَنْ سَعْدٍ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَ أَبْنَآءَ کُم)، (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُو عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘ اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 50 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169.13170.
51 / 51. عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لِعَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ رضی الله عنهم : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 51 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَي عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضي الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85.
52 / 52. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَ عِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر میرے بعد تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اھلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ اسے امام ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
الحديث رقم 52 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، و في المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، و في المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 66، الرقم : 194، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
53 / 53. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)، فِي بَيْتِ أمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَ حَسَنًا، وَ حُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ وَ عَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ. ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا، قَالَتْ أمُّ سَلَمَةَ : وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ : أَنْتِ عَلَي مَکَانِکِ وَ أَنْتِ عَلَي خَيْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم کو بلایا اور انہیں اپنی کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 53 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، و في کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799.
54 / 54. عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَي الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ. قَالَ أَبُو الصَّلْتِ : لَوْ قُرِءَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلَي مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان نام ہے دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان پر عمل کرنے کا۔ (راوی) ابو صلت ہروی فرماتے ہیں : اگر اس حدیث کی سند پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 54 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 25، الرقم : 65، والطبراني في العمجم الأوسط، 6 / 226، الرقم : 6254، و في المعجم الأوسط، 8 / 262، الرقم : 8580، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 47، الرقم : 16، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 742، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 8، الرقم : 65، وابن القيم في حاشية علي سنن أبي داود، 2 / 294.
55 / 55. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا، فَحَرَّمَ اللهُ ذُرِّيَّتَهَا عَلَي النَّارِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ وَأَبُونُعَيْمٍ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو آگ پر حرام کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 55 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و المناوي في فيض القدير، 2 / 462.
56 / 56. عَنِ الْمِسْوَرِ : أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ عليه السلام يَخْطُبُ ابْنَتَهُ فَقَالَ لَهُ : قُلْ لَهُ فَيَلْقَانِي فِي الْعَتَمَةِ، قَالَ : فَلَقِيَهُ فَحَمِدَ اللهَ الْمِسْوَرُ وَ أَثْنَي عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : أَمَا بَعْدُ وَ أَيْمِ اللهِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلاَ سَبَبٍ وَلاَ صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَسَبِکُمْ وَ سَبَبِکُمْ وَ صِهْرِکُمْ وَلَکِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا يَقْبِضُهَا وَ يَبْسُطُنِي مَا يَبْسُطُهَا، وَ إِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَ سَبَبِي وَ صِهْرِي وَ عِنْدَکَ إِبْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُکَ لَقَبَضَهَا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبید اللہ بن ابی رافع سے حضرت مسور رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن حسن علیہ السلام نے انہیں بلا بھیجا اپنی بیٹی کی منگنی کرنے کے لئے آپ نے ان سے کہا کہ آپ رات کے وقت مجھے ملیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس وہ ان سے ملے پھر حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر کہا : خدا کی قسم کوئی ایسا نسب اور نہ ہی سبب اور نہ ہی سسرالی رشتہ ایسا ہے جو مجھے آپ کے نسب، سبب اور سسرال سے بڑھ کر پیارا ہے مگر یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے اور بے شک انساب قیامت کے روز منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب، سبب اور سسرال کے اور تمہارے پاس حضرت فاطمہ کی بیٹی ہے (یعنی تمہاری بیٹی گویا ان کی بیٹی ہے) اور اگر میں اس سے شادی کرتا ہوں تو یہ چیز انہیں نا خوش کرے گی اور پھر وہ معذرت کرتے ہوئے چل پڑے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 56 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الرقم : 4747.
57 / 57. عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْجَحْفَةِ فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلَي بِأَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : فَإِنِّي سَائِلُکُمْ عَنِ اثْنَيْنِ : عَنِ الْقُرَآنِ وَعَنْ عِتْرَتِي. أَلاَ وَلاَ تَقَدَّمُوْا قُرَيْشًا فَتَضِلُّوْا وَلاَ تَخْلُفُوْا عَنْهَا فَتَهْلِکُوْا وَلاَ تُعَلِّمُوْهَا فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ قُوَّةَ رَجُلَيْنِ مِنْ غَيْرِهِمْ. لَوْلاَ أَنْ تَبْطُرَ قُرَيْشٌ لَأَخْبَرْتُهَا بِمَا لَهَا عِنْدَ اللهِ خِيَارُ قرَيْشٍ خِيَارُ النَّاِس. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ.
’’حضرت عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ جحفہ کے مقام پر ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : کیا میں تمہاری جانوں سے بڑھ کر تمہیں عزیز نہیں ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا : پس میں تم سے دو چیزوں کے بارے سوال کرنے والا ہوں. قرآن کے بارے اور اپنی عترت اہل بیت کے بارے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ قریش پر پیش قدمی نہ کرو کہ تم گمراہ ہو جاؤ اور نہ انہیں سکھاؤ کہ وہ تم سے زیادہ جانے والے ہیں اور اگر قریش فخر نہ کرتے تو میں ضرور ان کو اللہ کے ہاں ان کے مقام کے بارے بتاتا قریش میں بہترین لوگ تمام لوگوں سے بہترین ہیں۔‘‘ اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 57 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 64، و ابن الأثير في أسد الغابة، 3 / 147، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 195.
58 / 58. عَنْ عَلِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ بَسَطَ شَمْلَةً، فَجَلَسَ عَلَيْها هُوَ وَفَاطِمَةُ وَعَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، ثُمُّ أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَجَامِعِهِ فَعَقَدَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، ارْضَ عَنْهُمْ کَمَا أَنَا عَنْهُمْ رَاضٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ ﷺ نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم ﷺ (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا : اے اللہ! تو بھی ان سے راضی ہو جا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 58 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، و الهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.
59 / 59. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کَانَ آخِرَ مَا تَکَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَخْلِفُوْنِي فِي أَهْلِ بَيْتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آخری چیز جو حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ مجھے میرے اہل بیت میں تلاش کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 59 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 157، الرقم : 3860، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
60 / 60. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ مِنْ أمَّتِي أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ الْأَقْرَبُ مِنَ الْقُرَيْشِ، ثُمَّ الْأَنْصَارُ، ثُمَّ مَنْ آمَنَ بِي، وَاتَّبَعَنِي مِنَ الْيَمَنِ، ثُمَّ سَائِرُ الْعَرَبِ ثُمَّ الْأَعَاجِمُ وَ أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ أوْلُوْا الْفَضْلِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنی امت میں سے سب سے پہلے جس کے لئے میں شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں، پھر جو قریش میں سے میرے قریبی رشتہ دار ہیں، پھر انصار کی پھر ان کی جو یمن میں سے مجھ پر ایمان لائے اور میری اتباع کی، پھر تمام عرب کی، پھر عجم کی اور سب سے پہلے میں جن کی شفاعت کروں گا وہ اہل فضل ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 60 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 421، و الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 23، الرقم : 29، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 380.
61 / 61. عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَة : عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَمَا عَلاَمَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَي مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم (روزِ قیامت) اس وقت تک استقامت نہیں پاتے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے اس کے جسم کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو امتحان میں ڈالا اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو فنا کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے اس نے اسے کمایا؟ اور کس چیز میں اس نے اس کو خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے۔ پس عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ ﷺ نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر مارا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved